سیرت النبی ﷺ

میدان نعتِ رسول مقبولﷺ اور اس کے سر خیل۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام

نعت گوئی اور اس کی تاریخ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حیات با برکات سے ہی چلی آ رہی ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حسن و احسان کو جس نے بھی دیکھا اس نے آپ کی تعریف و توصیف میں اپنے قلبی خیالات کا اظہار کیا۔ چونکہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے پہلے مخاطبین عربی زبان بولنے والے تھے اس لئے سب سے پہلے نعت کہنے کا سہرا عرب شعراء کے سر سجا۔ اس کے بعد باقی اقوام نے اس بابرکت کام میں حصہ لیا۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض اٹھانے والوں نے مدح سرائی شعر و نثر دونوں اصناف میں کی اور اتنی پُر اثر مدح سرائی کی کہ ’المدیح النبوی‘ کو اغراض الشعر میں مستقل اور دائمی غرض قرار دیا گیا۔

زیر نظر مضمون میں نعت گوئی کی تاریخ و تطوّر ، اس فن کے خصائص اور تین بڑی زبانوں (عربی، فارسی اور اردو) میں اس کی مجموعی ہیئت اور میدانِ نعت میں اس فن کے ماہرین کی ادبی کاوشوں کا جائزہ لیتے ہوئے سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بے نظیر ادبی (نظمی) شَہ پاروں کا موازنہ کیا جائے گا تا کہ اس حقیقت پر سے پردہ اٹھایا جائے کہ ملہم من اللہ کا لدنّی علم سے سیراب کلام واقعی دوسرے شعراءکے کلام سے بہر صورت افضل و افصح ہوتا ہے۔

مدیح نبوی اور زبان عربی

ڈاکٹر زكی مبارك مدیح نبوی کو ایک فن قرار دیتے ہوئے لکھتے ہیں:

"یہ شاعری کی ایک ایسی صنف ہے کہ جس کو علم تصوف نے فروغ بخشا اور یہ جہاں خالص دینی مشاعر اور محسوسات کو بیان کرنے کا ایک ذریعہ ہے، وہاں ادب کا ایک نہائت بلند مرتبہ باب ہے کیونکہ نعت صرف صدق و اخلاص سے بھرے ہوئے اور عشق مصطفوی سے مملوّ صاحب عرفان ہی کے دل سے نکل سکتی ہے۔‘‘

(الدكتور زكی مبارك: المدائح النبوية في الأدب العربي، منشورات المكتبة العصرية، صيدا بيروت، الطبعة الأولى 1935، صفحہ17:)

جیسا کہ پہلے بیان ہوا کہ فن نعت گوئی حضور اکرمﷺکی ولادت باسعادت سےہی شروع ہوگیا تھا اور وقت کے ساتھ ساتھ اس میں تبلیغ و ارشاد، فتوحات اسلامیہ کا دخل بھی ہو گیا۔ اس فن پر ایک ایسا دور بھی آیا جس میں تاریخی اعتبار سے اس میں کمی ہونا واقع ہوئی۔ مگر ساتویں صدی ہجری میں مسلمان شعراء کے قصائد نے بالعموم اور امام بوصیری کے قصیدہ بردہ نے بالخصوص پذیرائی حاصل کی۔

آنحضرت ﷺ کی شان میں قصائد کے ماخذ قرآن حکیم کے ساتھ ساتھ کتب تفاسیر و سیَر بھی ایک خاص مقام رکھتی ہیں۔ ابتدائی کتب سیَر میں واقعات کو اشعار میں بھی بیان کیا گیا ہے۔ بہر حال اس میدان میں بنیادی ماخذ کتب تفاسیر کے علاوہ ابن ہشام کی "السيرة النبوية” ابن اسحق کی سیرت، صفی الرحمن کی "الرحيق المختوم” ، ابن حبان کی "السيرة النبوية” ابو الفرج عبدالرحمن الجوزی کی "الوفاء بأحوال المصطفى” قاضی عياض کی "الشفا بتعريف حقوق المصطفى” ، امام محمد الغزالی کی "فقه السيرة” وغیرہ خاص مقام رکھتی ہیں۔ آپ ﷺ کی پیدائش کے موقع پر حضرت عباس بن عبدالمطلب کے مندرجہ ذیل اشعار تاریخ کی کتابوں میں محفوظ ہیں۔

أنت لما ولدت أشرقت

الأرض وضاءت بنورك الأفق

فنحن في ذلك الضياء وفـــی

النور وسبل الرشاد نختــرق

(الدكتور عباس الجراري:الأدب المغربي من خلال ظواهره وقضاياه، مطبعة النجاح الجديدة، الدار البيضاء، ط2، 1982م،صفحہ142:)

ترجمہ:یعنی اے نبی جب آپ پیدا ہوئے تو آپ نے نہ صرف زمین کو اپنے نور سے بھر دیا بلکہ آفاق بھی آپ کے نور سے روشن ہو گئے۔اور ہم نے اسی ضیائ و نور سے سیدھے راستوں کی طرف ہدایت پائی۔

اسی طرح آپ کی مدحت سرائی میں ابو طالب کے اشعار بھی تاریخ کے اوراق میں ملتے ہیں۔ آپ ﷺ کی ہجرت کے بعد مدینہ پہنچنے کے موقع پر مشہور زمانہ اشعار تاریخ اسلامی میں ہمیشہ کے لئے نقش ہو گئے۔

طَلَعَ الْبَدرُ عَلَیْنَامِنْ ثَنِیّا تِ الْودَاعٖ

وَجَبَ الشّْکرُ عَلَیْنا مَا دَ عَا لِلّٰهِ دَاعٖ

ترجمہ: ہم پر وداع کی گھاٹیوں سے چودھویں رات کا چاند طلوع ہوگیا۔ہم پر (خدا کا) شکر لازم ہے جب تک اللہ کو پکارنے (دعا کرنے) والا کوئی بھی اُسے پکارتا رہے۔ (یعنی اس احسانِ عظیم پر واجب ہے کہ ہم ہمیشہ خدا کا شکر ادا کرتے رہیں۔)

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بارگاہ اقدس میں قصیدہ گو شعراء میں حضرات حسّان بن ثابت ، كعب بن مالك، عبد الله بن رواحة،اسود بن سریع،عامر بن اکوع،عباس بن عبدالمطلب، نابغہ جعدی اور كعب بن زهير رضی اللہ عنہم وغیرہ کسی تعارف کے محتاج نہیں۔

حضرت حسّان بن ثابت کے درج ذیل اشعار ایک غیر معمولی عشق محمدی کے عکاس ہیں۔

کنت السواد لناظری

فعمی علیّ الناظر

فمن شاء بعدک فلیمت

فعلیک کنت احاذر

ترجمہ:یا رسول اللہ ﷺ آپ میری آنکھ کی پتلی تھے۔ آج آپ کی وفات سے یہ آنکھ اندھی ہو گئی ہے۔اب آپ کے بعد جو چاہے مرے مجھے تو آپ کی وفات کا ڈر تھے۔

(www.aldiwan.net/poem21572.html)

آپؓ کے بہت سےاشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر گئے۔جن میں یہ بھی ہیں:

و احسن منک لم تر قطّ عینی

واجمل منک لم تلد النساء

خلقت مُبَرَّاً مِنْ کُلِّ عیب

کانّک قد خُلِقْتَ کَمَا تَشَاءُ

ترجمہ: اور آپ سے زیادہ حسین میری آنکھ نے آج تک نہیں دیکھا اور آپ سے زیادہ حسن و جمال کا پیکر کسی ماں نے نہیں جنا۔ یا رسول اللہ آپ تمام عیوب سے منزہ و مبرّا پیدا ہوئے گویا آپ ویسے ہی تخلیق کئے گئے جیسا کہ آپ نے چاہا۔

(www.aldiwan.net/poem21530.html)

آپ ﷺ کی ولادت سے متعلق حضرت حسان بن ثابت کے مندرجہ ذیل اشعار ملتے ہیں:

یابکر آمنة المبارک بکرها

ولدته محصنة بسعد الاسع

نورًا اضاء علی البریة کلها

من یهد للنورالمبارک یهتدی

متی يبدفي الداجي البهيم جبينه

يلح مثل مصباح الدجي المتوقد

ترجمہ:اے آمنہ کے مبارک بیٹے! جو انتہائی پاکیزگی اور عفت کے ساتھ پیدا ہوا۔ آپ ایسا نور تھے جو ساری مخلوق پر چھا گیا اور جسے اس مبارک نور کی پیروی نصیب ہوئی وہ ہدایت یافتہ ہو گیا۔ رات کی تاریکی میں حضور کی جبینِ اقدس اس طرح چمکتی دکھائی دیتی ہے جیسے سیاہ اندھیرے میں روشن چراغ۔۔۔

حضرت کعبؓ بن زھیرکاقصیدہ لامیہ بہت خوبصورت کلام ہے۔ جس کو سن کر حضور ﷺ نے ان کو اپنی چادر بطور انعام بخشی تھی۔ سو اس وجہ سے یہ قصیدہ،’’قصیدہ بردہ‘‘ کہلایا۔اس قصیدہ کے مطلع میں آپؓ فرماتے ہیں:

بانت سعاد فقلبی الیوم متبول

متیمّمٌ اثرھا لم یُفد مکبول

ترجمہ: سعاد نے داغ مفارقت دے دیا۔ جس سے میرا دل اس کے جانے کے بعد پریشان اور اسیر ہے۔

(www.adab.com/modules.php?name=Sh3erWhat=shqas&qid=10880)

پھر آگے چل کر فرماتے ہیں:

وانّ الرسول لسیف یستضاء به

مهنّدمن سیوف الله مسلول

رسول اللہ، اللہ تعالیٰ کی ایسی سونتی ہوئی تلوار ہیں جس سے (ہدایت) کی روشنی حاصل کی جاتی ہے۔

(www.adab.com/modules.php?name=Sh3erWhat=shqas&qid=10880)

آنحضرت ﷺ کے وفات کے بعد حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے مشہور اشعار ہیں

صُبّت علیّ مصائبٌ لو انّها

صُبت علی الایّام صِرْن لیالیا

یا رسول اللہ! آپ کے بعد مجھ پر ایسی مصیبتیں ٹوٹیں کہ اگر وہ کسی پہاڑ پر ٹوٹتیں تو وہ بھی ریزہ ریزہ ہو جاتا۔

(www.shoaraa.com/poem-10701.html)

اُموی دور کے اهم شعراء میں سے ایک الفرزدق بھی ہیں جنہوں نے نعت کہی۔ آپ کا قصیدہ میمیہ جو کہ آل بیت، اخلاق رسول ﷺ اور آپ ﷺ کے فضائل کریمہ پر مشتمل ہے، تاریخ ادب عربی میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔ اس کا مطلع کچھ یوں ہے۔

هذاالذي تعرف البطحاء وطأته

والبيـت يعرفه والحل والحـرم

ترجمہ: یہ وہ شخص ہے جس کے چلنے کو بطحا، بیت اللہ حل اور حرم بھی جانتے ہیں۔

(www.adab.com/modules.php?name=Sh3er&doWhat=shqas&qid=3664)


اس مقام پر یہ بات قابل ذکر ہو گی کہ خلافت راشدہ کے بعد نعت گوئی میں ایک اہم موڑ یہ آیا کہ شیعہ و سنی شعراءمیں ایک تقسیم نظر آنے لگی۔ ان کے کلام میں ایک واضح فرق آ گیا۔شیعہ شعراء نے نعت میں اہل بیت کے فضائل و مناقب کا تذکرہ کرنا شروع کیا جبکہ سُنّی العقیدہ شعراء نے خلفائے ثلاثہ کا تذکرہ نعت میں شامل کر لیا۔ چونکہ یہ مضمون خالص طور پر نعت گوئی کے ساتھ متعلق ہے اس لئے راقم ان وجوہات و اسباب سے اغماض ہی برتے گا۔

عباسی شعراء میں الديلمی نے کئی ایک قصائد رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم، آپ کی صفات حميدہ اور اہل بيت سے متعلق لکھے۔ مگر امام بوصيری نے جو کہ ساتویں صدی هجری کے اہم شعراء میں سے ایک ہیں، مديح نبوی میں غیر معمولی مقام پایا۔جب آپ نے یہ قصیدہ لکھا تو آپ کو خواب میں حضرت رسول کریمؐ کی زیارت نصیب ہوئی جس میں آنحضرتؐ نے آپ کو قصیدہ سننے کے بعد اپنی چادر بطور انعام بخشی، اس لئے حضرت کعب بن زھیر السلّمی کے قصیدہ کے بعد امام بوصیری کے قصیدہ کو بھی قصیدہ بردہ کہا جانے لگا،

صيدہ ميميہ زبان زد عام ہے

طلع میں آپ فرماتے ہیں:

أ من تذکّر جیرانٍ بذی سلم

مزجْت دمًا جریٰ من مُقلةٍ بدم

ترجمہ: کیا تو نے مقام ذی سلم کے ہمسایوں کی یاد میں آنسوؤںکو (جو تیری آنکھوں میں ہیں) خون سے ملا دیا۔

(www.aldiwan.net/poem18097.html)

آگے چل کر فرماتے ہیں:

کالزهر فی ترفٍ والبدر فی شرفٍ

والبحر فی کرمٍ والدهر فی همم

ترجمہ: حضور ﷺتازگی میں کَلی اور بزرگی میں چودھویں رات کے چاند اور بخشش میں دریا اور ہمت میں زمانہ ہیں۔

(www.aldiwan.net/poem18097.html)

یا ربّ صلّ و سلّم دائماً ابداً

علی حبیبک خیر الخلق کلهم

ترجمہ: اے میرے رب حضور ﷺپر جو کہ تیرے حبیب اور تمام مخلوقات سے برتر ہیں، تو ہمیشہ برکتیں اور رحمتیں نازل فرما۔

(www.aldiwan.net/poem18097.html)

اندلس کے شعرا کا بھی مدیح نبوی میں خاصا اونچا مقام ہے۔ مثلاً قاضی عیاض نے کافی تعداد میں مؤلفات اپنے پیچھے چھوڑیں اور ان میں حضور اکرمؐ کی ذات مبارکہ سے متعلق قصائد بھی ہیں۔

اگر دور نھضہ کے عرب شعرا کو دیکھا جائے تو عربی زبان کے شیکسپئر، امیر الشعراء،احمد شوقی بھی اس میدان میں طبع آزمائی کرتے ہوئے نظر آتے ہیں۔ اپنا ایک قصیدہ نہائت خوبصورت مطلع سے شروع کرتے ہیں، فرماتے ہیں:

ولد الهدى فالكائنات ضيــــــاء

وفي فم الزمــان تبسم وثناء

ترجمہ: آج کیا معجزہ ہوا کہ گویا ہدایت کا جنم ہوا، اور تمام کائنات سراپا روشنی ہو گئی اور آج تو زمانے کے منہ پر خوشگوار تبسم اور ثنا خوانی ہے۔

(www.aldiwan.net/poem20977.html)

عربی زبان کے دور نھضہ میں مصر، شام، فلسطین، المغرب اور سوڈان وغیرہ کے شعراء نے بھی حضرت رسول کریم ﷺ کی شان میں قصائد کہے۔

کلاسیکی عربی ادب میں عربی قصائد کے لکھنے کا ایک خاص طریق ہوا کرتا تھا۔ اس کے اجزائے ترکیبی ہوا کرتے تھے۔جن میں تشبیب،گریز،مدح، دعا تھے۔

قصیدہ کے پہلے شعر یعنی مطلع سے قصیدے کا پہلا جزء تشبیب شروع ہوتا تھا، اس میں شاعر اپنے محبوب کی بستی اور گزرے ہوئے اوقات کو یاد کیا کرتا تھا،اس کا ایک حصہ افتخار وامتنا ن پر مشتمل بھی ہوتا تھا۔ دوسرا جزء گریز کہلاتا ہے جس میں شاعر اپنی تعریف سے ممدوح کی مدح کی طرف رجوع کرتا تھا۔ اس کے بعد با قاعدہ مدح شروع ہوا کرتی تھی۔یہ حصہ قصیدہ کا طویل حصہ ہوا کرتا تھا۔آخری حصہ میں شاعر مدح سے دعا کی طرف آتا۔ اپنی کم آئیگی کا بیان کرتے ہوئے ممدوح کی توجہ و التفات اپنی جانب کرنے کی کوشش کرتا۔اور اپنی توقعات اس سے ظاہر کیا کرتا۔پھر ممدوح کے لیے دعا پر قصیدہ ختم کر دیا جاتا۔

حضرت امام بوصیریؒ اور امیر الشعراء احمد الشوقی کی مدیح نبوی میں بھی تشبیب و گریز ملتے ہیں۔مگر سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی منظوم کلام میں ان اجزائے ترکیبی کا تکلّف نہیں ملتا کیونکہ عربی زبان کا محاورہ ہے مَنْ أَحَبَّ شَیْئًا اَکْثَرَ ذِکْرَہٗکہ جو جس سے محبت کرتا ہے وہ اس کا اتنا ہی کثرت سے ذکر کرتا ہے۔حضور علیہ السلام کے عربی نعتیہ منظوم کلام میں ہر نظم میں، ہر قصیدہ میں شروع میں یا تو حمد باری تعالیٰ ہے یا پھر آنحضرت صلوٰت اللہ علیہ والتسلیم کی بابرکت نعت ملتی ہے یا پھر قصیدہ شروع سے اختتام تک حضوراکرمﷺ کے ذکر و توصیف سے مرصّع ہوتا ہے۔ کیونکہ آپ کی شاعری کا محور ہی حُبّ رسول ﷺ تھی۔

آپ علیہ السلام نے اپنی زندگی میں عربی زبان میں پہلا منظوم کلام ایک قصیدہ نعتیہ کی صورت میں لکھاجو کہ ’’آئینہ کمالاتِ اسلام‘‘ کے آخری حصہ میں موجود ہے۔اس قصیدہ نونیہ(جو کہ بحر رجز میں ہے) میں حضور علیہ السلام بغیر تشبیب و گریز کے تکلّف کے حضور ﷺ کی توصیف سے اپنا قصیدہ شروع کرتے ہیں اور آخر تک یہ معارف کا بحرِ ذخار حضور ﷺکی توصیف پرہی مشتمل ہے۔

دورِ عباسی کے کئی ایک شعراء نے اور دور جدید کےکئی ایک نے ان امور کا التزام نہیں کیا۔ اسی طرح افریقہ کے مذہبی حلقوں کے ایک با اثر اور بین الاقوامی شہرت یافتہ عالم جناب عبداللہ آدم الالوری نے اپنی کتاب مصباح الدراسات العربیۃ فی الدیار النیجیریۃ میں الشیخ یوسف البرناوی کا قصیدہ تحریر کیا ہے جو کہ تشبیب و گریز سے مبرّا ہے، اس کا مطلع کچھ یوں ہے:۔

صلی الالٰہ علی النبی الأبھج

ما صاب صیب کلّ غیم زعبج

ترجمہ: نبی وجیہ پر اللہ برکتیں بھیجتا ہے۔ بارش برسانے والے سفید بادل جب تک برسیں (یہ برکتیں آپ پر بھیجی جاتی رہیں گی)

(عبداللہ آدم الالوری: مصباح الدراسات العربیۃ فی الدیار النیجیریۃ، صفحہ 161،162)

مذکور عالم (عبداللہ آدم الالوری) اسی کتاب میں آگے چل کر فرماتے ہیں:

’’و من القصائد المجھول قائلھا قصیدۃ (قبا) التی ھی أبلغ ما مدح بہ النبی بعد البردۃ‘‘

یعنی مدیح النبوی پر مشتمل قصائد میں ایک قصیدہ ’’قبا‘‘ بھی ہے جس کے شاعر کا نام نامعلوم ہے۔ یہ قصیدہ، قصیدہ بردہ کے بعد بلیغ ترین قصیدہ ہے۔

(عبداللہ آدم الالوری: مصباح الدراسات العربیۃ فی الدیار النیجیریۃ، صفحہ 100)

یہ تو خیر ان کا اپنا خیال ہے۔ جب خاکسار نے اس قصیدہ کا مطالعہ کیا تو کسی قدر حیرانی بھی ہوئی کہ کس طرح علماء بعض اوقات اپنے خیالات میں ایک طرف جانبداری اور دوسری طرف مبالغہ آرائی کا شکار ہو جاتے ہیں۔ اس قصیدہ میں نہ ہی کوئی غیر معمولی معارف کا بیان ہے اور نہ ہی کوئی لفظی یا معنوی لطائف، بہر حال اس قصیدہ ’’قبا‘‘ کے مطلع کے ساتھ ایک دو اشعار پیش کرتا ہوں تا کہ قاری بھی اسی نتیجہ تک پہنچ سکے جس پر راقم پہنچا:

ھذا النبی الذی فی طیبۃ و قبا

لہ النبوۃ تاج و القرآن قبا

لو لاہ ما خلق الأفلاک صانعھا

و لا نار بھا نجما و لا ثقبا

أمّیٌ علّمہ الباری و أدبہ

و علم العالمین العلم و الادباء

ترجمہ: یہ زبردست نبی جو کہ طیبہ اور قبا کے علاقے میں جلوہ افروز ہوا۔ اس کے لئے قرآن اور نبوت کو تاج بنایا گیا۔ اگر اس کو خلق نہ کیا جاتا تو صانع قدرت نہ ہی زمین و آسمان کو تخلیق کرتا اور نہ ہی کوئی ستارہ چمکتا۔ وہ امّی تھا جس کی تعلیم و تادیب باری خدا نے کی اور اس نے پھر وہ لدنّی علم علماء و ادباء کو سکھایا۔

(عبداللہ آدم الالوری: مصباح الدراسات العربیۃ فی الدیار النیجیریۃ، صفحہ 101)

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے حقیقی مدح (جس میں مدیح نبوی بھی شامل ہے) کا ایک اصل الاصول اپنی مایہ ناز کتاب براہین احمدیہ میں بیان فرمایا ہے۔ آپؑ فرماتے ہیں:

’’اور اس بات کو ہر جگہ یاد رکھنا چاہئے کہ ہر یک مدح و ثنا جو کسی مومن کے الہامات میں کی جائے وہ حقیقی طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مدح ہوتی ہے اور وہ مومن بقدر اپنی متابعت کے اس مدح سےحصہ حاصل کرتا ہے۔ اور وہ بھی محض خدائے تعالیٰ کے لطف اور احسان سے، نہ کسی اپنی لیاقت اور خوبی سے ۔‘‘

(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈایڈیشن: جلد1- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم : صفحہ158،258)

یعنی حقیقی مدحت رسول وہی شخص کر سکتا ہے جو حضورﷺ کی کامل متابعت کرتا ہے۔

اب سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے عربی نعتیہ قصائد میں سے کچھ کے اشعار پیش کرتا ہوں تا کہ یہ بات بپایہ ثبوت کو پہنچے کہ حضور علیہ السلام کا عربی نعتیہ منظوم کلام ایک دمکتے ہوئے سورج کی سی روشنی رکھتا ہے۔ اور حضور ﷺ کی کامل متابعت نے حضرت مسیح موعودؑ کے کلام میں کیا عظیم الشان تغیر پیدا کیا جس سے باقی شعراء قاصر محض رہے۔

حضور علیہ السلام کے منظوم کلام کو پڑھتے ہوئے مندرجہ ذیل دس باتوں کو ملحوظ خاطر رکھیں:

منظوم کلام میں یا تو حمد باری تعالیٰ ہو گی یا پھرحضرت رسول اللہ ﷺ کی توصیف و تعریف ، نہ کہ کسی بادشاہ، حاکم یا سلطان کی مدح سرائی۔

حضور علیہ السلام کے کلام میں آپ کا عظیم الشان مقصد اور مشن کی تکمیل کا ذریعہ صرف حبّ رسول ہی ہے۔

حضور علیہ السلام کے کلام میں حُبّ رسول اور اس کے نتیجے میں ملنے والے انعامات کا جا بجا تذکرہ ملتا ہے۔

عربی زبان میں قصائد جام و سبو اور زن و شباب کے تذکرہ کے بغیر مکمل متصور نہیں ہوتے تھے مگر آپ نے ہر موقع پر ان دو برائیوں کی بڑی شدّ و مد سے تنقیص کی اور بے نظیر منظوم کلام کہا۔

آپ کے کلام میں استعارہ، تشبیہ، تلمیح کی جاوداں مثالیں اپنی مثال آپ ہیں۔

آپ کے کلام میں آپ اپنی ذمہ داری بطور حَکم و عَدل خوب نبھاتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

آپ کے اشعار مضامین علم کلام، علم تاریخ، علم فلسفہ و منطق اور علم تصوف کے زیر اثر نہیں بلکہ ان پر حجت قائم کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔

آپ بسا اوقات ’’اخذ‘‘ کرتے ہیں مگر اس کے ساتھ تضمینی مصرعہ ایسی خوبصورتی سے بیان کرتے ہیں کہ مصرعہ اولیٰ بھی مصرعہ ثانیہ کی بلاغت کی داد دیئے بغیر نہ رہ سکتا ہو گا۔

آپ کا کلام مفردات کے نیچے نہیں بلکہ آپ کے مفردات ناردرہ اور تراکیب حسنہ آپ کے آفاقی تخیلات اور نفس مضمون کے ماتحت ہوتے ہیں۔

اجتماعی طور پر آپ کے کلام میں مفردات نادرہ، لفظی و معنوی اعتبار سے جمالیتِ کلمات اور سلیس مضمون کو بیان کرنا جیسی خصوصیات کا حامل حضور علیہ السلام کا نظمی و نثری کلام، تاریخ ادب عربی میں اپنی مثال آپ ہے۔

آئیے اب ان بے شمار اور لا زوال قصائد میں سے کچھ پاکیزہ اشعار کا مطالعہ کرتے ہیں:

وإن إمامی سید الرسل أحمدُ

رضیناہ متبوعاً وربّی ینظُرُ

ولا شک أن محمدا شمس الھدی إلیہ رغِبْنا مؤمنین فنشکُرُ

لہ درجات فوق کل مدارجٍ

لہ لمعاتٌ لایلیھا تصوُّرُ

أَبَعْدَ نبیِّ اللّٰہ شیءٌ یرُوقنی

أبعدَ رسول اللّٰہ وجہٌ مُنوَّرُ

علیک سلامُ اللّٰہ یا مَرْجَعَ الوری لکل ظلامٍ نورُ وجھک نیِّرُ

ویحمدک اللّٰہ الوحید وجندُہ

ویُثنی علیک الصبحُ إذ ھویَجشُرُ

مدحتُ إمامَ الأنبیاء وإنہ

لأرفَعُ مِن مدحی و أعلی وأکبرُ

ترجمہ:اور یقیناً میرے راہنما تو تمام رسولوں کے سردار احمد ﷺ ہیں، اور ہم ان کو متبوع کی حیثیت سے ماننے پر خوش ہیں اور میرا رب دیکھ رہا ہے۔ اس میں کچھ شک نہیں کہ (حضرت) محمدؐ ہدایت کے سورج ہیں۔ ہم اس (سورج) کی طرف مومن ہونے کی حالت میں بخوشی رغبت دکھاتے ہیں اور اس پر شکر ادا کرتے ہیں۔آپ ﷺ کے درجات تمام درجوں کی نسبت بلند ہیں آپﷺ کی (ہدایت سے بھرپور) شعاعیں ایسی ہیں کہ جن کا احاطہ چشم تصور کر ہی نہیں سکتی۔ کیا اللہ کے نبیﷺ کے بعد مجھے کوئی شئے پسند آ سکتی ہے؟ کیا حضرت رسول اللہ ﷺ کے علاوہ بھی کسی کا چہرہ مبارک منور ہے؟

اے تمام مخلوق کے مرجع! ہر اندھیرے کے لئے تیرے چہرہ کا نور ایک سورج کا حکم رکھتا ہے۔یا رسول اللہ آپ کی حمد تو خدائے یگانہ اور اس کے لشکر بھی کرتے ہیں اور وہ صبح بھی جب پو پھوٹتی ہے۔ میں نے امام الانبیائ کی مدح کی ہے اور یقیناً آپ کی تعریف میری مدح سے کئی گنا بلند تر ہے۔

آپ اپنے شہرہ آفاق، معرکۃ الآراء قصیدہ ’’یا عین فیض اللہ۔۔۔‘‘ میں آپ ﷺ کی مدح سرائی میں گویا ہیں:

یاعین فیض اللّٰہ والعرفان

یسعی الیک الخلق کالظمآن

یا بحرفضل المنعم المنّان

تھوی إلیک الزّمر بالکیزان

یا شمس ملک الحسن والإحسان

نوّرت وجہ البرّ و العمران

قوم رأوک وأمّۃ قد أخبرت

من ذالک البدر الذی أصبانی

إنی أری فی وجھک المتھلل

شأنًا یفوقُ شمائل الانسان

یا لَلفتی ما حسنہ وجمالہ

ریّاہ یصبی القلب کالریحان

وجہ المھیمن ظاھرٌ فی وجھہ

وشؤنہ لمَعت بھذا الشان

فلذا یحبُّ ویستحقُّ جمالہ

شغفًا بہ من زمرۃ الأخدان

سُجح کریم باذل خلّ التقی

خرق و فاق طوائف الفتیان

فاق الوری بکمالہ وجمالہ

وجلالہ وجنانہ الریّان

لاشک أنّ محمّدًا خیرالوری

ریق الکرام ونخبۃ الاعیان

تمّت علیہ صفات کل مزیّۃ

خُتِمت بہ نعماء کل زمان

یا رب صل علی نبیک دائمًا

فی ھذہ الدنیا وبعث ثان

أنْظر إلیَّ برحمۃ و تحنّن

یا سیدی أنا أحقر الغلمان

یا حِبِّ إنک قد دخلت محبۃً

فِی مُھْجَتی ومدارکی وجنانی

من ذکر وجھک یا حدیقۃ بھجتی

لم أَخْلُ فی لحظٍ و لا فی آن

جسمی یطیر الیک من شوق علا

یا لیت کانت قوۃ الطیران

ترجمہ:اے اللہ کے فیض اور عرفان کے چشمے! لوگ سخت پیاسوں کی طرح تیری طرف تیزی سے دوڑتے ہیں۔

اے منعم و منّان خدا کےفضل و احسان کےسمندر! لوگ گروہ در گروہ (اپنے)کوزے لئے دوڑتے ہوئے تیری طرف آرہے ہیں۔

اے مملکتِ حسن و احسان کے دمکتے ہوئے سورج! تونے بیابانوں اور آبادیوں کو یکدفعہ منوّر کر دیا۔
ایک قوم نے تجھے دیکھا اور امّت نے اس ماہ کامل کی خبر سنی جس نے مجھے اپنا مشتاق بنا دیا ہے۔
مَیں تیرے دمکتے ہوئے چہرے میں ایسی شان دیکھتا ہوں جو کہ جملہ انسانی شمائل پر فوقیت رکھتی ہے۔
کیسا مردِ کامل ہے اور اس کے حُسن و جمال کےکیا کہنے! جس کی خوشبو دل کو گلِ ریحان کی طرح اپنی جانب کھنچتی ہے۔

مہیمن خدا کا چہرہ اس کے چہرے میں نظر آتا ہے اور اس کے تمام حالات اسی شان کے ساتھ چمکتے ہیں۔
اسی لئے تو اس سے ہر کوئی محبت کرتا ہے، اور اس کا جمال مستحق ہے کہ دوستوں کے گروہ کو چھوڑ کر اس سے دل لگایا جائے۔

وہ مردانہ وجاہت سے بھرپور خوبصورت چہرہ والا ، کریم النفس، جواد، متقیوں کا دوست ہے،وسیع العطا اور سب مردوں پر فائق ہے۔

وہ سب مخلوق پر بوجہ اپنے کمال، جمال اور جلال کے اور اپنے شاداب دل کے ساتھ فائق ہے۔

بلا شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم تمام مخلوقات سے بہتر ہیں، اور شرفاء کے لئے بھی صاحبِ جُود و کرم ہیں۔ اور آپ عظیم الشان لوگوں میں بھی افضلیت رکھتے ہیں۔

ہر قسم کی فضیلت کی صفات آپ پر ختم ہو گئیں۔اورآپؐ پر ہر زمانے کی نعمتیں ختم ہو گئی ہیں۔

اے میرے رب! اپنے نبی پر دائماً برکتیں بھیج۔ نہ صرف اس دنیا میں بلکہ دوسرے عالم میں بھی!

اے میرے آقا میں مظلوم و سوختہ دل کے ساتھ تیرے دروازے پر آیا ہوں۔ اور میری قوم نے مجھے کافر کہہ کر سخت تکلیف دی ہے۔

مجھ پر رحم اور شفقت کی نگاہ ڈال۔ اے میرے آقا میں تیرے تمام غلاموں میں سے حقیر ترین ہوں۔

اے میرےحبیب! تیری محبت میرے لہو، میرے حواس اور میرے دل میں رچ بس گئی ہے۔

اے میری خوشی کے باغ! میرا ایک لمحہ بھی تیرے منہ کے ذکر سے خالی نہیں رہتا،

میرا جسم بوجہ ایک عظیم الشان شوق کے تیری طرف اُڑا جاتا ہے۔ اے کاش! مجھ میں قوتِ پرواز ہوتی!

(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد5- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 590 تا 595)

اسی قصیدہ کے متعلق ایک روایت میں حضرت پیر سراج الحق نعمانی صاحب رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ:

’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام جب یہ قصیدہ تصنیف فرما چکے تو آپ کا چہرۂ مبارک خوشی سے چمکنے لگا اور فرمایا کہ یہ قصیدہ جنابِ الٰہی میں قبول ہوگیا اور خدا نے مجھ سے فرمایا جو اس قصیدہ کو حفظ کرے گا اور ہمیشہ پڑھے گا میں اس کے دل میں اپنی اور اپنے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی محبت کوٹ کوٹ کر بھردوں گا۔ اور اپنا قرب عطا کروں گا۔‘‘

(شرح القصیدہ، صفحہ 1،2)

حضرت ڈاکٹر خلیفہ رشیدالدین رضی اللہ عنہ نے بھی اس مبارک قصیدہ سے متعلق روایت فرمایا کہ’’حضرت مسیح موعود علیہ السلام قصیدہ ’’یَاعَیْنَ فَیْضِ اللّٰہِ وَالْعِرْفَانٖ‘‘کے متعلق فرمایا کرتے تھے کہ جو شخص اس قصیدہ کو حفظ کرے گا اس کے حافظہ میں خدا تعالیٰ کی طرف سے برکت دی جائے گی۔‘‘

(شرح القصیدہ، صفحہ 1،2)

حضور علیہ السلام اپنے ایک اور مدیح نبوی میں رقمطراز ہیں :

یا قلبی اذکر أحمدا

عینَ الہدی مُفنی العدا

برًّا کریما مُحسنا

بحر العطایا والجَدا

بدر منیر زاہرٌ

فی کل وصفٍ حُمِّدا

إحسانہ یصبی القلوب

وحسنہ یروی الصدی

الظالمون بظلمھم

قد کذّبوہ تمردًا

والحق لا یسَعُ الوری

إنکارہ لما بدا

اطلُبْ نظیرَ کمالہ

فستندمَنّ مُلَدَّدا

ما إن رأینا مثلہ

للنائمین مُسھّدا

نور من اللّٰہ الّذی

أحی العلومَ تجدُّدا

المصطفٰی والمجتبٰی

والمقتدٰی والمجتدٰی

ترجمہ: اے میرے دل! (حضرت) احمد (ﷺ) کو یاد کر جو ہدایت کا چشمہ ہے اور دشمنوں کو فنا کرنے والا ہے۔ وہ بیک وقت نیک، کریم الخصال،محسن، جود و عطاء کا ایک وسیع سمندر ہے۔ وہ چمکتا ہوا بدر منیر ہے اور اس کی تعریف ہر وصف (انسانی) میں کی گئی۔ اس کے احسانات دل کو اپنے طرف بآسانی مائل کر لیتے ہیں اور اس کا حسن پیاسوں کی پیاس مٹانے والا ہے۔

ظالموں نے اپنے ظلم و تعدی کے سبب اس کی تکذیب کی۔ جبکہ مخلوق (اس کی) سچائی ظاہر ہونے کے بعد اس کے انکار پر دم نہیں مار سکتی۔

تُو اس کے کمال کی کوئی مثال تو ڈھونڈ کے لا! عنقریب تو خجل و ندامت کا شکار ہو گا۔ ہم نے اس کے جیسا کوئی نہیں دیکھا جو سوتوں کو جگا کے رکھ دے۔ وہ تو اللہ کا نور ہے جس نے تمام علوم کی تجدید کی ۔ وہ ہے اللہ کا چنیدہ و برگزیدہ ، فیض رساں نبی متبوع ﷺ

(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد7-کرامات الصادقین – : صفحہ 70)

آپ علیہ السلام حضور ﷺ کے ساتھ اپنی بے نظیر محبت کا اظہار اپنے ایک قصیدہ میں کچھ یوں بیان فرماتے ہیں:۔

ووالله إني قد تَبِعتُ محمدًا

وفي كل آن مِن سناه أُنوَّرُ

وفَوَّضَني ربي إلى روضِ فيضه

وإني به أجنِي الجَنى وأُنَضَّرُ

ولِدِينه في جَذْرِ قلبيَ لوعةٌ

وإن بياني عن جنانيَ يُخبِرُ

ورثتُ علوم المصطفى فأخذتُها

وكيف أردّ عطاء ربي وأفجُرُ

ترجمہ: یقیناً میں نے محمد ﷺ کی مکمل اتباع کی ہے۔اور ہر آن میں آپ کی روشنی سے منور ہو رہا ہوں۔ اور مجھے میرے رب نے آپ کے باغوں کے حوالے کیا ہے۔ اور میں ان باغوں سے پھل چنتا ہوں اور انہی سے تازگی حاصل کرتا ہوں۔ اور آپ ﷺ کے دین کے لئے میرے دل میں ایک سوز ہے۔اور میرا بیان میرے دل کی بخوبی عکاسی کر رہا ہے۔ مصطفوی علوم مجھے ورثہ میں ملے ہیں اور میں نے ان کو مکمل طور پر اخذ کیا ہے۔ اور میں کیسے اپنے ربّ کی عطا کو ردّ کر کے اس کو جھٹلانے والا بن سکتا ہوں۔؟

(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد7- حمامۃ البشریٰ: صفحہ 332)

مندرجہ بالا مثالیں حضور علیہ السلام کے کُل عربی منظوم کلام کا عشر عشیر بھی نہیں مگر ان میں جو مدیح نبوی کا عظیم معیار دیکھنے کو ملا ٹھیک وہی معیار باقی سب قصائد میں بھی روز روشن کی طرح نظر آتا ہے۔جن دس خصوصیات کا خاکسار نے اوپر ذکر کیا ہے وہ نہائت شاندار طور پر ان اشعار اور باقی اشعار و قصائد میں ملتی ہیں۔

یہاں ضمناً یہ بات بھی بیان کرتا چلوں کہ بعض غیر احمدی علما سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے بارہ میں رائے رکھتے ہیں کہ :
’’تمام عمر میں صرف ایک یہ قصیدہ لکھا اور وہ بھی بحر طویل میں جو سہل ترین بحور سے ہے۔اس کے علاوہ دو چار قصیدے دس بیس شعر کے اور بھی ہیں ۔‘‘

ردّ قادیانیت رسائل، احتساب قادیانیت جلد 59 صفحہ 108)

اس جگہ اس سے زیادہ اور کیا کہا جا سکتا ہے کہ اگر مولوی صاحب اپنی جہالت کی گرد سے اَٹی ہوئی اور تعصب کی عینک اتار کر سچائی کا دامن پکڑ کر تحقیق کر لیتے تو یہ بات ہر گز نہ کرتے۔

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے صرف عربی قصائد کی تعداد پچاس سے اوپر ہے۔ جن میں اشعار کی تعداد ایک محتاط اندازے کے مطابق 3331 ہے۔ اور سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے تقریباً تمام بحور میں ہی بے نظیر کلام کہا ہے۔

مولوی صاحب کی اس کھلی دریدہ دہنی اور بے سر و پا ’’تحقیق‘‘ کے برعکس عمومی طور پر پاک و ہند کے علماء کے نزدیک بر صغیر پاک و ہند کےشعراء نےعربی نعت کے میدان میں کم ہی کلام کہا۔ اس کے مقابل پر سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کا عربی نعتیہ منظوم ایک بحر ذخار کی صورت میں دکھائی دیتا ہے۔جس میں روحانی جواہرات تو ہیں ہی اس کے ساتھ ساتھ اس کلام کی خاطر خواہ عددی حیثیت بھی ایک معنیٰ رکھتی ہے۔ مگر ضرورت اس امر کی ہے کہ تعصب کی عینک اتار کر مکمل منصف مزاجی کے ساتھ اس کا مطالعہ کیا جائے۔

جب حضور علیہ السلام نے اپنی پہلی عربی تصنیف تحریر فرمائی تو اس کے آخری حصہ میں ایک قصیدہ تحریر فرمایا(جس کا بیان پہلے گزر چکا ہے) جب یہ تصنیف عرب ممالک میں پہنچی تو عرب دنیا پر آپ کا غیر معمولی اثر ہوا، چنانچہ آپ فرماتے ہیں:۔

’’ (ایک فاضل عرب کی اس عاجز کی کتاب آئینہ کمالات اسلام اور تبلیغ کے اعلیٰ درجہ کی بلاغت پر گواہی جو ایک بلدہ عظیمہ میں تعلیم ادب وغیرہ کے مدرس ہیں)

اخی مکرم مولوی حافظ محمد یعقوب صاحب سلمہ ڈیرہ دون سے لکھتے ہیں کہ میں ایمان لاتاہوں اس بات پر کہ آپ امام زمانہ ہیں مؤید من اللہ ہیں علماء کو اللہ تعالیٰ نے ضرور آپ کا شکار بنایا ہے یا غلام۔ آپ کا مخالف کبھی کامیاب نہ ہوگا مجھے اللہ تعالیٰ آپ کے خادموں میں زندہ رکھے اور اسی میں مارے۔ اے خدا تو ایسا ہی کر ایک عرب عالم اس وقت میرے پاس بیٹھے ہیں شامی ہیں۔ سید ہیں۔ بڑے ادیب ہیں ہزاروں اشعار عرب عاربہ کے حفظ ہیں ان سے آپ کے بارے میں گفتگو ہوئی وہ عالم متبحر اور میں عامی محض مگر توفی کے معنے میں کچھ بنؔ نہ پڑا۔ آپ کی عبارت آئینہ کمالات اسلام جو عربی ہے ان کو دکھائی گئی۔ کہا واللہ ایسی عبارت عرب نہیں لکھ سکتا ہندوستانی کو توکیا طاقت ہے۔ قصیدہ نعتیہ دکھایا پڑھ کر رو دیا اور کہا خدا کی قسم میں نے اس زمانہ کے عربوں کے اشعار کو کبھی پسند نہیں کیا اور ہندیوں کا تو کیا ذکر ہے مگر ان اشعار کو حفظ کروں گا۔ اور کہا واللہ جو شخص اس سے بہتر عبارت کا دعویٰ کرے چاہے عرب ہی کیوں نہ ہو۔ وہ ملعون مسیلمہ کذّ اب ہے۔ تمّ کلامہ میں یقین رکھتا ہوں کہ یہ کلام ربّانی اور تائید سبحانی کا اعجاز ہے آدمی کا کام نہیں۔ میں نے حضرت کو اپنی جان اور اپنی اہل اور اولاد میں مالک کر دیا۔ ‘‘

(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ: جلد6- سَچّائی کا اِظہَار: صفحہ 7675,)

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button