خدا کی تلاش
کیا یہ ایک قابل ذکر بات نہیں کہ ساری دنیا میں خدا کی ذات کے بارہ میں ایک تجسّس پایا جاتا ہے۔اور یہ حقیقت اور بھی حیران کُن ہو جاتی ہے اگر یہ کہا جائے کہ خدا جیسی کوئی ہستی سرے سے موجود ہی نہیں تو سوال پیدا ہوتا ہے کہ پھر یہ تجسّس کہاں سےآیا؟کیا یہ انسان کے اندر اپنے ارتقاء کے بارہ میںعام تجسّس ہے۔ اس کی فطرت میں اپنے بنانے والے کے بارہ میںیہ تجسّس رکھ دیا گیا ہے؟
1
میں اُن احبا ب کے لئے جو خدا کی ذات کے بارہ میں سچے دل سےجاننا چاہتے ہیں کچھ حقائق پیش کرناچاہتا ہوں۔
پہلے مَیں کچھ ایسے اعتراضات اور ان کے جواب پیش کروں گا جو لوگ عام طور پر خدا کی ہستی کے انکار کے لئے پیش کرتے ہیں۔
نمبر 1۔آنکھ اوجھل پہاڑ اوجھل۔
کچھ لوگوں کے لئے یہ حقیقت کہ خدا کی ذات ہم آنکھوںسے دیکھ نہیں سکتے ، ہاتھوں سے چھو نہیں سکتے ان کے ایمان کے درمیان حائل ہوتی ہے۔ حالانکہ یہ عام علم کی بات ہے اور سائنسی طور پر بھی مستند ہے کہ بہت سی ایسی چیزیں موجود ہیں جن کو ہمارے بنیادی حواس محسوس نہیں کر سکتے۔ مثلاً ہوا کے اندر مختلف گیسز (Gases)کا موجود ہونا، یا فضا میں مختلف قسم کی Radiationہوونا، یا ہمارے اپنے جذبات اور احساسات۔ اس سے ظاہر ہے کہ ہمارےظاہری حواس محدود طاقت رکھتے ہیں۔ اور بہت سی ایسی چیزیں ہیں جن کا موجود ہونا سائنسی حقیقت ہےلیکن ہم اپنے ظاہری قویٰ سے اُن کو پوری طرح محسوس نہیں کر سکتے۔ تو پھر اس میں کیا حیرت ہے کہ ہمارے حواس جب تک خاص طور پر تیار نہ کئے جائیں ، خداکے وجود کو آسانی سے محسوس نہ کر سکیں۔ خدا تو وہ ہستی ہے جو ہرتخلیق شدہ چیز سے بالا ہے اور کوئی چیز اس کی مثل اور نظیر نہیں۔
نمبر 2۔بعض دہریہ لوگ کہتے ہیں کہ ایک مبہم ذات پوری کائنات میں پھیلے ہوئے مادے کو کیسے تخلیق کر سکتی ہے۔
میڈیکل سائنس کے شواہد سے صاف ظاہر ہوتا ہےکہ ہمارے بہت سے جذبات ایسے ہیں جو ہمارے جسم کے کیمیائی اور حیاتیاتی پہلوؤں پراثر ڈالتے ہیں۔یعنی ہماری نفسیات ہماری جسمانی نشو و نما پر اپنااثر رکھتی ہے۔ اسی طرح کائنات میں اور بھی مثالیں ہیں جس میں مختلف قسم کےغیر مادی اجزاء مادی اجزاء پر اپنا اثر ڈالتے ہیں۔ اگر انسان اپنے آپ کو صرف حیاتیاتی جسم اور اس کے اجزاء پر مشتمل ایک ذات سمجھے تو پھر ہماری سوچ، فکر اور دلائل وغیرہ پر کیونکر بھروسہ کیاجا سکتا ہے؟ پس اسی طرح خدا کی ذات مادی نہ ہونے کے با وجود سائنس کے اصول کے مطابق بھی کائنات کی خالق ہو سکتی ہے۔
نمبر3۔انسان اپنی’ آزادی‘ کو نہیں چھوڑنا چاہتا
ہم جانتے ہیں کہ ہر قسم کے نشو و نما کے لئے نظم و ضبط لازم ہے۔ مثلاً ایک کھلاڑی جو کھیل کے میدان میں گولڈ میڈل کی خواہش رکھتا ہے اُس کو اپنی بےنظم زندگی والی ’’آزادی‘‘ کوچھوڑنا پڑے گا تاکہ وہ اپنے مقصد میں کامیاب ہو سکے۔ اور اس کے لئے اُس کو بے حد نظم و ضبط کے ساتھ ورزش اور پریکٹس کرنی پڑے گی۔
اسی طرح سے تعلیم کے میدان میں ترقی کے لئے بھی بے حد نظم و ضبط کی ضرورت ہے۔ یہی اصول ہمارے اخلاقی اور روحانی ترقی کے میدان میںبھی لاگو ہوتا ہے۔ خدا پر یقین کو پیدا کرنا اور خدا کی ذات سے اپنا تعلق پیدا کرنے کے لئےانتہائی نظم و ضبط کے ساتھ زندگی گزارنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ اور اِس بلند پایہ مقصد کے لئےاپنی ’’آزادانہ ‘‘زندگی کے بہت سے پہلوؤں کوچھوڑنا پڑتا ہے۔ کچھ لوگوں کے لئے یہ قدم بہت مشکل ہوتا ہے۔ اور اس وجہ سے وہ خدا کی طرف رجوع کرنے میں کمزوری دکھاتے ہیں۔
نمبر 4۔ مذہب کا نام لینے والے کچھ لوگ دنیا میں برُے کام کرتے ہوئےپائے جاتے ہیں
یہ دلیل بھی خدا کی ہستی کے انکار کے لئے عام طور پر پیش کی جاتی ہے۔ اس کے بارہ میں مضمون میں آگے جا کر دوبارہ ذکر ہو گا۔
نمبر5۔اگر خدا ہےتو دنیا میں لوگوں پر مصیبتیں کیوں اترتی ہیں؟
مصیبت یا مشکل اُس نسبتی درجہ کا نام ہے جب انسان کی حالت ایک پسندیدہ درجہ سے کم پسندیدہ میں تبدیل ہو جائے۔ مثلاً انسان کاروبار میں نقصان اُٹھا بیٹھےاور اُس کی روز مرّ ہ کی آسائشوں میں کمی آجائےتو ا س کو مشکل یا مصیبت کا نام دیا جاتا ہے جبکہ کئی دوسر ے لوگ جو پہلے سے ہی اس سے بھی ادنیٰ حالت میں زندگی گزار رہے ہوںاُن کو اگر اس حالت میں تبدیل کردیا جائے تو وہ اس حالت کو مصیبت نہیںبلکہ ترقی سمجھیں گے۔
اسی طرح قدرتی آفات حقیقت میں ایسے قدرتی ذرائع ہیں جو کسی نہ کسی اہم مقصد کو پورا کرتے ہیں۔ مثلاً Hurricaneسمندر کے پانی کے درجۂ حرارت کو کم کرنے کا کام کرتا ہے اور اس کی وجہ سے سمندر میں موجود خوراک کو زندہ رہنے میں مدد ملتی ہے۔
ایک اور مثال جنگل کی آگ کی ہے جو کہ پودوں کی جلی ہوئی راکھ کی وجہ سے جنگل کی مٹی میں Carbonکی مقدار کو بڑھاتی ہے جس کی وجہ سے آئندہ آنے والے پودوں کی نسلوں میں زیادہ طاقت پیدا ہوتی ہے۔
ایک اور مثال انسانی خُلیوں کے اندر Genesکی ہے جن کی وجہ سے کئی دفعہ بہت شدید بیماریاں لاحق ہوتی ہیں لیکن یہ Genesحقیقت میں زندگی کے ارتقا کے کام کو جاری رکھے ہوئے ہیں۔ ان مثالوں سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ تمام قدرتی رجحان اگرچہ ایک محدود آنکھ سے دیکھنے میں نقصان دہ نظر آتے ہیں لیکن مجموعی طور پر ان کا ایک بے حدمفید کردارہے جس کو وہ پورا کرتے ہیں۔ پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کئی جانور پودوں کو اپنی خوراک بناتے ہیں اور اس حقیقت کو ان پودوں کے لئے مصیبت یا مشکل کا رنگ نہیں دیا جا سکتا۔ زندگی کے ارتقا کے چار بلین سالوں میں کئی کم تر Speciesکو نئی اور زیادہ طاقت والی Species کے لئے جگہ بنانے کی خاطر ختم ہونا پڑا۔ اور ان سب مثالوں سے یہ پتہ چلتا ہے کہ یہ سب قدرتی نظام ، قدرتی آفات نہیں بلکہ قدرت کے آلے ہیں جو اُس کے نظام کو سنبھالنے میں مدد کرتے ہیں۔ اور اسی بات کو ہم یوں بھی سمجھ سکتے ہیں کہ ان کا موجود ہونا خدا کے نہ ہونے کی دلیل نہیںبلکہ کسی ایک مکمل علم اور طاقت رکھنے والے خدا کے موجود ہونے کی دلیل ہے۔
اس حصہ کے آخر میں ایک اور قسم کی مشکل یا مصیبت کا ذکر کرنا بھی موزوںہو گا جو کہ انسان کے اپنے غیر مناسب رویہ کے نتیجہ میں پیدا ہوتی ہے۔ مثلاً ایک ذیابیطس کا مریض اپنی ورزش اور خوراک کے نظم و ضبط کواچھی طرح قائم نہ رکھے تو اُس کی بیماری کے بگڑنے کا زیادہ امکان ہے۔بلکہ اس کو اور قسم کی بیماریاں بھی لاحق ہو سکتی ہیں۔ یہ بھی قدرت کے نظام کا ایک حصہ ہے جس کی بنا پر ہم اپنی زندگی کی بہتری یا مشکلات کی ذمہ داری ایک حد تک اپنے ہاتھ میں پاتے ہیں۔
2
اب اس موضوع پر ایک اور پہلو سے گفتگو کرتے ہیں۔
نمبر 1۔ خدا کی ذات پر یقین انسان کی تاریخ میں بدستور قائم نظر آتا ہے
ہم دیکھتے ہیں کہ خدا کی ذات پر ایمان ہمیشہ سے انسانی تاریخ کا حصہ رہا ہے۔ آثارِ قدیمہ اور تاریخی شواہد سے پتہ چلتا ہے کہ امریکہ ، مشرق وسطیٰ اور آسٹریلیا کی پرانی قوموں میں مذہب کا رجحان پایا جاتا تھا اوریہ قومیں کسی ایک خدا کی عبادت کرتی تھیں۔ اس قسم کے شواہدتقریباً 30سے 60ہزار سال پرانے ملتے ہیں جوکہ اتنا ہی عرصہ ہے جب موجودہ نسل کا انسان شمال مشرقی افریقہ سے نکل کر دنیا کے باقی حصوں میں پھیلا۔
نمبر 2۔دنیا کی آبادی کابیشتر حصہ خدا کی ذات پر ایمان رکھتا ہے
دنیا کی کل آبادی تقریباً 7.5بلین ہے۔ جس میں2 بلین سے کچھ زیادہ عیسائی، 1.8بلین کے قریب مسلمان، 1بلین بدھ مذہب کے لوگ اور 1 بلین ہندو اور باقی کچھ کم تعداد والے دوسرے مذاہب کی آبادی موجود ہے۔
(Pew Religious Center’s Forum on Religion and Public Life, Global Religious Landscape,2012)
یہ مجموعی طور پر 6 بلین سے کچھ زیادہ بنتے ہیں۔ پس دنیا میں خدا کے ماننے والوں کی تعدادخدا کا انکار کرنے والوں کی نسبت بہت زیادہ ہے۔ اور ایک دہریہ کا نقطۂ نظر دنیا کی بیش بہا آبادی سے بر عکس ہے۔
نمبر3 ۔ہمارا شعور ہمارے اندرموجود خدا کی طرف اشارہ کرتا ہے
یہ ایک عام فہم بات ہے کہ ہر نسل اور مذہب کا انسان اچھائی کو پسند کرتا ہے اور برائی سے گھبراتا ہے ۔ دوسری طرف تمام مذاہب کی تعلیم یہی ہے کہ خدا ہمیں اچھائی کی تعلیم دیتا ہے اور برائی سے روکتا ہے۔ پس ثابت یہ ہوتا ہے کہ مذاہب کی دی ہوئی تعلیم اور ہمارے شعور میں ہم آہنگی ہے اور مذہب انسان کی نفسیاتی حقیقت کے مطابق تعلیم دیتا ہے۔اس سے یہ نتیجہ بھی نکالا جا سکتا ہے کہ مذہب کا بھیجنے والا اور انسان کا خالق ایک ہی وجود ہے۔
نمبر4۔تمام وجود اور واقعات کا سب سے پہلا سبب خدا کی ذات ہے۔
آج سے تقریباً 60سال پہلے تک یہ سمجھا جاتا تھا کہ ہماری کائنات ہمیشہ سے موجود ہے۔ جبکہ اب سائنس نے یہ بات صاف طور پر ثابت کی ہےکہ ہماری کائنات ہمیشہ سے موجود نہیں تھی اور اس کی تخلیق تقریباً14 بلین سال پہلے ہوئی۔ سائنسدانوں کا یہ بھی کہنا ہےکہ تمام مادہ جو کائنات میں موجود ہے یہ ایک ابتدائی حالت جس کا نام سائنسدان Singularityدیتے ہیں، اُس سے پیدا ہوا۔
)Stephan Hawking, Brief History of Time,1998, Bantam Book ncorporation, NY, USA(
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ لفظ Singularityبھی خالقِ کائنات کی وحدانیت کی طرف اشارہ کرتا ہے۔
دوسری طرف ایک اور سائنسی اصول جس کو Cosmological argument کے نام سے جانا جاتا ہے اُس کے مطابق ہر وہ چیز جو موجود ہے اس کی کہیں سے شروعات ہوئی تھی۔ پس اگر ہماری کائنات موجود ہے اور سائنسی اندازے کے مطابق 14 بلین سال پہلے پیدا ہوئی تو کائنات میںابھی موجود چیزیںتو اپنے سے پہلے موجود چیزوں سے پیدا ہوئیں لیکن پوری کائنات کا خالق کون تھا؟ اور وہ Singularity حقیقت میں کس کا نام ہے؟ ابھی سائنس اس کا جواب نہیں دے سکی۔لیکن ایک بات صاف ظاہر ہے کہ وہ طاقت جس نے کائنات کی تخلیق کی وہ وقت، خلا اور مادے کی حدود سے بالا تر ہے۔ کیونکہ یہ تینوں چیزیںیعنی وقت، خلا اور مادہ کائنات کی تخلیق کے ساتھ ہی پیدا ہوئیں۔ اگر وہ خالق طاقت وقت سے بالا ہےتو اس کا مطلب ہےوہ ہمیشہ سے موجود ہے اور ہمیشہ موجود رہے گی۔ اگر وہ طاقت خلا سے بالا ہے تو اس کا مطلب ہے کہ وہ کائنات کی کسی ایک جگہ تک محدود نہیں بلکہ ہر جگہ موجود ہے۔ اور اگر وہ مادے کی تمام خصوصیات سے بالا تر ہے تو اس کا مطلب ہے کہ ہم اُس کو اُس موجودہ علم کے مطابق نہیں سمجھ سکتے جو ہمیں کائنات کے مادے کے بارہ میں حاصل ہے۔ پس سائنسی لحاظ سے بھی خالقِ کائنات کو ئی ایسی طاقت ہےجس کی حدیں وقت، خلا اور مادے سے بڑھ کر ہیں۔دلچسپ بات یہ ہے کہ یہی علم تو ہمیں مذہب نے پہلے سے دیا ہواہے اور سائنس اس نتیجہ پر اب پہنچی ہے۔ اس دلیل سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ یہ خیال کہ اس کائنات کا کوئی خالق نہیں یا تو اس بات کا اظہار کرتا ہے کہ یہ کائنات ہمیشہ سے موجود تھی اور یا خود ہی اچانک پیدا ہو گئی۔ اور یہ دونوں باتیں سائنسی حقائق کے برعکس ہیں۔ پس دہریت کا نقطۂ نظر درحقیقت سائنس سے برعکس ہے۔
نمبر 5۔Quantum Theory
بیسویں صدی کے دو نوبل انعام یافتہ سائنسدانNiels Bohr اور Max Planckفزکس کی Quantum theoryکے بانی سمجھے جاتے ہیں۔(Max Planck, Nobel Laureate, and Neil Bohr, founding physicists of Quantum Theory)۔ Quantum theory کے اصولوں کو مختصراً یوں سمجھا جا سکتا ہے کہ ایک با شعور اور نظم و ضبط والا نظام بے نظم اور غیر شعوری شروعات سے پیدا نہیں ہو سکتا۔ پس اگر ہماری کائنات میں نظم و ضبط ہے جو کہ سائنسی طور پر ثابت ہے اور اُس میں انسان اور دوسرے چرند پرندجیسی با شعور زندگی موجود ہے تو اس کے لئے لازم ہے کہ اس کی شروعات بھی کسی باشعور خالق کے ہاتھوں ہوئی ہو۔ پس ہم یہ دیکھتے ہیں کہ سائنس بھی ہمیں رفتہ رفتہ ایک خالق خدا کی حقیقت کی طرف لے جا رہی ہے۔
نمبر6۔تاریخی فلسفہ
ارسطو جو کہ ایک مشہور یونانی فلسفی اور سائنسدان گزرا ہے اس نے تمام کائنات کے ایک Final Causeکے بارہ میں لکھا ہے۔ اسی طرح سقراط نےبھی ایک خالق اور کائنات کے مالک کا ذکر کیا ہے۔ اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ مقدس صحیفوں اور مذاہب نےہی خدا کا علم دیا ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ قدیم فلسفیانہ علم اورآجکل کے سائنسی علم نے بھی خدا کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اور عام طور پرجو غلط فہمی پائی جاتی ہے کہ سائنس یا فلسفہ خدا سے دُور لے جاتا ہے یہ حقیقت پر مبنی نہیں۔
نمبر7۔ذہین اور باشعور تخلیق بغیر منصوبہ بندی کے پیدا نہیں ہو سکتی
آثارِ قدیمہ پر کام کرنے والے ماہرجب زمین کھودتے ہوئےایک ٹوٹے ہوئے برتن کا ٹکڑا دریافت کرتے ہیںتو اُس سے ایک بات یقینی طور پر ثابت ہوتی ہےکہ ماضی میں کسی وقت وہاں پراِس برتن کا بنانے والا اور استعمال کرنے والاموجود تھا۔ اِسی طرح عمارتوںکو بنانے والےانجینئریہ اچھی طرح سمجھتے ہیںکہ بغیر منصوبہ بندی کےکتنی کوشش کرلی جائے اور صرف ملبہ، سیمنٹ، پتھر، اینٹیں اکٹھی کرنے سےایک عمارت کا قیام وجودمیں نہیں آسکتا۔پس ہماری کائنات جو کہ ایک بہت وسیع پیچیدہ اور متوازن نظام ہے جو کہ بغیر کسی بے نظمی کےاپنے اصولوں پرقائم رہتا ہے یہ سب کچھ ایک ذہین اوربا شعور خالق کے بغیرکیسے تخلیق پا سکتا ہے؟ایسے نظام کابغیر منصوبہ بندی کے تخلیق میں آجانے کے بارہ میں ایک مشہور سائنسدان نے مثال یوں دی کہ جیسے لوہے کے ملبے کے ڈھیر میں زور دار ہوا چلےاور اس سے خود بخودایک ہوائی جہاز تخلیق ہو جائے۔ (Fred Hoyle, The Intelligent Universe,1983)یعنی کہ سائنسی طور پر یہ ناممکن امر ہے۔
نمبر 8 ۔زمین پر زندگی کے ارتقا کا ایک با قاعدہ منصوبہ بندی کے مطابق ہونے کا ثبوت
Evolutionary Biologistجو کہ ارتقا کے نظام کاگہرا مطالعہ کرتے ہیںاُن کا کہنا ہےکہ بہت سے ایسے ثبوت ملے ہیں جن سے پتہ چلتا ہےکہ زندگی کا زمین پر ارتقاایک پورے نظام کے مطابق ہوا۔ اُن مثالوں میں سے ایک بہت دلچسپ مثال انسان کی بیان کی اہلیت کی ہے۔ اگر اس استعدادکے ارتقامیں کوئی ذہانت اور ضبط نہ ہوتاتو سائنسدانوں کے مطابق کروڑہا سالوں پر مبنی لاکھوں مختلف Speciesمیں درجہ بدرجہ بہتر ہوتی ہوئی بیان کی صلاحیت دیکھنے کو ملتی، اس سے پہلے کہ یہ قابلیت اپنی موجودہ پیچیدگی اور بہتری کی حالت پر پہنچتی ۔جبکہ تحقیق سے یہ ثابت ہوا ہےکہ انسان کی یہ قابلیت اس طرح کی عبوری منازل کے بغیر ایک خاص موقع پرعمل میں آئی اور وہ موقع ایسا تھا جبکہ زندگی اپنی ذہانت کی ایک مخصوص منزل پا چکی تھی جو کہ انسان کی شکل میںوجودمیں آئی اور اُس میں یہ صلاحیت بھی پیدا ہو گئی کہ وہ کائنات کو سمجھے ، اُس پر گہرائی سے غور کرے اور پھر اِس علم کا دوسروںپر اظہار کر سکے۔ اُس کی معاشرتی کائنات اور قدرت کے اصولوں کو سمجھنے میں اور اُس کے اظہار میں ہی روحانی ترقی کا راز بھی پنہاں ہے اور انسان کی بیان کی استعداد ترقی میں مدد دینے کے لئے بنیادی کردار ادا کرتی ہے۔ پس زبانیں بولنے کی یہ غیر معمولی صلاحیت قدرت کی طرف سے یعنی قدرت کے خالق کی طر ف سےاسی وقت زندگی کو عطا ہوئی جب اس میںروحانی ترقی کی صلاحیت اور ذمہ داری بھی ڈالی گئی۔ نہ اُس سے پہلے اور نہ اُس کے بعد۔ اِس مثال سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ زندگی کاارتقا ایک ذہین خالق کے ہاتھوں ہوا ہے۔(قرآن کریم میں سورۃ الرحمان میں اس امر کی طرف یوں اشارہ فرمایا خَلَقَ الْاِنْسَانَ عَلَّمَہٗ الْبَیَان)
3
اس حصہ میں مَیں کچھ ایسے دلائل پیش کروں گاجن کو خدا کے وجود کو تسلیم کئے بغیر نہیںسمجھا جا سکتا۔
نمبر1۔ ایسے لوگوں کی گواہی جو انسانوں میں سب سےسچے تسلیم کئے گئے
اگر ہم اس بات پر غور کریںکہ قوموں کی تاریخ میںکونسا طبقہ سب سے زیادہ سچا مانا گیا۔ کیا سیاستدان؟ بہت کم لوگ اس طبقہ کو سب سے زیادہ سچا سمجھیں گے۔ مصنف یا سماجی راہنما؟ شاید اُن میں ایک سچائی کا پہلو ہو۔ سائنسدان؟ امید ہے کہ وہ بہت سا کام سچ کی بنیاد پر کرتے ہوں۔لیکن ہم یہ بھی جانتے ہیںکہ آجکل کی سائنس بھی معاشیات کے دباؤ میںآچکی ہے۔ ہاں ایک طبقہ ایسا ہے جو انسان کی تاریخ کے ہر موقع پرہمیشہ سچائی پر قائم رہا ہے اور اس کے سچا ہونے پرنہ صرف اُن کے اپنےساتھی بلکہ اُن کے دشمن بھی یقین رکھتے رہے ہیں۔ اور یہ ہیں خدا کے نبی اور اُس کے رسول۔ اِن میں اخلاقی معیار اور سچائی انتہا کی حد تک ہوتی ہے۔ اور کوئی خدا کانبی اس اصول سے باہر نہیں۔ہم یہ جانتے ہیں کہ خدا کے نبی تاریخ میں مختلف وقتوں میں آئے اور دنیا کے مختلف علاقوں میں آئے۔ اس صورت میں اگر ہم اُن کی تعلیم میں ایک ہم آہنگی پائیںیعنی وہ ایک ہی بات کہتے ہوںتوکیا وہ بات سچ نہیں ہوگی؟خدا کے تمام نبی اور اس کے رسول ایک خداکی تعلیم دیتے رہے ہیںاور یہ بھی ہمیںبتاتے رہےکہ انہوں نے ہمیں جو تعلیم دی وہ انہوں نے اُس ایک خدا سے ہی پائی۔
نمبر2۔خدا کے نبیوں کے حیران کن حالات زندگی
خدا کے تمام نبی ابتدا میں اور اپنے دعویٰ نبوت کے وقت اکیلے ہوتے رہے ہیں۔ اور اسی طرح دوسروں کی نسبت دنیاوی طاقت کے لحاظ سےبہت سے نبی نسبتاً کمزور تھے۔ تمام نبیوں کو شدید مخالفت کا سامنا کرنا پڑا۔ ان حالات میں بھی تمام نبیوں نےبےحد صبر اورعفوو درگزر سے کام لیا۔ اور پھر ہم کیا دیکھتے ہیںکہ تمام نبی اپنے مقصد میں کامیاب ہوئےاوردنیاوی طاقت والی مخالفت ہمیشہ ناکام رہی۔ تمام نبیوں نے یہی کہا کہ وہ ایک خدا کے حکم کے تحت کام کر رہے تھےاور اُن کی مددخدا ہی کی طرف سے تھی۔اگر غور کیا جائےتو یہ دو دلائل بہت ہی گہرے اور دل پر اثر کرنے والے ہیں۔
نمبر3۔خدا کی بھیجی ہوئی تعلیم کی حکمت
زندگی کے حیاتیاتی ارتقاکے نتیجہ میںجو سب سے ذہین Specieوجود میں آئی، وہ انسا ن ہے۔ اور اس Specieیعنی انسان نےتقریباً 70ہزار سال پہلےدنیا میں پھیلنا شروع کیا(Guy Gigliotta, The Great Human Migration, Smithsonian,1988) اور یہ کہ انسان کچھ Communitiesاور قبیلوں میں مِل کر رہنا شروع کردے،یہ صرف 10سے15ہزار سال پرانی بات ہے۔(Michael Balter, The Seeds of Civilisation, Smithsonian Magazine, May 2005)اس کے بعد کے عرصہ میںانسان میں روحانی ارتقا شروع ہوا جو کہ خدا کےنبیوں کےذریعہ انسانوں میں آیااور اس سلسلہ میںخدا کے پہلے نبی حضرت آدم علیہ السلام تقریباً6ہزار سال پہلے دنیا میںآئے۔ یہ اس روحانی ارتقاء کا نتیجہ تھاکہ انسان نےانصاف پسند اور امن پسندسوسائٹیاںقائم کرنی شروع کیں۔ یہ روحانی انقلاب ان نبیوں کے ہاتھوں خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی پُر حکمت اور متوازن تعلیم کا نتیجہ تھا۔ اس میں سماجیات، سیاسیات، معاشیات اور عقلی تعلیم شامل ہے۔ دنیا کے بہت سے تاریخ دان اور عالم اس بات کا اعتراف کر چکے ہیںکہ ان نبیوں کے ہاتھوں بھیجی ہوئی خدا کی تعلیم کی حکمت اپنا مقابلہ نہیں رکھتی۔
(Karen Armstrong, Mohammad: A Prophet of Our Time, 1991, HarperOne
James Michener, Islam: The Misunderstood Religion, Reader’s Digest, 1995
Michael H Hart, The 100, A Ranking of the Most Influential Persons in History, 2000)
پھر ہم یہ بھی دیکھتے ہیںکہ یہ روحانی تعلیم بھی ایک ارتقا کےعمل سے گزری ہے جس میں شروع کے نبیوںکے ہاتھوںنسبتاً مقامی اور محدود مدت کے لئےلاگو ہونے والی تعلیم بھیجی گئی اور آہستہ آہستہ اس تعلیم کا دائرہ بڑھتا گیا اور آخر میںحضرت اقدس محمد مصطفیٰ ﷺکے اوپر قرآن نازل ہواجو کہ آئندہ آنے والے تمام وقت کے لئےاور پوری انسانیت کے لئےہے۔
(سورۃ آل عمران آیت 20،سورۃ المائدہ آیت 4)
نمبر4۔ ایسا ذریعہِ علم جو انسانی قابلیت سے بہت بالا ہے
قرآن پاک 1400سال پہلے نازل ہوا۔ اس میں انسان کو مختلف قسم کا علم دیا گیا۔ جس میں تاریخ، معاشیات، سیاسیات اور مختلف سائنسوں کا علم بھی شامل ہے۔ اور اس کے علاوہ اس میں بہت سی پیشگوئیاںموجود ہیں۔ اس علم کے بہت سے پہلواب سائنسی تحقیق کے مطابق سچ ثابت ہو چکے ہیں اور بہت سی پیشگوئیاں حیران کن Accuracyکے ساتھ پوری ہو چکی ہیں۔ مثلاًزندگی کے ارتقااور اُس کا مقصد۔آجکل کے ذرائع آمد و رفت اور ذرائع مواصلات۔انسان کی قدرتی عمل میں مداخلت کی کوشش۔جس کی ایک مثال ہمیں جینیٹک انجینیئرنگ میں ملتی ہے۔ اور دنیا کے کچھ اہم سیاسی رجحان۔جبکہ ابھی سائنسدان کائنات کے دوسرے حصوں میں زندگی کی تلاش میں کوشاں ہیں قرآن شریف میں حتمی طور پر ایسی زندگی کےموجود ہونے کا ذکر ہے۔ جس سے قرآن کو ماننے والا یقین کے ساتھ یہ دعویٰ کرسکتا ہے کہ سائنسدان ایک دن کسی کائنات کے دوسرےحصہ میں زندگی کو ڈھونڈ نکالیں گے ۔
اب سوال یہ پیدا ہوتا ہےکہ یہ تمام علم کہاں سے آیا؟ ایک طرف تو صاف طورپریہ اپنے وقت میں انسانی قابلیت سے بالا تر علم تھااور دوسری طرف اس کو بتانے والا اپنے آپ کوصرف ایک پیغمبر (ﷺ)کہتا رہا اور لوگوں کو یقین دلاتا رہا کہ اُس کو یہ علم خدا کی طرف سے ملا ہے۔ اور جیسا کہ پہلے ذکر ہو چکا ہے خدا کے نبیوں کی سچائی کے بارہ میںکسی کو کوئی شک نہیں۔ اس لحاظ سے یہ دعویٰ نہ صرف ہمیں خداکی ہستی کا ایک بہت ٹھوس ثبوت دیتا ہے بلکہ اِس چیز کا بھی ثبوت دیتا ہے کہ خدا اپنے بندہ سے کلام کرتا ہے۔ اِس کے علاوہ کیا اس سے یہ بات بھی ثابت نہیں ہوتی کہ جیسے جیسے ہمارے سائنسی علم میں اضافہ ہوتا جائے گا اَور بہت سا علم جوقرآن شریف میں دیا گیا ہے وہ بھی سچ ثابت ہوتا جائےگا ۔ دنیا کے مختلف حصوں کے بہت سےعالِم قرآن مجید میں دیئے گئے علم کے بارہ میں اس حقیقت کو مان چکے ہیں کہ یہ کسی انسان کی طرف سے بنایا ہوا علم نہیں ہو سکتا۔
(Prof E Marshall Johnson, Professor Of Anatomy and Development Biology, Daniel Baugh Institute, Thomas Jefferson University, Philadelphia, USA
Dr Maurice Bucaille, The Bible, The Quran and Science, The Holy Scriptures Examined in the Light of Modern Knowledge, 2003 Paperback(
4
مضمون کے اس حصہ میں مَیں ایسے دلائل کا ذکر کروں گا جن سےخدا کی ہستی کا وجودہر شک سے خالی ہو کرصاف طور پر یقین کی طرح سامنے آجاتا ہے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نےاپنی کتاب ’’اسلامی اصول کی فلاسفی ‘‘میںعلم کے حصول کے تین درجوں کا ذکر کیا ہے۔ (1)علم الیقین (2)عین الیقین (3) حق الیقین۔
اس میں پہلا درجہ علم الیقین کا ہے یعنی عقل اور ثبوت سے حاصل کیا گیا علم۔ اس درجہ میں اوپر بیان کئے گئے دلائل شامل ہیں جن سےکائنات میں مختلف قسم کی تخلیق کودیکھ کراُس کے خالق خدا کے وجود کے بارہ میں علم حاصل کیا جا سکتا ہے۔
دوسرا درجہ عین القین کا ہے یعنی اپنی آنکھوںسے مشاہدہ کر کےیقین حاصل کرنا۔ اس درجہ میں ہم تخلیق کے نظام کو کروڑہا سالوں سےایک منظم طریقہ سے چلتے ہوئےدیکھتے ہیںاور اس میں کوئی بھی غلطی کا مشاہدہ نہیں کرتے ۔اس کے علاوہ اپنی روز مرّہ کی زندگی میں خدا کے بنائے ہوئےاصولوں کاہاتھ صاف طور پردیکھتے ہیں اور اس طریقہ سےاپنے خالق خدا کےوجود کے بار ہ میںیقین حاصل کرتے ہیں۔
اور تیسرا درجہ حق الیقین کا ہےجس میں ہم اپنے ذاتی تجربہ سے خدا کے بارہ میں یقین حاصل کرتے ہیں۔ یہ ذاتی تجربہ دوچیزوں پر مشتمل ہوتاہے۔ ایک ہماری خدا سے کی گئی التجاؤں اور دعاؤں کاقبول ہونااور دوسراخدا کا ہم سے ہم کلام ہونا۔اگر کوئی شخص اپنی زندگی میںوہ چیزیں پا جائےجو اُس کی تمام صلاحیتوںسے بالا ہیں اوروہ صرف اُس کو خدا سے دعا کے نتیجہ میں ملیںیا اُس سے خدا نے کلام کیا ہو تو اُس کے دل میںخدا کی ہستی کے بارہ میںکیا کوئی شک موجود رہ سکتا ہے۔؟ خدا تعالیٰ کے نبیوں نے ہمیں خدا تعالیٰ کے ساتھ اپنے ذاتی تعلق کو بڑھانے کا طریقہ بھی سکھایا ہے۔ خدا کی عبادت پر باقاعدہ قائم رہنا اور اپنی زندگی کوتقویٰ کے معیار کے مطابق گزارنا ہمیںخدا کے ساتھ ذاتی تعلق پیدا کرواتا ہے۔ ہم جانتے ہیں کہ قدرتی اصول ہمیشہ بغیر کسی ردّ و بدل کے ایک مقرر شدہ طریقہ سےاپنا کام کرتے رہتے ہیںاور اس اصول میں کوئی تبدیلی نہیں ہوتی۔ اگر انسان اپنے آپ کواس اصول پر قائم کرلےیعنی حق پر اور حق کے علاوہ کسی اور چیز پر اپنی زندگی کا دار و مدار نہ رکھے اور سچائی کو مکمل طورسے پکڑ لے تو ہمارا دماغ اور لا شعور بھی قدرتی اصولوں سےہم آہنگی حاصل کرنے لگتا ہے۔ اورپھر آہستہ آہستہ ہم خالق قدرت کے ساتھ ہم آہنگی حاصل کرنے لگتے ہیں۔ اس طریقہ سےہمارے ذہن کو ایک ایسی حالت حاصل ہوتی ہےجس میں وہ خداکے کلام کے لئےتیار ہو جاتا ہے ۔اورپھر جیسے جیسے اِس حالت میں ترقی ہوتی ہےتو خدا کے ساتھ رابطہ یک طرفہ نہیں رہتایعنی صرف انسان سے خدا کی طرف رابطہ نہیں ہوتا،بلکہ دو طرفہ ہو جاتا ہے۔ یعنی پھر خدا بھی اُس انسان سے کلام کرنے لگتا ہے۔ اور ایسے شخص کے ذہن میں خدا کی ہستی کے بارے میں کوئی بھی شک باقی نہیں رہ جاتا، بلکہ وہ اپنے آپ کو خدا کے سامنے مکمل طور پر پیش کر دیتا ہے۔
5
اب ایک اورزاویہ سے اس موضوع پرنظر ڈالتے ہیں۔
نمبر 1۔خدائی تعلیم اور روحانی ارتقاء
جب ہم زندگی کے ارتقاء کا مطالعہ کرتے ہیںتو یہ ظاہر ہوتا ہےکہ جو سادہ اور چھوٹی قسم کی زندگی کی اقسام ،ارتقاء کے درجے طے کرتے ہوئےزیادہ پیچیدہ اور بڑی زندگی کی قسموں میں تبدیل ہوئیں تو یہ صرف ایک جسمانی یا حجم کی ترقی نہیں تھی بلکہ یہ اصل میں شعور کے درجوں میں ترقی تھی۔ یعنی کم شعور رکھنے والی زندگی کی حالتوں سے بڑھ کرآہستہ آہستہ قدرت کے بارہ میں زیادہ شعور رکھنے والی زندگی کی اقسام پیدا ہوئیںاور اس میں اشرف المخلوقات کی حالت انسان کی ہے۔ جب انسان کی تخلیق ہو گئی تو پھر روحانی ارتقاء کاسلسلہ شروع ہوااور انسان کو یہ اختیار دیا گیاکہ وہ اپنی اچھائی برائی کو سمجھ کر یا تو قدرت کے اصولوں کے مطابق زندگی گزارےیا ان کے برخلاف۔ یہ انسان کا اختیار ہے کہ وہ ایک خود غرضی کی اور دنیاوی لوازمات کے پسند کی زندگی گزارےیا بھلائی کی۔ اور نہ صرف اپنی بلکہ تمام انسانیت کی بھلائی کی خاطر خدا کی بتائی ہوئی تعلیم کے مطابق زندگی گزارے۔ مذہب ہمیں وہ لائحہ عمل دیتا ہے جس میں ہمیں بھلائی اورتقویٰ کی زندگی گزارنے کی تعلیم دی گئی ہے۔ اگر ہم اس تعلیم پر ٹھیک طرح سے عمل کریںتو ہماری کوششیںاور ہماری طاقتیں مثبت طرف استعمال ہوتی ہیںاور ہماری خوشی بھی بھلائی اور اچھے کاموں سے منسلک ہو جاتی ہے۔ او ر اس کےبر خلاف کوئی بھی کام ہمیں بد مزہ اور بے کار محسوس ہونے لگتا ہے۔ خدا کے نبی تو اس روحانی ارتقاء کے معیار کی بہترین مثال ہیں۔ لیکن یہ مثالیں صرف خدا کے نبیوں تک محدود نہیں۔ ہزاروں،لاکھوں انسانوں نے مذہب کی تعلیم سے فائدہ اٹھایااور اس کی وجہ سےوہ انسانیت اور معاشرے کے لئےبھلائی کا باعث بنے ۔
نمبر 2۔خدا کے بغیر ایک خلا پیدا ہوتا ہے
انسانی نفسیات کی Self-determination Theory کے مطابق ہمارا دماغ زندگی میں مقاصد کی تلاش کرتا ہے۔
(Edward L Deci and Richard M Ryan, The ‘What’ and ‘Why’ of Goal Persuits: Human Needs and the Self Determination of Behaviour, Psychological Inquiry, 2000, Vol 11, No 4, 227-286)۔
جب ایک تعمیری مقصددماغ سے نکل جائےتو پھر کم تر مقاصد اُس کی جگہ پُر کرتے ہیں۔ جب روحانی ترقی اورانسانیت کی بھلائی کا مقصد ذہن سے نکل جائے اور خدا کے ساتھ تعلق قائم کرنے کی کوشش باقی نہ رہےتو پھر زندگی کے کم تر مقاصداس کی جگہ لیتے ہیں۔ مثلاً’آؤ بھرپور زندگی گزاریں‘اور اس سے مراد دنیاوی لغویات کی طرف رغبت ہوتی ہے۔ یا ’یہ میری زندگی ہے مَیں جو چاہوں کروں‘اِس سےمراد خود غرضی کی زندگی ہوتی ہے۔ اسی طرح دنیاوی مال و دولت کی طرف رغبت یا طاقت کو حاصل کرنے کی کوششیں چاہے اُس سے دوسروں کے حق بھی مارنے پڑیں وغیرہ۔ اگر انسان اپنےان ذہنی شیطانوں کو اچھی طرح قابو میں نہ رکھ سکے تو پھر زندگی میں اس طرح کے مقاصد زیادہ جنم لینے لگتے ہیں۔ ان ذہنی شیطانوں کو قابو کرنے کے لئےاخلاقی اور روحانی ترقی کی طرف کوشش بہت ضروری ہے اور اسلام ہمیں اسی ضابطہ حیات کی تعلیم دیتا ہے۔
کچھ لوگوں کا کہنا ہے کہ ہمیں کسی قسم کے ضابطہ کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ ہم خود ہی اچھائی کا فیصلہ کر سکتے ہیں اور برائی سےبچ سکتے ہیں۔ اگر ہم کھلے ذہن سے اس بات پر غور کریں کہ کیا ٹریفک کے قانون اور ضابطہ کے بغیرایک منظّم اورمحفوظ ٹریفک ممکن ہے۔ اگر لوگوں کو انفرادی طور پر حق دیا جائے کہ وہ خود فیصلہ کریں کہاں رُکنا ہے کہاں نہیں ، کہاں مُڑنا ہے اورکہاں نہیں تو کیا حادثات میں کمی ہو گی یازیادتی؟اس کا جواب تو صاف واضح ہے کہ ٹریفک کا ضابطہ ایک منظّم ٹریفک کے لئے اور حادثات سے بچاؤ کے لئے بے حد ضروری ہے۔ اسی طرح زندگی کو منظّم اور بامقصد طریق سے گزارنے کے لئے بھی ایک ضابطہ حیات بے حد ضروری ہے۔وہ ضابطہ ہماری دنیاوی زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعلقات میں بھی کامیابی کی طرف لے کر جاتا ہےاور ہمیں اپنے خالق خدا کے ساتھ تعلق پیدا کرنے میں اور ہماری روحانی ترقی میںبھی ہماری مدد کرتا ہے ۔ یہی ضابطہ ہمیں اسلام نے دیا ہے اوریہ ہمارے خالق خداکی طرف سے دیا گیا مکمل ترین ضابطہ حیات ہے۔
6
رچرڈ ڈاکنز کے وساوس کا ردّ
Richard Dawkinsانگلستان کی دہریہ تحریک کےایک مصنف ہیں جن کا تعلق Oxford Universityسے ہے۔وہ اپنی کتاب The God Delusionمیں دہریہ نقطہ نظر کے حق میںکچھ باتیں لکھتے ہیں۔ (Richard Dawkins, The God Delusion, 2006)ان میں سے چار موٹےنکات کامختصر جواب درج ذیل ہے۔
نمبر1۔مذہب نے انسان کو مشکلیں ہی دی ہیں۔
تاریخ گواہ ہےکہ انسانی لالچ، غروراور طاقت کی ہوس ہمیشہ سے دنیا میں مشکلات کا باعث رہی ہیں۔ دنیا کی دو بڑی جنگیں ، جنگ عظیم اوّل اور دوئم بھی مذہبی جنگیں نہیں تھیں بلکہ اسی قسم کی انسانی لالچوں کا نتیجہ تھیں۔ پس رچرڈ ڈاکنز کی اس کتاب کا یہ دعویٰ نا انصافی پر مبنی ہے۔ ہاں یہ بات تسلیم کی جا سکتی ہےکہ اگر مذہبی تعلیم کو بگاڑ کرذاتی مقاصد کے لئے استعمال کیا جائےتو مشکلیں پیدا ہوتی ہیں۔ جبکہ خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی اصل تعلیم نے بارہا انسانوں کو اور قوموں کو اِنہیں مشکلات سےنجات دلائی۔ اس لئے یہ ضروری ہےکہ انسان خدا کی اصل تعلیم اور تعلیم کی بگڑے ہوئی اقسام میں تمیز کرےاور پھر تاریخ کا مطالعہ کرے۔
نمبر2۔ مذہب انسانی دماغ کے اختراع شدہ اصولوں کا مجموعہ ہے
جیسا کہ اوپر والے نقطہ کے جواب میں بیان کیا جا چکا ہےضرورت اس بات کی ہےکہ انسان اپنے مطالعہ میں یہ فرق دیکھ سکے کہ خدا کی طرف سے بھیجی ہوئی اصل تعلیم کیا ہےاور کہاں کہاں انسان نے اس میں اختراع کیا اور بگاڑ پیدا کیا۔ اگر کھلے ذہن سےمذہبی تعلیم کا مطالعہ کیا جائےتو یہ بات صاف ظاہر ہوجائے گی کہ جو تعلیم خدا کی طرف سے آئی ہےوہ انسانی نفسیات اور قدرت کے اصولوں کے عین مطابق ہےاور اس پر عمل کرنے سےمعاشرہ ہمیشہ بھلائی کی طرف جاتا ہے۔ اس کے بر عکس انسانی اختراع شدہ تعلیم کا استعمال سیاسی، خود غرضانہ لالچ اور انفرادی فائدوں کی خاطر کیا جاتا ہےاور اس سےفرد اور قومیں مشکلوں میںپڑتے ہیں۔ خدا کے بھیجے ہوئےنبی ہمارے لئے ایک روشن مثال کی حقیقت رکھتے ہیںاور ہمیں اس فرق کوسمجھنے میں نبیوں کی مثال پر عمل کرنا ضروری ہے۔
نمبر3۔مذہب کا انسانی ترقی سے کوئی تعلق نہیں
تاریخ گواہ ہے کہ انسان کی سماجی ، معاشی ،سیاسی اور سائنسی ترقی چند بنیادی اصولوں پر مبنی ہے۔ مثلاًعلم کا حصول، انصاف، لوگوں کے حقوق کا احترام ، محنت، ایک دوسرے سے نیک دلی، فرمانبرداری، حکومت کی طرف سے شہریوں کے حقوق اور شہریوں کی طرف سے قانون کا احترام وغیرہ۔ اور ہم یہ بات بھی صاف جانتے ہیںکہ یہ تمام اصول اسلام کی تعلیم کابنیادی حصہ ہیں۔ اور دوسرے مذاہب نےبھی کسی حد تک ان اصولوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ اس لئے اگر کبھی انسانی معاشرے نے ترقی کی تو انہی مذہبی قوانین پر چلنے سے ہوئی اور جب بھی قوموں کا زوال ہوا تو انہی قوانین سے ہٹنے کی وجہ سے ہوا۔
نمبر 4۔خدا انسان کی سوچ کا ایک نتیجہ ہے
دنیا کے ہر حصہ میںاور تاریخ کے ہردَورمیں انسان میں خدا کے بارہ میںایک جستجو رہی ہے۔آج بھی دنیا کی بیشتر آبادی کسی نہ کسی مذہب یا کسی طریقہ سے خدا پر ایمان رکھتی ہے۔ یہ سب دلائل اِس کتاب کے اس دعویٰ کو غلط ثابت کرتے ہیں۔ تاریخ ہمیں یہ ضرور بتاتی ہے کہ خدا پر ایمان کے اور ایمان سے دُور ہونے کے دَور انسانیت پر آتے رہے ہیں۔ہر نئے آنے والے نبی نےخدا پر ایمان کو نئے طریقہ سے تازہ کیااور اُس کی وجہ سے معاشرہ میں انصاف پھیلا اور ترقی ہوئی اور پھر وقت کے گزرنے کے ساتھ ساتھ انسان اس تعلیم سےدُور ہوتا گیااور اس میں بگاڑ اور تبدیلیاں پیدا ہوئیں جس کی وجہ سے معاشرہ میں نا انصافی اَور پسماندگی آئی۔ اور اسی طرح سے یہ دَور بار بارآئے اور گئے۔
7
اب آخر میں سوال یہ رہ جاتا ہے کہ کیا ہم اُس روسی خلاباز کی مثال کو دیکھیںجو خلا سے واپسی پریہ کہہ اٹھا کہ اس نے زمین پر بھی اور خلا کی وسعتوں میں بھی خدا کو تلاش کیااور اس کونہ پایا(Yuri Gagarin, Russian Cosmonaut, first man in space, after his flight in 1961)۔یا اُس برطانوی شاعرکی بات کو سنیں جو زمین کے اندر غاروں میں گیا اور باہر آکر اُس نے بھی ایسے ہی اعلان کیا کہ اُس کوزمین کی گہرائیوں میں بھی خدا نہیں ملا۔ (Percy Bysshe Shelley, English poet, 1792-1822) اور یا ہم خدا کے بھیجے ہوئے نبیوں کی طرز زندگی کو دیکھیں جن کی اخلاقیات اتنی خوبصورت تھیں کہ نہ صرف اُن کے اپنےساتھی بلکہ اُن کے دشمن بھی اس کا اقرار کرتے تھے۔ اور جن کے گزرنے کے ہزاروں سال بعد بھی ان کے کروڑہاماننے والے دنیا میں موجود ہیں۔ قرآن ہمیں مکمل آزادی دیتا ہے کہ ہم اپنی عقل سے ان چیزوں کا فیصلہ کریں اور مذہب میں زبردستی کا کوئی دخل نہیں۔ (سورۃ البقرہ آیت 257)اس لئے ہم پڑھنے والوں کو یہ دعوت دیتے ہیں کہ وہ ایک کھلے ذہن کے ساتھ ان دلائل کو پڑھیں اور سمجھیں اور پھر کسی نتیجہ پر پہنچیں۔
٭…٭…٭