ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
اس وقت اللہ نے اپنے مسیح کو اس جنگ کے لئے بھیجا تا کفر کی ظلمات کو کافور کر دے اور ظالموں کو نیزے اور تلوار کے وار سے نہیں بلکہ حجت کی رو سے نابود کر دے اور تا کافروں کی جڑ کاٹ دے
اور تا لوگ باہم مخالف ہو جانے کے بعدپھر اتحاد اور فنا کی طرف لوٹ آئیں۔
خطبہ الہامیہ کے متعلق حاشیہ – آدم اور مسیح موعود میں کیا فرق ہے
’’اللہ تعالیٰ نے آدم کو پیدا کیا تا انسانوں کو عدم سے وجود کی طرف اور وحدت سے کثرت کی طرف لے آئے۔ اس نے انہیں مختلف خاندانوں، قبیلوں، گروہوں اور جماعتوںکی صورت میں بنایا تا قدرت کے رنگ دکھائے اور آزمائے کہ ان میں سے کون عمل کے لحاظ سے اچھا اور سابقین میں سے ہے۔ اللہ نے آدم کواپنی اس صفت الاوّل کا جو مبدءِ عالم ہے، مظہر بنایا جیسا کہ کتابِ مبین میں اس کا ارشاد ھُوَ الْأَوَّلُ آیا ہے۔ اور اس وجہ سے کہ اوّلیت اپنے بعد کچھ اور کا تقاضا کرتی ہے نفسِ آدم نے بھی بہت سے مردوں اور عورتوں کا تقاضا کیا۔ پس حکم نازل ہوا اور عورتوں کی بہت اولاد ہوئی اور لوگ بکثرت ہو گئے اور زمین مخلوقات سے بھر گئی۔ پھر ان پر زمانہ طُول پکڑ گیا اور ان کے گروہ اور ان کی آراء بہت زیادہ ہو گئیں اور ان کی تمنائیں اور خواہشیں باہم مخالف ہو گئیں اور ان میں سے اکثر فاسق ہو گئے۔ نتیجتًا ان میں سے بعض بعض دوسروں پر حملہ کرنے لگے اور وہ فسق اور سرکشی میں بڑھ گئے۔ انہوں نے چاہا کہ ان میں سے طاقتور کمزور کو کھا جائے جیسا کہ ایک کیڑا دوسرے کیڑے کو کھا جاتا ہے اور وہ غافل تھے۔ یہاں تک کہ جب ان میں ہر وہ گمراہی جمع ہو گئی جو زمانۂ مسیح موعود کے لوازم میں سے تھی اوراسلام پر ہر قسم کی مصیبت ٹوٹ پڑی اور وہ زندہ در گور کی طرح ہو گیا۔ زمانہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا اور تاریکیوں میں راتوں کی مانند ہو گیا اور زمانہ نے اس جنگ کا تقاضا کیا جو جنگوں میں سے آخری ہے۔٭ [٭حاشیہ۔ اللہ نے ازل سے ہی یہ مقدر فرما رکھا تھا کہ شیطان اور انسان کے مابین دو مرتبہ سخت جنگ ہو گی۔ ایک مرتبہ شروع زمانہ میں اور دوسری مرتبہ آخری زمانہ میں۔ پس جب ان دو جنگوں میں سے پہلی کا وقت آیا تو شیطان نے، جو قدیمی اژدہا ہے،حَوَّا کو گمراہ کر دیا اور آدم کو جنت سے نکلوا دیا اور ابلیس نے اپنی مَن چاہی مراد کو پا لیا اور غالب آنے والوں میں سے ہو گیا۔ اور جب آخرت والے وعدہ کا وقت آیا تو اللہ نے چاہا کہ پھر آدم کو ابلیس اور اس کی فوج پر غلبہ عطا کرے اور اپنی جناب سے عطا کئے ہوئے حربہ سے اس دجّال کو قتل کرے تو اس نے مسیح موعود کو، جو ایک معنی سے آدم ہے، پیدا کیا تا وہ اس اژدہے کواور اس کی سرکشی کو تباہ و برباد کر دے۔ پس مسیح کی آمد لازم تھی تا آخر کار فتح آدم کی ہو اور یہ پورا ہو کر رہنے والا وعدہ تھا۔ اللہ پاک اپنے قول اِنَّکَ مِنَ المُنْظَرِیْنَ (یقیناً تُو مہلت دیئے جانے والوں میں سے ہے۔الاعراف16:)میں اس عظیم فتح اور اس قدیم دجال یعنی شیطان کے قتل کی طرف اشارہ فرما چکا ہے۔ یعنی تیری کلیۃً بیخ کنی کا اور جو توُ طرح طرح کے شرک، کفر اور فسق کے ذریعہ غلبہ پا چکا ہے اس کو تباہ کرنے کا کام صرف آخری زمانہ میں اور امام الزمان مسیح کے وقت میں ہی ہو گا۔ اگر توُ عقلمندوں میں سے ہے تو سمجھ لے۔ منہ]پس اس وقت اللہ نے اپنے مسیح کو اس جنگ کے لئے بھیجا تا کفر کی ظلمات کو کافور کر دے اور ظالموں کو نیزے اور تلوار کے وار سے نہیں بلکہ حجت کی رو سے نابود کر دے اور تا کافروں کی جڑ کاٹ دے اور تا لوگ باہم مخالف ہو جانے کے بعدپھر اتحاد اور فنا کی طرف لوٹ آئیں۔ پس اس مقام سے ثابت ہوا کہ مسیح موعود ان صفات میں اسی طرح آدم کے بالمقابل ہے جیسا کہ خواص اور تاثیرات میں ایک مخالف چیز دوسری کے بالمقابل ہوتی ہے۔ یقیناً اس میں متقیوں کے لئے ایک نشان ہے۔ پھر واضح ہو کہ آدم اور مسیح موعود کے درمیان یہ تضاد مخفی یا محض نظریہ نہیں ہے بلکہ یہ ایک واضح ترین بات اور روشن ترین بدیہیات میں سے ہے۔ آدم اس لئے آیاتھا تا نفوس کو اس دنیاوی زندگی کی طرف نکال لائے اور ان کے درمیان اختلاف اور عداوت کی آگ بھڑکائے ۔جب کہ تمام امتوں کا مسیح اس لئے آیا ہے تا انہیں پھر فنا کے گھر کی طرف لوٹا دے اور ان کے درمیان سے اختلاف، باہمی جھگڑے اور دشمنی کو اور تفرقہ اور انتشار کی اصل کو اٹھا دے اور انہیں اتحاد، فنا، نفی ٔغیر اللہ اور خالص دوستی کی طرف لے آئے۔ مسیح موعود اللہ کے نام اَلْآخِرُ کا مظہر ہے جو کہ سلسلہ مخلوقات کا خاتم ہے۔ جس کی طرف ارشادِ خداندوی ہُوَاَلْآخِرُ میں اشارہ کیا گیا ہے۔ کیونکہ یہ نام کائنات کی انتہا کی علامت ہے اس لئے مسیح کے نفس نے موت کے ذریعہ سلسلۂ کثرت کے خاتمہ کا تقاضا کیا یا متعدد مذاہب کو ایک ایسے دین کی طرف واپس لے آنے کا تقاضا کیا جس میں خواہشات اور ارادوں کے اعتبار سے نفوس کی موت ہواور جس میں فطری شریعت پر چلانا ہو جو الٰہی مصلحتوں کے تحت جاری و ساری ہے اور جس میں نفس کی خواہشات کے میلان کے نتیجے میں عفو و انتقام اور محبت و عداوت سے لوگوں کو نجات دلانا ہو۔ کیونکہ فطرتی شریعت، جو تمام قوائے انسانیہ کو کام میں لاتی ہے وہ اس بات پر راضی نہیں ہوتی کہ صرف کسی ایک قوت کی خادم بنے اور نہ ہی انسانی اخلاق کو محض عفو کے دائرہ میں یا محض انتقام کے دائرہ میں مقید کرتی ہے بلکہ اسے ایک ناپسندیدہ خُلق خیال کرتی ہے۔ اور ہر قوت کو حسبِ موقع مصلحت اورتقاضائے ضرورت کے مطابق اس کا پورا حق دیتی ہے اور وقتی مصلحتوں کے تغیرات کے مطابق عفو و انتقام اور خالص دوستی و دشمنی کا حکم بدلتی رہتی ہے۔ یہ ہے نفس اور خواہشات اور جذبات نفسانیہ کی موت اور فانی لوگوں میں شامل ہو جانا۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 189تا193۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)