اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ(ایک تجزیہ) (قسط نمبر 4 )
جسٹس شوکت عزیز صاحب کا فیصلہ اور1953ءکے فسادات
اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف جو فیصلہ تحریر کیا ہے ، اس کےبیشتر حصہ میں تاریخی واقعات درج کئے گئےہیں اور جماعت ِ احمدیہ پر ہر طرح الزامات لگانے کے لئے غلط اور خلاف واقعہ امور درج کئے گئے ہیں یا حقائق کو توڑ مروڑ کر پیش کیا گیا ہے۔ہم گزشتہ اقساط میں 1936ءتک کے درج کردہ حالات کا تجزیہ پیش کر چکے ہیں۔
1936ءسے 1947ءتک کے واقعات کا ذکر غائب کیوں؟
لیکن ایک بات قابلِ غور ہے اور وہ یہ کہ اس کے بعد اس فیصلہ میں1936ءسے 1948ءتک کے تاریخی واقعات کا ذکر نہ ہونے کے برابرہے۔شاید پڑھنے والوں کو یہ بات تعجب میں ڈالے کہ یہ دور تو برِ صغیر کے مسلمانوں کے حوالے سے اہم ترین دور تھا کیونکہ اسی دور میں پاکستان حاصل کرنے کے لئے تحریک چلائی گئی اور پاکستان آزاد ہوا۔
شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب کے لئے بھی یہ ممکن نہ ہو کہ ان حقائق کو بدل کر پیش کر سکیں کہ آزادی سے قبل انتخابات میں جماعت ِ احمدیہ نے مسلم لیگ کی حمایت کی تھی اور مجلس ِ احرار اور جماعت ِ اسلامی جیسے جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے مسلم لیگ کی اشد مخالفت کی تھی۔غالبًا اس وجہ سے ہی اس دَورکے ذکر سے احتراز کیا گیا ہے۔البتہ مبہم سے اندازمیں یہ ضرور لکھا ہے:
"Before the partition, Mirza Mehmud had told his followers that Pakistan was not going to come into existence and that if any such state was created it would be undone.” page 46
ترجمہ: تقسیم سے پہلے مرزا محمود نے کہا کہ پاکستان نہیں بنے گا اور اگر ایسی کوئی ریاست وجود میں آئی تو ختم ہو جائے گی۔
حضرت مرزا محمود احمد صاحب نے یہ کب کہا ؟یہ بیان کہاں شائع ہوا؟ اس کا حوالہ کیا ہے؟ان باتوں کا فیصلہ میں کوئی ذکر نہیں۔
پاکستان میں جماعت ِ احمدیہ پر الزام لگاتے ہوئے ثبوت کی ضرورت نہیں پڑتی۔صرف الزام ہی ثبوت سمجھا جاتا ہے۔لیکن ہم ثبوت ضرور پیش کریں گے۔
امام جماعت ِ احمدیہ نے آزادی سے قبل ہونے والے ہندوستان کی مرکزی اسمبلی کے انتخابات کے بارے میں احمدیوں کو یہ ہدایت دی۔
’’میں اس نتیجہ پر پہنچا ہوں ۔کہ آئندہ الیکشنوں میں ہر احمدی کو مسلم لیگ کی پالیسی کی تائید کرنی چاہئے۔تا انتخابات کے بعد مسلم لیگ بلا خوفِ تردید کانگرس سے یہ کہہ سکےکہ وہ مسلمانوں کی نمائندہ ہے۔اگر ہم اور دوسری مسلمان جماعتیں ایسا نہ کرینگی۔تو مسلمانوں کی سیاسی حیثیت کمزور ہو جائے گی ۔اور ہندوستان کے آئندہ نظام میں ان کی آواز بے اثر ثابت ہو گی…‘‘)
( الفضل 22اکتوبر 1945 ء)
اگر جماعت ِ احمدیہ کے نزدیک پاکستان کا بننا یا قائم رہنا ممکن نہیں تھا تو پھر جماعت ِ احمدیہ ان انتخابات میں مسلم لیگ کی حمایت کیوں کر رہی تھی؟
چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر اعتراضات
چونکہ1953ءکے فسادات میں مخالفین نے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی ذات کو خاص طور پر نشانہ بنایا تھا۔ اس لئے اس عدالتی فیصلہ میں جہاں پر 1953ءکے فسادات کا ذکر ہے وہاں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر خاص طور پر اعتراضات کئے گئے ہیں۔
تقسیمِ ہندکے دور کا ذکر کرتے ہوئے جسٹس شوکت عزیز چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے بارے میں لکھتے ہیں:
"People did not like Sir Zafaruulah at all for his past role as a servant of the British Imperialists and his perspective on foreign policy. The people believed that he did not plead Pakistan’s case before the boundary commission and the Kashmir issue at UN.” Page 45& ,46
ترجمہ: لوگ سر ظفر اللہ کو خارجہ پالیسی کے بارے میں ان کے نظریات کی وجہ سے بالکل پسند نہیں کرتے تھے کیونکہ وہ برطانوی سامراج کے ملازم رہ چکے تھے ۔لوگوں کا خیال تھا کہ انہوں نے پاکستان کا مقدمہ باؤنڈری کمیشن کے سامنے نہیں لڑا تھا اور نہ ہی کشمیر کا قضیہ اقوام ِ متحدہ میں پیش کیا تھا۔
ہر سنی سنائی بات نہ تو خبر ہوتی ہے اور نہ ہی اس کا سچا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ اور نہ قانونی طور پر اس قسم کی مبہم اور غیر واضح باتیں بیان کر کے کسی کو متّہم کیا جا سکتا ہے۔
چوہدری ظفر اللہ خان کب برطانوی سامراج کے ملازم رہے تھے؟ اور اس کا کیا مطلب ہے؟
سب سے اہم بات تو یہ ہےکہ وہ آل انڈیا مسلم لیگ کے صدر رہے تھے۔ اگر وہ کسی سامراج کے ملازم تھے تو مسلمانوں کی نمائندہ سیاسی تنظیم نے انہیں اپنا صدر کیوں منتخب کیا تھا؟
اور اگر مراد یہ ہےکہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر رہے تھے تو واضح رہے کہ پاکستان کے پہلے وزیرِ اعظم لیاقت علی خان صاحب ، اور قائد ِ اعظم کی کابینہ کے اراکین سردار عبد الرب نشتر صاحب،چندریگراور غضنفر علی خان بھی وائسرائے ایگزیکٹو کونسل کے ممبر رہے تھے۔
یہ الزام کہ آپ نے باؤنڈری کمیشن میں پاکستان کا مقدمہ پیش نہیں کیا تھا۔ خدا جانے یہ لکھتے ہوئے لکھنے والے کے ذہن میں کیا تھا؟ اگر اس سے مراد یہ ہے کہ آپ نے پاکستان کا مقدمہ صحیح طور پر پیش نہیں کیا تھا تو اس کے چند ماہ بعد قائدِ اعظم نے آپ کو پاکستان کا پہلا وزیرِ خارجہ کیوں مقرر کر دیا؟
اب تو اس باؤنڈری کمیشن کی ساری کارروائی شائع ہو چکی ہے ۔ ہر کوئی اسے پڑھ سکتا ہے۔ ہم ممنون ہوں گے اگر اس سے کوئی ثبوت پیش کیا جائے کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس کمیشن کے روبرو پاکستان کا کیس نہیں پیش کیا یا صحیح طور پر پیش نہیں کیا۔
مسئلہ کشمیر اور چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی خدمات
اسی طرح اگر یہ کہنے کی کوشش کی گئی ہے کہ آپ نے سلامتی کونسل میں کشمیر کے مسئلہ پر پاکستان کی صحیح نمائندگی نہیں کی تھی تو پہلی بات یہ ہے کہ وہ واحد قرارداد جس پر بناء کر کے پاکستان اب تک اپنا موقف پیش کرتا رہا ہے وہ اس وقت منظور کی گئی تھی جب چوہدری ظفر اللہ خان صاحب سلامتی کونسل میں پاکستان کی نمائندگی کر رہے تھے۔اس کے بعدسات دہائیوں میں اس قسم کی کوئی پیش رفت نہیں ہو سکی۔
اب یہ جائزہ لیتے ہیں کہ اس بحث کے دوران جو نمایاںافراد موجودتھے انہوں نے اس بارے میں کیا رائے ظاہر کی .
ز… پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم چوہدری محمد علی صاحب جو اس وفد میں شامل تھے لکھتے ہیں:
"Zafarullah Khan’s masterly exposition of the case convinced the security council that the problem was not simply one of expelling so called raiders from Kashmir”.
ظفراللہ خان نے اس ماہرانہ انداز میں واقعات پیش کئے کہ سلامتی کونسل کو یقین ہو گیا کہ یہ معاملہ فقط کشمیر سے نام نہاد حملہ آوروں کو باہر نکالنے کا نہیں ہے۔
(The Emergence of Pakistan,by Chaudri Muhammad Ali,research Society of Pakistan,Oct.2003,p301)
ز…آزاد کشمیر کے سابق صدر سردار ابراہیم جو اس موقع پر موجود تھے اپنی کتاب میں لکھتے ہیں:
’پاکستان کے وزیرِ خارجہ نے سلامتی کونسل کے اجلاس میں جو بھارت کی شکایت پر بلایا گیا تھا۔بھارت کے ایک ایک الزام کو غلط اور بے بنیاد ثابت کر دیا’ (کشمیر کی جنگِ آزادی ،مصنفہ سرادار محمد ابراہیم ،طابع دینِ محمدی پریس لاہور1966ء،صفحہ126)
ز…چوہدری صاحب نے اس بحث میں دوسرے فریق کے بیانات کو اس مہارت سے استعمال کیا کہ اس کا اعتراف ان کے مصنفین بھی کرتے ہیں۔ چنانچہ بال راج مدھک سلا متی کونسل میں ہونے والی بحث کے متعلق لکھتے ہیں:
’’انہوں نے (یعنی شیخ عبد اللہ نے ) مختلف مواقع پر جو بیانات دیئے تھے اور جو تقریریں کی تھیں اور اسی طرح پنڈت نہرو کی تقریروں نے ظفراللہ کے ہاتھ میں ایسی چھڑی پکڑا دی تھی جس سے وہ ہندوستان کی پٹائی کرتے رہے۔‘ ‘
(Kashmir Storm center of the world,chapter8,by Bal Raj Madhok)
ز…شیخ عبد اللہ صاحب ہندوستان کے وفد میں شامل تھے اور انہوں نے اپنے مؤقف کو صحیح ثابت کرنے کے لئے اپنی کتاب میں بہت کچھ لکھا ہے۔لیکن چوہدری صاحب کے کامیاب انداز کے متعلق وہ اعتراف کرتے ہیں:
‘ ’’پاکستانی وفد کی قیادت وزیرِ خارجہ چودھری سر ظفراللہ خان کر رہے تھے۔مجھے بھی ہندوستان کے وفد میں شامل کیاگیا…سر ظفراللہ ایک ہوشیار بیرسٹر تھے۔انھوں نے بڑی ذہانت اور چالاکی کا مظاہرہ کر کے ہماری محدود سی شکایت کو ایک وسیع مسئلے کا روپ دے دیا اور ہندوستان اور پاکستان کی تقسیم کے سارے پر آشوب پس منظر کو اس کے ساتھ جوڑ دیا۔ ہندوستان پر لازم تھا کہ وہ اپنی شکایت کا دائرہ کشمیر تک محدود رکھتا۔لیکن وہ سرظفراللہ کے پھیلائے ہوئے جال میں پھنس کر رہ گیا اور اس طرح یہ معاملہ طول پکڑ گیا۔ بحثا بحثی کا سلسلہ ایسا شروع ہؤا کہ ختم ہونے میں ہی نہ آتا تھا۔ہمارے کان پک گئے اور قافیہ تنگ ہونے لگا۔ہم چلے تو تھے مستغیث بن کر لیکن ایک ملزم کی حیثیت سے کٹہرے میں کھڑے کر دیئے گئے۔’
(آتشِ چنار،مصنفہ شیخ محمد عبداللہ،مطبع جے کے آفسٹ پرنٹرز ،جامع مسجد دہلی۔1986ء صفحہ473)
1953ءکے فسادات کا آغاز
اس مضمون میں ان فسادات کی تمام تفصیلات درج نہیں کی جا رہیں بلکہ اس فیصلہ میں ان فسادات کے بارے میں درج باتوں پر تبصرہ پیش کیا جا رہا ہے۔
سب سے پہلے تو یہ تجزیہ ضروری ہے کہ پاکستان بنتے ہی جماعت ِ احمدیہ کے خلاف فسادات شروع کرانے کی وجہ کیا تھی؟ یہ وجہ جاننےکے لئے ان فسادات کو شروع کرنے والوں کے عزائم اور نفسیات کو جاننا ضروری ہے۔ہم صرف مجلسِ احرار اور جماعت ِ اسلامی کا تجزیہ پیش کریں گے۔ اس شورش کو سب سے پہلے احرار نے ہوا دی۔ اگرچہ احرار دعویٰ کرتے تھے کہ وہ مذہبی مقاصد رکھتے ہیں لیکن وہ مذہب کا نام صرف سیاست کی دوکان چمکانے کے لئے استعمال کرتے تھے۔ان کا عقیدہ تھا کہ سیاسی رسوخ حاصل کرنا ہی اصل مذہبی مقصد ہے۔یہ پوچ نظریہ اُن کے ذہنوں میں بری طرح رچ بس گیا تھا ۔ 1939ء کی آل انڈیا احرار کانفرنس کے خطبہ صدارت میں افضل حق صاحب نے یہ پالیسی ان الفاظ میں بیان کی ۔
’’احرار اس یقین پر قائم ہیں کہ نیکی بغیر قوت کے زندہ نہیں رہ سکتی۔مذہب صرف اس کا زندہ ہے جس کی سیاست زندہ ہے۔اگرچہ بعض تبلیغی اوراصلاحی امور بھی احرار سے متعلق ہیں۔تا ہم سیاسی قوت حاصل کرنا ہمارا نصب العین ہے جس کے بغیر ہر اصلاحی تحریک تضیعِ اوقات ہے۔‘‘
( خطباتِ احرار جلد اول ،مرتبہ شورش کاشمیری،مکتبہ احرار لاہور ،مارچ1944ء،صفحہ17۔18 )
اور جماعت ِ اسلامی بنانے کا مقصد مودودی صاحب کے الفاظ میں یہ تھا:
” جماعت ِ اسلامی کا نصب العین اور اس کی تمام سعی و جہد کا مقصود دنیا میں حکومت ِ الٰہیہ کا قیام اور آخرت میں رضائے الہیٰ کا حصول ہے۔”
( مسلمان اور موجودہ سیاسی کشمکش حصہ سوئم، مصنفہ ابوالاعلیٰ مودودی صاحب صفحہ173-174)
اور اس کتاب کا ایک بڑا حصہ اس بحث سے بھرا ہوا ہے کہ یہ حکومت ِ الٰہیہ صرف ایک صالح جماعت قائم کر سکتی ہے۔ چونکہ ایسی جماعت کوئی موجود نہیں اس لئے ‘جماعت ِ اسلامی ‘ کو قائم کیا جا رہا ہے تاکہ وہ حکومت حاصل کر سکے اور حکومتِ الہیہ قائم کر سکے۔
اس مضمون کو جسٹس شوکت عزیز صاحب بخوبی سمجھتے ہوں گے کیونکہ وہ خود ایک مرتبہ جماعت ِ اسلامی کے ٹکٹ پر انتخاب لڑچکے ہیں گو کہ کامیابی حاصل نہیں کر سکے تھے۔ اس پس منظر میں یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ ان جماعتوں کی تشکیل اسی بنیاد پر ہوئی تھی کہ وہ کسی طرح سیاسی اقتدار حاصل کریںاوراپناپروگرام پوراکرسکیں۔
یہ دونوں جماعتیں اور مولویوں کی بھاری اکثریت آزادی سے قبل پاکستان کے قیام کی مخالفت کر چکے تھے اور اسے پلیدستان، ناپاکستان، کافرستان اور غلامستان کہتے رہے تھے۔ جس وجہ سے آزادی کے بعد ان کی سیاسی حیثیت ختم ہو گئی تھی اور احرار نے تو سیاسی امور سے کنارہ کشی کا اعلان بھی کر دیا تھا اور جماعت ِ اسلامی آزادی کے بعد پنجاب میں ہونے والے الیکشن میں ایک بھی نشست نہیں حاصل کر سکی تھی۔ اب انہیں اپنے سیاسی مردے میں جان ڈالنے کے لئے کسی مسئلہ کی ضرورت تھی جس کو بھڑکا کر وہ دوبارہ سیاسی سٹیج پر اپنی جگہ بنا سکیں۔ اس تمنا کے تحت جماعت ِ احمدیہ کے خلاف فسادات کی بنیاد ڈالی گئی۔
اب ہم اس عدالتی فیصلہ کے اُس حصہ کی طرف آتے ہیں جس میں1953ءکے فسادات کا ذکر کیا گیا ہے۔ افسوس کے ساتھ لکھنا پڑتا ہے کہ اس ذکر کے آغاز میں ہی ایک واضح غلط بیانی کی گئی ہے۔
جسٹس شوکت عزیز صاحب نے اس فیصلہ کے صفحہ 46پر لکھا ہے
"The anti-Ahmadiyya movement took shape in mid-1948 and reached its peak in 1953. Within a few monts time, the ullema of all shades of opinion launched a movement.”
ترجمہ: جماعت ِ احمدیہ کے خلاف تحریک نے 1948ءکے وسط میں شکل پکڑنی شروع کی۔ اور چند ماہ کے اندر اندر تمام خیالات کے علماء نے تحریک کا آغاز کر دیا۔
ان فسادات پر تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ موجود ہے۔ اس کا سرسری مطالعہ بھی اس بات کو واضح کر دیتا ہے کہ یہ فسادات پنجاب تک محدودتھے۔ بنگال اس تحریک سے تقریباََ مکمل طور پر لا تعلق رہا تھا ۔ کراچی میں ایک حد تک یہ شورش پھیلانے کی کوشش کی گئی لیکن باقی سندھ میں اس شورش کا نام و نشان تک نہیں تھا۔ سرحد میں بھی اس شورش نے کوئی زور نہیں پکڑا تھا۔ جب مودودی صاحب نے ’قادیانی مسئلہ‘ لکھا جو مارچ 1953ء میں یعنی فسادات کے زور پکڑنے سے کچھ روز قبل ہی شائع ہوا تو اس کی تمہید میں ہی وہ اس تحریک کی نامقبولیت کا رونا ان الفاظ میں روتے نظر آتے ہیں۔وہ علماء کی طرف سے پیش کردہ تجاویز کے بارے میں لکھتے ہیں:
’’ ہم محسوس کرتے ہیں کہ قادیانی مسئلہ کا بہترین حل ہونے کے باوجود تعلیم یافتہ لوگوں کی ایک تعداد ابھی تک اس کی صحت اور معقولیت کی قائل نہیں ہو سکی اور پنجاب اور بہاولپور کے ماسوا دوسرے علاقوں خصوصاََ بنگال میں ابھی عوام الناس بھی پوری طرح اس کا وزن محسوس نہیں کر رہے۔‘‘
( قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی سیاسی اور معاشرتی پہلو ۔ مصنفہ ابوالاعلیٰ مودودی ، ناشر اسلامک پبلیکیشنز مئی 2000صفحہ 20)
اور اس رسالہ میں بظاہر اس نامقبولیت کی وجہ یہ تحریر کرتے ہیں۔’’اس میں شک نہیں کہ اس مطالبے کو منوانے کے لئے عوام جس طریقہ سے مظاہرے کر رہے ہیں وہ شائستہ نہیں اور ملک کے تعلیم یافتہ اور سنجیدہ لوگ کسی طرح اسے پسند نہیں کر سکتے۔‘‘
قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی سیاسی اور معاشرتی پہلو ۔ مصنفہ ابوالاعلیٰ مودودی، ناشر اسلامک پبلیکیشنز مئی 2000صفحہ 50 )
تحقیقاتی عدالت میں ثابت ہوا تھا کہ جن علاقوں میں اس شورش نے زور پکڑا تھا ان علاقوں میں پنجاب حکومت اپنے سیاسی مقاصد کے لئے خود اس شورش کو ہوا دے رہی تھی اور اس غرض کے لئے علماء اور اخبارات کو سرکاری فنڈز سے مالی مدد بھی دی گئی تھی۔اس کی تفصیلات بعد میں بیان کی جائیں گی۔
قادیانی سامراجیوں کے ایجنٹ !؟
افسانہ اور حقیقت
جب 1953ءکے فسادات کا ذکر شروع ہوا تو اس بات کی بھی ضرورت تھی کہ یہ وضاحت پیش کی جائے کہ آخر احمدیوںکے خلاف یہ نفرت انگیزی کیوں کی جا رہی تھی؟ اس کے لئے ضروری تھا کہ احمدیوں کچھ الزامات لگا کر یہ دعویٰ کیا جائے کہ اصل میں یہ احمدیوں کا ہی قصور تھا کہ ان کے خلاف فسادات شروع ہو گئے۔پاکستان میں اگر کسی کی کردار کشی کرنی ہو اور کوئی دلیل یا ثبوت مہیا نہ ہو تو آسان ترین طریقہ یہ ہے کہ اسے مغربی طاقتوں کا یا یہودیوں کا ایجنٹ قرار دے دیا جائے۔بالعموم اس قسم کے الزام کے ثبوت نہیں طلب کئے جاتے ۔ اسی مجرب نسخہ کو اس عدالتی فیصلہ میں بھی استعمال کیا گیا ہے۔ اس فیصلہ میں لکھا ہے
"They came to know that the qadianis are palying the imperialists’ game in order to undermine the integrity of the state.” page 45
ترجمہ: لوگوں کو علم ہو گیا کہ قادیانی استعماری طاقتوں کی کھیل کھیل رہے ہیں اور ریاست کی سالمیت کو نقصان پہنچا رہے ہیں۔
اور یہ جملہ لکھنا ہی کافی سمجھا گیا ہے ۔ نہ کوئی دلیل نہ کوئی ثبوت۔ صرف ایجنٹ ہونے کا الزام لگا دیا ۔آخر یہ ہولناک انکشاف کس طرح ہوا؟ اور گلی گلی لوگوں کو تو علم ہو گیا لیکن کیا حکومت ِ پاکستان اور اس کے ادارے اونگھ رہے تھے کہ یا تو انہیں علم نہ ہوا یا کچھ کرنے کی سکت نہیں تھی۔
لیکن حقیقت جاننے کا ایک آسان طریقہ ہے ۔ کابینہ میں ایک ہی احمدی تھا یعنی حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب۔اور ان کی وزارت بھی ایسی تھی یعنی وزارت ِ خارجہ کہ اس الزام کو پرکھنا نسبتاََ آسان ہوگا۔وزیرِ خارجہ بننے سےمعاََقبل قائد اعظم نےچوہدری صاحب کو مسئلہ فلسطین پر اقوام ِ متحدہ میں پاکستان کی نمائندگی کرنے کے لئے مقرر کیا تھا۔ یہ بات کچھ عجیب سی معلوم ہوتی ہے کہ اگر احمدی مغربی استعمار کے ایجنٹ تھے تو اتنے اہم معاملہ میں ایک احمدی کو پاکستان کا نمائندہ کیوں مقرر کیا گیا؟
اگر کوئی کج بحثی پر اُتر آئے اور ہم فرض کر لیں کہ قائد ِ اعظم کو غلطی لگ گئی تھی تو پھر اس سے اگلا مرحلہ ہمیں اور بھی حیرت زدہ کر دیتا ہے۔ اقوام ِ متحدہ میں دو کمیٹیاں قائم کر دی گئی تھیں ۔ایک کمیٹی نے یہودیوں اور امریکہ کی رائے کے مطابق تجاویز مرتب کرنی تھیں اور ان کو پیش کرنا تھا اور دوسری کمیٹی نے فلسطینیوں کی رائے کے مطابق تجاویز تیار کرنی تھیں اور انہیں پیش کرنا تھا۔ جس کمیٹی نے فلسطینیوں کی آراء کو تیار کرنا تھا اور ان کا دفاع کرنا تھا اس کا صدر بھی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو بنایا گیا اور Rapporteurبھی آپ کو ہی بنایا گیا ۔اس کمیٹی میں زیادہ تر عرب مسلمان ممالک تھے اور مسلمان ممالک کے مندوبین نے متفقہ طور پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو اپنی کمیٹی کا صدر منتخب کیا تھا۔ضمناََ یہ عرض کردیں کہ ان میں ایک سعودی عرب کے امیر فیصل بھی تھے جنہیں آج کی دنیا شاہ فیصل کے نام سے جانتی ہے ۔ چوہدری ظفراللہ خان صاحب کی اس مسئلہ پر تقاریر انٹرنیٹ پر موجود اقوام ِ متحدہ کے ریکارڈ پر موجود ہیں۔ ہر کوئی جائزہ لے سکتا ہے کہ ان تقاریر میں امریکہ کے موقف کی بھر پور مخالفت کی گئی تھی۔
ایک بار پھر حیرت ہوتی ہے کہ اگر احمدی مغربی طاقتوں کی کھیل کھیل رہے تھے تو پھر ایک احمدی کے سپرد یہ سب کام کیوں کئے گئے۔یہ1947ءکے واقعات ہیں۔
اب ہم ایک مثال 1948ءسے پیش کرتے ہیں ۔ دسمبر1948ءمیں اقوام ِ متحدہ میں انسانی حقوق کا عالمی منشور تیار کیا جا رہا تھا اور اس کے مسودہ پر بھر پور بحث ہو رہی تھی۔جب اس کا مسودہ بحث کے لئے پیش ہوا تو سوویت یونین نے اس مسودہ میں ترامیم پیش کیں ۔ان میں سب اہم ترمیم یہ تھی کہ ا ُس مسودہ کے آرٹیکل 3کو تبدیل کر کے یہ شق شامل کی جائے کہ ہر کسی کو ہر قوم کو آزادی(self determination )کا حق حاصل ہے۔جو ممالک ان علاقوں پر قابض ہیں جنہیں ابھی خود اختیاری کا حق نہیں ملا یعنی وہ آزاد نہیں ہوئے، اُن ممالک کو چاہیے کہ اس بات کو یقینی بنائیں کہ اِن علاقوں یا ممالک کو بھی اقوام ِ متحدہ کے مقاصد اور اصولوں کے مطابق یہ حق حاصل ہو یعنی وہ بھی آزاد ہو جائیں۔ اُس وقت بہت سے ممالک جن میں کئی مسلمان ممالک بھی شامل تھے برطانیہ اور فرانس کے قبضہ میں تھے اور اس ترمیم کے منظور ہونے کی صورت میں اس منشور میں ان کی آزادی کا حق تسلیم ہوجانا تھا۔10دسمبر 1948ءکو اس ترمیم پر رائے شماری ہوئی ۔ اس ترمیم کے حق میں صرف آٹھ ممالک نے ووٹ دیئے ۔ ان ممالک میں سوویت یونین ، یوکرین، بیلو روس چیکو سلاویکیا، پولینڈ ، کولیمبیا ، پولینڈ اور پاکستان شامل تھے۔ مسلمان ممالک میں سے صرف پاکستان کی نمائندگی کرتے ہوئے چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اس تجویز کی تائید کی۔ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس نے تو اس تجویز کی مخالفت میں ووٹ دینا ہی تھا لیکن ستم ظریفی یہ کہ ایران، شام اور ترکی نے بھی اس کی مخالفت میں ووٹ دیا۔ اور مصر،افغانستان، عراق اور سعودی عرب نے بھی عافیت اسی میں ہی سمجھی کہ رائے شماری میں حصہ نہ لیں۔ حالانکہ اس کے نتیجہ میں کئی مسلمان ممالک کی آزادی میں سہولت پیدا ہونی تھی۔اگر احمدی مغربی طاقتوں کی کھیل کھیل رہے تھے تو اُس وقت صرف ایک احمدی نے اس اہم ترین موقع پر مغربی طاقتوں کے سامنے کھڑا ہونے کی ہمت کیوں کی تھی اور باقی ممالک جن میں سعودی عرب بھی شامل تھا یہ ہمت کیوں نہ کر سکے؟
جب بھی کسی کمزور ملک میں کوئی طبقہ کسی بیرونی طاقت کے ہاتھوں میں کھیلنا شروع کرتا ہے تو اِس طبقہ کے اس طاقت سے روابط پیدا ہوتے ہیں اور یہ طبقہ اپنے ہم وطنوں کے خلاف اس طاقت کا آلہ کار بن کر اس بڑی طاقت کی خدمت میں اپنی رپورٹیں پیش کرتا رہتا ہے۔ جب پاکستان آزاد ہوا تو اُس وقت امریکہ دنیا کی سب سے بڑی طاقت کے طور پر سامنے آ چکا تھا۔ اب اُ س وقت کا امریکی وزارتِ خارجہ کا ریکارڈ بڑی حد تک declassify ہو چکا ہے۔اور شائع بھی ہو چکا ہے اور اس سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کی کئی نمایاں شخصیات کے امریکہ سے خفیہ روابط تھے۔جب1947ءسے 1955ءتک کا یہ ریکارڈ پڑھتے ہیں تو معلوم ہوتا ہے کہ خود پاکستان کے ایک گورنر جنرل نے امریکہ کی حکومت کو پیغام بھجوایا تھا کہ وہ اُس وقت پاکستان کے وزیرِ اعظم سے ذرا سخت رویہ اختیار کریں۔ اور اِس ریکارڈ کے مطابق50کی دہائی میں ایک قومی ادارے کے سربراہ نے امریکہ کے سفارتکاروں کے سامنے اس بات کا اظہار کیا تھا کہ وہ مرکزی حکومت کی نان سینس کو قبول نہیں کریں گے اور اگر سول انتظامیہ ناکام ہوئی تو وہ نظم و نسق سنبھالنے کے لئے تیار ہیں۔ اس ریکارڈ میں دور دور تک اس بات کا ذکر نہیں ملتا کہ کبھی چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے ان سفارتکاروں سے اس قسم کے خفیہ روابط ہوئے ہوں۔ اگر یہ اُوٹ پٹانگ مفروضہ درست ہے کہ احمدی پاکستان میں بڑی طاقتوں کے اشارہ پر کام کر رہے تھے تو بڑی طاقتوں سے روابط بھی انہیں کے ہونے چاہیے تھے۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ جن لوگوں کے یہ خفیہ روابط تھے وہ احمدی ہر گز نہیں تھے۔ ہم نے عمداََ ان نمایاں شخصیات کے نام نہیں لکھے کیونکہ مقصد ایک الزام کی تردید کرنا ہے نہ کہ کسی پر کیچڑ اچھالنا ۔ حوالہ درج کیا جاتا ہے جو چاہے پڑھ کر اپنی تسلی کر سکتا ہے۔
(خفیہ پیپرز مرتبہ قیوم نظامی ناشر جہانگیر بکس صفحہ1تا11)
امریکی مدد کا افسانہ
اس عدالتی فیصلہ میں ایک الزام اور ایک مفروضہ درج کر دیا گیا کہ پاکستان میں احمدی اور خاص طور پر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب بڑی طاقتوں کے آلہ کارکے طور پر کام کر رہے تھے ۔ یہ جائزہ لینا ضروری ہے کہ اس کا کیا ثبوت پیش کیا گیا؟ شاید اس ثبوت کی کمی دور کرنے کے لئے اس عدالتی فیصلہ میں مودودی صاحب کے ایک بیان کا حوالہ دیتے ہوئے جو تحقیقاتی عدالت کے روبرو دیا گیا تھا لکھا ہے کہ مودودی صاحب نے کہا:
"We are told that but for the position of Zafarullah Khan in the State Cabinet, America would not have given Pakistan a grain of wheat. I say if it is really so, the matter becomes even more serious. This clearly implies that an American agent presides over Foreign Affairs Department and our foreign policy has been pawned for ten lakh tons of grain.” page 47
ترجمہ: ظفر اللہ خان کی کابینہ میں پوزیشن کے بارے میں ہمیں بتایا جاتا ہے کہ امریکہ ایک گندم کا دانہ بھی نہیں دے گا۔ میں کہتا ہوں اگر واقعی ایسا ہے تو یہ معاملہ اور بھی سنگین بن جاتا ہے۔ اس کا صاف مطلب یہ ہے کہ امریکہ کے ایجنٹ وزارت ِ خارجہ پر قابض ہیں اور ہماری خارجہ پالیسی دس لاکھ ٹن گندم کے عوض گروی رکھی ہوئی ہے۔
گویا یہ سنسنی خیز انکشاف کیا جا رہا ہے کہ امریکہ اس شرط پر پاکستان کی مدد کرتا تھا کہ چوہدری ظفر اللہ خان کو وزیرِ خارجہ رکھو گے تو مدد ملے گی ورنہ نہیں۔گویا یہ ثبوت دیا جا رہا ہے کہ پاکستان میں احمدی مغربی طاقتوں کے ایجنٹ کے طور پر کام کر رہے ہیں۔
اس بارے میں حقائق پیش کرنے سے پہلے یہ واضح کرنا ضروری ہے کہ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں نامکمل حوالہ پیش کیا گیا ہے ۔ حقیقت یہ ہے کہ اس بیان میں مودودی صاحب نے فوراََ یہ وضاحت پیش کردی تھی کہ وہ ہر گز امریکہ کی حکومت کو کسی قسم کا الزام نہیں دے رہے ۔ انہوں نے کہا تھا:
’’مگرمجھے یقین نہیں آتا کہ امریکی حکومت کا کوئی مدبر ایسا بیوقوف ہو سکتا ہے کہ وہ پاکستان کے ساڑھے آٹھ کروڑ باشندوں کی دوستی پر ایک شخص کی دوستی کو ترجیح دے۔اور48کروڑروپے کے ایک دوستانہ تحفےسے باشندگان ِ پاکستان کو احسان مند بنانے کی بجائے ان کے دلوں میں اپنی قوم کو اور حکومت کے خلاف الٹے سیاسی شکوک پیدا کردے۔‘‘
(قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی سیاسی اور معاشرتی پہلو ،از ابوالاعلیٰ مودودی صاحب ، ناشر اسلامک پبلیکیشنز مئی 2000صفحہ 135 )
مکمل حوالہ پڑھ کر یہی ظاہر ہوتا ہے کہ اس عدالتی فیصلہ میں ایک بے جان اعتراض میں زندگی کی روح پھونکنے کے لئے مودودی صاحب کے بیان کا سہارا لیا گیا تھا لیکن جب ہم پورا بیان پڑھتے ہیں تو وہ خود ہی اس مفروضے کی مکمل تردید کر دیتا ہے۔ لیکن ہم مزید تسلی کے لئے کچھ مالی اعداد و شمارپیش کرتے ہیں۔
جہاں تک پاکستان کے لئے امریکہ کی مدد کا تعلق ہے تو ہمیشہ سے سب سے متنازعہ ملٹری مدد رہی ہے۔ دسمبر1948ءسےچھ سال تک چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پاکستان کے وزیر ِ خارجہ رہے۔ اور اس دوران امریکہ کی طرف سے پاکستان کو ایک ڈالر کی بھی ملٹری ایڈ نہیں دی گئی۔ اور اس کے اگلے چھ برس کے دوران 2069ملین ڈالر کی خطیر ملٹری مدد دی گئی۔
اب اقتصادی مدد کا جائزہ لیتے ہیں۔ جن چھ سالوں میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیرِ خارجہ تھے ان کے دوران امریکہ کی طرف826ملین ڈالر کی اقتصادی مدد پاکستان کو دی گئی اور اس سے اگلے چھ برس کے دوران5371ملین ڈالر اقتصادی مدد دی گئی۔
Figures are adjusted for inflation and presented in 2009 constant dollars https://www.theguardian.com/global-development/poverty-matters/2011/jul/11/us-aid-to-pakistan . retrieved on 14.8.2018
ان اعداد و شمار کی روشنی میں تو کوئی ذی ہوش اُن الزامات کو قبول نہیں کر سکتا جو کہ اِس عدالتی فیصلہ میں لگائے گئے ہیں۔ لیکن ہمیں تو کوئی یہ سمجھائے کہ آخر چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کے وزارت ِ خارجہ سے رخصت ہوتے ہی کون سی ‘کرامت ‘ ظہور میں آئی کہ امریکی مدد کا سیلاب اُمڈ آیا۔
سرکاری اختیارات کے ناجائز استعمال کا الزام
پاکستان میں مخالفین عموماََ یہ مطالبہ کرتے ہیں کہ احمدیوں کو کلیدی عہدوں پر نہیں لگانا چاہیے۔ اس مطالبہ کا کوئی آئینی اور قانونی جواز موجود نہیں ہے۔ اس جواز کو پیدا کرنے کے لئے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ احمدی سامراجی طاقتوں کے ایجنٹ ہیں اور عہدے کا فائدہ اُٹھا کر ناجائز طور پر دوسرے احمدیوں کی یا جماعت ِ احمدیہ کی مدد کرتے ہیں۔اور خاص طور پر1953ءکی شورش کے دوران سب سے زیادہ یہ الزام حضرت چوہدری ظفر اللہ خان صاحب پر لگایاگیاتھا۔اس بارے میں تحقیقاتی عدالت میں مودودی صاحب کے بیان کا حوالہ دیتے ہوئے اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ میں لکھا ہے کہ مودودی صاحب نے یہ الزام لگایا تھا۔ گویا مودودی صاحب کا کہنا کافی دلیل ہے اور کسی ثبوت کی ضرورت نہیں۔ مودودی صاحب جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت میں پیش پیش تھے اور اُن کا الزام لگا دینا کسی دلیل یا ثبوت کی حیثیث نہیں رکھتا۔ بہر حال اس فیصلہ میں مودودی صاحب کا یہ بیان درج کیا گیا ہے:
"The demand for Sir Zafarullah Khan’s removal from office not only originates from the doctrine that no non-Muslim should hold the office of a Minister in an Islamic state, but is also based on the fact that Sir Zafarullah Khan had always misused his official position to promote and strengthen the Qadiani movement.” page 47
ترجمہ : یہ مطالبہ کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کو وزیر ِ خارجہ نہیں ہونا چاہیے صرف اس نظریہ کی وجہ سے نہیں ہے کہ کوئی غیر مسلم اسلامی ریاست میں وزیر نہیں بننا چاہیے۔ بلکہ اس کی بنیاد اس حقیقت پر بھی ہے کہ سر ظفر اللہ نے ہمیشہ اپنی سرکاری پوزیشن کا غلط استعمال کیا ہے اور اسے قادیانی تحریک کو ترویج دینے اور اسے مضبوط بنانے کے لئے استعمال کیا ہے۔
یہ وہ الزام ہے جو اُس وقت لگایا جاتا تھا اور اب بھی لگایا جاتا ہے۔ لیکن جب تحقیقاتی عدالت میں اس بارے میں خواجہ ناظم الدین صاحب سے سوال کیا گیا تو انہوں نے اپنے ایک جاری کردہ سرکلر کا حوالہ دیتے ہوئےکہا:
” It did not necessarily accept the allegation against the Foreign Minister but he had a general reputation that he tries to help Ahmadis and to convert people to his community. I asked for definite complaints which however were not available.”
ترجمہ : اس کا لازمی مطلب یہ نہیں کہ وزیر ِ خارجہ کے خلاف الزامات کو تسلیم کر لیا گیا تھا البتہ عمومی شہرت یہ تھی کہ وہ احمدیوں کی مدد کرتے ہیں اور لوگوں کو احمدی بنانے کی کوشش کرتے ہیں ۔ میں نے معین شکایت پیش کرنے کے لئے کہا لیکن ایسی کوئی شکایت پیش نہیں کی گئی تھی۔
اور اس سے قبل یہ ذکر چل رہا ہے کہ علماء کا وفد وزیر ِ اعظم سے مل کر اپنا موقف پیش کر چکا تھا۔ذرا تصور کریں کہ چھ سال چوہدری ظفر اللہ خان صاحب وزیر ِ خارجہ رہے اور اُس وقت بھی اور اب تک یہ الزام لگایا جاتا رہا۔ خود وزیرِ اعظم نے دلچسپی لے کر مخالفین کو کہا کہ اس بات کی کوئی ایک معین مثال پیش کریں کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب نے اپنے عہدے سے جماعت ِ احمدیہ کو ناجائز فائدہ پہنچایا ہو اور وہ ایک مثال بھی پیش نہ کرسکے۔ مودودی صاحب کا عدالت میں بیان پڑھ جائیں ، انہوں نے صرف یہ الزام لگایا اور اس کی کوئی ایک مثال بھی پیش نہ کر سکے۔ دوسرے مخالفین کے بیانات پڑھ جائیں وہ بھی اس کا نہ کوئی ثبوت پیش کر سکے اور نہ کوئی مثال ان کے پاس تھی۔ چھ سال میں انہیں اس کی ایک بھی مثال نہ مل سکی۔اور یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ اس عدالتی فیصلہ میں صرف مودودی صاحب کا الزام ہی درج ہے کوئی ثبوت نہیں دیا گیا۔ اس سے زیادہ کیا ثبوت ہو سکتا ہے کہ یہ الزام جھوٹ کے سوا کچھ نہیں تھا۔ اور دوسری طرف تحقیقاتی عدالت میں ثابت ہوا کہ انہی سالوں میں پنجاب حکومت سرکاری فنڈز سے ان علماء کی جیبیں گرم کر رہی تھی جو جماعت ِ احمدیہ کے خلاف شورش چلا رہے تھے۔ اور اُن اخبارات کو جو جماعت ِ احمدیہ کے خلاف مضامین شائع کر رہے تھے ‘ تعلیم ِ بالغاں ‘ کے فنڈز سے رشوتیں دی گئی تھیں ۔
اتنی نہ بڑھا پاکئی داماں کی حکایت
دامن کو ذرا دیکھ ذرا بندِ قبا دیکھ
جہانگیر پارک میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر پر اعتراض
اس فیصلہ کے صفحہ46پر لکھا ہے:
"Ahmadis announced to hold a public meeting at Karachi. Mr. Zafarullah as the main speaker. The Prime Minister Khawaja Nazimuddin expressed his disapproval of the Zafarrullah’s attending such gathering. But Mr. Zafarullah was so committed that he told the Prime Minister that he would either resign or attend the meeting. Sir Zafarullah’s controvercial speech resulted in eruption of demonstrations in Punjab and Karachi and intensified the anti-Qadiani movement.”
ترجمہ : احمدیوں نے کراچی میں ایک عام جلسہ کرنے کا اعلان کیا۔مسٹر ظفر اللہ اس کے اہم مقرر تھے ۔ وزیرِ اعظم خواجہ ناظم الدین نے اس پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا کہ ظفر اللہ ایسے اجلاس میں شرکت کریں۔لیکن مسٹر ظفر اللہ اس بارے میں اتنے پُر عزم تھے کہ انہوں نے وزیر ِ اعظم کو کہا کہ یا وہ اس عہدے سے مستعفی ہو جائیں گے یا اس جلسہ میں شرکت کریں گے۔ سر ظفر اللہ کی متنازعہ تقریر کے نتیجہ میں پنجاب اور کراچی میں مظاہرے شروع ہو گئے اور قادیانیت کے خلاف مہم اور تیز ہو گئی۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ وزیر ِ اعظم اور جسٹس شوکت عزیز صاحب کے نزدیک یہ بات قابل ِ اعتراض تھی کہ چوہدری ظفر اللہ خان صاحب ایک حکومتی عہدیدار ہوتے ہوئے بھی ایک فرقہ کے جلسہ میں تقریر کریں۔ یقینی طور پر ہر ایک شخص کو اپنی رائے قائم کرنے کا حق ہے۔لیکن اُس وقت جو حالات تھے ان کی چند جھلکیاں پیش ہیں۔
سب سے پہلے تو یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی یہ تقریر ” ایک عالمگیر مذہب کی حیثیت سے اسلام کی برتری پر تھی۔” اسلام کی فضیلت پر اس تقریر کے صرف چند فقروں میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ذکر تھا۔
اس کے برعکس مولوی شبیر احمد عثمانی صاحب نے جو کہ مسلم لیگ کی طرف سے مرکزی اسمبلی کے ممبر تھے اپنی ایک کتاب ‘ شہاب ‘ کو شائع کرنے کی اجازت دی اور اس میں احمدیوں کو واجب القتل قرار دیا گیا تھا۔اور احمدیوں کے خلاف شورش برپا کرنے والوں نے جلسوں میں سب کو اس کتاب کو پڑھنے کا مشورہ دیا۔اور اس اشاعت کے بعد احمدیوں کے قتل کی وارداتیں شروع بھی ہوئیں۔ مرکزی اور صوبائی حکومتوں نے اس کتاب پر پابندی نہیں لگائی۔جب احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز جلسے شروع ہوئے تو بعض مقامات پر خود ڈپٹی کمشنر اور ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ نے ایسے جلسوں کی صدارت کی اور ان جلسوں میں احمدیوں کے خلاف اشتعال انگیز بیانات دیئے گئے۔ لیکن حکومت نے ان افسران کو اُن کے عہدوں سے برطرف نہیں کیا۔خود پنجاب کے وزیرِ اعلیٰ ممتاز دولتانہ صاحب نے حضوری باغ میں جلسہ عام سے تقریر کرتے ہوئے احمدیوں کے خلاف خوب زہر فشانی کی اور کہا کہ جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کو آخری نبی نہیں تسلیم کرتا وہ غیر مسلم ہے اور اس معاملہ میں بحث کرنا بھی کفر ہے۔ احمدیوں کے خلاف چلنے والی نفرت انگیز تحریک کے ذمہ دار خود احمدی ہیں۔اور احمدیوں کو غیر مسلم قرار دینے کی راہ میں ایک مسئلہ یہ حائل ہے کہ اس صورت میں احمدیوں کو وہ حقوق دینے پڑیںگے جو وہ احمدیوں کو نہیں دینا چاہتے۔ اور خود حکمران مسلم لیگ کے عہدیدار جماعت ِ احمدیہ کے خلاف جلسے اور جلوس کر رہے تھے۔ پنجاب کی مسلم لیگ کی کونسل نے یہ قرارداد منظور کی کہ احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا جائے۔یہ تو بیانات کا تذکرہ تھا۔اُس وقت احمدیوں کے خلاف شورش کی، جس میں احمدیوں کو قتل کرنے اور ملک سے باہر نکالنے کی دھمکیاں دی جا رہی تھیں ، اُس وقت کی پنجاب حکومت مالی نوازشوں سے اس شورش کی مدد کر رہی تھی۔چنانچہ تحقیقاتی عدالت میں یہ ثابت ہوا کہ پنجاب حکومت نے احسان، مغربی پاکستان ،زمیندار، آفاق جیسے اخبارات کو تعلیم بالغاں ‘ کے فنڈ سے رقم نکال کر بطور رشوت دیئے۔ اور ان اخبارات نے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف نفرت انگیز مضامین شائع کئے ۔ اور اسی طرح اس رپورٹ میں اعتراف کیا گیا تھا کہ پنجاب حکومت نے محکمہ اسلامیات ‘ قائم کیا جس کے فنڈز سے ان علماء کو مالی طور پر نوازا گیا جو کہ جماعت احمدیہ کے خلاف شورش میں سرگرم تھے۔ اور یہ سب کچھ پاکستان کے لوگوں کے دیئے گئے ٹیکس سے کیا گیا۔ پولیس نے مخالفین ِ جماعت کی طرف سے ایسا سرکلر بھی پکڑا جس میں لکھا گیا تھا کہ جو چوہدری ظفر اللہ خان کا گلا کاٹے گا وہ جنت میں جائے گا۔اس کے باوجود نہ وزیر اعظم کی طرف سے اور نہ کسی اور سطح پر پنجاب حکومت، ممتاز دولتانہ صاحب یا پنجاب مسلم لیگ کی کونسل کے خلاف کسی قسم کی کارروائی کی گئی۔ ہم نے صرف ٹھوس حقائق پیش کئے ہیں اور تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے حوالے درج کئے جا رہے ہیں۔ پڑھنے والے خود آزادانہ رائے قائم کر سکتے ہیں کہ کیا اس پس منظر میں چوہدری ظفر اللہ خان صاحب کی تقریر پر جو اسلام کی فضیلت پر تھی اور اس میں کسی فرقہ کے خلاف نفرت انگیزی نہیں کی گئی تھی کوئی اعتراض ہو سکتا ہے؟
(رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے فسادات ِ پنجاب 1953 ء صفحہ97-98, 88-90,83-85, 77,55, 48, 44,36,24,18 )
مارچ 1953 ءکے واقعات
جماعت ِ احمدیہ کے خلاف یہ فسادات ممتاز دولتانہ صاحب کی پنجاب حکومت کے زیر سایہ پھلتے پھولتے بالآخر مارچ 1953ءمیں صوبہ پنجاب میں بالعموم اور لاہور شہر میں شدت اختیار کر گئے۔پہلے ڈائریکٹ ایکشن کی دھمکی دی گئی ، پھر جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے ڈائریکٹ ایکشن کا آغاز کر دیا۔ احمدیوں کی قتل و غارت اور ان کے گھروں اور اموال کی لوٹ مار عروج پر پہنچ گئی۔ پولیس مظلوم احمدیوں کی مدد کو آنے کی بجائے بلوائیوں کا ساتھ دے رہی تھی۔ خاص طور پر لاہور میں مولوی حضرات تقریریں کر رہے تھے کہ یہ بد امنی، قتل و غارت اور لوٹ مار باعث ثواب ہے۔ ممتاز دولتانہ صاحب اس شورش کی بیساکھیوں کے سہارے اپنا سیاسی قد بڑھانا چاہتے تھے اور خواجہ ناظم الدین صاحب کی مرکزی حکومت کے خلاف اس شورش کا رخ پھیر کر وزیرِ اعظم بننے کا خواب دیکھ رہے تھے۔لیکن آخر میں صورت ِ حال اُن کے بھی قابو سے باہر ہو گئی۔ فسادی دولتانہ صاحب کا نہیں اپنا ایجنڈ پورا کر رہے تھے۔اس عدالتی فیصلہ کے صفحہ 43پر یہ الزام لگایا ہے کہ ربوہ ریاست کے اندر نیم آزاد ریاست کی حیثیت رکھتا تھا۔ ریاست کے اندر ریاست تب بنتی ہے جب کسی مقام پر حکومت ِ وقت کی عملداری ختم ہو کر جزوی یا کلی طور پر کسی اور گروہ کے ہاتھ میں چلی جائے۔1953ءکے حوالے سے ہی دیکھ لیں ساری عدالتی کارروائی پڑھ جائیں ربوہ کے اندر قانون شکنی کا ایک واقعہ نہیں ہوا، کوئی قتل و غارت نہیں ہوئی ۔ اور فسادیوں کا مرکز لاہور میں مسجد وزیر خان تھی وہاں کیا کیفیت تھی؟ 4 مارچ کو جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے پولیس افسران کو اغوا کر کے لے جانے کا سلسلہ شروع کیا اور انہیں بے دردی سے قتل کر دیا گیا۔ اشتہار لگائے گئے کہ پولیس ہتھیار ڈال دے ، ہم حکومت کے خلاف جہاد کر رہے ہیں۔ اور 6مارچ کو تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ کے مطابق یہ صورت ِ حال تھی کہ لاہور شہر پر حکومت کی عملداری ختم ہو رہی تھی ۔اس رپورٹ میں لکھا ہے’’حادثہ پر حادثہ رونما ہوتا گیا۔پولیس اور احمدیوں پر حملے کئے گئے۔اور حکومت یا احمدیوںکے اموال وجائیداد کو لوٹنے کا ہنگامہ جاری رہا۔‘‘(رپورٹ تحقیقاتی عدالت برائے فسادات ِ پنجاب 1953 ء صفحہ 159 تا 161 )یہ حقیقت ظاہر ہے کہ ‘ریاست کے اندر ریاست ‘ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے قائم کی تھی اور یہ سلسلہ اب تک جاری ہے۔دولتانہ صاحب نے وزیرِ اعظم کو فون کیا کہ فسادیوں کے مطالبات مان لیں ورنہ لاہور شہر تو ختم ہے۔ پاکستان کی مرکزی کابینہ نے حالات قابو کرنے کا فیصلہ کیا اور جنرل اعظم نے لاہور شہر میں مارشل لاء لگا دیا۔ اس سے قبل تو شورش برپا کرنے والے کہہ رہے تھے کہ وہ خون کے آخری قطرے تک جد و جہد کریں گے لیکن جب قانون نافذ کرنے والوں نے فساد کرنے والوں سے رو رعایت بند کردی تو لاہور میں جلد ہی ان کے حوصلے پست ہو گئے۔دوسرے انہیں یہ بھی نظر آ رہا تھا کہ اب عوام ان کی حمایت نہیں کر رہے۔ایجی ٹیشن کرنے والوں نے مساجد سے نکل کر گرفتاریاں دینی شروع کر دیں اور 8مارچ تک تو لاہور میں امن و سکون بحال ہو گیا۔
عبدالستار نیازی صاحب کی بزدلی
مسجد وزیر خان اس فساد کو برپا کرنے والوں کا سب سے بڑا مرکزتھا۔اور ادھر عبد الستار نیازی صاحب اشتعال انگیز کارروائیوں میں پیش پیش تھے۔جب انہیں یہ خطرہ دکھائی دیا کہ شاید انہیں گرفتار کر لیا جا ئے تو انہوں نے ایک استرے کی مدد حاصل کی۔کسی پر حملہ کرنے کے لئے نہیں بلکہ اپنی داڑھی سے نجات حاصل کرنے کے لئے ۔اس طرح وہ بھیس بدل کر کے باہر نکلنے میں کامیاب ہوئے مگر کچھ روز کے بعد انہیں گرفتار کر لیا گیا۔اور سول اینڈ ملٹری گزٹ کی رگِ ظرافت پھڑکی تو ان کی دو تصویریں ’Before‘اور ’After‘ کے عنوان کے ساتھ شائع کردیں۔ایک میں موصوف ایک ضخیم داڑھی کے ساتھ تھے اور دوسری میں داڑھی غائب تھی۔
(آفاق ،10 مارچ1953ء صفحہ1۔)
The Civil &Military gazette,March 24,1953
مودودی صاحب اور جماعت ِ اسلامی کا انحراف کہ ہم تحریک میں شامل ہی نہیں تھے
اس بات کا ذکر ضروری ہے کہ جسٹس شوکت عزیز صدیقی صاحب نے اپنے فیصلہ میں مودودی صاحب کو 1953ءکے ہیرو کے طور پر پیش کیا ہے لیکن ایک اہم بات کا ذکر انہوں نے نہیں کیا۔ اور وہ یہ کہ جب فسادات ختم ہو چکے تھے اور تحقیقاتی عدالت میں سب جماعتوں نے اپنے اپنے بیانات جمع کرائے تو جماعت ِ اسلامی کی طرف سے بھی بیان جمع کرایا گیا ۔اس بیان میں مودودی صاحب کی جماعت نے جماعت ِ احمدیہ ، صوبائی اور مرکزی حکومت کے علاوہ ان فسادات کی ذمہ داری جماعت احمدیہ کے مخالفین پر بھی عائد کی تھی۔اور انہوں نے دعویٰ کیا کہ جماعت ِ اسلامی اس تحریک کو چلانے والوں کے طریقہ کار سے متفق نہیں تھی۔اور جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے17 جنوری 1953کے بعد ، ڈائرکٹ ایکشن کی دھمکی سے لے کر اس پر عملدرآمد تک جو بھی اقدامات اُٹھائے وہutraviresیعنی غیر قانونی تھے ۔ خود ان کی مجلسِ عمل کے قوانین کے مطابق انہیں اس کا اختیار نہیں تھا۔ جماعت ِ اسلامی تو ان اقدامات میں شامل نہیں تھی بلکہ مودودی صاحب نے اپنے کارکنان کو روک دیا تھا کہ وہ ان اقدامات میں شامل نہ ہوں ۔ اور ان میں شامل ہونے کی پاداش میں بعض کارکنان کو جماعت ِ اسلامی سے نکال بھی دیا گیا تھا۔ان کا دعویِ تو یہ تھا کہ ہم نے مجلس ِ عمل کا اجلاس بلا کر ان اقدامات کو روکنے کی کوشش کی تھی لیکن دوسرے مخالفین نے ہماری ایک نہ چلنے دی۔جماعت ِ اسلامی نے جو بیان تحقیقاتی عدالت میں پیش کیا اس میں جلی حروف میں underlineکر کے یہ استدعا کی۔
” The Jammat-i-Islami as such was not a member of this new or any other direct action committee nor was any individual belonging to jammat allowed to enroll itself as a direct action worker. The Maulana made it quite obvious to everybody by his order and by his action by expelling two of his members of the Jammat for alleged disobedience of his orders that the jammat did not believe in or support the direct action in any manner and had completely dissociated from all such activities.”
ترجمہ: جماعت ِ اسلامی بحیثیت جماعت اس نئی یا کسی اور ڈائریکٹ ایکشن کمیٹی کی ممبر نہیں تھی اور نہ اس کے کسی کارکن کو اجازت دی گئی تھی کہ وہ ڈائریکٹ ایکشن کے کارکن کی حیثیت سے اپنا نام لکھوائے۔ مولانا نے اپنے حکم سے اور اپنے اس عمل سے کہ جن دو ممبران نے اس حکم کی نافرمانی کی تھی انہیں جماعت سے خارج کر دیا گیا تھا، یہ بالکل واضح کردیا تھا کہ جماعت نہ تو کسی طرح کے ڈائریکٹ ایکشن پر یقین رکھتی ہے اور نہ اس کی حمایت کرتی ہے اور اس قسم کی سرگرمیوں سے اپنے آپ کو بالکل علیحدہ کرتی ہے۔
تحقیقاتی عدالت کی رپورٹ سے ظاہر ہے کہ جب فروری کے آخر میں اس تحریک نے زور پکڑا یعنی یہ شورش اصل مراحل میں داخل ہوئی تو اُس وقت شورش چلانے والے ڈا ئریکٹ ایکشن پلان پر عمل کر رہے تھے اور جماعت ِ اسلامی نے عدالت میں استدعا کی تھی کہ وہ تو اس کا حصہ نہیں تھے بلکہ خلاف تھے۔ لیکن مجلسِ احرار نے ان کے اس بیان کو غلط قرار دیا اور کہا کہ وہ ہر طرح اس کا حصہ تھے۔ اب جماعت اسلامی کی طرف سے عدالت میں دیئے جانے والے بیان کا جو اردو ترجمہ ‘ قادیانی مسئلہ اور اس کے مذہبی سیاسی اور معاشرتی پہلو کے نام سے شائع کیا جاتا ہے وہ جماعت ِ اسلامی نے تحریف کر کے شائع کیا ہے اور اس شورش کا سہرا اپنے سر باندھنے کی کوشش کی ہے۔ اس میں یہ حصے نکال دیئے گئے ہیں کہ انہوں نے شورش کے اصل حصہ کی مخالفت کی تھی۔ لیکن اصل انگریزی بیان محفوظ ہے۔ اور یہ حقیقت اس لئے بھی نہیں چھپ سکتی کہ تحقیقاتی عدالت کی اردو رپورٹ کے صفحہ 263سے 272میں یہ سب امور بڑی تفصیل سے بیان کئے گئے ہیں۔
کیا وزیرِ اعظم کو مارشل لاء کے فیصلہ پر افسوس تھا؟
اس فیصلہ کے صفحہ48پر لکھا ہے:
The whole nation condemned it. The action was also resented by the Prime Minister.
یعنی پوری قوم نے اس ایکشن کی مذمت کی اور وزیر ِ اعظم اس پر ناراض تھے۔
یہ بات خلافِ واقعہ ہے کیونکہ جب یہ سب واقعات ہو چکے تھے اور عدالت ان فسادات پر تحقیقات کر رہی تھی۔ توخواجہ ناظم الدین صاحب سے 1953ءمیں لاہور میں ہونے والے جنرل اعظم صاحب کےآرمی کے ایکشن کی بابت سوال کیا گیا۔ انہوں نے جواب دیا
I, however, accept responsibility for General Muhammad Azam’s action because taking over by the military was, in my opinion the only opinion the situation could be saved.
ترجمہ: البتہ میں جنرل محمد اعظم کے ایکشن کی ذمہ داری قبول کرتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک اس وقت ملٹری کا نظم و نسق سنبھالنا وہ واحد راستہ تھا جس سے صورت ِ حال بچائی جا سکتی تھی۔
………………
(باقی آئندہ)