ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
کیا تم صدیوں والی حدیث نہیں پڑھتے۔ اس ہزار (سال) نے ہر طرح کی ضلالت اور شرک و بدعت کی سب انواع اور فسق و معصیت کی تمام اقسام اپنے اندر جمع کر لی ہیں۔ اس میں اللہ کے حقوق ، بندوں کے حقوق اور مخلوق کے حقوق ضائع کر دیئے گئے ہیں۔ ارتداد کے دروازے کھل گئے ہیں پھر اس کے بعد تم کس دلیل پر ایمان لائو گے۔
’’ پس اس بحث سے ہم نے کامل یقین اور عرفان سے سمجھ لیا ہے کہ ارشاد باری تعالیٰ یَعْرُجُ اِلَیْہِ فِیْ یَوْمٍ کَانَ مِقْدَارُہٗٓ اَلْفَ سَنَۃٍ مِّمَّا تَعُدُّوْنَ(وہ ایک ایسے دن میں اس کی طرف عروج کرتا ہے جو تمہاری گنتی کے حساب سے ایک ہزارسال کے برابر ہوتا ہے۔ (السجدۃ6))اُس مدت کے متعلق ہے جو ضلالت، فسق و فجور اور سرکشی میں گزری ہے۔ اس میں مشرکوں کی کثرت ہو گئی تھی سوائے چند لوگوں کے جو تقویٰ شعار تھے۔ یہ پورے ایک ہزار برس ہیں نہ اس سے زیادہ نہ کم۔ پس اگر تم سوچ بچار سے کام لو تو اس سے بڑی دلیل اور کیا ہو گی اور اگر تم قبول نہ کرو تو ہمیں کھول کر بتائو کہ اس معنی کے سوا اس آیت کا اور کیا مفہوم ہے اگر تم علم رکھتے ہو۔ کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ قیامت بھی دنیاوی مدت کے سالوں جیسے ہزار سالوں کی ہے یا قیامت کے دن اسی جیسی مدت میں اعمال اللہ کی طرف چڑھیں گے اور اس سے پہلے اللہ کو اُن اعمال کا علم نہ ہو گا۔
اے حد سے تجاوز کرنے والو! اللہ سے ڈرو۔ اس سے بڑی کون سی گواہی ہے جو فی الواقع ظاہر ہو چکی۔ میری مراد اس مدت کی مقدار ہے جس میں گمراہی غالب رہی۔ تم یقیناً اپنی آنکھوں سے دیکھ چکے ہو کہ نیکی کی صدیوں کے بعد زمانۂ ضلالت کی مدّت اور اس کی شدّت اور اس میں اضافہ ہونا حقاً و صدقاً ایک ہزار سال تک ممتد رہا ہے۔ کیا تم خود مشاہدہ کر لینے کے باوجود انکار کرتے ہو۔ جھوٹ کھیتی کی روئیدگی کی طرح شروع ہوا پھر ایک درخت کی طرح ہو گیا۔ یہاں تک کہ دجاّل کی بلند عمارت ظاہر ہو گئی اور تم دیکھتے رہے ۔گمراہی اگرچہ پہلے بھی تھی لیکن اُس کے سینگ ان تین صدیوں کے بعد ہی تیز ہوئے ہیں۔ کیا تم صدیوں والی حدیث نہیں پڑھتے۔ اس ہزار (سال) نے ہر طرح کی ضلالت اور شرک و بدعت کی سب انواع اور فسق و معصیت کی تمام اقسام اپنے اندر جمع کر لی ہیں۔ اس میں اللہ کے حقوق ، بندوں کے حقوق اور مخلوق کے حقوق ضائع کر دیئے گئے ہیں۔ ارتداد کے دروازے کھل گئے ہیں پھر اس کے بعد تم کس دلیل پر ایمان لائو گے۔ یاجوج اور ماجوج کھول دیئے گئے ہیں اور تم دیکھتے ہو کہ وہ ہر اُونچی جگہ سے دوڑتے چلے جارہے ہیں۔ یہ دونوں ان تین صدیوں کے بعد ہی نکلے ہیں۔ اور ان دونوں کا اقبال اس ہزار کے آخری حصہ میں ہی مکمل ہوا ہے اور ان کی سطوت کی تکمیل کے ساتھ اس ہزار کی تکمیل ہوئی ہے۔ یقیناً اس میں غور وفکر کرنے والی قوم کے لئے ضرور ایک نشان ہے۔ قرآن اس پوشیدہ بھید کی طرف راہنمائی کرتا ہے اور کہتا ہے کہ یاجوج ماجوج ایک معلوم وقت کے دن تک روکے گئے اور جکڑے گئے ہیں پھر نیکی کے سورج کے غروب ہونے کے ایاّم اور گمراہیوں کے زمانہ میں وہ دونوں کھول دیئے جائیں گے جیسا کہ ان دنوں میںتم دیکھتے اور مشاہدہ کرتے ہو۔ حق کے طالبوں کے لئے اسی قدر بیان کافی ہے۔ میرا خیال ہے کہ مَیں جو چاہتا تھا وہ مَیں نے مکمل کر دیاہے اور ظالموں پر اتمام حجت کر دی ہے۔ یہ وہ آخری بات ہے جس کا ہم نے ارادہ کیا ،اِس زمانہ کے طالبانِ حق کے لئے اس بات کو پورا کرنے پر ہم اللہ کی حمدوثنا کرتے ہیں۔
تــــــــــــــمّـــــــــــــــــــت
المؤلّف میرزا غلام احمد
17؍اکتوبر 1902ء‘‘
(خطبہ الہامیہ مع اردو ترجمہ صفحہ 257تا259۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)
٭…٭…٭