حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے سیالکوٹ میں قیام کے بعض واقعات
حضرت مسیح موعودؑ کے والد بزرگوارحضرت مرزا غلام مرتضیٰ صاحب کو آپ کی زمانہ طالبعلمی سے ہی آپ کی ملازمت کی فکر دامنگیر تھی۔ چنانچہ 1852ء میں دینانگر ضلع گورداسپور میں ملازم کروایالیکن آپ صرف ایک دن قیام کے بعد واپس تشریف لے آئے۔ والد صاحب پھر بھی ملازمت کی بات کرتے رہتے تھے اور سید محمد علی صاحب کے ہمراہ جموں کشمیر میں بھی بھجوایا مگر حضرت مسیح موعود چند روز کے بعد ہی واپس آگئے۔ پھر والد صاحب نے 1864ء میں آپ کو سیالکوٹ میں ملازم کروا دیا۔
حقیقت میں حضرت مسیح موعودؑ کا دل تو ملازمت کے لئے نہ کرتا تھا مگر آپ ہر دفعہ والد صاحب کی اطاعت کے جذبہ سے بہ کراہت اس کام میں مشغول ہوگئے۔ لیکن آپ دل و جان اپنے آقا و مولیٰ حضرت محمد مصطفی ﷺ کے عشق میں مخمور ہوکر دین اسلام کے دفاع میں مصروف رہتے اور قرآن کریم کی تلاوت میں مستغرق رہتے۔
سیالکوٹ میں رہائشحفاظت خاص کا واقعہ
ابتدا سیالکوٹ میں رہائش کے دوران پہلے آپ محلہ جھنڈانوالہ میں ایک چوبارے میں مقیم تھے۔ جہاں پر آپ کی حفاظت خاص کا واقعہ بھی ہوا کہ رات کو اس جگہ پندرہ سولہ افراد سوئے ہوئے تھے کہ آپ نے شہتیر سے ٹک ٹک کی آواز سنی اور ساتھیوں کو جگایا کہ چھت گرنے والی ہے یہاں سے نکل جائیں۔ ان کے انکار کے باوجود سب کو نکال کر آپ نے اپنا قدم اس کمرہ سے باہر نکالا اور جونہی آپ نے قدم مبارک باہر نکالا چھت دھڑام سے دوسری چھت کو بھی ساتھ لئے نیچے آگری۔ لیکن آپ کی وجہ سے سب بچ گئے۔
اس واقعہ کے بعد آپ فضل دین صاحب کے مکان واقع کشمیری محلہ میں اقامت گزین ہوگئے۔ پھر سیالکوٹ کی جامع مسجد کے سامنے حکیم منصب علی صاحب وثیقہ نویس کے ہمراہ ایک بیٹھک میں رہنے لگے اور آخر ملازمت تک اسی جگہ رہائش پذیر رہے۔ یہ مقامات مختصر اور بے رونق سے تھے اور ظاہری کشش اور دلچسپی موجود نہ تھی۔ یہاں بھی حفاظت خاص کا واقعہ ہوا کہ ایک دفعہ آسمانی بجلی گری سارا کمرہ دھوئیں سے بھر گیا مگر کسی کو کوئی ضرر نہ پہنچا۔ جبکہ مندر کے اندر ایک آدمی اسی بجلی سے ہلاک ہوگیا تھا۔
اخلاق فاضلہ کا ظہور
آپ دفتر میں اپنا مفوضہ کام پوری توجہ، دیانتداری، محنت اور ذمہ داری سے ادافرماتے مگر دفتری اوقات کے بعد ان معاملات سے دست کش ہوجاتے اور اگر کام کروانے لوگ آتے بھی تو آپ ان کو دفتر آنے کا کہلوادیتے۔ لیکن یہ دور آپ کی دلی تمنا کو پورے کرنے کے لئے نہ تھا۔ چنانچہ ایک دفعہ قادیان سے ایک حجام آیا اس نے ملازمت کے بارے میں دریافت کیا تو آپ نے بے ساختہ فرمایا کہ ’’قید خانہ ہی ہے‘‘۔ گویا یہ کام آپ نے صرف والد صاحب کی اطاعت میں کیا ورنہ طبیعت ہرگز اس طرف مائل نہ تھی۔ مگر جب تک کام کیا نہایت دیانتداری اور محنت سے کیا۔
غیرت دینی کا واقعہ
ملازمت کے دوران بھی آپ کی توجہ حصول علم قرآن کی طرف رہی اور ساتھ ہی ساتھ آپ دین کے دفاع کا کام کرتے رہے۔ اور غیرت دینی کا بھی مظاہرہ فرماتے رہے۔ ان دنوں دفاتر کے سپرنٹنڈنٹ پنڈت سہج رام اکثر اسلام پر اعتراضات کرتا رہتا اور آنحضرت ﷺ کے خلاف بھی زبان طعن دراز کرتا رہتا تھا۔ آپ اپنے آقا کی توہین ہرگز برداشت نہیں کرتے تھے اس لئے ہر قسم کے عواقب اور خطرات سے بے نیاز ہو کر ایک بیباک مجاہد کی حیثیت سے ڈٹ کر جواب دیتے۔ آپ کے زبردست دلائل سے لاجواب اور مبہوت ہونے کے بعد زچ ہو جاتا اپنی بے بسی کی کسر نکالنے کے لئے دفتری معاملات کا سہارا لے کر آپ کو تکلیف دینے کی کوئی نئی سے نئی صورت پیدا کرلیتا۔یہ کشمکش چار سال تک قائم رہی۔ آپ کے دوست لالہ بھیم سین آپ کو اس سے نہ الجھنے کا مشورہ دیتے مگر آپ کو یہ کب گوارا ہوسکتا تھا۔ بعد میں یہی سہج رام امرتسر میں ناگہانی موت کا شکار ہوا اور اس کی موت کی اطلاع خدا تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو بذریعہ کشف دی۔ آپ فرماتے ہیں۔
’’ایک شخص سہج رام نام امرتسر کی کمشنری میں سررشتہ دار تھا اور پہلے وہ ضلع سیالکوٹ میں صاحب ڈپٹی کمشنر کا سر رشتہ دار تھا اور وہ مجھ سے ہمیشہ مذہبی بحث رکھاکرتا تھا اور دین اسلام سے فطرتاً ایک کینہ رکھتا تھا اور ایسا اتفاق ہوا کہ میرے ایک بڑے بھائی تھے انہوں نے تحصیلداری کا امتحان دیا تھا اور امتحان میں پاس ہو گئے تھے اور وہ ابھی گھر میں قادیان میں تھے اور نوکری کے امیدوار تھے۔ ایک دن مَیں اپنے چوبارہ میں عصر کے وقت قرآن شریف پڑھ رہا تھا جب میں نے قرآن شریف کا دوسرا صفحہ اُلٹانا چاہا تو اسی حالت میں میری آنکھ کشفی رنگ پکڑ گئی اور میں نے دیکھا کہ سہج رام سیاہ کپڑے پہنے ہوئے اور عاجزی کرنے والوں کی طرح دانت نکالے ہوئے میرے سامنے آکھڑا ہوا جیسا کہ کوئی کہتا ہے کہ میرے پر رحم کرا دو۔ میں نے اس کو کہا کہ اب رحم کا وقت نہیں۔ اور ساتھ ہی خدا تعالیٰ نے میرے دل میں ڈالا کہ اسی وقت یہ شخص فوت ہو گیا ہے اور کچھ خبر نہ تھی۔ بعد اس کے میں نیچے اُترا۔ اور میرے بھائی کے پاس چھ سات آدمی بیٹھے ہوئے تھے اور ان کی نوکری کے بارہ میں باتیں کر رہےتھے۔ میں نے کہا کہ اگر پنڈت سہج رام فوت ہو جائے تو وہ عہدہ بھی عمدہ ہے ان سب نے میری بات سُن کر قہقہہ مار کر ہنسی کی کہ کیا چنگے بھلے کو مارتے ہو۔ دوسرے دن یا تیسرے دن خبر آگئی کہ اُسی گھڑی سہج رام ناگہانی موت سے اِس دنیا سے گزر گیا‘‘۔
قرآن کریم کی محبت
دفتری فرائض کی سرانجام دہی تو دفتری اوقات میں ہی ہوتی تھی باقی پورا وقت آپ کا تلاوت قرآن مجید، عبادت گزاری، شب بیداری، خدمت خلق اور اشاعت اسلام کی دینی مہمات میں گزرتا تھا۔
جب کچہری سے فارغ ہو کر واپس اپنی قیامگاہ پر تشریف لاتے تو دروازہ بند کر لیتے اور قرآن شریف کی تلاوت اور ذکر الٰہی میں مصروف ہو جاتے۔ بعض لوگوں نے یہ ٹوہ لینے کے لئے بند کمرہ میں کیا کرتے ہیں۔ جب کمرہ میں جھانک کر دیکھا تو آپ کو مصلّی پر رونق افروز ہو کر یہ دعا کرتے دیکھا کہ ’’یا الٰہی یہ تیرا کلام ہے مجھے تو تُو ہی سمجھائے گا تو میں سمجھ سکتا ہوں‘‘۔ اسی طرح میاں بوٹا صاحب کی روایت ہے کہ آپ مکان کے صحن میں ٹہلتے رہتے اور قرآن شریف پڑھتے رہتے تھے۔
خدمت خلق
اس دوران حضرت مسیح موعودؑ خدمت خلق کا بھی موقع پیدا فرما لیتے تھے۔ قادیان سے حجام آپ کے لئے کپڑے لایا تو ان میں ایک جوڑا اسی حجام کو عطا فرمادیا۔ اپنی تنخواہ سے معمولی سادہ کھانے کا خرچ رکھ کر باقی رقم سے محلہ کے بیواؤں اور محتاجوں کی مددکر دیتے کبھی کپڑے بنوا دیتے کبھی نقدی عطا فرمادیتے ۔ علم طب میں آپ کو کافی درک تھا اور آپ اس سے مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے سے کبھی دریغ نہ فرماتے تھے بلکہ علاج کے ساتھ مریض کے لئے دعا بھی کرتے رہتے تھے۔ اور شافی مطلق آپ کے دست مبارک سے شفا کا سامان بھی پیدا کردیتا۔ میاں بوٹا صاحب کشمیری جن کے گھر حضرت مسیح موعودؑ کچھ عرصہ ٹھہرے تھے گواہی دیتے ہیں کہ حضور کی دعاؤں سے ان کے والد صاحب کو خدا نے شفا دی اور اس کے علاوہ بھی کئی دعائیں ہمارے حق میں پوری ہوئیں۔
قیام سیالکوٹ کے دوران بعض پیشگوئیاں بھی حضرت مسیح موعودؑ کی پوری ہوئیں۔فرماتے ہیں:
’’وکیل صاحب یعنی لالہ بھیم سین صاحب کو جو سیالکوٹ میں وکیل ہیں ایک مرتبہ میں نے خواب کے ذریعہ سے راجہ تیجا سنگھ کی موت کی خبر پاکر اُن کو اطلاع دی کہ وہ راجہ تیجا سنگھ جن کو سیالکوٹ کے دیہات جاگیر کے عوض میں تحصیل بٹالہ میںدیہات مع اس کے علاقہ کی حکومت کے ملے تھے فوت ہوگئے ہیں اور انہوں نے اِس خواب کو سن کر بہت تعجب کیا اور جب قریب دو بجے بعد دوپہر کے وقت ہوا تو مسٹر پرنسب صاحب کمشنر امرتسر ناگہانی طور پر سیالکوٹ میں آگئے اور اُنہوں نے آتے ہی مسٹر مکنیب صاحب ڈپٹی کمشنر سیالکوٹ کو ہدایت کی کہ راجہ تیجا سنگھ کے باغات وغیرہ کی جو ضلع سیالکوٹ میں واقع ہیں بہت جلد ایک فہرست تیار ہونی چاہئے کیونکہ وہ کل بٹالہ میں فوت ہوگئے۔ تب لالہ بھیم سین نے اس خبر موت پر اطلاع پاکر نہایت تعجب کیاکہ کیونکر قبل از وقت اس کے مرنے کی خبر ہوگئی۔
ایک وکیل صاحب سیالکوٹ میں ہیں جن کا نام لالہ بھیم سین ہے۔ ایک مرتبہ جب انہوں نے اِس ضلع میں وکالت کا امتحان دیا تو میں نے ایک خواب کے ذریعہ سے اُن کو بتلایا کہ خدا تعالیٰ کی طرف سے ایسا مقدر ہے کہ اس ضلع کے کل اشخاص جنہوں نے وکالت یا مختاری کا امتحان دیا ہے فیل ہوجائیںگے۔ مگر سب میں سے صرف تم ایک ہوکہ وکالت میں پاس ہوجائوگے۔ اور یہ خبر میں نے تیس کے قریب اور لوگوں کو بھی بتلائی ۔ چنانچہ ایسا ہی ہوا اور سیالکوٹ کی تمام جماعت کی جماعت جنہوں نے وکالت یا مختار کاری کا امتحان دیا تھا فیل کئے گئے اور صرف لالہ بھیم سین پاس ہوگئے‘‘۔
پادریوں سے مباحث
آپ کو ناموس مصطفی ﷺ کے تحفظ کے جس معرکہ کے لئے تیار کیا جارہا تھا اس کا پہلا معرکہ سیالکوٹ کی زمین پر ہوا۔ آپ نے لالہ بھیم سین کو سورۃ فاتحہ کی روشنی میں بت پرستی کے مسئلہ پر زبردست تنقید سے بھرپور خط بھی یہیں سے تحریر فرمایا تھا جو کہ بعد میں ان کے بیٹے کنور سین نے حضرت شیخ یعقوب علی عرفانی کو بھجوایا تھا۔
اس زمانہ میں حکومت بھی عیسائی مشن کا عیسائیت کی تبلیغ کو وسیع کرنے کے لئے بھرپور ساتھ دیتی تھی ایسے وقت میں آپ کا اس میدان میں تن تنہا ڈٹ جانا کوئی معمولی بات نہ تھی۔ آپ صحیح معنوں میں سیالکوٹ کی پوری مذہبی فضا پر چھائے ہوئے تھے اور عیسائی پادری آپ کے مسکت اور مدلّل مباحثوں سے بالکل لاجواب ہوجاتے تھے۔ آپ کی بیٹھک کے قریب ہی ایک بوڑھے دکاندار فضل دین کی دکان تھی جہاں شام کو شہر کے اچھے اچھے سمجھدار لوگوں کا ایک ہجوم سا رہتا تھا۔ گاہے گاہے حضرت مسیح موعودؑ بھی تشریف لاتے اور مشن کے ہیڈماسٹر نصراللہ نامی عیسائی سے مذہبی امور پر معلومات افزا گفتگو فرماتے۔ ان دنوں حاجی پورہ میں ایک دیسی پادری الائشہ صاحب بھی ایک کوٹھی میں رہتے تھے۔ ایک دفعہ ان سے آپ کا ایک مختصر سا مگر فیصلہ کُن مباحثہ بھی ہوا۔ پادری صاحب نے مباحثہ کا آغاز کرتے ہوئے دعویٰ کیا کہ عیسائیت قبول کئے بغیر نجات کا حصول ممکن نہیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے جرح میں صرف یہ فرمایا کہ نجات کی مفصّل تعریف بیان کیجئے۔ آپ کا بس اسی قدر فرمانا تھا کہ وہ صاحب دم بخود رہ گئے اور یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑے ہوئے کہ میں اس قسم کی منطق نہیں پڑھا۔
سیالکوٹ قیام کے دوران پادری بٹلر جو سکاچ مشن کے فاضل پادری تھے اکثر آپ کے پاس آتے اور بڑی توجہ، محویت اور عقیدت سے آپ کی باتیں سنتے رہتے۔ جبکہ ان کو منع بھی کیا جاتا کہ وہاں نہ جایا کریں مگر وہ یہی کہتے کہ وہ ایک عظیم الشان آدمی ہے اور اپنی نظیر نہیں رکھتا۔ یہی پادری بٹلر صاحب جب واپس انگلینڈ جانے لگے تو حضرت مسیح موعودؑ سے ملنے کے لئے کچہری آئے اور آپ کو ملے بغیر جانا گوارا نہ کیا۔
مرزا مراد بیگ صاحب جالندھری مدیر اخبار وزیر ہند بھی حضرت مسیح موعودؑ سے بہت متاثر تھے۔ اور عیسائیت کے خلاف آپ کے کلمات کو اپنے اخبار میں بھی شائع کرتے رہتے تھے۔ یہ بعد میں قادیان بھی آپ کو ملنے کے لئے آتے رہتے تھے۔
نیکی اور تقویٰ کا تاثر
حضرت مسیح موعودؑ کے زمانہ ملازمت میں کچہری کے عملہ میں جو بھی شامل تھا آپ کی امانت، دیانت، تقویٰ اور نیکی کا دل سے قائل تھا۔ یہاں تک کہ جب آپ استعفیٰ دے کر واپس آنے لگے تو ڈپٹی کمشنر نے عام تعطیل کر دی تاکہ ہر کوئی آپ کو مل سکے۔ سرکاری افسروں اور ملازموں کے علاوہ بھی جس شخص کو آپ سے ملنے کا اتفاق ہوا اور آپ کی صالح اور درویشانہ طبیعت سے متاثر تھا۔ جن لوگوں کے مکانوں میں آپ نے ان دنوں قیام فرمایا وہ آپ کو ولی اللہ قرار دیتے تھے۔ سیالکوٹ کے علمی طبقہ میں تو آپ کو علم و فضل کا ایک نمایاں مقام حاصل تھا۔
مولوی ظفرعلی صاحب کے والدمنشی سراج الدین صاحب مرحوم لکھتے ہیں کہ
’’ مرزا غلام احمد صاحب… ضلع سیالکوٹ میں محرر تھے اس وقت آپ کی عمر 22،23سال ہو گی اور ہم چشم دید شہادت سے کہہ سکتے ہیں کہ جوانی میں بھی نہایت صالح اور متقی بزرگ تھے۔ کاروبار ملازمت کے بعد ان کا تمام وقت مطالعہ دینیات میں صرف ہوتا تھا۔ عوام سے کم ملتے تھے‘‘۔
سید میرحسن صاحب نے ایک دفعہ فرمایا کہ ’’افسوس ہم نے ان کی قدر نہ کی۔ ان کے کمالات روحانی کو بیان نہیں کرسکتا ان کی زندگی معمولی انسان کی زندگی نہ تھی۔ بلکہ وہ ان لوگوں میں سے تھے جو خداتعالیٰ کے خاص بندے ہوتے ہیں اور دنیا میں کبھی کبھی آتے ہیں‘‘
ایک عرب نوجوان محمد صالح نام شہر میں وارد ہوئے اور ان پر جاسوسی کا شبہ ہوا تو ڈپٹی کمشنر صاحب نے محمد صالح کو اپنے محکمہ میں بغرض تفتیش حالات طلب کیا۔ ترجمان کی ضرورت تھی۔ مرزا صاحب چونکہ عربی میں کامل استعداد رکھتے تھے اور عربی زبان میں تحریر و تقریر بخوبی کر سکتے تھے۔ اس واسطے مرزا صاحب کو بلا کر حکم دیا کہ جو جو بات ہم کہیں عرب صاحب سے پوچھو اور جو جواب وہ دیں اردو میں ہمیں لکھواتے جاؤ۔ مرزا صاحب نے اس کا م کو کماحقہ ادا کیا اور آپ کی لیاقت لوگوں پر منکشف ہوئی۔
پادری بٹلر(ٹیلر) صاحب ایم اے جو بڑے فاضل اور محقق تھے یہ صاحب موضع گوہدپور کے قریب رہتے تھے۔ ایک دفعہ پادری صاحب فرماتے تھے کہ مسیح کو بے باپ پیدا کرنے میں یہ سر تھا کہ وہ کنواری مریم کے بطن سے پیدا ہوئے اور آدم کی شرکت سے جو گنہگار تھا بری رہے۔ حضرت مسیح موعودؑ نے فرمایا کہ مریم بھی تو آدم کی نسل سے ہے پھر آدم کی شرکت سے بریت کیسے۔ اور علاوہ ازیں عورت ہی نے تو آدم کو ترغیب دی جس سے آدم نے درخت ممنوع کا پھل کھایا اور گنہگار ہوا۔ پس چاہئے تھا کہ مسیح عورت کی شرکت سے بھی بری رہتے۔ اس پر پادری صاحب خاموش ہوگئے۔
ایک مرتبہ لباس کے بارے میں ذکر ہورہا تھا ایک کہتا کہ بہت کھلی اور وسیع موہری کا پاجامہ اچھا ہوتا ہے جیسا ہندوستانی اکثر پہنتے ہیں۔ دوسرے نے کہ کہ تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا ہوتا ہے۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ بلحاظ ستر عورت تنگ موہری کا پاجامہ بہت اچھا اور افضل ہے اور ا س میں پردہ زیادہ ہے۔ کیونکہ اس کی تنگ موہری کے باعث زمین سے بھی ستر عورت ہوجاتا ہے۔ سب نے اس کو پسند کیا۔
حضرت مسیح موعودؑ نے اس ملازمت سے 1868ء میں استعفیٰ دے دیا۔ پھر آپ1877ء میں ایک دفعہ پھر سیالکوٹ تشریف لے گئے اور لالہ بھیم سین کے مکان پر قیام فرمایا اور بتقریب دعوت حکیم حسام الدین صاحب کے مکان پر بھی تشریف لے گئے تھے۔
میر حسن صاحب تحریر کرتے ہیں کہ :
حضرت مرزا صاحب پہلے محلہ کشمیریاں میں جو اس عاصی پُرمعاصی کے غریب خانہ کے بہت قریب ہے عمرا نامی کشمیری کے مکان پر کرایہ پر رہا کرتے تھے کچہری سے جب تشریف لاتے تھے تو قرآن مجید کی تلاوت میں مصروف ہوتے تھے۔ بیٹھ کر، کھڑے ہو کر، ٹہلتے ہوئے تلاوت کرتے تھے اور زار زار رویا کرتے تھے۔ ایسے خشوع اور خضوع سے تلاوت کرتے تھے کہ اس کی نظیر نہیں ملتی۔
دینیات میں مرزا صاحب کی سبقت اور پیشروی تو عیاں ہے مگر ظاہری جسمانی دوڑ میں بھی آپ کی سبقت اس وقت کے حاضرین پر صاف ثابت ہوچکی تھی۔ ایک دفعہ کچہری برخواست ہونے کے بعد جب اہلکار گھروں کو واپس ہونے لگے تو اتفاقاً تیز دوڑنے اور مسابقت کا ذکر شروع ہوگیا۔ ہر ایک نے دعویٰ کیا کہ میں بہت دوڑ سکتا ہوں۔ آخر ایک شخص بلّاسنگھ نام نے کہا کہ میں سب سے دوڑنے میں سبقت لے جاتا ہوں۔ مرزا صاحب نے فرمایا کہ میرے ساتھ دوڑو تو ثابت ہوجائے گا کہ کون بہت دوڑتا ہے۔ آخر شیخ اللہ داد صاحب منصف مقرر ہوئے اور یہ امر قرار پایا کہ یہاں سے شروع کر کے اس پل تک جو کچہری کی سڑک اور شہر میں حد فاصل ہے ننگے پاؤں دوڑو۔ جوتیاں ایک آدمی نے اٹھا لیں اور پہلے ایک شخص اس پل پر بھیجا گیا تاکہ وہ شہادت دے کہ کون سبقت لے گیا اور پہلے پل پر پہنچا۔ مرزا صاحب اور بلّا سنگھ ایک ہی وقت میں دوڑے اور باقی آدمی معمولی رفتار سے پیچھے روانہ ہوئے۔ جب پل پر پہنچے تو ثابت ہوا کہ حضرت مرزا صاحب سبقت لے گئے اور بلّا سنگھ پیچھے رہ گیا۔
1868ء میں استعفیٰ دے کر آپ واپس تشریف لے آئے۔اس کا ذکر کرتے ہوئے حضرت مسیح موعودؑ فرماتے ہیں کہ:
’’آخر چونکہ میرا جدا رہنا میرے والد صاحب پر بہت گراں تھا اس لئے ان کے حکم سے جو عین میری منشا کے مطابق تھا میں نے استعفیٰ دے کر اپنے تئیں اس نوکری سے جو میری طبیعت کے مخالف تھی سبکدوش کردیا اور پھر والد صاحب کی خدمت میں حاضر ہوگیا۔
سیالکوٹ کا تیسرا سفر
حضرت مسیح موعودؑ فروری 1892ء میں تیسری دفعہ سیالکوٹ تشریف لے گئے اور حکیم حسام الدین کے مکان پر فروکش ہوئے۔ حضرت مسیح موعودؑ کے تشریف لانے کی خبر سن کر سیالکوٹ اور اس کے نواح سے زائرین کا ایک ہجوم امڈ آیا اور لوگ ذوق و شوق سے حضور کا چہرہ مبارک دیکھنے اور پاک مجلس سے فائدہ اٹھانے کے لئے آنے لگے۔ مسجد حکیم حسام الدین میںنماز عصر کے بعد آپ تشریف فرماہوئے اور لوگوں کے سوالات کے جوابات عطا فرماتے رہے۔جو معقول ہوتے اور دل کو لگتے تھے۔ حضرت مولوی عبدالکریم سیالکوٹی صاحب کے پوچھنے پر کہ عرش کیا ہے؟ آپ نے عرش کے متعلق ایک لطیف تقریر فرمائی۔ اگلے دن بھی حقائق و معارف سے پُر سورۃ فاتحہ کی تفسیر بیان فرمائی۔
اس سفر سیالکوٹ میں ایک مخالف نے بھی سیالکوٹ میں آپ کے خلاف تقاریر کیں اور لوگوں کو آپ سے دور رہنے کا کہا مگر اس کو ناکامی کا منہ دیکھنا پڑا اور لوگ ذوق وشوق سے آپ کی بیعت میں شامل ہوئے۔
٭…٭…٭