خلافت احمدیہ اور جماعت کا باہمی تعلق
اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں سورۃ النور میں مومنین سے خلافت عطا کرنے کا وعدہ کرتے ہوئے فرمایا:
وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَ عَمِلُوْا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ کَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَھُمْ دِیْنَھُمُ الَّذِی ارْتَضٰی لَھُمْ وَ لَیُبَدِّلَنَّھُمْ مِنْ بَعْدِ خَوْفِھِمْ اَمْنًا یَعْبُدُوْنَنِیْ لَا یُشْرِکُونَ بِیْ شَیْئًا وَ مَنْ کَفَرَ بَعْدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْفٰسِقُوْنَ (النور56:)
ترجمہ:تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور نیک اعمال بجا لائے ان سے اللہ نے پختہ وعدہ کیا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسا کہ اس نے ان سے پہلے لوگوں کو خلیفہ بنایا اور ان کے لئے ان کے دین کو جو اس نے ان کے لئے پسند کیا ضرور تمکنت عطا کرے گا۔ اور ان کی خوف کی حالت کے بعد ضرور انہیں امن کی حالت میں بدل دے گا۔ وہ میری عبادت کریں گے۔ میرے ساتھ کسی کو شریک نہیں ٹھہرائیں گے۔ اور جو اس کے بعد بھی نا شکری کرے تو یہی لوگ ہیں جو نافرمان ہیں۔
ہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ خاتم الانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم نے مختلف احادیث مبارکہ میں ہمیں اپنے بعد خلافت راشدہ اور پھربعض دوسرے ادوار کی خبر دی اور آخر مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کی خبر اور پھر ان کےبعد خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کے سنہری دور کی دوبارہ خبر دی۔ احادیث میںمذکور تمام ادوار زمانے کی آنکھ ملاحظہ کر چکی ہے اور پھر اصدق الصادقین کی دی ہوئی خبر کے عین مطابق حضرت مسیح موعود اور مہدی معہود علیہ السلام کا ظہور بھی ہو چکا۔ زمین و آسمان نے ان کی آمد کی شہادت میں تمام نشان دکھائے جن کا وعدہ دیا گیا تھا اور پھر خلافت علیٰ منہاج النبوۃ کا قیام بھی ہو چکا۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی جماعت کو یہ خوشخبری ان الفاظ میں سنائی۔فرمایا:
’’سو اے عزیزو! جبکہ قدیم سے سنت اللہ یہی ہے کہ خدا تعالیٰ دو قدرتیںدکھلاتا ہے تا مخالفوں کی دو جھوٹی خوشیوں کو پامال کر کے دکھلاوے سواب ممکن نہیں ہے کہ خدا تعالیٰ اپنی قدیم سنت کو ترک کر دیوے۔ اس لئے تم میری اس بات سے جو میں نے تمہارے پاس بیان کی غمگین مت ہو اور تمہارے دل پریشان نہ ہو جائیں کیونکہ تمہارے لئے دوسری قدرت کا بھی دیکھنا ضروری ہے اور اس کا آنا تمہارے لئے بہتر ہے کیونکہ وہ دائمی ہے جس کا سلسلہ قیامت تک منقطع نہیں ہو گا…وہ ہمارا خدا وعدوں کا سچا اور وفا دار اور صادق خدا ہے وہ سب کچھ تمہیں دکھائے گا جس کا اس نے وعدہ فرمایا۔ اگر چہ یہ دنیا کے آخری دن ہیں اور بہت بلائیں ہیں جن کے نزول کا وقت ہے پر ضرور ہے کہ دنیا قائم رہے جب تک وہ تمام باتیں پوری نہ ہو جائیں جن کی خدا نے خبر دی۔‘‘
(رسالہ الوصیت، روحانی خزائن جلد 20صفحہ 305)
آج ہم گواہی دیتے ہیں کہ اس صادق اور وفا دار خدا نے اپنی تمام باتیں سچ کر دکھائیں۔ خدا کے پاک مہدی اور مسیح علیہ السلام کی جماعت اب اللہ کے فضل سے اس مبارک کشتی میں سوار ہے جس کے سواروں کے لئے خدا نے بشارت دی تھی کہ اِنِّی اُحَافِظُ کُلَّ مَنْ فِی الدَّارِ۔ اور آج اس کشتی کا ملّاح پیارے خدا کی قدرت ثانیہ کے پانچویں مظہر حضرت صاحبزادہ مرزا مسرور احمد صاحب ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہیں۔ یہ وہ مقدس وجود ہے جسے اپنی جماعت کے ہر فرد کی روحانی اور مادی ترقی کا فکر رہتا ہے بلکہ تمام انسانیت کا غم ان کا غم ہے۔ خطبہ جمعہ 30جون2017ء میں دنیا میں نظر آنے والی تباہیوں کے فکر میں دعا کی تحریک کرتے ہوئے آپ نے فرمایا کہ ہمیں یہ دلچسپی نہیں کہ سب لوگ مار کھانے کے بعد ہمارے پاس آئیں بلکہ ہم تو چاہتے ہیں جتنی جلدی ممکن ہے یہ لوگ وقت کے امام کو شناخت کر کے عافیت پائیں۔ خدا تعالیٰ نےاپنے فضل سے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ کئے ہوئے وعدوں کے مطابق اب تک اپنی اس قدرت ثانیہ کے جتنے مظہر بھی ہمیں عطا فرمائے ان سے ہم نے یہی سیکھا کہ خلیفہ وقت کا وجود جماعت سے الگ کوئی چیز نہیں۔ ساری جماعت ایک جسم کی مانند ہے تو خلیفۂ وقت اس جسم میں دھڑکنے والا دل ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہر احمدی خواہ وہ گورا ہو یا کالا، بوڑھا ہو یا جوان، عورت ہو یا مرد اپنے آپ کو ہمیشہ خلیفۂ وقت کے قریب سمجھتا ہے۔ اور کبھی گوارا نہیں کرتا کہ اس مقدس وجود کو میری طرف سے کوئی ایسی خبر ملے جس سے ان کو کوئی رنج اور تکلیف ہو۔
میرے ایک دوست نے جو فضل عمر ہسپتال میں ڈرائیور تھے ایک دن مجھے بتایا کہ مَیں کسی کام سے لاہور گیا۔ واپسی پر لاہور شہر سے نکلنے سے قبل راستے میںکھڑے ایک مسافر نے جو جھنگ جا رہا تھا مجھ سے مدد مانگی۔ میں نے اسے بتایا کہ جھنگ تو نہیں البتہ چنیوٹ تک ساتھ لے جا سکتا ہوں۔ وہ میرے ساتھ بیٹھ گیا۔ وہ شخص پڑھا لکھا اور تجربہ کار تھا ۔ راستے میں جماعت کا تعارف اسے کرایا۔ وہ احمدی تو نہ تھا البتہ جماعت کے بارہ میں معلومات رکھتا تھا۔ دوران گفتگو اس نے ایک عجیب سوال کیا۔ کہنے لگا میں بہت کچھ سمجھتا ہوں اور جانتا ہوں لیکن مجھے اس بات کی کبھی سمجھ نہیں آئی کہ آپ کی جماعت میں سے اگر ایک شخص کے بارہ میں یہ اطلاع ہو جائے کہ خلیفۂ وقت نے فیصلہ فرمایا ہے کہ اس سے چندہ نہیں لینا تو وہ خوش ہونے کی بجائے رونا شروع کر دیتا ہے۔ اس نے کہا مجھے معلوم ہے کہ آپ کی جماعت میں کئی لوگ چندہ دینے میں سست اور بقایا دار بھی ہیں۔ وہ شخص جس کے بارہ میں اعلان ہوا اگر وہ ان میں سے بھی ہو تب بھی وہ شکر ادا کرنے کی بجائے روتا ہے اور معافیاں مانگتا ہے۔ حالانکہ ہماری دنیا میں اگر ہم اپنی سوسائٹی میں کسی ممبر سے چندہ نہ لیں تو وہ بہت خوش ہوتا اور شکریہ ادا کرتا ہے۔
خلیفۂ وقت کے ساتھ محبت تو یقینًا خدا تعالیٰ ہی پیدا کرتا ہے کیونکہ دلوں کا مالک تو خدا ہی ہے اور سب دل اسی کے ہاتھ میں ہیں۔ ایک طرف خلیفۂ وقت دن رات ہماری دینی و دنیاوی فلاح و بہبود کے لئے بے قرار رہتے ہیں اور دوسری طرف کوئی ادنیٰ سے ادنیٰ احمدی بھی یہ گوارا نہیں کرتا کہ کبھی اس کی طرف سے آقا کو کوئی بری خبر ملے اور تکلیف پہنچے ۔ یہ تجربہ خاکسار کو اصلاحی کمیٹی میں ڈیوٹی کے دوران متعدد بار ہوا کہ کسی کمزور احمدی کو بھی جب یہ محسوس ہوتا کہ میرے معاملے کی رپورٹ حضرت خلیفۃ المسیح کی خدمت میں جائے گی تو وہ تمام رضا مندی کے ساتھ معاملہ احسن رنگ طور پر طے کر نے کے لئے تیار ہو جاتا اور بعض اوقات تو بعض لوگ یہاں تک کہہ دیتے کہ مَیں فریق ثانی کی ہر بات ماننے کو تیار ہوں لیکن یہ کبھی نہ چاہوں گا کہ میری طرف سے حضور کی خدمت میں کوئی ایسی خبر جائے جس سے حضور کو تکلیف ہو۔
یہاں پر کسی کے دل میں یہ خیال پیدا ہو سکتا ہے اور کوئی کہہ سکتا ہے کہ اگر یہ کیفیت ہے تو پھر بعض لوگوں کی سزاؤں کے اعلان کیوں آتے ہیں ؟ سو جاننا چاہئے کہ یہ بھی نظام خلافت کی خوبصورتی اور علوّ مرتبت کی نشانی ہے۔ نیز یہ بھی ہر کوئی جانتا ہے کہ سزاؤں کے اعلان کمزوریوں کے دور کرنے اور معاشرہ میں خوبصورتی پیدا کرنے کا ذریعہ اور اسی نظام عدل و انصاف کا آئینہ ہیں جو خدائے عزّ و جلّ نے نوع انسان کے لئے تجویز کیا ہے تا کوئی شخص دوسرے بھائی پر دانستہ یا نا دانستہ کوئی زیادتی نہ کرے اور ایک خوبصورت معاشرہ قائم ہو۔ یہی وجہ ہے کہ جن کی سزاؤں کا اعلان ہوتا ہے جب وہ اپنی اصلاح کر لیں تو معافی کا اعلان بھی آ جا تا ہے۔
سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ اکثر بیان فرمایا کرتے تھے کہ خلیفۂ وقت اور جماعت کوئی الگ الگ چیز نہیں بلکہ ایک جسم اور جان ہیں اور اس بات کا ایک عظیم الشان نظارہ ہمیں دنیا میں ظاہری طور پر جلسہ ہائے سالانہ کے موقع پر نظر آتا ہے جہاں مختلف قوموں اور رنگوں کے احمدی جمع ہوتے ہیں جن کے نہ صرف رنگ مختلف بلکہ زبانیں بھی مختلف ہوتی ہیں۔ ایک دوسرے سے ہر کوئی ایسے ملتا ہے جیسےاپنے حقیقی بھائی کے ساتھ مل رہا ہے اور اپنے پیارےامام کی اطاعت اور پیروی ہر کوئی اس طرح کرتا ہے جس طرح جسم کا کوئی حصّہ دل کی دھڑکن کی پیروی کرتا ہے۔
1993ءمیں بورکینا فاسو سے دو ممبران پارلیمنٹ میرے ساتھ جلسہ سالانہ لندن میں شمولیت کے لئے آئے۔ افتتاحی تقریب کے بعد انہوں نے مجھ سے سوال کیا کہ آپ ہمیں بتاؤ کہ حضور کے ہاتھ میں کون سا جادو ہے؟مَیں نے کہا: کیا مطلب؟ کہنے لگے ہم نے دیکھا کہ جب حضور جلسہ گاہ میں تشریف لائے تو جلسہ نعروں سے گونج اٹھا۔ حضور سلام کر کے سامنے کھڑے ہو کر کچھ دیر محظوظ ہوتے رہے۔ چند منٹ بعد حضور کا دایاں ہاتھ بلند ہونا شروع ہوا۔ ہم نے دیکھا کہ جونہی وہ ہاتھ سامنے آیا۔ تمام جلسہ گاہ میں یکدم سکوت طاری ہو گیا۔ تم ہمیں بتاؤ کہ اس ہاتھ میں کیا جادو ہے؟ ہم سیاسی لوگ ہیں جلسے بھی کرتے ہیں ہم جانتے ہیں کہ جس جگہ ایک ہزار افراد کی آمد متوقع ہو وہاں کم از کم ایک سو پولیس والے کنڑول کرتے ہیں۔ یہاں تیس ہزار سے زائد حاضری ہے اور کوئی پولیس والا نہیں۔ بس صرف ایک ہاتھ ہے جب بلند ہوا تو سارے جلسہ میں خاموشی طاری ہو گئی۔اور یہ تو وہ نظارہ ہے جس کو ہر کوئی ہر جلسہ کے موقع پر ملاحظہ کرتا ہے۔ یہی تووہ بات ہے کہ جماعت کا ہر فرد اس پاک وجو دکا حصّہ ہے جس کا دل خلیفۂ وقت ہیں۔اور اس جسم کی زندگی کی علامت ہے کہ اس جسم کا ہر حصّہ دل کی دھڑکن کی پیروی کرتا ہے اور یہی ہماری زندگی کی علامت ہے۔
یہاں اس نظّارہ کو بھی یاد کریں جب سیدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انتخاب خلافت کے بعد پہلی دفعہ مسجد فضل کے اندر اپنے سامنے موجود افراد میں سے بعض کھڑے احباب کو ارشاد فرمایا ’’بیٹھ جائیں‘‘۔یہ آواز لاؤڈ اسپیکر کے ذریعہ باہر بھی سنائی دی اور ایم ٹی اے کے ذریعہ ساری دنیا میں نشر ہوئی اور کیمرے کی آنکھ نے نہ صرف مسجد کے باہر دور تک حتّی کی سٹر کوں پر کھڑے افراد کے بھی فورًا بیٹھنے اور بیٹھتے ہوئے ایک دوسرے پر گرنے کے نظارے نہ صرف محفوظ کئے بلکہ ساری دنیا کو دکھائے۔ اور ایسےہی نظارے دنیا بھر میں دیکھنے میں آئے کہ وہ لوگ جو اپنے گھروں میں اس وقت لائیو نشریات سن اور دیکھ رہے تھے ان میں سے بھی اگر کوئی اس وقت کھڑا تھا تو وہ اپنے امام کی آواز پر بیٹھ گیا۔حالانکہ وہ سب کے سب حضور انور کی زبان سے نکلنے والے الفاظ مبارک کو زبان کے اختلاف کی وجہ سے سمجھ نہ سکتے تھے۔لیکن خلافت کے منصب پر فائز ہونے والے مقدس وجود کے ساتھ سب کا یکساں روحانی تعلق خدا تعالیٰ نے پیدا کر دیا تھا۔ اس نظارے کو ساری دنیا نے ٹی وی پر براہ راست ملاحظہ کیا۔
اگر کوئی شخص یہ کہے کہ دنیا میں ہمیں بہت سی قوموں میں بے مثل اتحاد اور یک جہتی اور پیار نظر آتا ہے پھر ان قوموں کے نظام اور نظام خلافت میں کیا فرق ہے؟تو بظاہر اتحاد یک جہتی اور پیار تو ہمیں بعض جانور وں میں بھی بہت نظر آتا ہے لیکن گہرا تجزیہ کر نے والوں کی نگاہ میں جو صدق اور اخلاص اور برکت نظام خلافت سے منسلک افراد میں ہے وہ کسی دوسری جگہ نہیں۔
جن دنوں میں خاکسار بورکینا فاسو میں بطور مبلغ خدمت کی توفیق پا رہا تھا اس عرصہ میں ایک روز میری ملاقات امریکہ سے تعلق رکھنے والے ایک بڑے آدمی سے ہوئی۔ باتوں باتوں میں انہوں نے اعتراف کیا کہ ساری دنیا میں امام جماعت احمدیہ ایک ایسے لیڈر ہیں کہ جب وہ خطاب کر تے ہیں تو احمدی جو دنیا کے کسی بھی خطّہ میں آباد ہوں پوری توجہ سے ان کا خطاب سنتے ہیں (ان دنوں ایم ٹی اے جاری ہو چکا تھا) اور صرف سنتے نہیں بلکہ فورًا تعمیل کی کوشش کرتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ بعض اوقات امام جماعت احمدیہ کسی سکیم کا اعلان کرتے ہیں تو قربانی کرنےوالے مجاہد اتنی تیزی سے آگے بڑھتے ہیں کہ دوسری دفعہ خود امام ِوقت کو انہیں روکنا پڑتا ہے۔ وہ کہنے لگے کہ ہماری دنیا میں تو یہ حال ہے کہ جب ایوان صدر میں صدر مملکت اپنے ایوان سے خطاب کرتا ہے تو اوّل تو سب لوگ حاضر نہیں ہوتے اور جو ہوتے ہیں ان میں سے بھی بعض کافی پینے یا پیشاب کے بہانے اٹھ جاتے ہیں۔
آئیے ہم دعا کریں کہ ہم اس عظیم الٰہی نعمت یعنی خلافت کی دل و جان سے قدر کر نے والے ہوں۔ اللہ تعالیٰ ہر احمدی کو ایمان اور اخلاص میں ترقی دے اور امام وقت کا کامل اطاعت گزار بنائے تا کہ ہم اور ہماری اولادیں ہمیشہ آسمانی برکات سے فیضیاب ہوتی رہیں۔ آمین۔
٭…٭…٭