ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ انجام کار آخر زمانہ میں بدر ہو جائے خداتعالیٰ کے حکم سے۔
پس خداتعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اُس صدی میں بدر کی شکل اختیار کرے جو شمار کے رُو سے بدر کی طرح مشابہ ہو۔
پس انہی معنوں کی طرف اشارہ ہے خداتعالیٰ کے اس قول میں کہ وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ
’’ پس جو کچھ ہم نے ذکر کیا اُس کی تسلیم سے چارہ نہیں اور منکروں کے لئے بھاگنے کا رستہ بند ہے اور جس نے اس بات سے انکار کیا کہ نبی علیہ السلام کی بعثت چھٹے ہزار سے تعلق رکھتی ہے جیسا کہ پانچویں ہزار سے تعلق رکھتی تھی پس اُس نے حق کا اور نَصِّ قرآن کا انکار کیا۔ بلکہ حق یہ ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی روحانیت چھٹے ہزار کے آخر میں یعنی اِن دنوں میں بہ نسبت اُن سالوں کے اقویٰ اور اکمل اور اشد ہے بلکہ چودہویں رات کے چاند کی طرح ہے۔ اور اس لئے ہم تلوار اور لڑنے والے گروہ کے محتاج نہیں اور اسی لئے خدا تعالیٰ نے مسیح موعود کی بعثت کے لئے صدیوں کے شمار کو رسول کریم کی ہجرت کے بدر کی راتوں کے شمار کی مانند اختیار فرمایا تا وہ شمار اس مرتبہ پر جو ترقیات کے تمام مرتبوں سے کمال تام رکھتا ہے دلالت کرے اور وہ چار سو کا شمار خاتم النبیین صلی اللہ علیہ وسلم کی ہجرت سے بعد ہے تادین کے غلبہ کا وعدہ جو کتاب مبین میں پہلے ہو چکا تھا پورا ہو جائے۔ یعنی خدا تعالیٰ کا یہ قول کہ وَ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ وَّ اَنْتُمْ اَذِلَّةٌۚ پس بیناؤں کی طرح اس آیت میں نگاہ کر کیونکہ یہ آیت یقیناً دو بدر پر دلالت کرتی ہے۔ اوّل وہ بدر جو پہلوں کی نصرت کے لئے گزرا اور دوسرا وہ بدر جو پچھلوں کے لئے ایک نشان ہے۔ پس کوئی شک نہیں کہ یہ آیت ایک لطیف اشارہ اُس آئندہ زمانہ کی طرف کرتی ہے جو شمار کے رُو سے شبِ بدر کی مانند ہو۔ اور وہ چار سو برس ہزار برس کے بعد ہے اور یہی استعارہ کے طور پر خداتعالیٰ کے نزدیک شبِ بدر ہے اور ان سب کے باوجود ہم کو یہ بھی اعتراف ہے کہ اس آیت کے اور معنی بھی ہیں جو گزشتہ زمانہ سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ عالموں کو معلوم ہے۔ کیونکہ اس آیت کے دو رُخ ہیں اور نصرت دو نصرتیں اور بدر دو بدر ہیں۔ ایک بدر گذشتہ زمانہ سے تعلق رکھتا ہے اور دوسرا بدر آئندہ زمانہ سے۔ اس وقت جبکہ مسلمانوں کو ذلّت پہنچے جیساکہ اس زمانہ میں دیکھتے ہو اور اسلام ہلال کی طرح شروع ہوا اور مقدر تھا کہ انجام کار آخر زمانہ میں بدر ہو جائے خداتعالیٰ کے حکم سے۔ پس خداتعالیٰ کی حکمت نے چاہا کہ اسلام اُس صدی میں بدر کی شکل اختیار کرے جو شمار کے رُو سے بدر کی طرح مشابہ ہو۔ پس انہی معنوں کی طرف اشارہ ہے خداتعالیٰ کے اس قول میں کہ لَقَدْ نَصَرَكُمُ اللّٰهُ بِبَدْرٍ ۔پس اس امر میں باریک نظر سے غور کر اور غافلوں سے نہ ہو اور بے شک لَقَدْ نَصَرَکُمْ کا لفظ یہاں دوسری وجہ کے رو سے یَنْصُرُکُمْ کے معنوں میں آیا ہے۔ جیسا کہ عارفوں پر ظاہر ہے۔ الغرض خداتعالیٰ نے اسلام کے لئے دو ذلّت کے بعد دو عزتیں رکھی تھیں یہود کے برخلاف کہ ان کے لئے سزا کے طور پر دو عزتوں کے بعد دو ذلتیں مقرر کی تھیں جیسا کہ بنی اسرائیل کی سورۃ میں اُن کے فاسقوں اور ظالموں کا قصہ پڑھتے ہو۔ پس جس وقت مسلمانوں کو پہلی ذلّت مکہ میں پہنچی خدا نے اُن سے اپنے اس قول میں وعدہ فرمایا تھا أُذِنَ لِلَّذِينَ يُقَٰتَلُونَ آخرآیت تک[ان لوگوں کو جن کے خلاف قتال کیا جارہا ہے (قتال کی) اجازت دی جاتی ہے کیونکہ ان پر ظلم کئے گئے اور یقیناً اللہ ان کی مدد پر پوری قدرت رکھتا ہے۔ (الحج40:)] اور عَلٰی نَصْرِھِمْ کے قول سے اشارہ کیا کہ مومنوں کے ہاتھ سے کفار پر عذاب اترے گا۔ پس خدا تعالیٰ کا یہ وعدہ بدر کے دن ظاہر ہوا اور کافر مسلمانوں کی آبدار تلوار سے قتل کیے گئے۔ پھر دوسری ذلّت سے خبر دی اپنے اس قول سے حَتَّىٰٓ إِذَا فُتِحَتْ يَأْجُوجُ وَمَأْجُوجُ (یعنی ان کو ایسا غلبہ اور فتح ملے گی کہ کوئی اُن کے ساتھ مقابلہ نہ کر سکے گا)[ یہاں تک کہ جب یاجوج ماجوج کو کھولا جائے گا۔ (الانبیاء97:)] اور اس قول سے وَ هُمْ مِنْ کُلِّ حَدَبٍ یَنْسِلُون ۔ وَتَرَکۡنَا بَعۡضَہُمۡ یَوۡمَئِذٍ یَّمُوۡجُ فِیۡ بَعۡضٍ[ اور اس دن ہم ان میں سے بعض کو بعض پر چڑھائی کرنے دیں گے (الکہف100:) ][ حاشیہ ۔ اس آیت کے بعد کی متصلہ آیات میں اللہ تعالیٰ نے اشارہ فرمایا ہے کہ یاجوج ، ماجوج نصاریٰ ہی ہیں ۔ کیا تو ارشادِ الٰہی نہیں پاتا۔ أَفَحَسِبَ ٱلَّذِينَ كَفَرُوٓاْ أَن يَتَّخِذُواْ عِبَادِى مِن دُونِىٓ أَوْلِيَآءَ۔(پس کیا وہ لوگ جنہوں نے کفر کیا گمان کرتے ہیں کہ وہ میری بجائے میرے بندوں کو اپنے ولی بنا لیں گے۔ (الکہف 103:))اور اسی طرح قول الٰہی ہےقُلْ هَلْ نُنَبِّئُكُمْ بِالْأَخْسَرِينَ أَعْمَالًا * الَّذِينَ ضَلَّ سَعْيُهُمْ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا وَهُمْ يَحْسَبُونَ أَنَّهُمْ يُحْسِنُونَ صُنْعًا۔[کہہ دے کہ کیا ہم تمہیں ان کی خبر دیں جو اعمال کے لحاظ سے سب سے زیادہ گھاٹا کھانے والے ہیں۔ جن کی تمام تر کوششیں دنیوی زندگی کی طلب میں گم ہو گئیں اور وہ گمان کرتے ہیں کہ وہ صنعت کاری میں کمال دکھا رہے ہیں۔ ( الکہف: 104، 105)] اور اسی طرح فرمان الٰہی ہےقُلْ لَّوْ كَانَ الْبَحْرُ مِدَادًا لِّكَلِمٰتِ رَبِّیْ[کہہ دے کہ اگر سمندر میرے رب کے کلمات کے لئے روشنائی بن جائیں۔ (الکہف: 110)]اور بلاشبہ عیسائی وہ قوم ہیں جنہوں نے مسیح ؑکو اللہ کے علاوہ معبود بنا لیا اور دنیا کی طرف مائل ہو گئے اور صنعتوں کی ایجاد میں غیروں پر سبقت لے گئے اور انہوں نے کہا کہ مسیحؑ ہی کلمۃ اللہ ہے اور مخلوق ساری کی ساری اسی کلمہ سے ہے۔ پس یہ آیات ان کی تردید کرتی ہیں ۔]‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 164تا168۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)