اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ(ایک تجزیہ) (قسط نمبر 9)
اسلم قریشی صاحب کا اغواء ، شہادت اور پھر دوبارہ زندہ ہوجانا
قسط 8 سے ہم اُس مرحلہ کا ذکر شروع کر چکے ہیں جب کہ 1984ءمیں جماعتِ احمدیہ کے خلاف جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے مہم چلانی شروع کی تھی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے اس فیصلہ کے صفحہ 76پر اختصار سے جماعت ِ احمدیہ کے خلاف اس تحریک کے شروع ہونے کا ذکر ہے۔ اور یہ بھی ذکر ہے کہ اس تحریک کے آٹھ مطالبات تھے ۔
ہم گزشتہ قسط میں ان میں سے ایک اہم مطالبہ یعنی مرتد کے لئے سزائے موت مقرر کرنے کا ذکر کر چکے ہیں۔جنہوں نے فیصلہ پڑھا ہے ان میں سے کئی احباب ان میں سے پانچویں مطالبے کو سمجھ نہیں سکے ہوں گے اور انہوں نے محسوس کیا ہوگا کہ اس عدالتی فیصلہ میں گو کہ بہت سی تفصیلات درج ہیں لیکن اس مطالبے کے متعلق کچھ وضاحت نہیں کی گئی کہ اس سے کیا مراد تھی ؟اس فیصلہ سے اس مطالبہ کی عبارت درج کی جاتی ہے:
"Arrest of Mirza Tahir Ahmad and some of his colleagues in connection with the disappearance of Maulana Aslam Qureshi and immediate recovery of Maulana Qureshi.”(page 76)
ترجمہ : ’’مرزا طاہر احمد اور ان کے کچھ ساتھیوں کو مولانا اسلم قریشی کے غائب ہونے کے سلسلے میں گرفتار کیا جائے اور مولانا قریشی کو فوراََ برآمد کرایا جائے۔‘‘
حقیقت یہ ہے کہ یہ وہ اہم مطالبہ تھا جس کی وجہ سے یہ تحریک شروع کی گئی تھی اور آخر میں جنرل ضیاء صاحب نے مخالفین جماعت کے مطالبات کے مطابق جماعت ِ احمدیہ پر مختلف قسم کی پابندیاں لگانے کے لئے ایک آرڈیننس نافذ کیا تھا۔اور اسی مطالبہ کی وجہ سے پورے ملک میں ایک سال سے زائد عرصہ ایک ہیجان کی کیفیت رہی تھی اور کیا عام شہری اور کیا صدر ِ مملکت سب تشویش کا شکار رہے تھے۔
مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اس معاملہ کی کچھ تفصیلات پڑھنے والوں کے سامنے رکھی جائیں تا کہ انہیں یہ اندازہ ہو سکے کہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف چلنے والی شورشوں کو کس طرح پروان چڑھایا جاتا ہے؟
بلکہ مناسب ہو گا کہ کم از کم پاکستان میں ان واقعات کو قانون نافذ کرنے والے ادارے اور سول سروس اپنے نصاب میں شامل کرلیںتاکہ جو افراد وہاں سے تربیت حاصل کر کے نکلیں انہیں یہ تو علم ہو کہ علماء کا طبقہ جب کوئی ملک گیر مہم چلانے کے لئے نکلتا ہے تو اس کی منصوبہ بندی کس طرح کی جاتی ہے؟ اور اس شورش کو کس طرح پروان چڑھایا جاتا ہے۔ اگر وہ ان واقعات کا مطالعہ کریں گے تو وہ بہتر سمجھ سکیں گے کہ ان سے نمٹنا کس طرح ہے؟
اسلم قریشی صاحب کا پہلا قاتلانہ حملہ
سب سے پہلے تو یہ جاننا ضروری ہے کہ وہ ’’’مولانا اسلم قریشی‘‘ ‘ کون تھے ؟ اور کس طرح پہلی مرتبہ منظر عام پر آئے تھے؟
1971ءمیں حضرت مسیح موعودؑکےپوتےاور حضرت صاحبزادہ مرزا بشیر احمد صاحبؓکےصاحبزادے مکرم صاحبزادہ مرز ا مظفر احمدصاحب ملک کی مرکزی کابینہ میں صدر کے اقتصادی مشیر تھے۔15 ؍ستمبر 1971ء کو جب کہ ملک ایک آتش فشاں کے دہانے پر کھڑا تھا، مکرم صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب اسلام آباد کے سیکرٹریٹ میں صبح کے وقت اپنے معمول کے مطابق مرکزی سیکرٹریٹ آئے اور سوا آٹھ بجے آپ لفٹ میں اپنے دفتر جا رہے تھے ۔جس وقت لفٹ کا دروازہ بند ہو رہا تھا اس وقت کیپیٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ایک فورمین اسلم قریشی بھی لفٹ میں سوار ہو گیا۔ اور اس وقت کسی نے اس شخص کو سوار ہونے سے نہیں روکا۔جب لفٹ کا دروازہ بند ہوا تو اس وقت اسلم قریشی نے چاقو نکالا اور صاحبزادہ مرزا مظفر احمد صاحب کے پیٹ پر وار کیا ۔وہ دوسرا وار کرنے لگا تھا کہ لفٹ والے اور دفتر کے ایک اور ملازم نے اسے پکڑ لیا ۔اس پر اسلم قریشی نے صاحبزادہ صاحب پر پھر بھرپور وار کرنے کی کوشش کی اور گالیاں نکالنی شروع کر دیں اور سنگین نتائج کی دھمکیاں دیں۔لفٹ چلانے والے نے لفٹ کا دروازہ کھول دیا اور صاحبزادہ صاحب کو سہارا دے کر نکالا گیا ۔پہلے اسلام آباد پولی کلینک لے جا کر ابتدائی طبی امداد دی گئی اور پھر سی ایم ایچ لے جایا گیا۔
یہ امر قابلِ ذکر ہے کہ جب روزنامہ امروز نے یہ خبر شائع کی تو ساتھ اس عنوان کے تحت بھی کچھ سطور لکھیں ’’اسلم قریشی کا ماضی بے داغ ہے ‘‘ اور اس کے نیچے لکھا کہ جب اس کو جاننے والوں کو اس حملہ کا علم ہوا تو انہیں بہت حیرت ہوئی کیونکہ اس سے قبل اسلم قریشی کسی لڑائی جھگڑے میں ملوث نہیں رہا اور لوگ اس کی سنجیدگی ،متانت اور شرافت کے قائل تھے اور وہ کسی فرقہ پرست جماعت کا رکن بھی نہیں ہے۔
گویا قاتلانہ حملہ کرنے کے بعد بھی حملہ آور کے کردار کے بارے میں شک رہ جاتا ہے ۔یہ ایک معمول کی بات ہے کہ جب کوئی کسی احمدی پر اس قسم کا حملہ کرتا ہے تو ایک طبقہ مفسدوں کی حمایت پر کمر بستہ ہو جاتا ہے۔ جب حضرت مصلح موعود ؓ پر قاتلانہ حملہ ہوا تو سیشن عدالت نے سزا سناتے ہوئے مجرم کی کچھ مدح سرائی بھی کی تھی۔ اب اسلم قریشی کے متعلق بھی پریس کا ایک حصہ اس قسم کا رویہ اپنائے ہوئے تھا۔
[امروز 16 ؍ستمبر 1971ء صفحہ 1،مساوات 16 ؍ستمبر 1971ء صفحہ1، الفضل 17 ؍ستمبر 1971ء صفحہ1]
گرفتاری اور معافی
یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ جب اسلم قریشی صاحب پر اقدام ِ قتل کا مقدمہ چلایا گیا تو راجہ ظفر الحق صاحب نے اس کی طرف سے مقدمے کی پیروی کی تھی۔راجہ ظفرالحق صاحب بعد میں جنرل ضیاء صاحب کی کابینہ میں وزیر ِ اطلاعات بھی رہے اور 1992ء موتمر العالم ِ اسلامی کے سیکرٹری جنرل بھی ہیں۔بہر حال اسلم قریشی صاحب کو پندرہ برس کے لئے جیل کی سزا ہوئی ۔لیکن ان کا بیان تھا کہ مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب نے اُس وقت 1974ء میں بھٹو صاحب سے سفارش کروا کر انہیں رہا کروالیا ۔اورا س کے بعد وہ عمرہ کرنے اور ملازمت کرنے سعودی عرب چلے گئے ۔[حیرت ہے اس ریکارڈ کے آدمی کو سعودی عرب میں ملازمت مل بھی گئی۔] لیکن سعودی عرب میں ان کا دل نہیں لگا اور وہ پاکستان واپس آ گئے ۔لیکن اس کے بعد بھی ایک مرتبہ اسلم قریشی صاحب کو جیل جانے کا اتفاق ہوا ۔ اور اس کی وجہ ان میں اور ان کے ہمزلف کے درمیان جائیداد پر ہونے والا جھگڑا تھا۔
[روزنامہ حیدر راولپنڈی ۔19.7.1988مکتوب ِ سیالکوٹ از احسان چوہدری ، چٹان 5تا12ستمبر 1983ءصفحہ 33تا35]
اب ایک داڑھی کے اضافہ کے ساتھ وہ’’ مولانا‘‘ بن چکے تھے بلکہ جماعتِ احمدیہ کے مخالفین کی تنظیم ’’’ مجلسِ تحفظِ ختم نبوت‘‘کے سرکردہ مبلغ بھی بن چکے تھے۔
اب جو حالات ذیل میں درج کئے جائیں گے وہ جماعت ِ احمدیہ کی کسی کتاب یا اخبار سے نہیںبلکہ اُن اخبارات سے پیش کئے جائیں گے جو جماعت ِ احمدیہ کے خلاف بہت کچھ لکھ چکے ہیں۔ یا ان رسالوں سے پیش کئے جائیں گے جو کہ جماعت ِ احمدیہ کی مخالفت کے لئے وقف تھے تا کہ یہ شبہ نہ پیدا ہو سکے کہ حقائق کو توڑ موڑ کر پیش کیا گیا ہے۔
اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی
اب ہم اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کا ذکر کرتے ہیں ۔تحصیل پسرور ضلع سیالکوٹ میں بھارت کی سرحد کے بالکل قریب ایک گائوں معراجکےہے۔اس جگہ دو لڑکیوں نےاحمدیت قبول کر لی۔لازمی طورپراس جگہ مخالفت شروع ہو گئی ۔ اس مقام پر جماعت ِ احمدیہ کے ایک مخالف محمدیوسف صاحب نے سیالکوٹ میں جماعت کی مخالف تنظیم مجلس ِ احرار کے رکن سالار بشیر صاحب سے کہا کہ معراجکےمیں انہیں ایک مبلغ کی ضرورت ہے۔ سالار بشیر صاحب نے اسلم قریشی صاحب سے درخواست کی کہ وہ معراجکے میں جمعہ پڑھائیں ۔ چنانچہ اسلم قریشی صاحب نے وہاں پر 11فروری 1983ءکو’’ ختمِ نبوت ‘ کے موضوع پر خطبہ دیا ۔اور مقامی لوگوں کے ساتھ طے ہوا کہ وہ اگلی جمعرات کو اس مَوضع میں عورتوں کو وعظ کریں گے اور اس سے اگلے روز جمعہ پڑھائیںگے۔ اسلم قریشی صاحب 17فروری جمعرات کےروزایک مدرسہ دارالعلوم شہابیہ تک سائیکل پر گئے اور وہاں پر اپنی سائیکل ایک نابینا کے حوالے کی کہ میں واپسی پر لے لوں گا۔اور معراجکے روانہ ہو گئے۔ اس کے بعد ان کاکوئی پتہ نہیں چلا۔ سالار بشیر صاحب جب محمد یوسف صاحب کوملے تو انہیں بتا دیا کہ اسلم قریشی صاحب معراجکے چلے گئے ہیں ۔ محمد یوسف صاحب معراجکے آئے۔ انہیں علم ہو گیا کہ اسلم قریشی صاحب وہاں نہیں پہنچے لیکن اس نے کسی کو اطلاع نہیںدی۔اورجب گمشدگی پر پولیس نے تفتیش شروع کی محمد یوسف صاحب کو تحویل میں بھی لیا تھا۔
لازمی بات ہے جب ایک شخص اس طرح گم جائے توپھرپولیس میںرپورٹ درج کرائی جاتی ہے۔ جماعت ِ احمدیہ کی مخالف تنظیم مجلس ِ تحفظ ِ ختم ِ نبوت کو یہ شکوہ تھا کہ ان کی رپورٹ تاخیر سے درج کی گئی۔دوسرا شکوہ یہ تھا کہ جب ہم نے پولیس سے کہا کہ ایف آئی آر میں شبہ میں قادیانیوں کا نام لکھیں تو پولیس والوں نے کہا کہ کیا ملک کے سارے قادیانیوں کو پکڑ لیں ؟پھر پولیس نےایف آئی آرمیںچنداحمدیوں کے نام درج کر دیئے۔
مجلس ِ عمل کا قیام
بہر حال 25فروری1983ءکو مخالفینِ جماعت نے اسلم قریشی صاحب کی بازیابی کے لئے مجلس ِ عمل قائم کر دی۔1984ءکے حالات کا ذکر کرتے ہوئےاسلام آباد ہائی کورٹ کے تفصیلی فیصلہ کے صفحہ76پر جس مجلس ِ عمل کا ذکر ہے وہ اس طرح اسلم قریشی صاحب کے لاپتہ ہونے پرقائم کی گئی تھی۔26اور27 فروری کو چنیوٹ میں جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین مباہلہ کانفرنس منعقد کرتے ہیں اور مولوی منظور چنیوٹی صاحب اس میں اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کی خبر کو خوب اجاگر کرتے ہیں اور منظور چنیوٹی صاحب یہ انکشاف کرتے ہیں کہ اسلم قریشی صاحب کا اغوا مرزا طاہر احمد [امام جماعت ِ احمدیہ ] کی سازش کا نتیجہ ہے اور حکومت کو خبردار کیا جاتا ہے۔اور اس گمشدگی کے تقریباََ ایک ماہ کے اندر اندر ہی صدر ِ مملکت سے بھی اپیلیں شروع ہو جاتی ہیں کہ ایک ممتاز عالم ِ دین گم گیا ہے اور ہمیں شبہ ہے کہ قادیانیوں نے دشمنی کی وجہ سے اغواء کر لیا ہے ۔
[نوائے وقت 27فروری1983ء]
پولیس کے ابتدائی انکشافات
اب ہم یہ تذکرہ کرتے ہیں کہ ان ابتدائی دنوں میں پولیس نے کیا دریافت کیا تھا ؟
جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے کہ پولیس کو پہلا شک معراجکےکے جماعت ِ احمدیہ کے مخالف محمد یوسف صاحب پر ہوا تھا کیونکہ انہوں نے یہ جاننے کے باوجود کہ اسلم قریشی صاحب معراجکے کے لئے روانہ ہوئے تھے اور وہاں پر نہیں پہنچے ، کسی کو اطلاع نہیں کی ۔ اور اس شک کی بناء پر ان صاحب کو کچھ عرصہ پولیس نےاپنی تحویل میں بھی رکھا تھا۔12مارچ 1983ءکو پولیس نے اب تک اپنی کارگزاری پر سیالکوٹ میں پریس کانفرنس کی۔اسلم قریشی صاحب کے بارے میں اطلاع دینے پر انعام کا اعلان کیا گیا۔اور بتایا کہ ان کی بازیابی کے لئے چار ٹیمیںبنا دی گئی ہیں۔ پریس کانفرنس میں یہ حیران کُن انکشاف کیا گیاکہ اسلم قریشی صاحب نے اپنا پاسپورٹ بنایا تھا اور جب وہ 17 فروری کوگھر سےروانہ ہوئے تو پاسپورٹ اورچار ہزار روپیہ لے کر نکلے تھے۔ اب ظاہرہے کہ معراجکے جانے کے لئےپاسپورٹ کی ضرورت نہیں پڑتی۔اور پولیس نے اعلان کیا کہ اب تک چالیس افراد کو شامل ِ تفتیش کیا گیا ہے جن میں بعض علماء بھی شامل ہیں۔اور یہ بھی تسلی دلائی کہ چند روز میں اسلام قریشی صاحب کا سراغ مل جائے گا۔
[امروز 14مارچ 1983ء]
اس کے بعدپولیس نے دوسری اہم دریافت یہ کی کہ جب اسلم قریشی صاحب کے گھر کی تلاشی لی تو ان کے گھر سے جماعت ِ احمدیہ کے اشد ترین مخالف مولوی منظور چنیوٹی صاحب کا اسلم قریشی صاحب کے نام خط ملا اور یہ خط سات آٹھ ماہ قبل لکھا گیا تھا۔ اس خط میں منظور چنیوٹی صاحب نے انہیں ملک سے باہر بھجوانے کی پیشکش کی تھی۔
[چٹان 21تا28مارچ 1983ءصفحہ 14تا 16]
اب تک ظاہر ہونے والے واقعاتی ثبوت یہ ظاہر کر رہے تھے کہ اسلم قریشی صاحب کا اپنا اراردہ ملک سے باہر جانے کا تھااوروہ گھر سے اس کے لئے رقم اور پاسپورٹ لے کر نکلے تھے۔ اور جماعت ِ احمدیہ کے اشد ترین مخالف نے،جو کہ اب اسلم قریشی صاحب کے لئے تحریک چلانے میں پیش پیش تھے ،ا نہیں ملک سے باہر بھجوانے کی پیشکش کی تھی ۔ اور پولیس نے کچھ مولویوں کو بھی شامل ِ تفتیش کیا تھا۔اس پس منظر میں جب کمشنر جی ایم پراچہ سے ملنےکے لئے مجلس ِ عمل اور مولوی حضرات کا ایک وفد گیا تو کمشنر صاحب نے یہ سوال اُٹھایا کہ ان کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ قادیانیوںنے آخر اسلم قریشی صاحب کو کیوں اغوا کرنا تھا۔ اگر انہوں نے اغوا کرنا تھا تو منظور چنیوٹی صاحب کو کرتے جو کہ انہیں گالیاں دیتے ہیں۔
[ہفت روزہ چٹان 23تا 30مئی 1983ءصفحہ7]
قادیانی اورقادیانی نواز ہونےکے الزامات اور مطالبات شروع
جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے جب تفتیش کا یہ رُخ دیکھا تو انہوں نے اپنی سابقہ طرز پر ہی مہم چلانی شروع کی۔ ایک طرف تو یہ واویلا شروع کیا کہ قادیانی ملک کا امن خراب کرنا چاہتے ہیں بلکہ پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت بنانا چاہتے ہیں۔ مشرقی پاکستان بھی ان کی سازش کی وجہ سے علیحدہ ہوا تھا۔1948ءمیں کشمیر میں تنازعہ بھی ان کی وجہ سے ہوا تھا۔ وغیرہ وغیرہ ۔اور یہ بھی پروپیگنڈا شروع کیا کہ سیالکوٹ کے ایس پی پولیس طلعت محمود صاحب یا تو قادیانی ہیں اور یا قادیانی نواز ہیں۔اور پھر جلد ہی یہ مطالبہ بھی شروع ہو گیا کہ جو افسران اب تک یہ تحقیقات کر رہے ہیں انہیں تبدیل کیا جائے۔اور حکومت جائزہ لے لے کہ کہیں پولیس میں ’’نقب‘’ تو نہیں لگ چکی۔اور یہ مطالبہ زو رپکڑ رہا تھا کہ امام جماعت ِ احمدیہ کو شامل ِ تفتیش کرلیا جائے۔
[چٹان4تا11اپریل1983ءصفحہ6،چٹان18تا 25اپریل1983ءصفحہ8،چٹان16تا23مئی 1983ءصفحہ7 ،چٹان 11تا 18 جولائی 1983ءصفحہ 32]
جیسا کہ پہلے 1930ءکی دہائی میں ، 1953ء اور 1974ءکے فسادات میں ہو چکا تھا ، ایک موضوع پر یعنی اس گمشدگی پرمہم شروع کی گئی تھی اور پھر جلد ہی جماعت ِ احمدیہ کے خلاف مطالبات کی طویل فہرست سامنے آ گئی تھی۔چنانچہ مطالبات یہ تھے۔
1۔جماعت ِ احمدیہ کو خلاف ِ قانون قرار دیا جائے اور اس کے فنڈز منجمد کئے جائیں ۔
2۔ احمدیوں کو کلیدی اسامیوں سے برطرف کیا جائے۔
3۔احمدیوں کو اس بات سے روکا جائے کہ وہ شعائر اسلام استعمال کر سکیں ۔انہیں اس بات سے روکا جائے کہ وہ اذان دے سکیں، مسجد کی شکل میں اپنی عبادتگاہ بنا سکیں، نماز کی شکل میں عبادت کر سکیں۔
4۔ احمدیوں کی تبلیغ پر پابندی لگائی جائے۔
5۔مرتد کے لئے سزائے موت مقرر کی جائے۔اور اس کے ساتھ یہ نکتہ بھی اُٹھایا گیا کہ ایسے کئی قوانین موجود ہیں جو کہ جاری تو بعد میں ہوئے لیکن اُن کا دائرہ کار ماضی کے زمانہ پر بھی محیط تھا۔ قتلِ مرتد کے بارے میں غور کر لینا چاہیے کہ اس کا اطلاق بانی ِ جماعت ِ احمدیہ کے دعوے سے شروع ہو گا یا پاکستان کی آزادی کی تاریخ سے۔اور جنہوں نے قیام ِ پاکستان کے بعد احمدیت کو قبول کیا ہے انہیں تین روز کے لئے علماء کے حوالے کیا جائے اگر وہ اس دوران تائب نہ ہوں تو اُن کو سزائے موت دی جائے۔
[چٹان 11تا 18 جولائی 1983ءصفحہ15، 32]
یہ مطالبات اور ان کے پیچھے کارفرما ارادے واضح ہیں اور ان پر زیادہ تبصرے کی ضرورت نہیں ہے۔جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا تھا کہ جب جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے یہ دیکھا کہ پولیس حقیقت تک پہنچ رہی ہے اور ان کے مقاصد پورے نہیں ہو رہے تو انہوں نے پولیس افسران پر قادیانی اور قادیانی نواز ہونے کا الزام لگایا تھا ۔جلد ہی جب انہوں نے یہ محسوس کیا کہ اس بات کی ضرورت ہے کہ ملک کی حکومت ان کی ہاں میں ہاں ملائے تو انہوں نے صدر جنرل ضیاء صاحب پر بھی قادیانی ہونے کا الزام لگایا اور جنرل صاحب کو جلسوں میں تردید کرنی پڑی کہ وہ قادیانی نہیں ہیں۔اور جب ایک اجتماع کے سامنے جس میں علماء کی بڑی تعداد شامل تھی جنرل ضیاء صاحب نے یہ تردید کی تو بڑی دیر تک تالیاں بجتی رہیں۔ اس پر جنرل صاحب نے کہا کہ مجھے معلوم نہیں تھا کہ بات یہاں تک بڑھ چکی ہے اور مجھے آپ کی تالیوں سے اندازہ ہوا ہے کہ یہاں اس چیز کو بڑی ہوا دی گئی ہے۔اور اس کے ساتھ جماعت ِ احمدیہ کے مخالف جرائد یہ لکھ رہے تھے کہ ملک بھر میں یہ تاثر موجود ہے کہ حکومت قادیانیوں کے لئے نرم گوشہ رکھتی ہے۔اس کا مقصد یہی تھاکہ حکمرانوں پر جماعت ِ احمدیہ کے خلاف سخت ترین قدم اُٹھانے کے لیے دبائو بڑھایا جائے۔
[چٹان 19تا 28 ستمبر 1983ءصفحہ6]
اب اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کو تقریباََ چھ ماہ گزر چکے تھے ۔امام کعبہ نے بھی ان کی بازیابی کے لئے خط لکھا۔ اکتوبر 1983ءمیں ربوہ میں اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کے سلسلہ میں ایک جلسہ کیا گیا۔اس میں سعودی عرب کی نمائندگی الشیخ عبد اللہ یحییٰ صاحب نے اور رابطہ عالم ِ اسلامی کی نمائندگی ظہورالحق ظہور صاحب نے کی۔ 1974ءکی طرح سعودی عرب اور رابطہ عالمِ اسلامی کی آشیر باد نظر آ رہی تھی اور اس سے ظاہر ہو رہا تھا کہ سعودی حکام بھی اسلم قریشی صاحب کے اغوا سے کافی پریشان رہ رہے ہیں۔ اور اس کاکچھ ذکر ایک گزشتہ قسط میں گذرچکا ہے۔اسی جلسہ میں جماعت ِ احمدیہ کے چوٹی کے مخالف مولوی تاج محمود صاحب جب اسلم قریشی صاحب کے صاحبزادے صہیب کو سٹیج پر لائے تو اس پر ہفت روزہ ختم ِ نبوت کی رپورٹ تھی کہ سب کی آنکھوں میں آنسو آگئے اور مجمع پر سکتہ چھا گیا ۔ اور خود مولوی تاج محمود صاحب بھی اتنی رقت میں آئے کہ آواز نہ نکل سکی۔
[ختم ِ نبوت کراچی 12تا 18نومبر 1983ءصفحہ4و5]
اگر الزامات غلط نکلیں تو ہمیں پھانسی دے دینا
مجلس ِ تحفظ ِ ختم نبوت کی طرف سے اس قسم کے اعلانات شائع ہو رہے تھے ۔ چنانچہ امیر مجلسِ تحفظ ختم نبوت سیالکوٹ کی طرف سے اعلان شائع ہوا ، جس کا عنوان تھا ،’’ کھلی چھٹی بنام جنرل محمد ضیاء الحق صاحب صدر ِ پاکستان ، جناب گورنر صاحب پنجاب‘‘
اس میں لکھا گیا تھا کہ امام جماعت ِ احمدیہ کے حکم سے مولانا اسلم قریشی صاحب کو اغوا کر کے قتل کر دیا گیا ہے اور تمام قراردادوں کے با وجود اب تک مرزائیوں کو گرفتار کر کے مسلمانوں کی تسلی نہیں کی گئی۔اور عوام میں یہ تاثر عام ہو رہا ہے کہ حکومت مرزائی نوازی سے کام لے رہی ہے۔جبکہ مرزائی پاکستان کو ختم کر کے اکھنڈ بھارت بنانے کے لئے کوشاں ہیں۔اور اس ‘کھلی چھٹی ‘ میں مطالبہ کیا گیا کہ معراجکے اورسیالکوٹ کے نمایاں احمدیوں اور امام جماعت ِ احمدیہ کو گرفتار کر کے شاہی قلعہ لاہور میں ہمارے سامنے تفتیش کی جائے۔اگر اس طریق پر تفتیش کرنے سے 48 گھنٹے کے اندر اندر مجرموں کا سراغ نہ ملا تو حکومت کو اختیار ہو گا:
’’چوک علامہ اقبال میں کھڑا کر کے گولی مار دیں یا پھانسی پر لٹکا دیں ۔ ہمیں یا ہمارے ورثاء کو کوئی گلہ یا اعتراض ہو گا۔اور مولانا اسلم قریشی کے مدعیان اور ہمدرد مسلمان بھی خاموش ہو کر آرام سے گھروں کو بیٹھ جائیں گے۔اور فرض کی ادائیگی کے بعد حکومت کو بھی سکون حاصل ہو جائے گا۔”
[ختم ِ نبوت کراچی 12تا 18نومبر 1983ءصفحہ10]
اب الزامات اغوا تک محدود نہیں تھے بلکہ برملا یہ اعلانات کئے جا رہے تھے کہ ہم اسلم قریشی کے خون کا بدلہ لیں گے۔ اور اگر حکومت نے ہمارے مطالبات نہ مانے تو اس کے ماضی کے سارے دھبے اس معاملے کے سامنے ماند پڑ جائیں گے۔اور یہاں تک نوبت آچکی تھی کہ صدر جنرل ضیاء صاحب تقریر کر رہےتھے کہ ایک مولوی صاحب نے کھڑے ہو کر کہا کہ آپ کے متعلق یہ تاثر ہے کہ آپ قادیانیوںکے لئے سخت الفاظ استعمال نہیں کرتے۔اور صدر صاحب نے کمال تابعداری سے کہا کہ میرے والد نے تو ساری عمر قادیانیت کی عداوت میں گزار دی اور میں قادیانیوں کو کافروں سے بد تر سمجھتا ہوں۔ اور اس کے ساتھ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے ایک نئی مجلس ِ عمل قائم کی۔اور جماعتِ اسلامی،جمیعت العلماء پاکستان ، جمیعت العلماء ِ اسلام اور شیعہ عالم بھی اس میں شامل ہوگئے۔
[ختم نبوت کراچی 26نومبر یا 2دسمبر1983ءصفحہ14، ختم ِ نبوت کراچی 12تا 18نومبر 1983ءصفحہ5، ختم ِ نبوت 3تا9دسمبر 1983ءصفحہ18و19]
1983ءکے بالکل آخر میں یہ خبریں اُڑائی جا رہی تھیں کہ اب قادیانیوں نے اسلم قریشی صاحب کے بیٹے صہیب کو بھی اغوا کرنے کی کوشش کی ہے۔ اور اب قادیانی مسلک سے تعلق رکھنے والے سرکاری ملازمین کی فہرستیں تیار کی جا رہی ہیں ۔ اور یہ مطالبہ کیا جا رہا تھا کہ ان کو عام شائع کیا جائے تاکہ ان پر ہر کوئی نظر رکھ سکے۔ اورساتھ یہ بات بھی شائع کی جا رہی تھی کہ جو قادیانیوں کو کافر نہیں سمجھے گا وہ بھی کافر ہو جائے گا۔اور اس کے ساتھ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے یہ راگ الاپنا شروع کیا کہ اب اسلم قریشی تک بس نہیں قادیانیوں نے مزید علماء کو اغوا کرنے کا منصوبہ بنا لیا ہے اور حکومت خاموش تماشائی بنی بیٹھی ہے۔
[ختم ِ نبوت کراچی ،3تا9 دسمبر 1983ءصفحہ4 ، 5، 18، 19-ختم ِ نبوت 9تا 15 دسمبر 4، 5، 22، 23-ختم ِ نبوت 16تا22 دسمبر 1983ءصفحہ5]
اسلامی نظریاتی کونسل کے مطالبات
1984ءکا آغاز اس عمل میںتیزی کا پیغام ہی لایا۔ آٹھویں قومی سیرت کانفرنس کے موقع پر اسلامی نظریاتی کونسل کے صدر جسٹس تنزیل الرحمن نے صدر جنرل ضیاء صاحب کی موجودگی میں مطالبہ کیا کہ اسلامی نظریاتی کونسل نے ختم ِ نبوت کی حفاظت کے لئے مرتد کی سزا موت تجویز کی ہے۔ اور حکومت کو چاہیے کہ اس پر عمل درآمد کرے۔ اور کونسل نے یہ سفارش بھی کی ہے کہ قادیانیوں کو روکا جائے کہ وہ اپنی عبادتگاہ کے لئے مسجد کا لفظ استعمال کریں ۔ اور اذان کااستعمال کریں یا اپنے لئے مسلمان کا لفظ استعمال کر سکیں۔اور جسٹس صاحب نے اس بات پر برہمی کا اظہار کیا کہ حکومت اسلامی نظریاتی کونسل کی سفارشات پر عملدرآمد کیوں نہیں کر رہی۔اس کے جواب میں جنرل ضیاء صاحب نے کہا کہ ان کا دل چاہتا ہے کہ وہ دس دن کے لئے حکومت تنزیل الرحمن صاحب کے حوالے کردیں تاکہ انہیں حکومت کی مشکلات کا اندازہ ہو جائے۔
[چٹان 2تا9جنوری1983ءصفحہ 6و7]
1984ءکے آغاز کے بعد اسلم قریشی صاحب نے تو کہاں دریافت ہونا تھا ، البتہ ان کی گمشدگی یا اغوا اور پھر شہادت کا سہارا لے کر جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کے مطالبات کی فہرست طویل سے طویل تر ہوتی جا رہی تھی۔اب یہ کہا جا رہا تھا کہ مرتد کے لئے سزائے موت نافذکئے بغیر تو اسلامی نظام مکمل ہو ہی نہیں سکتا۔ قادیانیوںکو اسلامی اصطلاحات مثلاََ نبی ، رسول ، خلیفہ ، امہات المومنین ، سیدۃ النساء ، صحابی وغیرہ کے استعمال سے روکا جائے۔ مسجد اور اذان کے استعمال پر پابندی لگائی جائے۔ قادیانیوں کے تمام لٹریچر پر پابندی لگائی جائے۔ان کا روزنامہ الفضل بند کیا جائے۔امام جماعتِ احمدیہ پر آئین سے غداری کا مقدمہ چلایا جائے ۔ احمدیوں نے مسلح عسکری تنظیمیں بنائی ہوئی ہیں ان پر پابندی لگائی جائے۔اور اسلم قریشی صاحب کے اغوا پر حکومت کی سرد مہری قابلِ نفرت ہے اس لئے مرزا طاہر احمد کو گرفتار کرکے اس معمے کو حل کیا جائے۔کلیدی عہدوں پر قادیانیوں کو لگاناآئین سے غداری کے مترداف ہے، اس لئے انہیں ان کلیدی آسامیوں سے فوری طور پر برطرف کیا جائے ۔یہاں ’کلیدی اسامیوں‘ کی تعریف بھی ملاحظہ فرمائیں،چنیوٹ میں ہونے والی اکتیسویں آل پاکستان ختمِ نبوّت کانفرنس میں مطالبہ کیا گیا کہ چنیوٹ کے ریلوے سٹیشن کے سٹال کا ٹھیکہ ایک قادیانی کو دیا گیا ہے اسے فوری طور پر ہٹایا جائے ۔اور گورنمنٹ کالج چنیوٹ کی حساس پوسٹ یعنی ڈائریکٹر فزیکل ایجوکیشن [جس کا کام ورزش کرانا تھا] پر قادیانی کو لگایا گیا ہے ، اسے فوری طور پر برطرف کیا جائے ۔
[ چٹان 2تا 9 جنوری 1984ءصفحہ21تا23]
اب ضیاء صاحب کی مخالف سیاسی جماعتیں بھی بہتی گنگا میں ہاتھ دھو رہی تھیں اور یہ بیان دے رہی تھیں کہ آخر کیا وجہ ہے کہ جنرل ضیاء صاحب کے ارد گرد اہم عہدوں پر قادیانی مقرر ہیں اوراس کی دلیل یہ دی جارہی تھی کہ آرمی کے ایک ہسپتال کا ڈائیریکٹر آف سرجری ایک قادیانی ہے جو چندے بھی دیتا ہے۔یہ جنون اس حد تک ترقی کر چکا تھا کہ بلوچستان کے ایک سیاستدان میر غوث بخش بزنجو صاحب نے بیان دیا کہ ہم سیکولر لوگ ہیں اور ہم دوسری آئینی ترمیم [جس میں احمدیوں کو آئین کی اغراض کے لئے ] غیر مسلم قرار دیا گیا تھا اسے تسلیم نہیں کرتے۔ پہلے جماعت کے مخالف اخبارات نے اسے اجماع ِ امت سے بغاوت قرار دیا ۔ پھر ایک اور سیاستدان نوابزادہ نصراللہ خان صاحب نے بیان داغاکہ بزنجو صاحب سے ناراض نہ ہوں ، وہ مسلمان نہیں ہیں۔
[چٹان 23تا30جنوری 1984ءصفحہ37 ،چٹان 19مارچ 1984ءصفحہ 7،چٹان 16تا 23اپریل 1984ء]
بغاوت کی دھمکی اور آرڈیننس کا نفاذ
اب یہ اعلان کیا گیا کہ اگر ہمارے مطالبات تسلیم نہ کئے گئے تو 30 اپریل 1984ءکو قادیانیوں کی عبادتگاہوں کو مسمار کر دیں گے۔گویا احمدیوں کو بغاوت کے منصوبوں کا الزام دے کر اب یہ گروہ خود بغاوت برپا کرنے کی دھمکیاں دے رہا تھا۔اور سب کو یہ باور کرانے کے لئے کہ ہم سچ بول رہے ہیں مولوی منظور احمد چنیوٹی صاحب نے کہا کہ ہم نے اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی کے سلسلہ میں حکومت کو چھ آدمیوں کے نام دیئے ہیں اور ان میں مرزا طاہر احمد کا نام بھی شامل ہے۔اگر ان چھ آدمیوں سے اسلم قریشی برآمد نہ ہوا تو ہم سرِ بازار گولی کھانے کو تیار ہیں۔[نوائے وقت لاہور 18 فروری 1984ء]
اس پس منظر میں جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے 27 اپریل کو اپنا جلسہ کرنے کا اعلان کیا اور 26 اپریل کو جنرل ضیاء صاحب نے جماعتِ احمدیہ کے خلاف آرڈیننس نافذ کر دیا۔[ اس آرڈیننس کی تفصیلات بعد کی قسط میں بیان کی جائیں گی ۔ اس قسط میں مرکزی نقطہ اسلم قریشی صاحب کی گمشدگی ہے]۔
آرڈیننس کے بعد مخالفین کی خو ش فہمیوں کا عالم یہ تھا کہ جماعت ِ احمدیہ کے اشد مخالف رسالہ چٹان نے لکھا:
’’قادیانی فتنہ 26 اپریل 1984ء کا سورج طلوع ہوتے ہی اپنے انجام کو پہنچ گیا۔ اس روز جب سورج غروب ہوا تو برطانیہ کے خود کاشتہ پودے کی زندگی کا چراغ بھی ہمیشہ کے لئےگُل ہو گیا ۔خس کم جہاں پاک۔‘‘[چٹان 30 اپریل1984ءصفحہ 6]۔ اس کے اوپر جنرل ضیاء صاحب کی مسکراتی ہوئی تصویر بھی دی گئی تھی ۔ آخر یہ’ ‘کارنامہ‘ تو اُن کا تھا۔ اس دعوے کی حقیقت کے بارے میں اب پڑھنے والے خود ہی رائے قائم کر سکتے ہیں۔
مباہلہ کا چیلنج
بہر حال آرڈیننس کے بعد اسلم قریشی صاحب کے اغواء اور شہادت کا معاملہ تو پس منظر میں چلا گیااور دوسرے مطالبات زیادہ اہمیت اختیار کر گئے۔
اب ہم بیان کو مختصر کرتے ہوئے جون 1988ءپر آتے ہیں ۔ جب حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ نے جماعت ِ احمدیہ کے معاندین ، اور مکفرین اور مکذِّبین کو مباہلہ کا چیلنج دیا۔ دوسرے چیلنجوں کے علاوہ ایک چیلنج یہ بھی تھا
” جماعت ِ احمدیہ کے موجودہ امام یعنی اس عاجز کے متعلق حسب ِ ذیل پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہےکہ موجودہ امام جماعت ِاحمدیہ ۔اسلم قریشی نامی ایک شخص کے اغواء اور قتل میں ملوث ہے …میں بحیثیت امام جماعت ِ احمدیہ یہ اعلان کرتا ہوں کہ یہ تمام الزامات کلیۃََ جھوٹے اور افتراء ہیں اور ان میں کوئی بھی صداقت نہیں ۔ لَعْنَۃُ اللہِ عَلیٰ الْکَاذِبِیْن۔[جماعت ِ احمدیہ عالمگیر کی طرف سے دنیا بھر کے معاندین اور مکفرین اور مکذبین کو مباہلے کا کھلا کھلا چیلنج ۔صفحہ 11]
اور اس دعوت ِ مباہلہ کے آخر پر اس مباہلہ کا مقصد یہ لکھا تھا :
’’تاکہ سچے اور جھوٹے میں خوب تمیز ہو جائے اور حق اور باطل کے درمیان فرق ظاہر ہو۔‘‘
اس مضمون کے موضوع کی مناسبت سے مباہلہ کے صرف اس پہلو کے بارے میں جائزہ لینا مناسب ہو گا۔ یا تو مخالفین اقرار کریں کہ انہوں نے مباہلہ کی دعوت قبول نہیں کی تھی یا پھر یہ قبول کرنا ہو گا کہ اس پہلو سے جو فیصلہ ہوا وہ خدا کی طرف سے فیصلہ تھا کہ کون سچا ہے اور کون جھوٹا۔کیونکہ اس مباہلہ میں تو یہی لکھا تھا کہ خدا خود سچے اور جھوٹے میں تمیز کرکے دکھائے۔
مُردہ زندہ ہوتا ہے
ابھی اس چیلنج کو کچھ ہفتے ہی گزرے تھے کہ 12 جولائی 1988ءکا دن آن پہنچا۔ اور وہ دن خاکسار کو بھی بخوبی یاد ہے۔ صبح سے اسلم قریشی صاحب کے متعلق کچھ افواہیں گردش کرنا شروع ہو گئی تھیں جو کہ گزشتہ سالوں کے واقعات کو دیکھتے ہوئے نا قابل ِ یقین لگ رہی تھیں۔ بہر حال شام کی خبروں کا وقت ہوا تو اسی ملی جلی کیفیت کے ساتھ سب ٹی وی کے ارد گرد جمع ہو گئے۔ یکلخت سکرین پر پویس کی معیت میں بیٹھے ہوئے ‘مولانا اسلم قریشی ‘ صاحب نظر آئے۔ ہاں وہی اسلم قریشی جن کے متعلق یہ دعوے تھے کہ احمدیوں نے بلکہ امام جماعت ِ احمدیہ نے اغواء کروادیا ہے۔ ہاں وہی اسلم قریشی صاحب جن کے متعلق مخالفین نے اشتہار دیا تھا کہ اگر احمدیوں سے اس کا پتہ نہ ملے تو ہمیں چوک میں گولی مار دینا۔ ہاں وہی اسلام قریشی صاحب جن کی شہادت کی روح فرسا خبر مخالفین ِ جماعت ایک عرصہ سے اپنے بیانات میں قوم کو سنا کر اشتعال دلا رہے تھے اور ان کے قتل کی وجہ سے احمدیوں کو گردن زدنی قرار دے رہے تھے۔ہاں وہی اسلم قریشی صاحب جن کے اغواء اور شہادت کی وجہ سے پورا ملک ایک ہیجان میں مبتلا رہا تھا ۔ آج وہی’’ اسلم قریشی شہید مجاہد ِ ختم نبوت ‘‘ ہمیں سکرین پر زندہ سلامت جلوہ افروز نظر آ رہے تھے۔ بہر حال یہ سوال ہر ذہن میں تھا کہ یہ حضرت آخر تھے کہاں؟ پولیس نے کہا کہ یہ اپنی مرضی سے ایران گئے تھے اور اپنی مرضی سے ہی وہاں سے واپس آ گئے ہیں۔
اب ان ‘ مولانا ‘ کی کہانی ان کی اپنی زبانی سنیں ۔ ان صاحب نے فرمایا کہ ملک سے چلا جانا اصل میں میری اسلامی سوچ کا نتیجہ تھا ۔ یہ ملک اسلام کے نام پر بنا تھا اور یہاں توہین ِ رسالت ہوتی تھی ۔ میں یہ برداشت نہیں کر سکتا تھا۔ میں نے اس طرح جانے کی باقاعدہ منصوبہ بندی کی تھی۔میں اپنے غائب ہونے کی جگہ سے نکلا اور لاہور آ گیا۔ وہاں سے ملتان اور ملتان سے سندھ گیا اور وہاں کچھ عرصہ حضرت شاہ عبد الطیف بھٹائی کے مزار پر رہا۔ وہاں سے گوادر آ گیا۔اور 4 یا 6 ماہ پاکستان میں رہا ۔ اور اپنے گم ہونے پر تقریریں بھی سنتا رہا۔ اور پھر ایران کی سرحد کے قریب ایک گائوں میں مزدوری کرنے لگا لیکن یہ مشقت کا کام تھا اور مجھے مشقت کی عادت نہیں تھی۔ چنانچہ میں ایران آ گیا ۔ اور وہاں سیستان میں امام کی نوکری مل گئی ۔ پھر فوج میں بھرتی ہو گیا ۔ اور عراق کے خلاف جنگ میں بھی شامل ہوا۔اور پھر وہاں سردی لگنے لگی میرے پائوں شل ہوجاتے تھے۔چنانچہ وہاں بھی نہیں ٹک سکا اور پاکستان واپس آ گیا۔
ان سے دریافت کیا گیا کہ آپ کو اپنے اہل ِ خانہ کا خیال نہ آیا کہ انہیں بھی اطلاع کردیں۔ توموصوف فرمانے لگے کہ یہ بات میرے ذہن میں نہیں آئی کہ انہیں اطلاع کردوں ۔پھر یہ بھی فرمایا کہ میں اللہ کے بھروسے پر انہیں چھوڑ گیا تھا۔ ایک دو سال پہلے میں نے اپنے بیٹے کو خط بھجوایا تھا۔ان کے صاحبزادے سے پوچھا کہ آپ نے وہ خط ایجنسیوں کو کیوں نہیں دکھایا ۔ تو وہ فرمانے لگے میں نے ایک ہینڈ رائیٹنگ کے ماہر کو دکھایا تھا تو اس نے کہا تھا کہ یہ اسلم قریشی صاحب کی تحریر نہیں ہے۔ان سے سوال کیا گیا کہ آپ کی گمشدگی کی وجہ سے لوگ ایک اقلیت کو مارنے پر تُل گئے تھے ۔ کیا آپ کو یہ بات معلوم نہیں تھی؟ تو اسلم قریشی صاحب نے کہا کہ میرے خیال میں تو انہیں نیست و نابود ہی ہو جانا چاہیے۔انسپکٹر جنرل پولیس نے کہا کہ انہیں یقین تھا کہ اسلم قریشی صاحب قتل نہیں ہوئے اور کچھ عرصہ سے خبریں مل رہی تھیں کہ وہ ایران میں زندہ موجود ہیں ۔
[نوائے وقت 13 جولائی ، 1988 ء، جنگ 13 جولائی 1988ء]
دال کھانے میں دشواری
اس خبر کا نشر ہونا تھا کہ جماعت کے مخالف حلقوں میں قیامت برپا ہوگئی۔ اتنے برسوں سے یہ دعوے کئے جا رہے تھے کہ اگر ہمارا یہ دعویٰ غلط نکلا تو ہمیں گولی مار دینا، پھانسی چڑھا دینا ۔ اب کوئی گولی کھانے کو آگے نہ آیا۔ کبھی کسی نے ایک بیان داغا اور کبھی دوسرا بیان داغا۔ اب چُلّو بھر پانی بھی دستیاب نہیں ہو رہا تھا۔ دوسری طرف اسلم قریشی صاحب کو چند روز جیل کی ہوا کھانی پڑی تو ان کو مظلوم بنانے کی ناکام سی کوششیں شروع ہوئیں۔ یہ خبریں بھی شائع ہوئیں کہ مولانا جیل کی کوٹھڑی میں چیخیں مار رہے ہیں کہ میری جنگ قادیانیوں کے ساتھ ہے ۔ اب اس ملک میں یا مَیں رہوں گا یا قادیانی رہیں گے۔پھر یہ خبر شائع ہوئی کہ انہیں وضو کرنے میں بھی دشواری پیش آرہی ہے ۔ اور صرف ڈبل روٹی کھا رہے ہیں۔یا دینی مطالعہ کر رہے ہیں۔ کمزور بہت ہو گئے ہیں ۔ پھر یہ رونا بھی رویا گیا کہ مولانا اسلم قریشی صاحب کے اہل ِ خانہ ان کی ضمانت اور رہائی کے لئے کوئی کوشش نہیں کر رہے بلکہ انہیں گھر سے کھانا بھی نہیں بھجوا رہے۔ اور جیل کا کھانا کھانے پر مولانا تیار نہیں ہو رہے ۔جن چھوٹے چھوٹے بچوں کو وہ بے یار ومددگار چھوڑ کر گئے تھے ، ان کا یہ ردِ عمل سمجھنا مشکل نہیں ۔ ایک دن ایک اخبار نے یہ تشویشناک خبر شائع کی کہ جب مولانا کو کھانے کے لئے دال پیش کی گئی تو انہوں نے دال کھانے سے صاف انکار کر دیا اور فرمائش کی کہ مجھے مرغا یا گوشت پیش کیا جائے۔ اتنا لمبا عرصہ پوری قوم کو دھوکہ دینے کے بعد بھی کیفیت یہ تھی کہ دال حلق سے نیچے نہیں اُتر رہی تھی۔پھر یہ بھی انکشاف ہوا کہ مولانا نے ایک شادی ایران میں بھی کی تھی اور اس سے ایک بیٹی بھی تھی۔ان کی ایرانی بیوی کا نام فاطمہ تھا اور اس سے بیٹی کا نام سمیرا تھا۔ پہلے ایک بیوی سے اولاد کو پاکستان میں چھوڑ کر بھاگے اور پھر ایک اور بیوی سے اولاد کو ایران میں چھوڑ کر فرار ہوگئے۔
[امروز 6 اگست 1988ء،امروز یکم اگست 1988ء ، مرکز 8 اگست 1988ء ، نوائے وقت یکم اگست 1988ء]
جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین کو گرفتار کرنے کا مطالبہ
اب اتنی شرمناک صورت ِ حال سامنے آ رہی تھی کہ علماء کے بعض طبقوں کی طرف سے اس واقعہ کی تحقیقات کا مطالبہ شروع ہو گیا۔ چنانچہ امام ِ اعظم کونسل نے اپنے ایک اجلاس میں مطالبہ کیا کہ اسلم قریشی کی گمشدگی اور پھر برآمدگی ایک سازش ہے۔چنانچہ ضروری ہے کہ تحریکِ ختمِ نبوت کے لیڈروں مثلاََ مولوی منظور چنیوٹی، مولوی خان محمد صاحب ، ضیاء القاسمی وغیرہ کو گرفتار کر کے ان کا جسمانی ریمانڈ لیا جائے اور ہائی کورٹ کے ایک جج سے اس واقعہ کی تحقیقات کرائی جائیں ۔ان افراد کو گرفتار کر کے بے نقاب کیا جائے اور کڑی سزا دی جائے تا کہ مذہب کے نام پر آئندہ کسی کو ایسا ڈرامہ کرنے کی ہمت نہ ہو۔ اور اس ڈرامہ کے دوران جو املاک تباہ ہوئیں اور جو اسلم قریشی کے نام پر جو کروڑوں کا چندہ اندرون ِ ملک اور بیرون ِ ملک وصول کیا گیا وہ قومی خزانہ میں جمع کرایا جائے۔یہ ایک ڈھونگ تھا جو کہ ختم ِ نبوت کے نام پر علماء ِ دیوبند نے رچایا تھا۔
[روزنامہ حیدر راولپنڈی 15جولائی 1988ء]
ایک اخبار نے اس صورت ِ حال پر یہ اداریہ لکھا
’’افسوسناک امر تو یہ ہے کہ پاکستان کے عوام کو ساڑھے پانچ برس تک گمراہ کیا جاتا رہا اور مختلف حلقوں پر اس ضمن میں الزامات بھی عائد کئے گئے۔ مولانا اسلم قریشی کی از خود واپسی جہاں ان کی گمشدگی سے زیادہ بڑا اسرار ہے وہاں اس حوالے سے بہت سے سوالات بھی پیدا ہوتے ہیں۔مثال کے طور پر ا س سلسلہ میں آج تک جتنے بیگناہ لوگوں کو تھانوں میں بٹھا کر تفتیش کے بہانے تشدد کا نشانہ بنایا گیا ہے اس کا ذمہ دار کون ہے؟ مولانا موصوف کی باز یابی کے لئے جتنی ہڑتالیں کی گئیں اور کاروباری حلقوں کا جتنا نقصان ہوا اس کی ذمہ داری کس پر عائد ہوتی ہے؟”
[روزنامہ حیدر راولپنڈی 14 جولائی 1988ء]
اس وقت قومی اسمبلی تو تحلیل ہو چکی تھی البتہ سینٹ میں اس اسلم قریشی صاحب کا بعد از موت زندہ ہوجانے کا تذکرہ ضرور ہوا۔ اس موضوع پر تحاریک ِ التوا پیش ہوئیں تو چیئر مین سینٹ نے انہیں خلاف ِ ضابطہ قرار دیا ۔ لیکن وفاقی وزیر ِ داخلہ نسیم آہیر صاحب نے بتایا کہ یہ بات افسوسناک ہے کہ اسلم قریشی صاحب نے اپنے اہل ِ خانہ کو بھی بتانا مناسب نہ سمجھا ۔ان کی ایران میں موجودگی کی اطلاع زاہدان میں پاکستان کے قونصل جنرل نے کی تھی۔ اور اسی اطلاع پر جب وہ پاکستان میں داخل ہو رہے تھے تو انہیں گرفتار کر لیا گیا۔[نوائے وقت 3 اگست 1988ء]
عذر ِ گناہ بد تر از گناہ
اب مزید شرمندگی سے بچنے کے لئے جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے ہاتھ پائوں مارنے شروع کئے۔اسلم قریشی صاحب نے عدالت میں جا کر بیان تبدیل کیا کہ اصل میں میرا گزشتہ بیان غلط تھا ، مجھے قادیانیوں نے اغوا کیا تھا اور تشدد کا نشانہ بنایا تھا۔
(Dawn August 2, 1988،Pakistan Times 2 August 1988)
چند دنوں کے لئے جماعت کے مخالف رسائل نے یہ لکھا کہ لوجی!اسلم قریشی نے قادیانیوں کا بھانڈا پھوڑ دیا۔ پھر یہ شائع کیا کہ یہ کیا سے کیا ہو گیا۔ اسلم قریشی صاحب کی برین واشنگ کر دی گئی ہے ۔ لیکن پھر شاید کسی عقلمند نے مشورہ دیا کہ چپ رہو یہ تو ممکن نہیں کہ آدمی ربوہ قادیانیوں کی قید میں ہو اور اس کا بچہ ایران میں پیدا ہوجائے۔ اور ویسے بھی پاکستانی قونصل ان کا پیچھا ایران سے کر رہا تھا۔اس کے بعد یہ مخالفین خاموش ہو کر بیٹھ گئے۔اور یہ واویلا بند کر دیا گیا۔ حقیقت کھل چکی تھی ۔
[ چٹان 2 تا9 اگست 1988ء ، چٹان 12 تا 19 جولائی 1988 ء]
اسلم قریشی صاحب کو ایک مرتبہ پھر رہا کیا گیا ۔ اب ‘ یہ خوار ‘ پھر رہے تھے اور کوئی انہیں منہ لگانے کو تیار نہیں تھا۔ انہوں نے ایک مرتبہ پھر خبروں کی زینت بننے کے لئےجماعت ِ احمدیہ کے مشہور وکیل خواجہ سرفرازا لعمر صاحب پر قاتلانہ حملہ کیا۔ لیکن خواجہ صاحب کی زندگی اللہ تعالیٰ کے فضل سے بچ گئی۔اب بیہودگی اورچھچھورے پن کی انتہا ہو چکی تھی۔ اس واقعہ پر خود سیالکوٹ کے وکلاء نے ہڑتال کر دی اور شدید احتجاج کیا اور جلوس نکالا۔ اب مجلس ِ تحفظ ِ ختم ِ نبوت کو بھی ہمت نہیں ہوئی کہ اس کی حمایت کرتی۔ یہ اس ڈرامے کا ڈراپ سین تھا۔
[امروز لاہور 10مارچ 1989ء]
اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ نے اس اہم واقعہ کا ذکر غیر معمولی اختصار سے کیا تھا۔ اور مضمون کافی تشنہ رہ گیا تھا۔ حالانکہ 1984ءکے واقعات کی بنیاد اسلم قریشی صاحب کی نام نہاد شہادت ہی تو تھی۔ان حالات کو سمجھنے کے لئے ان واقعات کی تفاصیل کو جاننا اور سمجھنا ضروری ہے۔
………………………
(باقی آئندہ)