متفرق مضامین

اسرائیل میں احمدی

(جمیل احمد بٹ)

پاکستان میںختم نبوت کے نام پرسیاسی مفاد کے حصول کی جاری مہم کے تحت ایک ٹی وی پروگرام میں اظہارکا موقعہ پا کرمذہب کے نام پر سیاست کرنے والی ایک پارٹی کے عہدیدار نے اپنے در پردہ مفادات کی خاطراور احمدیوں کو زیادہ آسان ٹارگٹ جان کر انکشافات کے نام پر فرًاٹے سے خوب جھوٹ بولے۔منجملہ اس گھسے پٹے الزام کوبھی دہرایا کہ ’ اسرائیل کی فوج میں 800پاکستانی نژاد قادیانی شامل ہیں‘۔

*…جماعت احمدیہ فلسطین کے مقام کبابیر میں 1928ء میں قائم ہوئی جبکہ اسرائیل 1948ء میںبنا۔

*…یہ جماعت اول دن سے ہی تمام تر فلسطینی عربوں پر مشتمل تھی اور ہے۔

*… اسرائیل میںجماعت احمدیہ کے علاوہ دیگر مسلمان بھی شروع سے رہ رہے ہیں۔

*…یہ مضمون اسرائیل میں احمدیوں کی موجودگی سے متعلق حقائق کو یکجاکر نے کی ایک کوشش ہے۔جن سے واضح ہو جاتا ہے کہ اس حوالے سے جماعت مخالف پراپیگنڈہ بلا جواز اور خلاف ِ واقعہ ہے ۔

1۔سیاست کی راہ :

فلسطین میں احمدیہ مشن کے قیام کے 20 سال بعد اس بیشترعلاقے کو اسرائیل کا نام دیا گیا ۔پھر یہاں احمدیوں کی مسلسل موجودگی پر مزید پچیس سال گزرنے کے بعدپہلی بار احمدی مخالف لٹریچر میں ستّر کی دہائی میں اس حوالے سے الزام تراشیوں کا آ غاز ہوا ۔جس کا بظاہر پس منظر اس وقت پاکستان میںجاری احمدی مخالف تحریک کو ہوا دینا اور 1974ء کا اسمبلی کا فیصلہ تھا ۔یوں یہ الزام تراشی اسی طرح سیاسی اغراض کے تحت تھی جس طرح 1934ء میں سیاست کی راہ سے پہلی بار جماعت احمدیہ پر انگریزوں کا ایجنٹ ہونے کا الزام تراشا گیا تھا۔

یہ الزام لگانے والے بھی وہی افراد اور ان کے ہم نوا تھے۔شورش کاشمیری صاحب نے’ عجمی اسرائیل ‘ اور مولوی محمد یوسف لدھیانوی صاحب نے’ ربوہ سے تل ابیب تک‘ جیسے ڈرامائی عنوانات کے تحت ایسے کتابچے شائع کئے اور بکثرت پھیلائے جو جھوٹ کے سہارے محض خیال آرائی کے بل پرلا تعلق واقعات کو جوڑ کر اور الفاظ کو من مانے معنی پہنا کر ریت پر الزامات کی دیوار کھڑی کرنے کی بری مثال تھے۔ان میں سے ایک پر درج ذیل تبصرہ بجاطور پر دونوں پر صادق آتا ہے۔

’کسی گھٹیا جاسوسی ناول میں جو خصوصیات پائی جاسکتی ہیں وہ بدرجہ ء اتم اس رسالے میں جمع ہیں‘ ۔

(’ربوہ سے تل ابیب تک ‘ پر مختصر تبصرہ از صاحبزادہ مرزا طاہر احمدصاحب ۔شائع کردہ مکتبہ الفرقان ۔ربوہ ۔جون 1976ء)

ان رسالوں کے ساتھ اُردو اخبارات میں ہوائی خبریں اور مفید مطلب انٹرویو شائع کر کے بھی اس الزام کو ہوا دی گئی ۔

2۔بے بنیاد الزامات

اس الزام کو حسب ضرورت مخالف کتابوں میں اور ویب سائیٹس پر دہرایا جاتا ہے اور بہت رنگ آمیزی کے ساتھ یہ مغالطہ دینے کی کوشش کی جاتی ہے کہ

1۔ اس علاقہ میں احمدی مشن اسرائیل بننے کے بعد قائم ہوا ۔

2۔ وہاں موجود احمدی پاکستان سے گئے ہیں۔

3۔یہ پاکستانی احمدی اسرائیلی فوج میں بھی شامل ہیں ۔

یہ سب الزامات محض جھوٹ اور بے بنیاد ہیں اور حقائق ان کے بر عکس ہیںجیسا کے درج ذیل تفصیل سے ظاہر ہوگا۔

3۔ اسرائیل بننے سے 20سال پہلے سے احمدی فلسطین میں رہ رہے ہیں

جماعت احمدیہ شروع سے پیغام حق کو تمام دنیا میں پھیلانے کے لئے کوشاںہے۔ اس غرض سے جماعت کے بیرونی مشنز کا آغاز 1914ء میں لنڈن مشن سے ہوا۔ایک دہائی میں ان کی تعداد دس ہو گئی۔ 1915ء میں ماریشس میں،1920ء میں امریکہ ،1921ء میںغانا اورنائیجیریا،1922ءمیںمصر،1923ءمیںجرمنی،1924ء میں ایران ،1925ء میں جاوا و سماٹرا اور شام میں مشن قائم ہوئے ۔شام کا یہ مشن فلسطین میں مشن کے قیام کا پیش خیمہ ہوا ۔

فلسطین میں مشن کا قیام:

واقعات کے مطابق شام میں علماء کی انگیخت پر قابض فرانسیسی حکام نے دمشق میں احمدی مشنری حضرت مولانا جلال الدین شمس صاحب کو 24 گھنٹوں میں ملک چھوڑ دینے کا حکم دے دیا ۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ کے ارشاد پر حضرت مولانا شمس صاحب 17مارچ 1928ء کوفرانسیسی اقتدار سے باہر نزدیکی جگہ فلسطین کی بندرگاہ حیفا آگئے۔ آپ کا یہاں ورود فلسطین مشن کے آغاز کا باعث ہوا ۔آپ نے قریبی جبل الکرمل پر واقع کبابیر نامی قصبہ میں سکونت اختیار کی ۔اسی جگہ فلسطینیوں پر مشتمل پہلی احمدی جما عت قائم ہوئی۔جس نے تیزی سے ترقی کی اور تین سال میں پہلی احمدیہ مسجد تعمیر ہوگئی۔ایک مدرسہ قائم ہوا۔

نوری1935ء میں جماعت کے اپنے عربی ماہنامے البشریٰ کا آغاز ہو ا اور ایک پریس بھی قائم ہوگیا۔اللہ تعا لیٰ کے فضل کے تابع احمدی روایات کے عین مطابق جماعت جلد جلد بڑھی اور اگلے سالوں میں فلسطین بھر میں21 مقامات پر جماعتیں قائم ہوگئیں ۔

(خلاصہ از تاریخ احمدیت جلد 4۔ صفحہ 525۔528 اور587۔ از مولانا دوست محمد شاہد صاحب۔ نیا ایڈیشن)

اسرائیل کا بننا:

یہاں تک کہ 15 مئی 1948 ء کا وہ دن آیاجب امریکہ اور اس کے اتحا دیوں نے اقوام متحدہ کے ذریعے فلسطین کو دو حصوں میں تقسیم کر کے ایک نیا ملک اسرائیل قائم کردیا۔ جو بہت سارے عرب مسلم علاقے اس نئے ملک کا حصہ قرار دئے گئے ان میں حیفا بھی تھا ۔ فلسطین کی اس غیر منصفانہ تقسیم نے عرب آبادی کو بے انتہا مصائب سے دو چار کر دیا ۔ احمدی بھی اس کا شکار ہوئے اور کئی جگہوں کی جماعتوں کو اپنے گھر بار چھوڑ کر دمشق کی احمدی جماعت کے پاس پناہ لینے پر مجبور ہونا پڑا۔

بیس سالوں سے یہاں آباد جن احمدی گھرانوں کے لئے ان مشکلات کو برداشت کرتے ہوئے اپنی جگہوں پر رہنا ممکن ہوا اور انہوں نے نقلِ مکانی نہ کرنے کا فیصلہ کیا وہ اس نئے ملک کی ابتدائی احمدیہ جماعت ٹھہرے۔ ان احمدیوں کے معاشی استحکام کے لئے حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے یہ پیغام بھجوایا کہ ’کسی نہ کسی طرح کبابیر والوں کو اطلاع دیں کہ تنگی کے دن ہیں صبر سے گزار لیں اور کسی قیمت پر بھی کبابیر کی زمین یہود کے پاس فروخت نہ کریں‘۔

( تاریخ احمدیت جلد13۔ صفحہ 122۔ از مولانا دوست محمد شاہد صاحب۔مطبوعہ 1972ء)

اسرائیل کی آبادی:

نئے ملک میں رہنے کے اس فیصلہ میں یہ احمدی تنہا نہ تھے بلکہ علاقہ کی بہت ساری غیر یہودی آبادی بھی ان کی ہم خیال تھی ۔یہی وجہ ہے کہ انٹرنیٹ پر موجود اعداد و شمار کے مطابق اسرائیل کی2010ء میں تقریباََ78 لاکھ کی کل آبادی میں 24 فیصد غیر یہودی تھے جن میں سے 16فیصد مسلمان تھے یعنی تقریباََ 12 لاکھ۔ جب اتنی بڑی تعداد میں مسلمانوں کا اسرائیل میں رہنا روا ہے تو چند ہزار احمدیوں کی وہاں موجودگی کیوں کر وجہ اعتراض ہو سکتی ہے؟

اعتراض کی کوئی گنجائش نہیں:

اس پس منظرسے واضح ہو جاتا ہے کہ14؍ اگست 1947ء سے پہلے نہ پاکستان تھا اور نہ اسرائیل۔ اس وقت تک فلسطین میں احمدیوں کا ہونا غیر موجود پاکستان کے حوالے سے ہر گز جائے اعتراض نہیں ہو سکتا۔
اگلے چندمہینوںمیں فلسطین کی تقسیم کی مخالفت کا علم ایک احمدی حضرت چوہدری محمد ظفر اللہ خان صاحب کے ہاتھ میں رہااوربیشتر عرب دنیا اس خدمت پر ان کی شکر گزار رہی۔ اس وقت فلسطین میں حضرت چوہدری صاحب کے دینی بھایئوں کی موجودگی پر کسی کو اعتراض نہ تھا۔اسرائیل بننے کے بعد انہی احمدیوں کا اپنی جگہوں پر قیام کا تسلسل وہاں اب احمدیوں کی موجودگی کا سبب ہے جو کسی بھی جہت سے قابل اعتراض نہیںہو سکتا۔

4۔کوئی پاکستانی احمدی کبھی اسرائیل نہیں گیا

فلسطین میں مشن کا آغاز کرنے والے حضرت مولاناجلال الدین شمس صاحب اور ان کے بعدقیام پاکستان تک وہاں خدمات بجا لانے والے مربیان اس وقت جماعت کے مرکز قادیان سے جاتے رہے۔ ایسے آخری مربی مکرم مولانا رشید احمد چغتائی صاحب تھے جو 23؍ اکتوبر1946ءکو فلسطین گئے اور قضیہ فلسطین کے باعث پھیلنے والی ابتری کے سبب3مارچ 1948ء کو حیفا چھوڑنے پر مجبور ہوئے۔ مئی1948ء میں اسرائیل قائم ہوگیا ۔ پاکستان نے اسے تسلیم نہ کیا اور پاکستانی پاسپورٹ کبھی اسرائیل جانے کے لئے کارآمد نہیں رہا۔اس سبب سے کسی پاکستانی کا اسرائیل جانا نا ممکن ہے ۔ اور نہ کوئی احمدی پاکستان سے کبھی اسرائیل گیا ہے۔

5۔اسرائیلی فوج میں پاکستانی احمدی؟

با وجود اس حقیقت کہ کوئی پاکستانی اسرائیل نہیں جا سکتا یہ الزام تراشی بھی کی جاتی ہے کہ اسرائیلی فوج میں پاکستانی احمدی ہیں۔ ابتدا میں ان کی تعداد600 بتائی گئی جسے بعد میں اور بھی بڑھا کر بیان کیا گیا ۔ ایک حالیہ ٹی وی پروگرام میں یہ تعداد800کہی گئی ہے جیسا کہ شروع میں ذکر ہوا۔ یہ مضحکہ خیز الزام پہلی دفعہ29 ستمبر 1975ء کے اخبار نوائے وقت لاہورمیں شائع ہوا۔ جس میں لندن سے طبع ہونے والی کسی کتاب کے حوالے سے یہ دعو یٰ کیا گیا تھا کہ 1972ء تک اسرائیلی فوج میں600 پاکستانی قادیانی شامل ہو چکے تھے۔ اس الزام کی حقیقت اصل حوالہ دیکھنے سے کھل جاتی ہے ۔

کہانی کا ماخذ:

نوائے وقت کی خبر میں تو کوئی حوالہ نہیں دیا گیا لیکن تلاش پر معلوم ہوا کہ اس کتاب کا نام
PROFILE A ISRAEL – اور مصنف کا نام ISRAEL T- NAAMANI ہے اور اسے جنوری 1974ء میں Praeger Publisher نے نیو یارک سے شائع کیا ۔ اس کتاب کا ایک جملہ جس سے یہ کہانی بُنی گئی ہے ،یہ تھا :

‘Two other small non-Arab Muslim groups, the Circassians, who came in the nineteenth century from Russia and now number about 2000, and the Ahmadi sect of some 600 people from Pakistan can also serve in the army.’

ترجمہ : دوچھوٹے غیر عرب گروہ یعنی انیسویں صدی میں روس سے آئے ہوئے اندازاََ دو ہزار کا کیشین اورتقریبا ً 600 افراد پر مشتمل پاکستانی احمدی فرقہ بھی اسرائیل کی فوج میں خدمات بجا لا سکتا ہے۔
یہ کہنا تومشکل ہے کہ یہودی مصنف کا ا س تحریر میںفلسطینی احمدیوں کو غلط طور پر غیرعرب کہنا شرارتاً ہے ؟ لاعلمی ہے؟ یاان کے پاکستان میں واقع مرکز کے حوالے سے غلط فہمی؟ تا ہم جو بات با لکل واضح ہے وہ یہی ہے کہ اس نے ہرگز یہ نہیں کہا کہ یہ چھ سو احمدی فی الواقع اسرائیلی فوج میں شامل ہیں ۔بلکہ اپنے ملک میں دی گئی شہری آزادیوں کی تعریف کرتے ہوئے صرف اس امکان کا ذکر کیاہے کہ احمدی فرقہ کے لوگ بھی فوج میں خدمات بجا لا سکتے ہیں۔پس یہ وہ پَرہے جس پر مبالغہ آرائی کر کے ڈار بنائی گئی ہے۔

6۔اشاعت ِحق کے لئے کوشاں

اشاعتِ اسلام ہمیشہ جماعت احمدیہ کا مطمحِ نظر رہا ہے۔ نئے ملک اسرائیل میں بھی احمدی اس فریضہ کی ادائیگی میں مصروف رہے۔ ان کوششوں میں یہودیوں کو دعوتِ حق کے لئے عبرانی زبان میں ٹریکٹ کی اشاعت بھی شامل تھی۔مشکل حالات میں بھی یہ جذبہ قائم رہا۔ چنانچہ روزنامہ الفضل 12 جنوری 1950ء کی ایک رپورٹ کے مطابق 15؍اگست1948ء سے جون 1949ء تک سارے اصل اسرائیل میں صرف ہماری ’مسجد سیدنا محمود‘ سے ہی پانچ وقت اذان بلند ہوتی رہی۔

(بحوالہ تاریخِ احمدیت جلد 13 از مولانا دوست محمد شاہد صاحب صفحہ131 مطبوعہ1974ء)

پیغام حق کی اشاعت

دین کی اس لگن اور اللہ تعالیٰ کے فضل کے ساتھ جماعت مسلسل ترقی کرتی رہی ۔مقصدیت کی یہ لگن اس کی وجۂ امتیاز بنی رہی اور اسے اعلیٰ سطح پر قرآنی تعلیمات پہنچانے کے مواقع بھی حاصل ہوئے ۔ چنانچہ مقامی امیر جماعت مکرم محمد شریف عودہ صاحب کو حضرت خلیفۃُالمسیح الخامس ایداللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزکی رہنمائی میں 2008ء میں دو علیحدہ تقریبات میں اسرائیل کے دورے پر آئے ہوئے امریکی صدر جارج بش کو اور حیفا کا دورہ کرتے ہوئے اسرائیل کے صدر کو پیغامِ حق پہنچانے کا موقع ملا ۔ ان ملاقاتوں کا ملکی میڈیا پر ذکر ہوا۔ان کا حال خود مکرم عودہ صاحب نے ایک انٹرویومیں بیان کیا جو ہفت روزہ الفضل انٹر نیشنل لندن کی اشاعت 8؍کتوبر تا 14؍اکتوبر2010ء میں شائع ہوا ۔ اس کا مطالعہ عام دلچسپی کا باعث ہوگا ۔یہ اخبار ویب سائٹ www.alislam.org پر دستیاب ہے ۔

مزید الزام تراشی:

ان کوششوں کو بھی حسبِ سابق مزید اعترضات کا نشانہ بنایا گیا ۔22 جنوری2009ء کو روزنامہ اُمّت کراچی نے زیرِ عنوان’اسرائیلی حکومت نے قادیانی جماعت کی پشت پناہی شروع کر دی ‘ خوب کہانیاں گھڑیں۔ نیز لکھا:

’ ذرائع نے انکشاف کیا ہے کہ اسرائیل اور قادیانی جماعت کے درمیان ہونے والے رابطہ کے بعد مرزا مسرور کی ہدایت پر حیفہ شہر میںباقاعدہ قادیانی مرکز قائم کر دیا گیاہے‘۔

یہ مرکزجیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے 1928 ء میں قائم ہو اتھا۔ یعنی اسرائیل کے وجود میں آنے سے 20 سال پہلے اور ’ذرائع کے اس انکشاف‘ سے 60 سال پہلے۔

جھوٹ کو مزید بلوتے ہوئے یہ بھی لکھا کہ کسی ’ختم نبوت اکیڈمی لندن ‘ کے سربراہ نے اس اخبار کو بتایا کہ

’قادیانیوں اور اسرائیل کے یہودیوں کے درمیان خفیہ رابطے کی تصدیق ہو گئی ہے ‘ ۔

اس ساری کہانی میں حقیقت صرف اتنی ہی تھی کہ حیفا میں جما عت احمدیہ کی دعوت پر صیہونی صدر شمعون پریز نے ایک خصوصی تقریب میں شرکت کی تھی۔اس تقریب کے ذریعہ پیغامِ حق پہنچا نے کی تفصیل مکرم عودہ صاحب کے مذکورہ بالا انٹرویو میں موجود ہے۔

مزید ’انکشاف‘

اکتوبر2011ءمیںکراچی کے اخبار انصاف نے ایک بارپھر اس معا ملہ کو ہوا دی اور بڑی سُرخیوں کے ساتھ کسی عبدالرحمٰن نامی شخص کا انٹرویو شائع کیا۔ جس میں یہ انکشاف کیا گیا کہ ’اسرائیل میں قادیانی مرکز 1952 ء سے کام کر رہا ہے ‘ ۔نیز یہ کہ :

’قادیانی جماعت کے اسرائیل میں جتنے بھی پروگرام ہوتے ہیں ان کی کوریج سرکاری سطح پر کی جاتی ہے‘۔ ان دونوں باتوں کی اصل حقیقت کا اوپر ذکر ہو چُکا ہے۔

7۔تقسیمِ فلسطین کو روکنےکے لئے ایک احمدی کی غیر معمولی مساعی

حقائق کا یہ بیان نامکمل رہے گااگر اس حوالہ سے اس سعی کا بھی کُچھ بیان نہ ہو جائے۔ جس کا ملکی میڈیا پر کوئی ذکر نہیں ہوتابلکہ جسے اراداتاً عوام الناس سے پوشیدہ رکھا جاتا ہے۔ یہ وہ کوشش تھی جو فلسطین کی تقسیم کو روکنے کے لئےایک احمدی حضرت چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے اقوامِ متحدہ میں کی۔لیکن اس تفصیل میں جانے سے قبل دو واقعات کا ذکر اس تعلق میں درج ذیل ہے کہ فلسطینیوں سے ہمدردی کا اظہار احمدی روایت رہا ہے۔

فلسطینیوں سے ہمدردی کی احمدی روایت:

( i)۔14 ستمبر1929ء کو قادیان میں ایک غیر معمولی جلسہ ہوا جس میں مقررین نے بیان کیا کہ کس طرح پہلی جنگ عظیم کے نتیجہ میں بر طانوی حکومت سلطنت عثمانیہ کے چند علاقوں پر قابض ہوئی اور بعد میں ان کی آزادی کا تحریری معاہدہ کیا ۔ان میں فلسطین بھی شامل تھا ۔ لیکن پس پردہ اس نے یہودیوں کی ایک ایجنسی سے فلسطین میں یہودیوں کے لئے ایک قومی گھر بنانے کا خفیہ معاہدہ بھی کر رکھا تھا ۔جس کے تحت وہاں یہودیوں کو آباد کرنے اور مسلمانانِ فلسطین پر ظلم و زیادتی کا سلسلہ شروع کیا گیا۔ اجلاس میں ان مظالم پر احتجاج، فلسطینی مسلمانوں کے ساتھ اظہار ہمدردی اور انگریز حکومت کو ان مظالم کو روکنے کے لئے ریزولوشن پاس کئے گئے۔

(خلاصہ از تاریخ احمدیت جلد پنجم از مولانا دوست محمد شاہد صاحب صفحہ 150-149 نیا ایڈیشن۔ بحوالہ اخبار الفضل قادیان20 ستمبر 1929 ء)

(ii)۔ایسا ہی ایک اور اظہار اس وقت فیڈرل کورٹ کے جج چوہدری محمد ظفراللہ خان صاحب نے 27 جنوری 1946ء کو لاہور میں منعقدہ ایک تقریب میں کیا۔ اخبار انقلاب لاہور میں شائع شدہ اس تقریر کے خلاصہ کے مطابق آپ نے مسئلہ فلسطین کی وجہ انگریزی حکومت کا فلسطینیوں سے کئے گئے وعدہ کا پورا نہ کرنا قرار دیا ۔اور یہودی ریاست کے قیام کے مضمرات کے بیان میں یہ بات بھی کہی کہ اگر فلسطین میں یہودیوں کی ریاست قائم ہو گئی تو پھر وہ ہمسایہ عرب ممالک سے بھی علاقوں کا مطالبہ کریں گے۔

(خلاصہ از تاریخ احمدیت جلد نہم از مولانا دوست محمد شاہد صاحب صفحہ 714-712 نیا ایڈیشن)

یہ بات نوٹ کرنے کے لائق ہے کہ حضرت چوہدری صاحب کے اس اظہار کے وقت برِ صغیر پر ابھی انگریز حکمران تھے۔

سر محمد ظفراللہ خان کی پہلی تقریر :

حضرت چوہدری صاحب کو قائداعظم نے اقوامِ متحدہ میں نوزائیدہ مملکتِ پاکستان کی نمائندگی کے لئے مقرر کیا تھا۔مسئلہ فلسطین پر آپ نے پہلی تقریر 25 ستمبر 1947ء کو اس کمیٹی کے اجلاس میں کی جو اقوامِ متحدہ نے اس غرض سے مقرر کی تھی۔ اس تقریر کی تمام عرب دُنیا اور پاکستان میں بہت پذیرائی ہوئی ۔چند حوالے درج ذیل ہیں۔

(i)۔ روزنامہ نوائے وقت لاہور نے اپنی 12 ؍ اکتوبر 1947ء کی اشاعت میں اس بارے میں خبر کا یہ دُہرا عنوان لگایا:

’ فلسطین سے متعلق سر ظفراللہ کی تقریر سے دھوم مچ گئی‘۔

’ عرب لیڈروں کی طرف سے سر ظفر اللہ کو خراجِ تحسینـ ‘۔

خبر کے متن میں لکھا:

’سر محمد ظفراللہ خان رئیس الوفد پاکستان نے جو تقریر کی وہ ہر لحاظ سے افضل و اعلیٰ تھی ۔آپ تقریباً 175 منٹ بولتے رہے۔اس تقریر کا یہ اثر ہوا کہ جب آپ تقریر کر کے بیٹھے تو ایک عرب ترجمان نے تبصرہ کرتے کہا کہ:

’ فلسطین پر عربوں کے معاملے کے متعلق یہ ایک بہترین تقریر تھی۔ آج تک میں نے ایسی شاندار تقریر نہیں سُنی‘۔

’سر محمد ظفراللہ خان صاحب نے اپنی تقریر میں زیادہ زور تقسیم فلسطین کے خلاف دلائل دینے میں صَرف کیا۔ جب آپ تقریر کر رہے تھے تو مسرت اور ابتہاج سے عرب نمائندوں کے چہرے تمتما اُٹھے ۔ تقریر کے خاتمہ پر عرب ممالک کے منددبین نے آپ سے مصافحہ کیا اور ایسی شاندار تقریر کرنے پر مبارکباد پیش کی‘ ۔
(ii)۔امریکہ میں اس وقت پاکستان کے سفیر مرزا ابو الحسن اصفہانی صاحب نے جو پاکستانی وفد کے رکن بھی تھے قائد اعظم کے نام اپنے خط مورخہ 14؍اکتوبر 1947ء میں اس تقریر کو ‘best ever on the issue in UNO’قرار دیتے ہوئےلکھا ۔

(ترجمہ)’فلسطین کے مسئلہ پر ظفراللہ خان نے جو تقریر کی وہ اقوام متحدہ میں اس مسئلہ پر ہونے والی بہترین تقریر تھی‘ ۔

(Qaid-e-Azam Papers, 1st Oct – 31st Oct 1947, Vol VI, P 165, First
Edition, 2001, Published by Culture Division, Govt of Paksitan, Islamabad)

(iii)۔ اس تقریر کی تعریف اب تک جاری ہے ۔ 20 نومبر2011ء کو انگریزی اخبار دی نیوز کراچی میں سید افتخار مرشد صاحب نے اپنے مضمون میںلکھا:

‘Sir Zafarullah Khan’s speech on the Palestine problem in October 1947 at the UN General Assembly is said to be one of the most forceful ever made on the issue and prompted King Abdul Aziz al-Saud to write to him’.

(ترجمہ) ’اکتوبر 1947 ء میںاقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں مسئلہ فلسطین پر سر ظفراللہ خان کی تقریر اس موضوع پر کبھی بھی کی جانے والی بہترین تقریروں میں سے ایک ہے اور اسی سے متاثر ہو کر سعودی عرب کے بادشاہ عبدالعزیز السعودنے انہیں خط لکھا ‘۔

سر محمد ظفراللہ خان کی دوسری تقریر :

ایڈہاک کمیٹی کی رپورٹ پر غور کے لئے جنرل اسمبلی کے اجلاس میں یہ نظر آرہا تھا کہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے دبائو کے نتیجے میں بہت سے ممالک اپنی رائے کا آزادانہ استعمال نہیں کر سکیں گے اور اجلاس میں اپنی مرضی کا فیصلہ کرا لیا جائے گا ۔ایسے میں 28 نومبر 1947ء کو حضرت چوہدری صاحب نے اقوام ِ متحدہ کی جنرل اسمبلی کے اجلاس کو مخاطب کیا ۔ گزشتہ تقریرکی مانند یہ تقریر بھی سچائی کے دبنگ اظہار ،معاملہ کے تمام پہلوئوں کا گہری نظر سے جائزہ ،منطقی نتائج اور فلسطین کو تقسیم نہ کرنے کے نا قابل تردیددلائل کے ساتھ انصاف کی ایک درد مندانہ پکار کا ایک حسین امتزاج تھی ۔اگر انصاف مدّنظر ہوتا اور اگر امریکہ اپنے منصوبہ پر عمل درآمد کرنے کا پہلے سے فیصلہ نہ کر چکا ہوتا تو یہ تقریراس تقسیم کو روکنے کے لئے کافی ہوتی ۔پوری تقریر پڑھے جانے کے لائق ہے۔ 19 صفحات پر مشتمل یہ تقریر اقوام متحدہ کی ویب سایٹ پر موجود ہے۔

نمو نۃًچند جملے اور ان کا ترجمہ درج ذیل ہے۔

*’This is a solmn moment, solemn in the history of the world,’
*’The United Nations is today on trial. The world is watching and will see how it acquits itself’

‘Remember, nations of the West, that you may need friends tomorrow, that you may need allies in the Middle East.’ ۔‘Having cut Palestine up in that manner- – – Palestine shall never belong to its people; it shall always be stretched upon the cross.’

*’What asuthority has the United Nations to do this? what legal authority, what juridical authority has it to do this?’

ؔ ٭’یہ ایک اہم لمحہ ہے ، دنیا کی تاریخ کا ایک اہم لمحہ‘۔

٭’آج اقوام متحدہ کٹہرے میں کھڑی ہے اور دنیا دیکھ رہی ہے کہ یہ سرخرو ہو کر نکلتی ہے کہ نہیں‘۔
٭ ’اے مغربی اقوام یاد رکھو شاید کل تمہیںمشرق وسطیٰ میںدوستوں اوراتحادیوںکی ضرورت پڑے‘۔

٭’ فلسطین کواس طرح ٹکڑے کردینے سے پھر یہ کبھی بھی اپنے باشندوں کی مملکت نہیں بن سکے گا ۔یہ ہمیشہ کے لئے مصلوب رہے گا‘۔

٭’ اقوام متحدہ کوایسا کرنے کا کیا اختیار ہے؟ اسے یہ قدم اُٹھانے کا کونسا جائز، کون سا قانونی حق حاصل ہے؟‘۔

تقسیم کے فیصلے پر آپ کا انتباہ:

جس دن جنرل اسمبلی میں رائے شماری کی بنیاد پر فلسطین کو تقسیم کردینے کا فیصلہ ہوا۔حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک بیان میں، جو پاکستانی وفدکے سیکریٹری نے اسمبلی میں پڑھ کر سنایا، اس فیصلہ کے ذمہ دارطاقتور ممالک کوجن الفاظ میں متنبّہ کیا ،یہ اقوام متحدہ کی ویب سائٹ پر موجود آپ کے بیان سے ظاہر ہے ۔ اس کے چند جملے اور ان کا اُردو ترجمہ درج ذیل ہے۔

‘A fateful decision is taken
‘Empires rise and fall. History tells of the empires of the Babylonians, the Egyptians, the Greeks and the Romans, the Arabs, the Persians and the Spaniards. Today, most of the talk is about the Americans and the Russians. The Holy Koran says: We shall see the periods of rise and fall as between nations, and that cycle draws attention to the universal law. What endures on earth is which is beneficient for God’s creatures- – -‘

‘We must fear that the beneficiaries, if any, to which partition may lead will be small in comparision to the mischief which it mght inaugrate. It totally lacks legal validity- -‘

ترجمہ:

’ایک ایسا فیصلہ کیا گیا ہے جس کے خوفناک نتائج نکلیں گے‘۔

’سلطنتیں عروج پاتی ہیں اور ان کا زوال بھی ہوتا ہے۔ہمیں تاریخ میں اہلِ بابل، مصریوں ، یونانیوں ، رومیوں ،عربوں ،اہلِ فارس اور ہسپانیہ کی سلطنتوں کا ذکرملتاہے۔آج کل زیادہ تر ذکر امریکیوں اور روسیوںکا ہو رہا ہے۔قرآن مجید فرماتا ہے کہ ہم’ اقوام کے درمیان ترقی اور تنزّل کے ادوار دیکھیں گے‘۔اور یہ گر دش ہمیں اسی آفاقی قانون کی طرف متوجہ کرتی ہے کہ زمین پر اسی کو ثبات ملتا ہے جو خدا کی مخلوق کے لئے نفع بخش ہو۔۔۔۔‘

*’ ہمیں اس بات کا سخت اندیشہ ہے کہ اگر اس تقسیم سے کوئی فائدہ ہوا بھی تو وہ اس کے نتیجے میں ظاہر ہونے والے فساد کے مقابلے میں بہت معمولی ہوگا کہ یہ فیصلہ کسی بھی قانونی جوازسے کلیتاً عاری ہے۔۔۔‘

8۔قیام اسرائیل پر حضرت امام جماعت احمدیہ کی رہنمائی:

14 مئی 1948 ء کو اسرائیل کے قیام کا اعلان ہوا۔ اس وقت حضرت مصلح موعودؓ نے اس واقعہ پر دکھے دل کے ساتھ حقیقی مو منانہ جذبات کا اظہار کیا۔ان بیانات کے بر عکس جو عام طور پر ایسے مواقع پر ہمدردی اور مذمّت کے اظہار سے اپنا حلقۂ اثر بڑھانے کے لئے سیاست کار کیا کرتے ہیں۔ آپ کے اس مضمون کا لفظ لفظ دینِ اسلام سے محبت اور اس کی عظمت کیلئے تڑپ ، مومنین کی فلاح و بہبود کے لئے امڈتے جذبات ، کفار کے حملوں کے خلاف اتحاد کی ضرورت اور موثّرمدافعت کے لئے بہترین ، روشن اور قابل عمل رہنمائی سے بھر پور ہے۔یہ مضمون اَلْکُفْرُ مِلَّۃٌ وَّاحِدَۃٌ کے عنوان کے تحت روزنامہ الفضل کے 31 مئی 1948 ء کے شمارے میں شائع ہوا۔اس مضمون کے چند جملے درج ذیل ہیں۔

’ سوال فلسطین کا نہیں ، سوال مدینہ کا ہے۔ سوال یروشلم کا نہیں سوال خود مکّہ مکرمہ کا ہے ۔سوال زید اور بکر کا نہیں سوال خود محمد رسولﷺ کی عزت کا ہے۔دشمن باوجود اپنی مخالفتوں کے اسلام کے مقابل پر اکھٹا ہوگیا ہے۔ کیا مسلمان ہزاروں اتحاد کی وجوہات کے اس موقع پر اکھٹا نہ ہوگا۔ہمارے لئے یہ سو چنے کا موقع آگیا ہے کہ کیا ہم کو الگ الگ اور باری باری مرنا چاہئے یا اکھٹے ہوکر فتح کے لئے کافی جدو جہد کرنی چاہئے‘۔

٭’ہمیں چاہئے کہ اپنے عمل سے، اپنی قربانیوں سے، اپنے اتحاد سے، اپنی دعائوں سے، اپنی گریہ وزاری سے۔… فلسطین پر دوبارہ محمد رسول اللہ ﷺ کی حکومت کے زمانہ کو قریب سے قریب تر کردیں‘۔

9 ۔حرفِ آخر:

مندجہ بالا حقائق صورتحال کی مکمل وضاحت کے ساتھ پورے طور پر یہ ثابت کردیتے ہیںکہ اسرائیل میں احمدیوں کی موجودگی کے حوالے سے لگائے جانے والے تمام الزامات غلط اور خلاف واقعہ ہیں۔قرآن کریم نے جھوٹ بولنے سے بار بار منع فر مایا ہے حتیٰ کہ بتوں کی پلیدی اور جھوٹ سے بچنے کا حکم ایک ساتھ دیا ہے:

فَاجْتَنِبُوْا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ(حج31:)ترجمہ: پس بتوں کی پلیدی سے احتراز کرو اور جھوٹ کہنے سے بچو۔

اور جھوٹوں پرشیاطین کے اترنے کی خبر دی جیسا کہ فرمایا:ھَلْ اُنَبِّئُکُمْ عَلٰی مَنْ تَنَزَّلُ الشَّیٰطِیْنُ۔ تَنَزَّلُ عَلٰی کُلِ اَفَّاکٍ اَثِیْمٍ۔ (شعراء222:-223) ترجمہ: کیا تمہیں اس کی خبر دوں جس پر شیاطین اتر تے ہیں وہ ہرپکّے جھوٹے اور سخت گناہ گار پر بکثرت اترتے ہیں۔

اسی لئے جھوٹ کا کوئی جواب بجز اس کے اور کچھ نہیںکہ:ثُمَّ نَبْتَھِلْ فَنَجْعَلْ لَعْنَتَ اللہِ عَلَی الْکٰذِبِیْنَ(آل عمران62:)

ترجمہ: آؤ ہم جھوٹوں پر اللہ کی لعنت ڈالیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button