میدان نعتِ رسول مقبولﷺ اور اس کے سر خیل۔ سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام (تیسری و آخری قسط )
نعت گوئی اور زبان اردو
برصغیر میں اسلام کی آمد کے بعد صوفیا و مشائخ نے تبلیغِ دین کا فرض ادا کیا ۔ مسلمان حضور اکرم ﷺ سے والہانہ محبت رکھتے تھے۔ اس والہانہ محبت و عقیدت کا منطقی نتیجہ شعر و سخن کی صورت میں برآمد ہوا۔ان صوفیا و مشائخ میں سے اکثر مثلاً نظام الدین اولیا ، امیر خسرو وغیرہ قادرالکلام شعراءتھے۔سو انہوں نےنعت گوئی کو اصلاح و تربیتِ اُمّت کے لئے ایک ممد و معاون ذریعہ سمجھا۔اور فارسی، ہندی اور اردو زبان میں مذہبی کلام کہے اور انہیں عوام الناس میں رواج دیا ۔ برصغیر میں نعت گوئی مدحت سرائی رسول ﷺسےبڑھ کر ذریعہ تعلیم وتربیتِ اُمّت، اصلاح احوال اور ایک پیغام کی صورت اختیار کر گئی۔
ڈاکٹر محمد حسین مشاہد رضوی نعت کا معنیٰ و مفہوم بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’نعت کے معنی و مفہوم اور تعریف و توصیف میں یہی کہنا منا سب معلوم ہوتا ہے کہ ہر وہ ادب پارہ جس میں حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر ہو، مدح ہو، ثنا ہو، تعریف وتوصیف ہو، سراپا کا بیان ہو، شبیہ و شمائلِ اقدس کی لفظی تصویر کشی ہو، عادات واخلا ق کا بیان ہو، فضائل ومحاسن جمیلہ کا اظہار ہو، حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب ہو، آ پ سے استغاثہ وفریاد ہو، عقیدت ومحبت کے جذبات کی ترجمانی ہو، مقصد وبعثتِ نبوت کا تذکرۂ خیر ہویاذات رسالت مآ ب صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر جمیل ہو۔ الغرض ہر وہ ادبی کاوش جو اپنے قاری یاسامع کو مصطفیٰ جان رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف متوجہ کرے اور قرب کا احساس پیدا کرے چاہے وہ نثری ہو یا نظمی بلاشبہ’’نعت‘‘ہے۔‘‘
http://faroghenat.org/index.php?threads/63
نعت کی تعریف: لغوی اور اصطلاحی مفہوم
شاہ معین الدین ندوی نعت لکھنے کے بارہ میں ایک بنیادی نقطہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’نعت کہنا آسان بھی ہے اور مشکل بھی۔محض شاعری کی زبان میں ذات ِپاک نبی صلعم کی عامیانہ توصیف کر دینا بہت آسان ہے، لیکن اس کے پورے لوازم و شرائط سے عہدہ بر آہونا بہت مشکل ہے۔ حُبِ رسول صلعم کے ساتھ نبوت کے اصلی کمالات اور کارناموں، اسلام کی صحیح روح، عہد ِرسالت کے واقعات اور آیات و احادیث سے واقفیت ضروری ہے، جو کم شعراءکو ہوتی ہے ۔ اس کے بغیر صحیح نعت گوئی ممکن نہیں۔ نعت کا رشتہ بہت نازک ہے ۔ اس میں ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد ،گناہ لازم آجاتا ہے ۔ اس پُل ِصراط کو عبور کرنا ہر شاعر کے بس کی بات نہیں۔ یہ وہ بارگاہ اقدس ہے جہاں بڑے بڑے قدسیوں کے پاؤں لرز جاتے ہیں‘‘۔
ان دو قابل ذکر علماء نے اردو زبان میں نعت گوئی کے معیار، آپ کی مدح و ثنا، شبیہ و شمائلِ اقدس کی لفظی تصویر ، عادات واخلا ق کا بیان، فضائل ومحاسن جمیلہ کا اظہار، حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب، آ پ سے استغاثہ وفریاد، عقیدت ومحبت کے جذبات کی ترجمانی، مقصد وبعثتِ نبوت کا تذکرہ جیسےلوازم و شرائط، حضور ﷺ کے کمالات، اسلام کی روح،عہد ِرسالت کے واقعات، آیات و احادیث سے واقفیت ،نعت کا رشتہ کی نزاکت اور اس میں نہ صرف ادنیٰ سی لغزش سے نیکی برباد ،گناہ لازم قرار دیا۔ بلکہ اس کو پُل ِصراط کی طرح قرار دیا۔ گویا ہمارے غیروں کے نزدیک ایک نعت میں یہ تمام یا ان میں سے بعض لوازم ہونے ضروری ہیں۔
اب ذیل میں بعض مشہور و معروف نعت گو شعراء کی نعتوں کا ذکر کیا جائے گا اور پھر آنحضرت ﷺکے عاشق صادق علیہ السلام کی محبت سے بھری نعتوں کا ذکر کر کے یہ جائزہ لیا جائے گا کہ کس نے ان تمام لوازمِ نعت کو اپنے کلام میں کس قدر بیان کیا اور کون اس میدان کا صحیح معنیٰ میں سر خیل کہلا سکتا ہے۔
اس سے پہلے کہ ان نعتوں کا تقابلی جائزہ لیا جائے، ضروری معلوم ہوتا ہے کہ اس مقالہ کے لکھنے کے باعث کا ذکر کیا جائے۔ کچھ عرصہ قبل ایک نجی ٹی وی چینل پر ربیع الاول کی مناسبت سے نعتیہ مقابلے چل رہے تھے کہ ایک مشہور نعت خوان جناب حاجی صدیق صاحب نے ایک بچے کی نعت پر تبصرہ کیا کہ ’’آپ کو پتہ ہے کہ یہ نعت اعلیٰ حضرت احمد خان رضا بریلوی کی ہے، اور یہ نعت بلا شبہ امام الکلام ہے۔‘‘
اس تبصرہ کو سننے کے بعد سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بے نظیر نعتیں اور قصائد کانوں میں گونجنے لگے۔ کہیں سے یا عین فیض اللہ کی صدا آئی اور کہیں سے’’ اگر خواہی دلیلے عاشقش باش‘‘کی آواز سننے کو ملی۔ کبھی’’ من کلّ آن من سناہ انوّر کی خوبصورت بازگشت سنائی دی۔اور کہیں کوئی ’’کیا ہی پیارا یہ نام احمد ہے‘‘۔گنگناتا ہوا محسوس ہوا۔ دل بھی بے قرار ہوا کہ جس کو خدا نے اس زمانے کا امام بنایا تو پھر اُسی کا کلام امام الکلام ہو سکتا ہے دوسرا اس کا کیونکر دعویٰ کرے۔ پھر سوچا کچھ باتوں کو اکٹھا کر کے کلام کا جائزہ لیا جائے۔ وباللہ التوفیق!
جیسا کہ پہلے نعت کے لوازم سے متعلق بعض علماء کے اقوال درج کئے گئے تھے اور ان علماء نے نعت کے لوازم میںفضائل ومحاسن جمیلہ کا اظہار، حضورصلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب، آ پ سے استغاثہ وفریاد، عقیدت ومحبت کے جذبات کی ترجمانی، مقصد وبعثتِ نبوت کا تذکرہ ، حضور ﷺ کے کمالات اور اسلام کی روح وغیرہ جیسےلوازم و شرائط کا ذکر کیا تھا۔ یہ تمام لوازم اپنی معراجی کیفیت میں ہمیں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی ایک لا جواب نعت میں ملتے ہیں،
آپؑ فرماتے ہیں:
ہر طرف فکر کو دوڑا کے تھکایا ہم نے
کوئی دیں دین محمدؐ سا نہ پایا ہم نے
کوئی مذہب نہیں ایسا کہ نشاں دکھلاوے
یہ ثمر باغ محمدؐ ~ سے ہی کھایا ہم نے
آج ان نوروں کا اک زور ہے اس عاجز میں
دل کو ان نوروں کا ہر رنگ دلایا ہم نے
جب سے یہ نور ملا نور پیمبرؐ سے ہمیں
ذات سے حق کی وجود اپنا ملایا ہم نے
مصطفیٰ ؐپر ترا بے حد ہو سلام اور رحمت
اس سے یہ نور لیا بارِ خدایا ہم نے
ربط ہے جان محمدؐ سے مری جاں کو مدام
دل کو وہ جام لبالب ہے پلایا ہم نے
اس سے بہتر نظر آیا نہ کوئی عالم میں
لاجرم غیروں سے دل اپنا چھڑایا ہم نے
تیرے منہ کی ہی قسم میرے پیارے احمدؐ
تیری خاطر سے یہ سب بار اٹھایا ہم نے
تیری الفت سے ہے معمور مرا ہر ذرّہ
اپنے سینہ میں یہ اک شہر بسایا ہم نے
تیرا مَے خانہ جو اک مرجع عالم دیکھا
خم کا خم منہ سے بصد حرص لگایا ہم نے
شان حق تیرے شمائل میں نظر آتی ہے
تیرے پانے سے ہی اُس ذات کو پایا ہم نے
ہم ہوئے خیر اُمم تجھ سے ہی اے خیر رسلؐ
تیرے بڑھنے سے قدم آگے بڑھایا ہم نے
آدمی زاد تو کیا چیز فرشتے بھی تمام
مدح میں تیری وہ گاتے ہیں جو گایا ہم نے
(روحانی خزائن، کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن: جلد 5- آئینہ کمالات اسلام: صفحہ 224 تا 226)
اس معرکۃ الآراء نعت کے بعد آئیے بعض علماء کی نعتوں میں سے چنیدہ کا تذکرہ کریں جن کے کہنے والوں کے ساتھ ساتھ ان نعتوں کا بھی بہت شہرہ ہے۔
ذیل میں مولوی مصطفی رضا نوری بریلوی کی ایک نعت دی جاتی ہے اور یہاں اس کا مقصود ایک تقابلی جائزہ ہے ۔یہ تقابلی جائزہ قاری پر موقوف ہو گا۔ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی بیان کردہ نظم اور جناب مصطفیٰ بریلوی صاحب کی نعت میں ’’لوازمِ نعت‘‘ کا جائزہ لیں۔ اس جائزہ میں تشبیہ و کنارہ اور تلمیح و استعارہ کو بھی پیش نظر رکھا جائے تا معلوم ہو کہ کس کی نعت سند کا درجہ رکھتی ہے۔
قفسِ جسم سے چھٹتے ہی یہ پرّاں ہوگا
مرغِ جاں گنبدِ خضرا پہ غزل خواں ہوگا
روز و شب مرقدِ اقدس کا جو نگراں ہوگا
اپنی خوش بختی پہ وہ کتنا نہ نازاں ہوگا
اس کی قسمت کی قسم کھائیں فرشتے تو بجا
عید کی طرح وہ ہر آن میں شاداں ہوگا
اس کی فرحت پہ تصدق ہوں ہزاروں عیدیں
کب کسی عید میں ایسا کوئی فرحاں ہوگا
چمنِ طیبہ میں تو دل کی کلی کھلتی ہے
کیا مدینہ سے سوا روضۂ رضواں ہوگا
آپ آجائیں چمن میں تو چمن جانِ چمن
خاصہ اک خاک بسر دشتِ مغیلاں ہوگا
جانِ ایماں ہے محبت تری جانِ جاناں
جس کے دل میں یہ نہیں خاک مسلماں ہوگا
دردِ فرقت کا مداوا نہ ہوا اور نہ ہو
کیا طبیبوں سے مرے درد کا درماں ہوگا
نورِ ایماں کی جو مشعل رہے روشن پھر
توروز و شب مرقدِ نوریؔ میں چراغاں ہوگا
اک غزل اور چمکتی سی پڑھو اے نوری
دل جلا پائے گا میرا ترا احساں ہوگا
دیگر لوازمِ نعت میں آپﷺ کی مدح و ثنا، شبیہ و شمائلِ اقدس کی لفظی تصویر اور عادات واخلا ق کا بیان شامل ہیں۔ ان کا زبردست اظہار حضور علیہ السلام کی ایک اور نظم کے بعض خوبصورت نعتیہ اشعار کچھ یوں ہیں:
وہ پیشوا ہمارا جس سے ہے نُور سارا
نام اُس کا ہے محمدؐ دلبر مرا یہی ہے
سب پاک ہیں پیمبر اِک دوسرے سے بہتر
لیک از خدائے برتر خیرالوریٰ یہی ہے
پہلوں سے خوب تر ہے خوبی میں اِک قمر ہے
اُس پر ہر ایک نظر ہے بدرالدّجیٰ یہی ہے
پہلے تو رہ میں ہارے پار اس نے ہیں اُتارے
مَیں جاؤں اس کے وارے بس ناخدا یہی ہے
پَردے جو تھے ہٹائے اندر کی رہ دکھائے
دِل یار سے ملائے وہ آشنا یہی ہے
وہ یارِ لامکانی ۔ وہ دلبرِ نہانی
دیکھا ہے ہم نے اُس سے بس رہنما یہی ہے
وہ آج شاہِ دیں ہے وہ تاجِ مرسلیں ہے
وہ طیّب و امیں ہے اُس کی ثنا یہی ہے
حق سے جو حکم آئے اُس نے وہ کر دکھائے
جو راز تھے بتائے نعم العطا یہی ہے
آنکھ اُس کی دُوربیں ہے دِل یار سے قریں ہے
ہاتھوں میں شمع دیں ہے عین الضیا یہی ہے
جو راز دیں تھے بھارے اُس نے بتائے
سارے دولت کا دینے والا فرماں روا یہی ہے
اُس نُور پر فدا ہوں اُس کا ہی مَیں ہوا ہوں
وہ ہے مَیں چیز کیا ہوں بس فیصلہ یہی ہے
وہ دلبرِ یگانہ علموں کا ہے خزانہ
باقی ہے سب فسانہ سچ بے خطا یہی ہے
سب ہم نے اُس سے پایا شاہد ہے تُو خدایا
وہ جس نے حق دکھایا وہ مَہ لقا یہی ہے
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن: جلد 20- تجلّیات الٰہیہ: صفحہ 456)
گو یہ انتخاب ایک طویل نظم میں سے ہے مگر پھر بھی دیکھئے حضور علیہ السلام نے ’’پیشوا‘‘ سے ’’مہ لقا‘‘ تک کا سفر کمال خوبصورتی اور زبردست فصاحت سے کیا۔ پہلے پہل ایک مبتدی کو حضور ﷺ ’’پیشوا‘‘ کی حیثیت میں نظر آتے ہیں مگر جب عرفانی محبت اپنے ارتقائی معراج کی طرف سبک روی سے گامزن ہوتی ہے تو وہ’’پیشوا‘‘ ’’مہ لقا‘‘ نظر آتا ہے۔
اب جناب نوری بریلوی کی ہی ایک اور نعت شامل کروں گا جس کا ایک سرسری جائزہ اوپر والے کلامِ امامؑ سے بآسانی کیا جا سکتا ہے۔
بہ خطِ نور اس در پر لکھا ہے
یہ بابِ رحمتِ ربِّ عُلا ہے
سر خیرہ جو اس در پر جھکا ہے
ادا ہے عمر بھر کی جو قضا ہے
مقابل در کے یوں کعبہ بنا ہے
یہ قبلہ ہے تو تُو ، قبلہ نما ہے
یہاں سے کب کوئی خالی پھرا ہے
سخی داتا کی یہ دولت سرا ہے
جسے جو کچھ ملا جس سے ملا ہے
حقیقت میں وہ اس در کی عطا ہے
یہاں سے بھیک پاتے ہیں سلاطیں
اسی در سے انہیں ٹکڑا ملا ہے
شبِ معراج سے ظاہر ہوا ہے
رسل ہیں مقتدی تو مقتدا ہے
خدائی کو خدا نے جو دیا ہے
اسی در سے اسی گھر سے ملا ہے
شہ عرش آستاں اللہ اللہ!
تصور سے خدا یاد آرہا ہے
یہ وہ محبوبِ حق ہے جس کی رؤیت
یقیں مانو کہ دیدارِ خدا ہے
رمی جس کی رمی ٹھہری خدا کی
کتاب اللہ میں اللہ رمیٰ ہے
مَے محبوب سے سرشار کردے
اویسِ قرَنی کو جیسا کیا ہے
گما دے اپنی الفت میں کچھ ایسا
نہ پاؤں مَیں میں مَیں جو بے بقا ہے
عطا فرما دے ساقی جامِ نوریؔ
لبالب جو چہتوں کو دیا ہے
یہ نعت جناب نوری بریلوی کی بہت معروف نعتوں میں سے ہے۔
ایک جگہ اپنے اخلاص سے بھرپور غیر متزلزل ایمان و اعتقاد کا تذکرہ کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا:
ہم تو رکھتے ہیں مسلمانوں کا دیں
دل سے ہیں خدّام ختم المرسلیں
شرک اور بدعت سے ہم بیزار ہیں
خاکِ راہِ احمدؐ مختار ہیں
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن: جلد 3- اِزالہ اوہام: صفحہ 514)
ایک جگہ فرمایا:
زندگی بخش جامِ احمدؐ ہے
کیا ہی پیارا یہ نامِ احمدؐ ہے
لاکھ ہوں انبیاء مگر بخدا
سب سے بڑھ کر مقامِ احمدؐ ہے
باغِ احمد سے ہم نے پھل کھایا
میرا بستاں کلامِ احمد ہے
ابنِ مریمؑ کے ذکر کو چھوڑو
اُس سے بہتر غُلامِ احمدؐ ہے
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن: جلد 18- دافَعُ البَلاَ ءِ وَ مِعیَارُ اھلِ الا صطِفَاءَ: صفحہ 240)
جناب شیخ سعدی علیہ الرحمہ نے جب اپنی مشہور زمانہ نعتیہ رباعی لکھی تو صرف تین مصرعے ہی لکھ پائے۔ چوتھا بنائے نہ بنتا تھا۔ رات کو سوئے اور خواب میں حضرت رسول اللہ ﷺ کی زیارت نصیب ہوئی۔ حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ جو مصرعے لکھے ہیں وہ سناؤ!
سعدی نے تینوں مصرعے سنائے اور خاموش ہو گئے ۔ آ پ ﷺ نے فرمایا : اس رباعی میں’’صلو اعلیہ و آلہٖ‘‘ بڑھا لو۔ اور ایسے یہ نعتیہ رباعی مکمل ہو گئی۔
بلغ العلیٰ بکمالہ
کشف الدجیٰ بجمالہ
حسنت جمیع خصالہ
صلوا علیہ و آلہٖ
امر واقعہ یہ ہے کہ جو مدحت رسول وحی و الہام کے پانی سے سیراب نہ ہو وہ اس مدحت کا مقابلہ کر ہی نہیں سکتی جو وحی و الہام کے تازہ بتازہ پانی سے سرفراز ہوتی ہے۔ اس لئے امام الکلام صرف اور صرف کلام الامام (وہ امام جو خدائے بزرگ و برتر سے تائید یافتہ ہے) ہی ہو سکتا ہے۔ وہ کلام مبارک ہوتا ہے ۔ اس میں نہ افراط کی کوئی گنجائش ہوتی ہے نہ تفریط کا خوف۔ نہ وہ کلام شرقی ہوتا ہے اور نہ ہی غربی۔ وہ روحانی پھلوں سے مالا مال درخت کی صورت ہوتا ہے جو اللہ کے حکم سے اپنے پھل ہمہ وقت بہم دیتا ہے۔
نعت کے لکھنے والے علماء و شعراء نے نعت گوئی کے بعض اصول بیان کئے ہیں اور بعض خدشوں کا ذکر بھی کیا۔ اب دیکھیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہم احمدی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے ماننے والے ہیں اور آپؑ کو حکم و عدل بنا کے بھیجا گیا۔ آپؑ نے اپنے کلام اور اپنی تعلیمات سے جماعت کی ایسے رنگ میں تربیت کی ہے کہ ہمیں نہ ہی ان خدشات کی پرواہ ہوتی ہے اور نہ ہی کسی تکلّف کی۔ کیونکہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے اسلام کی سچی تعلیم سے روشناس کروایا جس میں نہ تو افراط تھا نہ تفریط، نہ لوچ تھا اور نہ مبالغہ آرائی، نہ فرقہ پرستی تھی اور نہ ہی کسی خاص مکتبہ فکر کی ترجمانی کی کوشش۔
بہر حال اب ان باتوں کا ذکر کرتا ہوں جو کہ علماء و شعراء نے نعت گوئی کے لئے ضروری قرار دی ہیں۔یہ ماخوذ اصول مختلف جگہوں سے اکھٹےکئے گئے ہیں:۔
أ. افراط و تفریط سے بچیں ۔
ب. صرف وہ مضامین باندھے جائیں جو کتبِ سیر سے ثابت ہیں اوربغیر کسی مخالفت کے قبولِ عام رکھتے ہیں اور جن سے رسولِ گرامی قدر کی محبت و عقیدت دلوں میں بڑھنے کی راہیں کھلتی ہوں۔
ج. ان مضامین سے پرہیز لازم ہے جن سے کسی خاص طبقے کے عقائد کا پرچارہوتا ہو۔ خاص طور پر متصادم خیالات و روایات سے بچنا ضروری ہے۔
د. نعت کو صرف ذکرِ فضائلِ رسالت مآب ہی تک محدود رکھا جائے ۔ یہ امر اس لئے بھی ضروری ہے کہ میں دیکھ رہاہوں کہ اس امر میں احتیاط نہ برتی گئی تو بہت جلد نعت بھی ہماری اور تمہاری ہوتے ہوتے فرقہ واریت کا شکار ہوجائے گی ۔ لہٰذا اس امر کا اہتمام وقت کی اشد ضرورت ہے کہ نہ شعرا اہلِ بیتِ عظام کے مناقب نعت میں رقم کریں نہ ہی اصحابِ ثلاثہ کے فضائل موضوع بنائے جائیں۔
ه. ان روایات کو نظم نہ کیا جائے جو ایک خاص مکتبِ فکر کی ترجمانی کرتی ہوں ۔ احباب بخوبی جانتے ہیں کہ میرا اشارہ کن روایات و واقعات کی طرف ہے ۔ مجھے واقعات کی صحت سے بحث نہیں ہے، وہ سب کچھ تاریخ کے صفحات میں محفوظ ہے۔ پیشِ نظرصرف ایک مقصد ہے اور وہ یہ کہ نعت کو تقسیم ہونے سے بچا لیا جائے ۔
و. ایسے مضامین جن سے شرک کا شبہ ہوتا ہو، ان سے بھی بچنا چاہئے۔
ز. بے جا غلو بھی نازیبا ہے
ح. اکثر دیکھا گیا ہے کہ شعراء انبیاء ماسبق کی روایات یا سیرتِ حضورِ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے واقعات بطور تلمیح رقم کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ دو مصارع میں کسی اہم واقعہ کی طرف اشارہ کرنا اور ذاتِ ختمی مرتبت کے مقامِ عالیہ کا تعین بھی کرنا ایک مشکل امر بن جاتا ہے اور بہت زیادہ مشق و مطالعہ کا متقاضی ہے ۔
ط. جس طرح غزل یانظم کا شاعراپنی ذاتی واردات ، اپنے زمانے کے واقعات وحادثات اورماضی کی روایات کے آمیزہ سے مضامین کسب کرتا ہے۔ اسی طرح نعت کے شاعر کے لئے بھی ضروری ہے کہ اپنی وارداتِ قلبی رقم کرے، اپنے گردوپیش سے بھی واقف رہے اور نعت کی روایت سے بھی جڑا رہے ۔
ي. من گھڑت یا ضعیف روایات و واقعات کو قلمبند کرنے سے احتراز کرنا بھی ضروری ہے ۔
ك. تاریخِ اسلام سے کما حقہ واقفیت اور سیرتِ رسولِ گرامی قدر کا گہرا مطالعہ ، مضامین میں گہرائی کا ضامن ہے۔ سطحی اور افتادہ پا مضامین سے بچنے کی سعی کرنی چاہئے۔
اب ان تمام اصولوں کو دیکھیں تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا منظوم کلام بالعموم اور نعتیہ شاعری بالخصوص مندرجہ بالا نقائص سے نہ صرف مبرّا ہے بلکہ اعلیٰ درجے کی علمی وجوہات سے بھرپور بھی ہے۔ جبکہ غیر احمدی علماء کا کلام بالعموم سطحی استعاروں سے بھرا ہوا ہوتا ہے، نہ اس میں کوئی اعلیٰ درجہ کی روحانیت کا مضمون بیان ہو رہا ہوتا ہے اور نہ ہی سچی اتباع سے بھرپور کلام۔
سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے نعت گوئی کا ایک اصل الاصول بیان فرمایا جو کہ بادی النظر میں کسی اور نے بیان نہیں کیا۔ آپ فرماتے ہیں:
’’ مومن بقدر اپنی متابعت کے اس مدح(یعنی حضور نبی کریم ﷺ کی مدح )سےحصہ حاصل کرتاہے۔ اور وہ بھی محض خدائے تعالیٰ کے لطف اور احسان سے، نہ کسی اپنی لیاقت اور خوبی سے۔‘‘
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن: جلد 1- براہینِ احمدیہ حصہ چہارم: صفحہ258)
یعنی جو بھی حضرت نبی اکرم ﷺ کی حقیقی مدح کرے گا اس کے لئے اساسی اصول آپ ﷺ کی اتباع ہو گی۔ اگر متابعت کامل نہیں تو مدح صرف ضرورت شعر کو پورا کرنے والی ہو گی نہ کہ بابرکت اور مقبول مدح۔
آپ علیہ السلام فرماتے ہیں:
وواللّٰہ لولا حُبُّ وجہِ محمد
لما کان لی حولٌ لأمدح اَحْمَدا
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن: جلد7- کَرامات الصَّادقین: صفحہ 96)
یعنی خدا کی قسم! اگر مجھے محمد ﷺکے (بابرکت) چہرے سے محبت نہ ہوتی تو میرے لئے ممکن ہی نہ تھا کہ میں احمد ﷺکی مدح سرائی کر سکتا۔
اور ایک اور جگہ آپؑ نے یہ حقیقت آشکار کی کہ:
مدحتُ إمامَ الأنبیاء وإنہ
لأرفَعُ مِن مدحی و أعلی وأکبرُ
(روحانی خزائن ۔ کمپیوٹرائزڈ ایڈیشن: جلد7- حَمامَۃُالبُشریٰ: صفحہ 332)
یعنی میں نے امام الانبیاء ﷺ کی مدح کی۔ مگر آپ ﷺ میری کی ہوئی مدح سے بہت بلند و اعلیٰ ہیں۔
اس جگہ ایک اور اہم نکتہ بھی یاد رکھنے کے لائق ہے کہ مادح کا دل ہر قسم کے تعصب، نفرت اور بغض و کینہ سے پاک ہو تبھی ایک محبت میں ڈوبی ہوئی نعت وقوع پذیر ہو گی۔ خاکسار کے ناقص علم و مشاہدہ کے مطابق جب سے متعصب علمائے اسلام نے سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کی تکذیب و تکفیر کا بازار گرم کیا ہوا ہے تب سے ان علماء سے حقیقی نعمتِ نعت بھی چھن چکی ہے۔ چونکہ ان علماء نے اس امام کا انکار کیا جس کو اللہ تعالیٰ نے قائم کیا اور جس کے بارہ میں آنحضرت نبی کریم ﷺ کے واضح فرامین موجود ہیں۔
ان چند ٹوٹے پھوٹے لفظوں میں سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے منظوم کلام کی بے شمار خصوصیات میں سے چند ایک کا تذکرہ اپنی محدود ترین علمی بساط اور قلیل ترین مشاہدہ کے مطابق کرنے کی ایک ناچیز کوشش کی ہے۔ اور تینوں زبانوں (عربی، فارسی اور اردو) میں آپؑ کے کلام کے نمونے لے کر دوسرے علماء و شعراء کے کلام کے ساتھ کسی حد تک تقابلی جائزہ لیا گیا ہے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جس کوخدا مبعوث فرماتا ہے، ہدایت کے چشمے اُسی کے قدموں سے اور علم کے سوتےاسی کے قلموں سے پھوٹتے ہیں۔ اُسی کا کلام امام الکلام کہلانے کا اصل حقدار ہوتا ہے، چاہے کوئی کتنا ہی بلند بانگ دعویٰ کر کے اپنے کلام کو بزعم خود امام الکلام بنا کے پیش کرے۔
حضور علیہ السلام کے لدنّی علم کلام کے لفظی محاسن، معنوی نوادرات، مضامین اور ان کےحقائق، مختلف زبانوں میں تراجم اور سب سے بڑھ کر اس علم کلام کی روحانی تاثیرات احمدی محققین اور ریسرچ سکالرز کے لئے ایک کھلا میدان تحقیق ہے۔
٭…٭…٭