ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
’’یقیناً زمین ظلم وجور سے بھر گئی ہے اور فساد نے نشیب و فراز کو گھیر لیا ہے۔ حقائق اپنے مقامات سے ہٹ گئے اور دقائق اپنے مراکز سے جدا ہو گئے ہیں۔ ملّت نے اپنی زینت کا لبادہ اتار دیا ہے اور شریعت نے اپنی شان و شوکت کی تلوار زیرنیام کر لی ہے۔ اس کے اندرونی اسرار اور اس کے باطنی رموز ضائع ہو گئے ہیں۔ اس کے بیٹوں اور پوتوںکی خون ریزی کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ آسمان بھی اس کے بیٹوں کے مرجانے اور اس کی غریب الوطنی پر گریہ کُناں ہے۔ اس کا ہر عضو بیمار ہو چکا ہے اور اس کی ہرعورت بانجھ ہو چکی ہے۔ پس اب وہ ایک بڑھیا ہے جو اپنی سب طاقتیں کھو بیٹھی ہے اور ایک عمر رسیدہ عورت ہے جس کی شکل وصورت اور چمک دمک ماند پڑ چکی ہے۔ اور اس کی زبان میں لکنت ہے جس کا باربار اظہار ہوتا ہے اور اس کے دانتوں پر پیلاہٹ غالب ہے۔ کیا یہ دین وہی دین ہے جو حضرت خاتم النبیین ﷺ لائے تھے اور جسے ربّ العالمین نے کامل کیا تھا؟ ہرگز نہیں۔ بلکہ یہ ان بدعتیوں کے ہاتھوں سے ہرطرح بگڑ چکا ہے جنہوں نے قرآن کو ٹکڑے ٹکڑے بنا رکھا ہے۔ وہ خود بھی گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی گمراہ کیا اور وہ سمجھ بوجھ رکھنے والے نہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے پاس سوائے چھلکے کے کچھ نہیں اور وہ حقیقت کے مغز سے ناآشنا ہیں۔ پھر بھی دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ علماء میں سے بلکہ مشائخ دین میں سے ہیں۔ ان کی زبانوں پر محض وہ قصے جاری ہیں جو ان کے باپ دادوں نے گھڑ لئے تھے۔ ان کے پاس سوائے آرزوئوں اور خواہشات کے کچھ نہیں رہا۔ ان کی جامع مسجدیں ایسے لوگوں سے بھری ہوئی ہیں جو عبودیت کے بھید سے ناآشنا ہیں۔ وہ ان الفاظ کو لے کر جھگڑتے ہیں جو انہوں نے خطا کار ٹولے سے سنے ہیں اور ان کے قدم روحانیت کے کوچوں میں نہیں پڑے۔ وہ نماز پڑھتے ہیں مگر نماز کی حقیقت نہیں جانتے۔ وہ قرآن پڑھتے ہیں مگر ربّ کائنات کے کلام کا فہم نہیں رکھتے۔ حق ظاہر ہو گیا ہے مگر وہ اسے نہیں پہچانتے۔ اللہ نے اپنے مسیح کو مبعوث فرما دیا ہے لیکن وہ اسے قبول نہیں کرتے اور اس کی تحقیر کرتے ہیں اور تعظیم نہیں کرتے اور نہ مومن ہو کر اس کی خدمت میں آتے ہیں۔ جب حق ان کے پاس آیا تو انہوں نے بضد اس کا انکار کیا جب کہ قبل ازیں وہ اس کے منتظر تھے۔ جب ان سے کہا جاتا ہے کہ اے لوگو! بھلائی کی طرف دوڑو اور وسوسہ ڈال کر پیچھے ہٹ جانے والے شیطان کے نقش قدم پر نہ چلو تو کہتے ہیں کہ تم گمراہوں میں سے ہو۔ انہوں نے میری تکذیب کی اور کماحقّہٗ تحقیق نہ کی۔ اور میرے پاس سے تکبر کرتے ہوئے ہی گزرتے ہیں اور جو بھی قرآن نے انہیں نصیحت کی تھی اسے بھول گئے ہیں اور نہیں جانتے کہ رحمان خدا نے کیا اتارا ہے اور اپنی عمریں غفلت میں گنوا رہے ہیں۔ اگر وہ قرآن کا عرفان رکھتے تو ضرور مجھے بھی شناخت کر لیتے لیکن انہوں نے کتاب اللہ کو اپنی پیٹھوں کے پیچھے بڑی دیدہ دلیری سے پھینک رکھا ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ تو مُرسَل نہیں ہے۔ اگر وہ حق کے طلبگار ہوتے تو اللہ اور اس کے نشانات گواہ ہونے کے لحاظ سے کافی ہیں۔ انہوں نے اپنی زبانیں گالی گلوچ اور توہین کرنے کے لئے وقف کر رکھی ہیں۔ انہوں نے قرآن کے خلاف ان ضعیف روایات سے مدد چاہی ہے جنہیں یقین کا کوئی جھونکا نہیں چھؤا ۔اللہ نے حق کو روشن فرما دیا ہے مگروہ سنتے نہیں اور راز سے پردہ ہٹا دیا ہے مگر وہ التفات نہیں کرتے۔ انہوں نے فرقان پڑھا مگر اس کے مدفون خزانوں کے اسرار پر اطلاع نہ پائی۔ وہ قرآن کے الفاظ میں جکڑے گئے ہیں اور قرآن کے بند خزانوں کی کنجیاں نہیں دیئے گئے۔ تو پھر کس طرح ممکن ہے کہ وہ اس راستہ سے صحیح سلامت واپس آسکیں۔ اس لئے وہ ٹیڑھے ہو کر راہِ تحقیق سے ہٹ گئے ہیں اور اس اعلیٰ شراب سے ایک گھونٹ بھی نہیں چکھا اور نہ وہ بصیرت رکھنے والے ہیں۔ پھر جب اللہ نے مجھے مسیح موعود بنایا اور عین ضرورت کے وقت مجھے سچائی اور حق کے ساتھ بھیجا تو وہ میری تکذیب کرنے، مجھے کافر ٹھہرانے اور قبیح ترین صورت میں میرا ذکر کرنے لگ گئے اور وہ اس سے باز آنے والے نہیں ۔ آفتابِ زمانہ اپنے غروب کو پہنچ چکا اور زندگی کا سانپ اپنے راستوں کا قصد کر چکا اور دنیا کا صرف تھوڑا سا وقت ہی باقی رہ گیا ہے۔ کیا وہ چاہتے ہیں کہ شیطان کی مقررہ میعاد اور طویل کر دی جائے؟ یقیناً ہمارا یہ زمانہ ہی آخری زمانہ ہے اور اُس نے اِس وقت تک بکثرت لوگ ہلاک کر دیئے ہیں۔ قبل ازیں آدم میدان کارزار میں گر گیا تھا اور شیطان نے اسے ہزیمت دے دی تھی اور چھ ہزار(سال) تک اس نے غلبہ نہ دیکھا۔ اس کی ذریت پارہ پارہ کی گئی اور مختلف سمتوں میں منتشر کر دی گئی۔ تو پھر کب تک شیطان کو مہلت دی جائے گی۔ کیا اس نے اللہ کے تھوڑے سے صالح بندوں کے سوا باقی سب لوگوں کو گمراہ نہیں کر دیا۔ پس وہ اپنا معاملہ پورا کر چکا اور اپنا کام مکمل کر چکا اور اب وقت آ گیا ہے کہ ربّ العالمین کی طرف سے آدم کی مدد کی جائے۔‘‘
……………………………………………………………
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 222تا226۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)