اَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج (دوسری قسط)
امام جماعت احمدیہ عالمگیر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے 10؍ جون 1988ء کودیا گیا اَئِمَّۃُ التکفیر کو مباہلہ کا کھلا کھلاچیلنج اور اس کے عظیم الشان نتائج
مباہلہ کے چیلنج پر مولویوں کا ردِّ عمل
مباہلہ کے اس چیلنج کے بعد دنیا بھر میں مختلف معاندین کی طرف سے کئی قسم کے تبصرے اخبارات و رسائل میں شائع ہوئے۔ بعض نے مباہلہ کے چیلنج کو قبول کرنے سے گریز کے لئے عجیب و غریب عذر تراشے اور بعض نے اپنے اپنے رنگ میں یہ اعلان کئے کہ مباہلہ منظور ہے لیکن تفصیلی بیان میں بعض اپنی عبارتیں داخل کر دیں جن کی رُو سے وہ بعد میں یہ کہہ سکیں کہ ہم نے مباہلہ منظور تو کیا تھا مگر فلاں شرط کے ساتھ کیا تھا اور چونکہ یہ شرط پوری نہیں کی گئی اس لئے مباہلہ بھی نہیں ہوا۔
چنانچہ مختلف قسم کے تبصرے اخبارات و اشتہارات میں شائع ہوتے رہے۔ اُن میں سے بعض نے یہ کہا کہ فلاں میدان میں پہنچو ،کوئی کہتا فلاں میدان میں پہنچو ،کوئی کہتا مسجد نبوی میں داخل ہو کے مباہلہ کرو اور مسجد نبوی کے متعلق پھر خود ہی فتویٰ دیتا کہ بعض کے نزدیک کافر کو وہاںآنے کی اجازت نہیںہے لیکن بعض فقہاء نے بعض مجبوریوں کی خاطر کافروں کو اندر آنے کی اجازت دے دی ہے۔
جبکہ قرآن کریم صرف یہ فرماتا ہے ثُمَّ نَبْتَہِلْ فَنَجْعَلْ لَّعْنَۃَ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنَ۔کہ ہم پھر ابتہال کریں اور ابتہال کے بعد اللہ تعالیٰ کی لعنت جھوٹے پر ڈالیں ۔اب جھوٹے پر خدا کی لعنت ڈالنے میں کون سے مقام کی ضرورت ہے؟ کون سے ملک یا کسی خاص صوبے، علاقے یا شہر کی ضرورت ہے ؟سارے قرآن میں اس کا کوئی ذکر نہیں ملتا ۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلّم جن کو مباہلے کا چیلنج دے رہے تھے اُن کے بیوی بچے ،مرد ،عورتیں بڑے چھوٹے سارے اُس جگہ سے بہت دُور تھے اور ہر گز یہ مقصود نہیں تھا کہ پہلے اُن سب کو یہاں لے کے آؤپھر مباہلہ قبول ہو گا۔
لیکن اکثر علماء نے ابتہال کا مطلب گالیاں دینا سمجھ رکھا ہے۔ چنانچہ مباہلے کے اس چیلنج کے جواب میں معاند مولویوں کی طرف سے جماعت کے خلاف نہایت ہی گندے، لغو اور بیہودہ اعتراضات پر مشتمل رسالے شائع کر کے لوگوں میں شدید اشتعال پھیلایا گیا۔ شاید ان کے نزدیک ابتہال کا معنی اشتعال ہے۔ بہت سی جگہوں پر مباہلہ کا چیلنج تقسیم کرنے والے احمدیوں کو یہ کہہ کراذیتیں دی گئیں اور قید میں ڈالا گیا اور ان پر کئی قسم کے مقدمے کھڑے کئے گئے کہ انہوں نے اس چیلنج مباہلہ کے ذریعے ابتہال کی طرف بلا کر انہیں اشتعال دلایا ہے۔ حالانکہ مباہلہ تو معاملہ کو خدا تعالیٰ کی عدالت میں لے کر جانے کا نام ہے اور اس کا تعلق دنیا کی عدالت سے ہے ہی نہیں۔
بعض اہلِ سنّت علماء کا یہ مؤقف تھاکہ غیر مسلم سے مباہلہ نہیں ہو سکتا یعنی ان معنوں میں کہ وہ کہتے ہیں کہ غیر مسلم کو حق نہیں ہے کہ مباہلے کا چیلنج دے ۔اور چونکہ وہ احمدیوں کو غیر مسلم سمجھتے ہیں اس لئے وہ یہ مباہلے کا چیلنج قبول نہیں کر سکتے۔
بعض نے یہ کہا کہ مباہلے کا چیلنج ہم اس لیے قبول نہیں کر سکتے کہ قرآن کریم سے نصّ صریح سے ثابت ہے کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں آسکتا ۔توچونکہ ختم نبوت کا ہماراعقیدہ قرآن کی نص صریح سے ثابت شدہ ہے اس لیے اس پر مباہلہ نہیں ہو سکتا۔
اب جہالت کی حد ہے کہ حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی صداقت سے بڑھ کر خاتمیت ثابت ہے ۔قرآن کریم نے تو مباہلے کا چیلنج ہی اس بات پر دیا تھا کہ حضرت محمدمصطفی صلی اللہ علیہ وسلم سچے ہیں یا مخالف سچا ہے اور وہ ان کے نزدیک نص صریح سے ثابت نہیں تھا۔ نعوذ باللہ من ذالک۔اس لیے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو اجازت تھی کہ وہ چیلنج دے دیں۔کیونکہ آپ کی صداقت ،خدانخواستہ نعوذ باللہ من ذالک چ،ونکہ مبہم تھی اس لیے مباہلے کے لئے گویا اُس کی وضاحت چاہی گئی تھی۔
پھرانگلستان میں بعض علماء نے اس بات کا اظہار کیا کہ مباہلے کا چیلنج منظورہے ۔آپ بھی اپنے بیوی بچوں کو لے کے آجائیں ہم بھی آ جاتے ہیں اور پھر ہم دریائے ٹیمزمیں چھلانگ لگائیں گے اور جو پار اُتر جائے گا وہ سچا اور جو ڈوب جائے گا وہ جھوٹا۔
معاند مولویوں کے ایسے بیانات سے صاف پتا چلتا ہے کہ وہ دین کے معاملے میں ہر گز سنجیدہ نہیں۔ وہ تمسخر سے یا گالیاں دے کر یا شور مچا کر سمجھتے ہیں کہ اپنا مقدمہ جیت جائیں گے لیکن فی الحقیقت خدا کی عدالت میں مقدمہ لے جانا ہی نہیں چاہتے۔ ان کے بیانات کو پڑھیں تو معلوم ہو گا کہ وہ آخر دنیا کے فیصلے کی طرف لَوٹتے ہیں یا دنیاوی مقابلوں کے ذریعہ فیصلہ کرنا چاہتے ہیں۔
ایک صاحب نے پاکستان سے اس چیلنج کو قبول کرتے ہوئے یہ پیغام بھیجا کہ دنیا کی کسی چوٹی کی عمارت سے یا پہاڑی سے کسی بلندی سے آپ بھی چھلانگ لگائیں مَیں بھی چھلانگ لگاتا ہوں جو بچ جائے وہ سچا۔ جو نہ بچے گاوہ جھوٹا۔حالانکہ یہ وہی چیلنج ہے جو شیطان نے مسیح کو دیا تھا اور مسیح نے اسی سے اُس کو پہچانا تھا۔
لاہور سے طاہر القادری صاحب نے اعلان کیا کہ فلاں تاریخ کو ہم منٹو پارک پہنچ جائیں گے۔ اُس تاریخ کو مرزا طاہر احمد کااپنے ساتھیوں سمیت رات کے بارہ بجے وہاں مو جود ہو نا ضروری ہے اور اگر وہ نہ پہنچے تو پھر ہم ایک مہینہ انتظار کریں گے۔ایک مہینے کے بعد پھر ہم حکومت پاکستان سے کہیں گے کہ ان کے ہارنے کا اور ہمارے جیتنے کا اعلان کر دیں۔ گویا ان کی عدالت ہی دنیا کی عدالت ہے، ان کا خدا گویا حکومت پاکستان ہے اور اُس نے فیصلہ کر نا ہے۔کبھی کسی مباہلے کا فیصلہ اس طرح ہوا ہے کہ فلاں حکومت نے اعلان کر دیا کہ فلاں ہار گیا فلاں جیت گیا؟ وہ سمجھتے ہیں چالاکی سے ،ہو شیاری سے ، چرب زبانی سے اگر ہم دنیا پر اور اپنے مریدوں پر یہ اثر ڈال دیں کہ ہم جیت گئے اور دشمن ہار گیا تو یہی مباہلے کا انجام ہے اور یہی بہت کافی ہے۔حالانکہ یہ کافی نہیں ہے۔ اب تک خدا تعالیٰ نے مباہلے کے بعد جو نشان ظاہر فرمائے ہیں اس سے ایک بات تو ثابت ہوئی کہ ان کا جھوٹا ہونا دن بدن کھلتا چلا جا رہا ہے۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ اگست1988ء۔ خطباتِ طاہر جلد 7 صفحہ 531تا545)
مباہلہ کا چیلنج اور پروفیسر طاہر القادری
حضور رحمہ اللہ کی طرف سے مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں جناب طاہر القادری صاحب کے اس قسم کے بیانات پر جماعت احمدیہ کے پریس سیکرٹری رشید احمد چوہدری صاحب کی طرف سے ان کے نام ایک خط لکھا گیا ۔ یہ خط روزنامہ آغاز کراچی 24؍ اکتوبر 1988ء میں شائع ہوا۔ (یہ خط ہفت روزہ بدر قادیان 17؍ نومبر 1988ء میں بھی شائع ہوا۔ اور ذیل میں ہدیۂ قارئین ہے۔)
’’جناب طاہر القادری صاحب!
آپ کی طر ف سے امام جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد صاحب کے مباہلہ کے چیلنج کے جواب میں جو اشتہاری قسم کے خطوط اور بیانات اخباروں میں شائع ہو رہے ہیں ان کے مطالعہ کے بعد ہم پُورے وثوق کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ نہ صرف یہ کہ آپ اس معاملہ میں سنجیدہ نہیں بلکہ آپ کا دل تقویٰ سے خالی ہے۔ اور آپ کی حیثیت ایک مجمع باز کی سی ہے جو سستی شہرت حاصل کرنے کے لئے چالاکیوں سے کام لے رہا ہے۔
سب سے پہلے تو آپ کا یہ ظاہر کرنا کہ گویا امام جماعت احمدیہ نے چیلنج قبول کرنا ہے صریحًا عوام کی آنکھوں میں دھول ڈالنے کے مترادف ہے۔ کیونکہ امام جماعتِ احمدیہ تو نہ صرف چیلنج دے چکے ہیں بلکہ کھلم کھُلا خطبات میں بھی اور تحریر کے ذریعہ بھی متعدد بار آپ لوگوں کے الزامات کے جواب میں لعنۃ اللہ علیٰ الکاذبین کہہ چکے ہیں اور مباہلہ کے چیلنج کا ایک فریق بن چکے ہیں جس کے بعد تو آپ کی طرف سے ہی قبولیت کا سوال باقی تھا، نہ کہ دوبارہ ان کی طرف سے۔ آپ کو بھی چاہئے تھا کہ جس طرح جماعت احمدیہ نے چیلنج شائع کروایا ہے۔ اخبارات میں اکیلے یا مِل کر اپنے دستخطوں کے ساتھ امام جماعتِ احمدیہ کے چیلنج کے الفاظ کو شائع کراتے اور تحدّی کے ساتھ اعلان کراتے کہ مرزا طاہر احمد ان سب باتوں میں جھوٹا ہے اور جس شخص پر یہ بطور مسیح موعود اور امام مہدی ایمان لایا ہے وہ بھی یقینًا جھوٹا ہے۔ پس جس طرح اس نے لعنۃ اللہ علیٰ الکاذبین کہہ کر جھوٹے پر لعنت ڈالی ہے ہم بھی قرآن کریم کے بیان کردہ الفاظ میں لعنۃ اللہ علیٰ الکاذبین کہہ کر پوری ذمّہ داری کے ساتھ یہ اعلان کرتے ہیں کہ مرزا طاہر احمد کے دیئے ہوئے مباہلہ میں جن الزامات کو وہ علماء کی طرف سے بہتان قرار دے رہے ہیں وہ سارے الزامات سچّے ہیں اور اگر ہم جھوٹ بول رہے ہیں تو اللہ تعالیٰ کی ہم پر لعنت پڑے۔ اگر آپ میں ذرا سا بھی تقویٰ ہوتا تو یہ سیدھا سادا طریق اختیار کرتے۔
دوسرا پہلو اس مطالبہ سے تعلق رکھتا ہے جو آپ کی طرف سے پیش ہو رہا ہے کہ فلاں میدان میں اکٹھے ہوں اور اگر لاہور فلاں تاریخ کو نہ پہنچیں تو ہم تمہیں جھوٹا سمجھیں گے۔ یا ہمیں وقت دو کہ ہم تمہاری مقرّر کردہ جگہ پر پہنچ کر مباہلہ کریں۔ ہمارے نزدیک یہ سب نفس کی بہانہ سازیاں ہیں اور مباہلہ سے فرار کی راہ! ہمارا یہ ایمان ہے کہ خدا تعالیٰ کائنات میں ہر جگہ ہے اور اس کے قبضۂ قدرت سے کوئی جگہ باہر نہیں اور کوئی مقام اس کے تسلّط اور جبروت سے خالی نہیں۔وَسِعَ کُرْسِیُّہُ السَّمَاوَاتِ وَالْاَرْضَ۔ اس کی کرسی زمین و آسمان پر محیط ہے،نہ کسی دُنیاوی بادشاہ کی طرح پاکستان یا انگلستان میں کسی مقام پر پڑی ہوئی ہے۔ اُس کو مخاطب کر کے لعنۃ اللہ علیٰ الکاذبین کہنے میں آپ کو آخر کیا خطرہ ہے؟ اور کیوں فریقین کی موجودگی ضروری ہے؟ کیا خدا تعالیٰ اِس بات پر قادر نہیں کہ آپ کی لاہور میں ڈالی ہوئی لعنت کا انہیں لندن میں شکار بنا دے یا اُن کی دنیا میں کسی مقام سے ڈالی ہوئی لعنت کا آپ کو شکار بنا دے۔ خواہ کہیں بھی آپ ہوں۔
تیسری بات یہ ہے کہ اگر آپ آیتِ مباہلہ سے یہ استنباط کر رہے ہیں کہ آمنے سامنے ہونا ضروری ہے تو اس کی رُو سے پھر تمام ’’اَنْفُس‘‘ جو خواہ کسی فریق سے تعلق رکھتے ہوں، ان کا اپنے سارے بیوی بچّوں کے ہمراہ وہاں موجود ہونا ضروری ہو گا۔ اور کیا پھر ساری دُنیا کے ایک کروڑ احمدیوں کا اور آپ کے مریدوں کا ، خواہ وہ ہزاروں میں ہوں یا لاکھوں میں، کسی ایک مقام پر اکٹھا ہونا ممکن ہے؟ آپ اپنی ایک لغو تأویل کو قرآنِ پاک کی طرف منسوب نہ کریں۔
مزید برآں کیا آپ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ مباہلہ کا چیلنج جو نجران کے عیسائی وفد کو دیا گیا تھا، اس میں اُن سے یہ مطالبہ کیا گیا تھا کہ تم اپنے بیوی بچّوں اور اَنفس کو مدینہ میں حاضر کرو ورنہ مباہلہ نہیں ہو سکے گا۔ یا رسولِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ پیشکش فرمائی تھی کہ آپؐ اور آپؐ کے اعزّہ و اقارب اور دیگر مسلمان اَنفس سب نجران میں کسی جگہ اکٹھے ہوں گے۔ پس آپ ایسی لغو تأویل کرتے ہیں جو عقل اور واقعات ، دونوں کے خلاف ہے۔
4۔ بہر حال اگر آپ نے یہ فیصلہ کر لیا ہے کہ مباہلہ سے بچنے کے لئے یہ بہانہ اختیار کرنا ہے کہ خدا تعالیٰ، نعوذ باللہ، اس بات پر قادر نہیں ہے کہ وہ دُور بیٹھے ہوئے لوگوں پر لعنت کے ابتہال کو قبول فرمائے تو پھر ہم آپ کی توجہ قرآنِ کریم کی ایک دوسری آیت کی طرف مبذول کراتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:اِنْ زَعَمْتُمْ اَنَّکُمْ اَوْلِیَاءُ لِلّٰہِ مِنْ دُوْنِ النَّاسِ فَتَمَنَّوُا الْمَوْتَ اِنْ کُنْتُمْ صَادِقِیْنَ۔ (سورۃ الجمعہ 7) آپ چونکہ سمجھتے ہیں کہ آپ مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے متّبعین کی نسبت خدا تعالیٰ کو زیادہ پیارے ہیں۔ لہٰذا اس آیت کی روشنی میں موت کی تمنّا کر کے دکھائیں کہ اگر آپ اِس دعویٰ میں جھوٹے ہیں تو اللہ تعالیٰ آپ کو ایک عبرتناک موت دے کر دُنیا کے لئے ہدایت کا موجب بنا دے۔
5۔ ہم چونکہ قطعی طور پر اس یقین پر قائم ہیں کہ مباہلے کے لئے کسی ایک جگہ اکٹھا ہونا ضروری نہیں۔ صرف وضاحت کے ساتھ دنیا کے علم میں لا کر یہ دُعا کرنی ضروری ہے کہ جھوٹے پر خدا کی لعنت ہو۔ تا کہ یہ محض انفرادی بد دعا نہ رہے بلکہ اس کے نتیجہ میں ظاہر ہونے والے نشان بنی نوع انسان کے لئے ہدایت کا موجب بنیں۔ اِس لئے امام جماعت احمدیہ نے جو پیشکش کی تھی، اس میں ایسی کوئی شرط نہیں رکھی تھی اور وہ خود اپنی جماعت کے ساتھ 10؍ جون 1988ء بروز جمعۃ المبارک جھوٹے پر لعنت ڈال کر مباہلے کا ایک فریق پہلے ہی بن چکے ہیں۔ پس اگر آپ میں اخلاقی اور ایمانی جرأت ہے تو آپ بھی صاف صاف اعلان کریں کہ آپ کو یہ دعوت منظور ہے یا نہیں؟ اگر منظور ہے تو پھر وہ الزامات دُہرائیں جو آپ لوگ مدّت سے جماعت احمدیہ پر لگاتے چلے آ رہے ہیں اور جن کا ذکر مباہلہ کے چیلنج میں کیا گیا ہے اور لعنۃ اللہ علیٰ الکاذبین کہہ کر مباہلہ کا فریق بن جائیں۔
لیکن ہم آپ کو نصیحت کرتے ہیں کہ تقویٰ اختیار کریں اور استغفار سے کام لیں اور خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ امام کے خلاف بے باکی چھوڑ دیں تا کہ آپ خُدا کی ناراضگی سے بچیں۔ اور اب تک خدا تعالیٰ نے جو تائیدی نشان ظاہر فرمائے ہیں، ان سے عبرت حاصل کریں۔
مباہلہ کا لبّ لباب تو یہ ہے کہ دوسرے فریق کا جھوٹ دنیا پر ظاہر ہو جائے۔ اگر آپ نے بقیہ امور کے متعلق ضِد کا مظاہرہ کرنے کا فیصلہ بھی کر لیا ہو تو بھی مخالف علماء کے اس جھوٹ کا آپ کیا عذر پیش کریں گے جس کا مباہلہ میں ذکر ہے۔ اور وہ جھوٹ سب دنیا کے سامنے طشت از بام ہو چکا ہے۔ یعنی جماعت احمدیہ اور امام جماعت احمدیہ پر اسلم قریشی کے قتل کا الزام۔
اگر آپ اِس تنبیہ کے باوجود بھی دھوکہ دہی سے باز نہ آئے اور عوام پر یہ تأثر ڈالا کہ آپ مباہلہ کا چیلنج دے رہے ہیں اور گویا ہم راہِ فرار اختیار کر رہے ہیں تو ہماری دُعا ہے کہ خدا تعالیٰ آپ کے اِس فعل کو مباہلہ کی قبولیت کے مترادف سمجھتے ہوئے آپ کے متعلق اپنا قہری نشان ظاہر فرمائے۔
خاکسار:
رشید احمد چوہدری۔پریس سیکرٹری جماعت احمدیہ۔ لندن‘‘
(بحوالہ ہفت روزہ بدر قادیان۔ 17؍ نومبر 1988ء صفحہ 11)
جماعت اسلامی کے سربراہ کومباہلہ کا چیلنج اور ان کا ردِّ عمل
جماعت اسلامی کے سربراہ میاں طفیل محمد کو بھی مباہلے کا چیلنج بھجوایا گیا تھا۔ انہوںنے جو جواب دیا اس کے اہم نکات کا جواب دیتے ہوئے انہیں مکرم رشید احمد چوہدری صاحب پریس سیکرٹری نے لکھا:
’’جناب میاں طفیل محمد صاحب!
آپ کا خط حضرت امام جماعت احمدیہ ایدہ اللہ تعالیٰ کی خدمتِ اقدس میں موصول ہوا۔ آپ کے خط کے اہم نکات کا جواب اختصار کے ساتھ درج ذیل ہے۔
1۔ آپ نے فرمایا ہے کہ احمدیوں کو قرآن پاک کی اصطلاحیں استعمال کرنے کا کوئی حق نہیں کیونکہ ’’ہماری پارلیمان، ہماری عدالتیں اور ہمارے علماء و مفکّرین سب کے سب مرزا غلام احمد قادیانی اور ان کے پیروکاروں کو خارج از اسلام اور غیرمسلم قرار دے چکے ہیں‘‘۔
آپ کی اس تحریر سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ آپ محض ایک دنیا دار آدمی ہیں اور مذہب کو بھی صرف سیاست کے ترازو میں تولنا جانتے ہیں۔ تبھی تو آپ نے خدا اور اس کے رسول کے فیصلوں کو یکسر نظر انداز کر کے پارلیمان کے فیصلے کا حوالہ دیا ہے۔ یہ پارلیمان وہ ہے جس کی اکثریت خود آپ کے نزدیک دینی علم و عمل سے عاری تھی۔ آپ نے قرآن کریم، احادیث اور تمام سابقہ اَئمہ اسلام سے ہٹ کر یہ عجیب مسلک اختیار کر لیا ہے کہ کسی شخص یا جماعت کے مسلمان ہونے کا فیصلہ خدا اور اس کا رسولؐ نہیں کریں گے۔ بلکہ ملکی پارلیمان، عدالتیں اور ملّاں مجاز ہیں کہ جس کو چاہیں مسلمان قرار دیں اور جس کو چاہیں دائرہ اسلام سے خارج کر دیں۔
جماعت احمدیہ کا مؤقف ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ ہر وہ شخص جو کلمۂ شہادت پڑھتا ہے اور اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہے، اس کے مسلمان کہلانے کا حق دنیا میں کوئی اس سے نہیں چھین سکتا۔ یہ حق اس کو خدا اور رسول ؐ نے دیا ہے۔ اور دنیا کی طاقت نہیں کہ اس سے اس حق کو چھین سکے جو خدا اور رسول نے اس کو عطا کیا ہے۔
آپ کے خط سے یہ بھی کوتاہ نظری معلوم ہوئی کہ اسلام تو عالمگیر ہے اور آپ پاکستان کی پارلیمنٹ کے فیصلے کو ایک عالمگیر مذہب کے اوپر چسپاں کرنے کا زعم رکھتے ہیں۔ پاکستان کا قانون تو پاکستان کی جغرافیائی حد سے باہر نہیں جاتا جبکہ اسلام ایک عالمگیر مذہب ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رحمۃ للعالمین تھے۔ اِس لئے پاکستان ہو یا کوئی اور ملک کسی کے سیاسی فیصلے کا مذہبِ اسلام پر کوئی اثر نہیں ہو سکتا۔
2۔ آپ نے یہ بھی لکھا ہے کہ ’’ہمارے نزدیک مباہلہ تو کجا، کسی بحث و تکرار کے لئے آمادگی بھی ارتکابِ کفر کے مترادف ہے۔‘‘
آپ کی یہ بات بھی قرآن کریم اور سنتِ رسولؐ کے بالکل برعکس ہے۔ اور آپ کا مؤقف یہ بنتا ہے کہ چونکہ آپ کو احمدیت کے جھوٹا ہونے اور اپنے سچا ہونے پر کامل اعتماد ہے، اس لئے کسی مباہلہ کی گنجائش ہی نہیں رہتی۔ آپ نے یہ اتنا خطرناک مؤقف اختیار کیا ہے اور حضرت اقدس محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم اور قرآن کریم کی ایسی ہتک کی ہے کہ آپ پر کثرت سے استغفار لازم ہے۔ جب حضورِ اکرمؐ نے نجران کے عیسائیوں کو مباہلہ کی دعوت دی تو کیا نعوذباللہ آپؐ کو ان کے جھوٹا ہونے اور اپنے سچا ہونے میں کسی قسم کا شک تھا؟کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی بڑھ کر آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سچائی پر ایمان ہے؟ آپ کی ذہنی الجھنوں اور تضاد پر افسوس ہوتا ہے کہ عالم دین کہلا کر کس قدر دین کی مبادیات سے غافل ہیں۔
آپ کے خط کے دوسرے حصے میں جن الزامات کا ذکر کیا گیا ہے یہ تو سب وہی الزامات ہیں جو ہمیشہ جماعت پر لگائے جاتے ہیں اور آپ کی اس قسم کی دل آزاریوں کی وجہ سے ہی تو آپ کو دعوتِ مباہلہ دی گئی ہے۔ آپ پھر انہی باتوں کو دہرا رہے ہیں۔
حضرت امام جماعت احمدیہ کو ان الزامات کے جھوٹا ہونے پر اتنا یقین ہے کہ لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنکہا ہے۔ اگر آپ کو ان الزامات کی صداقت پر اتنا ہی یقین ہے تو پھر لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الْکَاذِبِیْنکہنے میں کیا حرج ہے؟ کیا عالم الغیب والشہادۃ خدا کو علم نہیں کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا؟ آپ کے لئے تو یہ بہترین موقعہ ہے کہ آپ حضرت امام جماعت احمدیہ کا یہ چیلنج قبول کر کے عوام الناس کو گمراہی سے بچا لیں۔ ہماری تو سمجھ میں یہ بات نہیں آتی کہ آخر آپ فیصلہ خدا تعالیٰ کی عدالت میں لے جانے سے ہچکچاہٹ کیوں ظاہر کر رہے ہیں۔‘‘
(بحوالہ ہفت روزہ ’بدر‘ قادیان 19 ؍ جنوری 1989ء صفحہ 1اور6)
مباہلہ کا اصل مقصود
حضور رحمہ اللہ نے اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 5؍ اگست1988ء میں بتایا کہ مباہلہ سے مقصد صرف اتنا ہے کہ خدا تعالیٰ ایسے روشن نشان ظاہر فرمائے جس کے نتیجہ میں کثرت سے لوگ ہدایت پائیں۔ آپؒ نے فرمایا:
’’… اس لیے اگر عبرت انگیز نشان چاہتے ہیں تو اس وجہ سے کیو نکہ عبرت میں دنیا کا ایک نشان کو دیکھنے کا مضمون شامل ہو تا ہے۔جب کہتے ہیں کہ فلاں سزا میں عبرت پائی جاتی ہے تو مراد یہ ہے کہ لوگ کثرت سے اُسے دیکھیں اور اُس سے استفادہ کریں ۔تو آپ عبرت کے نشان ضرور مانگیں اور یہ دعا ضرور کریں کہ وہ علماء جو بد کلا می سے باز نہیں آرہے ،جو مباہلے کے مضمون کو بھی دھوکے کے لیے استعمال کر رہے ہیں اور مزید خَلقِ خدا سے مکرو فریب سے کام لے رہے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اُن کے مکر وفریب ننگے کر دے ،اُن کے جھوٹ ظاہر فر ما دے اور انہیں عبرتناک سزائیں دے۔تاکہ دنیا اُن کی سزاؤں سے استفادہ کرے اور وہ جو ڈرنے والے ہیں اور وہ خاموش اکثریت جو دراصل تماشا بِین ہے اُسے بھی اس عذاب سے بچائے…خدا تعالیٰ سے یہ دعا کریں کہ صرف وہ معاندین تیرے عذاب کے نیچے آئیں اور عبرت کا نشان بنیں جنہوں نے عمداً جانتے بوجھتے حق کی مخالفت کا بیڑہ اُٹھا رکھا ہے … اور کھلم کھلا کذّاب ہیں اور شرارت اور افترا پردازی سے باز نہیں آرہے اور اُن کے وہ مرید اور ماننے والے جو ہمیشہ فساد میں اُن کاساتھ دیتے ہیں اور جب وہ انہیں معصوم انسانوں پر ظلم کے لیے بلاتے ہیں تو لبیک کہتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں صرف ان کو اپنے عذاب کا نشان بنا اور عبرت کا نشان بنا۔
…اگر عبرت کے نشان کے ساتھ ساری قوم ہی مٹ جائے تو پھر حق کو قبول کون کرے گا۔ اس خیال سے بھی …کہ اکثریت بچ جائے ،اکثریت اس نشان کو دیکھے،اکثریت اس نشان سے فائدہ اُٹھائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ اس مباہلے کے بعد احمدیت ایک عظیم الشان طاقت کے طور پر اُبھرے اور اتنا عظیم نشان ظاہر ہو کہ اللہ تعالیٰ کے فضل اور رحم کے ساتھ علاقوں کے علاقے مسلمانوں کے احمدیت کے ساتھ شامل ہو جائیں اور وہ فتح کا دن جو ہمیں دُور دکھائی دے رہا ہے ۔ اس بڑھتی ہوئی،پھیلتی ہوئی توانا تَرہوتی قوت کے ساتھ جلدتر ہمارے قریب آ جائے اور تمام دنیا پر ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے دین کا جھنڈانصب کر سکیں ۔‘‘
(خطباتِ طاہر شائع کردہ طاہر فاؤنڈیشن ربوہ جلد 7صفحہ538تا540)
اس مباہلہ کے نتیجہ میں احمدیت کی صداقت کو ظاہر کرنے والے اور مکذّبین و مکفّرین کے جھوٹ اور افتراء پر مبنی الزامات کی قلعی کھولنے والے متعدد عظیم الشان نشانات ظاہر ہوئے۔ احمدیت کے مخالف وہ علماء اور مسلمان حکومتوں کے سربراہ جو جماعت احمدیہ پر کبھی انگریزوں کے، کبھی امریکہ کے اور کبھی یہودیوں کے ایجنٹ ہونے کے الزام دھرتے تھے اس مباہلہ کے بعد عالمی سطح پر ایسے واقعات رونما ہوئے کہ خود انہی لوگوں پر یہ الزام ٹھوس حقائق کے ساتھ واپس لَوٹائے گئے اور دنیا پر خوب آشکار ہو گیا کہ کون کس کا ایجنٹ ہے اور کون کس کے مفادات کا محافظ ہے۔
اسی طرح وہ لوگ جو احمدیوں کو پاکستان کا دشمن اور ملکی سلامتی کے لئے خطرہ قرار دیتے تھے اور ملک کے اندر ہر قسم کی بد امنی اور فساد کا اور دہشتگردی اور تخریب کاری کا ذمہ دار احمدیوں کو ٹھہراتے تھے خود وہی ان حرکتوں میں ملوّث ثابت ہوئے۔ ایک ایک جھوٹ اور افتراء انہی پر واپس پلٹا۔ اور یہ تمام امور قطعی شواہد کے ساتھ اخبارات اور میڈیا میں محفوظ ہو گئے۔ خدا کی لعنت کی مار ان جھوٹوں پر پڑی اور وہ طرح طرح کی ذلّت و نکبت اور عذاب اور قہری تجلّیوں کا نشانہ بنے۔ ان سب باتوں کی عبرت انگیز تفصیلات بہت طویل ہیں۔ وقت آئے گا اور لکھنے والے تحقیق کر کے ان باتوں کو لکھیں گے۔ لیکن سرِدست ہم اس تفصیل میں جانا نہیں چاہتے۔
اس کے بالمقابل خلافت حقّہ اسلامیہ احمدیہ سے وابستہ جماعت احمدیہ پر اللہ تعالیٰ کی رحمتوں اور فضلوں کی برسات خوب کھل کر برسی۔ جماعت کو برکت پر برکت عطا ہوئی اور اس مباہلہ کے بعد آنے والا ہر دن، ہر مہینہ اور ہر سال احمدیت کی صداقت کو روشن سے روشن تر کرنے والا ثابت ہوا۔ یہ مضمون بھی بہت طویل اور حد درجہ ایمان افروز ہے۔
احمدیت کی حقّانیت کو ثابت کرنے والے لا تعداد نشانوں میں سے بعض کا تذکرہ ہدیۂ قارئین ہے۔ امرِواقعہ یہ ہے کہ
؎ اِک نشاں کافی ہے گر دِل میں ہو خوفِ کِردِگار
مباہلہ کے نتیجہ میں دشمنوں کو ذلیل و رُسوا کرنے والا ایک حیرت انگیز نشان
(مبیّنہ ’مقتول‘ اسلم قریشی کی زندہ سلامت واپسی)
مباہلہ کے چیلنج میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنے اوپر لگائے جانے والے اس الزام کا خاص طور پر ذکر فرمایا تھا جس میں کہا گیا تھا کہ آپ اسلم قریشی نامی ایک شخص کے اغواء اور قتل میں ملوّث ہیں (نعوذ باللہ)۔ حضورؒ نے اس الزام کا معیّن طور پر ذکر کرتے ہوئے اور اسے سراسر جھوٹ اور افتراء قرار دیتے ہوئے ’لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلیٰ الْکَاذِبِیْنَ‘ کی دعا کی تھی۔ اللہ تعالیٰ کی یہ شان ہے کہ ابھی اس مباہلہ کے چیلنج کو ایک ماہ ہی گزرا تھا کہ اسلم قریشی نامی وہ شخص جس کے قتل کا الزام بحیثیت سربراہ جماعت احمدیہ حضرت مرزا طاہر احمد خلیفۃ المسیح الرابع (رحمہ اللہ) پر لگایا جاتا تھا اور ساری جماعت کو اس پر متّہم کیا جاتا تھا زندہ سلامت ایران سے کوئٹہ (پاکستان) پہنچ گیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جلسہ سالانہ یُو کے 1988ء کے موقع پر 22؍ جولائی کو اپنے افتتاحی خطاب میں اسلم قریشی کی واپسی اور مخالفین پر مباہلہ کی اس زبردست مار اور ان کے جھوٹ اور افتراء کا پردہ فاش ہونے کا ذکرکرتے ہوئے اسے خدا تعالیٰ کا’’ ایک حیرت انگیز نشان‘‘ قرار دیا ’’جس نے دشمنوں کو رُسوا اور ذلیل کر دیا۔‘‘
یہ اسلم قریشی وہی شخص ہے جو اسلام آباد (پاکستان) میں ایک لِفٹ آپریٹر تھا۔ جس نے صاحبزادہ مرز ا مظفر احمد صاحب پر اسلام آباد میں قاتلانہ حملہ کیا تھا۔ اس قاتلانہ حملہ کے نتیجہ میں یہ صاحب اچانک مولانا بن گئے اور مولانا بھی اس پائے کے کہ تحفظ ختم نبوّت کی مجلس میں اور مجلس احرار میں ان کو بے بدل عاشقِ رسول کے خطاب دیئے گئے۔ اس شخص کے متعلق مخالف احمدیت مُلّاؤں نے حلف اٹھا اٹھا کر اور واشگاف الفاظ میں یہ اعلان کیے ہوئے تھے کہ احمدیوں کی طرف سے نہ صرف یہ کہ اس کو اغوا کیا گیا ہے بلکہ اغوا کر کے قتل کر دیا گیا ہے۔ یہاں تک اعلان تھے کہ قصر ِخلافت(ربوہ) کی عمارت کو اکھاڑیں اس کی زمین میں سے اس مولوی کی لاش نکلے گی۔ اور یہ اعلان کیے گئے تھے کہ اگر ہم جھوٹے ثابت ہوں تو ہمیں بر سر عام پھانسی دی جائے، کوڑے لگائے جائیں، گولی سے اڑا دیا جائے۔ (ملاحظہ ہوں اخبار جنگ لاہور26؍ فروری1983ء بیان مولانا عبدالقادر روپڑی، لولاک 20 ؍مئی 1983ء صفحہ 5، لولاک 27؍ مئی 1983ء، جسارت11؍ جولائی 1984ء، ہفت روزہ ختم نبوّت انٹرنیشنل جلد 4 شمارہ 31 صفحہ 15، امروز 12؍ فروری 1986ء، ہفت روزہ چٹان 19؍ نومبر 1984ء، لولاک 14 جولائی 1983ء صفحہ 14، وفاق لاہور 25 ؍نومبر1984ء، نوائے وقت لاہور 18؍ فروری 1984ء)
اسلم قریشی کی رُوپوشی کے حوالہ سے اخبارات میں شائع ہونے والی مختلف خبروں کے تجزیہ سے یہ بات خوب کھل جاتی ہے کہ یہ ایک باقاعدہ سازش تھی اور کوئی اتفاقی حادثہ نہیں تھا۔ اس حوالہ سے عوام میں جماعت کے خلاف خوب اشتعال پھیلایا گیا اور احمدیوں کو طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنایا گیا۔ اس ساری مہم میں اُس وقت کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی پُشت پناہی مُلاّؤں کو حاصل تھی۔
چنانچہ 8؍ مئی 1984ء کے روزنامہ نوائے وقت میں حکومت پاکستان کے فوجی آمر جنرل ضیاء الحق کی طرف منسوب یہ خبر شائع ہوئی کہ ’’اسلم قریشی کی گمشدگی کا معاملہ میرے لئے باعث تشویش ہے۔‘‘
اسی طرح اخبارات میں یہ بھی ذکر ہوا کہ جنرل ضیاء نے پولیس کو جلد سے جلد اور کم سے کم وقت میں اپنی تحقیقات فائنلائز کرنے کی تاکید کی ہے۔
22؍ فروری 1985ء کو یہ اعلان اخبار میں شائع ہوا کہ صدر پاکستان نے سیالکوٹ کے مولانا اسلم قریشی کی گمشدگی کا معاملہ حل نہ کرنے پر سخت نوٹس لیا اور پولیس کو ڈرایا دھمکایا ہے کہ تم کیوں اس معمّے کو جلد حل نہیں کرتے۔ صدر پاکستان نے پنجاب پولیس کو تمام وسائل بروئے کار لانے کی ہدایت کی۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اسلم قریشی کی رُوپوشی اور مباہلہ کے چیلنج کے بعد اس کی بازیابی کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ نے جب مجھے یہ توفیق عطا فرمائی کہ مَیں تمام معاندین احمدیت کو مباہلے کا چیلنج دوں تو اس میں مَیں نے یہ بات بطور خاص لکھی، خطبے میں بھی بیان کی اور تحریر میں یہ بات شامل کی کہ تم بحیثیت سربراہ جماعت احمدیہ مجھ پر ایک شخص اسلم قریشی کے قتل کا الزام لگا رہے ہو … اس لئے تمہیں مباہلے کا چیلنج دیتے ہوئے مَیں اس بات کو بھی شامل کرتا ہوں۔ تم بھی خدا کی قسم کھا کر کہو کہ واقعۃً اس شخص کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا ہے اور جماعت احمدیہ کے سربراہ نے ایسا کیا ہے اور مَیں بھی اعلان کرتا ہوں کہ ’الف‘ سے ’ی‘ تک یہ سارا دروغ ہی دروغ، جھوٹ ہی جھوٹ ہے۔ پس تم بھی خدا کی لعنت ڈالوجھوٹے پر اور مَیں بھی خدا کی لعنت ڈالتا ہوں جھوٹے پر۔ یہ اس تاریخ کا اعلان ہے اور ایک مہینے کے اندر اندر بلکہ بعینہٖ ایک مہینے پر عین اس تاریخ کو، جولائی ہی کی اس تاریخ کو اسلم قریشی صاحب ایران سے کوئٹہ پہنچ گئے۔ گو ان کے پہنچنے کی خبریں کچھ دن بعد شائع ہوئیں۔ لیکن یہ بات مسلّمہ اور مصدّقہ ہے کہ وہ عین دس تاریخ کو پاکستان میں داخل ہوئے … 13؍ جولائی 1988 کو ایک پریس کانفرنس بلائی گئی جس میں آئی جی پنجاب پولیس نے یہ انکشاف کیا اور اس پر مولانا اسلم صاحب کے ساتھ پریس والوں نے کچھ سوال بھی کئے جن کے جواب بھی اخبار میں شائع ہوئے۔‘‘
اس پریس کانفرنس میں اسلم قریشی صاحب نے کہا کہ مَیں نے نامساعد گھریلو اقتصادی حالات اور ناموافق دینی ماحول سے تنگ آ کر خود ہی رختِ سفر باندھا اور یہاں سے پہلے گوادر اور پھر ایران چلا گیا اور بعد میں ایرانی فوج میں بھرتی ہو گیا۔ … اس نے یہ بھی کہا کہ میں خود اس لئے گم نہیں ہوا کہ قادیانی اقلیت کو پریشان کروں۔ اس نے یہ بھی اقرار کیا کہ مجھے کسی نے اغوا نہیں کیا تھا بلکہ میں اپنی مرضی سے بعض وجوہ کی بنا پر ایران گیا تھا۔ (دیکھیے اخبارات نوائے وقت لاہور 13؍ جولائی 1988ء ، مشرق لاہور 13؍ جولائی 1988ء، روزنامہ جنگ لاہور13 جولائی 1988ء،اِمروز 13؍ جولائی 1988ء، جنگ 14؍ جولائی 1988ء ، روزنامہ ملّت لندن 14؍ جولائی 1988ء وغیرہ)
اسلم قریشی کی رُوپوشی اور واپسی اور اس کے بیانات سے یہ بات خوب واضح ہو گئی کہ جماعت احمدیہ پر اس کے اغوا اور قتل کا الزام سراسر جھوٹ اور افتراء تھا۔ اسلم قریشی کے اس طرح اچانک سامنے آنے سے معاند احمدیت علماء کا نہ صرف جھوٹا ہونا ثابت ہوا بلکہ ان کی ذلّت و رسوائی بھی ہوئی اور یہ واقعہ عین اس وقت ہوا جبکہ ایک مہینہ پہلے باقاعدہ ان کو مباہلے کا چیلنج دیا گیا تھا اور اُس میں اس الزام کا ذکر کرتے ہوئے جھوٹوں پر خدا کی لعنت ڈالی گئی تھی۔ بلا شبہ یہ ایک حیرت انگیز نشان تھا جو مباہلہ کے نتیجہ میں ظاہر ہوا اور جس نے جھوٹوں کو ذلیل و رسوا کر دیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے اپنی ایک نظم میں اس نشان کا ذکر فرمایا جو جلسہ سالانہ یُوکے1988ء پر پڑھی گئی۔ آپ فرماتے ہیں:۔
دیکھو اِک شاطر دُشمن نے کیسا ظالم کام کیا
پھینکا مکر کا جال اور طائرِ حق زیرِ الزام کیا
نا حق ہم مجبوروں کو اِک تُہمت دی جلّادی کی
قتل کے آپ ارادے باندھے ہم کو عبث بدنام کیا
دیکھو پھر تقدیرِ خدا نے، کیسا اُسے ناکام کیا
مکر کی ہر بازی الٹا دی، دَجل کو طشت از بام کیا
اُلٹی پڑ گئیں سب تدبیریں کچھ نہ دَغا نے کام کیا
دیکھا اِس بیمارئ دل نے ، آخر کام تمام کیا
زِندہ باد غلامِ احمد، پڑ گیا جس کا دشمن جھوٹا
جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل اِ نَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوقًا
جب سے خدا نے اِن عاجز کندھوں پر بارِ اَمانت ڈالا
راہ میں دیکھو کتنے کٹھن اور کتنے مَہیب مَراحِل آئے
بھیڑوں کی کھالوں میں لِپٹے، کتنے گُرگ مِلے رَستے میں
مقتولوں کے بھیس میں دیکھو، کیسے کیسے قاتِل آئے
خر شیرِ خدا نے بِپھر کر، ہر بَن باسی کو للکارا
کوئی مُبارِز ہو تو نکلے، سامنے کوئی مباہل آئے
ہمت کس کو تھی کہ اُٹھتا، کس کا دِل گردہ تھا نکلتا
کس کا پِتّا تھا کہ اُٹھ کر، مردِ حق کے مُقابل آئے
آخر طاہر سچا نکلا، آخر ملّاں جھوٹا نکلا
جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل اِ نَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوقًا
مُلّاں کیا رُوپوش ہوا اِک، بِلّی بھاگوں چھینکا ٹُوٹا
پنے مریدوں کی آنکھوں میں جَھونکی دُھول اور پیسہ لُوٹا
قَریہ قَریہ فساد ہوئے تب، فتنہ گر آزاد ہوئے سب
احمدیوں کو بستی بستی پکڑا دھکڑا مارا کوٹا
کر ڈالیں مِسمار مساجِد لُوٹ لئے کتنے ہی معابد
جن کو پلید کہا کرتے تھے، لے بھاگے سب اُن کا جُوٹھا
کاٹھ کی ہنڈیا کب تک چڑھتی، وہ دِن آنا تھا کہ پھٹتی
وہ دِن آیا اور فریب کا، چوراہے میں بھَانڈا پھُوٹا
ہتے ہیں پولیس نے آخر، کھود پہاڑ نکالا چُوہا
جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل اِ نَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوقًا
اؤں ہر دَم تیرے وارے، میرے جانی میرے پیارے
تُو نے اپنے کرم سے میرے، خود ہی کام بنائے سارے
پھر اِک بار گڑھے میں تُو نے، سب دُشمن چُن چُن کر اُتارے
کر دیئے پھِر اک بار ہمارے آقا کے اونچے مینارے
اے آڑے وقتوں کے سہارے، سُبحان اللہ یہ نظّارے
اِک دُشمن کو زِندہ کر کے مار دیئے ہیں دُشمن سارے
دیکھا کچھ۔ مغرب کے اُفق سے کیسا سچّ کا سُورج نکلا
بُجھ گئے دیپ طِلسمِ نظر کے، مِٹ گئے جھوٹ کے چاند ستارے
اپنا منہ ہی کر لیا گندا، پاگل نے جب چاند پہ تھوکا
جَاءَ الْحَقُّ وَ زَھَقَ الْبَاطِل اِ نَّ الْبَاطِلَ کَانَ زَھُوقًا
(جلسہ سالانہ یُو کے 1988ء بحوالہ کلامِ طاہر صفحہ 31تا33)
(باقی آئندہ)