ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
واضح ہو کہ کتاب اللہ میں مسیح موعود سے مراد وہ عیسیٰ بن مریم نہیں جو صاحب انجیل اور شریعت موسویہ کا خادم ہے
جیسا کہ فیجِ اعوج اور خطا کار گروہ کے بعض جاہلوں نے خیال کر لیا ہے بلکہ وہ اس اُمّت میں سے خاتم الخلفاء ہے۔
جہاں تک اُس عیسیٰ ؑ کاتعلق ہے جو صاحب ِ انجیل ہے تو وہ فوت ہو چکا اور ہمارا ربّ اپنی کتاب جلیل میں اس پر گواہی دے چکا ہے۔
’’ پس حاصل کلام یہ ہے کہ مسیح موعود لوگوں کو ہست سے نیست کی طرف منتقل کرے گا اور انہیں منہدم گھر کے دن یاد دلائے گا اور انہیں مُردوں کے ٹھکانے کی طرف منتقل کرے گا۔ خواہ سماوی اور ارضی حوادث کے طرح طرح کے اسباب سے جسمانی طور پر مارنے سے تعلق ہو یا نفسِ اَمّارہ کو مارنے اور اس موت سے جونشا ٔۃِ ثانیہ پانے والوں پر دُوئی کے باقی ماندہ اثرات کو اپنے وجود سے نکال دینے، نفسانیت کی ظلمات کو چاک کرنے اور مراتب فنا کی تکمیل کرنے سے وارد ہوتی ہے۔ یقیناً اس میں غور و فکر کرنے والوں کے لئے ہدایت ہے۔نیز واضح ہو کہ کتاب اللہ میں مسیح موعود سے مراد وہ عیسیٰ بن مریم نہیں جو صاحب انجیل اور شریعت موسویہ کا خادم ہے جیسا کہ فیجِ اعوج اور خطا کار گروہ کے بعض جاہلوں نے خیال کر لیا ہے بلکہ وہ اس اُمّت میں سے خاتم الخلفاء ہے جیسا کہ عیسیٰ ؑ سلسلہ موسویہ کے خاتم الخلفاء خاتم المرسلین اور اس کی آخری اینٹ کی طرح تھا۔ یقیناً یہی سچ ہے۔ پس ہلاکت ہے ان لوگوں کے لئے جو قرآن پڑھتے ہیں پھر بھی انکار کرتے جاتے ہیں۔ یقیناً فرقان اس مسئلہ میں دونوں جھگڑنے والوں کے درمیان فیصلہ فرما چکا ہے۔ اس نے سورۃ النور میں اپنے قول ’’مِنْکُمْ‘‘ سے صراحت فرمائی ہے کہ خَاتَم الْأَئِمَّۃ اِسی اُمت سے ہو گا۔ اسی طرح قرآن نے اس مسئلہ کو سورۃ التحریم، سورۃ البقرۃ اور سورۃ الفاتحہ میں بھی وضاحت سے بیان کیا ہے۔ پس تم واضح قطعی نصوص سے کہاں بھاگ رہے ہو؟ اور کیا اہلِ دانش کے لئے قرآن کے بعد بھی کسی دلیل کی ضرورت ہے! ان پاک صحیفوں کو چھوڑ کر تم کس بیان پر ایمان لاؤ گے؟ اللہ تعالیٰ سورۃ التحریم میںاپنے قول فَنَفَخْنَا فِیْہِ مِنْ رُّوْحِنَا [اور ہم نے اس میں اپنا کلام ڈال دیا(التحریم13:)]میں مومنوں سے یہ وعدہ فرما چکا ہے کہ ان میں سے ابنِ مریم پیدا کرے گا۔ وہ اس نام کا وارث ہو گا اور ماہیّت میں کسی فرق کے بِدُوں عیسیٰ ہو گا۔ پس اس آیت میں اللہ کی طرف سے بطور وعدہ یہ قرار پا چکا ہے کہ اس اُمّت میں سے ایک فرد کو ابنِ مریم کا نام دیا جائے گا اور کامل تقویٰ کے بعد اس میں اُس کی روح پھونکی جائے گی۔ پس مَیں ہی وہ مسیح ہوں جس کی وجہ سے تم نے مجھے ملامت کی۔ اور عزت و جبروت والے اللہ کی باتوں کو بدلنے والا کوئی نہیں۔ کیا تم اللہ کے وعدہ میں سے اپنا نصیبہ یہ بناتے ہو کہ تم خباثت اور بڑی سرکشی میں موسیٰ ؑ کی اُمّت کے یہود کی طرح یہود بن جاؤ اور تم نہیں چاہتے کہ کلیم اللہ ؑکے سلسلہ کے مسیح کی طرح تم میں سے بھی مسیح ہو۔ تم پر افسوس! تم شر اور نقصان میں مماثلت پر تو راضی ہو مگر تم خیر میں مماثلت ہونے پر راضی نہیں۔ اللہ کی قسم! ایک دشمن اپنے دشمن سے وہ سلوک نہیں کرتا جو تم نے اپنے آپ سے کیا ہے۔ تم نے کلام اللہ کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے پھینک رکھا ہے۔ ہم نے تمہیں یاد دلا یا لیکن تم عمداََ بھول گئے اور ہم نے تمہیں دکھایا لیکن تم اندھے بن بیٹھے اور ہم نے تمہیں بلایا مگر تم نے انکار کر دیا۔ اے گروہِ دشمناں! ہر اُس معاملہ میں جس میں تم نے مخالفت کی ،تم نے اپنے نفس امّارہ کی پیروی کی۔ کیا تم بے لگام چھوڑ دیئے جاؤ گے۔ یاتم نے اپنی خواہشِ نفس سے جو بدیاں کمائی ہیں وہ تمہیںمعاف کر دی جائیں گی۔ تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم قرآن میں غور و فکر نہیں کرتے اور تمہارے رب نے عمدہ ترین بیان سے جو کچھ فرمایا ہے تم اس پر نظر نہیں کرتے۔ کیا تمہارے لئے سورۃ التحریم کی آیت کافی نہیں۔یا تم خدائے کریم کے کلام سے اعراض کرتے ہو۔ دیکھو کہ کس طرح اللہ نے اس سورہ میں اس اُمّت کے لئے مریم کی مثال بیان کی ہے اور اس پیرایہ میں یہ وعدہ فرمایا ہے کہ کامل تقویٰ پر قائم تم لوگوں میں سے ہی ابنِ مریم ہو گا۔ اس آیت میں مذکور اس مثال کے تحقّق کے لئے ضروری تھا کہ اس اُمّت میں سے ایک فرد عیسیٰ بن مریم ہو،تاکہ یہ مثال بغیر کسی شک و شبہ کے ظاہراً بھی پوری ہو جائے۔ ورنہ یہ مثال عبث اور جھوٹ ہوتی اور اس اُمّت کے افراد میں سے کوئی فرد بھی اس کا مصداق نہ ہوتا۔ اور یہ امر تو ان میں سے ہے جوحضرت ربّ العزت کے شایانِ شان نہیں۔ اور یہی حق ہے جو خدائے ذو الجلال نے فرمایا ہے۔ پس حق کو چھوڑ کر گمراہی کے سوا اور کیا ہے۔ اور جہاں تک اُس عیسیٰ ؑ کاتعلق ہے جو صاحب ِ انجیل ہے تو وہ فوت ہو چکا اور ہمارا ربّ اپنی کتاب جلیل میں اس پر گواہی دے چکا ہے۔اُس عیسیٰ ؑ کے لئے ممکن نہیں کہ دنیا میں واپس آئے اور خاتمَ الانبیاء بن جائے جب کہ نبوت ہمارے نبی ﷺ پر ختم کر دی گئی ہے۔ پس آپؐ کے بعد کوئی نبی نہیں سوائے اس کے جو آپؐ کے نور سے منور ہو اور حضرت کبریا کی جناب سے آپؐ کا وارث بنایا جائے۔جان لو کہ مقام خَتمیّت ازل سے محمد ﷺ کو عطا کیا گیا ہے۔ پھر اسے دیاگیا جسے آپؐ کی روح نے تعلیم دی اور اسے اپنا ظِلّ بنا لیا۔ پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی٭ [حاشیہ ۔ یہ اللہ کی اس وحی کی طرف اشارہ ہے جو براہین احمدیہ میں لکھی گئی ہے اور اس پر بیس برس سے زائد مدت گزر چکی ہے۔ اللہ نے میری طرف وحی کی تھی اور فرمایا تھا کہ ہر برکت محمد ﷺ کی طرف سے ہے۔ پس بڑا مبارک وہ ہے جس نے تعلیم دی اور جس نے تعلیم پائی۔ یعنی نبی ﷺ نے اپنی روحانیت کی تاثیر سے تیری تعلیم کی ہے اور تیرے دل کا جام آپؐ نے اپنی رحمت کے فیض سے لبریز کر دیا ہے تا کہ تجھے اپنے صحابہ میںشامل فرما لیں اور تجھے اپنی برکت میں شریک فرمائیں اور تا کہ اللہ کی وَآخَرِیْنَ مِنْھُمْ والی پیشگوئی اس کے فضل اور احسان سے پوری ہو جائے۔ اور چونکہ یہ پیشگوئی قرآن میں مذکور دعویٰ کی محکم بنیاد اور اس پر برہانِ اعظم تھی اس لئے اللہ سُبْحَانَہٗ نے اس کی طرف براہین احمدیہ میں اشارہ فرمادیا تا کہ اس کا یہ ذکر طوالت زمانہ کے اعتبار سے دشمنوں پرحجت ہو ۔ منہ]‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 194تا199۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)