محترمہ صاحبزادی امۃ الحئی بیگم صاحبہ (آف سٹن۔ یُوکے) کی وفات۔
ہلیہ مکرم ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کے الفاظ میں مرحومہ کا ذکر خیراور نماز جنازہ حاضر
مکرم منیر احمد جاوید صاحب پرائیویٹ سیکرٹری اطلاع دیتے ہیں کہ بتاریخ10مئی 2018ءبروز جمعرات 10 بجے صبح حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمسجد فضل لندن کے باہر تشریف لاکرمحترمہ صاحبزادی امۃ الحئی بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب (سٹن ۔یوکے) کی نماز جنازہ حاضر اور کچھ مرحومین کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
نماز جنازہ حاضر:
محترمہ صاحبزادی امۃ الحئی بیگم صاحبہ اہلیہ مکرم ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب (سٹن ۔یوکے)
آپ 6مئی 2018ء کو بقضائے الٰہی وفات پاگئیں۔ اِنَّالِلہِ وَ اِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ان کی وفات پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے حسب ذیل الفاظ میں ذکر خیر فرمایا :
آپ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی پڑپوتی، حضرت مصلح موعودرضی اللہ تعالیٰ عنہ اور حضرت اُمّ ناصر صاحبہؓ کی پوتی اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ رضی اللہ تعالیٰ عنہااور حضرت نواب محمد علی خان صاحب ؓکی نواسی تھیں۔اسی طرح آپ حضرت ڈاکٹر مرزا منور احمد صاحب کی بیٹی اور ڈاکٹر مرزا مبشر احمدصاحب (فضل عمر ہسپتال ربوہ ) کی بہن تھیں۔آپ ڈاکٹر حامد اللہ خان صاحب یُوکے کی اہلیہ تھیں۔ آپ بے شمار خوبیوں کی مالک ، خوش اخلاق، دعاگو، تہجد گزار، نہایت مہمان نواز، ہر دل عزیز، رشتہ داروں کی محبوب، اور غرباء کی ہمدرد وجود تھیں۔ کئی غریبوں کے وظائف مقرر کر رکھے تھے۔مجھے بے شمار لوگوں کے خطوط ان کے خوبصورت کردار کے بارے میں آرہے ہیں۔ خاص طورپر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے لندن ہجرت پر اُن کی خدمت کی انہیں بڑی توفیق ملی ۔ اُس وقت یُوکے میں یہ اکیلی خاندان کی فرد تھیں۔ اور ایسے وقت میں ان کے پاس آکر خاندان سے دوری کی کمی کو بھی پورا کرنے کی کوشش کرتی رہیں ۔ خصوصاً حضور رحمہ اللہ کی بیگم صاحبہ کی وطن سے دوری کی اس کمی کو اپنی بے تکلفانہ طبیعت کی وجہ سے دور کرنے کی کوشش کرتی رہیں۔ ہر تحریک میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتی تھیں۔متعدد بار اپنازیور مختلف مدّات میں پیش کیا۔ آپ 30 سال تک ریجنل صدر لجنہ رہیںاور دس سال سے زیادہ عرصہ جلسہ سالانہ کے مواقع پر مہمان نوازی کی ڈیوٹی دینے کی سعادت پائی۔آپ گزشتہ چار پانچ سال سے جلسہ سالانہ میں نظم و ضبط کے شعبہ میں نگران تھیں۔ہر ڈیوٹی کو ایک فرض سمجھ کر پوری محنت اور لگن سے بجالاتی رہیں ۔ خلافت سے گہرا عشق اور اس کا بے حد احترام تھا۔ بیماری کے آخری دنوں میں بھی بڑی ہمت کرکے مجھے ملنے آتی رہیں ۔آخری مرتبہ وفات سے چند ہفتے قبل آئیں تو چلا بھی مشکل سے جارہا تھا۔ میرے پوچھنے پر کہ اتنی تکلیف کرکے آئی ہیں، مسکراتے ہوئے ہنس کر کہا کہ نہیں الحمدللہ ٹھیک ہوں بلکہ بیماری کے آخری دنوںمیں ان کی بیٹی مجھے ملنے آرہی تھیں تواسے کہنے لگیں میں نے بھی جاناہے مجھے بھی ملاقات کے لئے لے کر جاؤ ۔لیکن اس وقت ایسی حالت نہیں تھی۔لیکن ملاقات کی شدید خواہش تھی۔ ہر حال میں خدا تعالیٰ کی رضا پر راضی رہنے والی تھیں ۔ دعا اور صدقات پر ہمیشہ زور دیتی رہیں۔ نماز کے قیام کا یہ عالم تھا کہ ان کے خاوند نے بتایا کہ بیماری میں بھی بار بار یہی پوچھتی رہیں کہ نماز کا وقت ہوگیا؟میرے سرپر دوپٹہ ڈال دیں۔ آخری بیماری میں جو تقریباً ایک ڈیڑھ سال کے عرصہ میں پھیلی ہوئی تھی بعض اوقات شدید تکلیف کے باوجود خدا کی رضا پر ہمیشہ راضی رہنے کا اظہار کرتی رہیں ۔بیماری میں بھی اپنے آپ کو گھر میں مصروف رکھنے کی کوشش کرتی تھیں تاکہ بیماری کا زیادہ احساس نہ ہو۔ موصیہ تھیں ،1/9کی وصیت تھی اور اپنی زندگی میں ہی حصۂ جائیداد کی ادائیگی مکمل کرکے سرٹیفکیٹ حاصل کرلیا تھا۔
پسماندگان میں میاں کے علاوہ دو بیٹیاں اور دو بیٹے اور گیارہ پوتے پوتیاں اور نواسے نواسیاں یادگار چھوڑے ہیں۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچوں کی بھی اچھے رنگ میں تربیت کی۔ تمام بچے کسی نہ کسی رنگ میں جماعت کی خدمت کی توفیق پارہے ہیں ۔دونوں بیٹیاں واقفین زندگی سے بیاہیں۔ بیٹیوں کو نصیحت کی کہ سسرال کی عزت کرنی ہے ۔اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے بچے اچھے خاوند اور داماداوراچھی بیویاں اور بہوئیں ہیں ۔ اللہ تعالیٰ ان کی اولاد کو بھی ہمیشہ ان کی نیکیاں جاری رکھنے کی توفیق دے ۔ان کے درجات بلند فرمائے۔ان کے خاوند اوربچوں کو صبر وسکون عطا فرمائے۔ آمین