ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
کسی نبی کے لئے خاتم الانبیاءؐ کے بعد آنا ممکن نہیں سوائے اس کے جو آپؐ کی اُمّت میں سے آپؐ کا وارث بنایا گیا ہو اور اسے آپؐ کے نام اور جوہر سے حصہ دیا گیا ہو۔
اللہ نے مسیح موعود کو پیدا کیا تا زمانے کے آخر پر شیطان کو ہزیمت پہنچائے۔ یہ وہ وعدہ ہے جو قرآن میں لکھا ہواہے۔
’’پس یقیناً حقیقی خَتمیّتچھٹے ہزار میں مقدر تھی جو کہ خدائے رحمن کے دنوں میں سے چھٹا دن ہے۔ تا کہ جو نوع انسان کا خاتم ہے وہ ابوالبشر (آدم) سے مشابہ ہو جائے۔ نیز بعض دیگر مصلحتوں نے تقاضا کیا کہ ہمارے رسول (ﷺ) پانچویں دن میں یعنی آدم کے بعد پانچویں ہزار میںمبعوث کئے جائیں کیونکہ پانچواں دن عالم کبیر کے اجتماع کا دن ہے اور وہ آدم کا ظل ہے جسے اللہ نے عزت و شرف عطا کیا کیونکہ آدم نے اپنے اندر وہ سب کچھ جمع کر رکھا ہے جو اس عالم میں متفرق طور پر موجود ہے اور اسے جوڑ کر سمیٹ لیا ہے جو الگ ہو کر بکھرا ہوا ہے۔ پس کوئی شک نہیں کہ عالم کبیر متنوع صورتوں میں بمنزلہ آدم کی پہلی پیدائش کے ہے۔پس آدم بلا شک و شبہ اس معنی میں پانچویں دن میںپیدا کیا گیا ۔ پھر اللہ نے چاہا کہ ہمارے نبی ﷺ کو، جو آدم ہیں، چھٹے ہزار میںآپؐ کی پہلی تخلیق کے بعد ایک نئے رنگ میں پیدا کرے جیساکہ پہلے اس نے اپنے چنیدہ فرد آدم کو آغازِ تخلیق کے دنوں میں سے چھٹے دن کے آخر پر پیدا کیا تھا تا کہ پہلی اور آخری پیدائش میں مشابہت پوری ہو جائے۔ اور یہی حقیقی جمعہ کا دن ہے جب کہ آدم کا جمعہ عقلمندوں کے نزدیک اس کا ظِلّ تھا۔ پھر اللہ نے آپؐ کی امّت میں سے بروزی رنگ میں آپؐ کا ایک مظہر بنایا جو نام اور ماہیت میں اصل کی طرح ہی ہے اور اللہ نے تکمیل مماثلت کے لئے اسے آغاز تخلیق کے دنوں کے حساب سے چھٹے دن میں پیدا کیا یعنی چھٹے ہزار کے آخر میں تا کہ وہ اپنی تخلیق کے دن کے لحاظ سے آدم سے مشابہ ہو اور یہی درحقیقت جمعہ کا دن ہے کیونکہ اللہ نے مقدر کر رکھا ہے کہ وہ اس دن میں اپنی رحمت ِ کاملہ سے تمام متفرق گروہوں کو اکٹھا کرے گا اور بِگل پھونکاجائے گا۔ یعنی اللہ ان کو جمع کرنے کے لئے تجلیّ دکھائے گا تو فوراً ہی وہ ملّت ِ واحدہ پر اکٹھے ہو جائیںگے سوائے ان کے جو مشیّتِ ایزدی سے بدبخت ہوئے اور بدبختی کی قید نے انہیں روکے رکھا۔ اسی کی طرف اللہ سبحانہ نے سورۃ الجمعہ میں حقیقی جمعہ کے دن کی طرف توجہ دلاتے ہوئے اپنے ارشاد (الجمعۃ4:)میں اشارہ فرمایا ہے۔ اس قول سے اللہ کا منشاء یہ ہے کہ وہ مسیح موعود جو خاتم الانبیاءؐ کے بعد آئے گا وہ مماثلت تامہ کے اعتبار سے محمد ﷺ ہی ہو گا اور اس کے رفقاء صحابہ کی طرح ہوں گے اور وہی اس اُمّت کے لئے عیسیٰ موعود ہو گا۔ یہ اللہ ذوالعزت کی طرف سے سورۃ التحریم، سورۃ النور اورسورۃ الفاتحہ میں وعدہ ہے۔ یہ وہ حق بات ہے جس میں وہ شک کر رہے ہیں۔ کسی نبی کے لئے خاتم الانبیاءؐ کے بعد آنا ممکن نہیں سوائے اس کے جو آپؐ کی امت میں سے آپؐ کا وارث بنایا گیا ہو اور اسے آپؐ کے نام اور جوہر سے حصہ دیا گیا ہو۔اور علم رکھنے والے اس بات کو جانتے ہیں۔ پس یہ ہے تمہارا مسیح جسے تم دیکھ تو رہے ہو مگر اسے پہچان نہیں رہے۔ اور آسمان کی طرف نظریں اٹھائے ہوئے ہو۔ کیا تم گمان کرتے ہو کہ اللہ عیسیٰ بن مریم کو اس کی وفات کے بعد اور خاتم النبیینؐ کے بعد دنیا میں لوٹا دے گا۔ دُور کی بات ہے، بہت دُور کی بات ہے جو تم خیال کئے بیٹھے ہو۔ اللہ وعدہ فرما چکا ہے کہ جس نفس کے لئے وہ موت کا فیصلہ کر دیتا ہے وہ اسے روک رکھتا ہے۔ اور اللہ اپنے وعدہ کے خلاف نہیں کرتا لیکن تم ایک جاہل قوم ہو۔ کیا تم خیال کرتے ہو کہ وہ عیسیٰ کو دنیا کی طرف بھیجے گا اور چالیس برس اس کی طرف وحی کرتا رہے گا اور اسے خاتم الانبیاء بنا دے گا اور اپنے قول (الاحزاب41:)کو فراموش کر دے گا۔ وہ پاک ہے اور اس سے بہت بلند ہے جو تم بیان کرتے ہو۔ تم محض ان الفاظ کا تتبع کر رہے ہو جن کی حقیقت تمہیں معلوم نہیں۔ اگر تم ان کو اللہ کی طرف سے آنے والے حَکم کے سامنے، جو تمہاری طرف بھیجا گیا ہے، پیش کر دیتے تو یہ تمہارے لئے بہتر ہوتا اگر تم جانتے ہو۔ وائے حسرت تم پر، تم نے قصے کہانیوں کو ہی علم دین بنا لیا ہے اور تم بخل اور حسد کی وجہ سے ان کی بنیاد پر جھگڑتے ہو۔ اللہ نے تمہارے دلوں پر مہر کر دی ہے پس تم دیکھ نہیںسکتے۔ کیا تم ان دو متقابل سلسلوں (یعنی سلسلہ محمدیہؐ اور سلسلہ موسویہؑ) پر نظر نہیں کرتے یا تم پر تمہاری بدبختی غالب آ چکی ہے، پس تم محسوس نہیں کرتے۔ اور تم کہتے ہو کہ مسیح موعود کا ذکر قرآن میں نہیں ہے حالانکہ قرآن اس کے ذکر سے بھرا ہوا ہے لیکن اندھے اسے نہیں دیکھ سکتے۔ خبردار! ان جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ہے جو کتاب اللہ کو جھٹلاتے اور اس میں تحریف کرتے ہیں اور ڈرتے نہیں۔ اور جب ان سے کہا جاتا ہے کہ آؤ ہم تمہارے لئے اللہ کے دلائل کھول کر بیان کریں تو کہہ دیتے ہیں کہ ہم تو ہیں ہی ہدایت یافتہ حالانکہ اُن کے ہاتھوں میں باطل قصوں کے سوا کچھ نہیں اور وہ تقویٰ شعار نہیں ہیں۔ اور وہ جانتے بوجھتے ہوئے ایمان لانے والوں سے تمسخر کرتے ہیں۔ میرا سلسلہ محمدیہؐ کے آخر پر آنا محض مماثلت کو کامل کرنے اور مقابلہ کے وزن کو پورا کرنے کے لئے ہے۔ اور اس لئے ہے تا کہ شیطان کے غلبہ کے بعد آدم کوپھر غلبہ بخشا جائے٭۔ [حاشیہ۔ اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور اُسے انسانوں اور جنوّں میں سے ہر ذی روح کا سردار، حاکم اور امیر بنایا جیسا کہ آیت اُسْجُدُوْا ِلٓادَمَ (البقرۃ35:)سے تفہیم ہوتی ہے ۔پھر شیطان نے اسے پھسلادیا اور اسے جنتوں سے نکلوادیا۔ اور حکومت اس اژدھا کو دے دی گئی اور اس جنگ میں آدم کو ذلت، رسوائی اور شرمندگی پہنچی۔ جنگ میں برتری کبھی ایک کی ہوتی ہے اور کبھی دوسرے کی،اور خدائے رحمٰن کے نزدیک (اچھا) انجام متقیوں کا ہی ہے۔پس اللہ نے مسیح موعود کو پیدا کیا تا زمانے کے آخر پر شیطان کو ہزیمت پہنچائے۔ یہ وہ وعدہ ہے جو قرآن میں لکھا ہواہے۔ منہ]پس انہیں کیا ہو گیا ہے کہ وہ سوچتے نہیں۔ کیا اللہ پر عیسیٰ بن مریم جیسا اورعیسیٰ پیدا کرنا مشکل ہے۔ وہ پاک ہے۔ جب وہ کسی امر کا فیصلہ کر لے تو اسے صرف یہ کہتا ہے کہ ہو جا تو وہ ہونے لگتا ہے اور ہو کر رہتا ہے۔ وہ اللہ ہی ہے جس نے سلسلہ محمدیہ کے آغاز میں مثیل موسیٰ ؑ کو مبعوث فرمایا۔ پس اس سے ظاہر ہوا کہ وہ چاہتا ہے کہ اس سلسلہ کے آخر پر مثیل عیسیٰ پیدا کرے تا دونوں سلسلوں میں مشابہتِ تامہ ہو جائے۔ پس تمہیں کیا ہو گیا ہے کہ تم ایمان نہیں لاتے۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 199تا205۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)