الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
محترم چودھری شبیر احمد صاحب
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24 جولائی 2012ء کی خبر کے مطابق محترم چودھری شبیر احمد صاحب وکیل المال اوّل تحریک جدید ربوہ 22 جولائی کو 95 سال کی عمر میں ربوہ میں وفات پاگئے۔ 28 جولائی کے خطبہ جمعہ میں حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے محترم چودھری صاحب کے حالات زندگی اور اخلاقِ حسنہ اختصار سے بیان فرمائے اور بعدازاں آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی۔
محترم چوہدری شبیر احمد صاحب کے والد حضرت حافظ عبدالعزیز صاحبؓ آف سیالکوٹ (بیعت 1895ء) اور والدہ حضرت عائشہ بیگم صاحبہؓ دونوں صحابہ میں سے تھے لیکن آپ کے دادا مکرم چوہدری نبی بخش صاحب نے 1923ء میں بیعت کی تھی۔ وہ ریاست جموں کے باوقار زمیندار تھے اور مسلمانوں پر بعض پابندیوں کے باعث ملکہ وکٹوریہ کے زمانے میں ہجرت کرکے سیالکوٹ آ گئے تھے۔ آپ کے والد حضرت حافظ صاحبؓ بلند اخلاق والی شخصیت تھے اور حافظِ قرآن ہونے کی وجہ سے اپنے علاقے میں بڑے نمایاں تھے۔
مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب نے ابتدائی تعلیم سیالکوٹ سے حاصل کی اور 1931ء میں مڈل کے بعد مزید تعلیم و تربیت کی خاطر قادیان بھیج دیئے گئے۔ 1934ء میں میٹرک تعلیم الاسلام سکول قادیان سے کیا۔ پھر چونکہ قادیان میں کالج نہیں تھا اس لئے مرےؔ کالج سیالکوٹ سے بی اے کیا اور پھر قادیان میں حضرت مولوی شیر علی صاحب کے ساتھ دفتر میں کچھ عرصہ ترجمہ قرآن انگریزی کی ٹائپنگ کا کام کیا۔ پھر ملازمت کی تلاش میں لاہور آئے۔ کچھ عرصہ صحافت میں بھی وقت گزارا۔ اچھے معروف شاعر بھی تھے اور آواز بھی اچھی تھی۔ گفتگو میں بڑی شائستگی تھی۔
1940ء میں ملٹری اکاؤنٹس کا امتحان پاس کیا اور وہاں گیارہ سال کام کیا۔ اسی دوران 1944ء میں اپنے آپ کو وقف کے لئے پیش کر دیا۔ حضرت مصلح موعودؓ نے 1950ء میں آپ کا انٹرویو لے کر وقف منظور فرمایا اور پھر آپ اس ملازمت سے استعفیٰ دے کر ربوہ آ گئے۔ پہلے نائب وکیل کے طور پر، اور 1960ء سے وفات تک وکیل المال اوّل کے طور پر خدمات سرانجام دیں۔ باون سال وکیل المال اوّل رہے۔ یعنی کُل 61 سال خدمت کی توفیق پائی۔ ذیلی تنظیموں میں بھی خدمات سرانجام دیتے رہے۔ ربوہ میں مجلس خدام الاحمدیہ مرکزیہ کے پہلے معتمد بنے۔ مجلس انصاراللہ میں نائب صدر صفِ دوم بھی رہے اور لمبا عرصہ رُکنِ خصوصی بھی رہے۔ مجلس کارپرداز کے ممبر تھے۔ قاضی بھی تھے۔ ربوہ کے بی ڈی ممبر بھی رہے۔ 1960ء میں حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓ کی بیگم کی طرف سے حج بدل کی توفیق بھی ملی۔ کئی ممالک میں دوروں پر جاتے رہے۔ آپ کے کئی شعری مجموعے اور کتب بھی ہیں۔ 1965ء سے 1983ء تک جلسہ سالانہ ربوہ میں درّثمین سے نظمیں پڑھنے کا موقع ملا اور جلسہ سالانہ یُوکے میں بھی دو بار نظم پڑھنے کا موقع ملا۔ جلسہ سالانہ ربوہ کے موقع پر ایک مرتبہ ’’ذکرحبیب‘‘ کے عنوان سے تقریر بھی کی۔ 1985ء میں آپ پر ماہنامہ ’’انصاراللہ‘‘ میں نعت شائع ہونے پر ایک مقدمہ بھی بنایا گیا جس کے نتیجہ میں آپ قریباً دس گھنٹے پولیس کی تحویل میں رہے۔
آپ دورے پر پروجیکٹر اور سلائیڈز ساتھ لے جاتے اور لمبی چوڑی تقریروں یا دلائل کی بجائے سلائیڈز دکھاکر بتاتے کہ دنیا میں یہ ہمارے مشن، مساجد، سکول اور ہسپتال بن رہے ہیں۔ اس طرح تبلیغی اور تربیتی کام کیا۔
2009ء کے جلسہ یُوکے میں آپ کو خلافت جوبلی کے اظہارِ تشکر کی رپورٹ اور جماعت کی طرف سے حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ کی خدمت میں مختلف دینی مقاصد پر خرچ کرنے کے لئے رقم پیش کرنے کی توفیق ملی۔
آپ کی اہلیہ محترمہ سلمیٰ بیگم صاحبہ 2001ء میں وفات پاگئی تھیں۔ آپ کی تین بیٹیاں اور تین بیٹے ہیں۔ ایک بیٹے مکرم ظفر سرور صاحب مبلغ سلسلہ امریکہ ہیں، ایک بیٹے مکرم قمر احمد کوثر صاحب پرائیویٹ سیکرٹری (ربوہ۔ پاکستان) ہیں۔
محترم چودھری صاحب اپنے غیراحمدی رشتہ داروں کو تبلیغ کی خاطر لٹریچر بھجوایا کرتے تھے۔ دفتر والوں کے ساتھ بڑا حسنِ سلوک تھا۔ ان کے ایک کارکن لکھتے ہیں کہ پہلے تو سائیکل پر دفتر آیا کرتے تھے لیکن جب بہت بیمار ہو گئے تو گاڑی استعمال کرنے لگے۔ ایک دن گاڑی بھجوانے میں دیر ہوگئی تو کچھ کہنے کی بجائے ایک لفافے میں چند بادام متعلّقہ کارکن کو بھیج دیئے کہ یہ آپ کی یادداشت کے لئے ہیں۔ گھر میںبھی وعظ و نصیحت یا ڈانٹ ڈپٹ کی بجائے اپنا عملی نمونہ پیش کیا کرتے تھے جسے دیکھ کے بچے خود ہی اپنی اصلاح کرلیتے یا پھر ایسے رنگ میں کوئی کہانی سنا دیتے تھے جس سے اصلاح کی طرف توجہ پیدا ہو جاتی تھی۔ آخری بیماری میں کہنے لگے کہ شعر نازل ہو رہے ہیں۔ بستر مرگ کے وہ شعریہ تھے ؎
خدمتِ دین کی خاطر میرے مولیٰ
خدمتِ دین کی خاطر مجھے قرباں کر دے
وقتِ رخصت میرے واسطے وقتِ راحت
وقتِ رخصت میرے واسطے آساں کر دے
رخصتی کو میرے واسطے شاداں کر دے
حضرت مصلح موعودؓ نے جب آپ کا وقف قبول کیا تو یہ نصیحت فرمائی کہ جماعت کے کاموں کی اس طرح فکر کرنا جیسے ایک ماں اپنے بچے کی فکر کرتی ہے۔ آپ نے اس نصیحت کو ہمیشہ پلّے باندھے رکھا۔
آپ اپنی بیوی کا بڑا خیال رکھتے تھے لیکن کئی دفعہ ایسے موا قع آئے کہ اہلیہ بیمار ہیں یا بچے کی پیدائش ہونے والی ہے، تو ضرورت پڑنے پر یہ کہہ دیا کرتے تھے کہ مَیں خدا کے دین کے کاموں سے جاتا ہوں، خدا تعالیٰ میرے باقی کام سنوار دے گا۔ اور اللہ تعالیٰ سنوار بھی دیا کرتا تھا۔ ان کے ایک انسپکٹر کہتے ہیں کہ کچھ کتابیں دیکھ رہے تھے جو دفتر کی طرف سے جِلد کرائی گئی تھیں، اُن میں ایک درّثمین نکل آئی تو اکاؤنٹنٹ کو بلاکر فرمایا کہ یہ تو میری ذاتی درّثمین ہے اس کو بھی آپ نے جِلد کروا دیا ہے، اس پر کتنے پیسے خرچ ہوئے ہیں۔ اکاؤنٹنٹ نے یہ کہا کہ سب کتابیں اکٹھی جِلد ہو گئی ہیں لیکن آپ نے پتہ کروایا اور وہ چند روپے اکاؤنٹنٹ کے حوالے کر دئیے۔
آپ کے دفتر کے کارکن یہی کہتے ہیں کہ بڑے دلنشین انداز میں نصیحت کرتے جو ہمیں گراں نہ گزرتی۔ ہماری تربیت فرماتے۔ اکثر نصیحت فرماتے کہ خدمتِ دین کو شوق اور محبت سے خدا کی رضا کے لئے کرنا چاہئے اور بدلہ میں طالبِ انعام نہیں ہونا چاہئے۔
دفتر میں آنے والے مہمانوں کو بڑے احترام سے کھڑے ہو کر ملتے اور اکثر کہا کرتے کہ مرکز میں آنے والے مہمان کچھ توقعات لے کر آتے ہیں اور ان کے ساتھ اچھی طرح ملنا چاہئے اور پانی پوچھنا چاہئے۔ آپ بھی اپنا کام چھوڑ کے اُن کی طرف توجہ کیا کرتے تھے اور جتنا وقت مرضی لگ جائے یا دفتر بند بھی ہو جائے تو جب تک اُن کا کام نہ کر لیتے گھر نہ جاتے۔ اگر کسی کے چندہ کا معاملہ حل نہ ہوتا اور وہ غصّہ میں آجاتا تو بھی خاموشی سے سنتے تھے اور آخر وہ خود ہی شرمندہ ہو کر معافی مانگ لیتا تھا۔ کارکنوں اور اپنے بچوں کو بھی صدقہ و خیرات کی طرف توجہ دلاتے رہتے تھے کہ یہ بلاؤں کو ٹالنے کا ذریعہ ہے اور یہ بھی کہ خلیفۂ وقت کو دعا کے لئے لکھو۔ اپنے انسپکٹران کو کہا کرتے تھے کہ جماعتوں میں خلیفۂ وقت کا پیغام پہنچاؤ بجائے اس کے کہ اپنی زبان میں کچھ کہو۔ انسپکٹران کو یہ بھی کہتے کہ آپ مرکز کے نمائندہ ہیں اس لئے اپنے ہر قول و فعل کا خیال رکھیں۔ بعض دفعہ دفتر میں زائد وقت گزارنا ہوتا تو کارکنان کو سمجھا نے کے لئے بڑے اچھے انداز میں کہا کرتے تھے کہ آپ لوگ یہ نہ سمجھیں کہ دفتر والے باقی تو گھر چلے گئے ہیں اور ہم دفتر میں کام کر رہے ہیں بلکہ یہ خیال کریں کہ خداتعالیٰ ہمیں اضافی خدمت کا موقع دے رہا ہے۔ تو یہ خدمتِ دین کو فضلِ الٰہی جاننے کا ایک عملی ثبوت تھا۔ آپ کے ایک کارکن کہتے ہیں کہ وفات سے چار پانچ دن پہلے مَیں ان کی تیمارداری کے لئے گیا تو کہنے لگے کہ کوئی ناصر احمد نام کا کارکن تیمار داری کے لئے آیا تھا آپ اُسے جانتے ہیں؟ مَیں نے کہا کہ تحریکِ جدید میںاس نام کے تین چار کارکن ہیں۔ اس پر وہ کہنے لگے کہ کل جو ناصر احمدمجھے ملنے آیا تھا اور بچے نے کہہ دیا کہ مَیں سو رہا ہوں اور اُن کو واپس جانا پڑا۔ آپ اُن کا پتہ کریں کہ وہ کون ہیں اور میری طرف سے معذرت کر دیں کہ بچے کو غلطی لگی تھی۔ شاید آنکھیں بند دیکھ کے اُس نے کہہ دیا کہ مَیں سو رہا ہوں ،مَیں سو نہیں رہا تھا۔ تو اس حد تک باریکی سے خیال رکھا کرتے تھے۔
حضورانور ایدہ اللہ نے محترم چودھری صاحب کا ذکرخیر کرتے ہوئے یہ بھی فرمایا کہ مَیں نے بھی ان کے ساتھ کام کیا ہے اور یہ بہت کم خصوصیات ہیں جو ابھی لکھی گئی ہیں۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے بڑی خصوصیات کے حامل تھے اور کام انتھک اور خوش مزاجی سے کیا کرتے تھے۔ خلافت سے بھی بے انتہا وفا کاتعلق تھا ۔ بہر حال یہ بزرگ تھے جو وفا کے ساتھ جہاں اپنے کام میں مگن تھے وہاں خلیفۂ وقت کے بھی سلطانِ نصیر تھے۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی خلیفۂ وقت کے لئے دعائیں بھی بے انتہا کیا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرمائے اور ایسے کارکن ہمیشہ جماعت کو مہیا فرماتا رہے۔
…٭…٭…٭…
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 8نومبر میں مکرم عبدالخالق خان صاحب کا مضمون شائع ہوا ہے جس میں محترم چودھری شبیر احمد صاحب کا ذکرخیر کیا گیا ہے۔
مضمون نگار رقمطراز ہیں کہ اپریل 2004ء میں خاکسار کو وکالت مال اوّل میں خدمت کے لئے بھجوایا گیا۔ اس طرح تقریباً8سال تک مکرم چوہدری صاحب کے ساتھ کام کرنے کا موقع ملا۔آپ کو ایک افسر سے زیادہ ایک مہربان، مشفق وجود اور مربی کے طور پر پایا۔ خاکسار دفتری امور سے بالکل نابلد تھا۔ لیکن آپ ہمیشہ حوصلہ بڑھاتے اور فرماتے کہ جب بھی کسی کام کی سمجھ نہ آئے تو کسی کے پاس جانے کی ضرورت نہیں، سیدھے میرے پاس آ جایا کریں مَیں آپ کو سمجھا دیا کروں گا۔ کبھی کوئی غلطی ہو جاتی تو حوصلہ دیتے کہ کام ہوگا تو غلطیاں بھی ہوں گی۔ کبھی کسی بات پر خاکسار کو نہیں ڈانٹا۔ اکثر وقت پر کام کرنے پر بہت خوش ہوتے اور کوئی نہ کوئی انعام دیتے۔ کمپیوٹر پر ٹائپنگ سیکھنے کے لئے میری حوصلہ افزائی کی۔ جب مَیں آپ کے پاس آیا تھا تو صرف F.Sc کیا ہوا تھا۔ آپ کی حوصلہ افزائی سے پرائیویٹ طور پر B.A.اور پھر M.A بھی کرلیا۔ جب مَیں نے M.A. میں پاس ہونے پر آپ کو بتایا تو گلے لگا کر مبارکباد دی اور فرمایا آپ تو مجھ سے آگے نکل گئے ہیں، مَیں نے تو صرف بی اے کیا ہوا ہے۔
ایک مرتبہ ایک الارم کلاک مجھے دیتے ہوئے فرمایا کہ یہ آپ کو تہجد پر اُٹھایا کرے گا پھر آپ میرے لئے بھی دعا کیا کرنا۔ اس طرح تہجد پر اُٹھنے کی ترغیب دلائی۔ ایک مرتبہ جائے نماز تحفہ دی۔
دفتر میں آنے والے مہمانوں کی مہمان نوازی اکثر اپنی ذاتی رقم سے کیا کرتے تھے۔ ہر مہمان سے اس طرح ملتے کہ گویا اُسے برسوں سے جانتے ہیں لیکن بعض دفعہ بعد میں پوچھتے کہ یہ صاحب کون تھے؟۔تب معلوم ہوتا کہ آپ پہلی مرتبہ اُس مہمان سے ملے تھے۔ کارکنان کو تاکید تھی کہ مہمان کو یہ احساس نہ ہونے دیں کہ وہ کسی اجنبی جگہ پر آئے ہیں۔ نصیحت کرنے سے پہلے خود عملی نمونہ پیش کرتے ۔ویسے نصیحت کاانداز بہت شگفتہ ہوتا تھا۔ اکثر لطیفے یا ذاتی زندگی کے سچے واقعات سناکر نصیحت کرتے اور اتنا پیارا انداز ہوا کرتا تھا کہ کبھی بُرا نہیں لگا۔
ایک دن فرمایا جب مَیں نے حضرت مصلح موعودؓ کی تحریک پر زندگی وقف کی تو ملٹری اکائونٹس میں سپرنٹنڈنٹ تھا۔ وہاں کی تنخواہ کی نسبت وقف کا الاؤنس بہت کم تھا۔ لیکن باوجود کم الائونس کے اللہ تعالیٰ نے مجھے کبھی بھوکا نہیں سونے دیا اور نہ مجھے کبھی اپنے وقف کرنے پر کوئی پچھتاوا ہوا۔ بہت متوکّل انسان تھے۔
ایک مرتبہ مجھے بخار ہو گیا تو پہلے ہسپتال سے دوا لانے بھیجا اور واپس آنے پر اپنے کمرہ میں رکھے ہوئے ایک چھوٹے سے بیڈ پر لٹادیا اور اپنے ہاتھ سے سیب کاٹ کر دیا کہ کھالو۔
جب کبھی اپنا کوئی ذاتی کام کرواتے تو پہلے پوچھتے کہ اس سے دفتری کام کا حرج تو نہیں ہوگا؟ کام ہونے کے بعد اتنے شکرگزار ہوتے کہ ہمیں شرم محسوس ہوتی کہ اتنا بڑا کام تو نہیں تھا۔ ایک مرتبہ آپ نے اپنی ایک چھوٹی سی کتاب بعنوان’’دلنشین یادیں‘‘ ٹائپ کروائی اور اس چھوٹے سے کام کو ہمیشہ یاد رکھا۔ جب آپ صاحب فراش ہوئے تو ایک دن باتوں باتوں میں فرمانے لگے آپ نے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے۔ خاکسار حیران ہوا اور دل میں سوچنے لگا احسان تو آپ کے مجھ پر ہیں۔ ابھی مَیں سوچ ہی رہا تھا کہ فرمانے لگے آپ نے خلفاء کرام کی یادیں ٹائپ کر کے مجھ پر بہت بڑا احسان کیا ہے ورنہ یہ کام رہ جانا تھا۔ مَیں آپ کا یہ احسان کبھی نہیں بھولوں گا۔
آپ کثرت کے ساتھ صدقہ کیا کرتے تھے۔ اگر کوئی تحفہ رقم کی صورت میں دیتا تو ہمیشہ مساجد فنڈ میں جمع کروا دیا کرتے تھے۔ بہت سے احباب کی مالی مدد بھی کیا کرتے تھے جن میں سے بعض احمدی نہیں تھے۔
جب مَیں نے ایک پرانی موٹرسائیکل خریدی تو معلوم ہونے پر فرمایا کہ ہر مہینہ 10،20 روپے جتنی بھی توفیق ہو اس کا صدقہ نکالتے رہنا۔ اس طرح صدقہ کی برکت سے اللہ تعالیٰ حادثات سے بچاتا ہے۔
عاجزی اور بے نفسی کا یہ عالم تھا کہ کسی دفتری کامیابی کو اپنی طرف منسوب نہیں کرتے تھے۔ ایک بار مَیں نے اطلاع دی کہ پاکستان کا چندہ تحریک جدید کا ٹارگٹ پورا ہو گیا ہے تو فرمایا: الحمدللہ، ٹارگٹ اللہ تعالیٰ پورا فرماتا ہے اور نام ہم لوگوں کا ہو جاتا ہے۔
اکثر کہا کرتے تھے کہ تحریک جدید کا جو اُنیسواں مطالبہ ’’دعا‘‘حضرت مصلح موعود نے بیان فرمایا ہے یہ بہت اہمیت کا حامل ہے۔ آپ خود بھی ایک انتہائی دعاگو بزرگ تھے۔جب کبھی آپ سے دعا کی درخواست کرتا تو پوچھتے کہ کیا حضور انور کو دعا کی درخواست کر دی ہے؟ جواب اثبات میں ملتا تو پھر کہتے اچھا مَیں بھی دعا کروں گا۔
…٭…٭…٭…
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ یکم ستمبر 2012ء میں مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب کی رحلت کے حوالہ سے کہی جانے والی مکرم عبدالکریم قدسی صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
وہ تھا خادم ثانی سے اوّل وکیل المال تک
عرصۂ خدمت ہے پھیلا اس کا اکسٹھ سال تک
جا بجا اس میں سنہری حرف ہیں بکھرے ہوئے
اک بیاضِ دل سے لے کر نامۂ اعمال تک
وہ نظام سلسلہ کا اِک غلامِ بے بدل
خدمتِ دیں سے مزیّن اس کے ماہ و سال تک
ربّ قدسیؔ جس کو چاہے اُس کو لمبی عمر دے
اپنی مرضی سے کوئی جیتا نہیں سو سال تک
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 17؍اگست 2012ء میں مکرم چوہدری شبیر احمد صاحب کی رحلت کے حوالہ سے کہی جانے والی مکرم خواجہ عبدالمومن صاحب کی ایک نظم شامل اشاعت ہے۔ اس نظم میں سے انتخاب ملاحظہ فرمائیں:
آج رخصت ہو گیا خدمت کا جو مینار تھا
وہ خلافت کا فدائی احمدی سالار تھا
گلستانِ احمدیت کا تھا وہ اِک عندلیب
اس کے نغموں میں خدا کے عشق کا اظہار تھا
عمر ساری خدمتِ اسلام پر ہی وار دی
وہ خلافت کی محبت میں بڑا سرشار تھا
ہر کسی کو پیار سے ملنا وطیرہ اس کا تھا
وہ خلیق و مہرباں تھا اور خوش گفتار تھا
مَیں بھی اُن کے فیض سے پاتا رہا حصہ ہمیش
عجز کا پیکر تھا وہ اور صاحبِ کردار تھا