اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ

سلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ (ایک تجزیہ) (قسط نمبر 3)

(محمود احمد ملک)

علّامہ اقبال کی چند تحریروں کے حوالے۔ پس منظر اور حقائق

جولائی 2018ءمیںاسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک رکنی بنچ نے جماعت ِ احمدیہ کے بارے میں ایک تفصیلی فیصلہ جاری کیا۔گزشتہ دو اقساط میں ہم نے اس فیصلے کے مندرجات کا مختصر جائزہ پیش کیا تھا اور یہ بھی ذکر کیا تھا کہ 172صفحات کے فیصلہ میں بہت سے تاریخی واقعات کو پیش کر کے اور بہت سے حوالے درج کر کے اس فیصلہ کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔اس قسط میں ہم ایک اور پہلو کا تجزیہ پیش کریں گے۔

جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے اس فیصلہ کے صفحہ 101سے صفحہ122تک جماعت ِ احمدیہ کے خلاف علّامہ اقبال کی دو تحریروں یعنی Islam and Ahmadism اورQadianis and Orthodox Muslims کے تفصیلی اقتباسات کو تبصروں سمیت درج کیا گیا ہے۔

چونکہ پاکستان میں علامہ اقبال کی ایک اہمیت ہے، اس طرح ان اقتباسات کو درج کر کے اس ‘عدالتی فیصلہ ‘ کا جواز پیدا کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ اس مضمون میں اس حصہ کا اور علامہ اقبال کی ان تحریروں کا تجزیہ پیش کیا جائے گا جن کے حوالے اس فیصلہ میں درج کئے گئے ہیں۔ اور ہم یہ جائزہ بھی لیں گے علامہ اقبال کی ان تحریروں کا پس منظر کیا تھا؟

اس عدالتی فیصلہ میں علامہ اقبال کی ان تحریروں کا ذکر ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ احمدیت کے بارے میں اقبال کی یہ تحریر ایک Excellent Expose ہیں۔ یعنی ان تحریروں میں احمدیت کو شاندار طریقہ سے بے نقاب کیا گیا ہے۔اس فیصلہ میں اس دعوے کی دلیل ان الفاظ میں دی گئی ہے:

What prompted Dr. Iqbal to launch this crusade against Qadianyat is not difficult to comprehend. Dr Iqbal knew Qadianyat very well since its inception and had been a keen observer of its development and growth that took place in the last half of century in India. He, however, had some kind of soft feelings for the movement in early years when its real character was not established. In early 30s he had fully come to know about the role Qadianis had been playing in India particularly in Kashmir movement in which he himself was closely associated.

(page 101)

ترجمہ: یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اقبال نے قادیانیت کے خلاف یہ صلیبی جنگ کیوں شروع کی تھی؟ اقبال قادیانیت کو اس کے آغاز سے خوب جانتے تھے اور ہندوستان میں گزشتہ نصف صدی کے دوران جو پیش رفت ہو رہی تھی اقبال اس کا بغور جائزہ لے رہے تھے ۔ البتہ ان ابتدائی سالوں میں اقبال کے دل میں قادیانیت کے لئے ایک قسم کا نرم گوشہ موجود تھا۔کیونکہ اب تک اس تحریک کا صحیح کردار سامنے نہیں آیاتھا۔1930 ءکی دہائی کے آغاز میں انہیں پوری طرح علم ہوا کہ یہ تحریک ہندوستان میں اور بالخصوص کشمیر میں کیا کردار ادا کر رہی ہے۔کشمیر کی تحریک کے ساتھ اقبال کا اپنا قریبی تعلق تھا۔

جیسا کہ پڑھنے والے خود محسوس کر سکتے ہیں کہ اس تحریر کے اندر تضاد موجود ہے۔ اس حصہ میں ان بہت سی باتوں کی تردید موجود ہے جوکہ جماعتِ احمدیہ کے خلاف اس فیصلہ میں لکھی گئی ہیں اور جو خود علامہ اقبال کی ان تحریروں میں موجود ہیں۔

ان دونوں میں یہ لکھا ہوا ہے کہ بانی ِ جماعت ِ احمدیہ کے دعاوی ہی ایسے ہیں جو خلاف ِ اسلام ہیں اور جب بھی عالم اسلام میں ایسے دعاوی پیش کئے گئے کسی مسلمان نے کسی دلیل یا سوچ بچار کی ضرورت ہی محسوس نہیں کی بلکہ ان کے خلاف شدید ردِ عمل دکھایا بلکہ جہاد شروع کر دیا۔یہ دعاوی ایسے ہیں کہ ان کا مطلب اس کے سوا کچھ نہیں کہ مسلمانوں میں تفرقہ پیدا کیا جائے ۔

یہ سب جانتے ہیں کہ بانی ِ سلسلہ احمدیہ کا انتقال 1908ءمیں ہو گیا تھا اور اُس وقت تک آپ کے تمام دعاوی سامنے آ چکے تھے۔ پھر1930ءتک علامہ اقبال جماعت ِ احمدیہ کے بارے میں نرم گوشہ کیوں رکھتے تھے؟

1934ءسے قبل علّامہ اقبال کے احمدیت کے بارے میں خیالات

جج صاحب نے اس فیصلہ میں کچھ مبہم اور نرم الفاظ استعمال کئے ہیں ۔اس "نرم گوشہ ” کی کچھ تفصیلات ہم علامہ اقبال کے صاحبزادے مکرم جسٹس جاوید اقبال صاحب کی تصنیف "زندہ رود” سے پیش کرتے ہیں۔وہ لکھتے ہیں:

1۔ 1900ءمیں علامہ اقبال نے بانی ِ سلسلہ احمدیہ کے متعلق فرمایا کہ وہ ہندوستان کے مسلمانوںمیں موجودہ دور میں غالباََ سب سے عظیم دینی مفکر ہیں۔

2۔ 1910ءمیں انہوں نے علیگڑھ کالج میں ایک لیکچر دیا اور اس میں فرمایا کہ اس دَور میں فرقہ قادیانی اسلامی سیرت کا ٹھیٹھ نمونہ ہے ۔

3۔ 1936ءمیں تحریر کیا کہ اشاعت ِاسلام کا جوش جو جماعت ِ احمدیہ کے افراد میں پایا جاتا ہے قابلِ قدر ہے ۔
(زندہ رود مصنفہ جاوید اقبال صاحب ، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور 2008صفحہ638و208)

4۔ 1913ءمیں علامہ اقبال کو شبہ ہوا کہ ان کی منکوحہ سردار بیگم صاحبہ سے ان کا نکاح قائم ہے کہ نہیں تو انہوں نے اپنے دوست مرزا جلال الدین صاحب کو فتویٰ دریافت کر نے کے لیے قادیان بھجوایا جنہوں نے اس بابت بانی سلسلہ احمدیہ کے پہلے خلیفہ حضرت مولانا نور الدین صاحب سے اس بابت فتویٰ دریافت کیا اور علامہ اقبال نے اس فتویٰ پر عمل بھی کیا۔

5۔ علّامہ اقبال نے پہلی شادی سے اپنے بڑے بیٹے آفتاب اقبال صاحب کو پڑھنے کے لیے قادیان کے سکول میں بھجوایا۔(زندہ رود مصنفہ جاوید اقبال صاحب ، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور 2008صفحہ630و631)
علّامہ اقبال کے متعلق ان باتوں کی جاوید اقبال صاحب نے تردید نہیں کی بلکہ ان جیسی باتوں کو درج کر کے مکرم ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب نے یہ جواز پیش کیا ہے کہ اقبال کو 1935ءسے قبل اس جماعت سے اچھے نتائج کی امید تھی لیکن ایک زندہ شخص ہونے کی حیثیت سے انہیں اپنی رائے بدلنے کا حق تھا ۔اور وہ ہمیشہ سے جماعت ِ احمدیہ سے عقائد کا اختلاف رکھتے تھے۔

ہمیں ڈاکٹر جاوید اقبال صاحب کی اس بات سے اتفاق ہے کہ ہر شخص کو اپنی رائے بدلنے کا حق حاصل ہے لیکن اس رائے کی تبدیلی کی کوئی بھی وجہ ہو اس کی وجہ حضرت بانی ِ سلسلہ احمدیہ کے دعاوی اور جماعت ِ احمدیہ کے بنیادی عقائد نہیں ہو سکتے کیونکہ 1908ءمیں حضرت بانی ِ سلسلہ احمدیہ کی وفات ہو چکی تھی اور آپ کے دعاوی مکمل طور پر دنیا کے سامنے آ چکے تھے۔

اس کے علاوہ اس فیصلہ میں اعتراف کیا گیا ہے کہ جب کشمیر کمیٹی کا اجلاس ہوا تاکہ مسلمان مظلوم کشمیری مسلمانوں کے بنیادی انسانی حقوق کے لئے جد و جہد کرسکیں تو اُ س وقت خود علامہ اقبال کی تجویز اور اصرار پر حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ تعالی ٰ عنہ کو اس کمیٹی کا صدر بنایا گیا۔اس وقت کشمیر کے مسلمان ڈوگرہ راجہ کے مظالم کی چکی میں پس رہے تھے اور انہیں بنیادی انسانی حقوق بھی حاصل نہیں تھے۔

اس بات پر حیرانی ہوتی ہے کہ ایک طرف تو یہ الزام لگایا جا رہا ہے کہ نعوذُ باللہ انگریزوں نے مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کے لئے جماعت ِ احمدیہ کو قائم کیا تھا اور جماعت ِ احمدیہ کے بنیادی عقائد ہی ایسے ہیں کہ وہ خود بخود اسلام سے خارج ہو جاتے ہیں بلکہ ثابت ہو جاتا ہے کہ نعوذُباللہ ان سے اسلام کو شدید نقصان پہنچتا ہے۔ دوسری طرف مسلمانوں کا ایک نمایاں لیڈر اعتراف کرتا ہے کہ اگر کسی میں اشاعت ِ اسلام کا جوش ہے تو جماعت ِ احمدیہ میں ہے ۔ اگر کوئی اس دور میں اسلامی سیرت کا نمونہ دیکھنا چاہتا ہے تو قادیان جا کر دیکھے۔ اپنے نکاح کے بارے میں شبہ ہو تو امام جماعت ِ احمدیہ سے راہنمائی لی جائے ۔ اور اگر مظلوم مسلمانوں کے لئے جد و جہد کرنی ہو تو امام جماعت ِ احمدیہ سے اس مہم کی قیادت کرنے کی درخواست کی جائے۔یہ تضادات ایسے نہیں جنہیں نظر انداز کیا جا سکے۔

جیسا کہ حوالہ درج کیا گیا ہے عدالتی فیصلہ میں یہ نکتہ بیان کیا گیا ہے کہ جب امام جماعت ِ احمدیہ کی قیادت میں کشمیر کمیٹی نے کام شروع کیا تو علامہ اقبال پر قادیانیت کی حقیقت کھلی اور انہوں نے جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت شروع کی۔اس مرحلہ پر یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ جب اس کمیٹی نے کام شروع کیا تو کیا ہوا تھا کہ علّامہ اقبال نے جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت شروع کر دی؟ہم اُن کتابوں کے حوالے سے اس سوال کا تجزیہ پیش کریں گے جن کے لکھنے والوں کا احمدیت سے کوئی تعلق نہیں۔

کشمیر کمیٹی کی جدّو جہد کا آغاز

اس کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ کشمیریوں کی حمایت کے لئے قانون کے دائرہ میں رہتے ہوئے مہم چلائی جائے۔ جن کشمیریوں کو مظالم کا نشانہ بنایا گیا ہے ان کی مالی مدد کی جائے ۔جن کشمیریوںکو قید و بند اور مہاراجہ کی حکومت کی طرف سے مقدمات کا سامنا تھا ان کی قانونی اور وکلاء کے ذریعہ مدد کا فیصلہ کیا گیا ۔ اور کیونکہ دنیا کو خبر ہی نہیں تھی کہ کشمیر کے مسلمانوں کو کن مظالم کا سامنا کرنا پڑرہا ہے اس لئے یہ فیصلہ بھی کیا گیا کہ باہر کی دنیا کو ان حقائق کے بارے میں مطلع کیا جائے اور مہاراجہ کشمیر پر دبائو بڑھایا جائے۔ثمینہ اعوان اپنی کتاب میں لکھتی ہیں کہ ان مقاصد کو حاصل کرنے کے لئے ایک جامع منصوبہ بنایا گیا اور اس پر عملدرآمد شروع ہوا۔حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی قیادت میں کمیٹی نے فیصلہ کیا کہ 14 ؍ اگست 1931ءکو پورے ہندوستان میں کشمیر ڈے منایا جائے۔

یہاں یہ عرض کرنا ضروری ہے کہ تحریک ِ خلافت کی ناکامی کے بعد مسلمانوں نے پورے ہندستان میں اپنے حقوق کے لئے کوئی ایسی مہم کامیابی سے نہیں چلائی تھی ۔ اور یہ سوال اُٹھتا تھا کہ کیا یہ دن کامیابی سے منایا جا سکے گا کہ نہیں ؟ جب یہ دن آیا تو ہندوستان بھر میں یہ دن کامیابی سے منایا گیا اور چھوٹے بڑے شہروں میں کامیابی سے جلسے منعقد ہوئے۔لاہور ، پٹنہ ، کلکتہ، بمبئی ، دیوبند، کراچی، علی گڑھ ، سیالکوٹ ،دہلی ، کراچی میرٹھ ، دکن ، بہار اور اڑیسہ میں جلسے منعقد ہوئے۔لاہور کے جلسہ سے علامہ اقبال نے خطاب کیا۔اس سے قبل صورت ِ حال یہ تھی کہ خود مسلم لیگ نے بھی کبھی کشمیر کے مظلوم مسلمانوں کی حمایت میں کوئی قرارداد منظور نہیں کی تھی۔ جب یہ مہم شروع ہوئی توپہلی مرتبہ دسمبر 1931ءمیں مسلم لیگ نے اپنے سالانہ جلسہ میں کشمیر کے مسلمانوں کی حمایت میں قراردادمنظور کی۔1931ءکی گول میز کانفرنس کے دوران لندن میں علامہ اقبال ، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور دوسرے مسلمان مندوبین نے وزیر ِ ہند سے ملاقات کر انہیں کشمیر کے مسلمانوں کی حالت ِ زار سے مطلع کیا۔کشمیر میں زخمی اور قید ہونے والے کشمیری مسلمانوں کی مالی اور قانونی مدد جاری کی گئی۔کشمیر کے مسلمانوں میں بیداری کی لہر دوڑنی شروع ہوئی اور ان میں اپنے حقوق کے لئے جد و جہد کرنے کا جوش پیدا ہوا۔ڈوگرہ مہاراجہ کی حکومت اس مہم سے ہل کر رہ گئی اور انہوں نے مسلمانوں سے مذاکرات کا عمل اور اس کے ساتھ ان کو اپنا ہمنوا بنانے کا عمل بھی شروع کیا۔اس صورت ِ حال پر تحقیقات کے لئے گلانسی کمیشن قائم کیا گیا ۔ رپورٹ تو جیسی تھی شائع کی گئی لیکن مہاراجہ کی حکومت نے اصلاحات کی بجائے لیت و لعل سے کام لینا شروع کیا ۔ اس پر حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے بہت سے مسلمان لیڈروں کے ساتھ وفد بنا کر وائسرائے سے ملاقات کرکے اس پر عمل درآمد کا سوال اُٹھایا۔ سب یہ اعتراف کرتے ہیں کہ اس مرحلہ تک کامیابی اور مستقل مزاجی سے کام جاری تھا۔

Iqbal and the politics of Punjab1926-1938, by Khurram Mahmood, published by , National Book Foundation 2010, p 90-96
Political Islam in Colonial Punjab Majlis –i-Ahrar 1929-1949, by Samina Awan, by Oxford University Press 2010,p 38-55

جب ہم یہاں تک کے حالات کا جائزہ لیتے ہیں، اور ہم نے ایسی کتب کے حوالے درج کردیئے ہیں جو نہ صرف احمدیوں کی لکھی ہوئی نہیں ہیں بلکہ اس میں بعض مقامات پر احمدیوں کے خلاف بھی لکھا گیا ہے، تو حیرت ہوتی ہے کہ جب یہ مہم کامیابی سے چل رہی تھی تو پھر بجائے شکر ادا کرنے کے احمدیوں کے خلاف مہم شروع کرنے کا کون سا موقع تھا؟ آخر کون سا گروہ اس مہم سے سخت نالاں تھا جس کا ایجنڈا پورا کرنے کے لئے مظلوم مسلمانوں کے لئے مہم چلانے کی بجائے احمدیوں کو کافر قرار دینے کی مہم شروع کردی گئی؟
اس سوال کا جائزہ لینے کے لئے ہم ایک بار پھر ان کتب کے ہی حوالے پیش کریں گے جن کے مصنفین کا تعلق جماعت ِ احمدیہ سے نہیں ہے۔

کشمیر کمیٹی کی تحریک کے خلاف ردِّ عمل

جونہی اس مہم نے زور پکڑا کٹّر ہندو پریس میں خاص طور پر شدید بے چینی کا اظہار شروع ہو گیا۔انہوں نے ایک متعصبانہ انداز میں اس تحریک کے خلاف مہم شروع کی ۔اس تحریک میں ملاپ، پرتاپ اور ٹریبیون اخبارات پیش پیش تھے ۔ انہوں نے اس تحریک کو ہندو مسلم فسادات قرار دیا۔انہوں نے کٹّر ہندوؤں کی ہمدردیاں حاصل کرنے کے لئے یہ پروپیگنڈا شروع کیا کہ یہ ہندو کی حکومت کی جگہ مسلمان کی حکومت قائم کرنے کی سازش ہے۔علّامہ اقبال نے اس کی تردید کی کوشش کی اور کہا کہ ہندووں کو مسلمانوں کے ساتھ مل کر یہ تحریک چلانی چاہیے۔بہر حال یہ صورت ِ حال کانگرس کے لئے بھی ایک چیلنج کی حیثیت رکھتی تھی۔کیونکہ جب اس تحریک کو چلتے ہوئے دو تین سال ہو گئے اور استقلال کے ساتھ کام جاری تھا۔ کانگرس کی اعلانیہ ہمدردیاں مہاراجہ کشمیر کے ساتھ تھیں ۔

کچھ ہندوؤں نے علامہ اقبال سے بھی رابطہ کیا اور اس کا ذکر علامہ اقبال نے اپنی تقریر میں بھی کیا۔اور اس تحریک کے خلاف مہم کو ختم کرنے کا کام کانگرس کے لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد صاحب کے سپرد ہوا۔ انہوں نے احرار لیڈروں سے ملاقات کر کے انہیں آمادہ کیا کہ وہ کشمیر کی مہم کو اپنے ہاتھ میں لے لیں۔اور احرار نے مولوی انور کاشمیری کی وساطت سے علامہ اقبال کوبھڑکایا کہ وہ کشمیر کمیٹی میں اما م جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت کریں اور اسی طرح بعض اور احرار لیڈر بھی علامہ اقبال سے مل کر انہیں خاص طور پر احمدیت کے خلاف بھڑکاتے رہے۔اور اس طرح کشمیر کمیٹی میں رخنہ ڈالنے کا عمل شروع کیا گیا اور احمدیوں کے خلاف مہم شروع کر دی گئی ۔

یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ جب کشمیر کمیٹی کے وفد نے مہاراجہ کشمیر سے ملاقات کا وقت مانگا تو مہاراجہ کشمیر نے ملاقات سے انکار کر دیا ۔ اور جب مجلسِ احرار کا وفد کشمیر گیا تو مہاراجہ نے انہیں اپنے ہاں ایک محل میں مہمان ٹھہرایا۔گورنر جموں نے بھی احراری وفد سے ملاقات کی ۔جب لوگوں نے یہ دیکھا کہ لوگ تو مہاراجہ کی مہمان نوازی سے لطف اندوز ہو رہے ہیں تو یہ خبر عام گردش کرنے لگی کہ احراریوں نے تحریک کو ناکام کرنے کے لئے مہاراجہ سے رشوت لی ہے ۔ اور ایک احراری لیڈر نے یہ بیان بھی داغ دیا کہ کشمیریوں پر ہونے والے مظالم کے بیان میں مبالغہ کیا گیا ہے۔

Iqbal and the politics of Punjab1926-1938, by Khurram Mahmood, published by , National Book Foundation 2010, p 9۱-97
Political Islam in Colonial Punjab Majlis –i-Ahrar 1929-1949, by Samina Awan, by Oxford University Press 2010,p 40-48

راؤنڈ ٹیبل کانفرنس میں علّامہ اقبال کی خاموشی اورقائد اعظم کے موقف کے خلاف تقریر

یہاں علامہ اقبال کے حوالے سے ایک اہم بات کا ذکر ضروری ہے۔اس بات کا ذکر تو اکثر کیا جاتا ہے کہ احرار کی کاوشوں کے نتیجہ میں علامہ اقبال جماعت ِ احمدیہ کے خلاف ہوگئے اور انہوں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف تحریری کاوشیں شروع کیں۔ لیکن اُس وقت علامہ اقبال کی مخالفت کا دائرہ صرف احمدیت تک محدود نہیں تھا بلکہ اس سے قبل خود بانی پاکستان محمد علی جناح اور دوسرے مسلمان لیڈر وں کا موقف بھی علامہ اقبال کی مخالفت کا نشانہ بنا۔

اس کا پس منظر یہ ہے کہ 7ستمبر1931ء سے یکم دسمبر1931ء تک لندن میں ہندوستان کے مستقبل کے آئین کے بارے میں دوسری راونڈ ٹیبل کانفرنس منعقد ہوئی۔اس میں مسلمانوں کی طرف سے نمائندہ مندوبین میں قائد ِ اعظم محمد علی جناح ، علامہ اقبال، حضرت چوہدری ظفر اللہ خان ، مولانا شوکت علی ،سر شفیع ، آغا خان سوئم بھی شامل تھے۔پہلے کمیٹیوں نے کام شروع کیا ۔Federal Structureکمیٹی اور اقلیتوں کے بارے میں کمیٹی اہم تھیں۔ علامہ اقبال اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور مولانا شوکت علی اور آغا خان اقلیتوں کی کمیٹی کے رکن تھے ۔ اورFederal Structureکمیٹی میں دوسرے مندوبین کے علاوہ قائد ِ اعظم اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بھی شامل تھے۔کانفرنس کے پہلے روز 7ستمبر کو Federal Structureکی کمیٹی میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے ایک طویل تقریر میں اعلان کیا کہ وہ گزشتہ کانفرنس میں محمد علی جناح اور سر شفیع کی طرف سے اس خیال کا اظہار کیا گیا تھا کہ ہندوستان کے لئے کوئی آئین اُس وقت تک کام نہیں کر سکتا جب تک مسلمان اور ہندوؤں کے درمیان اس مسئلہ پر اتفاق نہیں ہوجاتا ۔ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے کہا کہ وہ اس نظریہ کی تائید کرتے ہیں اور اس بات کا اضافہ کرنا چاہتے ہیں کہ مسلمان کسی ایسے آئین کی تائید نہیں کر سکتے جس میں ان کے مطالبات کو مناسب طریق پر تسلیم نہ کیا گیا ہو۔ اس لئے سب کو مل کر پیش رفت کی کوشش کرنی چاہئے۔

جب کارروائی آگے بڑھی تو گاندھی جی نے علیحدہ اجلاس میں مسلمان مندوبین سے اس عذر کی بنا پر مذاکرات سے انکار کر دیا کہ ڈاکٹر انصاری لندن میں موجود نہیں ہیں اور وہ ڈاکٹر انصاری کی رضامندی کے بغیر کوئی تصفیہ نہیںکر سکتے۔نتیجہ یہ ہوا کہ 26نومبر 1931ء کو قائد ِ اعظم محمد علی جناح نے تقریر کرتے ہوئے اعلان کیا کہ وہ مسلمان مندوبین کی طرف سے یہ اعلان کرنا چاہتے ہیں کہ ہمارا موقف یہ ہے کہ مرکز ی حکومت اور صوبائی حکومت دونوں میں ایک ساتھ خود مختاری دینی چاہیے۔ اور ہم یقین دلاتے ہیں کہ ہندوستان کے مسلمان آزادی کی طرف کسی پیش رفت کے راستے میں حائل نہیں ہوں گے۔ ہم تمام تر کوشش کر چکے ہیں لیکن مسلمانوں اور ہندوؤں میں اتفاق نہیں ہو سکا ۔ اور فی الحال کسی پیش رفت کی امید نظر نہیں آ رہی۔آخریہ مذاکرات ناکامی پر ختم ہوئے۔یہ بات قابل ذکر ہے کہ علامہ اقبال نے کمیٹی کے اجلاس میں اور پھر کانفرنس کی کارروائی میں ایک لفظ بھی نہیں کہا اور نہ مسلمانوں کے مفادات کے لئے کوئی آواز اُٹھائی۔وہ معنی خیز انداز میں مکمل طور پر خاموش رہے۔ اس کانفرنس میں مسلمانوں کے حقوق کے لئے خاص طور پر قائد ِ اعظم ، چوہدری ظفر اللہ خان صاحب اور سر شفیع آواز اُٹھاتے رہے۔ علامہ اقبال کا دوسرے تمام مسلمان مندوبین سے اختلاف بھی ہو گیا اور اختلاف اتنا شدید ہوا کہ علامہ اقبال ایک لفظ بولے بغیر ہی اس کانفرنس سے مستعفی ہو گئے ۔

(Indian Round Table Conference[second session] Proceedings of the Federal Structure Committee and Minorities Committee Vol 1. P31-35)
Indian Round Table Conference[second session] Proceedings of the Federal Structure Committee and Minorities Committee Vol 2., p 1211-1215

(زندہ رود مصنفہ جاوید اقبال صاحب ، ناشر سنگ میل پبلیکیشنز لاہور 2008صفحہ504 )

علامہ اقبال نے ہندوستان آنے کے چند ماہ کے بعد مارچ 1931ءمیںAll Indian Muslim Conference کی صدارت کرتے ہوئے قائد ِ اعظم کے اس موقف کو جو آپ نے 26نومبر 1931ءکو فیڈرل سٹرکچر کی کمیٹی میں پیش کیا تھا اور کسی مسلم مندوب نے اس کی مخالفت نہیں کی تھی، شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔اور اسے ایک سنگین غلطی قرار دیا اور یہ سوال اُٹھایا کہ کیا انہیں ایسا کرنے کا حق بھی تھا کہ نہیں۔اور یہ الزام لگایا کہ انہوں نے یہ غلطی بعض انگریز سیاستدانوں کے غلط مشورہ کے زیر ِ اثر کی تھی ۔ اور اس کی وجہ سے حکومت کو یہ موقع مل گیا کہ اس نے صوبوں کو خود مختار حکومتیں دینےمیں تاخیر کر دی ہے۔اوریہ دعویٰ کیا کہ تمام ہندوستان کے مسلمان اس موقف کو ایک سنگین غلطی سمجھتے ہیں اور حاضرین کانفرنس کو تحریک کی کہ وہ اس موقف کی مخالفت میں آواز اُٹھائیں۔مختصر یہ کہ اس طرح اس نازک موقع پر جب کہ مسلمانوں میں اتحاد ضروری تھا ، مسلمان لیڈروں کے درمیان ایسا ناگوار اختلاف سامنے آیا ، جس کے نتیجہ میں مسلمانوں کی قوت کو نقصان پہنچنا ایک لازمی بات تھی۔

The All India Muslim Conference 1928-1935, compiled by K.K.Aziz, published by Sange Meel publications p.88

علامہ اقبال جماعت ِ احمدیہ کے خلاف مہم شروع کرتے ہیں

اس مرحلہ کے بعد جماعت ِ احمدیہ کے خلاف یہ نفرت انگیز مہم زور پکڑتی گئی اور علامہ اقبال بھی اس مخالفت میں پیش پیش نظر آنے لگے۔اس کے نتیجہ میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے 7مئی 1933ء کو کشمیر کمیٹی کی صدارت سے استعفی ٰ دے دیا۔علامہ اقبال کو نیا صدر بنایا گیا ۔ اس مرحلہ پر علامہ اقبال کا نیا شکوہ سا منے آیا کہ کمیٹی کے احمدی ممبران اپنی قیادت کی پیروی کرتے ہیں اور اس بنا پر علامہ اقبال نے استعفیٰ دیا اور کمیٹی کو ختم کرنے کا اعلان کر دیا۔

یہاں یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اگر احمدی غدار تھے اور تفرقہ ڈال رہےتھے تو آپ کو ان کے تعاون کی ضرورت کیوں تھی ؟کیا ہندوستان کے کروڑوں مسلمانوں میں آپ جیسے نمایاں لیڈر کو کچھ افراد بھی نہیں مل رہے تھے جو کہ مظلوم مسلمانوں کی مدد کے لئے آپ سے تعاون کرتے۔

2جولائی 1933ءکو علامہ اقبال کی صدارت میں ایک نئی آل انڈیا کمیٹی قائم کی گئی اور اس میں کسی احمدی کو شامل نہیں کیا گیا۔اب تو احمدی اس کا حصہ نہیں تھے ۔ اب تو چاہیے تھا کہ پہلے سے کئی گنا زیادہ کام ہوتا ۔ان مخالفین کے نزدیک اگر احمدی غدار تھے اور کشمیریوں کی خدمت کرنے کی بجائے اپنے مسلک کی تبلیغ کرتے تھے تو اب تو یہ مسئلہ ختم ہو گیا تھا ۔ لیکن نہ اس کمیٹی کو مالی وسائل میسر ہوئے اور نہ کارکنان ملے جو بے لوث کام کرتے اور نہ ہی کوئی کام ہوا۔ آخر تنگ آکر علامہ اقبال نے1934ء میں اپنے آپ کو اس کمیٹی سے علیحدہ کرلیا اور یہ کمیٹی بھی اپنی موت آپ مر گئی۔

مجلس ِ احرار کی ہُلّڑ بازی کا انجام

اب ہم یہ جائزہ لیتے ہیںکہ مجلس احرار نے کیا تیر مارا ؟ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے انہیں پیشکش کی تھی کہ وہ آل انڈیا کشمیر کمیٹی میں شامل ہو جائیں لیکن انہوں نے انکار کر دیا تھا اور کانگرس کے لیڈر مولانا ابوالکلام آزاد کے مشورے سے اپنی علیحدہ تحریک چلائی تھی۔احرار نے ہزاروں مسلمانوں سے گرفتاریاں دلائیں ۔اور انہیں جیل میں اذیّتوں کا نشانہ بننا پڑا۔ سول نافرمانی کی تحریک بھی چلائی ۔کچھ روز کی بے فائدہ ہلّڑ بازی کے بعد اس تحریک کے پاس نہ کارکنان تھے اور نہ کوئی ان کی سننے کو تیار تھا ، اور نہ حوصلہ تھا کہ استقلال سے کوئی تحریک چلاتے ۔ صرف53دن میں احرار کی ہمت جواب دے گئی اور انہوں نےباضابطہ طورپرتحریک ختم کرنے کا اعلان کردیا۔ ہزاروں مسلمانوں کو قید بھی کرایا اور نتیجہ صفر۔’’اندھا کیا چاہے دو آنکھیں‘‘ مہاراجہ نے احرار کو چند دن روٹیاں کھلا کر جی بھر کر فائدہ اُٹھایا ۔ احرارنے اختلافات کی جو آگ کشمیر کمیٹی میں لگائی تھی اس کے شعلے کشمیر تک پہنچے اور 1933ءمیں کشمیر کے مسلمانوں کے دو گروہ بن گئے۔ ایک گروہ شیخ عبد اللہ صاحب کا گروہ تھا اور دوسرا گروہ مولوی یوسف شاہ صاحب کا تھا۔ اس اختلاف نے کشمیر کے مسلمانوں کی مہم کو مزید کمزور کر دیا۔ذیل میں حوالے درج کئے جاتے ہیں۔ ہر کوئی ان حقائق کا آزادانہ تجزیہ کر سکتا ہے۔

(Iqbal and the politics of Punjab1926-1938, by Khurram Mahmood, published by , National Book Foundation 2010, p 90-112)
(Political Islam in Colonial Punjab Majlis –i-Ahrar 1929-1949, by Samina Awan, by Oxford University Press 2010,p 40-55)

علامہ اقبال کی تحریروں کا تجزیہ

جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے اس فیصلہ میں علامہ اقبال کی جن تحریروں کے طویل حوالے درج کئے گئے ہیں، ہم نے ان تحریروں کا پس منظر پیش کیا ہے۔اوراب ہم ان تحریروں کا مختصر تجزیہ پیش کریں گے۔اس عدالتی فیصلہ میں ان تحریروں کا آغاز نہیں درج کیا گیا۔ اس آغاز سے واضح ہوجاتا تھا کہ علامہ اقبال کی طرف سے احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی یہ گزارش کس سے کی جا رہی تھی اور اس کا اصل مخاطب کون تھا؟

علامہ اقبال لکھتے ہیں:

I intended to address an open letter to the British people explaining the social and political implications of the issue.

ترجمہ: میرا ارادہ تھا کہ برطانوی لوگوں کو مخاطب کر کے ایک کھلا خط لکھوں تا کہ اس مسئلہ کے معاشرتی اور سیاسی مضمرات کی وضاحت کی جا سکے۔

گویا اس تحریک کو مسلم لیگ میں پیش نہیں کیا گیا بلکہ اس کا مخاطب اصل میں برطانوی حکمران تھے۔یہ سوال قدرتی طور پر اُٹھتا ہے کہ اس مذہبی معاملہ میں کہ کون مسلمان ہے ؟ انگریزوں کو درخواست کیوں پیش کی جا رہی تھی ؟

اب یہ دیکھتے ہیں کہ ان تحریروں میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کے حق میں کیا دلائل پیش کئے گئے ؟ تو پہلی تحریر Qadianism and Orthodox Muslimsکے شروع میں ہی علامہ اقبال نے واضح کر دیا

"It must, however be pointed out at the outset that I have no intention to enter into any theological argument.”

ترجمہ: شروع میں ہی اس امر کا ذکر ضروری ہے کہ میرا مذہبی دلائل دینے کا کوئی ارادہ نہیں ہے ۔

Traitors of Islam( an analysis of Qadiani issue, by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973 p 31-32

بہت خوب !گویا احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ برطانوی حکمران قوم سے کیا جا رہا ہے اور اس کے ساتھ یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ اس سلسلہ میں کوئی مذہبی دلیل نہیں دی جائے گی۔

یہ سوال اُٹھتا ہے کہ اگر اس سلسلہ میں علامہ اقبال نے قرآن کریم اور حدیث ِ نبوی ّ سے کوئی دلیل نہیں پیش کی تھی تو کیا کوئی دلیل پیش کی تھی؟

اس کا جواب یہ ہے کہ اس سلسلہ میں انہوں نے ایک دلیل یہ ضرور پیش کی تھی کہ جس طرح کچھ صدیاں قبل ایمسٹرڈیم کے یہودیوں نے مشہور فلاسفر Spinoza کو یہودیت سے خارج قرار دے دیا تھا، اسی طرح مسلمانوں کو بھی اختیارہے کہ وہ احمدیوں کو اسلام سے خارج قرار دیں۔ اگریہ مذہبی بحث تھی تو اس سلسلہ میں قرآن یا حدیث سے کوئی دلیل پیش کرنی چاہیے تھی۔ یہ دلیل بہرحال قابلِ قبول نہیں ہو سکتی کہ کیونکہ ایمسٹرڈیم کے یہودیوں نے Spinoza کو یہودیت سے خارج کر دیا تھا۔ اس لئے ہمارا بھی یہ حق ہے کہ ہم احمدیوں کو اسلام سے خارج قرار دیں۔

یہاں ایک اور بات قابل ِ غور ہے کہ اس تحریر میں ایک ایسی عبارت بھی موجود ہے جس سے جماعت ِ احمدیہ کے متعلق مولوی صاحبان کے وہ تمام بے سر و پا دعاوی غلط ثابت ہو جاتے ہیں جنہیں وہ اب تک پیش کرتے رہے تھے۔علامہ اقبال تحریر کرتے ہیں۔

Western people who cannot but adapt a policy of non-interference in religion. This liberal and indispensable policy in a country like India has led to the most unfortunate results.

Traitors of Islam( an analysis of Qadiani issue), by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973 p37

یعنی مغربی احباب کے لئے اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں تھا کہ وہ مذہب کے معاملے میں عدم مداخلت کی پالیسی اپنائیں ۔ اگرچہ اس آزادانہ پالیسی کے بغیر کوئی چارہ نہیں تھا لیکن ہندوستان جیسے ملک میں اس کے نہایت ہی برے نتائج برآمد ہوئے۔

ان الفاظ سے تو ظاہر ہوتا ہے کہ علامہ اقبال اس خیال کا اظہار کر رہے ہیں کہ سلطنت ِ برطانیہ کو ہندوستان میں مذہبی معامات میں مداخلت ضرور کرنی چاہئے اوراحمدیت کی ترقی کو روکنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔1947ءکے بعد تو احمدیت کے مخالفین اس بات کا پراپیگنڈہ کر رہے ہیں کہ نعوذُ باللہ جماعتِ احمدیہ کو برطانوی حکومت نے اپنے مقاصد کے لئے کھڑا کیا تھا۔ جبکہ جب انگریز یہاں حکمران تھے تو اس بات پر ان سے شکوہ کیا جا رہا تھا کہ ان کی حکومت نے احمدیت کی ترقی کو روکنے کے لئے کوششیں کیوں نہیں کیں؟

کیا ‘مسیح موعود ‘ کی پیشگوئی ایک مجوسی نظریہ ہے؟

اس تحریر میں صرف احمدیوںکو غیر مسلم قرار دینے کا مطالبہ نہیں کیا گیا تھا بلکہ اس پیشگوئی کو جس کی بنیاد رسول اللہ ﷺ کی احادیث اور بیان فرمودہ پیشگوئیوں پر ہے سخت ترین الفاظ میں تنقیدکا نشانہ بنایا گیا۔علامہ اقبال لکھتے ہیں:

Even the phrase ‘Promised Messiah’ is not a product of Muslim religious consciousness. It is a bastard expression and has its origin in pre-Islamic Magian outlook.

(Traitors of Islam( an analysis of Qadiani issue), by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973 p 35)

ترجمہ: ‘مسیح ِ موعود ‘ کی اصطلاح بھی اسلامی فکر کا نتیجہ نہیں ہے ۔ یہ ایسی نا جائز اصطلاح ہے جس کی بنیاد قبل از اسلام مجوسی تصورات پر ہے۔

(اس پر یہی کہا جا کستا ہے کہ انا للہ و انا الیہ راجعون۔)

مسیح ِ موعود کا مطلب صرف یہ ہے کہ’’وہ مسیح جس کا وعدہ کیا گیا ہے۔‘‘ آنے والے مسیح کے بارے میں کسی کے کوئی بھی عقائد ہوں کیا یہ حقیقت نہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے بار بار آنے والے مسیح کے بارے میں پیشگوئی فرمائی تھی؟ احادیث کی معتبر ترین کتب میں یہ احادیث تواتر سے موجود ہیں۔ اور یہ دیکھنا چاہیے کہ رسول اللہ ﷺ نے کس تاکید اور زور سے یہ پیشگوئی فرمائی تھی۔ صرف ایک مثال درج کی جاتی ہے۔
’’حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا قسم ہے اس پرورددگار کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے کہ نازل ہوگا تم میں ابن ِ مریم حاکم عادل اور توڑنے والا صلیب کا اور مارے گا خنزیروں کو اور موقوف کردے گا جزیہ کو اور لوگوں کو کثرت سے مال دے گا یہاں تک کہ کوئی اسے قبول نہ کرے گا۔‘‘
(صحیح بخاری کتاب الانبیاء ، باب نزول عیسیٰ ابن مریم،جامع ترمذی۔ابواب الفتن ۔ما جاء فی نزول عیسیٰ ابن مریم )

ملاحظہ کیجیے کہ رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کی قسم کے ساتھ بیان فرما رہے ہیں کہ ضرور وہ موعود مسیح آئے گا اور احمدیت کی دشمنی میں مسیح کی آمد کو ایک مجوسی تصور قرار دیا جا رہا ہے۔اور ملاحظہ کریں کہ اسے’’Bastard Expression‘‘قرار دیا جا رہا ہے۔

اور اگر کوئی کج بحثی سے یہ اصرار کرے کہ اردو میں ” مسیح موعود ” کی اصطلاح کہاں استعمال ہوتی تھی؟ تو عرض یہ ہے کہ ان الفاظ میں بھی مسلمانوں کی تحریروں میں یہ اصطلاح حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد سے قبل بکثرت استعمال ہوتی تھی۔ ہم سلسلہ احمدیہ کے مشہور مخالف مولوی محمد حسین بٹالوی صاحب کی تحریر سے ہی ایک مثال پیش کر دیتے ہیں۔مولوی صاحب اشاعۃ السنہ میں ’براہین ِ احمدیہ‘ پر ریویو کرتے ہوئے لکھتے ہیں۔ (یاد رہے کہ اس وقت حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیں کیا تھا۔ )

’’یہ الفاظ ہمارے اس بیان کے مصدّق ہیں کہ مؤلف کو مسیح موعود ہونے کا دعویٰ نہیںبلکہ حضرت مسیح سے مشابہت کا ادّعا ہے۔ سو بھی نہ ظاہری و جسمانی اوصاف میں بلکہ روحانی اور تعلیمی وصف میں ۔‘‘

( اشاعۃ السنہ صفحہ 191نمبر 7جلد7)

اس سے ظاہر ہے کہ حضرت مسیح ِ موعود علیہ السلام کے دعوے سے معاََ قبل بھی یہ اصطلاح عام تھی جسے احمدیت کی مخالفت میں مجوسی اصطلاح قرار دیا گیا۔

علامہ اقبال کے مولوی حضرات اور صوفیاءکے بارے میں نظریات

علامہ اقبال کی ان تحریروں کا ایک حصہ ایسا ہے جس کے ذکر سے جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین ہمیشہ گریز کرتےہیں۔ اسی تحریر میں علّامہ اقبال نے تحریر کیا ہے کہ مولوی اور صوفی عمداََ ایسا پُر اسرار ماحول پیدا کرتے ہیں تاکہ عوام کی جہالت اور تقلید کاناجائز فائداُٹھایاجا سکے۔اور اگر انہیں اختیار ہوتا تو وہ ہندوستان میں ہر مولوی کے لئے لائسنس حاصل کرنا ضروری قرار دیتے۔ اور اتا ترک نے جو معاشرے سے مولوی کو نکال باہر کیا ہے اگر ابن ِ تیمیہ اور شاہ ولی اللہؒ اسے دیکھ لیتے تو بہت خوش ہوتے۔اور علامہ اقبال نے مشکوۃ کی ایک حدیث کا حوالہ دے کر اس خیال کا اظہار کیا کہ صرف ملک کے امیر یا اس کے مقرر کردہ لوگوں کا حق ہے کہ وہ عوام کو وعظ کریں۔

(Traitors of Islam( an analysis of Qadiani issue), by Allama Muhammad Iqbal, compiled by Agha Shorish Kashmiri, 1973 p22,23)

مولوی صاحبان علامہ اقبال کی اس تحریر کا ذکر کبھی نہیں کرتے کیونکہ اس سے ان کی مولویت کی صف لپٹ جاتی ہے۔اس لئے انہیں مجبوراََ صرف جزوی حوالے پیش کرنے پڑتے ہیں۔علامہ اقبال کی انہی تحریروں میں جنہیں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف استعمال کیا جاتا ہے ، بزرگ صوفیاء پر بھی نامناسب اعتراض ان الفاظ میں کیا گیا تھا اور یہ الفاظ اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ119پر درج ہیں۔اقبال لکھتے ہیں :

"Nor will Islam tolerate any revival of mediaeval mysticism which has already robbed its followers of their healthy instincts and given them only obscure thinking in return.”

ترجمہ :نہ ہی اسلام اب درمیانی صدیوں کے تصوف کو برداشت کر سکتا ہے جنہوں نے اس کے پیروکاروں کو صحت مندانہ رحجانات سے محروم کردیااور بدلے میں انہیں صرف مبہم خیالات دیئے۔

چونکہ جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے حضرت ابن ِ عربی کی تحریر کو بطور دلیل پیش کیا جاتا ہے۔علامہ اقبال نے اس تحریر میں حضرت ابن ِ عربی کے ان خیالات کو Psychologically Unsoundیعنی نفسیاتی طور پر غیر صحت مندانہ قرار دے دیا۔( عدالتی فیصلہ صفحہ 115)

کیا کسی وجود کی روحانی اتباع کی ضرورت نہیں؟

اس تحریر میں صرف صوفیاء جن میں حضرت ابن عربی جیسے بزرگ بھی شامل تھے پر تنقید کرنے پر اکتفا نہیں گئی بلکہ یہ اعلان بھی کیا گیا کہ اب اسلام کو کسی بزرگ کی روحانی راہنمائی کی بھی ضرورت نہیں۔ علامہ اقبال تحریر کرتے ہیں:

"Islam has already passed into the broad daylight of fresh thought and experience ; and no saint or prophet can bring it back to the fogs of mediaeval mysticism’’……

ترجمہ : اسلام اب جدید سوچ اور تجربات کی روشن خیالی میں داخل ہو چکا ہے۔ اب کوئی بزرگ یا نبی اسے قرون وسطیٰ کے تصوف کی دھند کی طرف واپس نہیں لے جا سکتا۔(عدالتی فیصلہ صفحہ119 )

اگر صرف کسی نبی کی راہنمائی سے انکار کیا جاتا تو یہ سمجھاجا سکتا تھا کہ جماعت ِاحمدیہ سے عقائدکے اختلافات کا اظہار کیا جا رہا ہے۔ لیکن یہاں تو یہ اظہار کیا جا رہا ہے کہ نہ کسی بزرگ کی راہنمائی کی گنجائش ہے اور نہ صوفیاء جیسے خیالات کی کوئی جگہ۔

اور ایک اور بات قابل ِ توجہ ہے کہ 1934ءمیں اسلام پر کون سا روشن دَور موجود تھا اورکس لحاظ سے مسلمانوں کی حالت قابل ِ رشک تھی کہ اسے کسی بھی پہلو سے درمیانی صدیوں پر فوقیت حاصل ہوتی؟ یا اسے روشن دور قرار دیا جا سکتا ۔وہ سیاسی طور پر غلام تھے۔آپس کے اختلافات نے مسلمانوں کا تماشہ بنایا ہوا تھا ۔ مالی طور پر مقروض اور قلاش، عسکری طور پر صفر ۔ علمی طور پر ہر لحاظ سے پسماندہ ۔اور پھر بھی اس دور کو ایسا قرار دیا جا رہا ہے کہ کسی بھی مصلح کی نہ کوئی ضرورت ہے اور نہ کوئی گنجائش۔
علامہ اقبال کی ان تحریروں میں ‘ختم نبوت ‘ کا جو تصور پیش کیا جا رہا ہے، وہ ایسا ہے کہ صرف نبوت سے ہی نہیں انکار کیا جاتا بلکہ ہر روحانی اتباع اور مصلح کے خلاف بغاوت کا علم بلند کر دیا جاتا ہے۔ اقبال لکھتے ہیں:

"The cultural value of the idea of Finality in Islam I have fully explained elsewhere. Its meaning is simple: No spiritual surrender to any human being after Muhammad who emancipated his followers by giving them a law”

ترجمہ: خاتمیت کی معاشرتی اہمیت کے متعلق میں ایک اور جگہ وضاحت کرچکا ہوں کہ اس کا مطلب واضح ہے: کہ آنحضرت صلی اللہ و سلم نے قانون دے کر اپنے پیروکاروں کو آزاد کر دیا ہے۔ اب روحانی طور پر کسی کے آگے سر جھکانے کی ضرورت نہیں۔

یقینی طور پر قرآن کریم آخری شریعت ہے۔ لیکن کیا اس کا مطلب ہے کہ اسلام نے یہ تعلیم دی ہے کہ کسی مجدد، خلیفہ یا بزرگ کی پیروی کی ضرورت نہیں اور نہ ان سے روحانی فیضان حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔کیا خلفاء ِ راشدین کی پیروی کی کوئی ضرورت نہیں تھی؟ کیا مجددین کی پیروی کی ضرورت نہیں تھی ؟ کیا ائمہ اہل ِ بیت کی روحانی پیروی بے سود تھی ؟کیا آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم نے جس مہدی اورمسیح کی آمد کی خبر دی تھی اس کی روحانی پیروی کی ضرورت نہیں؟ یہ تحریر احمدیت کے خلاف تھی کہ اسلام کے ہر روحانی فیضان کے خلاف اعلان ِ جنگ تھا؟

اہل ِ کشمیر کی مدد کے لئے جماعت ِ احمدیہ کی کاوشوں کی مخالفت۔پسِ پردہ کون تھا؟

ایک اور بات جس کا ذکر اس موضوع پر لکھی گئی تحریروں میں بار بار کیا گیا ہے وہ یہ ہے کہ اصل میں مہاراجہ کشمیر کے خلاف آل انڈیا کشمیر کمیٹی کی مہم کی سرپرستی انگریز حکمران کر رہے تھے۔ اوریہ حکمران مہاراجہ کشمیر کے خلاف تھے۔اور یہی وجہ تھی کہ کانگرس اس تحریک کے خلاف تھی۔اس کے علاوہ اس خیال کا بھی اظہار کیا جاتا رہا ہے کہ حضرت امام جماعت ِ احمدیہ کو آل انڈیا کشمیر کمیٹی کا صدر بنانے کی وجہ یہ تھی کہ ان کے انگریزوں سے اچھے تعلقات تھے اور یہ خیال کیا جاتا تھا کہ اس طرح وہ انگریزوں اور اس کمیٹی کے درمیان رابطہ کا کام سرانجام دے سکیں گے۔برطانوی حکومت کی بہت سی دستاویزات جو کہ پہلے خفیہ تھیں اب declassifyکر دی گئی ہیں۔ا ورہر کوئی ان کا جائزہ لے کر اس بارے میں حقیقت جان سکتا ہے۔جب ان فائلوں کا جائزہ لیا گیا تو بالکل برعکس صورت ِ حال سامنے آئی۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت ہندوستان کی حکومت اہل ِ کشمیر کے بنیادی انسانی حقوق کے لئے جماعت ِ احمدیہ کی کاوشوں کی مسلسل مخالفت کر رہی تھی۔ اس سلسلہ میں ایک مثال پیش کی جاتی ہے۔ جب جماعت ِ احمدیہ کے خلاف چلائی جانے والی مہم کے نتیجہ میں آل انڈیا کشمیر کمیٹی ختم ہو چکی تھی اور اس تحریک کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچ چکا تھا، تو 1936ءمیں حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے آل انڈیا کشمیر ایسوسی ایشن قائم فرمائی تھی تاکہ جائزہ لیا جا سکے کہ گلانسی کشمیر نے اہل ِ کشمیر کے حقوق کے لئے جو سفارشات پیش کی تھیں ان پر عمل ہو رہا ہے کہ نہیں اور جن سفارشات پر عمل درآمد نہیں ہو رہا ان پر عملدرآمد کروانے کے لئے کوششیں کی جائیں۔ اس ایسوی ایشن کا پہلا اجلاس لاہور میں ہوا۔ برٹش لائبریری میں موجود ریکارڈ ظاہر کرتا ہے اس وقت کی حکومت ان کاوشوں کے متعلق مہاراجہ کشمیر کی حکومت کو مسلسل مطلع کر رہی تھی۔ اس سلسلہ میں دہلی کے Foreign and Political Departmentاور کشمیر کی حکومت کے درمیان خط و کتابت ہوتی رہی۔اس سلسلہ میں کشمیر کے وزیر ِ اعظم Elliot James Colvin، کشمیر میں ریذیڈنٹ Lt Col L E Langاور دہلی کے Foreign and Political Departmentکے F V Wylie کے درمیان خط و کتابت بھی ہوتی رہی۔اور یہ مشورے بھی ہوتے رہے کہ اس سلسلہ کو ایک بار پھر بڑھنے سے کس طرح روکا جائے۔اس بات پر بھی تشویش کا اظہار کیا جاتا رہا کہ امام جماعت ِ احمدیہ اس مسئلہ کو اُٹھانے کی کوشش کریں گے کہ ریاست کشمیر کے وزیر کشمیریوں میں ہی سے لئے جائیں۔16جون 1936ءکو کشمیر کے انگریز وزیرِ اعظم Colvinنے ریذیڈنٹ L E Lang کو ایک خط لکھا ۔ اور اس میں امام جماعت ِ احمدیہ کی اہل کشمیر کے لئے کاوشوں کے بارے میں لکھا

"Government feel confident that the Punjab government will nip this agitation in the bud. I trust that you will take such action as you may consider necessary to attain this object.”

ترجمہ: حکومت اس بارے میں پُر اعتماد ہے کہ پنجاب کی حکومت اس شورش کو آغاز میں ہی ختم کر دے گی۔ میں اس بات پر بھروسہ کر سکتا ہوں کہ آپ اس بارے میں ہرضروری قدم اُٹھائیں گے۔

یہ ریکارڈ برٹش لائبریری میں موجود ہے اور اس کا فائل نمبر IOR/R/1/1/2837 : 1936-1937 ہے۔ ہر کوئی اس کا جائزہ لے کر حقائق جان سکتا ہے۔ اس ریکارڈ سے ان مفروضوں کی مکمل تردید ہو جاتی ہے جن کا ہم نے ذکر کیا تھا۔ ان حقائق کی روشنی میں از سرِ نو تفصیلی تحقیق کی ضرورت ہےکہ اُس دور میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف مہم کے پیچھے کون سے ہاتھ کارفرما تھے ؟ اور ان کے مقاصد کیا تھے؟

…………………

(باقی آئندہ)

اگلی قسط کے لیے…

گزشتہ قسط کے لیے…

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button