خطبہ جمعہ سیّدنا امیر المومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزفرمودہ 18؍ مئی 2018ء
ہم احمدیوں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ روزے کی حقیقت کو سمجھیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو رمضان کا مقصد ہے۔ یعنی تقویٰ پیدا کرنا اور تقویٰ میں ترقی کرنا۔
رمضان میں جب ہم تقویٰ کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں یا کوشش کرنے و الے ہوں گے تو اپنی عبادتوں کی طرف توجہ ہو گی۔ اگر ہم تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے روزے رکھیں گے تو برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔
حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ و السلام کے ارشادات کے حوالہ سے تقویٰ کی اہمیت، اس کے تقاضوں اور اس کی برکات کا بصیرت افروز تذکرہ
پاکستان میں جماعت کے بہتر حالات کے لئے، دیگر مسلمانوں کے لئے اور عمومی طور پر تمام دنیا کے لئے دعاؤں کی تحریک۔
اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر رحم فرمائے اور ان کی قیادت اور لیڈرشپ کو اور علماء کو عقل اور سمجھ عطا فرمائےکہ زمانے کے امام کو پہچاننے والے ہوں۔
خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 18؍ مئی 2018ء بمطابق18؍ہجرت 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ (البقرۃ184:)
اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم پر روزے اسی طرح فرض کر دیئے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہمیں ایک اور رمضان کے مہینہ سے گزرنے کی توفیق مل رہی ہے جو کل سے شروع ہو چکا ہے۔ اس مہینہ میں مسلمانوں کی بڑی تعداد روزہ کے ساتھ مسجد میں نمازوں اور تراویح کے لئے بھی آتی ہے۔ اس طرف توجہ پیدا ہوتی ہے۔ ہماری مساجد میں بھی ان دنوں میں عام دنوں کی نسبت زیادہ آبادی ہوتی ہے۔ یہ آیت جو میں نے تلاوت کی ہے آجکل تو ایم ٹی اے پر بھی کافی تلاوت کی جاتی ہے یہ یاد دلانے کے لئے کہ یہ روزے جو فرض کئے گئے ہیں ان کا مقصد تقویٰ ہے۔ پہلے مذاہب میں بھی جوروزے فرض کئے گئے تھے تو اس کا مقصد بھی تقویٰ تھا۔ آج ان مذاہب کے ماننے والوں کے پاس نہ ان کی تعلیم اصل حالت میں ہے اور نہ اس پر عمل ہے اور نہ ہی پھر ان میں تقویٰ ہے۔ لیکن اسلام ایک دائمی مذہب ہے۔ تاقیامت رہنے والا مذہب ہے ۔اس کی تعلیم دائمی ہے اور قرآن کریم دنیا کے ہر کونے میں آج اپنی اصل حالت میں محفوظ ہے اور تقویٰ پر چلنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔ ان کے لئے ایک رہنمائی ہے ۔ اس کی تعلیم پر عمل کرنے والے ہمیشہ تقویٰ پر چلنے والے ہوں گے اور پھر آخری زمانے میں ہماری اصلاح اور قرآن کریم کی اشاعت اور اس پر عمل کرنے کی طرف توجہ دلانے اور راستے دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو بھیجا اور ہمیں آپ کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ پس ہم احمدیوں کی یہ بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ روزے کی حقیقت کو سمجھیں اور اس مقصد کو حاصل کرنے کی کوشش کریں جو رمضان کا مقصد ہے۔ یعنی تقویٰ پیدا کرنا اور تقویٰ میں ترقی کرنا۔
اس آیت سے اگلی آیتوں میں روزوں سے متعلق احکامات کی جزئیات بھی بیان کی گئی ہیں، تفصیلات بیان کی گئی ہیں۔ قرآن کریم پڑھنے اور اللہ تعالیٰ کے احکامات کو ماننے اور دعاؤں کی طرف توجہ دینے کے متعلق بھی بیان ہوا ہے۔ لیکن ان سب کا خلاصہ اس آیت کے اس ایک لفظ میں بیان کر دیا کہ مقصد تقویٰ ہے۔ پس اس مہینہ میں اللہ تعالیٰ کے احکامات پر عمل اور اس کی عبادت کی طرف توجہ دے کر خاص طور پر کوشش کرو تاکہ ان پر عمل ہمیشہ کے لئے تمہیں اپنی زندگیوں کا حصہ بنانے میں آسانی پیدا کرنے والا بن سکے۔
پس رمضان میں جب ہم تقویٰ کے حصول کے لئے کوشش کرتے ہیں یا کوشش کرنے و الے ہوں گے تو اپنی عبادتوں کی طرف توجہ ہو گی۔ اگر ہم تقویٰ پر چلنے کی کوشش کرتے ہوئے روزے رکھیں گے تو برائیوں سے بچنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے احکامات تلاش کر کے ان پر عمل کرنے کی طرف توجہ پیدا ہو گی۔ اگر ہم برائیوں سے نہیں بچ رہے چاہے وہ برائیاں ہماری ذات پر اثر کرنے والی ہیں یا دوسروں کو تکلیف میں ڈالنے والی۔ ان کو چھوڑنے سے ہی روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اگر ان کو نہیں چھوڑ رہے تو روزے کا مقصد پورا نہیں ہوتا اور یہی تقویٰ ہے۔ اگر روزے رکھ کر بھی ہم میں تکبر ہے، اپنے کاموں اور اپنی باتوں پر بے جا فخر ہے، خود پسندی کی عادت ہے ،لوگوں سے تعریف کروانے کی خواہش ہے، اپنے ماتحتوں سے خوشامد کروانے کو ہم پسند کرتے ہیں جس نے تعریف کر دی اس پر بڑا خوش ہو گئے، یا اس کی خواہش رکھتے ہیں تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں لڑائی جھگڑا، جھوٹ فساد سے اگر ہم بچ نہیں رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے۔ روزوں میں عبادتوں اور دعاؤں اور نیک کاموں میں اگر وقت نہیں گزار رہے تو یہ تقویٰ نہیں ہے اور روزے کا مقصد پورا نہیں کر رہے۔ پس رمضان میں برائیوں کو چھوڑنا اور نیکیوں کو اختیار کرنا، یہی ہے جس سے روزے کا مقصد پورا ہوتا ہے۔ اور جب انسان اس میں ثابت قدم رہنے کی کوشش کرے تو پھر حقیقت میں روزے کے مقصد کو پانے والا ہو سکتا ہے۔ ورنہ اگر یہ مقصد حاصل نہیں کر رہے تو پھر بھوکا رہنا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے تو فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کو تمہارے بھوکا رہنے سے کوئی غرض نہیں ہے۔
(صحیح البخاری کتاب الصوم باب من لم یدع قول الزور … الخ حدیث 1903)
اگر تم ان مقاصد کو حاصل نہیں کر رہے۔ بعض لوگ روزے کے نام پر دھوکہ بھی دیتے ہیںا ور بھوکے بھی نہیں رہتے۔بظاہر یہ اظہار کرتے ہیں کہ ہم نے روزہ رکھا ہوا ہے لیکن روزہ نہیں ہوتا۔ ایسے لوگ ہیں جن کو اپنے کھانے پینے پر بھی ضبط نہیں ہے۔ جو چند گھنٹے اللہ تعالیٰ کی خاطر اپنے آپ کو کھانے پینے سے نہیں روک سکتے۔ جب ایسے لوگ ہیں تو باقی معاملات میں اپنے نفس پر کس طرح ضبط کر سکتے ہیں۔ کل ہی کی بات ہے یہاں مسلمانوں کے روزے کے بارے میں اخبار میں ایک جائزہ شائع ہوا اور اس نے یہ نتیجہ نکالا ہے کہ اکثر یہاں کے جو نوجوان ہیں وہ روزہ صرف دکھاوے کے لئے رکھتے ہیں اور روزے کی غرض کا انہیں کچھ پتہ ہی نہیں ہے۔
ایک عیسائی نے یا لامذہب نےبہرحال غیر مسلم نےایک نوجوان کا انٹرویو لیا تو اس نوجوان نے کہا کہ ہاں میں نے صبح سحری کھا کر اپنے گھر والوں کے ساتھ روزہ رکھا اور بڑی باقاعدگی سے ہمارے گھر میں سحری اور افطاری کا اہتمام بھی ہوتا ہے۔ میری ماں چونسٹھ سال کی ہے۔ شوگر کی مریض بھی ہے اور شاید بڑے اہتمام سے روزے بھی رکھتی ہے اس کے باوجود ہمارے لئے افطاری کے لئے قسم قسم کی چیزیں تیار کرتی ہے اور اب ہم جاکے افطاری کھائیں گے ۔لیکن وہ نوجوان کہنے لگا کہ حقیقت یہ ہے کہ جو معاشرتی دباؤ ہے۔ معاشرے کا جو دباؤ ہے یا گھر والوں کو دکھانے کے لئے میں ظاہر تو یہ کرتا ہوں کہ میرا روزہ ہے اور میں نے آج صبح سحری بھی کھائی تھی مگر آج دوپہر کو ابھی میں فِش اینڈ چِپس کھا کر آیا ہوں اور کہنے لگا کہ یہاں انگلستان میں میری طرح کے ہزاروں نوجوان ہیں جو اس قسم کے روزے رکھتے ہیں۔
تو یہ تو بعض لوگوں کے روزے کی حقیقت ہے اور پھر بعض اگر پورا دن فاقہ بھی کر لیتے ہیں تو نمازوں اور عبادت کی طرف وہ توجہ نہیں ہوتی جو ہونی چاہئے۔ ایک آدھ نماز پڑھ لی اور بس۔ اللہ تعالیٰ کے اوامر اور نواہی کی طرف کوئی توجہ نہیں۔ ایسے روزے پھر اس مقصد کو پورا نہیں کر رہے جو اللہ تعالیٰ نے بتایا کہ تم تقویٰ اختیار کرو۔
پس ہم احمدیوں کی بہت بڑی ذمہ داری ہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام کو ماننے کے بعد اپنے روزوں کے اس طرح حق ادا کرنے کی کوشش کریں جس طرح ان کا حق ادا کرنے کا اللہ تعالیٰ کا حکم ہے۔ یہ سمجھنے کی کوشش کریں کہ تقویٰ کیا ہے اور ہم نے اسے کس طرح اختیار کرنا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوۃ والسلام نے مختلف مواقع پر تقویٰ کے بارے میں ہمیں بتایا کہ متقی کون ہے؟ حقیقی راحت اور لذت اصل میں تقویٰ ہی سے پیدا ہوتی ہے نہ کہ دنیا کی لذتوں میں راحت ہے۔ کس طرح ہمیں نیکیاں بجا لانی چاہئیں۔ انسان کو حقیقی مومن بننے کے لئے اپنا ہر کام خدا تعالیٰ کی مرضی اور اس کی رضا حاصل کرنے کے لئے کرنا چاہئے اور یہی ایک بات ہے جو مومن اور کافر میں فرق ڈالتی ہے۔ اور یہ بھی آپ نے ہمیں بتایا کہ اللہ تعالیٰ کی معرفت میں انسان ترقی کرے۔ ہر روز جو آئے ،ہر آنے والا دن ہمیں اللہ تعالیٰ کی معرفت میں آگے لے جانے والا ہو، نہ کہ وہیں کھڑے رہیںیا ان لوگوں کی طرح ہوں جو صرف معاشرتی دباؤ کی وجہ سے دکھانے کے لئے روزے رکھتے ہیںنہ کہ تقویٰ میں بڑھنے کے لئے جیسا کہ مَیں نےابھی مثال دی۔
بہرحال اس وقت میں تقویٰ سے متعلق حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مختلف اقتباسات پیش کروں گا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام ہمیں خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لئے تقویٰ پر چلنے کی نصیحت کرتے ہوئے اپنے ایک الہام کا ذکر کرتے ہوئے بیان فرماتے ہیں اور یہ بھی کہ تقویٰ تمام پرانے صحف مقدسہ کا خلاصہ ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ:
’’کل (یعنی 22؍جون 1899ء )‘‘جلسہ کا ذکر فرما رہے ہیں کہ ’’بہت دفعہ خدا ٰ کی طرف سے الہام ہوا کہ تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہو گا۔‘‘ فرمایا ’’ اس سے میرے دل میں بڑا درد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقویٰ و طہارت اختیار کر لے۔‘‘ پھر فرمایا کہ ’’میں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضُعف کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔‘‘ فرمایا’’ جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی نہ بن جائے خدا تعالیٰ کی نصرت اس کے شامل حال نہیں ہو سکتی۔ ‘‘فرمایا’’ تقویٰ خلاصہ ہے تمام صُحفِ مقدّسہ اور توریت و انجیل کی تعلیمات کا۔ قرآن کریم نے ایک ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار کر دیا ہے‘‘۔ (یعنی تقویٰ کے لفظ میں۔) فرمایا’’ میں اس فکر میں بھی ہوں کہ اپنی جماعت میں سے سچے متقیوں، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں اور منقطعین الی اللہ کو الگ کروں اور بعض دینی کام انہیں سپرد کروں اور پھر میں دنیا کے ہمّ و غم میں مبتلا رہنے والوں اور رات دن مردار دنیا ہی کی طلب میں جان کھپانے والوں کی کچھ بھی پرواہ نہ کروں گا۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 303۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس یہ درد ہے آپ کا کہ میری جماعت کا ہر فرد ایسا ہو جو تقویٰ پر چلنے والا ہو ۔نہ کہ صرف دنیا کا غم ہی ہر وقت اسے کھائے جائے۔
پھر اس بات کی طرف توجہ دلاتے ہوئے کہ تقویٰ پر چلنا ہی اصل میں شریعت کا خلاصہ ہے اور اگر دعاؤں کی قبولیت چاہتے ہو تو تقویٰ پر چلو۔ آپ فرماتے ہیں
’’چاہئے کہ وہ تقویٰ کی راہ اختیار کریں کیونکہ تقویٰ ہی ایک ایسی چیز ہے جس کو شریعت کا خلاصہ کہہ سکتے ہیں۔‘‘ (احمدیوں کو مخاطب ہو کر فرما رہے ہیں) ’’اور اگر شریعت کو مختصر طور پر بیان کرنا چاہیں تو مغزِ شریعت تقویٰ ہی ہو سکتا ہے۔ تقویٰ کے مدارج اور مراتب بہت ہیں ۔لیکن اگر طالبِ صادق ہو کر ابتدائی مراتب اور مراحل کو استقلال اور خلوص سے طے کرے تو وہ اس راستی اور طلب صدق کی وجہ سے اعلیٰ مدارج کو پالیتا ہے۔‘‘ پس مستقل مزاجی سے ہر نیکی چاہے وہ چھوٹی نیکی ہے یا بڑی نیکی ہے اس کی طرف توجہ دینا ضروری ہے۔
آپ فرماتے ہیں کہ:’’اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: اِنَّمَا یَتَقَبَّلُ اللہُ مِنَ الْمُتَّقِیْنَ (المائدۃ28:) گویا اللہ تعالیٰ متقیوں کی دعاؤں کو قبول فرماتا ہے۔ یہ گویا اس کا وعدہ ہے اور اس کے وعدوں میں تخلّف نہیں ہوتا‘‘۔ (اپنا وعدہ خلافی نہیں کرتا) ’’جیسا کہ فرمایا ہے اِنَّ اللہَ لَا یُخْلِفُ الْمِیْعَاد (آل عمران10:)۔ پس جس حال میں تقویٰ کی شرط قبولیت دعا کے لئے ایک غیر ُمنفک شرط ہے ‘‘۔ (ایک بنیادی شرط ہے جسے الگ نہیں کیا جا سکتا۔ تقویٰ بہرحال قبولیت دعا کے لئے ضروری ہے) فرمایا’’ تو ایک انسان غافل اور بے راہ ہو کر اگر قبولیت دعا چاہے تو کیا وہ احمق اور نادان نہیں ہے۔ لہٰذا ہماری جماعت کو لازم ہے کہ جہاں تک ممکن ہو ہر ایک ان میں سے تقویٰ کی راہوں پر قدم مارے تا کہ قبولیت دعا کا سرور اور حظّ حاصل کرے اور زیادتی ایمان کا حصہ لے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ108-109 ۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پس رمضان سے فائدہ اٹھانے کے لئے یہ بنیادی نسخہ ہے کہ ہمارے روزے اور ہمارا ہر عمل تقویٰ کے حصول کے لئے ہو۔ بہت سارے لوگ کہتے ہیں دعائیں قبول نہیں ہوتیں۔ ہم نے بڑی دعائیں کیں قبول نہیں ہوئیں۔ ان کو پہلے اپنے اندر دیکھنا چاہئے کہ کیا ان کے اندر دین غالب ہے؟ تقویٰ پر چلنے والے ہیں یا دنیا کی ملونی زیادہ ہو گئی ہے؟ پس دعا کی قبولیت کے لئے ایک یہ بھی شرط ہے۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’درحقیقت متقیوں کے واسطے بڑے بڑے وعدے ہیں اور اس سے بڑھ کر کیا ہو گا کہ اللہ تعالیٰ متقیوں کا ولی ہوتا ہے۔ جھوٹے ہیں وہ جو کہتے ہیں کہ ہم مقرب بارگاہ الٰہی ہیں اور پھر متقی نہیں ہیں بلکہ فسق و فجور کی زندگی بسر کرتے ہیں اور ایک ظلم اور غضب کرتے ہیں جبکہ وہ ولایت اور قرب الٰہی کے درجے کو اپنے ساتھ منسوب کرتے ہیں۔ ‘‘(یہ نام نہاد بزرگ ہیں ) ’’کیونکہ اللہ تعالیٰ نے اس کے ساتھ متقی ہونے کی شرط لگادی ہے‘‘۔ (ولی کے ساتھ متقی ہونا شرط ہے۔) فرمایا ’’پھر ایک اور شرط لگاتا ہے یا یہ کہو متقیوں کا ایک نشان بتاتا ہے۔ اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۔ خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے۔ یعنی ان کی نصرت کرتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی معیت کا ثبوت اس کی نصرت ہی سے ملتا ہے‘‘۔ (اگر اللہ تعالیٰ مدد کر رہا ہے تو سمجھ لو کہ اللہ تعالیٰ ہمارے ساتھ ہے۔) ’’پہلا دروازہ ولایت کا ویسے بند ہوا۔ اب دوسرا دروازہ معیّت اور نصرت الٰہی کا اس طرح پر بند ہوا۔‘‘ (اللہ تعالیٰ سے کلام کا وعدہ تو کہتے ہیں ناں کہ ختم ہوگیا۔ اس کا دروازہ بند ہو گیا۔ اب یہ لوگ اللہ تعالیٰ کی جو مدد ہے اس کا دروازہ بھی بند کرنا چاہتے ہیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ’’ یاد رکھو اللہ تعالیٰ کی نصرت کبھی بھی ناپاکوں اور فاسقوں کو نہیں مل سکتی۔ اس کا انحصار تقویٰ ہی پر ہے ۔خدا کی اعانت متقی ہی کے لئے ہے‘‘۔ فرمایا’’ پھر ایک اَور راہ ہے کہ انسان مشکلات اور مصائب میں مبتلا ہوتا ہے اور حاجات مختلف رکھتا ہے۔ ان کے حل اور روا ہونے کے لئے بھی تقویٰ ہی کو اصول قرار دیا ہے۔‘‘ (اگر حل کرنا ہے تو پھر تقویٰ ہی ہے جس سے وہ پورے ہو سکتے ہیں یا یہ نتیجے نکل سکتے ہیں۔) فرمایا’’ معاش کی تنگی اور دوسری تنگیوں سے راہ نجات تقویٰ ہی ہے۔ فرمایا‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ) ’’ مَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔ خدا متقی کے لئے ہر مشکل میں ایک مَخرج پیدا کردیتا ہے اور اس کو غیب سے اس سے مخلصی پانے کے اسباب بہم پہنچا دیتا ہے۔ اس کو ایسے طور سے رزق دیتا ہے کہ اس کو پتہ بھی نہ لگے‘‘۔ (پس یہ دعا بھی بہت کرنی چاہئے اور اس کو یاد رکھنا چاہئے کہ مَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَہٗ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔(الطلاق3:-4) ہمیشہ انسان یہ یاد رکھے تو تقویٰ پر چلنے کی طرف بھی توجہ پیدا ہوتی رہتی ہے۔) فرمایا کہ’’ اب غور کر کے دیکھ لو کہ انسان اس دنیا میں چاہتا کیا ہے۔ انسان کی بڑی سے بڑی خواہش دنیا میں یہی ہے کہ اس کو سُکھ اور آرام ملے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ نے ایک ہی راہ مقرر کی ہے جو تقویٰ کی راہ کہلاتی ہے اور دوسرے لفظوں میں اس کو قرآن کریم کی راہ کہتے ہیںاور یا اس کا نام صراط مستقیم رکھتے ہیں ۔کوئی یہ نہ کہے کہ کفار کے پاس بھی مال و دولت اور اَملاک ہوتے ہیں اور وہ اپنی عیش و عشرت میں منہمک اور مست رہتے ہیں‘‘۔ فرمایا ’’مَیں تمہیں سچ کہتا ہوں کہ وہ دنیا کی آنکھ میں بلکہ ذلیل دنیاداروں اور ظاہر پرستوں کی آنکھ میں خوش معلوم دیتے ہیں۔ مگر درحقیقت وہ ایک جلن اور دکھ میں مبتلا ہوتے ہیں۔ تم نے ان کی صورت کو دیکھا ہے مگر میں ایسے لوگوں کے قلب پر نگاہ کرتا ہوں۔ وہ ایک سَعیر اور سَلاسل و اَغلال میں جکڑے ہوئے ہیں۔‘‘ (آگ میں جل رہے ہیں۔ زنجیروں میں جکڑے ہوئے ہیں۔) ’’جیسے فرمایا ہے اِنَّآ اَعْتَدْنَا لِلْکٰفِرِیْنَ سَلٰسِلًا وَاَغْلَالًا وَّسَعِیْرًا‘‘(الدھر5:) (کہ یقیناً ہم نے کافروں کے لئے زنجیریں اور طوق اور جہنم تیار کر رکھے ہیں۔) آپ فرماتے ہیں’’ وہ نیکی کی طرف آ ہی نہیں سکتے۔ وہ ایسے اَغلال ہیں کہ خدا کی طرف( سے) ان اغلال کی وجہ سے ایسے دبے پڑے ہیں کہ حیوانوں اور بہائم سے بھی بدتر ہوجاتے ہیں ۔ان کی آنکھ ہر وقت دنیا ہی کی طرف لگی رہتی ہے اور زمین کی طرف جھکتے جاتے ہیں۔ پھر اندر ہی اندر ایک سوزش اور جلن بھی لگی ہوئی ہوتی ہے۔ اگرمال میں کمی ہو جائے یا حسب مراد تدبیر میں کامیابی نہ ہو تو کڑھتے اور جلتے ہیں یہاں تک کہ بعض اوقات سودائی اور پاگل ہو جاتے ہیں یا عدالتوں میں مارے مارے پھرتے ہیں۔‘‘ فرمایا کہ’’ یہ واقعی بات ہے کہ بے دین آدمی سعیر سے خالی نہیں ہوتا۔‘‘ (اپنی آگ میںجل رہا ہوتا ہے اور اس قسم کے کئی نظارے ہمیں نظر آتے ہیں اخباروں میں ایسی خبریں بھی پڑھی ہیں۔) فرمایا کہ’’ اس لئے کہ اس کو قرار اور سکون نصیب نہیں ہوتا جو راحت اور تسلی کا لازمی نتیجہ ہے۔ جیسے شرابی ایک جام شراب پی کر ایک اور مانگتا ہے اور مانگتا ہی جاتا ہے اور ایک جلن سی لگی رہتی ہے ایسا ہی دنیا دار بھی سعیر میں ہے۔‘‘ (جل رہا ہے) ’’اس کی آتش ِآ ز ایک دم بھی بجھ نہیں سکتی۔ سچی خوشحالی حقیقت میں ایک متقی ہی کے لئے ہے جس کے لئے اللہ تعالیٰ نے وعدہ کیا ہے کہ اس کے لئے دو جنت ہیں۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 420-421۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
پھر اس بات کو مزید بیان فرماتے ہوئے کہ حقیقی راحت اور لذت کا مدار تقویٰ پر ہے۔ آپ فرماتے ہیں کہ :
’’متقی سچی خوشحالی ایک جھونپڑی میں پا سکتا ہے جو دنیا دار اور حرص و آز کے پرستار کو رفیع الشان قصر میں بھی نہیں مل سکتی ۔‘‘ (قناعت ہو، تقویٰ ہو، اللہ تعالیٰ کی رضا کا حصول مقصد ہو تو کم حالات میں بھی انسان گزارہ کر لیتا ہے اور سکون اور لذت پیدا ہو جاتی ہے جبکہ بڑے بڑے امیروں کو لذت پیدا نہیں ہو سکتی۔) فرمایا کہ’’ جس قدر دنیا زیادہ ملتی ہے اسی قدر بلائیں زیادہ سامنے آ جاتی ہیں۔ پس یاد رکھو کہ حقیقی راحت اور لذت دنیا دار کے حصہ میں نہیں آئی۔ یہ مت سمجھو کہ مال کی کثرت، عمدہ عمدہ لباس اور کھانے کسی خوشی کا باعث ہو سکتے ہیں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ اس کا مدار ہی تقویٰ پر ہے۔ جبکہ ان ساری باتوں سے معلوم ہو گیا کہ سچے تقویٰ کے بغیر کوئی راحت اور خوشی مل ہی نہیں سکتی تو معلوم کرنا چاہئے کہ تقویٰ کے بہت سے شعبے ہیں جو عنکبوت کے تاروں کی طرح پھیلے ہوئے ہیں‘‘ (یعنی مکڑی کے جالے کی طرح پھیلے ہوئے ہیں۔ باریک باریک تاریں ہیں۔)’’ تقویٰ تمام جوارحِ انسانی‘‘ (یعنی تمام انسانی اعضاء جو ہیں) ’’ اور عقائد زبان اخلاق وغیرہ سے متعلق ہے‘‘۔(ملفوظات جلد اوّلصفحہ 421تا422۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان) (عقائد میں بھی تقویٰ ہو۔ زبان میں بھی تقویٰ ہو۔ عام اخلاق میں بھی تقویٰ ہو۔)
روزہ کے حوالے سے ایک حدیث بھی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ روزہ دار اپنی زبان کو ہمیشہ پاک رکھے اور اگر کوئی اس سے جھگڑے تو تب بھی وہ یہی کہے کہ میں روزہ دار ہوں۔ میں تمہاری ان باتوں کا جواب نہیں دے سکتا۔(بخاری کتاب الصوم باب ھل یقول اِنِّی صَائِمٌ اِذَاشُتِمَ)
فرمایا کہ’’ نازک ترین معاملہ زبان سے ہے ۔بسا اوقات تقویٰ کو دور کر کے ایک بات کہتا ہے اور دل میں خوش ہو جاتا ہے کہ میں نے یوں کہا اور ایسا کہا حالانکہ وہ بات بری ہوتی ہے۔ مجھے اس پر ایک نقل یاد آئی ہے کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔‘‘ (اب یہ باریکی بھی دیکھنے والی چیز ہے۔ صرف یہی نہیں کہ موٹی موٹی گالیاں دے دیں یا لڑائی کر لی یا جھگڑا کر لیا بلکہ خود پسندی اور دکھاوا بھی ہے۔ زبان کی جو غلطیاں ہیں یا زبان کی وجہ سے جو گناہ ہوتے ہیں یا زبان کی وجہ سے جو تقویٰ میں کمی ہے اس میں یہ چیزیں بھی آتی ہیں۔) تو فرمایا’’ کہ ایک بزرگ کی کسی دنیا دار نے دعوت کی۔ جب وہ بزرگ کھانا کھانے کے لئے تشریف لے گئے تو اس متکبر دنیادار نے اپنے نوکر کو کہا کہ فلاں تھال لانا جو ہم پہلے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا دوسرا تھال بھی لانا جو دوسرے حج میں لائے تھے۔ اور پھر کہا کہ تیسرے حج والا بھی لیتے آنا۔ اس بزرگ نے فرمایا‘‘ (اس دنیا دار کو) ’’کہ تُو تو بہت ہی قابل رحم ہے۔ ان تین فقروں میں تُو نے اپنے تین ہی حجوں کا ستیاناس کردیا۔‘‘ (دنیا دکھاوے کے لئے حج تھے، نہ کہ اللہ تعالیٰ کی رضا کے لئے ۔ تقویٰ سے دور ہٹے ہوئے تھے۔ آپ فرماتے ہیں کہ اس بزرگ نے یہ کہا کہ) ’’تیرا مطلب اس سے صرف یہ تھا کہ تُو اس امر کا اظہار کرے کہ تُو نے تین حج کئے ہیں۔ اس لئے خدا نے تعلیم دی ہے کہ زبان کو سنبھال کر رکھا جائے اور بے معنی، بیہودہ، بےموقع غیر ضروری باتوں سے احتراز کیا جائے۔‘‘(پس صرف زبان کو دوسروں کو تکلیف دینے سے روکنے کے لئے حکم نہیں ہے۔ اپنی خود نمائی جو ہے، خودپسندی جو ہے ،دکھاوا جو ہے یہ بھی نیکیوں سے دور کرنے والا ہو جاتا ہے اور تقویٰ سے دور ہٹانے والا بن جاتا ہے۔ پس اس لحاظ سے بھی ہمیں غور کرنا چاہئے۔)
آپ نے فرمایا’’ دیکھو۔ اللہ تعالیٰ نے اِیَّاکَ نَعْبُدُ کی تعلیم دی ہے۔ اب ممکن تھا کہ انسان اپنی قوت پر بھروسہ کر لیتا اور خدا سے دور ہو جاتا۔ اس لئے ساتھ ہی اِیَّاکَ نَسْتَعِیْن کی تعلیم دے دی کہ یہ مت سمجھو کہ یہ عبادت جو میں کرتا ہوں اپنی قوت اور طاقت سے کرتا ہوں۔ ہرگز نہیں۔ بلکہ اللہ تعالیٰ کی استعانت جب تک نہ ہو اور خود وہ پاک ذات جب تک توفیق اور طاقت نہ دے کچھ بھی نہیں ہو سکتا اور پھر اِیَّاکَ اَعْبُدُ یا اِیَّاکَ اَسْتَعِیْن نہیں کہا ۔اس لئے کہ اس میں نفس کے تقدّم کی بُو آتی تھی۔‘‘ (اپنا یہ اظہار ہوتا ہے کہ میں کچھ کر رہا ہوں) ’’اور یہ تقویٰ کے خلاف ہے۔‘‘ فرمایا کہ’’ تقویٰ والا کُل انسانوں کو لیتا ہے۔ زبان سے ہی انسان تقویٰ سے دُور چلا جاتا ہے۔‘‘ (یعنی تقویٰ جو ہے ہر معاملہ میں ضروری ہے۔ زبان ہے اس سے انسان تقویٰ سے دور چلا جاتا ہے۔) ’’زبان سے تکبر کر لیتا ہے اور زبان سے ہی فرعونی صفات آجاتی ہیں۔‘‘ (لوگ بہت بڑے دعوے کرنے لگ جاتے ہیں) ’’اور اسی زبان کی وجہ سے پوشیدہ اعمال کو ریا کاری سے بدل لیتا ہے اور زبان کا زیان بہت جلد پیدا ہوتا ہے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ’’ حدیث شریف میں آیا ہے کہ جو شخص ناف کے نیچے کے عضو اور زبان کو شر سے بچاتا ہے اس کی بہشت کا ذمہ دار میں ہوں۔ حرام خوری اس قدر نقصان نہیں پہنچاتی جیسے قولِ زُور۔ اس سے کوئی یہ نہ سمجھ بیٹھے کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔‘‘ (جھوٹ اور غلط بات کہنا نقصان پہنچانے والی چیز ہے۔ یہ نہ سمجھو کہ حرام خوری اچھی چیز ہے۔) ’’یہ سخت غلطی ہے اگر کوئی ایسا سمجھے۔‘‘ آپ فرماتے ہیں کہ’’ میرا مطلب یہ ہے کہ ایک شخص جو اضطراراً سؤر کھا لے تو یہ امر دیگر ہے۔‘‘ (اضطراراً اجازت ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہوئی ہے) ’’ لیکن اگر وہ اپنی زبان سے خنزیر کا فتویٰ دے دے تو وہ اسلام سے دُور نکل جاتا ہے۔ ‘‘ (یہ فتویٰ دے دے کہ ہر حالت میں سؤر کھانا جائز ہے تو پھر وہ اسلام سے ہٹ گیا۔) آپ فرماتے ہیں کہ اس طرح ’’اللہ تعالیٰ کے حرام کو حلال ٹھہراتا ہے۔ غرض اس سے معلوم ہوا کہ زبان کا زیان خطرناک ہے اس لئے متقی اپنی زبان کو بہت ہی قابو میں رکھتا ہے۔ اس کے منہ سے کوئی ایسی بات نہیں نکلتی جو تقویٰ کے خلاف ہو۔ ‘‘ آپ فرماتے ہیں’’پس تم اپنی زبان پر حکومت کرو نہ یہ کہ زبانیں تم پر حکومت کریں اور اَناپ شناپ بولتے رہو۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 421 تا 423۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
روزوں میں بہت ساروں کے ذکر الٰہی میں اضافہ ہوا ہےتو اس اضافے کے ساتھ غیر ضروری باتوں میں بھی کمی ہونی چاہئے اور اس کے لئے کوشش کرنی چاہئے تا کہ روزوں کا اور تقویٰ کا مقصد پورا ہو۔
پھر آپ فرماتے ہیں کہ:’’ ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے۔ اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہات دنیا سے آزا د کر کے اس کے کاموں کا خود متکفّل ہو جاتا ہے۔ جیسے کہ فرمایا وَمَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَہُ مَخْرَجًا وَّ یَرْزُقہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔(الطلاق3:-4)جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مخلصی کا نکال دیتا ہے اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں۔ یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا۔‘‘ یعنی سامان کر دیتا ہے اور ایسی بے مقصد جو ضرورتیں ہیں یا بے مقصد خواہشات ہیں وہ دل میں پیدا نہیں ہوتیں یا ان کا محتاج نہیں کرتا اس کا خیال بھی نہیں آتا۔ یہ بھی تقویٰ کی نشانی ہے اور اللہ تعالیٰ کی متقی کے ساتھ ایک سلوک کی نشانی ہے۔ فرمایا’’ مثلاً ایک دوکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا اس لئے وہ دروغگوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں۔ خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا ہے اور اُسے ایسے موقع سے بچا لیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے و الے ہوں۔‘‘ یعنی ایسا موقع ہی نہیں آتا کہ وہ جھوٹ بولے۔ ’’یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا تو خدا نے اسے چھوڑ دیا۔ جب رحمان نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔‘‘ پھر آپ فرماتے ہیں کہ’’ یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔ وہ بڑی طاقت والا ہے۔ جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کرو گے وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَھُوَ حَسْبُہُ۔‘‘ (اور جو کوئی اللہ تعالیٰ پر توکّل کرتا ہے تو وہ اس کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔) ’’لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے وہ اہل دین تھے۔ ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لئے تھیں اور دنیاوی امور حوالہ بخدا تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ میں تمہارے ساتھ ہوں۔ غرض برکاتِ تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو ان مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور کے حارج ہوں۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 12-13۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
یعنی اگر تقویٰ صحیح ہے تو دنیاوی پریشانیاں جو ہیں وہ بھی اللہ تعالیٰ اس لئے دُور کر دیتا ہے کہ دینی کاموں میں روک پیدا نہ ہو۔ پس اس لحاظ سے بھی جہاں لوگ کہتے ہیں کہ ہمارے دنیاوی مسائل ایسے ہیں کہ دینی کام میں ہم حصہ نہیں لے سکتے۔ اگر صحیح تقویٰ ہے تو اللہ تعالیٰ دنیاوی مسائل خود بخود حل کر دیتا ہے اور پھر دین کی خدمت کی توفیق ملتی ہے۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ نیکیوں کے دو حصے ہیں اور نیکیاں کرنے والے کے ساتھ اللہ تعالیٰ کیسا سلوک فرماتا ہے۔ فرماتےہیں کہ:
’’ انسان جس قدر نیکیاں کرتا ہے اس کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک فرائض دوسرے نوافل‘‘ (ایک فرض ہے جو تم نے کرنا ہے۔ ایک نفل ہے۔) ’’فرائض یعنی جو انسان پر فرض کیا گیا ہو جیسے قرضہ کا اتارنا‘‘ (کسی سے قرض لیا ہوا ہے اس کا اتارنا فرض ہے۔) ’’یا نیکی کے مقابل نیکی‘‘ (یہ بھی فرض ہے۔ کوئی نیکی کرتا ہے تو اس کے مقابلے پر نیکی کرو۔ اس کا حق ادا کرو۔ فرمایا کہ صرف یہ نیکی نہیں ہے۔ یہ کوئی احسان نہیں ہے کہ اس نے نیکی کی تو میں نے بھی نیکی کر دی۔ اگر کسی نے نیکی کی ہے تو اس کے مقابلے پر تم بھی اس سے نیکی کرو۔ یہ تمہارا فرض ہے اور دوسرے کا حق ہے۔) فرمایا’’ ان فرائض کے علاوہ ہر ایک نیکی کے ساتھ نوافل ہوتے ہیں یعنی ایسی نیکی جو اس کے حق سے فاضل ہو۔‘‘ (زائد نیکی ہو۔) ’’جیسے احسان کے مقابل احسان کے علاوہ اَور احسان کرنا۔ ‘‘ (کسی نے احسان کیا اس کے احسان کا بدلہ چکا دینا یہ تو برابر کی ایک نیکی ہو گئی لیکن اَور احسان کرنا۔ اس سے زائد احسان کرنا یہ نوافل کے حق سے فاضل ہے۔) فرمایا کہ’’ یہ نوافل ہیں۔‘‘ (یہ نفل بن جاتا ہے۔) ’’یہ بطور مکمّلا ت اور متمّمات فرائض کے ہیں۔‘‘ (جب انسان بڑھ کر نیکیاں کرتا ہے تو ان سے جو فرض ہیں وہ مکمل ہوتے ہیں اور اپنی انتہا کو پہنچتے ہیں۔) فرمایا کہ’’اس حدیث میں بیان ہے کہ اولیاء اللہ کے دینی فرائض کی تکمیل نوافل سے ہو رہتی ہے۔ مثلاً زکٰوۃ کے علاوہ وہ اور صدقات دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ ایسوں کا ولی ہو جاتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ اس کی دوستی یہاں تک ہوتی ہے کہ مَیں اس کے ہاتھ پاؤں وغیرہ حتی کہ اس کی زبان ہو جاتا ہوں جس سے وہ بولتا ہے۔‘‘
پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’بات یہ ہے کہ جب انسان جذباتِ نفس سے پاک ہوتا اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔ جہاں لوگ ابتلا میں پڑتے ہیں وہاں یہ امر ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ فعل خدا کے ارادہ سے مطابق نہیں ہوتا۔‘‘ (اللہ کی مرضی کے خلاف ہو وہیں ابتلاء شروع ہو جاتے ہیں۔) ’’خدا کی رضا اس کے برخلاف ہوتی ہے۔ ایسا شخص اپنے جذبات کے نیچے چلتا ہے۔ مثلاً غصّہ میں آ کر کوئی ایسا فعل اس سے سرزد ہو جاتا ہے جس سے مقدمات بن جایا کرتے ہیں۔ فوجداریاں ہو جاتی ہیں۔ مگر اگر کسی کا یہ ارادہ ہو کہ بلا استصواب کتاب اللہ اس کا حرکت و سکون نہ ہو گا۔‘‘ (خدا تعالیٰ کی کتاب سے دیکھے بغیر کوئی حرکت نہیں ہو گی۔ کوئی کام نہیں ہو گا) ’’اور اپنی ہر ایک بات پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا تو یقینی امر ہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی۔ جیسے فرمایا وَلَا رَطْبٍ وَّلَا یَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ (الانعام60:)(کہ نہ کوئی تر چیز اور نہ کوئی خشک چیز ہے مگر اس کا ذکر ایک روشن کتاب میں ہے۔ یعنی قرآن کریم نے ہر نیکی اور بدی کو کھول کر بیان کر دیا ہے اور جو اس پہ عمل کرے گا وہ محفوظ رہے گا۔) فرمایا ’’سو اگر ہم یہ ارادہ کریں کہ ہم مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے تو ہم کو ضرور مشورہ ملے گا۔‘‘ (دنیاوی کاموں میںلوگوں کو جو ابتلا آتے ہیں یا وہ کوئی بھی غلط کام کرتے ہیں تو اس لئے کہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر عمل نہیں کر رہے ہوتے ۔قرآن کریم کو دیکھے بغیر جب چلیں گے ،اس کے حکموں کو سامنے رکھے بغیر اگر کوئی کام کریں گے تو پھر مشکلات میں انسان گرفتار ہوتا ہے۔ یہاں یہ فرق ہونا چاہئے کہ دینی معاملات میں اللہ تعالیٰ امتحان میں ڈالتا ہے اور اس کے لئے اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ وہ امتحان بھی نیکیوں کو آزمانے کے لئے ہیں۔ اسی لئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ انبیاء سب سے زیادہ ایسے امتحانوں سے گزرتے ہیں۔ ایک تو دنیاوی باتیں ہیں جن پہ انسان مشکلات میں پڑتا ہے اور وہ اس لئے مشکلات میںپڑتا ہے کہ وہ دنیاداری کی سوچ سے سوچتا ہے۔ ایک مومن ہونے کا دعویٰ تو کرتا ہے لیکن ہمارے لئے جو راہ ہدایت ہے وہ قرآن کریم ہے۔ اس کے حکموں پر وہ عمل کرنے کی کوشش نہیں کرتا تب مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔اس وجہ سے ابتلا آتے ہیں۔) بہرحال پھر آپ فرماتے ہیں کہ ’’لیکن جو اپنے جذبات کا تابع ہے وہ ضرور نقصان ہی میں پڑے گا۔‘‘ (یہ بات مزید کھل گئی کہ جذبات کا تابع ہو کر دنیاوی معاملات میں نقصان اٹھاتا ہے۔) ’’بسا اوقات وہ اس جگہ مؤاخذہ میں پڑے گا ۔سو اس کے مقابل اللہ نے فرمایا کہ ولی جو میرے ساتھ بولتے چلتے کام کرتے ہیں وہ گویا اس میں محو ہیں۔ سو جس قدر کوئی محویت میں کم ہے وہ اتنا ہی خدا سے دُور ہے۔ لیکن اگر اس کی محویت ویسی ہی ہے جیسے خدا نے فرمایا تو اس کے ایمان کا اندازہ نہیں۔ ان کی حمایت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ عَادَ لِی وَلِیًّا فَقَدْ اٰ ذَنْتُہٗ بِالْحَرْبِ۔(الحدیث) کہ جو شخص میرے ولی کا مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا ہے۔‘‘ (اب دیکھ لو ایسے لوگوں کو اگر نیکی کے معاملے میں جب ایسی باتیں آتی ہیں تو پھر اللہ تعالیٰ خود اپنے ولی کا ساتھ دیتا ہے اور دشمنوں کو ایک وقت میں پھر ناکام و نامراد کرتا ہے۔) ’’اب دیکھ لو کہ متقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدر عالی ہے جس کاقرب خدا کی جناب میں ایسا ہے کہ اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہے تو خدا اس کا کس قدر معاون و مددگار ہو گا۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 13 تا 15۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان(
پھر ہمیں اپنی زندگی کو غربت اور مسکینی میں بسر کرنے کی ہدایت دیتے ہوئے آپ فرماتے ہیںکہ: ’’اہل تقویٰ کے لئےیہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں ۔یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔ بڑے بڑے عارف اور صدّیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔ عُجب و پِند ار غضب سے پیدا ہوتا ہے۔‘‘ (یعنی تکبر اور غرور جو ہے وہ غصہ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے۔) ’’اور ایسا ہی کبھی خود غضب عُجب و پِندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔ کیونکہ غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔ مَیں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں ‘‘۔(غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔) ’’خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے ۔یہ ایک قسم کی تحقیر ہے جس کے اندر حقارت ہے۔ ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔ بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے۔ اس کی دلجوئی کرے۔ اس کی بات کی عزت کرے کوئی چِڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے ۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ‘‘(الحجرات12:) (کہ ایک دوسرے کو برے ناموں سے یاد نہ کرو۔ ایمان کے بعد دین سے دور جانا بہت بڑی بات ہے۔) ’’وَمَنْ لَمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔‘‘ اور جس نے توبہ نہ کی۔ یہ باتیں کرتا رہا تو یہی ظالم لوگ ہیں)۔ آپ فرماتے ہیں کہ ’’تم ایک دوسرے کا چِڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فُسّاق و فُجّار کا ہے۔ جو شخص کسی کو چڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمہ سے کُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرّم و معظّم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَاللہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ‘‘(الحجرات14:) ۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 36۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)(کہ یقیناً اللہ تعالیٰ کے نزدیک زیادہ معزز وہی ہے جو متقی ہے۔ یقیناً اللہ تعالیٰ دائمی علم رکھنے والا اور باخبر ہے۔) پس اللہ تعالیٰ کو ہر حقیقت کا علم ہے۔ ہر بات کا علم ہے کہ دکھاوے کا تقویٰ ہے یا حقیقی تقویٰ ہے ۔اس لئے جب اللہ تعالیٰ کو علم ہے تو ہمیں پھر بڑے خوف سے اور اپنا جائزہ لیتے ہوئے حقیقی تقویٰ اپنانے کی کوشش کرنی چاہئے جس کا اللہ تعالیٰ نے حکم دیا ہے کہ اختیار کرو۔
اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ ایک مومن اور تقویٰ پہ چلنے والے کو جب کامیابی ملتی ہے تو اس کا کیا اظہار ہوتا ہے اور ایک کافر اس کامیابی پر کیسا اظہار کرتا ہے۔ آپ فرماتے ہیں
’’اس اصول کو ہمیشہ مدّنظر رکھو۔ مومن کا کام یہ ہے کہ وہ کسی کامیابی پر جو اسے دی جاتی ہے شرمندہ ہوتا ہے اور خدا کی حمد کرتا ہے۔‘‘ (یعنی ہر چیز اللہ تعالیٰ کی طرف منسوب کرتا ہے اس کی تعریف کرتا ہے) ’’کہ اس نے اپنا فضل کیا اور اس طرح پر وہ قدم آگے رکھتا ہے اور ہر ابتلا میں ثابت قدم رہ کر ایمان پاتا ہے۔ بظاہر ایک ہندو اور مومن کی کامیابی ایک رنگ میں مشابہ ہوتی ہے۔ لیکن یاد رکھو کہ کافر کی کامیابی ضلالت کی راہ ہے اور مومن کی کامیابی سے اس کے لئے نعمتوںکا دروازہ کھلتا ہے۔ کافر کی کامیابی ضلالت کی راہ ہے اور مومن کی کامیابی سے اس کے لئے نعمتوں کا دروازہ کھلتا ہے۔ کافر کی کامیابی اس لئے ضلالت کی طرف لے جاتی ہے کہ وہ خدا کی طرف رجوع نہیں کرتا بلکہ اپنی محنت، دانش اور قابلیت کو خدا بنا لیتا ہے۔ مگر مومن خدا کی طرف رجوع کر کے خدا سے ایک نیا تعارف پیدا کرتا ہے اور اس طرح پر ہر ایک کامیابی کے بعد اس کا خدا سے ایک نیا معاملہ شروع ہو جاتا ہے اور اس میں تبدیلی ہونے لگتی ہے۔ اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا۔ خدا ان کے ساتھ ہوتا ہے جو متقی ہوتے ہیں۔ یاد رکھنا چاہئے کہ قرآن شریف میں تقویٰ کا لفظ بہت مرتبہ آیا ہے اس کے معنی پہلے لفظ سے کئے جاتے ہیں۔ یہاں مَعَ کا لفظ آیا ہے۔ یعنی جو خدا کو مقدم سمجھتا ہے خدا اس کو مقدم رکھتا ہے اور دنیا میں ہر قسم کی ذلّتوں سے بچا لیتا ہے۔ میرا ایمان یہی ہے کہ اگر انسان دنیا میں ہر قسم کی ذلّت اور سختی سے بچنا چاہے تو اس کے لئے ایک ہی راہ ہے کہ متقی بن جائے پھر اس کو کسی چیز کی کمی نہیں۔ پس مومن کی کامیابیاں اس کو آگے لے جاتی ہیں اور وہ وہیں پر نہیں ٹھہر جاتا۔‘‘ پھرآپ فرماتے ہیں’’ اکثر لوگوں کے حالات کتابوں میں لکھے ہیں کہ اوائل میں دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور شدید تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے کوئی دعا کی اور وہ قبول ہو گئی۔ اس کے بعد ان کی حالت ہی بدل گئی۔ اس لئے اپنی دعاؤں کی قبولیت اور کامیابیوں پر نازاں نہ ہو بلکہ خدا کے فضل اور عنایت کی قدر کرو۔‘‘ (یہ اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ اس نے دعا کو قبول کیا ۔بجائے اس بات پہ خوش ہونے کے یا فخر کرنے کے اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر نظر رکھو۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’قاعدہ ہے کہ کامیابی پر ہمت اور حوصلے میں ایک نئی زندگی آ جاتی ہے۔ اس زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنی چاہئے۔‘‘ (کامیابی ملی یا دعا قبول ہوئی تو اللہ تعالیٰ کی پہچان زیادہ ہونی چاہئے۔ اس کی معرفت ہونی چاہئے۔) ’’کیونکہ سب سے اعلیٰ درجہ کی بات جو کام آنے والی ہے وہ یہی معرفت الٰہی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم پر غور کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا۔‘‘فرماتے ہیں ’’بہت تنگدستی بھی انسان کو مصیبت میں ڈال دیتی ہے۔ اس لئے حدیث میں آیا ہے کہ اَلْفَقْرُ سَوَادُ الْوَجْہِ۔‘‘ ( یعنی تنگی چہروں کو بگاڑ دیتی ہے یا کالا کر دیتی ہے یا تنگدستی کی وجہ سے انسان دین سے بھی بسااوقات دور ہٹ جاتا ہے۔) آپ فرماتے ہیں’’ ایسے لوگ میں نے خود دیکھے ہیں جو اپنی تنگدستیوں کی وجہ سے دہریہ ہو گئے ہیں۔ مگر مومن کسی تنگی پر بھی خدا سے بدگمان نہیں ہوتا اور اس کو اپنی غلطیوں کا نتیجہ قرار دے کر اس سے رحم اور فضل کی درخواست کرتا ہے اور جب وہ زمانہ گزر جاتا ہے اور اس کی دعائیں بارور ہوتی ہیں تو وہ اس عاجزی کے زمانے کو بھولتا نہیں بلکہ اسے یاد رکھتا ہے۔ غرض اگر اس پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کام پڑنا ہے تو تقویٰ کا طریق اختیار کرو۔ مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کر لے اور بدقسمت وہ ہے جو ٹھوکر کھا کر اس کی طرف نہ جھکے۔‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 155 تا 157۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
آپ فرماتے ہیں ’’اللہ تعالیٰ ان کی حمایت اور نصرت میں ہوتا ہے جو تقویٰ اختیار کریں۔ تقویٰ کہتے ہیں بدی سے پرہیز کرنے کو اور محسنون وہ ہوتے ہیں جو اتنا ہی نہیں کہ بدی سے پرہیز کریں بلکہ نیکی بھی کریں۔ اور پھر یہ بھی فرمایا لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا الْحُسْنٰی۔ یعنی ان نیکیوں کو بھی سنوار سنوار کر کرتے ہیں۔‘‘ آپ اس آیت کی تشریح فرما رہے ہیں کہ اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ۔ کہ یقیناً اللہ تعالیٰ ان لوگوں کے ساتھ ہے جو تقویٰ اختیار کرتے ہیںا ور پھر جو احسان کرنے والے ہیں۔ آپ فرماتے ہیں’’ مجھے یہ وحی بار بار ہوئی کہ اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ اور اتنی مرتبہ ہوئی ہے کہ میں گن نہیں سکتا۔ خدا جانے دو ہزار مرتبہ ہوئی ہو۔ اس سے غرض یہی ہے کہ تا جماعت کو معلوم ہو جاوے کہ صرف اس بات پر ہی فریفتہ نہیں ہونا چاہئے کہ ہم اس جماعت میں شامل ہو گئے ہیں یا صرف خوش خیالی ایمان سے راضی ہو جاؤ۔ اللہ تعالیٰ کی معیّت اور نصرت اسی وقت ملے گی جب سچی تقویٰ ہو اور پھر نیکی ساتھ ہو۔‘‘
(ملفوظات جلد 8صفحہ 371۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اس بارے میں آپ مزید فرماتے ہیں : اِنَّ اللہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَالَّذِیْنَ ھُمْ مُحْسِنُوْنَ (النحل129:) خدا تعالیٰ بھی انسان کے اعمال کا روزنامچہ بناتا ہے۔ پس انسان کو بھی اپنے حالات کا ایک روزنامچہ تیار کرنا چاہئے اور اس میں غور کرنا چاہئے کہ نیکی میں کہاں تک آگے قدم رکھا ہے ۔انسان کا آج اور کل برابر نہیں ہونے چاہئیں۔ جس کا آج اور کل اس لحاظ سے کہ نیکی میں کیا ترقی کی ہے برابر ہو گیا وہ گھاٹے میں ہے۔ انسان اگر خدا کو ماننے والا اور اسی پر کامل ایمان رکھنے والا ہو تو کبھی ضائع نہیںکیا جاتا بلکہ اس ایک کی خاطر لاکھوں جانیں بچائی جاتی ہیں۔‘‘آپ مثال دیتے ہیں کہ’’ ایک شخص جو اولیاء اللہ میں سے تھے ان کا ذکر ہے کہ وہ جہاز میں سوار تھے۔ سمندر میں طوفان آ گیا۔ قریب تھا کہ جہاز غرق ہو جاتا۔ اس کی دعا سے بچا لیا گیا اور دعا کے وقت اس کو الہام ہوا کہ تیری خاطر ہم نے سب کو بچا لیا۔‘‘ آپ فرماتے ہیں’’ مگر یہ باتیں نرا زبانی جمع خرچ کرنے سے حاصل نہیں ہوتیں‘‘ (بلکہ اس کے لئے محنت کرنی پڑتی ہے۔)
(ملفوظات جلد 10صفحہ 137-138۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
اور آپ نے فرمایا کہ میرے ساتھ بھی اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ اِنِّیْ اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔
(ماخوذ از ملفوظات جلد 10صفحہ 138۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)
لیکن اس کے لئے تم لوگوں کو بھی پہلے تقویٰ اختیار کرنا پڑے گا۔ اور آپ نے یہ بھی فرمایا کہ میری دعاؤں کی قبولیت کے لئے خود اپنے آپ کو دعاؤں کا اہل بنانے کی ضرورت ہے تب میری دعائیں قبول ہوں گی اور اس کے لئے تقویٰ ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اس رمضان میں تقویٰ سے روزے رکھنے اور عبادت کرنے اور باقی حق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اور ہر لحاظ سے یہ رمضان جماعت کے لئے بھی، مسلمانوں کے لئے بھی اور دنیا کے لئے بھی با برکت ہو۔ پاکستان میں جماعت کے جو حالات ہیں اور اس میں دن بدن سختی پیدا ہوتی جا رہی ہے ان کے لئےخاص طور پر دعائیں کریں کہ اللہ تعالیٰ فضل فرمائے۔ ہم جہاں روزوں کے حق ادا کرنے والے ہوں وہاں تقویٰ پر چلتے ہوئے یہ حق ادا کرنے والے ہوں۔ دعاؤں کی طرف توجہ دینے والے ہوں ۔اسی طرح اللہ تعالیٰ مسلمانوں پر بھی رحم فرمائے اور ان کی قیادت کو اور لیڈرشپ کو اور علماء کو عقل اور سمجھ عطا فرمائے اور اسی طرح دنیا کو بھی کہ وہ زمانے کے امام کو ماننے والے ہوں۔ہر روز ایک نئی خبر آتی ہے کہ آج جنگ کا شعلہ بھڑکنے والا ہے، آج ختم ہونے والا ہے۔ بظاہر یہی لگتا ہے کہ بڑی طاقتیں جو ہیں وہ جنگ کی طرف جس تیزی سے بڑھ رہی ہیں اس میں اب مزید کوئی روک پیدا ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ خاص طور پر مسلمانوں کو، خاص طور پر احمدیوں کو ان جنگ کے بداثرات سے بچا کر رکھے اور عمومی طور پر انسانیت کو بھی بداثرات سے بچائے۔ اگر ابھی بھی اللہ تعالیٰ کے نزدیک ان لوگوں کی اصلاح ہو سکتی ہے اور کوئی ذریعہ بن سکتا ہے کہ ان کی اصلاح ہو جائے اور یہ خدا کو پہچاننے والے ہوں تو اللہ تعالیٰ وہ حالات پیدا کرے کہ یہ اللہ تعالیٰ کو پہچانیں اور اپنی تباہی سے بچ سکیں۔
٭…٭…٭