ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
یقیناً کسی دین کا دیگرادیان پرغلبہ بہت بڑے روشن نشان اور عظیم قطعی دلائل اور نیکوں اور تقویٰ شعار لوگوں کی کثرت سے ہی ثابت ہوتا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ اس کے دین کو تمام ادیان پر غلبہ تام نہ ہوگا اور نہ اکثر دلوں کو دلائل حق دیئے جائیں گے اور نہ اکثر لوگوں کو باطنی تقویٰ دیا جائے گا مگر صرف مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ میں۔
’’ اس میں کوئی شک و شبہ نہیں کہ شیطان کو دی گئی مہلت آخری زمانہ تک تھی جیسا کہ قرآن سے یعنی فرقان میں مذکور لفظ اِنْظَار (مہلت دیئے جانے)سے سمجھا جا سکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شیطان کو مخاطب کر کے فرمایا۔اِنَّکَ مِنَ الْمُنْظَرِیْنَ اِلٰی یَوْمِ الْوَقْتِ الْمَعْلُوْمِ[یقینا ً تُو مہلت دیئے جانے والوں میں سے ہے۔ ایک معلوم وقت کے دن تک۔ (صفحہ81:-82)] یعنی دوبارہ اٹھائے جانے کے دن تک جس میں حیّ و قیوم خدا کے اِذن سے لوگ گمراہی کی موت کے بعد دوبارہ اٹھائے جائیں گے۔ بلاشبہ یہ دن ایسا دن ہے جو آدم کی پیدائش کے دن سے مشابہ ہے کیونکہ اس میں اللہ نے ارادہ فرمایا ہے کہ مثیل آدم پیدا کرے اور پھر زمین میں اس کی روحانی ذریّت پھیلا دے اور انہیں ہر اس شخص پر غالب کر دے جس نے اللہ سے تعلق کاٹ لیا اور اس سے کٹ کر الگ ہو گیا۔ آخری زمانہ میں آدم ثانی کی (آمد کی) ضرورت شدت اختیار کر گئی ہے تا جو شروع کے وقت میں کھو گیا تھا وہ اس کی تلافی کرے اور تاکہ شیطان کے متعلق اللہ کی وعید پوری ہو جائے ۔ کیونکہ اللہ نے اسے دنیا کے آخر تک مہلت دی تھی اور اس میں اس کو ہلاک کرنے اور اسے اپنی مملکت سے نکال باہر کرنے کی طرف اشارہ فرمایا تھا۔ اسے مہلت دیئے جانے کے دنوں کے بعد اور ملکوں میں اس کے چیر پھاڑ کرنے کے بعد اس کے قتل کی وعید کے بغیر اسے ڈھیل دینے کا مطلب ہی کیا ہے؟ ہلاکت ہی اس کی سزا ہے کیونکہ اس نے بڑے بڑے فتنوں سے لوگوں کو ہلاک کیا۔ ساتواں ہزار اس کو قتل کئے جانے کے لئے ایک مقررہ میعاد تھا کیونکہ اس نے لوگوں کو سات دروازوں سے جہنم میں داخل کیا تھا اور اندھے پن کا حق پوری طرح ادا کیا تھا۔ پس ان سات (دروازوں) کے لحاظ سے ساتواں (ہزار) زیادہ مناسب اور زیادہ صادق ہے۔ اللہ نے لکھ رکھا ہے کہ وہ (شیطان) دنیا کے آخری حصہ میں قتل کیا جائے گا اور حضرت کبریا کی جناب سے بطور رحمت اس وقت آدم زادوں کو زندگی دی جائے گی اور بہت بڑی ہزیمت شیطان پر مسلّط کی جائے گی جیسے آغاز میں آدم پر ڈالی گئی تھی۔ پس اس وقت نفس کے بدلے نفس اور عزت کے بدلہ عزت کا انتقام لیا جائے گا۔ زمین اپنے ربّ کے نور سے چمک اٹھے گی۔ آدم صفی اللہ کا دشمن ہلاک ہو جائے گا۔ اور برگزیدہ بندوں سے دشمنی کی سزا ایسی ہی ہوتی ہے۔ یہ فتح آدم کا واجب حق تھا کیونکہ بعد اس کے کہ اللہ نے اسے عزت و شرف بخشا تھا شیطان نے اژدھا کے روپ میں اسے پھسلا دیاتھا اور اس کو قعر مذلّت میں ڈال دیا تھا اور اس کی کمر توڑ دی تھی۔ ابلیس نے آدم کو قتل کرنے ہلاک کرنے اور اس کی بیخ کَنی کرنے کا ہی قصد کیا تھا اور چاہا تھا کہ اسے اور اس کی ذریت اور اس کے خاندان کو نابود کر دے۔ پس حضرتِ باری تعالیٰ کی قضا کے دفتر سے اس کے خلاف ایام ِمہلت کے بعد قتل کئے جانے کا حکم صادر ہوا۔ اسی کی طرف اللہ سُبْحَانُہٗ نے اپنے قول إِلٰی یَوْمِ یُبْعَثُوْنَمیں اشارہ فرمایا ہے جیسا کہ تدبر کرنے والے جانتے ہیں۔ اس قول سے حقیقی مردوں کو دوبارہ زندہ کرنا مراد نہیں بلکہ اس سے گمراہوں کو گمراہیوں کے بعد دوبارہ زندگی دیئے جانا مراد ہے۔ اس کی تائید قرآن مجید میں اللہ کا قوللِیُظْھِرَہٗ عَلَی الدِّیْنِ کُلِّہٖ[تا وہ اس دین کو تمام دینوں پر غالب کرے (الصف: 10)] ۔ کرتا ہے جیسا کہ اہل عقل وعرفان پر پوشیدہ نہیں۔ یقیناً کسی دین کا دیگرادیان پرغلبہ بہت بڑے روشن نشان اور عظیم قطعی دلائل اور نیکوں اور تقویٰ شعار لوگوں کی کثرت سے ہی ثابت ہوتا ہے۔ وہ دین جو یقین تک پہنچانے والے دلائل مہیا کرتا ہے او ر نفوس کا کماحقّہٗ تزکیہ کرتا ہے اور انہیں شیطان لعین کے پنجوں سے نجات دلاتا ہے بلاشبہ وہی دین سب ادیان پر بالا او ر غالب دین ہے اور وہی مردوں کو شک اور نافرمانی کی قبروں سے اٹھاتا ہے اور بے حد احسان کرنے والے اللہ کے فضل سے علمی اور عملی طور پر زندگی بخشتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے یہ مقدر کر رکھا تھا کہ اس کے دین کو تمام ادیان پر غلبہ تام نہ ہوگا اور نہ اکثر دلوں کو دلائل حق دیئے جائیں گے اور نہ اکثر لوگوں کو باطنی تقویٰ دیا جائے گا مگر صرف مسیح موعود اور مہدی معہود کے زمانہ میں۔ جہاںتک مسیح موعود سے پہلے زمانوں کا تعلق ہے تو اُن میں تقویٰ اور فہم عام نہ ہو گا۔ بلکہ فسق اور گمراہی بکثرت ہو جائے گی۔‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 226تا229۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)
مزید پڑھیے…
اسلام اور آنحضرتﷺ کے خلاف سازشوں کا دفاع مسیح موعودؑ نے کرنا تھا