تاریخ احمدیت

گھانا میں احمدیت کی ایمان افروز تاریخ کی چند جھلکیاں (قسط نمبر 2)

(احمد طاہر مرزا۔ مبلغ سلسلہ گھانا)

خلافت احمدیہ کے زیر ہدایت و نگرانی گھانا (مغربی افریقہ) میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نفوذ اور اس کی روز افزوں ترقی کی روشن و درخشندہ اور ایمان افروز تاریخ کی چند جھلکیاں

مبلغ اسلام و احمدیت حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیّرؓکی زبانی 1921ء کے گھانا کی ایمان افروز یادیں

گزشتہ قسط میں ذکر ہوا تھا کہ 28فروری 1921ء کی شام نیّر احمدیت، حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیرؓ سالٹ پانڈ گھانا کے ساحل پر لنگر انداز ہوئے۔ 1921ء میں انہیں وہاں کس قسم کے حالات کا سامنا کرنا پڑا اور کس طرح اللہ تعالیٰ نے احمدیت کی نشو و نما کے سامان فرمائے۔ آئیے اس کا احوال خود حضرت مولانا نیر صاحب کی زبانی پڑھتے ہیں۔ کٹھن اور پُرمصائب حالات میں انہوں نے افریقہ میں احمدیت کی بنیادیں ڈالیں۔اور کس قدر اللہ تعالیٰ اپنی تائید ونصرت کے نشانات رؤیا و کشوف کے ذریعے ان مجاہدین کی حوصلہ افزائی فرماتا رہا۔

(اس دور کی الفضل قادیان میں شائع ہونے والی رپورٹس میں بعض نام جو سہو کتابت سے غلط شائع ہوئے ان کو اس مضمون میں درست کر دیا گیا ہے۔)

1921ء کاسالٹ پانڈ(Saltpond)

حضرت مولانا عبد الرحیم نیر صاحب تحریر فرماتے ہیں:

ہندوستان سے چودہ ہزار میل کے فاصلہ پر براعظم افریقہ کے مغرب میں گولڈ کوسٹ کی نو آبادی کے اندر ایک چھوٹا سا قصبہ سالٹ پانڈ کے نام سے مشہور ہے۔نو آبادی کے صوبہ وسطی کا صدر اورفینٹی قوم کا مرکزی مقام ہے۔آبادی صرف 4 ہزار نفوس ہے۔مقامی مسلمان کوئی نہیں۔بورنو سے آتے ہوئے ہاؤ سالوگ یالیگوس کے باشندے مسلمان ہیں۔جو بغرض تجارت یہاں آتے ہیں۔ان لوگوں نے مسجدیں بنائی ہیں۔دو مسجدیں ہیں۔اصل آبادی تمام عیسائی یابت لوگوں پر مشتمل ہے۔دو مسیح مدارس دو گرجا ہیں۔انہیں سے ویزلین گرجا(Methodist Church) بہت شاندار ہے۔نصف درجن سے زیادہ یورپین یہاں کام کرتے ہیں۔جو ہر سال یا 18 ماہ کے بعد چھ ماہ کے لئے ولایت چلے جاتے ہیں ۔رومن کیتھولک پادری فرانسیسی ہیں۔ویزلین (میتھوڈسٹ)دیسی ہے۔مسیحی مدارس و مشن اب اپنا خرچ نکالنے کے قابل ہیں۔کیونکہ گرجوں کے ممبر متمول رءوسا اور عہدہ داران سرکاری ہیں۔گرجوں کو چندہ نہ صرف مسیحی دیتے ہیںبلکہ سفید آدمی کارعب بت پرستوں پر بھی طاری ہےاور وہ بھی برابر گرجوں کے چندوں میں حصہ لیتے ہیں۔ہمارا دوست مسٹر عبد الرحمن پیڈرو جولیگوس (نائیجیریا)کا رہنے والا ہے۔صرف ایک پڑھا لکھا مسلمان ہے۔اور اچھا عمدہ صاف ذاتی مکان رکھتا ہے۔جہاں میں عارضی طور پر ٹھہرا ہواہوںاور مسٹر پیڈروکا(Paying Gusest) اپنے خرچ پر رہنے والا مہمان ہوں۔

فینٹی مسلمان اور سفید مبلغ کی ضرورت

علاقہ فینٹی ( Mfantse)میں 1876 ء سے اسلام شروع ہوا۔اور اس وقت چارہزار سے زیادہ فینٹی مسلمان۔ان لوگوں میں ایک خاص نظام ہے۔گواَن پڑھ ہیں۔مگر نظام کے پابند ہونے کے سبب ان کی ہستی قائم ہے۔ہر مقام پرایک امیر ،ایک امام اور ایک مؤذن اور مسجد ہے۔امیر Elder کہلاتا ہے۔اور ان سب امیروں پر ایک امیر المومنین یا چیف ہے۔اس وقت ان مسلمانوں کا امیر اعظم مہدی نام بوڑھا فینٹی چیف ہے۔(Kojo Adoagyir Appah)چیف مہدی آپاہ مرحوم،وفات 19؍اکتوبر1925ء۔مرتب)اس خدا پرست بوڑھے نے 45 برس ہوئے اسلام قبول کیا۔اور اس وقت سے برابر تبلیغ میں مصروف رہا۔اور جس قدر فینٹی مسلمان ہیںاس کی کوششوں کا نتیجہ ہیں۔اس کی آنکھیں خراب ہوگئی ہیں اور بہت بوڑھا ہے۔اسے غم ہوتا کے اس کے بعد یہ مسلمان جو جاہل ہیںجن کو اسلام درست طور پر نہیں سکھایاگیاکہیں مرتد نہ ہو جائیںاور سفید عیسائی مسیحی کے رُعب میں آکر اسلام کو خیرباد نہ کہ دیں۔اس لئے اس کی سعید روح کو خیال ہوا کہ ایک’’سفید مبلغ‘‘بلایا جائے۔کیپ کو سٹ سابق پایہ تخت گولڈ کوسٹ میں اس کو ایک شامی مسلمان ملا جو بغرض تجارت وہاں رہتا ہے۔اس نے مفتی محمد صادق صاحب کا پتہ دیا۔اور چیف مہدی نے روپیہ جمع کر کے لنڈن بھیج دیا تا سفید مبلغ سیاہ فام لوگوں میں آئے اور تبلیغ اسلام کرے۔

اکرافل مرکز مسلمانان فینٹی میں پہلا دربار

چونکہ دو سال سے مبلغ کی آمد تھی ۔مگر ہماری طرف سے التوا پر التوا ہوتا رہا۔عوام میں ایک قسم کی بد گمانی سی پیدا ہو گئی تھی ۔اور کہنے لگے تھے کہ روپیہ ضائع ہو گیا۔کوئی سفید آدمی نہیں آئے گا اور سفید آدمی مسلمان ہی نہیں ہوتے۔میں نے بھی انگلستان سے اپنی روانگی کی اطلاع نہ دی۔ سیرالیون سے ایک تا ر دیا۔اور دوسرا سکنڈی (بندرگاہ) سے ان تاروں پر چنداں اعتبار نہ کیا گیا۔جب میرے یہاں پہنچنے کی خبر ہوئی تو خاص آدمی مختلف گائوں سے خبرکی تصدیق کے لئے بھیجے گئے اور بالآخر امیر کا نقیب آیا کہ مجھے دیکھ جائے ۔اس تسلی کے بعد 11 مارچ کو اکرافل نام مقام میں جہاں امیر مہدی رہتے ہیںجلسہ قرار پایا۔اور میں مع ترجمان موٹر میں (کیونکہ اس ملک میں اور کوئی سواری نہیں۔گھوڑے ،اونٹ ،گدھے،بیل مفقود ہے)ساحل سے 24 میل اندرون میں گیا۔اور میرا مسلمانان فینٹی سے باقاعدہ تعارف کرایا گیا۔

افریقہ کے ایک گائوں میں غریب ،جاہل مگر مخلص لوگوں کا یہ مجمع قابل تذکرہ اور میرے سفر تبلیغ کا اہم واقعہ ہے۔امیر کے چوبی (لکڑی کے) مکان کے سامنے 500 آدمیوں کا ایک مجمع تھا۔اور بوڑھا مہدی بدوی لباس(مقامی لباس) پہنے اس مجمع میں اپنے امراء کے حلقہ کے اند ر بیٹھا تھا ۔ میرے لئے دوسری طرف میز لگایا گیا۔میرا ترجمان مساجد کے امام میرے اردگر د تھے۔نقیب نے عصائے منصب ہاتھ میں لے کر امیر اور اس کے اعضاء کی طرف سے مجھے خوش آمدید کہا اور اس کے بعد خود امیر مہدی نے تقریر کی جس کاخلاصہ یہ تھا:

’’پینتالیس برس ہوئے میں مسلمان ہوا۔مجھے صرف اللہ اکبر آتا تھا اور یہی میرے ساتھ کے دوسرے مسلمان جانتے تھے۔اس وقت نہ ہاؤسالوگ، بورنر کے مسلمان باشندے اورنہ لیگوس کے مسلمان آئے تھے۔یہ سب لوگ بعد میں آئے اور ان لوگوں نے ہمیں اسلام سکھایا ۔ہم جاہل ہیں ۔اسلام کا پورا علم نہیں۔سفید آدمی مسیحیت سکھانے آتے ہیں ۔میں بوڑھاہوں ۔مجھے فکر تھی کہ میرے بعد یہ مسلمان مسلمان رہیں۔میں خدا کا شکر کرتا ہوں کہ میری زندگی میں آپ آگئے اور اب یہ مسلمان آپ کے سپرد ہیں۔ ان کو انگریزی و عربی پڑھائی جائے۔دین سکھایا جائے۔‘‘

اس تقریر کا جواب میں نے تسلی آمیز الفاظ میں دیا اور بتایا کہ اللہ نے تمہاری دستگیری کی اور تمہاری سعادت کو دیکھا۔اور اس جماعت کی طرف سے مبلغ آیاجو زندہ اسلام پیش کرتی ہے۔اورجو اس زمانہ میں صحابہ کی مثیل جماعت ہے۔میری آنکھوں نے مسیح موعود مہدی معہود کو دیکھا۔ میرے کانوں نے اس کے مقدس منہ سے نکلتے ہوئے الفاظ کو سنا۔ میرے ہاتھوں نے اس بر گزیدہ پہلوان اسلام کے پائوں کو چھؤ ا ۔پس مبارک ہو کہ خدا نے تمہاری مدد کی۔اور اب انشاء اللہ فینٹی مسلمانوں کی تعلیم و تربیت کا کام احمدی جماعت کرے گی۔
خطبہ جمعہ عربی میں

چونکہ یہاں خطبہ جمعہ عربی میں پڑھنے کا رواج ہےاور رواج کو اچانک توڑنا مشکل کام ہے۔اس لئے مسٹر پیڈرو نے مشورہ دیا کہ پہلی مرتبہ خطبہ عربی ہی میں پڑھا جائے۔انگریزی کی نسبت عربی سمجھنے والے لوگ فینٹی مسلمانوں میں زیادہ ہیں۔اس لیے خطبہ عربی میں پڑھا گیا۔اور اس میں وفات مسیح اور حضرت مسیح موعود کی آمد سے اور اسلام کے اصولوں سے حاضرین کو اطلاع دی گئی۔میری زندگی میں یہ پہلا موقع ہے کہ میں نے عربی میںموعظ کیا۔میں خود حیران ہوں کہ یہ جرأت اور توفیق کس طرح ملی۔ذالک فضل اللہ یؤتیہ من یشاء ۔

رؤساء کا نذرانہ

رءوسائے فینٹی نے عاجز کے اکرام میں نذریں پیش کیں۔اور یہ نذریں اشیا ئے ذیل پر حسب مراتب مشتمل تھیں۔کوئی انڈے لایا۔کوئی مرغی لایا۔کوئی یام (مقامی سبزی، )لے کر آیا۔کوئی کیلے اور ناریل اور ایک بڑا آدمی بھیڑ لایاجو اس ملک میں 45روپیہ پر ملتی ہے۔اور اس کا گوشت واقعی بہت مچرب تھا۔یہ سب تحائف شکریہ کے ساتھ قبول کر کے میزبان کے سپر د کئے گئے۔اور لوگوں کا اخلاص دیکھ کر مسیح پاک پر اور آپ کے آقا پر درود بھیجا ۔اور ان غرباء کے لیے دعاکی۔

اکرافو کی واپسی

امیر مہدی نے درخواست کی کہ میں اکرافو میں ایک ہفتہ ٹھہروں ۔گو آب و ہوا،خوراک کی بے انتظامی،میری کمزور طبیعت، اجازت نہ دیتی تھی کہ میں ساحل سے دور ٹھہروں مگر ان لوگوں کے اخلاص کو دیکھ کر میں نے منظور کر لیا کہ اچھا میں کل سالٹ پانڈ سے واپس آجائوں گا۔اس وعدہ کے مطابق عاجز 12 مارچ کو اکرافو واپس آیا اور ایک ہفتہ ٹھہرا ۔گائوں کے لوگوں کو جمع کر کے جن میں گائوں کابت پرست نمبردار بھی تھاتبلیغ کی۔اور چند تعلیم یافتہ مسیحی نوجوان جن میں ایک بیرسٹر تھاملنے کے لئے آئے اور بائبل کی پیشگوئیاں، اسلام کی تعلیم، حضرت مسیح موعودؑ کی بعثت کا پیغام سن کر بہت خوش گئےاور پھر کبھی ملنے کا وعدہ کیا۔کوئی تعجب نہیں کہ اللہ تعالیٰ ان کو جلد اسلام میں داخل کرے ۔مسلمان یہاں بھی عام طور پر غریب و مفلس ہیں۔مگر مسیحی بت پرست اکثر مالدار ہیں۔

تبلیغ کا کام سہل نہیں،بہت غریب ہندوستانی گولڈ کوسٹ کی نذر ہو چکے

ہمارے بعض دوست یہ خیال کیا کرتے ہیں کہ مبلغین کی زندگیاں راحت و آرام سے گزرتی ہیں۔میں گو لنڈن میں بھی کثرت کام سے گھبرا کر حلق بیٹھے ہوئے اور جسم تھکا ن سے چور ہونے کی حالت میں اس خیال کی غلطی کا احسا س کیا کرتا تھا۔مگر افریقہ نے تو یہ امر ثابت کر دیا کہ تبلیغ جان جوکھوں کا کام ہے۔اگر آپ میری خوراک پر نظر کریں تو آپ سادہ شوربا جس میں گھی یا مکھن نہیں ملاحظہ کر یں گے ۔پانی کی جگہ چائےاگر نہ پی جائے تو خطرہ ہے کہ کہیں گنی ورم(Guinea Worm)جو آج بھی یہاں موجود ہے) ایک قسم کا کیڑا اندر نہ چلا جائے ۔کیونکہ پانی ،دریا یا بارش کا ہے۔دودھ نام کو نہیں۔ڈبوں کے دودھ کا استعمال ہے اور ایک چھوٹا گلاس 12آنہ کو ملتا ہے۔روزانہ 5گرین کونین اگر نہ کھائوں تو بخار کی آمد کا خطرہ ہے۔اگر فروٹ سالٹ نہ پیئوں تو قبض ہو جاتی ہے۔ بہت غریب ہندوستانی گولڈ کوسٹ کی نذر ہو چکے ہیں ۔اور 45یو رپین پادریوں کی ہڈیاں ،افریقہ کے اس ساحل کی خاک میں مدفون ہیں ۔ہندوستانی ،سندھی سودا گر سات ماہ کے بعد اپنے آدمی لاس گیلیانس جزائر(Las Galianas) لاس مالپیس (Las Malpias) جزائر،کینیرے میں تبدیل کر دیتے ہیں اور یو ر پین حکام و سودا گر و پادری اٹھارہ ماہ بعد چھ ماہ کی رخصت پر ولایت چلے جاتے ہیں۔

غرض افریقہ کے ا س ساحل پر تبلیغ کا کام جہاں تک جسمانی آرام کا تعلق ہے سہل نہیں۔باوجود ان حالات کے میں نے اپنے میزبان امیر مہدی کی درخواست قبول کی۔اور 18 میل موٹر میں جا کر افریقہ کے چار میل مگر ہندوستان کا 3 گھنٹہ کا راستہ جنگل میں سے پیدل چل کر طے کیا۔

سورج نیّر سے باتیں کرنی چاہتا تھا

سورج نیّر(مولانا عبدالرحیم) سے باتیں کرنا چاہتا تھا۔پیاس مجھ سے جنگ کر رہی تھی۔پیاس بجھانے کی گولیاں جو میرے دوست مسٹر سکواجی مینجر کارخانہ ادویات بوئس نے میرے ساتھ کر دی تھیں ،اب کام نہ دیتی تھیں۔قریباََ غش کا سا عالم تھا۔اور علاقہ ہمیر پورمیں قصبہ ’’راٹھ‘‘ جاتے ہوئے کل پہاڑ نام مقام پر جس طرح مجھے غش آیا تھااور جس طرح ’’رو پڑ‘‘سے واپسی پر ستلج عبور کر تے ’’راہوں‘‘ آتے ہوئے حالت تھی۔(ہندوستان کے علاقے)وہی سماں تھا۔مگر ہندوستان میں پانی مل سکتا تھا۔شربت مہیا تھا ۔دودھ کی لسّی میسر تھی۔اور پھر محمد یوسف نور کا ساتھ تھا۔یہاں نہ کوئی میری سمجھ ہے اور نہ میں ان کو سمجھ ہوں۔ترجمان he کی جگہ she اور she کی جگہ he بولتا ہے۔اور بعض اوقات پورے طور پر مطلب نہیں سمجھتا۔ایسی حالت میں غریب نیم برہنہ مسلمان مرد و عورتیںسفید آدمی کے دیکھنے کی غرض سے جمع تھیں۔میرا دل ایک طرف رونے کو چاہتاتھا اور دوسری طرف غریب مسلمانوں کی محبت پر خوشی سے پُر تھا ۔شدت پیاس سے مجبور ہو کر سٹرا ہوا ،بدبو دار پانی پینے پر آمادہ تھا کہ ایک مسلمان ناریل توڑ کر اس کا پانی لایا۔اور میں نے اللہ کا شکر ادا کرکے پی لیا۔اور راستہ میں تین دفعہ ناریل کاتازہ پانی پی کر گزاراہ کیا اور اللہ کا شکر ادا کیا۔
صاحب !چائے نہیں۔ سالٹ پانڈرہ گئی

غریب امیر کے شہر پہنچ کر جب ملازم سے کہا کہ چائے بناؤ اور چند منٹ اس امید میں صرف کئے کہ چائے اب آتی ہے۔ تو ملازم نے آکر کہا:

Tea no maisa Saltpond left.صاحب چائے نہیں۔ سالٹ پانڈرہ گئی ۔اللہ ہی جانتا ہے کہ قلب کی کیا حالت تھی اور کس طرح اللہ اللہ کر کے رات کاٹی۔صبح کو چھ میل پر کے ایک گائوں سے چائے کا چھوٹا ٹین تین روپے میں خرید کر دیا۔اور پانی کی مشکل رفع ہوئی۔

ان امور کے ساتھ اگر اس امر کو بھی شامل کر لیا جائے۔قادیان سے روپیہ نہیں پہنچا۔غریب دیہاتی کامل نظام نہ ہونے کے باعث اخراجات برداشت نہیں کر سکتے۔خرچ لنڈن سے زیاد ہ ہے۔تو پھرمیرے مشکلات کا اندازہ ہو سکتا ہے۔اور میر ا کام آسان نہیں۔ہاں میں یہ کہنا بھول گیا کہ بورنو کے ہاؤ سا(Hausa) لوگ جو مسلمانوں کے ایک طرح مذہبی حکمران رہے ہیںمیری آمد کے مخالف اور میرے مخالف ہیں۔الحمدللہ میں بہت خوش ہوں

الحمدللہ کہ میں بہت خوش ہوں۔باوجود ان مشکلات کے میں بہت خوش ہوں اور اللہ تعالیٰ کے فضلوں پر نازاں ہوں۔سرد عیش و عشرت کے ملک سے رخصت ہو کر گرم سخت زندگی کی سر زمین میں کام کرنے پر رضا مند ہو کر بطیب خاطر یورپ سے افریقہ آگیا اور اللہ کا شکریہ ادا کرتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے میری اس ناچیز قربانی کو قبول کیا۔اور اس قلب کو جو اس امر پر رضا مند ہےکہ اگر جان بھی جائے تو کیا

؎ جان دی دی ہوئی اسی کی تھی
حق تو یہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا

دیکھ لیا۔میں نے ان ایام میں حضرت سرور کائنات ﷺ کی زیارت کی۔اور پھر سیدنا مسیح پاک ؑکو دیکھا۔اور حضرت خلیفہ اول و خلیفہ ثانی کی زیارت کی۔مولوی سید سرور شاہ صاحبؓ ،شیخ اسمعیل صاحب سرساویؓ، اخویم قاضی عبد اللہ صاحبؓ،عزیز الدین صاحب ؓلنڈن اور عبد السلام خلف حضرت خلیفہ اولؓ کو دیکھا اور ان سب کے علاوہ حضرت حسّان رضی اللہ تعالیٰ کی زیارت کی ہے۔یہ سب رؤیا ،مبشر اور ان مشن کی قبولیت پر دال ہیں اور الحمد للہ کہ میںاس عزت پر خوش ہوں۔

Ekrawfo میں دوسرا جلسہ 18مارچ1921ء

18 مارچ کو دوسرا جلسہ اکرافوEkrawfo ) (میں قرار پایا تھا۔اور پنجشنبہ (جمعرات)کی شب سے جلوس آنے اور میرے مکان (جو سرخ پردوں سے دیہاتی طرز پر آراستہ ہے)کے سامنے سے گزرنے شروع ہوئے۔ ہر جلوس کے ساتھ ایک جھنڈا اور نعت پڑھنے والے ہیں۔نعت پڑھنے والے صل علیٰ محمد سیدنا محمد صل علیٰ محمد سیدنا محمد اپنے افریقی لہجہ و ادا میں عجیب طرح جسم ہلا کر پڑھتے ہیں۔ مگر یہ منظر قابل دید اور نہایت سرور پیدا کرنے والاتھا ۔حضور میرے قلب میں تو تعریف الٰہی کی نہریں جاری تھیں۔میں اپنی سابقہ و موجودہ حالت پر غور کر تا، اپنی حیثیت و اپنے علم کو دیکھتا اور اپنے آپ سے سوال کرتا کہ یہ مجمع اور جلوس کس لئے ہیں؟لوگ عمدہ عمدہ لباس پہن کر کیو ں آتے ہیں ؟رسول اللہﷺ کی نعت کیوں پڑھی جاتی ہے؟ان سوالات کا جواب ایک نہایت دل لبھانے والی دھیمی دلربا آواز نے بالفاظ ذیل دیا۔

’’تمہاری آمد کی خوشی پرمیر ی آمد ہاں ہاں تمہاری آمد پر ۔آنسوئوں کی بوچھاڑ اور زبان کی تیز حرکت کے ساتھ مغرب سے طلوع ہونے والے نیّر نے جلوس کے ساتھ صل علیٰ محمدِِ سیدنا محمدِِصل علیٰ محمدِِ سیدنا محمدِِ پڑھا اور مسیح موعود اور اس کے مقدس خلفاء پر سلا م بھیجے۔

یہاں پر یہ لکھ دینا بے محل نہ ہو گا کہ راستہ میں ایک گائوں کے مسلمان مردوں اور عورتوں نے نعتیہ جلوس نکالا او ر مجھے حلقہ میں لئے صل علیٰ محمدِِ پڑھتے اور ناچتے ہوئے اپنے گائو ں کے سردار کے پاس لے گئے۔جہاں ترجمان کی مدد سے میں نے اس پر سردار کو تبلیغ کی۔اور اس اظہار اخلاص کے طور پر ملاقات باز دید کی اور پانچ شلنگ کی نذر پیش کی۔ یہ چھوٹا سا واقعہ ہے۔مگر ان مسلمانوں کی محبت کا اظہار کرتا ان کے قلب کی حالت بتاتا اور ان کے نیم برہنہ ہو کر گانے اور ناچنے کی جاہلانہ قابل اصلاح رسم کا انکشاف کرتا ہے۔آہ کام بہت۔ وقت کم۔ آدمی کمیاب ہیں۔ہر جگہ خرچ کی ضرورت ۔دل چاہتا ہے کہ محمد رسول اللہؐ کا نام لینے والے یہ غربا ء اپنے پڑوسی عیسائیوں کی طرح تعلیم یافتہ خوشحال اور مہذب ہوں۔

ایک ہزارکاجلسہ

ساڑھے گیارہ کی صبح میرے مکان کے سامنے چوک میں قریباََایک ہزار مخلوق خدا کا مجمع تھا۔بعض 40 اور 50 میل سے چل کر آئے تھے۔نقیب کی آواز پر محمد رسول اللہ کے بروز مسیح موعود کا ادنیٰ غلام سبز پگڑی اور لمبا چغہ پہنے حضرت بلالؓ کے ہموطن اور ہمرنگ لوگوں کے مجمع میں پیغام حق سنانے کے لئے اپنی فرود گاہ سے اترااور سر جھکا کر ادب سے کھڑے ہوئے۔امراء و عوام کو السلام علیکم کہہ کر بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ اور سورۃ جمعہ کی تلاوت کر کے انبیاء خلفاء کے کام بتا کر (جیسا کہ منصب خلافت میں ہے)مسیح موعود کی آمد اور فینٹی لوگو ں پر اللہ کے فضل کا اظہار کیا اور ان کو دعوت دی کہ وہ مع اپنے کل متبعین جماعت احمدیہ میں شامل ہو جائیں۔اور خلیفہ ثانی کا قائمقام ہونے کی حیثیت سے میں جو اصلاحات چاہوں ان پر توجہ کریں۔ساڑھے گیارہ بجے سے ڈیڑھ بجے تک تقریر رہی اور ترجمان نے خوب حق ترجمانی ادا کیا۔جزاہ اللہ۔ اسکے بعد خطبہ جمعہ میں جو انگریزی میں پڑھا گیااور جس کا ترجمہ ترجمان نے ساتھ ساتھ کیاتقریر کو جاری رکھا گیا اور ضروری نصا ئح کے ساتھ تبلیغ حق اور رسومات کی اصلاح اور سچی مسلمان بننے کی ہدایت کی۔

مجوزہ اصلاحات

ان غریب مسلمانوں کی ہر بات قابل اصلاح ہے۔نماز میں اصلاح کی ضرورت ہے۔عادات میں اصلاح کی ضرورت ۔شادی و مرگ کی رسومات قابل اصلاح ہیں۔علیم طرز زندگی بدلنے کے قابل ہیں۔مگر یہ سب باتیں آہستگی کے ساتھ ہونگی اور میں نے اپنی تقریر میں کہا کہ اصلاحات تو بہت ہیں جو آپ لوگوں کو کرنی ہوں گی۔مگر سردست میں ذیل میں چند باتوں کی طرف توجہ دلاتا ہوں۔ اور وہ یہ ہیں۔

1۔آپ لوگوں کے رخساروں پر جو صلیب کا نشان بچپن میں چاقو سے گودا جاتا ہے جو چہرے کو خراب کرتا اور پھر غلامی و عیسائیت کی علامت ہےاسے ترک کیا جائے اور آج کی تاریخ سے تما م فینٹی مسلمان بچوں کا چہرہ اس نشان سے پاک ہو(واضح رہے کہ مغربی افریقہ کی تمام سیاہ فام اقوام اپنی اپنی قوم کی علامت رکھتی ہیں اور بعض رخساروں پر = بعض کے رخساروں پرIII اور بعض کے دوسری قسم کے نشانات بنائے جاتے ہیں ۔)

2 ۔آئندہ تمام فینٹی لڑکوں کا ختنہ کیا جائے اور میں انشاء اللہ لیگوس(نائیجیریا) سے ختنہ کرنے والا آدمی بھجوائوں گا۔

3 ۔عورتیں چھا تیاں ننگی نہ رکھیں ۔

4 ۔مرد جسم کے نچلے حصے پر کوئی لباس پہنیں۔

5 ۔آپس میں السلام علیکم اور وعلیکم السلام کے سوا اور سلام کی ضرورت نہیں۔

6 ۔گھٹنوں کے بل جھک کر آئندہ کسی کو سلام نہ کیا جائے۔

چار ہزار احمدی اور اصلاحات کا نفاذ

تقریر کے خاتمہ پر میں نے امیر اور ان کے اعضاو عوام کو دعوت دی کہ وہ بیعت کا تار سیدنا حضرت خلیفۃ المسیح کے حضور بھجوائیں اور اصلاحات کے نفاذ کا فیصلہ کریں۔نیز ایک ہزار پونڈ جمع کر کے سالٹ پانڈ میں دار التبلیغ بنائیں۔بچوں کی تعلیم کے لیے مدارس کھولیں۔ مرکزی مشن کی مدد کریں اور آئندہ ہر شخص ماہوار چندہ مقرر کرے ۔میرے اس مطالبہ کے جواب میں امیر نے کہاکہ بعد مشورہ جواب دیں گے ۔چنانچہ دوسری صبح کو Concil of elder مجلس کبریٰ نے فیصلہ کیاکہ ہم سب لوگ اپنی جماعتوں سمیت احمدیت میں داخل ہوتے ہیں۔ہم مشن کے لیے شکرگزار ہیں۔ہم غرباء دعا کے محتاج ہیں ۔ہمیں اسلام سکھلایا جائے۔(2)تمام اصلاحات کے لئے حکم کی تعمیل کر تے ہیں(3)حسب ارشا د حتی الوسع چندہ جمع کرنے کی فکر کرتے ہیں۔

میں نے اس فیصلہ پر امیر اور اس کے رءوساء کا شکریہ ادا کیا۔ان کے لیے دعا کی۔اور مغربی افریقہ احمدیہ مشن کی طرف سے ایک خاص آدمی نواحمدیوں کی مردم شماری پر مقرر کر دیا۔اور مشن کی طرف سے ختنہ کرنے والا آدمی بھی عنقریب انشاء اللہ مقرر کرنے کا وعدہ کیا۔ایک عربی د ان لڑکے کو جو تھوڑی عربی بولتا ہے دین سکھانے اور انگریزی پڑھانے کے لیے ساتھ لے لیا۔احباب کرام دعا کریںکہ یہ سیدھے سادے غریب نو احمدی 20ہزار دیگر فینٹی غیر مسلموں اور کل گولڈ کوسٹ کے 15 لاکھ باشندوں کے لیے راہ ہدایت دکھانے کا موجب ہوں۔

امیر مہدی آپاہ سے رخصت۔ ان کی ایک رؤیا کا بیان

بوڑھا امیر مہدی(چیف مہدی آپا وفات اکتوبر 1925ء) مجھے رخصت کرتے وقت رویا ۔اور کہنے لگا کہ ہماری غربت اور مفلسی ہمارے راستہ میں رکاوٹ ہے۔ہم جو چاہتے ہیں وہ کر نہیں سکتے۔میں نے تسلی دی اور کہا کہ حضرت خلیفۃ المسیح انشاء اللہ اپنی اس دور افتادہ جماعت کی تعلیم و تربیت کے لیے مناسب سامان کریں گے ۔اور احمدی جماعت اپنے ان افریقین بھائیوں کی دستگیری میں پوری کوشش کریں گی۔یہ شخص باخدا آدمی ہے۔اور جس قدر اسلام کے نام لیوا ارض فینٹی میں موجود ہیں وہ سب اسی کی سعی و تبلیغ کا نتیجہ ہیں۔اللہ تعالیٰ نے اس سعید روح کے مخلصانہ فعل کو پسند کیااور حضر ت مہدی ؑ کا پیغام اس تک پہنچا دیا۔اورپھر اسے قبول کرنے کی توفیق دی جس پر وہ بہت خوش ہے۔جس روز میں سالٹ پہنچا۔امیر مہدی بیان کرتے ہیں کہ اسی شب انہوں نے رؤیا میں دیکھاکہ رسول خداﷺ ان کے کمرے میں داخل ہوئے ہیں۔

رءوساکے پیغام اور عباسا (Enyen Abasa) میں قیام

اکرافو( Ekrawfo)کے قریب ایک بڑا مابین یعنی رئیس اعظم رہتا ہےجو افریقین بت پرست ہے۔اس کی طرف سے پیغام آیا کہ جب آپ دوسری دفعہ آئیں تومجھے ملیں اور تبلیغ کریں۔ایک اور گائوں عباسا نام اکرافل کے قریب ہے۔وہاں کے رئیس کا خط اور سواری جسے ہمیک (Hammock)کہتے ہیںاور جو چار آدمی سروں پر اٹھاتے ہیںآئی ۔

(نوٹ:آجکل اس سواری کے لئے ایک اور لفظpalanquin مستعمل ہے۔ اُس دور میںاس لفظ و سواری کا استعمال تھا۔ دلہن کی پالکی، ڈولی یا ہودج طرز کی یہ سواری ہے جسے چار یہ چھ آدمی لمبے لمبے بانسوں پر کندھوں پر اٹھاتے ہیں اور درمیان میں ایک یا دو شخص بیٹھ سکتے ہیںجو لکڑی اور کپڑے کی مدد سے ہوادار ہوتی ہے۔یہ روایت آج بھی برصغیر اور اور بعض افریقی علاقوں میں موجود ہے۔مرتب۔)

اس گائوں کے مسلمانوں نے رئیس کو آمادہ کیا تھاکہ وہ مجھے اپنے ہاں بلائے ۔چنانچہ میں وہاں گیا اور رئیس نے جلسے کا انتظام کیا۔اور بت پرست مسیحی ویزلین (Wesleyan Methodist Church)جن کا یہاں مضبوط گرجا ہےتقریر سننے کے لیے آئے۔میں نے اسلام کے اصول بیان کئے۔مجھ سے درخواست کی گئی ۔کہ میں اوامر ونواہی بیان کروں۔شادی غمی کے احکام سنائوں۔ چنانچہ ڈیڑھ گھنٹہ تک یہ سلسلہ سوالات و جوابات جاری رہااور گائوں کے سربراہ اور لوگوں نے میرے پیغام کو غور سے سنا۔

اکرافل میں روانگی سے قبل دو بت پرستوں نے اسلام قبول کیا اور عباسا میں وہاں کے ایک رئیس نے جس کا مکان عالی شان اور جس کے مکان میں اندرون افریقہ کا ایک گائوں تصور کرتے ہوئے۔نہایت ہی پر تکلف اور اعلیٰ ٰدرجہ کا سامان مثل میز،مسہریاں،لیمپ موجود تھا۔ سوالات کا جواب سننے کے بعد مجھے ایک رات اپنے مکان پر ٹھہرایااور قبول اسلام کیا۔یہ شخص پہلے عیسائی تھا اور ویزلین چرچ سے تعلق رکھتا تھا۔انگریزی بول سکتا ہے۔میں نے اکرافل کے دو نو مسلموں کا نام محمد اور عبد اللہ رکھا۔اور عباسا EnyanAbasa) کے رئیس کو عبد الرحیم ہیفورڈ کے نام سے موسوم کیا۔عباسامیں دو بت پرست عورتیں بھی مسلمان ہوئیں۔ان کا نام کلثوم اور فاطمہ رکھا گیا۔اللہ تعالیٰ سے امید ہےکہ عباسا کا چیف بھی انشاء اللہ اسلام قبول کرے گا۔

سالٹ پانڈ میں آنے پر کل ایک شخص نے اعلان اسلام کیااور اس کا نام بلا ل Bilal رکھا گیا۔اَللّٰھُمَّ زِدْفَزِدْ۔بہت لوگ زیر تبلیغ ہیں اور اللہ تعالیٰ چاہے تو اس ملک میں مسلمان ہونے والوں کی تعدا دسینکڑوں ہزاروں روزانہ ہو گی۔

افریقہ میں اسلام اور سخت جدو جہد کی ضرورت

ہندوستان اور دنیا کے مسلمان اس شخص کی شہادت کو صحیح سمجھیں۔جو ساحل افریقہ پر میدان عمل میں بیٹھ کر اور واقعات پر نظر ڈال کر کہہ رہا ہےاور یقین کریںکہ مسیحی مشنریوں کا شور کہ اسلام افریقہ میں بہ سرعت تمام پھیل رہا ہے محض مسیحی ممالک کو مشن بھیجنے اور روپیہ دینے پر آمادہ کرنے اور مسلمانوں کو غفلت میں رکھنے کی غرض سے ہے۔اصل حالت یہ ہے کہ علم،عزت،دولت و ثروت سرکاری عہدے سب عیسائیوں کے ہاتھ میں ہیں۔ہر گائوں میں گرجا اور مسیحی واعظ اور مسیحی جماعت ہے۔اور مبلغین مسیح ہر ذریعہ سے جاہل و تعلیم یافتہ بت پرست کو مسیحی بنا رہے ہیں۔مسلمانوں کے جن لڑکوں نے تھوڑی انگریزی پڑھی ہے وہ سب عیسائی ہیں ۔سیر الیون۔ گولڈکوسٹ اور نائجیریامیں ایک بھی مسلمانوں کا ایسا مدرسہ نہیں جس میں عربی اور انگریزی کی تعلیم ہو۔مسلمان تعلیم کی ضرورت کی طرف متوجہ نہیں۔انگریزی کفر اور کافروں کی زبان ہے۔اب یا تو کوئی بچہ بھی انگریزی نہ پڑھے اور جاہل رہ کر عیسائیوں کے مقابلہ پر ذلیل زندگی بسر کرے ۔یا اگر پڑھے تو واقعی کافر بن کر پڑھے۔اور مسلمانوں کی جہالت، بد رسومات اور افلاس ان کو نہ صرف عیسائیوں کی نظر میں ذلیل کر رہی ہیں بلکہ تعلیم یافتہ بت پرست بھی ان کو اور ان کے مذہب کو پسندیدگی کی نظر سے نہیں دیکھتا۔لہٰذایہ غلط ہے کہ اسلام افریقہ میں سرعت سے پھیل رہا ہے۔ بلکہ واقعہ یہ ہے کہ عیسائیت کا ہر جگہ غلبہ ہے۔البتہ یہ امر ایک بالکل صحیح ہے کہ نئی تعلیم نے تعلیم یافتہ مسیحی کو حق کاشایق بنا دیا ہے۔اور تعلیم یافتہ مسیحی افریقین بھی یورپین مسیحی کی طرح بہتر مذہب کا متلاشی ہے۔خلاصہ کہ افریقہ میں جو کچھ بھی اسلام ہےوہ خطرہ میں ہے۔اس کی حفاظت سچے مسلمانوں اور محمد عربی ﷺ کے اسم مبارک سے محبت رکھنے والوں کا ا ہم فرض ہے۔اور اس حفاظت کے ساتھ اشاعت کے لئے بھی واقعی تعلیم یافتہ عیسائیوں اور ہر طبقہ کے بت پرستوں کے درمیان بہت بڑا میدان ہے۔

پس ضرورت ہے کہ سفید رنگ، عمدہ صحت رکھنے والے نوجوان جو بھوک پیاس کی پروا نہ کریںاور جن کو اللہ کے راستہ میں جان تک دینے میں دریغ نہ ہو افریقہ میں حفاظت و اشاعت اسلام کے لئے حضر ت خلیفہ ثانی (رضی اللہ عنہ)کے حضور درخواستیں بھیجیں۔جو لوگ میری اس شہادت اور اپیل کے بعد باوجود استطاعت اس طرف توجہ نہ کریں گے وہ یا د رکھیں کہ روز قیامت وہ اللہ اور اس کے رسول کے سامنے ذمہ دار ہوں گے۔اور ہر مسلمان بچہ جو مسلمان کہلا کر جاہل رہے گا اور بت پرستوں کی طرح بے ختنہ اور برہنہ پھرے گا اور ہر مسلمان تعلیم یافتہ جو عیسائی رہے گا۔یا ہر عیسائی جو باوجود اسلام لانے پر آمادہ ہونے کے اسلامی مشن کی کمزور حالت کے باعث اسلام نہ لائے گا۔ان سب کا عذاب ان کی گردن پر ہوگا۔ کاش! سیاسیات کے انہماک کی نسبت نصف توجہ بھی اسلام کی طرف کی جاتی ۔

میں جہاں جاتا ہوں ،فقہ کے مسائل، شادی و مرگ کی رسوما ت و احکام اور حلال و حرام پر سوالات ہوتے ہیں اور لوگ کہنے لگے ہیں ہم کو صحیح اسلام نہیں سکھایا گیا۔مگر میں ان لوگوں کو کہتا ہوں کہ غریب ہاؤسا(Hausa) لوگوں نے اخلاص و محبت سے جو کچھ جانتے تھے سکھایا۔ان کا بھی شکریہ ادا کرو اور نیا علم جو آسمان سے اللہ تعالیٰ نے دوبارہ بھیجا ہے اسے سیکھو۔

عالم تنہائی کی ساحل سمند ر پر جاکر دعائیں!

اس عالم تنہائی میں جب کہ ایک طرف کام کا بوجھ کندھوں پر ہے۔اور تفکّرات کے اونچے پہاڑوں پر سے ہے۔قصر مقصود بلند کلمہ کوہ پر نظر آتا ہے۔سوائے دعا کوئی سہارا نہیں۔میں اکثر سالٹ پانڈکے گستاخ کنارہ پر (جہاں شوخ لہریںبلیّوںاوچھل کر ریتلے ساحل کے ساتھ کبڈی اور لال پکی کھیلتی رہتی ہیں اور جن کے کھیل کو گولڈ کوسٹ کے سیاہ فام کامل برہنہ تیراک گاہ گاہ کالے دیووں کی طرح سفید پریوں کے مجمع میں کود کر ایک آن کے لیے درہم برہم کرتے ہیں)جا بیٹھتا ہوں اور اپنے محسن اپنے اعزاءاپنے احباب کو سمندروں کے پارہند میں جزائر میں رہنے والوں کو یاد کرکے خیر کا سائل ہوتا ہوں۔اور پیارے (حضرت)مولوی غلام رسول راجیکی ؓکی جھوک ایسی جگہ جہاں اسے کوئی نہیں سمجھتا خوب مزا دیتی ہے۔اور میں جو کچھ شوق سے اور رقّت سے پڑھتا ہوں وہ حسب ذیل ہے:

کون کوئی ہووے جاوے دیس رسُول دے

حال سناوے جیہڑا اَگے مقبول دے

کرم دی نظر اک لوڑاں سرکار دی

مَیں بھی ہاں بندی اک ایس دربار دی

سب گناہیاں وِچوں وڈّی بدکار مَیں

حال نہ کوئی کویں لنگہاں گی پار مَیں

کون نی سیّو میرے دُکھڑے وَنڈے نِی

درداں دے سُول چھبن دکھاندے کَنڈے نی

کوکاں پئی تتّی میں تاں کنڈہے اورار دی

ہوئی اُداسن جیویں کونج پہاڑ دی

ٹھہلیں مہانیاں کدے بیڑا ضرور وے

پار لنگھا دیں مینوں پہلڑے پور وے

دیر نہ ہووے کرنی عرض منظور وے

(جھوک مہدی والی ، از حضرت مولانا غلام رسول صاحب راجیکیؓ)(ازالفضل قادیان19؍ مئی1921ء)

(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button