اَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے10؍ جون 1988ء کودیا گیا
اَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج اور اس کے عظیم الشان نتائج
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے رمضان المبارک 1988ء میں سورۃ آلِ عمران کی جن آیات کا درس ارشاد فرمایا ان میں ایک آیتِ مباہلہ
فَمَنْ حَآجَّکَ فِیْہِ مِنْ بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَآئَ نَا وَأَبْنَآئَ کُمْ وَنِسَآئَ نَا وَنِسَآئَ کُمْ وَأَنْفُسَنَا وَأَنْفُسَکُمْ ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔ (آل عمران 62) بھی تھی۔ اس درس کے دوران آپ نے مباہلہ سے متعلق اسلامی تعلیم کے اصول اور ان اصولوں کی روشنی میں مباہلہ کے طریقۂ کار پر تفصیل سے روشنی ڈالی۔
آپ خطبہ جمعہ فرمودہ 3جون1988ء میں فرماتے ہیں کہ :
’’ اسی درس کے دوران میری توجہ اس طرف پھیری گئی کہ چونکہ یہ احمدیت کی پہلی صدی کے آخری ایام ہیں اس لئے حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃو السلام کی جو سو سال سے تکذیب کی جارہی ہے اور پہلی صدی کے اختتام پر مکذّبین کا شوروغوغا بہت بلند ہو گیا ہے اس لئے اس وقت اس تکذیب کا جواب مباہلہ کے چیلنج ہی کے ذریعے دینا مناسب ہو گا۔‘‘
(خطباتِ طاہر جلد 7صفحہ387)
چنانچہ اسی خطبہ میں آپ ؒ نے اختصار کے ساتھ مباہلہ کے مضمون کے بعض اہم نکات کو بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ :
’’مباہلہ محض غلط بات پر ایمان رکھنے والوں سے نہیں کیا جا رہا بلکہ ایسے غلط ایمان رکھنے والوں سے کیا جا رہا ہے جو جھوٹے ہیں۔ جو جانتے ہیں کہ ان کے ایمان کی کوئی بنیاد نہیں ہے اور کوئی دلیل ان کے پاس نہیں ہے۔ جو واضح طور پر آنکھیں کھول کر خدا پر افترا کرنے والے ہیں۔ پس ایسا مُکذّب جو بے حیا ہو چکا ہو،ایسا مُکذّب جس پر بسا اوقات یہ بات واضح ہو چکی ہو کہ اس کے پاس کوئی دلیل نہیں ہے اور بالا رادہ تکذیب سے باز نہ آئے اُس مُکذّب کو دعوتِ مباہلہ ہے اور اس مباہلہ میں دو فریق ہوتے ہیں…‘‘
’’مباہلہ میں ایک طرف سے خدا کی طرف سے ہونے کے دعویدار کا ہونا ضروری ہے اور دوسری طرف اُس دعویدار کی تکذیب کرنے والوں کا ہونا ضروری ہے۔قرآن کریم میں مباہلہ کا یہی مفہوم ہے۔ اس کے سوا اَورکوئی مفہوم نہیں ہے…‘‘
’’قرآن کریم نے جو مباہلہ کا نقشہ کھینچا ہے اس نقشہ کی رُو سے جب بھی حالات ملتے جلتے دکھائی دیں اُس وقت …مباہلہ کا اختیار ہو جاتا ہے…تو دونوں طرف راہنما ہونے چاہئیں۔ معزز راہنماہونے چاہئیں جن کے پیچھے پوری قوم ہو اور معاملہ کسی خدا کی طرف سے ظاہر ہونے کا دعویٰ کرنے والے کی سچائی کامعاملہ ہو اور ایک قوم اُسے جھٹلا رہی ہو اور دوسری اُس کو ماننے والی اُس کی تائید میں دل و جان کے نذرانے پیش کرنے کے لئے حاضر ہورہی ہو اور اپنا سب کچھ دائو پہ لگانے کے لئے تیار ہو۔ ‘‘
حضور رحمہ اللہ نے فرمایا کہ:
’’آج کل کے اس دَور میں جبکہ بدقسمتی سے پاکستان میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی تکذیب کا اس دَور میں جھنڈا اٹھا لیا ہے اور پاکستان کے بدنصیب سربراہ نے جو پہلے ڈکٹیٹر کے طور پر ظاہر ہوئے پھر اس کے بعد صدر کا چولہ پہنا… وہ اس وقت حضرت مسیح موعودؑ کی تکذیب کے سب سے بڑے علمبردارہیں اور ان کے ساتھ بعض علماء نے جو حاشیہ بردار ہیں انہوں نے بھی بدزبانی اور بدکلامی کی حد کر دی ہے…۔‘‘
’’مَیں نے کئی طریق سے اس قوم کو سمجھانے کی کوشش کی کہ اپنی حیثیت اور اپنے مقام کو سمجھو۔ بے وجہ ایسے معاملات میں دخل نہ دو جن کے نتیجہ میں تم خود اپنی ہلاکت کو دعوت دینے والے ثابت ہوگے اور ادب کی زبان اختیار کرو۔اگر تمہیں ایک دعویدار کے دعویٰ کی سچائی پر ایمان نہیں ہے تو خاموشی اختیار کرو۔ اور یا انکار کرنا ہے تو انکار میں بھی ادب کا پہلو ہاتھ سے نہ جانے دو۔‘‘
آپؒ نے فرمایا:
’’مختلف رنگ میں جس حد تک بھی خدا تعالیٰ نے مجھے توفیق بخشی گزشتہ چند سال مسلسل اس قوم کو اور تکذیب کے راہنمائوں اور اَئمہ کو نیک نصیحت کے ذریعہ قرآن کریم کی زبان میں سمجھانے کی کوشش کرتا رہا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ یہ ساری آواز یں بہرے کانوں پر پڑتی رہی ہیں… کسی نے ان نصیحتوں کی طرف توجہ نہ دی اور مسلسل یہ لوگ تکذیب اور شرارت میں اور ایذا رسانی میں بڑھتے چلے گئے۔
پس اس وقت یہ مناسب ہے کہ اس صدی کے اختتام سے پہلے اس قوم کو قرآن کی زبان میں مباہلہ کی طرف بلایا جائے… گزشتہ چند سالوں سے پاکستان میںارباب پاکستان نے یہ وطیرہ اختیار کیا ہے کہ احمدیت کے خلاف ہر قسم کی ہر زہ سرائی کو کھلی چھٹی ہے،ہر قسم کا گندہ اور فساد والا لٹریچر اور دروغ اور افتراء پر مبنی لٹریچر کھلے عام شائع کیا جا رہا ہے، کثرت کے ساتھ شائع کیا جا رہا ہے۔ ملک میں ہی نہیں بلکہ غیر ملکوں میں بھی حکومت کے خرچ پر یا حکومت کے ظاہری خرچ پر نہیں تو مخفی خرچ پر امداد کے ساتھ پھیلایا جارہا ہے، مختلف زبانوں میں اس کے تراجم کئے جا رہے ہیں…۔ اس لئے اب سمجھانے کا وقت گزر چکا ہے۔
دوسرا یہ کہ احمدیت کی طرف سے جب جوابی لٹریچر شائع کیا جاتا ہے تو شائع کرنے والوں اور تقسیم کرنے والوں کو قید کر لیا جاتا ہے، اُس لٹریچر کو ضبط کر لیا جاتا ہے ۔گزشتہ چند سالوں میں سینکڑوں احمدی رسائل اور اخبارات اور اشتہارات ضبط کئے گئے اور سینکڑوں احمدی نوجوانوں کو اس جرم کے ارتکاب میں قید کر لیا گیا… ۔‘‘
’’… اس کے بعد لَا حُجَّۃَ بَیْنَنَا وَبَیْنَکُمْ اب تمہارے اور ہمارے درمیان حجت کی کوئی بات باقی نہیں رہی۔جب یہ حالت پہنچ جائے تو اس کے بعد مباہلہ کے سوا چارہ کوئی نہیںرہتا۔چونکہ اصل دعویٰ حضرت اقدس مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃو السلام کا دعویٰ( ہے)۔… مگر اس حیثیت میں کہ ہمیں بھی اس دعویٰ کی تصدیق کے لئے اپنے جان و مال اور عزتوں کو پیش کرنے کے لئے بلایا جا رہا ہے۔ اس حیثیت سے مَیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے مباہلہ کی آواز کو آج پھر اٹھاتا ہوں۔‘‘
(خطباتِ طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد 7صفحہ388تا395)
اسی طرح آپ نے 10؍ جون 1988ء کے خطبہ جمعہ میں فرمایا:
’’گزشتہ چند سالوں میں جماعت احمدیہ کے معاندین اور مخالفین اور مکذّبین نے، خصوصاً علماء کے اُس گروہ نے جو ائمۃالتکفیر کہلانے کے مستحق ہیںظلم اور افتراء اور تکذیب اور استہزاء اورتخفیف اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی تذلیل کرنے کی کوشش میں تمام حدیں توڑ دیں ہیں اور انسانی تصور میں جتنی بھی حدیں ممکن ہیں شرافت اور نجابت کی، اُن سب سے تجاوز کر گئے ہیں۔ اور مسلسل پاکستان میں ہرروز کوئی نہ کوئی جھوٹ اور افتراء حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام اور جماعت پر گھڑا جاتاہے اور علی الاعلان کھلے بندوں اُس کذب اور افتراء کا کثرت کے ساتھ اعلان کیا جاتا ہے اور تشہیر کی جاتی ہے۔ کوئی ان کوروکنے والا بظاہر نہیں۔ ان شریروں کی مدد پر حکومت بھی کھڑی ہے اور دوسرے صاحب استطاعت اور صاحبِ اقتدار لوگ بھی ان کی پُشت پناہی کر رہے ہیں۔عوام الناس کی اکثریت شَریف ہے مگر شرافت کی زبان گونگی اورکمزور ہے اور ان کو جرأت اور حوصلہ نہیںکہ اس کِذب و افتراء اور تعدّی اور ظلم کے خلاف آوازبلند کرسکیںکجایہ کہ سینہ سپر ہو کر اس کی راہ روک دیں ۔
یہ معاملہ اب اس قدر حد سے تجاوز کر چکا ہے اور اس طرح جماعت احمدیہ کے سینے چھلنی ہیں اور اس طرح ان کی روحیں اس کِذب و افتراء کی تعفّن سے بیزار ہیں اور متلا رہی ہیں اور اس طرح اپنی بے بسی پر وہ خدا کے حضور گر یہ کُناں ہیں اور کوئی دنیا کے لحاظ سے ان کی پیش نہیں جاتی۔ ان کے دلوں کی آواز حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃوالسلام کے اس مصرعہ کی مصداق ہے کہ حیلے سب جاتے رہے اک حضرتِ توّاب ہے
پس اب ظلم کی اس انتہا کے بعد باوجود اس کے کہ بار بار اس قوم کو ہر رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی۔اب مَیں مجبور ہو گیا ہوں کہ مکفّرین اور مُکذّبین اور ان کے سربراہوں اور ان کے اَئمہ کو قرآن کریم کے الفاظ میں مباہلہ کا چیلنج دوں یا کہنا چاہئے کہ قرآن کریم کی تعلیم کے مطابق حق و صداقت میں امتیاز پیدا کرنے کی خاطر مباہلہ کا چیلنج دوں…‘‘۔
’’… یہ معاملہ اس حال کو پہنچ چکا ہے اور جماعت احمدیہ کی پہلی صدی بھی جو کہ اختتام کو پہنچ رہی ہے اس لئے تمام احمدیوں کے دکھ اوربے قراری اور مسلسل صبر کی آہوں سے مجبورہو کر اب مَیں نے یہ فیصلہ کیا ہے کہ جماعت احمدیہ عالمگیر کی طرف سے ان سارے مُکفّرین ، مُکذّبین افتراء کرنے والے ائمۃا لتکفیر کو مباہلہ کا چیلنج دوں اور پاکستان کے عوام النّاس سے درخواست کروں کہ آپ ان کی تائید میں آمین کہنے والے نہ بنیں ورنہ خدا کی پکڑ آپ پر بھی نازل ہو گی … اور آپ اس سے بچ نہیں سکیں گے…۔ لیکن مَیں یہ بتاتا ہوں کہ وہ اَئمہ تکفیر جو جسارت کے ساتھ اس مباہلہ کے چیلنج کو قبول کریں گے مجھے خدا کی غیرت سے،اس کی حمیّت سے توقع ہے کہ وہ ان کے خلاف اور جماعت احمدیہ کی صداقت اور حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃوالسلام کی صداقت کے حق میں عظیم الشان نشان دکھائے گا۔‘‘
(خطباتِ طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد 7صفحہ409تا420)
حضور رحمہ اللہ نے اس خطبہ جمعہ میں پاکستان کے اخبارات میں شائع ہونے والے بیانات اور حکومت کے سربراہوں اور صاحب اقتدار لوگوں کی تقریروں اور ٹیلی وژن کے ذریعہ کئے جانے والے اعلانات میں سے بعض اقتباسات پیش کرتے ہوئے جماعت احمدیہ پر باندھے جانے والے افتراؤں کا ذکر کر کے جھوٹوں پر خدا کی لعنت ڈالی۔
ذیل میں مباہلہ کے اس چیلنج کا مکمل متن درج کیا جاتا ہے جو باقاعدہ طور پر طبع کروانے کے بعد بذریعہ رجسٹرڈ ڈاک صدرِ پاکستان جنرل ضیاء الحق اور اسی طرح بعض دیگر معاندین، مکفّرین و مکذّبین کو بھجوایا گیا۔ اور پاکستان میں بالخصوص اور دنیا کے تمام ممالک میں بھی اس کی کثرت سے اشاعت کی گئی۔
’’جماعت احمدیہ عالمگیر کی طرف سےدنیا بھر کے معاندین اور مکفّرین اور مکذّبین کو مباہلہ کا کھلا کھلا چیلنج
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
جب سے حکومتِ پاکستان نے جماعتِ احمدیہ کا یہ بنیادی مذہبی اور انسانی حق غصب کیا ہے کہ وہ اپنے دعاوی اور ایمان کے مطابق اسلام کو اپنا مذہب قرار دے اس وقت سے حکومت پاکستان کی سرپرستی میں مسلسل جماعتِ احمدیہ کے خلاف نہایت جھوٹے اور شرّ انگیز پراپیگنڈہ کی ایک عالمگیر مہم جاری ہے۔ قرآنِ کریم کی تعلیم کی صریح خلاف ورزی کرتے ہوئے احمدیت کو قادیانیت اور مرزائیت کے فرضی ناموں سے پکارا جا رہا ہے۔ اسی طرح ایک فرضی مذہب بنا کر جماعتِ احمدیہ کی طرف منسوب کیا جا رہا ہے جو ہر گز جماعتِ احمدیہ کا مذہب نہیں۔
کِذب و افتراء کی اس عالمی مہم کو ہم دو حصّوں میں تقسیم کر سکتے ہیں۔
اوّل:۔ حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی ذات کو ہر قسم کے ناپاک حملوں کا نشانہ بنانا، آپ کے تمام دعاوی کی تکذیب کرنا، آپ کو مفتری اور خدا پر جھوٹ بولنے والا، دجّال اور فریبی قرار دینا اور آپ کی طرف ایسے فرضی عقائد منسوب کرنا جو ہر گز آپ کے عقائد نہیں تھے۔
دوسرا پہلو آپ کی قائم کردہ جماعت پر سراسر جھوٹے الزامات لگانے اور اس کے خلاف شر انگیز پراپیگنڈہ کرنے سے تعلق رکھتا ہے۔ مسلسل جماعتِ احمدیہ کی طرف ایسے عقیدے منسوب کئے جا رہے ہیں جو ہر گز جماعتِ احمدیہ کے عقائد نہیں۔ اسی طرح جماعتِ احمدیہ اور امام جماعتِ احمدیہ کو سراسر ظلم اور تعدّی کی راہ سے بعض نہایت سنگین جرائم کا مرتکب قرار دے کر پاکستان اور بیرونی دنیا میں بدنام کرنے کی مہم چلائی جا رہی ہے۔
یہ جھگڑا بہت طُول پکڑ گیا ہے اور سراسر یکطرفہ مظالم کا یہ سلسلہ بند ہونے میں نہیں آ رہا۔ جماعتِ احمدیہ نے ہر لحاظ سے صبر کا نمونہ دکھایا اور محض لَلہ ان یکطرفہ مظالم کو مسلسل حوصلے سے برداشت کیا اور جہاں تک ظالموں کو سمجھانے کا تعلق ہے ، ہر پُرامن ذریعہ کو اختیار کرتے ہوئے معاندین و مکذّبین کے ائمّہ کو ہر رنگ میں سمجھانے کی کوشش کی اور ایسی حرکتوں کے عواقب سے متنبّہ کیا اور خوب کھلے لفظوں میں باخبر کیا کہ تم یہ ظلم محض جماعتِ احمدیہ پر نہیں بلکہ عالمِ اسلام اور خصوصیت سے پاکستان کے عوام پر کر رہے ہو اور دھوکہ اور فریب سے ان کو ان مظالم میں بالواسطہ یا بلا واسطہ شریک کر کے خدا تعالیٰ کی ناراضگی کا مورد بنا رہے ہو اور دن بدن جو نِت نئے مصائب پاکستان کے غریب عوام پر ٹوٹ رہے ہیںان کے اصل ذمہ دار تم ہو اور یہ مصائب خدا تعالیٰ کی بڑھتی ہوئی ناراضگی کے آئینہ دار ہیں۔ لیکن افسوس کہ ظلم کرنے والے ہاتھ رکنے کی بجائے ظلم و تعدّی میں مزید بڑھتے چلے گئے اور اب معاملہ اس حدّ تک پہنچ چکا ہے کہ جماعتِ احمدیہ اس ظلم کو مزید برداشت نہیں کر سکتی۔ لہٰذا ایک لمبے صبر اور غور و فکر اور دعاؤں کے بعد مَیں بحیثیت امام جماعتِ احمدیہ یہ فیصلہ کرتا ہوں کہ تمام مکذّبین اور معاندین کو جو عمدًا اس شرارت کے ذمّہ دار ہیں خواہ وہ کسی طبقہ سے تعلّق رکھتے ہوں قرآنی تعلیم کے مطابق کھلّم کھلّا مباہلے کا چیلنج دوں اور اس قضیہ کو اس دعا کے ساتھ خدا تعالیٰ کی عدالت میں لے جاؤں کہ خدا تعالیٰ ظالموں اور مظلوموں کے درمیان اپنی قہری تجلّی سے فرق کر کے دکھا دے۔
ہم ان دونوں پہلوؤں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے دو طریق پر مباہلہ کا چیلنج شائع کر رہے ہیں۔ ہر مکذّب، مکفّر کو کھلی دعوت ہے کہ مباہلہ کے جس چیلنج کو چاہے قبول کرے اور میدان میں نکلے تاکہ دنیا بھر کے سادہ لوح مسلمان یا ایسے علماء اور عوام النّاس جو احمدیت کے متعلق کوئی ذاتی علم نہیں رکھتے اور سنی سنائی باتوں پر یقین کر کے جماعت کی مخالفت پر کمر بستہ ہیں، خدا تعالیٰ کی طرف سے ظاہر ہونے والے آسمانی فیصلہ کی روشنی میں سچّے اور جھوٹے کے درمیان تمیز اور تفریق کر سکیں۔
چیلنج نمبر 1
جہاں تک بانیٔ سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے سچے یا جھوٹے ہونے کا تعلق ہے، جنہوں نے امّتِ محمدیہ میں مبعوث ہونے والے مسیحِ موعود اور مہدی معہود ہونے کا دعویٰ کیا ، ہمیں مباہلے کا کوئی نیا چیلنج پیش کرنے کی ضرورت نہیں۔ خود بانیٔ سلسلہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے اپنے الفاظ میں ہمیشہ کے لیے ایک کھلا چیلنج موجود ہے۔
ہم سب مکذّبین و مکفّرین کو دعوت دیتے ہیں کہ وہ اس چیلنج کو غور سے پڑھ کر یہ فیصلہ کریں کہ کیا وہ اس کے عواقب سے باخبر ہو کر اس کو قبول کرنے کے لئے جرأت کے ساتھ تیار ہیں۔
آپ کے الفاظ میں وہ چیلنج حسبِ ذیل ہے۔
’’ہر ایک جو مجھے کذّاب سمجھتا ہے اور ہر ایک جو مکّار اور مفتری خیال کرتا ہے اور میرے دعویٔ مسیح موعود کے بارہ میں میرا مکذّب ہے اور جو کچھ مجھے خدا تعالیٰ کی طرف سے وحی ہوئی اس کو میرا افتراء خیال کرتا ہے وہ خواہ مسلمان کہلاتا ہو یا ہندو یا آریہ یا کِسی مذہب کا پابند ہو اس کو بہر حال اختیار ہے کہ اپنے طور پر مجھے مقابل پر رکھ کر تحریری مباہلہ شائع کرے …کہ مَیں خدا تعالیٰ کی قسم کھا کر کہتا ہوں کہ مجھے یہ بصیرت کامل طور پر حاصل ہے کہ یہ شخص (اس جگہ تصریح سے میرا نام لکھے) جو مسیحِ موعود ہونے کا دعویٰ کرتا ہے درحقیقت کذّاب ہے اور یہ الہام جن میںسے بعض اُس نے اِس کتاب میں لکھے ہیں یہ خدا کا کلام نہیں ہے بلکہ سب اُس کا افتراء ہے اور مَیں اُس کو درحقیقت اپنی کامل بصیرت اور کامل غور کے بعد اور یقینِ کامل کے ساتھ مفتری اور کذّاب اور دجّال سمجھتا ہوں ۔ پس اے خدائے قادر اگر تیرے نزدیک یہ شخص صادق ہے اور کذّاب اور مفتری اور کافر اوربے دین نہیں ہے تو میرے پر اس تکذیب اور توہین کی وجہ سے کوئی عذابِ شدید نازل کر ورنہ اس کو عذاب میں مبتلا کر۔ آمین۔
ہر ایک کے لئے کوئی تازہ نشان طلب کرنے کے لئے یہ دروازہ کُھلا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ71،72)
چونکہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ اس وقت اس دنیا میں موجود نہیں اور مباہلہ کا چیلنج قبول کرنے والے کے سامنے آپ کی نمائندگی میں کسی فریق کا ہونا ضروری ہے اس لئے مَیں اور جماعتِ احمدیہ اس ذمہ داری کو پورے شرح صدر، انبساط اور کامل یقین کے ساتھ قبول کرنے کا اعلان کرتے ہیں۔
چیلنج نمبر2
جماعتِ احمدیہ کے وہ تمام معاندین جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے خَلقِ خدا کو مسلسل یہ باور کرانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ جماعتِ احمدیہ جسے وہ قادیانی یا مرزائی کہتے ہیں حسبِ ذیل عقائد رکھتی ہے۔ ان کے نزدیک:
الف:۔ یہ جماعت دعویٰ کرتی ہے کہ اس کے بانی مرزا غلام احمد قادیانی ۔۔ خدا تھے۔
۔ خدا کا بیٹا تھے۔
۔ خدا کا باپ تھے۔
۔ تمام انبیاء سے بشمول حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم افضل اور برتر تھے۔
۔ ان کی وحی کے مقابلہ میں حدیثِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کوئی شَے نہیں۔
۔ ان کی عبادت کی جگہ مسجد عزت و احترام میں خانہ کعبہ کے برابر ہے۔
۔ قادیان کی سرزمین مکّہ مکرمہ کے ہم مرتبہ ہے۔
۔ قادیان سال میں ایک دفعہ جانا تمام گناہوں کی بخشش کا موجب بنتا ہے۔
۔ اور حج بیت اللہ کی بجائے قادیان کے جلسہ میں شمولیت ہی حج ہے۔
مَیں بحیثیت سربراہ جماعتِ احمدیہ عالمگیر یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ سارے الزامات سراسر جھوٹے اور کھلم کھلا افتراء ہیں۔ ان مذکورہ عقائد میں سے ایک عقیدہ بھی جماعتِ احمدیہ کا عقیدہ نہیں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ
ب:۔ بانیٔ سلسلہ احمدیہ کی عمومی تکذیب کے علاوہ ان کی مقدّس ذات سے دنیا کو بالخصوص مسلمانوں کو متنفّر کرنے کے لئے حسبِ ذیل مکروہ الزامات بھی لگائے جا رہے ہیں کہ بانیٔ سلسلہ احمدیہ نے
۔ ختمِ نبوّت سے صریحی انکار کیا۔
۔ قرآنِ مجید میں لفظی و معنوی تحریف کی۔
۔ روضۂ رسول ؐ کی توہین کی اور اسے نہایت متعفّن اور حشرات الارض کی جگہ قرار دیا۔
۔ حضرت امام حسینؓ کی توہین کی اور ان کے ذکر کو گونہہ یعنی ٹٹّی کا ڈھیر قرار دیا۔
۔ جھوٹے مدّعیانِ نبوّت کا مطالعہ کر کے دعویٰ نبوّت کیا۔
۔ انگریز کے ایماء پر اسلامی نظریۂ جہاد کو منسوخ کیا۔
۔ شرعی نبی ہونے کا دعویٰ کیا اور نئی شریعت لے کر آئے اور قرآنِ کریم کے مقابل پر احمدیوں کی کتاب ’’تذکرہ‘‘ ہے جسے وہ قرآن کریم کے ہم مرتبہ قرار دیتے ہیں۔
مَیں بحیثیت امام جماعتِ احمدیہ عالمگیر اعلان کرتا ہوں کہ یہ سب الزامات بھی سراسر جھوٹے اور افتراء ہیں اور ان میں ایک بھی سچا نہیں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ
ج:۔ حضرت بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی ذات پر گند اچھالنے کی خاطر مزید یہ کہا گیا کہ
۔ وہ دھوکہ باز اور بے ایمان ہے۔
۔ انہیں گھر کا مال غبن کرنے کی پاداش میں والد نے گھر سے نکال دیا تھا۔
۔ ان کی اکثر پیشگوئیاں اور مبیّنہ وحیٔ الٰہی جھوٹ کا پلندہ ہیں۔
۔ انگریز نے مرزا غلام احمد قادیانی کو لاکھوں ایکڑ زمینیں دیں۔
مَیں جماعتِ احمدیہ عالمگیر کی نمائندگی میں یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ سب باتیں سراسر جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ہیں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ
دـ:۔ بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کے علاہ جماعتِ احمدیہ پر جو دیگر عمومی الزامات لگائے جاتے ہیں وہ حسبِ ذیل ہیں:
۔ جماعت احمدیہ انگریز کا خود کاشتہ پودا ہے۔
۔ ملّتِ اسلامیہ کی دشمن ہے۔
۔ عالَمِ اسلام کے لئے ایک سرطان ہے۔
۔ انگریزوں اور یہودیوں کی اسلام دشمن سازش ہے۔
۔ اسرائیل اور یہودیوں کی ایجنٹ ہے۔
۔ امریکہ کی ایجنٹ ہے۔
۔ اس جماعت اور روس میں خفیہ مذاکرات کے ذریعہ تعلقات قائم ہو چکے ہیں۔
۔ نام نہاد اسرائیلی فوج کے اندر اس کا وجود ایک کھُلا راز ہے۔
۔ قادیانی شرپسندی کے لئے اسرائیل میں ٹریننگ لیتے ہیں۔
۔ چھ سو پاکستانی قادیانی اسرائیلی فوج میں بھرتی ہو گئے۔
۔ جرمنی میں چار ہزار قادیانی گوریلا تربیت حاصل کر رہے ہیں۔
مَیں بحیثیت سربراہ جماعتِ احمدیہ عالمگیر یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ سب باتیں سر تا پا جھوٹ ہیں اور جھوٹ کے سِوا کچھ نہیں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ
ر:۔ ان الزامات کے علاوہ حسبِ ذیل نہایت مکروہ الزام بھی جماعت احمدیہ پر لگائے جاتے ہیں۔
۔ احمدیوں کا کلمہ الگ ہے اور مسلمانوں والا کلمہ نہیں۔
۔ جب احمدی مسلمانوں والا کلمہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ پڑھتے ہیں تو دھوکہ دینے کی خاطر پڑھتے ہیں اور محمد سے مراد مرزا غلام احمد قادیانی لیتے ہیں۔
۔ احمدیوں کا خدا وہ خدا نہیں جو محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآنِ کریم کا خداہے۔
۔ قادیانی جن ملائکہ پر ایمان لاتے ہیں وہ وہ ملائک نہیں جن کا قرآن و سنّت میں ذکر ملتا ہے۔
۔ قادیانیوں کے رسول بھی مختلف۔
۔ ان کی عبادت بھی اسلام سے مختلف۔
۔ ان کا حج بھی مختلف۔
۔ غرضیکہ تمام بنیادی اسلامی عقائد میں قادیانیوں کے عقائد قرآن و سنّت سے جدا اور الگ ہیں۔
مَیں بحیثیت سربراہ جماعت احمدیہ عالمگیر اعلان کرتا ہوں کہ یہ الزامات سراسر جھوٹ اور افتراء ہیں اور کوئی ایک بھی ان میں سے سچا نہیں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ
ز:۔ جہاں تک پاکستان میں قومی اور ملّی نقطۂ نگاہ سے احمدیوں کے خلاف نفرت پھیلانے کا تعلق ہے، حسبِ ذیل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے۔
۔ قادیانی عقیدہ کے مطابق پاکستان اللہ کی مرضی کے خلاف بنا ہے۔
۔ مرزا محمود احمد (خلیفۃ المسیح الثانی) نے پاکستان توڑنے کا عہد کیا تھا۔
۔ تمام قادیانی اکھنڈ ہندوستان کے متعلّق مرزا بشیر الدین محمود احمد کی پیشگوئی کو پورا کرنے کے لئے کوشاں ہیں۔
۔ لیاقت علی خاں کو ایک قادیانی نے قتل کیاتھا۔
۔ قادیانیوں نے ملک میں خانہ جنگی کا منصوبہ تیار کر رکھا ہے۔
۔ قادیانی پاکستان کی سلامتی کے خلاف مسلسل سازشوں میں مصروف ہیں۔
۔ ملک میں موجودہ بدامنی قادیانی سازش کا نتیجہ ہے۔
۔ کراچی کے ہنگاموں کے پیچھے قادیانیوں کا ہاتھ ہے۔
۔ کراچی میں قادیانیوں نے کرفیو کے دوران دکانیں جلائیں۔
۔ بادشاہی مسجد کا واقعہ ( جس میں دیوبندیوں اور بریلویوں کی آپس میں لڑائی ہوئی) قادیانیوں کی سازش ہے۔
۔ قادیانیوں نے پانچ صد علماء کے قتل کا منصوبہ بنایا۔
۔ ملک میں بموں کے دھماکے، فرقہ واریت، لسانی تعصّبات اور تخریبی واقعات کے پیچھے قادیانی جماعت کا ہاتھ ہے۔
۔ اوجڑی کیمپ میں دھماکہ قادیانی افسروں نے کروایا ہے۔
۔ سانحہ راولپنڈی و اسلام آباد (اوجڑی کیمپ) سے دو روز قبل قادیانی اس علاقہ کو چھوڑ چکے تھے۔
۔ ربوہ میں روسی ساخت کا اسلحہ بھاری تعداد میں موجود ہے۔
۔ قادیانی ربوہ میں نوجوانوں کو روسی اسلحہ سے مسلّح کر کے ملک میں تخریب کاری کی تربیّت دے رہے ہیں۔
۔ قادیانی افسر نے ایٹمی رازچوری کر کے اسرائیل کو دیئے۔
مَیں بحیثیت سربراہ جماعت احمدیہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ تمام الزامات اوّل تا آخر جھوٹ اور افتراء کا پلندہ ہیں اور رتّی بھر صداقت نہیں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ
س:۔ جماعتِ احمدیہ کے موجودہ امام یعنی اس عاجز کے متعلّق حسبِ ذیل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ موجودہ امام جماعت احمدیہ
۔ اسلم قریشی نامی ایک شخص کے اغواء اور قتل میں ملوّث ہے۔
۔ غیر مسلم حکومتوں کا آلۂ کار بنا ہوا ہے۔
۔ فرضی نام اور فرضی پاسپورٹ پر مع اہل و عیال مُلک سے فرار ہوا۔
۔ لندن میں روسی سفیر سے طویل ملاقات کی۔
۔ نوبل انعام یافتہ ڈاکٹر عبدالسلام کے ہمراہ اسرائیل کا دورہ کیا۔
مَیں بحیثیت امام جماعت احمدیہ یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ تمام الزامات کلّیۃً جھوٹے اور افتراء ہیں اور ان میں کوئی بھی صداقت نہیں۔
لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلٰی الْکَاذِبِیْنَ
سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر معاندین احمدیّت کے مذکورہ بالا الزامات غلط ہیں اور احمدیّت وہ نہیں جو اوپر بیان کی گئی ہے تو پھر جماعتِ احمدیہ کے دعویٰ کے مطابق اس کے عقائد کیا ہیں؟
مَیں جماعتِ احمدیہ کی نمائندگی میں بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی کے وہ الفاظ دہراتا ہوں جو احمدیّت کے عقائد پر کھلی کھلی روشنی ڈالتے ہیں۔ اور مخالفینِ احمدیّت کو پھر یہ واضح چیلنج دیتا ہوں کہ اگر وہ سمجھتے ہیں کہ ہمارے وہ عقائد نہیں جو حسبِ ذیل تحریر میں بیان کئے گئے ہیں تو ان کے جھوٹا ہونے کا واشگاف اور کھلے کھلے الفاظ میں اعلان کریں اور لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیٰ الْکَاذِبِیْنَ کہیں۔
بانیٔ سلسلہ عالیہ احمدیہ فرماتے ہیں:
’’ہم اس بات پر ایمان لاتے ہیں کہ خدا تعالیٰ کے سوا کوئی معبود نہیں اور سیّدنا حضرت محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اس کے رسول اور خاتم الانبیاء ہیں۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ ملائک حق اور حشر اجساد حق اور روزِ حساب حق اور جنت حق اور جہنم حق ہے۔ اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو کچھ اللہ جلّ شانہٗ نے قرآنِ شریف میں فرمایا ہے اور جو کچھ ہمارے نبی صلّی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے وہ سب بلحاظ بیان مذکورہ بالا حق ہے اور ہم ایمان لاتے ہیں کہ جو شخص اس شریعتِ اسلام میں سے ایک ذرّہ کم کرے یا ایک ذرّہ زیادہ کرے یا ترکِ فرائض اور اِباحت کی بنیاد ڈالے وہ بے ایمان اور اسلام سے برگشتہ ہے۔ اور ہم اپنی جماعت کو نصیحت کرتے ہیں کہ وہ سچے دل سے اس کلمہ طیّبہ پر ایمان رکھیں کہ لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰہِ اور اسی پر مریں اور تمام انبیاء اورتمام کتابیں جن کی سچائی قرآنِ شریف سے ثابت ہے ان سب پر ایمان لاویں اور صوم و صلوٰۃ اور زکوٰۃ اور حج اور خدا تعالیٰ اور اس کے رسول کے مقرر کردہ تمام فرائض کو فرائض سمجھ کر اور تمام منہیّات کو منہیّات سمجھ کر ٹھیک ٹھیک اسلام پر کاربند ہوں۔ غرض وہ تمام امور جن پر سلف صالحین کو اعتقادی اور عملی طور پر اجماع تھا۔ اور وہ امور جو اہلِ سنّت کی اجماعی رائے سے اسلام کہلاتے ہیں ان سب کا ماننا فرض ہے۔ اور ہم آسمان اور زمین کو اس بات پر گواہ کرتے ہیں کہ یہی ہمارا مذہب ہے۔‘‘
(ایام الصلح۔ روحانی خزائن جلد 14 صفحہ523)
’’مَیں ہمیشہ تعجب کی نگاہ سے دیکھتا ہوں کہ یہ عربی نبی جِس کا نام محمدؐ ہے (ہزار ہزار درود اور سلام اس پر) یہ کِس عالی مرتبہ کا نبی ہے اس کے عالی مقام کا انتہا معلوم نہیں ہو سکتا اور اس کی تاثیر قدسی کا اندازہ کرنا انسان کا کام نہیں۔ افسوس کہ جیسا حق شناخت کا ہے اس کے مرتبہ کو شناخت نہیں کیا گیا۔ وہ توحید جو دنیا سے گم ہو چکی تھی وہی ایک پہلوان ہے جو دوبارہ اس کو دنیا میں لایا۔ اس نے خدا سے انتہائی درجہ پر محبت کی اور انتہائی درجہ پر بنی نوع کی ہمدردی میں اس کی جان گداز ہوئی اس لئے خدا نے جو اس کے دِل کے راز کا واقف تھا اُس کو تمام انبیاء اور تمام اوّلین و آخرین پر فضیلت بخشی اور اس کی مرادیں اس کی زندگی میں اس کو دیں۔ وہی ہے جو سرچشمہ ہر ایک فیض کا ہے اور وہ شخص جو بغیر اقرار افاضہ اس کے کے کسی فضیلت کا دعویٰ کرتا ہے وہ انسان نہیں بلکہ ذریّتِ شیطان ہے۔ کیونکہ ہر ایک فضیلت کی کنجی اس کو دی گئی ہے اور ہر ایک معرفت کا خزانہ اس کو عطا کیا گیا ہے۔ جو اُس کے ذریعہ سے نہیں پاتا وہ محرومِ ازلی ہے۔ ہم کیا چیز اور ہماری حقیقت کیا ہے۔ ہم کافرِ نعمت ہوں گے اگر اس بات کا اقرار نہ کریں کہ توحیدِ حقیقی ہم نے اسی نبی کے ذریعہ سے پائی اور زندہ خدا کی شناخت ہمیں اس کامِل نبی کے ذریعہ سے اور اس کے نور سے ملی ہے اور خدا کے مکالمات اور مخاطبات کا شرف بھی جس سے ہم اس کا چہرہ دیکھتے ہیں اسی بزرگ نبی کے ذریعہ سے ہمیں میسّر آیا ہے۔‘‘
(حقیقۃ الوحی۔ روحانی خزائن جلد 22صفحہ118،119)
یہ ہے جماعتِ احمدیہ کا عقیدہ اور مذہب اور یہ ہے حضرت بانیٔ سلسلہ احمدیہ کا وہ مقام جو اُن کا اصلی اور حقیقی مقام ہے۔ جو شخص بھی اس کے سوا کِسی اور مذہب کو جماعتِ احمدیہ کی طرف منسوب کرنے کی جسارت کرتا ہے وہ سراسر ظلم اور افتراء سے کام لیتا ہے۔ اور مَیں بحیثیتِ امام جماعت احمدیہ یہ دعوت دیتا ہوں کہ اگر کوئی شخص مذکورہ بالا عبارات پڑھنے کے بعد بھی اپنے معاندانہ مؤقف پر قائم رہے اور جماعت پر جھوٹ بولنے سے باز نہ آئے تو ایسا شخص خواہ حکومتِ پاکستان سے تعلّق رکھتا ہو یا کِسی اور حکومت سے، رابطہ عالمِ اسلامی سے تعلّق رکھتا ہو یاعلماء کے کِسی گروہ سے، سیاسی جماعت سے تعلق رکھتا ہو یا غیر سیاسی شخصیت ہو۔ غرضیکہ ہر وہ شخص جو کِسی گروہ کی نمائندگی کرتا ہو میرے مباہلہ کے چیلنج کو قبول کرے اور حسبِ ذیل دعا میں میرے ساتھ شریک ہو اور اپنے اہل و عیال، اپنے مَردوں اور عورتوں اور ان تمام متّبعین کو بھی اپنے ساتھ شریک کرے جو اس کی ہمنوائی کا دم بھرتے ہیں اور فریقِ ثانی بن کر مباہلہ کے اس چیلنج پر دستخط کرے اور اس کا اعلانِ عام کرے اور پھر ہر ممکنہ ذریعہ سے اس کی تشہیر کرے۔
اے قادر و توانا، عالم الغیبِ والشہادۃ خدا! ہم تیری جبروت اور تیری عظمت اور تیرے وقار اور تیرے جلال کی قسم کھا کر اور تیری غیرت کو ابھارتے ہوئے تجھ سے یہ استدعا کرتے ہیں کہ ہم میں سے جو فریق بھی ان دعاوی میں سچا ہے جن کا ذکر اوپر گذر چکا ہے اس پر دونوں جہان کی رحمتیںنازل فرما۔ اس کی ساری مصیبتیں دُور کر۔ اس کی سچائی کو ساری دنیا پر روشن کر دے۔ اس کو برکت پر برکت دے اور اس کی طرف منسوب ہونے والے ہر بڑے اورچھوٹے، مرد وعورت کو نیک چلنی اور پاکبازی عطا کر اور سچّا تقویٰ نصیب فرما اور دن بدن اس سے اپنی قربت اور پیار کے نشان پہلے سے بڑھ کر ظاہر فرما تا کہ دنیا خوب دیکھ لے کہ تُو ان کے ساتھ ہے اور ان کی حمایت اور ان کی پُشت پناہی میں کھڑا ہے۔ اور ان کے اعمال، ان کی خصلتوں اور اٹھنے اور بیٹھنے اور اسلوبِ زندگی سے خوب اچھی طرح جان لے کہ یہ خدا والوں کی جماعت ہے اور خدا کے دشمنوں اور شیطانوں کی جماعت نہیں ہے۔اور اے خدا! تیرے نزدیک ہم میں سے جو فریق جھوٹا اور مفتری ہے اس پر ایک سال کے اندر اندر اپنا غضب نازل فرما اور اسے ذلّت اور نکبت کی مار دے کر اپنے عذاب اور قہری تجلّیوں کا نشانہ بنا اور اس طَور سے ان کو اپنے عذاب کی چکّی میں پِیس اور مصیبتوں پر مصیبتیں ان پر نازل کر اور بلاؤں پر بلائیں ڈال کہ دنیا خوب اچھی طرح دیکھ لے کہ ان آفات میں بندے کی شرارت اور دشمنی اور بغض کا دخل نہیں بلکہ محض خدا کی غیرت اور قدرت کا ہاتھ یہ سب عجائب کام دکھلا رہا ہے۔ اس رنگ میں اس جھوٹے گروہ کو سزا دے کہ اس سزا میں مباہلہ میں شریک کسی فریق کے مکر و فریب کے ہاتھ کا کوئی بھی دخل نہ ہو۔ اور وہ محض تیرے غضب اور تیری عقوبت کی جلوہ گری ہو تاکہ سچے اور جھوٹے میں خوب تمیز ہو جائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو اور ظالم اور مظلوم کی راہیں جدا جدا کر کے دکھائی جائیں۔ اور ہر وہ شخص جو تقویٰ کا بیج اپنے سینہ میں رکھتا ہے اور ہر وہ آنکھ جو اخلاص کے ساتھ حق کی متلاشی ہے اس پر معاملہ مشتبہ نہ رہے اور ہر اہلِ بصیرت پر خوب کھل جائے کہ سچائی کس کے ساتھ ہے اور حق کس کی حمایت میں کھڑا ہے۔ (آمین یا رب العالمین)
(باقی آئندہ);