قرآن کریم

قرآن مجید کی پاک تاثیرات (دوسری قسط)

(عبدالرب انور محمود خان ۔ امریکہ)

(سعید فطرت لوگوں کی توحید اور اسلام کی طرف رہنمائی کے دلچسپ و ایمان افروز واقعات)

4
سورۃ الفلق اور سورۃ الناس
حضرت طفیلؓ بن عمرالدوسی کا قبولِ اسلام

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرّحیْم o
(میں) اللہ کا نام لے کر جو بے حد کرم کرنے والا(اور) بار بار رحم کرنے والا ہے( پڑھتا ہوں)۔

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ o
(ہم ہر زمانے کے مسلمان سے کہتے ہیں کہ)تُو (دوسرے لوگوںسے) کہتا چلا جا کہ مَیں مخلوقات کے رب سے (اس کی) پناہ طلب کرتا ہوں۔

مِنْ شَرِّ مَا خَلَقَ o
اس کی ہر مخلوق کی( ظاہری و باطنی) برائی سے(بچنے کے لئے)۔

وَ مِنْ شَرِّ غَاسِقٍ اِذَا وَقَبَo
اور اندھیرا کرنے والے کی ہر شرارت سے (بچنے کے لئے بھی) جب وہ اندھیرا کرتاہے۔

وَمِنْ شَرِّ النَّفّٰثٰتِ فِی الْعُقَدِ o
اور تمام ایسے نفوس کی شرارت سے( بچنے کے لئے بھی) جو (باہمی تعلقات کی) گرہ میں (تعلق تڑوانے کی نیت سے) پھونکیںمارتے ہیں۔

وَمِنْ شَرِّ حَاسِدٍ اِذَا حَسَدَ o
اور ہر حاسد کی شرارت سے( بھی) جب وہ حسد پر تل جاتا ہے۔

(سورۃ الفلق)

بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرّحیْم o
(مَیں) اللہ کا نام لے کر جو بے حدکرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والاہے پڑھتا ہوں۔

قُلْ اَعُوْذُ بِرَبِّ النَّاسِ o
( ہم ہر زمانے کے مسلمان سے کہتے ہیں کہ) تُو (دوسرے لوگوں سے) کہتا چلا جا کہ میں تمام انسانوں کے رب سے (اس کی) پناہ طلب کرتا ہوں۔

مَلِکِ النَّاسِ o
(وہ ربّ )جو تما م انسانوں کا بادشاہ( بھی) ہے۔

اِلٰہِ النَّاسِ
اور تمام انسانوں کا معبود( بھی) ہے۔

مِنْ شَرِّالْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِo
(مَیں اس کی پناہ طلب کرتا ہوں) ہر وسوسہ ڈالنے والے کی شرارت سے ۔جو( ہر قسم کے وسوسے ڈال کر) پیچھے ہٹ جاتا ہے۔

الَّذِیْ یُوَسْوِسُ فِیْ صُدُوْرِ النَّاسِo
(اور)جو انسانوں کے دلوں میں شبہات پیدا کردیتا ہے۔

مِنَ الْجِنَّۃِ وَ النَّاسِ o
خواہ وہ(فتنہ پرداز) مخفی رہنے والی ہستیوں میں سے ہو، عام انسانوں میں سے ہو۔

حضرت طفیل بن عمرو رئیس قبیلہ دوس کا قبول اسلام

قرآن کریم میں نیک اور صحیح الفطرت لو گوں کے بارے میں یہ خصوصیت بیان کی کہ جب ان کے سامنے قرآنی آیات تلاوت کی جاتی ہیں تو ان کی آنکھوں سے آنسو رواں ہو جاتے ہیں۔چنانچہ فرمایا :

’’اور جب وہ سنتے ہیں جو اس نبی پر اتارا گیا تو تم دیکھوگے کہ ان کی آنکھوں سے آنسورواں ہیں کیونکہ انہوں نے حق کو پہچان لیا ‘‘-(5:84 )

یہ آیات بادشاہ نجاشی کے قبول اسلام کے وقت نازل ہوئی تھیں۔جب ان کے سامنے سورۃ مریم کی آیات کی تلاوت کی گئیں۔ذیل میں ہم ایک اور صحابی کے قبول اسلام کی داستان رقم کرتے ہیںجن کا تعلق ’ دوس ‘ قبیلہ سے تھا۔ اور وہ یمن کے رئیس تھے۔ ان کا نام طفیل بن عمرو تھا۔ اوروہ اپنی اعلیٰ شاعری کی وجہ سے بہت شہرت رکھتے تھے۔وہ اکثر مکہ آتے اور اپنا کلا م د یوار کعبہ پر لٹکا دیتے۔ایک دفعہ وہ اسی طرح مکہ آئے اور اپنے دوستوں اور رءو سائے مکّہ سے ملے۔رءوساء نے ان کے لئے ایک دعوت کا اہتمام کیا اور ان کویہ سمجھایا کہ کعبہ میں ایک شخص محمد نامی ہے جو ہم سب میں فساد ڈلوا رہا ہے اور ایک نیا مذہب لے کے آیا ہے۔طفیل کو نصیحت کی کہ ہر صورت میں محمد سے بچ کر رہنا۔اس کی گفتگو میں جادو ہے۔ اور ان کو روئی دی کہ اپنے کانوں میں ڈال کر کعبہ میں جائیں اور محمد کی بات نہ سنیں۔

چنانچہ جب طفیل بتوں پر چڑھاوے چڑھانے گئے تو انہوں نے محمد (ﷺ ) کو مقام ابراہیم کے پاس بیٹھے دیکھا۔ وہ اپنے کام میں مصروف ہو گئے اور محمد(صلی اللہ علیہ و سلم) کی آوازیں ان تک پہنچ رہی تھیں لیکن وہ پوری طرح سن نہ سکتے تھے۔ اسی اثناء میں ان کو خیال آیا کہ میں بچہ تو نہیں ہوں ایک قبیلے کا سردار ہوں ،سمجھ دار ہوں۔اگر میں نے ان کی بات سن لی توقبول کرنا یا نہ کرنا میرا اپنا فیصلہ ہوگا۔چنانچہ انہوں نے روئی کان سے نکال دی اور سیدھے محمد (ﷺ )کے پاس جا کران کی باتیں سننے کی ٹھانی۔ جب وہ قریب آئے تو دیکھا کہ محمد ﷺ اپنے گھر کی طرف روانہ ہوگئے۔ چنانچہ انہوں نے بھی محمد ﷺ کو مخاطب ہو کر پورا قصہ سنایا۔ اور درخواست کی کہ وہ جو کلام سنا رہے تھے وہ انہیں بھی سنائیں۔

آنحضرت ﷺنے سورۃ الفلق اور سورۃ الناس کی تلاوت کی۔یہی سورتیں نزول کے لحاظ سے تازہ ترین تھیں۔دوران تلاوت طفیل بن عمرو کا دل ہی بدل گیا۔اور انہوں نے فوری طور پر اسلام قبول کرلیا۔اور اس کے ساتھ ہی یہ درخواست بھی کی کہ رسول ﷺ ان کو کوئی نشان عطا کریں کیونکہ وہ اس کے ذریعے اپنے قبیلہ میں اسلام پھیلائیں گے کیو نکہ وہ داس قبیلہ کے رئیس ہیں۔ حضور نے ان کے لئے دعا کی اور وہ رخصت ہو گئے۔واپسی پر وہ پہاڑی کی چوٹی پر پہنچے تو انہوں نے دیکھا کہ ان کی پیشانی سے ایک نور آگے جا رہا ہے اور جس پر پڑتا ہے اس کو روشن کرد یتا ہے۔ انہوں نے یہ دعا کی کہ اے خدا! یہ نور کسی اور جگہ ظاہر ہو پیشانی سے معیوب لگے گا۔ تو انہوں نے دیکھا کہ ان کے ہاتھ کی چھڑی کے کونے پر وہ روشنی ظاہر ہونے لگی۔وہ اپنے مکان کے قریب پہنچے تو لوگوں نے اس روشنی کو مشاہدہ کیا۔حضرت طفیل نے اپنی والدہ ،اپنی اہلیہ اور گھر والوں کو تبلیغ کی اور وہ سب مسلمان ہو گئے۔

(محمدؐ کی سوانح عمری مئو لف ابن ہشام زیر عنوان تاریخ طفیل بن عمروصفحہ 175,176)

(http://www.alim.org/library/biography/companion/content/BIO/4/At-Tufayl%20ibn%20Amr%20ad-Dawsi%23tooltip)

5
سورۃ فاتحہ کا زبردست اثر۔
تین نفوس کا قبول اسلام

سورۃ فاتحہ کو قرآن کریم کا خلاصہ کہا جاتا ہے۔ موجودہ ترتیب کے لحاظ سے یہ قرآن کریم کی پہلی سورۃ ہے۔ اس کے متعدد نام ہیں اور مخصوص خو بیاں بیان کی جاتی ہیں :

1۔ یہ سورت دو دفعہ نازل ہوئی۔مکہ میں اور پھر مدینہ میں بھی نازل ہوئی۔

2۔ یہ سورت اسلام کے اہم رکن صلوٰۃ کی ہر رکعت میں پڑھی جاتی ہے گویا فرض نمازوں کی 32 رکعات میں اس کی تلاوت ہوتی ہے۔دنیا میں 1.7 بلین مسلمان بتائے جاتےہیں۔ چونکہ پنجگانہ نماز ہر مسلمان پر فرض ہے تو یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ انتہائی صورت میں 55 ملین دفعہ اس کی تلاوت 24 گھنٹے میں کی جا تی ہے۔اگر صرف ایک بلین مسلمان نما ز پڑھتے ہیں تو پھر بھی سورت فاتحہ کا ورد 32 بلین دفعہ ایک دن میں عمل میںآتا ہے۔

اس طور پر قرآن کریم کی صداقت کا جیتا جاگتا نشان ہے۔کیونکہ قرآن کا مطلب ہی ہے کہ سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتاب۔یہ صرف دعویٰ ہی نہیں رہتا بلکہ اس کی تصدیق ساری دنیا میں اظہر من الشمس ہے۔

3۔ یہ سورت سب سے آسان، سب سے مکمل اور سب سے زیادہ موثر دعا ہے جو خدا تعالیٰ سے کی جاتی ہے۔اور دنیا کا ہر شخص یہ دعا کر سکتا ہے خواہ وہ کسی مذہب سے تعلق رکھتا ہو۔ خدا کے رسول ﷺ نے فرمایا کہ
’’کوئی دعا مکمل نہیں ہوسکتی جس میں فاتحہ کی دعا شامل نہیں ‘‘۔

اُمُّ الکتاب

اے دوستو جو پڑھتے ہو اُمّ الکتاب کو

اب دیکھو میری آنکھ سے اس آفتاب کو

سوچو دعائے فاتحہ کو پڑھ کے بار بار

کرتی ہے یہ تمام حقیقت کو آ شکار

دیکھو خدا نے تم کو سکھائی دعا یہی

اس کے حبیب نے بھی سکھائی دعا یہی

پڑھتے ہو پنج وقت اسی کو نماز میں

جاتے ہو اس کی راہ سے در بے نیاز میں

اس کی قسم کہ جس کی نے یہ سورت اتاری ہے

اس پاک دل پہ جس کی وہ صورت پیاری ہے

یہ میرے رب سے میرے لئے اک گواہ ہے

یہ میرے صدق و دعویٰ پہ مہر الہٰ ہے

میرے مسیح ہونے پہ یہ اک دلیل ہے

یرے لئے یہ شاہد رب جلیل ہے

پھر میرے بعد اوروں کی ہے انتظار کیا

توبہ کرو کہ جینے کا ہے اعتبار کیا

( اعجاز المسیح ٹائٹل پیج صفحہ 2 مطبوعہ 20فروری 1901)

سورت فاتحہ کے روحانی ثمرات کا مطالعہ یہ بتا تا ہے کہ متعدد افراد نے اس پر غور کرکے اور اس کی گہرائی میں ڈوب کر جو سب سے بڑا پھل پایا وہ یہ ہے کہ ان کو اسلام قبول کرنے کی تو فیق ملی۔ ذیل میں ان چند نو مسلمین کے قبول اسلام کے واقعات بیان کئے جاتے ہیں تا کہ تمام طالبان حق اس سے مستفید ہوں۔
حضرت مرزا غلام احمد صاحب قادیانی مسیح و مہدی موعود نے سورۃ فاتحہ پر ایک شاندار نظم تحریر فرمائی۔ اس کے منتخب اشعار قارئین کے ازدیاد ایمان کے لئے قلم کئے جاتے ہیں۔

پہلی کہانی

ڈاکٹر عطا اللہ بوگڈان کو پینسکی Dr. Ataullah Bogdan Kopanski وہ خوش قسمت ہیں جو قرآن کریم کی سورۃ فاتحہ پڑھ کر فوری طور پر مسلمان ہو گئے۔اسلام لانے سے قبل یہ دہریہ خیالات کے تھے۔ساری زندگی کمیونسٹ ایجنڈا کے خلاف بر سر پیکار رہے۔پولینڈ کے وزیر اعظم نے ان کو کمیونسٹ پارٹی کا لیڈر بنایا تھا۔ڈائیریکٹر کی حیثیت سے انہوں نے بے شمار ممالک کے دورے کئے۔طالبعلمی کے دورمیں کمیونسٹ نظریہ کے خلاف آواز اٹھانے پر ان کو سیاسی طور پر نظر بند کر دیا گیا۔رہائی کے بعد انہوں نے سائی لیسا یونیورسٹی سے Ph.Dکی ڈگری Humanitiesمیں حاصل کی۔ رباط ، تہران وغیرہ کے مقامات پر اپنے دفتری کاموں کے سلسلے میں گئے۔

اسی دوران ان کو کسی نے قرآن کریم کا پولش زبان میں ترجمہ پیش کیا۔اس تحفے سے وہ بہت خوش ہوئے۔جونہی انہوں نے قرآن کریم کھولا تو ان کے سامنے صفحہ پر جو سورت مذکور تھی وہ سورۃ الفاتحہ تھی۔انہوں نے اس کا مطالعہ شروع کیا ،ان کے دل کی کیفیت میں تغیر آنے لگا اور ساتوں آیات کے اختتام پر انہوں نے اپنی قلبی کیفیت کا اظہار ان الفاظ میں کیا :

ابتدائی چند آیات نے میری سوچ یکسر بدل دی۔ یقین جانئے کہ سورت پڑھنے کےاختتام تک میں ذہنی طور پر مسلمان ہو گیا تھا۔میرا مطالعہ بہت وسیع ہے۔ میں نے کسی تحریر کا اسلوب ایسا نہیں دیکھا جیسا کہ قرآنی آیات کا ہے۔یہ بالکل انوکھا ہے جس کا کوئی ہم مثل نہیں اور نہ ہی اس کیفیت کو الفاظ مین بیان کیا جاسکتا ہے۔مجھے ایسا لگا کہ اللہ تعالیٰ براہ راست مجھ سے مخاطب ہے ،اپنی تمام برکات اور عظمت کے ساتھ ہم کلام ہے۔یہ شدید احساس تھا کہ جیسے قرآن کریم ابھی مجھ پر نازل ہو رہا ہے‘‘۔

چنانچہ اس کیفیت کے بعد وہ خود مسجد جاکر کلمہ شہادت پڑھ کر مسلمان ہو گئے۔ آج کل وہ ملائشیامیں یو نیورسٹی میں تاریخ کے پروفیسرہیں اور اپنی تحریرات سے خدمت اسلام سر انجام دے رہے ہیں۔

(https://www.facebook.com/arrazzaqglobalsolution/videos/376193449388807/)

دوسری کہانی

اللہ تعالیٰ جب چاہتا ہے اور جسے چاہتا ہے صداقت عطا فرماتا ہے۔ اس کے ثبوت میں یہ کہانی ضرب المثل کی طرح ہے کہ 65 سال کی ایک خاتون صداقت کی تلاش میں تھیں۔بچپن میں نہ صرف وہ ایک دہریہ فیملی میں پیدا ہوئیں بلکہ اس کے گھرانے میں خدا کا ذکر بھی ممنوع تھا اور جو تذکرہ اسکول میں ہوتا اس کا اعادہ بھی گھر میں سختی سے ممنوع تھا۔ اس رشین خاتون کی قبولیت اسلام کی داستان اسی کی زبانی پیش ہے۔ اس کا ویڈیو لنک بھی پیش ہے اور قارئین اس کی زبانی یہ کہانی سن سکتے ہیں۔

ان کا اصل نام Margaret Templeton ہے اور اسلامی نام مریم نور رکھا گیا۔مریم نور لکھتی ہیں کہ:
’’ جہاں تک مجھے یاد ہے حق کی تلاش میں رہی ہوں۔ یہ سوالات کہ میں اس دنیا میں کیوں آئی ہوں؟میرا مقصد پیدائش کیا ہے ؟ اور میری ذمہ داریاں کیا ہیں ؟ ایسے سوالا ت میر ی زندگی کا حصہ بن گئے تھے۔میں کسی مذہب کی متلاشی نہیں تھی۔ بلکہ صرف اپنے پیدا کرنے والے کو جاننا چاہتی تھی۔ایسی چیز جو میرے دل کو تسلی دے۔میں اس جستجو میں ہر گرجے میں گئی اور مجھے کوئی کامیابی نہیں ہوئی۔پھر مجھے اسلام میں دلچسپی پیداہوئی تو عراق کی جنگ چھڑ گئی۔ اور مسلمانوں کے خلاف اخباروں نے کوئی کسر اٹھانہ رکھی۔
میں ہر ایک سے خندہ پیشانی سے ملتی اور ان کا حال احوال پوچھتی۔ میرے ایک دوست نے مجھے ایک عالم کا پتہ دیا جس کا نام نورالدین تھا ،میں اس کے گھر گئی۔اس نے میرے سامنے قرآن کریم کھولا اور اس کی پہلی سورت پر نظر ڈالی۔ میں نے سورۃ فاتحہ کا مطالعہ کیا اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے مجھ پر بجلی گر گئی ہو۔میری آنکھوں سے آنسو ایسے رواں تھے جیسے نیاگرا فال کا منظر پیش کر رہے ہوں۔میری حرکت قلب بہت تیز ہو گئی اور میرا بدن کا نپنے لگا۔مجھے یہ لگا کہ شیطان کا مجھ پر اثر ہو گیا ہے۔ میں نے عا لم کو فون کیا اور اپنی کیفیت بتائی۔ اس تجربے کے دوران یہ احساس ہوا کہ میںاپنے قلب کو دیکھ رہی ہوں۔عالم نے مجھے بلایا اور جب میں وہاں گئی اور اس کو تفصیل بتائی تو اس نے کہا :’’ مارگریٹ تم مسلمان ہوجائوگی ‘‘ ۔
میں نے جواباً کہا ’’ میں مسلمان ہونے کے لئے یہ کتاب نہیں پڑھ رہی‘‘۔

اس پر اس عالم نے کہا کہ تمہاری زندگی میں ایک انقلاب آگیا ہے اور یہ تجربہ اس کی نشان دہی کر رہا ہے۔ 11فروری 2003ء کو اس عالم نے مجھ سے شہادت دہرائی اور انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ بتا یا اور یہ کہا کہ تم اب مسلمان ہو اور تمہارا اسلامی نام ’ مریم نور ‘ ہے۔

اس کے بعد میرے عیسائی دوست مجھ سے چھوٹ گئے۔ میری بیٹی نے مجھے چھوڑدیالیکن میرے بیٹے نے میرا ساتھ دیا جو یہ سمجھتا تھا کہ میں نے سچ کو پا لیا ہے۔ میں نے اس عالم سے دعا کی درخواست کی۔ میں اپنے علاقے میں واحد مسلمان ہوں مگر بہت خوش ہوں اور اسلام کا گہرائی سے مطالعہ کر رہی ہوں۔

(http://www.usislam.org/converts/maryamnoor.htm )

تیسری کہانی

یہ کہانی ایک نوجوان رابرٹ سلام کی ہے جس نے 1998ء میں امریکن Marine میں شمولیت اختیار کی، اس نیت اور عزم کے ساتھ کہ وہ ملک کی خدمت کر ے گا۔ 11ستمبر 2001ء کو امریکہ کے دو مناروں کے مسمار ہونے کے بعد وہ نئے احکامات کا منتظر تھا۔اسی اثناء میں خیالات تیزی سے اس کے دماغ میں آرہے تھے کہ ’’اگر یہ لوگ انتہا پسند ہیں اور اپنی زندگی دائو پر لگا سکتے ہیں تو وہ کیوں اپنے ملک کی حفاظت کے لئے قربانی پیش نہیں کرسکتا ؟۔ 10 ستمبر کو میں نے یو نیفارم پہنا تو وہ صرف نوکری کی ضرورت تھی لیکن 11ستمبر کو میں نے اس یونیفارم کی قسم کھائی کہ میں اس مقصد کو پورا کروں گا۔

10 بجے صبح میں نے اپنی والدہ کو فون کیا جو فون پر رو رہی تھیں۔ میں صرف اتنا کہہ سکا کہ ماںمجھے تجھ سے پیار ہے ! سب عزیزوں سے پیار ہے لیکن اب وہ گھڑی آگئی ہے جو مجھے کرنا ہے جس کے لئے میں نے Marine میں شمولیت اختیار کی ہے۔ شاید یہ میری آخری ملاقات ہو۔ اس کے بعد میں مطمئن ہو گیا۔ یہ سب سے مشکل کام تھا۔ اس کے بعد چونکہ ہم stand byپر تھے، انتظار کرتے رہے۔ مزید انتظار کیا کہ یہاں تک 12ستمبر آگئی۔ جوں جوں وقت گزرا میں سوچنے لگا کہ میں Marine ہوں اور اپنے ملک کے لئے جان دینے کو تیار ہوں۔ اس کے بعد میرے دل میں یہ سوال پیدا ہو اکہ یہ لوگ کون ہیں ؟

انہوں نے یہ بہیمانہ عمل کیسے کیا ؟

کیا ان کے عقائد اس قدر احمقانہ ہیں کہ وہ خود اپنی زندگیوں کو ختم کرنے کے لئے تیار ہیں ؟

یہ تمام سوالات میرے ذہن میں بار بار آنے لگے۔ ‘‘

وہ مزید لکھتے ہیں:

’’ میں نے فیصلہ کیا کہ مزید تحقیق کی جائے۔ مجھے اپنے دشمن کے بارے میں مکمل معلومات ہونی چاہئیں تاکہ میں صحیح طور پر مقابلہ کر سکوں۔ بحیثیت ایک مخلص عیسائی اور چرچ کے اہم رکن کے میں اس ’خونی ‘ کتاب کو دیکھنا چاہتا تھا اور اپنے دوستوں اور عزیزوں کو اس سے آگاہ کرنا چاہتا تھا۔ میری کسی مسلمان سے کبھی ملاقات نہیں ہوئی۔ میں صرف گرجے سے واقف تھا۔ لہٰذا میں نے ارادہ کیا کہ میںاس کتاب یعنی ’قرآن‘ کو بذات خود دیکھنا چاہتا ہوں۔ ‘‘

چند دن بعد انہوں نے ایک کتاب گھر سے قرآن کریم کا ایک نسخہ خریدا اور انتہائی حقارت سے اور بد سلوکی سے پہلی سورت کو دیکھا۔

اس کی ابتدا اس جملے سے تھی کہ خدا کے نام سے پڑھتا ہوں جو بے انتہا کرم کرنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔ وہ بالکل حیران رہ گئے کہ یہ کیا لکھا ہے۔ میں نے تو یہ تصور کیاتھا کہ عیسائیوں کو قتل کرو اور کسی اور خدا کے نام پر۔ انہوںنے اپنے طور پر پوچھا کہ وہ سب ظلم و جبر اور امریکہ کے خلاف نفرت کہاں ہے ؟ یہ تو میرے طریق کی دعا تھی۔ چنانچہ انہوں نے پڑھنا جاری رکھا۔ کافی حصہ قرآن کریم کا پڑھ کر وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ جو کچھ کہا گیا ہے یا قرآن کے بارے میں پھیلایا گیا ہے وہ سب جھوٹ ہے اور یہ امور قرآن کی تعلیمات کا حصہ ہیں :

1۔ اللہ تعالیٰ ایک ہے اور اس نے متعدد رسول بھیجے۔ حضرت عیسیٰ بھی ایک رسول تھے۔

2۔ جو کچھ جہاد کے ضمن میں پھیلایا گیا ہے وہ تاریخی ہے اور اس میں بے شمار قوانین امن بیان ہیں۔

3۔ قرآن کریم کا بیشتر حصہ صبر ،تحمل اور دعا کی تلقین کرتا ہے اور عدل و انصاف کا متقاضی ہے۔

4۔ سب سے اہم یہ کہ قرآن کا بنانے والا مجھ سے براہ راست مخاطب ہے اور تیسرے اور چوتھے ذریعے سے نہیں آیا۔
5۔ میرے ہر سوال کا جو ذہن میں آتا ہے جواب مہیا ہے بلکہ قرآن خود پو چھتا ہے۔

اس بیان کو جاری رکھتے ہوئے وہ مزید تحریر کرتے ہیں :

’’کتاب نے مجھے خود مجبور کیا کہ میں سوچوں اور مجھے چیلنج کیا کہ میں خود سمجھوں اور غور کروں۔یہ کتاب منطقی ہے اور گفتگو کرنے کی تلقین کرتی ہے۔اس کتاب کے ذریعے میری محبت خدا جاگ اٹھی۔ہر وہ کتاب جو ازخود یہ اثر پیدا کرتی ہے اور اسے کسی بیرونی قوت کی ضرورت نہیں ہو وہ صرف کلام الٰہی ہو سکتا ہے۔‘‘

اس کے بعد رابرٹ سلام نے اپنے دادا سے ملاقات کی اور انہیں سارا قصہ سنایا۔ انہوں نے بتایا کہ یہودی ،عیسائی اور مسلمان سب ابراہیم کی اولاد ہیں ،ان سب کا ماخذ ایک ہے اور سب کا مقصد ایک ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ابراہیم کی اولاد میں آپس میں اختلاف ہوا ہو گا مگر سب ایک ہی باپ کی اولاد ہیں۔انہوں نے مزید تسلی دلائی کہ اسلام حضرت ابراہیم کے نقش قدم پر ہے۔

چنانچہ اس کے بعد رابرٹ نے اسلام قبول کر لیااور Marines میں کام کرتے رہے۔

انہوں نے لکھا کہ تین سال بعد حالات اسی طرح ہیں۔ اسلام سے نفرت اسی طرح پائی جاتی ہے۔ اگر ہم بحیثیت امریکن اپنی تمام باتوں پر غور کریں تو یہ نفرت کے بادل محبت میں بدل سکتے ہیں۔آخر میں انہوں نے قرآن کریم کی آیات 14:49 تحریر کی :

اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہ اَتْقٰکُمْ

(http://www.arabnews.com/911-%E2%80%94-day-when-i-became-muslim)


6
سورۃ البقرۃ آیت165
طہٰ یاسین کے قبولِ اسلام کی کہانی

اِنَّ فِیْ خَلْقِ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ اخْتِلَافِ الَّیْلِ وَالنَّھَارِ وَالْفُلْکِ الَّتِیْ تَجْرِیْ فِیْ الْبَحْرِ بِمَا یَنْفَعُ النَّاسَ وَمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ مِنَ السَّمَآئِ مِنْ مَّآئٍ فَاَحْیَابِہِ الْاَرْضَ بَعْدَ مَوْتِھَا وَبَثَّ فِیْھَا مِنْ کُلِّ دَآبَّۃٍ وَّ تَصْرِیْفِ الرِّیٰح وَ السَّحَابِ الْمُسَخَّرِ بَیْنَ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ لَاٰیٰتٍ لِّقَوْمٍ یَّعْقِلُوْنo

ترجمہ: یقیناً آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات اور دن کے ادلنے بدلنے میں اور ان کشتیوں میں جو سمندر میں اُس (سامان) کے ساتھ چلتی ہیں جو لوگوں کو فائدہ پہنچاتا ہے اور اس پانی میں جو اللہ نے آسمان سے اتارا پھر اس کے ذریعے سے زمین کو اس کے مردہ ہونے کے بعد زندہ کر دیا اور اس میں ہر قسم کے چلنے پھرنے والے جاندار پھیلائے اور اسی طرح ہواؤں کے رخ بدل بدل کر چلانے میں اور بادلوں میں جو آسمان اور زمین کے درمیان مسخر ہیں،عقل کرنے والی قوم کے لئے نشانات ہیں۔

پولینڈ کے ایک نوجوان طٰہٰ یاسین ایک درسی ادارے میں ایک پروفیسر کا لیکچر سن رہے تھے جو قرآن کریم کے بارے میں تھا۔اس لیکچر سے متاثر ہو کر وہ گھر آئے اور قرآن کا نسخہ کھول کر اس کا مطالعہ کرنے لگے۔ اس دوران ان کے گھرکی بجلی چلی گئی۔ انہوں نے ایک موم بتی جلائی اور مطالعہ جاری رکھنے کی کوشش کی۔ اچانک وہ موم بتی گر گئی اور مکمل اندھیراہوگیا۔ بلکہ ان کے نسخہ پر بھی موم گر گئی۔تھوڑی دیر بعد انہوں نے دوبارہ کتاب کھولی تو مندرجہ بالا آیت ان کے سامنے تھی۔وہ اس آیت کے مضمون میں غرق ہوگئے اور انہیں ساری کائنات کے عالمگیر پلان کا علم ہوا۔ بالخصوص آخری حصہ کہ عقل کرنے والی قوم کے لئے نشانات ہیں۔ اس آیت سے متاثر ہو کر انہوں نے مزید مطالعہ کی ٹھانی اور مصر چلے گئے اور اپنے ایک دوست حاتم کے ساتھ گفتگو کی اور بالآخر مسلمان ہو گئے۔

Youtube.com میں ان کے نام کی search سے یہ وڈیو ملاحظہ کی جا سکتی ہے۔

(https:// www.youtube.com/watch?v=JI8KFF81NzU&t=82s)

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button