ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
تورات نے لوگوں کو انتقام کی طرف مائل کر دیا۔ اس کے نزدیک ظالم کے لئے اب کوئی جائے فرار اور کوئی راہ نجات نہیں ۔اور عیسیٰ ؑ نے اپنی اُمّت کے لئے یہ حکم جاری کیا کہ اگر ان میں سے کسی کے ایک گال پر تھپڑ مارا جائے تو وہ اپنا دوسرا گال بھی تھپڑ مارنے والے کے آگے رکھ دے اور قصاص نہ طلب کرے۔ بلا شبہ یہ دونوں گروہ فطری شریعت سے مناسبت نہیں رکھتے اور محض قانونی احکام کی پیروی کرتے ہیں۔ جب کہ محمدیؐ شخص کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جیسے قانونی شریعت کی پیروی کرتا ہے ایسا ہی وہ فطرتی شریعت کی بھی اتباع کرے۔کامل مسلمان وہ ہے جو دونوں شریعتوں کی اتباع کرتا ہے اور دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہے سو اسے صحیح راستہ کی طرف ہدایت دی جاتی ہے اور دھوکہ باز اسے دھوکہ نہیں دے سکتے۔
’’ پھر تعلیم قرآن کے مغز اور خدائے رحمان کی کتاب کی حقیقت کی اشاعت سے بھی جس کے لئے میں اس زمانہ میں بھیجا گیا ہوں کیونکہ یہ تعلیم موت کی طرف بلاتی ہے یعنی اس موت کی طرف جو دُوئی اور ہوا وہوس کو چھوڑنے سے نفس پر وارد ہوتی ہے اور فطرتی شریعت میںمحو ہو جانے کی طرف اور اس شخص کی حالت جیسی حالت کی طرف بلاتی ہے جو مر گیا اور فنا ہو گیا ہو۔ اور خود اختیاری کی حرکات سے کلیۃً معطلی اور ان فتاویٰ سے موافقت کی طرف کھنچتی ہے جو قضا و قدر نازل کرنے والے اللہ کی طرف سے دل کو ہر آن حاصل ہوتے ہیں۔ اس حالت میں انسان فانی الذات ہو کر نفس اور جذبات کے حکم کے تابع نہیں رہتایہاں تک کہ اس کی طرف نہ کوئی سکون منسوب ہو سکتا نہ کوئی حرکت اور نہ چھوڑنا اور نہ پکڑنا۔ اس کی شان تغیرات سے بالا ہو جاتی ہے اوراس میں اپنے قصد و ارادہ کا کوئی نشان تک نہیںرہتا اور نہ کسی مدح و مذمت کی خبر ہوتی ہے اور وہ مُردوں کی طرح ہو جاتا ہے۔ پس یہ موت کی ایک قسم ہے۔ اس موت کا مقام پانے والا نہ کسی حرکت و سکون کا اختیار رکھتا ہے اور نہ کسی دکھ اور لذت کا۔ نہ کسی راحت اور تھکاوٹ کا اور نہ کسی محبت و عداوت کا۔ نہ عفو کا، نہ انتقام کا اور نہ کسی بخل کا اور نہ سخاوت کا۔ نہ کسی بزدلی اور نہ بہادری کا اور نہ غضب کا اور نہ شفقت کا۔ بلکہ وہ حیّ و قیّوم کے ہاتھ میں ایک مُردہ ہوتا ہے جس میں نہ کوئی حرکت باقی رہ گئی ہوتی ہے اور نہ کوئی خواہش اور نہ ہی ان حالتوں میں سے کوئی اس کی طرف منسوب کی جاتی ہے جیسا کہ وہ مُردوں کی طرف منسوب نہیں کی جاتی۔اور کوئی شک نہیں کہ یہ حالت ایک موت ہے اور یہ مراتب عبودیت کا انتہائی مقام اور نفسانی زندگی سے نکل جانا ہے اور اسی پر حضرت احدیّت کی طرف جانے والے اولیاء کا سفر اپنی انتہا کو پہنچتا ہے۔ یہی قرآن کی تعلیم ہے اور باقی ہر تعلیم رحمن خدا کی طرف جذب میں اس سے کم تر ہے۔ عقلمندوں اور غور و فکر کرنے والوں کے نزدیک سلوک اور عرفان کے مراتب میں سے اس کے بعد اورکوئی مرتبہ نہیں۔ تورات نے لوگوں کو انتقام کی طرف مائل کر دیا۔ اس کے نزدیک ظالم کے لئے اب کوئی جائے فرار اور کوئی راہ نجات نہیں اور عیسیٰ ؑ نے اپنی اُمّت کے لئے یہ حکم جاری کیا کہ اگر ان میں سے کسی کے ایک گال پر تھپڑ مارا جائے تو وہ اپنا دوسرا گال بھی تھپڑ مارنے والے کے آگے رکھ دے اور قصاص نہ طلب کرے۔ بلا شبہ یہ دونوں گروہ فطری شریعت سے مناسبت نہیں رکھتے اور محض قانونی احکام کی پیروی کرتے ہیں۔ جب کہ محمدیؐ شخص کو یہ حکم دیا گیا ہے کہ وہ جیسے قانونی شریعت کی پیروی کرتا ہے ایسا ہی وہ فطرتی شریعت کی بھی اتباع کرے۔اور کسی بھی معاملہ کا حتمی فیصلہ فطرتی شریعت کی گواہی کے بعد ہی کیا جائے۔ اس ملّت کی فطرت سے وابستگی کی وجہ سے اسلام کو دینِ فطرت کا نام دیا گیا ہے۔ اسی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ہمارے نبی ﷺ نے فرمایا ہے کہ خواہ فتویٰ دینے والے تجھے فتویٰ دیتے رہیں تب بھی تُو اپنے دل سے پوچھ۔ پس تو دیکھ کہ آپ ﷺ نے کس طرح فطرتی شریعت کی طرف رغبت دلائی ہے اور علماء کے اقوال پر ہی بس نہیں فرمائی۔ پس کامل مسلمان وہ ہے جو دونوں شریعتوں کی اتباع کرتا ہے اور دونوں آنکھوں سے دیکھتا ہے سو اسے صحیح راستہ کی طرف ہدایت دی جاتی ہے اور دھوکہ باز اسے دھوکہ نہیں دے سکتے۔ اسی لئے اللہ نے اسلام کی خوبیاں بیان کرتے ہوئے ذکر کیا کہ وہ دین فطرت ہے جیسا کہ فرمایافِطْرَتَ اللہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا۔[اللہ کی فطرت کو اختیار کر (وہ فطرت) جس پر اللہ نے لوگوں کو پیدا کیا ہے(الرّوم31:)] یہ امر اس ملّت کے فضائل اور اس شریعت کے اوصافِ عالیہ میں سے عظیم ترین ہے کیونکہ اس تعلیم میں ہر معاملہ کا انحصار اس فیصلہ کرنے والی قوتِ قدسیہ پر ہے جو نشا ٔۃ انسانیہ میں ہی موجود ہے اور مراتب فنا میں کمالِ تام تک پہنچاتی ہے۔ اس کی موجودگی میں نفسانی تصرفات کی کوئی گنجائش رہ نہیں جاتی کیونکہ اس میں فطری شہادت پر عمل ہوتا ہے۔ جب کہ تورات اور انجیل انسان کو اس حد پر چھوڑ جاتی ہیں جو پاک فطری شہادت سے بہت دور ہے اور قوتِ غضبیہ کے افراط یا قوتِ واہمہ کی تفریط کے دخل کے بہت قریب ہے حتی کہ اہل عقل کے نزدیک بعض مواقع پر انتقام لینے والے کو موذی بھیڑیا کہنا بھی ممکن ہو گایا بغیر محل کے مثلاً بیوی کی بدکاری دیکھ کر عفو اور چشم پوشی کرنے والے کو بھی غیرت مند اور باحیا شخص کے نزدیک بے غیرت اور بے حیا کہنا بجا ہو گا۔ اس لئے بعض مواقع پر توُ اس آدمی کو جسے عفو کی تعلیم بڑی پسند ہے، دیکھتا ہے کہ وہ عفو اور رحمت کی حقیقت کو ترک کر بیٹھتا ہے اور غیرتِ انسانی کی حدود سے تجاوز کر جاتا ہے کیونکہ اہلِ عقل کے نزدیک ہر موقع پر معاف کر دینا قابل تعریف نہیں ہے۔ اسی طرح غور و فکر کرنے والوں کے نزدیک ہر موقع پر انتقام لینا بھی مستحسن نہیں۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 209تا214۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)