قرآن مجید کی وحی اورآنحضرت ﷺ کے روحانی مشاہدات کا ایک نمونہ (چوتھی قسط)
موعود انذارو بشارت کی مزید وضاحت مابعد کی سورتوں میں
اب نہایت اختصار سے میں سورۃ طٰہ، سورۃ انبیاء اورسورۃ حج سے چند ایک باتیں مزید وضاحت کی غرض سے پیش کرتا ہوں جن کا تعلق بھی درحقیقت سورۃ کہف اور سورۃ مریم کی دو منذر ومبشر پیشگوئیوں سے ہی ہے ۔ ان میں ان پیشگوئیوں کے متعلق نئی باتیں بیان کی گئی ہیں۔ مثلاً خداتعالیٰ سے قطع تعلق کرنے والی دجّالی قوموں کا حلیہ، ان کے غلبہ اور تباہی کی میعاد ، اس تعلق میں سابقہ انبیاء کی پیشگوئیوں سے قرآن مجید کی مذکورہ پیشگوئیوں کا توافق ، یاجوج اور ماجوج کا سمندر پرتسلّط ، ان کا دنیا میں پھیلنا اور ان کے ذریعہ سے برباد بستیوں کی تعمیرِ نَو ۔ آنحضرت ﷺ کی قائم کردہ ابدی بادشاہت کو ان اقوام سے خطرۂ عظیم پیدا ہونا اور پھر اس خطرہ سے سلامتی کے ساتھ نجات پانا ۔ بیت اللہ کی ابدی حفاظت کا وعدہ ۔ تمام قوموں کے لئے آنحضرت ﷺ کی ذات کا باعثِ رحمت بننا اور توحید جو انبیاء کی بعثت کی اصل غرض و غایت ہے اسے دنیا میں بحال کرنے کی صراحت۔ وغیرہ وغیرہ۔
موعود ہ انذارو تبشیر کے بارے میں آنحضرت ﷺ یقینِ کامل کے مقام پر تھے
یہی موضوع ہی ان سورتوں کا بھی اور یہی مآل ہے آنحضرت ﷺ کے فرمودہ کا کہ مجھے اس ذات ہی کی قسم ہے جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ابن مریم ضرور حَکَم و عدل ہو کر تم میں نازل ہوگا۔ وہ تمہارا امام ہوگا۔ جو تم میں سے ہوگا ،صلیب توڑے گااور دجال کوقتل کرے گا۔
کتنی عظیم الشان یہ وحی ہے اور کتنی ہی عظمت والی یہ تجلّی ہے جو آنحضرت ﷺ پرواضح طور پر ہوئی ۔ آپؐ کو اس تجلّی کے متعلق علیٰ وجہ البصیرت یقین تھا اور کسی قسم کا شک و شبہ نہ تھا کہ یہ کیونکر پوری ہوگی ۔ اور نہ ہی دجّال کے متعلق آپؐ کو اشتباہ پیدا ہوا کہ وہ کس صورت و شکل میں ظاہر ہوگا ۔
اگر اس کے متعلق کوئی شک و تردّد ہوتا تو آپؐ اپنی امّت کو یہ نہ فرماتے کہ دجّال سے محفوظ رہنے کا نسخہ یہ ہے کہ سورۂ کہف کی آیات پڑھنا۔ اور نہ آپؐ کو ابن مریم کی شخصیت کے متعلق کبھی اشتباہ ہوا کہ وہ کون ہوگا۔ ایک لمحہ کے لئے بھی یہ باور نہیں کیاجاسکتا کہ وفات مسیح ؑ کی تیس آیات عربی زبان میں نازل ہونے کے بعد بھی گویا آپؐ پریہ واضح نہ ہوا کہ اسرائیلی ابن مریم فوت ہوچکے ہیں یا بجسدہِ العنصری زندہ اور یہ کہ قاتلِ دجّال وہی پہلے ابنِ مریم ہیں یا کوئی اور ۔ اگران کی وفات یاآسمان پر جانے کے متعلق آپؐ کے ذہن میں کوئی تردّد ہوتا تو آپؐ یہ نہ فرماتے کہ مسیح ابن مریمؑ دنیا میں 120سال زندہ رہے اور مَیں ساٹھ سال کی عمر میں دنیا سے رخصت ہوجائوں گا۔
اس فوت شدہ ابن مریم ؑسے عالم ملکوت میں آپؐ کی ملاقات ہوئی اور اُس ابن مریم سے بھی ملاقات ہوئی جو قاتل دجّال ہے۔ اسرائیلی ابن مریم کا حلیہ یہ بیان فرمایا اَحْمَرُ اللَّوْنِ وَ جَعْدٌ عَرِیْضُ الصَّدْرِ (صحیح البخاری۔ کتاب أحادیث الأنبیاء۔ باب قول اللّٰہ وَاذْکُرُوْا فِی الْکِتَابِ مَرْیَمَ)
اور قاتل دجّال ابن مریمؑ کا حلیہ الگ بیان کیا۔ فرمایا۔ رَأَیْتُنِی اللَّیْلَۃَ عِنْدَ الْکَعْبَۃِ فَرَأَیْتُ رَجُلًا آدَمَ کَأحْسَنِ مَا أَنْتَ رَائٍ مِنْ اُدْمِ الرِّجَالِ (مشکاۃ المصابیح۔ کتاب الفتن۔ باب العلامات بین یدی الساعۃ و ذکر الدجال) تَضْرِبُ لِمَّتُہٗ بَیْنَ مَنْکَبَیْہِ رَجِلُ الشَّعْرِ۔ (صحیح مسلم۔ کتاب الایمان۔ باب ذکر المسیح ابن مریم)
یعنی قاتلِ دجّال ابن مریم کو دیکھا کہ نہایت ہی خوبصورت گندمی رنگ ہے۔ اس کے سر کے بال گھنگریالے نہ تھے بلکہ سیدھے پیٹھ پر لٹکے ہوئے۔ پس آپ ؐ کے اس مشاہدے کے پیش نظر یہ باور نہیں کیا جاسکتا کہ محض نام کے اشتراک کی وجہ سے ان دومختلف حلیہ رکھنے والے شخصوں کو آپؐ نے ایک ہی ابن مریم سمجھا ہو۔
وہ عظیم الشان انسان جس کے بارے میں قرآن مجید میں یہ وارد ہوا ہے کہ اسے اُفقِ مبین پرسے آئندہ کے واقعات کا مشاہدہ کرایاگیا ہے۔ اس کے متعلق یہ سمجھنا کہ کاسرالصلیب اور قاتلُ الدجّال شخصیت اُس سے چھپی رہی ۔ یہ درحقیقت اپنی ہی جہالت اور نادانی کا اقرارکرناہے۔ کیونکہ آپؐ اس کے متعلق پیشگوئی کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ وَاِمَامُکُمْ مِنْکُمْ (صحیح البخاری۔ کتاب أحادیث الأنبیاء۔ باب نزول عیسیٰ ابن مریم ) وہ تمہارا امام ہوگا۔ جو تم میں سے ہوگا ۔ اس انتہائی بصیرت افروز انتباہ کے باوجود آپؐ کے متعلق ایسا خیال بھی دل میں لانا بہت بڑی سُوء ادبی ہے ۔
اس قسم کی تصریحات کے ہوتے ہوئے محض نام کے اشتراک سے اُس شخص کو دھوکا لگ سکتا ہے جو لفظ تَوَفّٰی کے معنوں سے ناواقف ہو، لفظ رَفَعَ کے معنوں سے نابلد اور جس کی نظر سے سورۃ تحریم کی آخری آیات بھی اوجھل ہوں جن میں اعلیٰ درجہ کے مومن کو مریم بنت عمران سے مشابہت دے کر اس کے متعلق وعدہ کیاگیا ہے کہ اسے مریمی صفت سے مسیحی صفت بنایا اور روح القدس کی تجلّی سے نوازا جائے گا ۔ گویا وہ اپنے روحانی سلوک کی پہلی منزل میں عفّت اور معصومیّت کے لحاظ سے مریم ہے اور دوسری منزل میں ابن مریم۔ ہاں جو سورۃ تحریم کی آخری آیات سے غافل ہو اسے تو یقیناً محض ابن مریم کے نام سے دھوکا لگ سکتا ہے۔ مگر اس انسان کو کسی نام کے اشتراک سے کبھی غلط فہمی نہیں ہوسکتی جو حقیقت آشنا ہے اور جسے تمام آیات بیّنات پر عبور ہے۔ آپؐ کی ذات والا ستودہ صفات مورد تجلّیات الٰہیہ اورسراپا نورٌ علیٰ نور تھی ۔آپؐ کے متعلق ایک لمحہ کے لئے بھی یہ خیال نہیں کیاجاسکتا کہ آپؐ جب اللہ تعالیٰ کی قسم کھا کر صحابہ کرام ؓ سے فرما رہے تھے کہ ضرور ابن مریم تم میں نازل ہوں گے اور یہ کہ تمہارے امام تم میں سے ہی ہوا کریں گے جو تمہارے اختلافات کو مٹانے کے لئے آئے گا اور جو فیصلہ دے گا حق وانصاف سے دے گا۔ صلیب کو توڑے گا خنزیر کو قتل کرے گا۔ دجّال اس کے ہاتھوں سے تباہ و برباد ہوگا۔
جب آپؐ اس قسم کے الفاظ سے صحابہؓکو مخاطب فرمارہے تھے تو یہ خیال درست نہیں کہ گویا آپؐ کی نظر صرف ظاہری الفاظ تک محدود تھی۔ قتل خنزیر سے سؤر کا شکار سمجھتے تھے ، کسرِصلیب سے لوہے تانبے کی بنی ہوئی صلیبوں کو توڑنا مراد تھا۔ ابن مریم سے مراد آپؐ کے نزدیک وہی ابن مریم تھا جس کے فوت ہونے کے بارے میں تیس آیات نازل ہوچکی تھیں۔ اور جب آپ ؐ لوگوں سے یہ فرما رہے تھے وَ اِمَا مُکُمْ مِنْکُمْ تو آپؐ یہ سمجھتے تھے کہ قاتل دجّال اور کاسرِ صلیب تو بنی اسرائیل میں سے ہوگا اور کسی مسجد کا نماز پڑھانے والا امام ہوگا جو انہیں نماز پڑھائے گا۔ اسی طرح جب آپؐ یہ مخصوص پیشگوئی فرمارہے تھے تو گویا آپؐ کے ذہن سے سورۃ کہف اور سورۃ مریم کا موضوع اور اس کا سیاق و سباق اور مکاشفات اور آپ کے مشاہدات سب کالعدم تھے۔ اپنے آقائے نامدار سیّد الرّسل ﷺ کے متعلق ایسا خیال کرنا کتنا بھونڈا اور کتنا ہی مکروہ اورقابل نفرت ہے!۔ کیا ایک لمحہ کے لئے بھی یہ سمجھا جاسکتا ہے کہ سورۃ مریم کی ابتدائی آیات ذِکْرُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ عَبْدَہٗ زَکَرِیَّا (مریم3:) کا صرف یہ مطلب ہے کہ پرانے قصّوں کو خالی دہرا کر آپؐ کی دلجوئی کی جائے کہ بأسِ شدید کا خطرہ گو بہت ہی خطرناک ہے مگر اس سے نجات پانے کا نسخہ یہ ہے کہ تو زکریا ؑ ،یحییٰ ؑ، مریمؑ اور اس کے بیٹے عیسیٰ ؑ کا نام لے لے کر انہیں یاد کر۔ کیا خالی انہیں یاد کرنے سے آپ ؐ کو جو غایت درجہ فکر مند تھے کچھ بھی دلجوئی ہوسکتی ہے۔ تاوقتیکہ ان کے ذکر سے یہ مراد نہ ہو کہ جس طرح ان انبیاء کی اُمّتوں کوآڑے وقت میں سنبھالنے کے لئے رحمت کا سامان کیا گیا اسی طرح تیری امّت کے سنبھالنے کے لئے بھی ویسے ہی رحمت کا سامان کیا جائے گا۔
یقیناً سورۃ مریم میں ان انبیاء کاذکر کرنے سے صرف اور صرف یہی مراد ہے کہ جس طرح زکریّاؑ کے زمانہ میں خداتعالیٰ نے ابراہیم ؑ سے اپنا عہد یاد کرکے دوبارہ چاہا کہ بنی اسرائیل کا ’’لُوٹا ہو ا مقدّس‘‘ واپس دیا جائے اور وہ دیا گیا۔ اور اجڑی ہوئی زبوں حال قوم کو دوبارہ معمور کیاجائے اوروہ معمور کی گئی۔ اسی طرح پر آنحضرت ﷺ کی امّت کے ساتھ بھی وعدہ ہے کہ اسے دوبارہ معمور کیا جائے گا اور جس صلیب نے انہیں ٹکڑے ٹکڑے کیا اسے وعدہ کے مطابق اس کے عیسوی صفت ہمنام کے ہاتھوں ٹکڑے ٹکڑے کیاجائے گا۔ جس دجّال نے حق تعالیٰ کے بندوں سے ان کی سلطنت چھین لی، ان کے تاکستان کو بے ثمر بنایا ، ان کی کھیتی کو اجاڑا، اسے ہمیشہ کے لئے ہلاک کیاجائے گا۔
زکریّاؑ کی کتاب پڑھیں ، باربار پڑھیں۔ ربّ الافواج نے ان کے ذریعہ سے پامال شدہ بنی اسرائیل کو مخاطب کرتے ہوئے ان الفاظ سے خوشخبری دی تھی:۔
’’اے اسرائیل کے گھرانے کہ جس طرح تم غیر قوموں کے درمیان ایک لعنت تھے۔ اُسی طرح سے میں تم کو چھڑاؤں گا اور تم ایک برکت ہو گے۔ مت ڈرو بلکہ تمہارے ہاتھ مضبوط ہوں۔ کیونکہ ربّ الافواج یوں فرماتا ہے کہ جس طرح سے میں نے قصد کیا تھا کہ تم کو سزا دوں جس وقت تمہارے باپ دادوں نے مجھے غصہ ور کرایا۔ ربّ الافواج فرماتا ہے۔ اور میں اپنے ارادے سے پچھتا کے باز نہ آیا۔ اُسی طرح سے میں نے ان دنوں میں ارادہ کیا ہے کہ یروشلم اور یہوداہ کے گھرانے سے نیکی کروں۔ پس تم مت ڈرو۔ ‘‘ (زکریاہ باب 8آیت 13تا 15)
سورہ مریم کی بشارت عظیمہ، واقعات کی روشنی میں !
یہی وہ احیائے ثانی کی خوشخبری مراد ہے ، آیت ذِکْرُ رَحْمَۃِ رَبِّکَ عَبْدَہُ زَکَرِیَّا (مریم3:) کے واضح الفاظ سے جو آنحضرت ﷺ کو آپ کی امت کے دوبارہ احیاء کے متعلق دی گئی۔اور مریم ؑ کا تفصیل سے ذکر کرتے ہوئے فرمایا گیا کہ جس طرح بنی اسرائیل کے دور ثانی کا احیاء مسیحؑ ابن مریم کی بعثت سے ہوا۔اسی بعثت کی مانند مسلمانوں کا احیاء بھی ایک ابن مریم کے ذریعہ سے ہوگا۔یہ امر کہ آیا سورہ مریم کی آیات بیّنات کی ہی وہ تجلّی ہے جس کی بناء پر ابن مریم، کسرِصلیب، قتل دجال کی پیشگوئی کی گئی تھی۔ اب تو واقعات سے بھی ثابت ہوچکا ہے ۔کیونکہ عین اس وقت جبکہ عیسائی علماء اپنی جگہ پر اور مسلمان علماء اپنی جگہ پر ایک دوسرے سے بالکل بے خبری کی حالت میں الگ تھلگ حساب لگارہے تھے کہ عیسائیوں کے عیسیٰ مسیح کی آمد ثانی کب ہوگی اور مسلمانوں کے مہدی کا ظہور کب ہوگا۔ توان میں سے ایک نے مسیح ؑ کی آمد ثانی کی آخری حد اٹھارھویں کا آخر 03اپریل 1897ء قرار دیا اور دوسرے نے چودھویں کاآخر ۔ دونوں نے اپنے اپنے حساب کا اندازہ اٹھارھویں صدی میں اپنی اپنی کتابوں میں شائع کردیا ۔ تو ایسے وقت میں جبکہ یہ اندازے لگائے جارہے تھے اس سے کچھ دیر پہلے عالم ملکوت میں ملاء اعلیٰ کے درمیان ایک اندازہ کیاجانے لگا اور اس اندازہ کے مطابق سورہ مریم کی آیات بعض تو لفظاً اور بعض معناًدوبارہ نازل ہونی شروع ہوئیں۔ اور ان آیات بیّنات سے مسلمانوں میں جو مریم صفت انسان تھا اس کو مخاطب کیاگیا اور فرمایا :۔
1۔ یَا مَرْیَمُ اسْکُنْ اَنْتَ وَزَوْجُکَ الْجَنَّۃَ ۔۔۔نَفَخْتُ فِیْکَ مِنْ لَدُنِّیْ رُوْحَ الصِّدْقِ۔
(تذکرۃ صفحہ55ایڈیشن چہارم)
یعنی اے مریم ! تو اور تیرا ساتھی جنت میں رہو۔ میں نے تجھ میں اپنے حضور سے سچائی کی روح پھونکی ہے۔
2۔ھُزَّ اِلَیَْک بِجِذْعِ النَخْلَۃِ (تذکرۃ صفحہ32ایڈیشن چہارم)یعنی کھجور کے تنے کو اپنی طرف ہلا۔
3۔فَاَجَائَ ھَا الْمَخَاضُ اِلٰی جِذْعِ النَخْلَۃِ قَالَتْ یٰلَیْتَنِیْ مِتُّ قَبْلَ ھٰذَا وَ کُنْتُ نَسْیًا مَّنْسِیًّا۔
(تذکرۃ صفحہ56ایڈیشن چہارم)
یعنی دردِ زِہ اسے کھجور کے تنے کی طرف لائی اور کہنے لگی۔ اے کاش کہ میں اس سے پہلے مر جاتی اور بھولی بسری ہوجاتی ۔
[ اَلْمَخَاضُ، خَوْضٌ سے ہے جس کے لغوی معنی مشکلات میں داخل ہونا،اورمراد وہ امور ہیں جن سے خوفناک نتائج پیدا ہوتے ہیں۔دردانگیزتکلیف کے لئے یہ لفظ استعمال ہوتا ہے۔اس الہام کے یہ معنی ہیں کہ دردانگیزدعوت سے تیری قوم دشمن ہوجائے گی۔ جِذْعِ النَّخلَۃِ تو بطوراستعارہ کے ہے۔اوراس سے مراد مسلمانوں کی اولاد ہے۔جو صرف نام کے مسلمان ہیں اورجنہیں ماموروقت مخاطب کرتاہے اور کھجور ہلانے سے یہ مراد ہے کہ مسلمانوں کو تحریک کی جائے۔]
4۔ اَنّٰی لَکِ ھٰذَا۔ (تذکرۃ صفحہ65ایڈیشن چہارم) یعنی تیرے لئے یہ رتبہ کیونکر ہوگیا۔
5۔مَاکَانَ اَبُوْکِ امْرَئَ سَوْئٍ وَمَا کَانَتْ اُمُّکِ بَغِیًّا۔ (تذکرۃ صفحہ 57 ایڈیشن چہارم)یعنی تیرا باپ تو بُرا آدمی نہ تھا اور نہ تیری ماں بد کارتھی۔
6۔۔اِنَّا جَعَلْنٰـکَ عِیْسٰی ابْن مَرْیَمَ(حمامۃ البشریٰ۔ روحانی خزائن جلد 7صفحہ 184)یعنی ہم نے تجھے عیسیٰ ابن مریم بنایا ہے۔
7۔ اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ وَلِنَجْعَلَہٗ اٰیَۃً لِّلنَّاسِ وَرَحْمَۃً مِّنَّا وَ کَانَ اَمْرًا مَّقْضِیًّا قَوْلَ الْحَقِّ الَّذِیْ فِیْہِ تَمْتَرُوْنَ (تذکرۃ صفحہ72ایڈیشن چہارم)یعنی کیا اللہ اپنے بندے کے لئے کافی نہیں(ضرور کافی ہوگااور اس کی ساری مرادیں پوری کرے گا) تاکہ اسے لوگوں کے لئے نشان اور اپنی رحمت بنائے۔اس بات کا فیصلہ ہوچکا ہے۔ یہی وہ سچی بات ہے جس کے متعلق تم شک کرتے ہو اورجھگڑتے ہو۔
8۔ یَا عِیْسٰی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا اِلٰی یَوْمِ الْقِیَامَۃِ(تذکرۃ صفحہ80،81ایڈیشن چہارم)اے عیسیٰ میں ہی تجھے وفات دوں گا اور تجھے بلند کروں گا اور تیرے متبعین کو ان پرجنہوں نے انکار کیا قیامت تک غالب رکھو ں گا۔
یہ آخری آیت سورۃ آل عمران کی ہے۔ باقی تمام آیات لفظاً لفظاً سورہ مریم کی آیات یا ان کے مترادف الہامی الفاظ ہیں۔تھوڑے سے تغیر کے ساتھ جو صیغہ مخاطب کے لحاظ سے کیا گیا ہے۔ یہ آیات الہاماً دوبارہ نازل ہوئیں اس شخص پر جو مسلمانوں میں سے اللہ تعالیٰ کے نزدیک مریمی صفات رکھتا تھا اور پھر اسے مسیح ابن مریم کا خطاب دیا گیا۔ یہ الہامات ایسے زمانوں میں نازل ہوئے جب مسیحی اور مسلمان علماء نے اپنی اپنی جگہ پر اندازہ کرنے کے بعد یہ اعلان کیا کہ آنے والا موعود اٹھارھویں صدی کے آخر یا زیادہ سے زیادہ انیسویں صدی کے شروع میں آئے گا ۔ اور یہ کہ اس کی آمد اس حد سے تجاوز نہیں کرسکتی۔مذکورہ بالا کلمات وحی براہین احمدیہ کے صفحہ241،226، 496، 556، 521، 516پردرج شدہ ہیں۔یہ شہرہ آفاق کتاب 1880ء میں شروع ہوئی اور 1884ء میں مکمل کی گئی۔
سورہ مریم کی محولہ بالا آیات کا دوبارہ نزول اس بات کا یقینی ثبوت ہے کہ اس سورت کا موضوع مسلمانوں کے دوبارہ احیاء سے تعلق رکھتا ہے اور جوبشارت عظمیٰ اس سورت میں ہے اسی کی بناء پر ابن مریم کے نزول کی پیشگوئی کی گئی تھی جیسا کہ سورہ کہف کے نزول پر فتنۂ دجال کے شر سے ہمیں غیر مبہم الفاظ میں آگاہ کیا گیا۔ا ور جب فتنہ دجال کا غلبہ ہوا تو ملااعلیٰ میں بھی حرکت ہوئی اور اہل زمین میں بھی۔ایک اندازہ آسمان کا تھا اور ایک اندازہ زمین کا ۔آسمان کااندازہ یہ کہ سورہ مریم کی مخصوص آیات جن کا تعلق حضرت مریم سے ہے نازل کرنے کے لئے ایک شخص چنا گیا۔اس کا نام پہلے مریم رکھا گیا اور اسے اس طرح مخاطب کیا گیا جس طرح حضرت مریم ؑ کو مخاطب کیا گیا تھا اور جس طرح در دِزِہ کی تکلیف سے بے قرار ہو کر حضرت مریمؑ اِذِانْتَبَذَتْ مِنْ اَھْلِھَا مَکَانًا شَرْقِیًّا فَاتَّخَذَتْ مِنْ دُوْنِھِمْ حِجَابًا (مریم17:،18) اپنے گھروالوں سے الگ تھلک ہو کر ایک مشرقی مکان میں خلوت نشین ہوئیں اور اس دوران میں جس طرح حضرت مریم کو فرشتے نے یہ خوشخبری دی۔ قَالَ اِنَّمَآ اَنَا رَسُوْلُ رَبِّکِ لِأَھَبَ لَکِ غُلَامًا زَکِیًّاo (مریم20:)
یہ مریمی صفت انسان بھی اسلام اور مسلمانوں کی حالت زار کی وجہ سے بے قرار ہو کر ہوشیارپور میں جو کہ قادیان سے شرقی جانب ہے دعائیں کرنے کی غرض سے چالیس دن کے لئے خلوت نشین ہوا۔اسی طرح اس مریمی صفت گوشہ نشین کو زکی غلام کی خوشخبری دی گئی اور اس خوشخبری کو عظیم الشان نشانِ رحمت ٹھہرایا۔یہ ایک مشہور و معروف پیشگوئی ہے جس کا اعلان 20فروری 1886ء کو کیا گیا جب کہ ابھی تک اس مریمی صفت انسان کوعلم نہ تھا کہ وہ عنقریب دنیا کے لئے مثیل مسیح قرار دیا جائے گا۔
یہ ملا اعلیٰ کااندازہ تھا جو ایک بڑی تفصیل کے ساتھ وقوع پذیر ہوااور وہ وقت آیا جب اس مریمی صفت انسان نے ملأِ اعلیٰ سے اللہ تعالیٰ کا یہ کلام بھی سنا کہ:۔’’ابن مریم فوت ہو چکا ہے اور اس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے مطابق تو آیا ہے ۔ وَکَان وَعْدُ اللّٰہِ مَفْعُولًا۔‘‘ (ازالہ اوہام ۔ روحانی خزائن جلد 3صفحہ402)
گویا یہ موعود اس لحاظ سے اپنے روحانی ارتقاء کی پہلی منزل میں اپنی معصومیت اور اپنے موعودہ بیٹے کے اعتبار سے مریم ؑ کے مقام پر تھا اور دوسری منزل ارتقاء میں اپنے فرض منصبی کے لحاظ سے اس نے مثیل ابن مریم کا لقب پایا ۔ یہ آسمان کا اندازہ واقعات پر راس بیٹھا اور زمین والوں کااندازہ یہ تھا کہ آنے والے ابن مریم اورمہدی اٹھارھویں صدی کے آخریا انیسویں صدی کے شروع میں ظاہر ہوں گے۔یہ اندازہ بھی راست آیا اور اس طرح سے زمین و آسمان کے اندازوں نے ایک دوسرے کے ساتھ مطابقت کھائی اور وہ ٹھیک ٹھاک پورے ہوئے۔ دونوں اندازے ایک دوسرے کے مطابق بیٹھے۔
واقعاتی شہادت سے عالم ملکوت کے وجود پر استدلال
یہ واقعاتی شہادت اپنی نوعیت میں نہایت ہی اہم ہے۔[اس امرِ واقعہ کا اب انکار نہیں کیا جا سکتا کہ 1884ء میں براہینِ احمدیہ کی اشاعت پر مسلمانوں نے بالعموم اور ان کے چوٹی کے علماء نے بالخصوص اس کی اشاعت کا خوشی سے استقبال کیا۔ نہ صرف اسلام کی حقانیت پر پیش کردہ دلائل کی قوّت اور عظمت کو ہی تسلیم کیا گیا بلکہ اس میں درج شدہ الہامات کی صداقت کو بھی تسلیم اور قبول کیا گیا۔ یہاں تک کہ غیروں کی طرف سے جب اعتراض کیا گیا تو مصنّف براہین احمدیہ کی طرف سے وکالت کرتے ہوئے ان علماء نے مدافعت کی اور یہ شہادت دی کہ ’’مؤلّف براہین احمدیہ مخالف و موافق کے تجربہ اور مشاہدہ کی رو سے شریعتِ محمدیہؐ پر قائم، پرہیزگار اور صداقت شعار ہیں اور نیز شیطانی القاء اکثر جھوٹ نکلتے ہیں مگر الہاماتِ مؤلّف براہین احمدیہ (انگریزی میں ہوں یا ہندی عربی وغیرہ) سے آج تک ایک بھی جھوٹ نہیں نکلا۔‘‘ یہ شہادت دینے والے عالَمِ اہلِ حدیث کے رئیس مولوی محمدحسین صاحب بٹالوی ہیں جو مؤلّف براہین احمدیہ کو طالب علمی کے زمانہ سے جاننے والے تھے۔ ملاحظہ ہو ان کا رسالہ اشاعۃ السنۃ جلد 4نمبر9صفحہ284 ]
نہ صرف اس اعتبار سے کہ اس مطابقت سے کا سر صلیب ،قاتل دجال اورابن مریم کے نزول کی مشہور و معروف پیشگوئی کے منبع ومصدر کا پتہ چلتا ہے بلکہ اس لحاظ سے بھی کہ اس عالم ملکوت کابھی علم ہوتا ہے جو زمانہ کی حدود سے بالا اور مادی تجسد اور مادی علائق سے آزاد ہے۔ اس کے دیکھنے اور سننے اور سمجھنے کے لئے یہ گوشت اور پوست والے آنکھ ، کان اور دل و دماغ کام نہیں دے سکتے ۔ بلکہ ان اعضاء کے ما وراء ایک اور آنکھ اور کان ہیں جن میں نہایت دور دراززمانہ سے غایت درجہ وسعت میں اس عالم ملکوت میں حوادث کی انعکاسی صورتیں اور آوازیں دکھلائی اور سنائی جاتی ہیں۔ اس جسمانی دل و دماغ کے بیچوں بیچ ہی ایک اور دل و دماغ ہے جس میں عالم غیب کے مشہودات جب منعکس ہوتے ہیں تو یقینی علم حاصل ہوتا ہے۔قرآن مجید کے بیانات کی رو سے یہی وہ عالم ہے جس میں ہماری نشاۃ ثانیہ اور لقائے ربانی کی غرض و غایت متحقق ہوتی ہے۔ یہ حقیقت آشکار کرنے کی غرض سے قرآن مجیدمیں مہتم بالشان پیشگوئیوں کا ذکر پایا جاتا ہے جن کا سلسلہ غایت درجہ ممتد اور بہت بڑی تفصیل کا محتاج ہے اور یہ کہنا ہرگز مبالغہ نہیں کہ یہ ’’ کلمات ربی‘‘ قلمبند کرنے کے لئے سمندر کی روشنائی چاہئے۔
سورہ کہف کی بَاْسٍ شَدِیْدٍ (الکھف3:) والی پیشگوئی اور اس تعلق میں انذارو بشارت کے دونوں پہلوئوں پرایک نظرغائر ڈالی جائے تو یہ شاخ در شاخ چلتے ہوئے اس ایک مرکزی نقطہ پر آٹھہرتی ہے کہ دنیا میں بنی نوع انسان کے درمیان وہ آسمانی بادشاہت قائم ہو کررہے گی جس کی بنیادانبیاء ؑ کے ذریعہ سے اٹھائی گئی، آنحضرت ﷺ کے مبارک ہاتھوں سے اس کا محل مکمل ہوا۔
آسمانی بادشاہت کے متعلق عظیم الشان پیشگوئی
یہ عظیم الشان پیشگوئی بنی نوع انسان کی صدیوں کی تاریخ پرحاوی ہے اور وہ سلسلہ وارحلقہ در حلقہ نمودار ہوتے ہوئے اپنے کامل ظہور کے لئے اپنے ساتھ گوناگوں حوادث کا انبار عظیم رکھتی ہے۔ عہد قدیم کا چھوٹے سے چھوٹا نبی تک بھی اس قصر نبوت ، اس آسمانی بادشاہت کی یہ منادی کرچکا ہے کہ:
’’خدا تیمان سے اور وہ جو قدوس ہے۔ کوہ فاران سے آیا۔ سلاہ اس کی سطوت سے آسمان چھپ گیا اور زمین اور اس کی حمد سے معمور ہوئی۔ اس کی جگمگاہٹ نور کی مانند تھی۔ اس کے ہاتھ سے کرنیں نکلیں۔ پر وہاں بھی اس کی قدرت درپردہ تھی۔ ۔۔ اس نے نگاہ کی اور قوموں کوپراگندہ کر دیا۔ اور قدیم پہاڑ ریزہ ریزہ ہو گئے اور پرانی پہاڑیاں اس کے آگے دھس گئیں۔ اس کی قدیم راہیں یہی ہیں۔‘‘ (حبقوق باب 3 آیت 3تا 7)
ملا کی نبی نے بھی یہی منادی کی اور کہا:۔
’’ہاں عہد کا ر سول جس سے تم خوش ہو وہ اپنی ہیکل میں ناگہاں آئے گا۔دیکھو وہ یقیناً آئے گا۔ رب الافواج فرماتا ہے (ملاکی باب 3آیت 1)دیکھو وہ دن آتا ہے جو تنور کی مانند سوزاں ہوگا۔ تب سارے مغرور اور ہر ایک جو بدکرداری کرتا ہے۔ کھونٹی کی مانند ہوں گے۔ اور وہ دن جو آتا ہے۔ ان کو جلائے گا۔ رب الافواج فرماتا ہے۔ ایسا کہ وہ اُن کی نہ جڑ چھوڑے گا نہ ڈالی۔ لیکن تم پر جو میرے نام سے ڈرتے ہو۔ آفتاب صداقت طالع ہو گا۔ اور اس کے پنکھوں میں شفا ہو گی … اور تم شریروں کو پائمال کرو گے۔ کیونکہ جس دن کہ میں یہ ٹھیراؤں وہ تمہارے پاؤں تلے کی راکھ ہوں گے۔ رب الافواج فرماتا ہے ۔‘‘ (ملاکی باب 4آیت 1تا 3)
تمام انبیاء ؑ آدم ؑ سے لے کرعیسٰیؑ تک اسی ایک پیشگوئی کی منادی کرتے چلے آئے ہیں۔اس کا دامن صدیوں پر اور بحر وبر میں رہنے والی ساری قوموں پرپھیلا ہوا ہے اور زمین سے آسمان تک ممتد ہے۔اس کا ایک ایک حلقہ بلامبالغہ بہت بڑی شرح و بسط کا محتا ج ہے۔عیسائی قوم کی ابتدائی تاریخ بھی جس کا ذکر سورہ کہف میں مجملاً وارد ہوا ہے۔ اس پیشگوئی کا ایک حلقہ ہے۔اس قوم کا غاروں سے نکلنا،اطراف عالم میں پھیلنا اور پھولنا ، یہاں تک کہ ایک عظیم الشان سلطنت قائم کرلینا،یہ حادثہ عجوبۂ روز گار بھی اس کا ایک حلقہ ہے ۔عیسائیوں کی رومانی سلطنت کے آخری ایام میں حق تعالیٰ کے مقدس بندوں کی مملکت کا قیام اور بنی اسرائیل کی سوختنی قربانی اور موسوی شریعت کی منسوخی بھی اس کاایک حلقہ ہے۔اور جیسا کہ پہلے بیان کیا جاچکا ہے کہ سورہ کہف میں دو تاکستانوں کی جو مثال دی گئی ہے وہ بھی اس عظیم الشان پیشگوئی کاایک حلقہ ہے۔ عالم ملکوت کی اصطلاح میں اور انجیل کے محاورہ کے مطابق اس سے مرادعیسائیوں کی دو بادشاہتیں ہیں۔ اوریہ جو فرمایا گیا ہے۔ بَیْنَھُمَا زَرْعًا (الکھف33:)فَجَّرْنَا خِلٰـلَھُمَا نَھَرًا (الکھف34:)یعنی ان دو تاکستانوں کے درمیان ہم نے ایک نہر جاری کی اور اس قوم کوپھل حاصل ہوا۔ عالم ملکوت کی اصطلاح میں یہ نہر دینِ اسلام کا ہی وہ آبِ حیات ہے جو دانیال کی پیشگوئی کے مطابق رومانی سلطنت کے ایّام میں جاری کیا گیا تھا اورواقعات شاہد ہیں اور مسیحی علمائے تاریخ کو بھی یہ تسلیم ہے کہ مسلمانوں کے ہاتھوں سے اس آبِ حیات کے ذریعہ قرون اولیٰمیں عیسائی قوم کی کھیتی کو سینچا گیا جس سے وہ ایک دوسرا عظیم الشان باغ بن گیا۔ اور یہ باغ ان کی موجودہ مملکت ہے جو دانیال وغیرہ انبیاء کی پیشگوئی کے مطابق ساری دنیا پر چھاگئی ہے۔(اس تعلق میں ملاحظہ ہو تفسیر کبیر از حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؒ)
اس عیسائی قوم کی پہلی مملکت کا بعد میں ایک معمولی کھیتی کی حیثیت اختیار کرلینا بھی اس کا ایک حلقہ ہے جسے بعد میں ایک نہر سے سینچا جانا تھا اوروہ سینچی گئی ۔ مسلمانوں میں پہلی اقوام کی سی برگشتگی کا ظہور اور ان کا مغضوب علیہم بن جانا ، ان کا فرقہ در فرقہ ہوجانا،ان کا اپنی وسیع ترین مملکت کا ضائع کردینا اور عیسائی اقوام کو یہ موقع دینا کہ حق تعالیٰ کے بندوں کی قائم کردہ مملکت چھین کر اس کی جگہ صلیب پرستی کی مملکت کو قائم کرلیں یہ بھی ایک حلقہ ہے اس عظیم الشان پیشگوئی کا۔اور اسی طرح آئندہ کے حوادث بھی ایک حلقہ ہیں اس پیشگوئی کا جس سے کسر صلیب اور قتل دجال کا مشہد عظیم قائم ہونے والا ہے۔
اس تعلق میں حیرت انگیز پیشگوئیوں کا ایک مہتم بالشان سلسلہ جو ہمارے زمانہ میں اب شروع ہوا ہے۔اس سے میری مراد حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعثت ،پسر موعود کی بطور نشان رحمت کے ولادت اور اس بعثت اور ولادت کے تعلق میں مبشرو منذر الہامات ہیں جوتذکرہ میںد رج ہیں اور ایسے وسیع انقلابات کا پتہ دیتے ہیں۔ یہ بھی درحقیقت ایک وسیع حصہ ہے اس مقصد اعلیٰ کا جس کے لئے انبیاء مبعوث ہوئے۔
اَمْ حَسِبْتَ اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَھْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیَاتِنَا عَجَبًا (الکھف10:)کے الفاظ اور پیرایہ خطاب سے واضح ہوتا ہے کہ منذرو مبشر پیشگوئیوں کے سلسلہ میں ہم پر بھی ابتلائوں کا ایک اور دور شروع ہونے والا ہے۔ سو یہ بھی ایک الگ حلقہ ہے اس مرکزی پیشگوئی کا جس کے متعلق پہلے سے خبر دی جاچکی ہے کہ سورج ، چاند اور ستاروں میں نشان ظاہر ہوں گے اور زمین پر قوموں کو تکلیف ہوگی۔ کیونکہ وہ سمندر اور اس کی لہروں کے شور سے گھبرا جائیں گے اور ڈر کے مارے زمین پر آنے والی بلائوں کودیکھتے دیکھتے لوگوں کی جان میں جان نہ رہے گی اس لئے کہ آسمان کی قوتیں ہلائی جائیں گی۔ (لوقا باب 21 آیت 25،26)
یہ تمام حلقے باہم پیوستہ و پیہم ہیں۔ ان میں سے ایک ایک حلقہ سے متعلقہ حوادث کو اگر لکھنا چاہیں تو حیطۂ قلم میں لانا ممکن نہیں۔ کلمات ربی کا یہ سلسلہ جیسا کہ سورہ کہف کے آخر میں بتایا گیا ہے اتنا وسیع دروسیع اور شاخ در شاخ ہے کہ احاطہ تصور میں بھی نہیں لایا جاسکتا چہ جائیکہ قلمبند ہوسکے۔ جب ہم تعلیم الاسلام ہائی سکول میں پڑھا کرتے تھے توان دنوں سورۃ الکہف کی آیت تَکَادُ السَّمٰوٰتُ یَتَفَطَّرْنَ مِنْہُ وَتَنْشَقُّ الْاَرْضُ وَ تَخِرُّ الجِبَالُ ھَدًّاo اَنْ دَعَوْا لِلرَّحْمٰنِ وَلَدًاo (الکھف91:،92) کے متعلق میں سمجھتا تھا کہ فتنہ مسیحیت کے بارے میں یہ بیان مبالغہ آمیز ہے۔ مگر اپنی آنکھوں سے ہم نے دیکھ لیا ہے کہ جہنم خیز آتش افگن توپوں کی گرجوں سے آسمان کا کلیجہ بھی پھٹ رہا ہے۔بمبار طیاروں کے ذریعہ سے زمین بھی شق ہورہی ہے اور پہاڑ بھی اڑائے جارہے ہیں۔یہ حصہ پیشگوئی بھی ایک حلقہ ہے اس عظیم الشان مرکزی پیشگوئی کا جس کے تعلق میں عیسائی اقوام کے متعلق انذار کرتے ہوئے فرمایا اِنَّمَا نَعُدُّ لَھُمْ عَدًّا (مریم85:) کہ ہم ان کے لئے ایک بہت بڑی تیاری کررہے ہیں ۔
رب الافواج کی قیامت خیز تیاری بھی ایک حلقہ ہے اس مقصد عظیم کی تکمیل کا جس کی بشارت انبیاء دیتے چلے آئے ہیں۔ذرا تصور تو کریں کہ جہنم کی بڑی بڑی فیکٹریاں موعودہ یوم الفصل کو قریب ترلانے کے لئے انواع و اقسام کے آتش افگن سامان تیارکر رہی ہیں۔تاکہ وہ یوم الفصل قائم ہو جس کے متعلق ابن مریم کی سی شان رکھنے والے نذیرربانی نے قبل از وقت بایں الفاظ ہمیں اطلاع دی ہے :۔
’’ وہ دن آتا ہے کہ انسانوں کو دیوانہ کردے گا ‘‘۔
(تذکرۃ صفحہ 450۔ ایڈیشن چہارم)
’’خدا فرماتا ہے کہ میں حیرتناک کام دکھلائوں گا ۔ بس نہیں کروں گا جب تک کہ لوگ اپنے دلوں کی اصلاح نہ کرلیں …اِنِّیْ مع الافواج اٰتیَک بغتۃً …میں اپنی تمام فوجوں یعنی فرشتوں کے ساتھ نشانوں کے دکھلانے کے لئے ناگہانی طور پر آئوں گا۔ یعنی اس وقت جب اکثرلوگ باور نہیں کریں گے اور ٹھٹھے اورہنسی میں مشغول ہوں گے اور بالکل میرے کام سے بے خبر ہوں گے۔تب میں اس نشان کو ظاہر کروں گا ۔ تب وہ روزدنیا کے لئے ماتم کا دن ہوگا۔مبارک وہ جو ڈرتے ہیں اور قبل اس کے کہ خدا کے غضب کا دن آوے توبہ سے اس کو راضی کرلیں۔کیونکہ وہ حلیم اور کریم اور غفور اور توّاب ہے جیسا کہ وہ شدید العقاب ہے‘‘ ۔
(تذکرۃ صفحہ 451،452۔ ایڈیشن چہارم)
ہاں اس جہنم خیز تیاری کا تصور کریں اور پھر دیکھیں کہ کلمات ربّی کا ایک ایک کلمہ اپنے ساتھ کیا کیا تفصیلات کا بحر موّاج رکھتا ہے جس کی شرح و بسط جہاںایک طرف خود کلام اللہ کرتا ہے اور آنحضرت ﷺ کے رؤیا اور مکاشفات اس کی تائید کرتے ہیں وہاں دوسری طرف انبیاء ؑ یکے بعد دیگرے ایک دوسرے کی تصدیق کرتے چلے جاتے ہیں۔علاوہ ازیں مرور زمانہ کے ساتھ ساتھ واقعات بھی ان باتوں کی سچائی کی شہادت دیتے چلے جارہے ہیں۔کلام اللہ،مکاشفات نبویہ اور واقعاتی شہادت کی یہ آپس کی مطابقت اور پھر انبیاء علیہم السلام کاہمہ گیر توافق ہمیں یقیناً ایک عالم ملکوت کا پتہ دیتا ہے۔
عالم ملکوت سے پیوند پکڑنے پر قوائے بشریہ میں خارق عادت نشوونما
وہ ایک ایسا عالم ہے کہ جس کے ساتھ ہمارا اس دنیا میں اتصال ہماری باطنی قوتوں میں غیر معمولی قوت،جلا اور روشنی پیدا کردیتا ہے۔ پھر یہ ظاہری آنکھ جو اس اتصال اور پیوند کے وقت بند اور معطل ہوتی ہے نہیں دیکھتی بلکہ کوئی اور ہی آنکھ ہوتی ہے جو ملائکۃ اللہ کا مشاہدہ کرتی ہے اور یہ ظاہری کان شنوا نہیں ہوتے بلکہ کوئی اور ہی کان ہوتے ہیں جو ملائکۃ اللہ کی آواز کو سنتے ہیں۔عالم ملکوت سے پیوند پکڑنے کے وقت یہ خاکی جسم اور اس کے اعضاء اور ان کی قوتیں بے کار محض ہوتی ہیں مگر اس کی باطنی طاقتوں میں بالکل نئی قسم کا نشوونما اورتجلی ہوتی ہے جو عالم غیب سے پردوں کو اٹھادیتی ہے اور اس کی لامحدود کائنات کا وہ کچھ مشاہدہ انسان کو کراتی ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے۔ اس کا ایک نمونہ سور ہ کہف اور سورہ مریم کی آیات اور ان آیات کے تعلق میں ہمارے آقائے نامدار ہادی و مرشد کا مل آنحضرت ﷺ کے رؤیا اور مکاشفات کے ذکر میں ابھی پیش کیا جا چکا ہے۔
قرآن مجید میں جہاں جہاں حیات آخرت و جزا سزا اور لقائے ربانی کا ذکر کیا گیا ہے وہاں اس کے پہلو میں کوئی نہ کوئی مہتم بالشان پیشگوئی کا ذکر بلا استثناء کیا گیا ہے اور یہ التزام یہاں تک ملحوظ رکھا گیا ہے کہ ایک چھوٹی سے چھوٹی سورت بھی اس قاعدہ کلّیہ سے مستثنیٰ نہیں۔یہ توارد اور تلازم کیوں ہے؟ اس لئے کہ یہ پیشگوئیاں حقیقت نما ہیں اور واشگاف ہیں ایک عالم غیب کے اسرار کی۔
سورہ طہٰ کا موضوع
سورہ طہٰ کا موضوع بھی سورہ کہف اور سورہ مریم کے موضوع کے ہی تسلسل میں ہے۔چنانچہ یوں شروع ہوتی ہے۔ طٰہٰ o مَآ اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰی (طٰہٰ2:،3) ہم نے تجھ پر یہ قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تو ہماری رحمت سے محروم رہے ۔ یہ الفاظ ہم معنیٰ ہیں۔ زکریا علیہ السلام کی دعا وَلَمْ اَکُنْ بِدُعَآئِکَ رَبِّ شَقِیًّا (مریم5:) پھر اسی سورت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کی بعثت کے واقعات بیان کرتے ہوئے خصوصیت سے اس بات کاذکر کیا گیا ہے کہ موسیٰ ؑکے بعد ہارون ؑ کی خلافت میں ان کی قوم بگڑ گئی لیکن خدا تعالیٰ نے ان کو سنبھالا اور اس سورۃ کے آخر میں فرماتا ہے۔کَذٰلِکَ نَقُصُّ عَلَیْکَ مِنْ اَنْبَآئِ مَا قَدْ سَبَقَ وَقَدْ اٰتَیْنٰکَ مِنْ لَّدُنَّا ذِکْرًا۔ (طٰہٰ100:)
انباء جمع ہیں نبأٌ کی جس کے معنی ہیں اہم خبر۔اس لفظ سے نبی کا لفظ مشتق ہے۔یعنی آئندہ کی خبریں سابقہ واقعات کے پیرایہ میں ہم تجھ سے بیان کرتے ہیں اور یقیناً ہم نے اپنے حضور سے ایک بہت بڑی یاددہانی تجھے دی ہے۔ اس کے بعد فرماتا ہے ۔ مَنْ اَعْرَضَ عَنْہُ فَاِنَّہٗ یَحْمِلُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وِزْرًا o خٰلِدِیْنَ فِیْہَا وَ سَآئَ لَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ حِمْلًاo (طٰہٰ101:،102)
یعنی جنہوں نے اس نصیحت سے منہ پھیرا وہ یقیناً روز قیامت بہت بڑا بھاری بوجھ اٹھائیں گے۔اس میں لمبے عرصہ تک رہنے والے ہوں گے ۔ اور قیامت کے روز ان کے لئے بہت ہی برا بوجھ ہوگا۔
(بشکریہ ماہنامہ الفرقان۔ فروری مارچ 1954ء و جولائی1954ء)
(باقی آئندہ)