تاریخ احمدیت

گھانا میں احمدیت کی ترقی کی ایمان افروز تاریخ کی چند جھلکیاں

(احمد طاہر مرزا۔ مبلغ سلسلہ گھانا)

[غانا(جس کا پرانا نا م گولڈ کوسٹ تھا)مغربی افریقہ کا ایک اہم ملک ہے۔آج سے 97سال قبل اس ملک میں حضرت مصلح موعود خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے ایک صحابی اورواقف زندگی مبلغ حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیّر کو وہاں کے بعض مسلمانوں کی درخواست پروہاں بھجوایا۔اوریو ں وہاں احمدیت کاپودا لگا۔آج 97 سال بعد خلافت احمدیہ کی زیر ہدایت و نگرانی وہ پودا نشو و نما پاتے ہوئے اللہ کے فضل سے نہ صرف یہ کہ ایک عظیم تناور درخت کی صورت اختیار کر چکاہے بلکہ اس کی ہر شاخ اس طرح پھولی اورپھلی اور مثمر بثمرات حسنہ ہوئی ہے کہ وہ ایک ایسے دلربا، سدا بہاراور جانفزا باغ میں تبدیل ہو چکا ہے جو اپنے خوشنما پھولوں اورپھلوں اور اپنی تروتازگی اور عظیم روحانی اور پاک تاثیرات کے لحاظ سے اپنی ایک منفرد عظمت اور شان رکھتاہے۔

انشاء اللہ تین سال کے بعد2021ء میں جماعت احمدیہ گھانا اللہ تعالیٰ کے بےانتہا فضلوں اوررحمتوں اور اس کی نصر ت و تائید کے متعدد نشانوں پر اظہار ِتشکر کے لئے اپنی صدسالہ جوبلی منارہی ہوگی ۔
سیّدنا حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصر العزیز نے مکرم احمدطاہر مرزا صاحب مبلغ سلسلہ گھانا کو جماعت احمدیہ گھانا کی تاریخ مرتب کرنے کی ذمہ داری سونپی ہے ۔اور وہ الفضل انٹرنیشنل کی درخواست پر جماعت احمدیہ گھانا کی روشن اور درخشندہ تاریخ کی بعض جھلکیاں قارئین الفضل کے علم و ایمان میں اضافہ کے لئےہمیں بھجوا رہے ہیں جو ان کے شکریہ کے ساتھ ہدیۂ قارئین ہیں ۔دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ انہیں اس کام کو پیارے آقا ایّد ہ اللہ تعالیٰ کی منشاء مبارک کے مطابق احسن رنگ میں انجام دینے کی سعادت اور توفیق بخشے ۔ ایسے احباب و خواتین جن کے پاس گھانامیں جماعت کی تاریخ سے متعلق کوئی اہم مواد یا تاریخی و نایاب تصاویر یا واقعا ت ہوں تو وہ مکرم امیر صاحب جماعت احمدیہ گھانا کے توسّط سے انہیں بھجواسکتے ہیں۔ (مدیر )]

برّ اعظم افریقہ میں احمدیت کا نفوذ حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام کے زمانہ 1895ء میں ہوا تھا۔اور مشرقی افریقہ (کینیا ،ممباسہ ،یوگینڈا،ماریشس)اس نور سے منور ہو چکا تھا بلکہ ہندوستان سے صحابہ مسیح موعود علیہ السلام کی ایک جماعت ان علاقوں میں بسلسلہ روزگار ریلوے لائن بچھانے،طبی خدمات کرنے اور دیگر کئی امور کے لئے اس زمانے کی برٹش کالونیوں میں موجود تھی۔ اور1898ء سے ان کا قادیان اور اخبار الحکم سے بذریعہ خط و کتابت رابطہ بھی ہوچکا تھا۔اورکئی احباب کو اللہ تعالیٰ نے بذریعہ خواب وہاں اطلاع دیدی تھی کہ امام مہدی آچکا ہے۔ جیسے حضرت عمر دین صاحبؓ (حجام)ابن احمد یار صاحب سکنہ قلعدار ضلع گجرات بیان کرتے ہیں کہ:

(رجسٹر روایات صحابہ نمبر 5 صفحہ 34-32)

غرض ملائکۃاللہ مسیح محمدی کا پیغام مشرقی افریقہ کی سرزمین میںپہنچا چکے تھے۔اور حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیر ؓ سے قبل 1915ء سے حضرت صوفی غلام محمد صاحب ؓمبلغ سیلون وماریشس،ماریشس مشرقی افریقہ میں تبلیغ اسلام کا فریضہ ادا کر رہے تھے۔

مغربی افریقہ میں احمدیت کا آغاز

سیدناحضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کو افریقہ میں تبلیغ کی تحریک کیسے ہوئی؟اس کے بارہ میں حضورؓ فرماتے ہیں:

’’مجھے افریقہ میں تبلیغ اسلام کی ابتدائی تحریک درحقیقت اس وجہ سے ہوئی کہ میں نے ایک دفعہ حدیث میں پڑھا کہ حبشہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا۔ اور مکہ مکرمہ کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا۔‘‘

[ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللہُ عَلَیْہِ وَسَلَّمَ یُخَرِّبُ الْکَعْبَۃَ ذُو السُّوَیْقَتَیْنِ مِنْ الْحَبَشَۃِ

(بخاری کتاب الحج، باب ھدم الکعبۃ حدیث1596)

فرمایا:

’’جب میں نے یہ حدیث پڑھی اسی وقت میرے دل میں یہ تحریک پیدا ہوئی کہ اس علاقہ کو مسلمان بنانے کی کوشش کرنی چاہئے تاکہ یہ انذاری خبر اللہ تعالیٰ کے فضل سے ٹل جائے اور مکہ مکرمہ پر حملہ کا کوئی خطرہ باقی نہ رہے۔ میں نے اپنے دل میں کہا کہ ہمیں بعض دفعہ منذر رؤیا آتا ہے تو ہم فوراً صدقہ کرتے ہیں جس کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ اگر کسی کی موت کی خبر ہمیں ہوتی ہے تو وہ صدقہ کے ذریعہ ٹل جاتی ہے۔ اور صدقہ کے ذریعہ موت کی خبریں ٹل سکتی ہیں تو کوئی وجہ نہیں کہ اگر افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنا لیا جائے تو وہ خطرہ جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے نہ ٹل سکے۔ چنانچہ میرے دل میں بڑے زور سے تحریک پیدا ہوئی کہ افریقہ کے لوگوں کو مسلمان بنانا چاہئے۔ اسی بنا پر افریقہ میں احمدیہ مشن قائم کئے گئے ہیں۔بے شک خدا تعالیٰ نے بعد میں اور بھی سامان ایسے پیدا کر دیئے جن سے افریقہ میں تبلیغ اسلام کا کام زیادہ سے زیادہ مستحکم ہوتا چلا گیا مگر اصل بنیاد افریقہ کی تبلیغ کی یہی حدیث تھی کہ افریقہ سے ایک شخص اٹھے گا جو عرب پر حملہ کرے گا اور خانہ کعبہ کو گرانے کی کوشش کرے گا۔ (نعوذباللہ)۔ مَیں نے اللہ تعالیٰ پر توکل کرتے ہوئے اس کے فضلوں کی امید میں چاہا کہ پیشتر اس کے کہ وہ شخص پیدا ہو جس کا احادیث میں ذکر آتا ہے ہم افریقہ کو مسلمان بنالیں اور بجائے اس کے کہ افریقہ کا کوئی شخص مکّہ مکرمہ کو گرانے کا موجب بنے وہ لوگ اس کی عظمت کو قائم کرنے اور اس کی شہرت کو بڑھانے کا موجب بن جائیں۔‘‘

( از الفضل قادیان 25مارچ 1920ء)

چنانچہ سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے مغربی افریقہ میں پہلا مشن قائم کرنے کے لئے حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کا انتخاب فرمایا جو اُن دنوں لنڈن میں فریضہ تبلیغ ادا کر رہے تھے۔
دوسری طرف پہلے گھانین احمدی چیف مہدی آپاہ مرحوم نے کیپ کوسٹ کے ایک شامی مسلمان تاجر سے حضرت ڈاکٹر مفتی محمد صادق صاحب ؓ کا پتہ لیا اور ان سے خط و کتابت کی اور پیسہ جمع کرکے سفید مبلغ منگوانے کے لئے لنڈن مشن کو بھیج دیا۔

حضرت مولانا عبد الرحیم نیّر صاحب رضی اللہ عنہ 9فروری 1921ء کو لنڈن سے روانہ ہوئے اور 19فروری کو سیرالیون پہنچے۔ تختہ جہاز پر مسٹر خیر الدین افسر تعلیم سیر الیون نے آپ کا استقبال کیا۔ اور20فروری 1921ء کو مسلمانوںکے مقامی مدارس اور مسجد میں آپ نے چار لیکچر دیئے۔ آخر تقریر کے بعد جو عیسائیوں کے لئے مخصوص تھی سوال و جواب بھی ہوئے ۔ پھر21 فروری 21ء کی صبح کو آپ نے سرکاری حکام سے ملاقات کرکے مسلمانوں کی تعلیمی حالت کی طرف توجہ دلائی اور اسی روز تیسرے پہر جہاز پر سوار ہو کر 28فروری1921ء کو ساڑھے چار بجے شام گولڈ کوسٹ (گھانا) کی بندرگاہ سالٹ پانڈ پر لنگرانداز ہوئے اور مسٹر عبدالرحمن پیڈرو( جو لیگوس نائیجیریا کے پڑھے لکھے مسلمان تھے) کے مکان پر Paying Guest کے طور پرقیام پذیر ہوئے۔

مکرم چیف مہدی آپاہ کی رؤیا

اُس وقت گولڈ کوسٹ عملاً عیسائیت کا مرکز تھا جہاں شمالی اور جنوبی نائیجیریا اور وسط افریقہ کے کچھ لوگ آباد ہوگئے تھے۔ اور اصل باشندوں میں صرف فینٹی ( Fanti )قوم مسلمان تھی جس کے چیف کا نام مہدی آپاہ تھا۔ حضرت مولانا نیّر صاحبؓ بیان کرتے ہیں کہ:

’’جس روز(28فروری1921ء کو) میںسالٹ پانڈ پہنچاامیر مہدی بیان کرتے ہیں کہ اسی شب انہوں نے رؤیا میں دیکھا کہ رسول خدا ﷺ ان کے کمرے میںداخل ہوئے ہیں۔ ‘‘

( از الفضل قادیان 19مئی 1921ء ص 6)

سوشل میڈیا کے کمالات میں ایک یہ بھی ہے کہ سینکڑوں پرانے ریکارڈبھی آن لائن کردئیے ہیں حتی کہ بحری جہازوں کے مسافران کی فہرستیں کہ کب کون کہاں سے کس بندرگاہ اور کس جہاز پر روانہ ہوا اور کہاں لنگرانداز ہوا۔ یہ سب ریکارڈ تلاش کے بعد مل سکتے ہیں۔ایسا ہی حضرت مولانا نیّر کے بارہ میں بھی سفری معلومات A R Nayyarکے تحت مل سکتی ہیں۔

آپ 9 فروری 1921ء کو انگلستان سے گولڈ کوسٹ گھانا میں احمدیت کی بنیاد ڈالنے کے لئے بروٹو بحری جہاز سے روانہ ہوئے۔یوں21فروری 1921ء کی شام پانچ بجے جب حضرت مولانا نیّر صاحب کا جہاز بروٹو سیرالیون سے روانہ ہوکر لائبیریا کے پانیوں کو چیرتے ہوئے 28فروری کی شام ساڑھے چاربجے سالٹ پانڈ پر لنگر انداز ہوتا ہے تو مغربی افریقہ کے ملک گھانا میں جماعت احمدیہ گھانا کی بنیاد پڑتی ہے۔

(نامۂ نیر از الفضل قادیان 5 مئی 1921ء)
(نیزالفضل قادیان فروری تا مئی 1921ء کے شماروں سے ماخوذ)

اگرچہ اس ملک میں اس سے قبل احمدیت کا پیغام پہنچ چکا تھا کیونکہ نائجیریا کے بعض احمدی مسلمان کسی نہ کسی حوالہ سے اس ملک میں موجود تھے۔تاہم اس سے قبل کوئی گھانین احمدی موجود نہ تھا۔البتہ اس بات کا امکان موجود ہے کہ اس سے قبل کسی گھانین احمدی نے احمدیت قبول کی ہوکیونکہ عدم علم سے عدم شئی لازم نہیں۔

گھانا میں اہل گھانا نے فروری مارچ کے مہینہ میں ہی حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے پیغام کو قبول کیا۔ 28فروری ویکم مارچ 1921ء میں جب مولانا عبد الرحیم نیر صاحب انگلستان سے بحری سفر کرتے ہوئے اور لیگوس سے ہوتے ہوئے ساحل سالٹ پانڈ گولڈ کوسٹ پر لنگر انداز ہوئے تو اس وقت ان کی کیا کیفیت ہوگی جبکہ اس ملک میں کوئی احمدی نہ تھا۔اور پھر بفضلہٖ تعالیٰ چند دنوں کے اندر ہی ہزارہا گھانین اسلام احمدیت قبول کرکے امام مہدی علیہ السلام اور آپ کے خلفاء کے بارہ میں موجودپیشگوئیاں کہ’’ وہ زمین کے کناروں تک شہرت پائے گا ‘‘کا مصداق بن گئے۔ دیکھا جائے تو سالٹ پانڈ بھی دنیا کا ایک کنارہ ہے۔ اُس وقت کے یادگارمناظر کی کیفیت کا نظارہ حضرت مولانا نیرصاحبؓ نے تھوڑا سا کھینچا ہے جب ایک موقعہ پر سالٹ پانڈ کے ساحل پر شب ہجراں میں نیلگوں آسمان سے باتیں کر رہے تھے جس کی کیفیت انہی کی زبانی سنتے ہیں۔ آپ تحریر فرماتے ہیں:

’’لیگوس نائیجیریاکی بے حد مصروفیت کے بعد سالٹ پانڈ میں ایک ہفتہ کا جزوی آرام ملنے سے خیالات میں تموج اور طبیعت میں کچھ روانی آ گئی ہے ۔ افریقہ کا صاف آسمان سر پر ایک گنبد نما خیمہ معلوم ہوتاہے جس پر چمکتے ہوئے تارے بہت دلربا معلوم ہو رہے اور نہایت خوبصورتی سے زینت سقف کا کام دے رہے ہیں اور میرا بے قرار دل آج تاروں کو یاد کر کے باتیں کر رہاہے اور بے اختیار میرے منہ سے برسوں پہلے کسی وقت نظر سے گزرا ہوا شعر جاری ہے ؎

تم بھی ہو تارے ہم بھی ہیں تارے

تم ہو سما کے ہم ہیں زمین کے

اس حالت وجدو سرور میں اور خیالات کے اس عالم میں ایک طرف سمندر آج بیحد شور مچا رہا ہے اور دوسری طرف ہوسا(Hausa) لڑکیاں و مرد پنجاب کے دیہاتیوں کی طرح آج صحرائی ڈھولوں اور نقاروں کو اس زور سے بجا رہے ہیں کہ الاماں! اور اس نقار خانہ کے شور کے ساتھ ان کا ناچنا ،چلانا مل کر نیند کو نہ صرف آنکھوں سے بلکہ احاطہ مکان سے دور پرے دھکیل رہاہے ۔اس حالت میں اگر بے چین بے آرام کو ئی چیز اس شورکے خاتمہ تک مصروف و خوش رکھنے کا موجب ہوئی تو ذیل کے چند اشعار ہیںجو ’’اکونہ‘‘ و’’پورب کی رہائش ‘‘ اپنے محبوب کے زمانہ کی یاد ۔’’ کرشن اوتار‘‘ و’’ کرشن لیلا‘‘کی تصنیف کے اوقات کی طرف متوجہ کرتے اور اپنی تبلیغی مشکلات کو آنکھوں تلے لاتے ہیں۔

میرے سر میں جنوں ہے دل میں جلن ۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

مجھے آتاہے یاد وہ سیمیں بدن ۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

ہائے وہ بھی تھے دن جب دیکھتے ہم ۔ وہا پنا صنم وہ اپنا بلم

جب یاد وہ آیا مسیحِ زمن ۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

تیری یاد میں آنکھوں سے اشک بہے ۔ ترے ہجر میں ہوش و حواس گئے

تری دید کی دل میں لگی جو لگن۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

ترے نور(٭1) سے ڈھارس من کو ملی ۔ ترے دین سے طاقت تن کو ملی

رہی تیری جدائی ہمیشہ کٹھن ۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

تیرے لخت جگر کی صورت ہے ۔ محمود(٭2) کی موہن مورت ہے

ہے وہ بھی ہے دور، ہے دور وطن(٭3) ۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

تیرے ہجر میں دیس بدیس پھری ۔ کھلے کیس بدل کے میں بھیس پھری

کئے وصل کی خاطر سارے جتن۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

مرے مولا اکیلی میں بندی تری۔ مرے سامنے رَن میں ہے فوج پڑی

میرا دشمن(٭4) بل پہ ہے اپنے مگن ۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

میری بیّاں پکڑ کے گلے سے لگا ۔میرے سینے سے سینے کو اپنے ملا

ہائے جلتی ہے سینے میں بِرہا اَگن۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

تیرا نیّر خستہ جگر ہے جہاں۔ اسے جنگ ہے برّ سے بحر سے واں

لیجو اس کی خبر تورے لاگی چرن ۔ مورا چین گیا موری نیند گئی

(نامۂ نیر ازالفضل قادیان 10نومبر 1921ء)

(1٭ حضرت مولانا نورالدین بھیرویؓ خلیفۃ المسیح الاول۔2٭ حضرت مرزا بشیرالدین محمود احمد خلیفۃ المسیح الثانیؓ۔3 ٭قادیان۔4٭دجال)

گھانا کی ابتدائی تاریخ احمدیت کی کچھ یادیں

قریباً1870ء میں غانا کے ایک میتھوڈیسٹ پادری جناب بنجامین سام (Benjaman Sam)نے ایک شخص جناب ابوبکر بن صدیق کے ہاتھ پر اسلام قبول کیا اور قبولِ اسلام کے بعد وہ بن یامین کہلانے لگے۔ جلد ہی انہوں نے اپنے ایک قریبی دوست کو بھی مسلمان بنالیا جس کا اسلامی نام ’’مہدی ‘‘رکھا گیا۔ یہ وہی چیف مہدی آپاہ(Appah)تھے جو گھانا میں احمدیت کے معمار اوّل بنے۔

جب مارچ1921ء کے ابتدائی ہفتہ میں حضرت مولانا نیر صاحب چیف مہدی آپاہ کے منتظر تھے مولانا نیر صاحبؓ نے اپنے خط میں اخبار الفضل قادیان کو لکھا کہ کیا عجب کہ اللہ تعالیٰ اس مہدی کو امام مہدی کے قبول کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔چنانچہ اگلے روز جب چیف مہدی آپاہ صاحب مرحوم استقبال کے لئے سالٹ پانڈ پہنچے تو اسی وقت اللہ تعالیٰ نے انہیں احمدیت قبول کرنے کی سعادت عطا فرمائی۔ اور کئی الٰہی نشانات پورے ہونے کے ساتھ ساتھ حضرت مولانا نیر صاحبؓ کی دلی خواہش کو قبولیت کا شرف بخشا گیا۔
وایں سعادت بزور بازو نیست

جناب بن یامین نے اپنے علاقہ میں اسلام کے فروغ کیلئے بڑی محنت کی اور جلد ہی ایک بہت بڑی تعداد ان کے پیروکاروں میں شامل ہوگئی۔ یہ پیروکار پہلے پہل تو اپنے چیف بن یامین کے گھر پر ہی نمازیں ادا کرتے اور دیگر دینی امور میں راہنمائی حاصل کرتے تھے۔ لیکن جلد ہی انہوں نے زمین کا ایک بڑا ٹکڑا حاصل کرلیا تاکہ وہ آزادی سے اپنے چیف کے ساتھ اجتماعی عبادات بجا لاسکیں۔ چنانچہ اس اراضی پر ایک نئے قصبے Kuro-Fofor کی بنیاد ڈالی گئی۔ یہ قصبہ اب بھیEkrawfo کے نام سے آباد ہے۔

یوسف نے خواب میں سفید رنگ کے بعض لوگوں کو اسلامی رنگ میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا
1915ء میں بن یامین کی وفات کے بعد ان کے معتمد ساتھی مہدی آپاہ(Appah )نے اس گروپ کی قیادت سنبھال لی۔ جنگ عظیم اول کے بعد چیف مہدی آپاہ کے ایک پیروکار یوسف نے خواب میں سفید رنگ کے بعض لوگوں کو اسلامی رنگ میں عبادت کرتے ہوئے دیکھا۔ جب یوسف نے اپنی خواب اپنے بزرگوں اور دوسرے لوگوں کو سنائی تو انہوں نے ایسے لوگوں کا پتہ چلانے کی کوشش کی جنہیں یوسف کی خواب میں اسلامی عبادات بجالاتے ہوئے دکھایا گیا تھا۔ یوسف کے ایک دوست نے انہیں بتایا کہ اس قسم کے لوگ ہندوستان میں بھی رہتے ہیں۔ چنانچہ یوسف اور اس کے دوستوں نے ہندوستان میں رہنے والے بعض مذہبی لوگوں کے ساتھ خط و کتابت شروع کی۔ اس خط و کتابت کے نتیجہ میں ہندوستان کے ایک مذہبی اسلامی گروپ(جماعت احمدیہ قادیان) کی طرف سے چیف مہدی آپاہ کو بتایا گیا کہ اگر کرایہ کے لئے تین سو پاؤنڈ سٹرلنگ کا انتظام کردیا جائے تو انہیں دینی تعلیم دینے کے لئے ہندوستان سے ایک مبلغ بھجوایا جا سکتا ہے۔تین سو پاؤنڈ کی رقم ان دنوں میں معمولی رقم نہیں تھی۔ چنانچہ چیف مہدی آپاہ اور ان کے مریدوں نے اپنی زمینیں اور قیمتی اشیاء گروی رکھ کر یہ رقم جمع کرکے ہندوستان بھیجی۔ اور پھر ایک لمبے انتظار کے بعد افریقہ کے لئے پہلے مبلغ احمدیت حضرت مولوی عبدالرحیم نیر صاحبؓ 1921ء میں سالٹ پانڈ کے ساحل پر اترے تو چیف مہدی آپاہ کی جانب سے بھجوائے ہوئے مقامی لوگ بھی آپؓ کے استقبال کے لئے وہاں پہنچے۔
پہلے سیکرٹری، بن یامین عیسیٰ کیلسون صاحب.

اس طرح غانا میں پہلے احمدیہ مشن کا قیام عمل میں آیا۔ چیف مہدی آپاہ نے مترجم کے فرائض انجام دینے کے لئے اپنے ایک کزن بن یامین عیسیٰ کیلسون کو مقرر کیا جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے ہی اسلام قبول کیا تھا۔ گویا بن یامین عیسیٰ صاحب غانا میں احمدیہ مشن کے پہلے سیکرٹری تھے۔ آپ بعد ازاں جماعت احمدیہ غانا کے پہلے صدر بھی مقرر ہوئے اور نومبر 1960ء میں اپنی وفات تک اس عہدہ پر فائز رہے۔

حضرت مولانا عبدالرحیم نیر صاحبؓ سب سے پہلے چیف مہدی آپاہ اور ان کے پیروکاروں کو تبلیغ کرکے مسیح موعودؑ کی غلامی میں لائے۔ چیف مہدی آپاہ نے حضرت مولوی صاحبؓ کی رہائش کا انتظام اپنے قصبہ کے قریبی بڑے شہر سالٹ پانڈ میں کروایا اور اس طرح سالٹ پانڈ میں غانا کا پہلا باقاعدہ احمدیہ مشن قائم ہوا۔ اور غانا کے کئی افراد نے بھی نہایت اخلاص کے ساتھ اپنی خدمات احمدیہ مشن کے سپرد کردیں۔19؍اکتوبر 1925ء کو چیف مہدی آپاہ کی وفات ہوئی اور انہیں ان کے دوست بن یامین کے پہلو میں دفن کیا گیا۔

(The Guidance Monthly Ghana Periodical June 1997)

گھانامیں احمدیت کا جوبیج بویا گیا آج ایک تناور درخت بن چکا ہے

آج 97سال بعد مئی جون2018ء میںاسی ساحل سالٹ پانڈ پر بیٹھ کر جب یہ عاجز ماضی کی طرف نظر دوڑاتا ہے تو زندہ خدا کے ہزاروں زندہ نشانات اور اس کی تجلیات جلوہ گر ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ کہاں وہ بزرگان احمدیت جنہوں نے یہاں درختوں کی جڑیں(کساوا، یام، کوکو یام،پلانٹین اورکوکویام کے پتے اور سہاجنا (Moringa) کے پتے وغیرہ ) کھاکر گزارا کیا اور ایک ہم ہیںکہ آج گھانا میںدنیا جہان کی تمام نعمتیں موجود ہیں یادوسرے ممالک سے منگوائی جاتی ہیں۔تاہم جو پہلے ہے وہ واقعی پہلے ہے۔ان بزرگان احمدیت کی قربانیوں کے انمٹ نقوش تاریخ احمدیت گھانا میں تا قیامت چمکتے دمکتے رہیں گے۔ان کی قربانیوں کا مقابلہ نہیں کیا جاسکتا اور آنے والے مورخین ہمیشہ انہیں خراج تحسین پیش کرتے رہیں گے۔اب تک جو کئی کتب و انسائیکلوپیڈیاز اور رسائل و جرائد میں جو مغربی افریقہ (گولڈ کوسٹ)میں احمدیت کے طلوع کا ذکر کرتے ہیں تو چیف مہدی آپا صاحب مرحوم ،بنیامین سائم صاحب مرحوم اور حضرت مولانا نیر صاحب کا ذکر کئے بغیر آگے نہیں بڑھتے۔گولڈ کوسٹ میں آکر واقعی اندازہ ہوتا ہے کہ ان مبلغین کی قربانیوں کو موجودہ حالات کے تقابلی تناظر میں پرکھانہیں جاسکتا۔ تاہم یہ بھی نظام قدرت ہے کہ ہر دور اپنی نوعیت کی قربانیوں کا متقاضی ہوتا ہے۔ان بزرگوں کی قربانیوں ایک یہ بھی پھل ہے کہ آج جامعۃ المبشرین اور جامعہ احمدیہ انٹرنیشنل گھانا انہی مقامات پر قائم ہیں جہاں ان ابتدائی مبلغین نے ان مقامات کے چپّہ چپّہ پر اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا تھا۔

مبلغین کے لئے نصائح

اُس دور میں سیدنا حضرت مصلح موعودؓ کی مبلغین سے کیا توقعات تھیں؟اس کا اندازہ ان ہدایات سے ہوتا ہے کہ جب23جنوری 1922ء میں گولڈ کوسٹ کے لئے دوسرے مبلغ حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب روانہ ہونے لگے توحضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے انہیں تحریری اور زبانی نصائح فرمائیںجن کا خلاصہ یہ تھا کہ:
(1) وہاں کی زبان سیکھیں (2) نہایت محبت اور حکمت سے کام لیں (3) وہ قومیں اپنے سرداروں کا بہت ادب کرتی ہیں اس لئے ان سے معاملہ کرتے وقت کوئی ایسی بات نہ ہو جو ان کو بری لگے۔ جب ان کو نصیحت کریںتو علیحدگی میں کریں۔ (4) ان کی دماغی قابلیت کے لحاظ سے تدریجاً علم دین سکھائیں۔ (5) ہمیشہ چست رہیں (6) اپنا کام کرتے وقت دوسروں پر نگاہ مت رکھیں۔ (7) اخلاق کا خاص خیال رکھیں اور حُکّام سے معاملہ کرتے وقت مناسب ادب سے پیش آئیں۔ (8) افریقنوں کا تاثر ہے کہ دنیا ہم سے نفرت کرتی ہے مگر آپ ان سے محبت کا معاملہ کریں۔ (9) عادات لباس اور کھانے پینے میں ہمیشہ کفایت مدّنظر رہے۔

( الفضل قادیان20 مارچ 1922ء صفحہ7)

مکرم چیف مہدی آپا مرحوم کا ذکر خیر

مکرم چیف مہدی آپا

جیسا کہ بیان کیا گیا اب تک کے ریکارڈ کے مطابق مکرم چیف مہدی آپا ہ ہی وہ پہلے احمدی بزرگ تھے جن کی دعوت پرسیدنا حضرت مصلح موعود ؓنے حضرت مولاناعبد الرحیم نیر صاحبؓ کو گولڈ کوسٹ (گھانا)روانہ کیا۔جماعت احمدیہ گھاناکے بانی بزرگ اُس وقت بہت بوڑھے ہوچکے تھے جب آپ احمدیت کے نور سے منور ہوئے اور قبول احمدیت کے چار سال بعد ہی 19؍اکتوبر 1925ء کو انتقال کرگئے ۔آپ کی قبر کو یہ سعادت حاصل ہے کہ تین خلفاء سلسلہ نے آپ کی قبر پر تشریف لے جاکر دعا کی ہے۔اور پھر سیدنا حضرت مصلح موعودؓ نے قادیان میں آپ کی نماز جنازہ غائب پڑھائی اورخطبہ ثانیہ میں آپ کا ذکر خیر کرتے ہوئے فرمایا:
’’نماز کے بعد دو جنازے غائب پڑھائے جائیں گے۔ احباب کو چاہئے اس میں شریک ہوں۔ پہلا جنازہ چیف مہد ی گولڈ کوسٹ(افریقہ) کا ہے جو فوت ہوگئے ہیں جو بہت مخلص احمدی تھے اور ابھی احمدی نہیں ہوئے تھے کہ انہیں رؤیا میں ایک سفید احمدی کے آنے کے متعلق بتایا گیاکہ مہدی معہودکی خبر دے گا۔ان کے نزدیک ہم بھی سفید آدمی ہیں۔گو انگریزوں کے نزدیک ہم کالے ہیں۔ان کی رؤیا کو ماسٹر عبدالرحیم نیر صاحب نے وہاں جا کر پورا کیا۔‘‘

(الفضل قادیان 10نومبر 1925ء)

افریقی ممالک کے لئے برکات کا نزول

سیدنا حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتےہیں کہ:

’’میری ہی ذرّیت سے ایک شخص پیدا ہو گا جس کو کئی باتوں میں مسیح سے مشابہت ہو گی۔ وہ آسمان سے اترے گا اور زمین والوں کی راہ سیدھی کر دے گا۔ وہ اسیروں کو رستگاری بخشے گا۔ اور ان کو جو شبہات کی زنجیروں میں مقیّد ہیں رہائی دے گا۔‘‘

(تذکرہ صفحہ 178)

سیدناحضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے یہ الہامات اس بات کی تائید کرتے ہیں کہ پسماندہ اور محکوم اقوام کی بیداری کا تعلق آپ کے زمانہ سے ہے اور پھر آپ کے زمانہ کے بھی اس حصہ سے ہے جو ’’مصلح موعود‘‘ کا زمانہ ہو گا۔ کیونکہ اس کے کاموں میں ایک ضروری اور اہم کام ’’اسیروں کی رستگاری‘‘ یعنی مغلوب و مقہور اقوام کو ذلّت و حقارت کے گڑھے سے نکال کر اور جھوٹے مذاہب اور رسم و رواج کے شکنجہ سے آزاد کر کے انہیں خدائے واحد کے آستانہ پر لانا تھا۔

عجیب بات ہے کہ 1944ء میں خدا تعالیٰ سے علم پا کر حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ ’’مصلح موعود‘‘ ہونے کا دعویٰ کیا اور اس کے بعد جلد ہی دنیا میں آزادی اور بیداری کی ایک لہر دوڑ گئی۔ مغلوب اور محکوم اقوام نے اپنے حقوق کے حصول کے لئے بھرپور کوشش شروع کر دی اور حاکم اقوام کو مجبور کر دیا کہ وہ ان کے ممالک سے اپنا بوریا بستر لپیٹ لیں۔ چنانچہ ایک طرف ایشیا کے ممالک پاکستان، بھارت، برما، ملائشیا، سنگاپور، انڈونیشیا اور ہند چینی کے علاقے غلامی کے بندھن تڑوا کر آزاد ہو گئے تو دوسری طرف افریقہ کے اکثر ممالک مثلاً کینیا، یوگنڈا، تنزانہ، صومالیہ، ماریشس، گھانا، نائیجیریا، سیرالیون، گیمبیا، لائبیریا، آئیوری کوسٹ اور دیگر کئی ممالک نے صدیوں بعد آزادی کی فضا میں سانس لینا شروع کیا۔جو ممالک 1944ء کے بعد آزاد ہوئے ان میں سے افریقی ممالک سب سے زیادہ پسماندہ تھے۔جہاں رہنے والوں کے لئے ترقی کے سب راستے بند تھے ۔

حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو اوائل زمانہ خلافت میں ہی ان علاقوں میں دلچسپی پیدا ہوئی۔ چنانچہ آپ نے 1921ء میں حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیر کو وہاں بھجوا کر وہاں کے رہنے والوں کی مادی اور روحانی ترقی کے پروگرام کی بنیاد رکھی۔ 1934ء میں مشرقی افریقہ کی طرف توجہ فرمائی اور وہاں باقاعدہ تبلیغی مشن قائم فرمایا۔ حضور رضی اللہ عنہ نے ان مشنوں کے قیام کی وجوہ پر روشنی ڈالتے ہوئے فرمایا:

’’بیرونی ممالک میں سے افریقہ کے باشندے ایسے ہیں جو تہذیب و تمدن سے کوسوں دور ہیں اور جن میں ہزاروں سال سے کوئی بیداری نہیں پائی جاتی تھی۔ تہذیب کا لہریں مارتا ہوا دریا جب افریقہ کی سنگلاخ زمین تک پہنچتا تو یوں معلوم ہوتا کہ وہ دریا اس کی ریت میں غائب ہو گیا ہے۔ چنانچہ 1872ء تک مسلمان پہلو بہ پہلو رہتے ہوئے اس میں داخل نہ ہو سکے۔ اور انہوں نے یہاں کی جہالت اور تاریکی کو دور کرنے کی کوشش نہ کی۔ بے شک عیسائیت نے اس طرف رخ کیا مگر عیسائیوں نے اس لئے رخ نہیں کیا کہ وہ ان اقوام میں اپنے حقوق کے حصول کے متعلق بیداری پیدا کریں بلکہ اس لئے کہ… وہ اقوام عیسائیوں کے پیچھے چلتی جائیں۔ یہی وجہ ہے کہ عیسائیت کے ماتحت سو سال میں بھی افریقن لوگوں میں بیداری پیدا نہیں ہوئی۔ یہ حالات اس طرح چلتے چلے آ رہے تھے کہ اللہ تعالیٰ نے اِذَا الْوُحُوْشُ حُشِرَتْ کی پیشگوئی پورا کرنے کے لئے ہمارے دل میں تحریک پیدا کی کہ ہم اپنے مبلّغ افریقہ میں بھجوائیں۔ چنانچہ نائیجیریا، گولڈ کوسٹ اور سیرالیون میں ہم اپنے مشن قائم کر چکے ہیں اور اب لائبیریا اور کچھ فرنچ علاقے ایسے ہیں جن میں مبلغ بھجوائے جائیں گے۔ اس طرح مغربی افریقہ میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے ایسی بیداری پیدا ہو رہی ہے کہ جس کی مثال پہلے کسی زمانہ میں نہیں ملتی۔‘‘

(روزنامہ الفضل ربوہ 25؍مارچ 1960ء)

افریقن عوام کے شاندار مستقبل کی خبر

سیدناحضرت مصلح موعودؓکو اوائل خلافت میں افریقن عوام کے شاندار مستقبل کی نسبت یہ خبر دی گئی کہ:
’’خدا تعالیٰ نے فیصلہ کر دیا ہے کہ افریقہ جو مسلمانوں سے عیسائیوں کے ذریعہ نکل چکا ہے اب آپ کے ذریعہ مسلمانوں کو دلائے اور خدا تعالیٰ کی غیرت کا وقت آ گیا ہے۔ اب سے پہلے خدا خاموش بیٹھا رہا جس طرح صیّاد جال کے نیچے دانہ ڈال کر بیٹھا رہتاہے اور جانوروں کو وہ دانہ جس پر اس کی قیمت لگی ہوتی ہے چننے دیتا ہے۔ مگر اب جب دنیا نے اپنی غلطی سے سمجھ لیاہے کہ اسلام مٹنے والا ہے خدا چاہتا ہے کہ حضرت مسیح موعودؑ کے ذریعہ اسے اکناف عالَم میں پھیلا دیا جائے۔

(تقدیرالٰہی }تقریر26؍ دسمبر 1919ء {مرتبہ منشی خواجہ غلام نبی صاحب بلانوی،ناشر تالیف و اشاعت قادیان، مندرجہ انوار العلوم جلد4صفحہ30-29)

پہلے گھانین احمدی جو جماعتی نمائندہ کے طور پر زیارت کے لئے ربوہ تشریف لے گئے۔ پھر وہ وقت آن پہنچا جب پہلے گھانین نے ربوہ کی مبارک سرزمین پر قدم رکھا اور جناب الحاج جے۔ سی۔ الحسن عطا صاحب مرحوم ، سابق پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ اشانٹی ریجن کماسی ، گھانا،(وفات15مارچ 1998ء بعمر96سال) پہلے گھانین احمدی1949ء میں ربوہ میں پہنچ کر تاریخ احمدیت گھانا کا ایک سنہری باب بن گئے۔ مکرم الحاج حسن عطاء صاحب مرحوم کو خلافت سے بے پناہ محبت تھی۔یہی وجہ تھی کہ آپ 1949ء سے لے کر 1986ء تک قادیان،ربوہ اور پھر لندن میں منعقدہ جماعت احمدیہ کے سالانہ جلسوں میں بلا ناغہ شریک ہوتے رہے۔ 1949ء میں آپ پہلے گھانین افریقی تھے جو جماعتی نمائندے کے طور پر زیارت ربوہ کے لئے تشریف لے گئے۔ اس کے بعد سے جب تک آپ کی صحت نے اجازت دی بلا ناغہ اپنے خرچ پر جلسہ ہائے سالانہ میں شریک ہوتے رہے۔ 1949ء میں جب آپ جماعتی نمائندہ کے طور پر ربوہ تشریف لے گئے تو خدام الاحمدیہ مرکزیہ نے آپ کے اعزاز میں ایک تقریب منعقدکی جس میںحضرت خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ عنہ بھی تشریف لائے اور انگریزی زبان میں تقریر فرمائی۔ جس میں آپ نے افریقہ کی آزادی (The Rise of Africa) کے بارہ میں پیشگوئی فرمائی۔ الحمدللہ یہ پیشگوئی بعد میں بڑی شان سے افریقی ممالک کی آزادی کے رنگ میں پوری ہوئی۔

(الفضل انٹرنیشنل 22/28مئی 1998ء)

سیدنا حضرت مصلح موعود ؓکا گھانین احباب کے نام پیغام

چنانچہ اس سلسلہ میںسیدنا حضرت مصلح موعودؓنے قیام پاکستان کے بعد براہ راست گھانین افریقن احمدیوں کے نام بھی ایک نہایت امید افزا پیغام دیا جو رسالہ ’’ ریویو آف ریلیجنز‘‘ کے ستمبر 1955ء کے شمارہ میں شائع ہوا ۔ اور یہ پیغام انہی گھانین احمدی جناب حاجی جے۔ سی۔ الحسن عطا صاحب مرحوم ، سابق پریذیڈنٹ جماعت احمدیہ اشانٹی ریجن (کماسی ، گھانا) (وفات1998ء بعمر90 سال)کے توسط سے ارضِ بلال تک پہنچا اور اس نے افریقن احمدیوں میں زبردست بیداری پیدا کر دی۔

حضرت مصلح موعودؓ کے اس تاریخی پیغام کے الفاظ حسب ذیل تھے:

I am reading the writing on the wall that there is a great future for your race. God does not forsake a race for all the times to come. Sometime,He gives opportunity to one nation and one continent and then He offers the same opportunity to another nation and other continent. Now is your time. You have been oppressed and ruled by others for a very very long time. Rest assured that your glorious time is fast approaching. People were made to think that yours is an inferior race. I can say about myself that in my young age , when I used to read books, in English, I used to think about your race as inferior one.But when I grew up and read the traditions and the Holy Quran, I came to know that it was all wrong. God has not made an exception of your people.

God mentions all races and nations as equal. When He sends any prophet in the world, He gives sufficient intelligence also to the men, who are addressed,to accept that prophet. If you have not sufficient intellegence or in other words are an inferior race then God frobid, it is His fault Who sent a prophet to a people who have no intellegence to accept him. But this is not the case . Islam says that Europeans, Americans, Asiatics, Africans and people in far off islands are equal. All of them have the same power of understanding, learning, memorising and inventing. Americans consider themselves as upper men.

They even hate Europeans The Europeans hate Asiatics. As far as Ahmadiyyat goes I assure you that we, (and when I say we, I mean myself and all the Ahmadies who follow me) consider all the people on earth as equal. All of us are equal and have the same powers. I assure you that during my life time I am not going to allow any Ahmadi to adopt the aforesaid mistaken ideas as prevalent in the world. Just as the Holy Prophet said that he would crush such ideas under his heels, so I assure you that I will also crush such ideas under my heels.

"So go and prove yourselves true Ahmadies. Tell your brothers that you went to Pakistan and Rabwah and found that in Pakistan also there are brothers , who feel for you and consider all Ahmadies as equal, and that you did not see Pakistanees rather Africans in different colours. They are looking towards their African brothers as their own kith and kin. I am expecting the same sacrifice from Africans and ask you to preach and convey the message of Islam to every corner of your country.”

"Rabwah will always look forward to you to bring every body in the Gold Coast into the fold of Ahmadiyyat, or the True Islam, the religion of God”.

(The Review of Religions, September 1955. P.532,533)

یعنی میں یہ نوشتہ دیوار پر پڑھ رہا ہوں کہ آپ کی (افریقن) نسل کے لئے ایک عظیم مستقبل مقدر ہے ۔ اس کا شاندار زمانہ قریب تر آ رہاہے۔ خدا نے ماضی میں بھی کسی قوم کونہیں چھوڑا نہ آئندہ نظرانداز کرے گا۔ وہ بعض اوقات کسی ایک قوم اور براعظم کو موقع دیتا ہے اورپھر ایک دوسری قوم اور دوسرے براعظم کو منتخب فرماتاہے۔ ایک لمبے عرصے تک آ پ لوگوںپر ظلم کیا گیا اور دوسروں کے محکوم رہے اب آپ کا وقت ہے ۔

لوگوں کو یہ سوچنے پر مجبور کیا گیا کہ افریقن ایک کمترقوم ہے۔ خود مَیںاپنے متعلق بھی کہہ سکتا ہوں کہ اپنے عہد شباب میں جبکہ میں انگریزی کتابیں پڑھا کرتاتھا تو میرا بھی یہی خیال تھا۔ لیکن بڑے ہوکر جب میں نے قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا تو مجھے معلوم ہوا کہ یہ سب کچھ غلط تھا۔ خدا تعالیٰ نے آپ کی قوم سے کوئی امتیازی سلوک نہیں برتا۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے کہ تمام نسلیں اورقومیں برابر ہیں۔ جب وہ کوئی اپنا فرستادہ دنیا میں بھیجتا ہے تو وہ کافی ذہانت اُن لوگوں کو بھی عطا فرماتا ہے جن کو مخاطب کیاجاتاہے کہ وہ اس رسول کو قبول کریں۔ اگر آپ کے پاس یہ ذہانت نہیں یا دوسرے الفاظ میں آپ ایک کمتر نسل ہیں تو معاذاللہ یہ خدا کا نقص ہے کہ ا س نے ایک ایسی قوم کی طرف اپنا ماموربھیجا ہے جو ذہانت سے خالی تھی کہ اس کوقبول کر سکے۔ لیکن معاملہ یہ نہیں ہے۔ اسلام کہتاہے کہ یورپ ، امریکہ، ایشیا ، افریقہ اور دوردرازجزیروں کے سب باشندے برابر ہیں۔ تمام کو قوتِ عقل او ر قوتِ علم و ایجاد عطا کی گئی ہے۔ گو امریکن اپنے تئیں ایک فوق البشر مخلوق سمجھتے ہیں اور یورپین سے بھی نفرت کرتے ہیں اور یورپ کے لوگ ایشیائیوں کو بنظر حقارت دیکھتے ہیں مگر جہاں تک تحریک احمدیت کا تعلق ہے میں آپ کو یقین دلاتاہوں ۔ (اور جب میں یہ کہتا ہوںتو میری مراد ان تمام احمدیوں سے ہے جو میرے متبع ہیں) کہ ہم سمجھتے ہیں کہ زمین پر بسنے والے تمام لوگ برابر ہیں ۔ ہم تمام برابر ہیں اور ایک جیسی صلاحیتیں رکھتے ہیں ۔ میں آپ کو یقین دلاتا ہوں کہ میں اپنی زندگی میں کبھی کسی احمدی کو یہ اجازت دینے کے لئے تیار نہیں ہونگا کہ وہ مذکورہ بالا خیالات کو جو دنیا میں رائج ہیں اختیار کرے۔ بالکل اسی طرح جس طرح آنحضرت ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ وہ ایسے خیالات کو اپنی ایڑیوں کے نیچے کچل دیں گے ۔ پس میں آپ کو یقین دلاتاہوں کہ میں بھی ایسے نظریات کو اپنے پائوں تلے مسل دونگا۔ پس جائیں اور اپنے آپ کو سچا احمدی ثابت کریں۔ اوراپنے بھائیوں کو بتائیں کہ آپ پاکستان گئے تھے اورربوہ میں بھی آپ نے بچشم خود دیکھا کہ پاکستان میں بھی آپ کے بھائی ہیں جو آپ کے جذبات کا احساس کرتے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ تمام احمدی برابر ہیں۔ اور یہ کہ آپ نے پاکستانیوں اور افریقن میں کوئی الگ رنگ نہیں دیکھا۔ پاکستانی اپنے افریقن بھائیوں کو اپنے عزیز و اقارب کی طرح دیکھتے ہیں ۔ میں افریقنوں سے بھی اسی قربانی کی توقع کرتا ہوں اور آپ سے کہتاہوں کہ آپ تبلیغ کریں اور پیغام اسلام افریقہ کے کونے کونے تک پہنچا دیں۔ربوہ ہمیشہ آپ کا انتظار کرے گا کہ آپ گولڈ کوسٹ کے ہر فرد کو احمدیت کی آغوش میں لے آئیں جو حقیقی اسلام اور خدا کا دین ہے۔

(تاریخ احمدیت جلد 18صفحہ 119-115)

افریقہ کے لئے فیضان خلافت

گھانا کے احباب 1921ء سے 1969ء تک اس خواہش کا اظہار کرتے رہے کہ خلیفۃ المسیح بھی اس سرزمین کو بنفس نفیس برکت بخشیں۔تاہم اللہ تعالیٰ نے ہر کام کے لئے ایک وقت مقررہ کر رکھا ہے۔چنانچہ 1970ء میں وہ مبارک گھڑی آن پہنچی جب سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ نے افریقہ کی سرزمین کا پہلا تاریخی دورہ فرمایا۔

اس دورہ کے دوران جب ایک اخباری نمائندہ نے آپ سے سوال کیا کہ آپ افریقہ میں کیسے اسلام کا پیغام پہنچائیں گے؟ تو آپ نے فرمایا:

We will win the hearts of People

(ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ)

اسی طرح ایک اخباری نمائندہ نے حضور سے سوال کیا کہ آپ کا ہم لوگوں کے نام پیغام کیا ہے؟توفرمایا:

Humans Let Humans Learn to Love

1970ء میں سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ نے ایک مجلس عرفان میں فرمایا تھا کہ :

’’حضرت مصلح موعود ؓ نے ایک موقعہ پر فرمایا تھا کہ افریقہ کو اللہ تعالیٰ نے ہمارے لئے رکھا ہوا ہے۔‘‘

( مجلس عرفان ایبٹ آباد 18 جولائی 1970ء ، از روزنامہ الفضل ربوہ 23 جولائی 1970ء )

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

اگلی قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button