گھانا میں تاریخِ احمدیت کی چند جھلکیاں (قسط نمبر 5 )
خلافت احمدیہ کے زیر ہدایت و نگرانی گھانا (مغربی افریقہ)میں احمدیت یعنی حقیقی اسلام کے نفوذ اور اس کی روز افزوں ترقی کی روشن و درخشندہ اور ایمان افروز تاریخ کی چند جھلکیاں
مبلغ اسلام و احمدیت حضرت مولانا عبد الرحیم صاحب نیّرؓکی زبانی 1921ء کے گھانا کی ایمان افروز یادیں
حضرت مولانا حکیم فضل الرحمن صاحبؓ کی آمد
گولڈ کوسٹ میں جماعت کی وسعت کے پیش نظر مغربی افریقہ میںدو مبلغوں کا موجود ہونا اشد ضروری ہوگیا تھا تاکہ مرکز سے دور دراز ان علاقوں میں قائم شدہ جماعتوں کی صحیح رنگ میں تربیت کی جاسکے۔ چنانچہ دوسرے وہ خوش قسمت مجاہد احمدیت جن کو مغربی افریقہ میں اس مقدّس فریضہ کے لئے نامزد کیا گیا ان کا نام مولانافضل الرحمن حکیم ہے۔ آپ مؤرخہ 23جنوری 1922ء کومغربی افریقہ کے لئے روانہ ہوئے اُس روز نماز فجر کے وقت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے اپنے دست مبارک سے ہدایات تحریر کرکے آپ کو عنایت کیں۔
(الفضل قادیان26جنوری 1922 ء)
11مارچ 1922ء کو حضرت حکیم فضل الرحمن صاحب لندن پہنچے وہاں سے مؤرخہ 22مارچ 1922ء کو آپ مغربی افریقہ کے لئے روانہ ہوگئے اور 17؍اپریل 1922ء کو لیگوس پہنچے ۔ آپ نے تقریباً ایک ماہ تک لیگوس میں حضرت مولانا نیّر ؓ صاحب کے ہاں قیام کیا اور 9مئی 1922ء کو لیگوس سے گولڈ کوسٹ کے لئے روانہ ہوئے۔ آپ کے گولڈ کوسٹ پہنچ جانے پر گولڈ کوسٹ اور نائیجیریا کے لئے علیحدہ علیحدہ مبلغین کا تقرر عمل میں آیا البتہ حضرت مولوی عبدالرحیم نیّرؓ صاحب سارے مغربی افریقہ کے انچارج رہے۔
(الفضل قادیان14ستمبر 1922ء 31؍اگست1922)
اندرون نائیجیریا کے دورہ جات
حضرت مولانا عبدالرحیم نیّر ؓ صاحب دسمبر 1921ء میں گولڈ کوسٹ کا دورہ کرنے کے بعد واپس نائیجیریا پہنچ گئے۔ اس سے قبل مولانا نیّر ؓ صاحب کا قیام نائیجیریا میں تقریباً چار ماہ کے قریب رہا۔
حضرت مولانا نیّرؓ صاحب کویہ سعادت حاصل ہے کہ حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓ نے آپ کو افریقہ میں بیعت لینے کی اجازت دی تھی۔
(الفضل قادیان 23جون 1921ء صفحہ7)
لیگوس میں ان دنوں 35 ہزار کے قریب مسلمان اور 20 ہزار کے قریب عیسائی تھے۔ مگر علم، دولت، تجارت اور سرکاری عہدے سب عیسائیوں کے ہاتھ میں تھے۔ اور جہاں عیسائیوں کے چالیس مدارس تھے وہاں مسلمانوں کا صرف ایک (محمڈن اسکول) تھا۔ ان حالات میں حضرت مولانا نیّرؓ نے لیگوس میں قدم رکھا اور پہنچتے ہی مختلف مساجد میں لیکچرز دیئے۔ پھر پبلک لیکچروں کا ایک باقاعدہ سلسلہ شروع کر دیا جس سے سعید روحیں احمدیت کی طرف کشاں کشاں آنے لگیں۔ ماحول کے اثر سے لیگوس کے مسلمانوںمیں یہ رسم قائم ہوچکی تھی کہ وہ دوسرے کا ادب و احترام کرنے کی خاطرفوراً گھٹنوں کے بل ہوجاتے تھے حضرت مولانا نیّرؓ صاحب نے اس کے خلاف زبردست وعظ کی جس پر بہت سے مسلمانوں نے یہ رسم چھوڑ دی۔
(الفضل قادیان 8؍ اگست 1921ء صفحہ 3)
اکابر نے حضرت مولانا نیّر صاحب سے ملاقات کی اور بتایا کہ بارہ برس ہوئے ہمارے سابق امام جماعت نے مرنے سے پہلے یہ خوشخبری دی تھی کہ ایک سفید رنگ کا آدمی White man آئے گا جو مسیح موعود کی خبر لائے گا۔ اور اہل قرآن کی تصدیق کرے گا یہ پیشگوئی آپ کے وجود سے پوری ہوئی ہم آپ کے ساتھ ہیں۔
( الفضل قادیان 23جون 1921ء صفحہ7)
چنانچہ ان اکابر میں سے جنہوں نے مولانا نیّرؓ کے ہاتھ پر بیعت کی، الفا عبدالقادر صاحب بھی ایک بزرگ تھے۔ افسوس چند ماہ بعد ہی ان کا انتقال ہوگیا۔ مولانا نیّرؓ نے پرنس الیکو سلطان لیگوس کو ان کے محل میں جاکر تبلیغ کی۔ آپ چار ماہ لیگوس میں ٹھہرے اور دن رات دیوانہ وار تبلیغ کرتے رہے۔ بالآخر8؍اگست 1921ء کو واپس سالٹ پانڈ پہنچے ۔سالٹ پانڈ میں آکر شہر کے عین وسط میں کمرشل روڈ پر ایک دو منزلہ مکان کرایہ پر لے کر مشن ہائوس قائم کیا۔ اور اندرون ملک ایک لمبا دورہ کیا۔
(الفضل قادیان3؍ اکتوبر 1921ء صفحہ 2) ،( الفضل قادیان 25؍اگست 1921ء صفحہ 3)، (الفضل قادیان 3؍ اکتوبر 1921ء صفحہ 2)،( الفضل قادیان31؍ اکتوبر 1921ء صفحہ2)
میدان عمل کی صعوبتیں
گولڈ کوسٹ میں غیرملکیوں کے لئے ڈاکٹروں کی ہدایت تھی کہ پیدل بہت کم چلیں ورنہ بخار کا اندیشہ ہے۔ اور دوسری طرف تبلیغ کا کام بھی ضروری تھا اور اس کیلئے پیدل چلنا بھی ضروری تھا۔ان حالات میں اس مرد مجاہد نے کام کرکے دکھایا۔ان حالات میں اللہ پر توکل کرتے ہوئے کبھی پیدل سفر کیا اور جہاں Hammock (پالکی ڈولی جسے چار افراد اٹھاتے ہیں) میسر آگئی اس میں بیٹھ گئے۔ ان حالات میں آپ نے سالٹ پانڈ میں ایک مبلغین کلاس جاری کی جس میں آپ خود عربی زبان میں قرآن و حدیث، فقہ اور عقائد احمدیہ کی تعلیم دینے لگے۔
( الفضل قادیان 8 دسمبر 1921ء صفحہ 2-1)
اسی طرح گولڈ کوسٹ (گھانا) جماعت کو چار حصوں میں تقسیم کرکے ان میں عہدیدار مقرر کئے۔ انتظامی تقسیم کے مکمل ہونے کے بعد آپ دوبارہ 15 دسمبر 1921ء کو نائیجیریا کے دارالخلافہ لیگوس میں تشریف لے گئے اور تبلیغ شروع کردی۔ اسی دوران سیدنا حضرت خلیفۃالمسیح الثانیؓ نے 23جنوری 1922ء کو گولڈ کوسٹ مشن سنبھالنے کے لئے مولانا حکیم فضل الرحمن صاحب کو روانہ فرمایا جو گھانا کے دوسرے مبلغ سلسلہ تھے۔ جو 11 مارچ کو لنڈن اور 17؍ اپریل 1922ءکو لیگوس نائیجیریا پہنچے اور حضرت مولانانیر کے ذریعہ حالات کا جائزہ لینے کے بعد13مئی 1922ء کو سالٹ پانڈ پہنچ گئے۔ اس طرح نائیجیریا اور غانا مشن جو ایک ہی مبلغ کے مشن کے تحت تھے دو مستقل مشنوں کی صورت اختیار کرگئے اور گولڈکوسٹ کا احمدیہ مشن حکیم فضل الرحمن صاحب اور نائیجیریا مشن حضرت مولانا عبدالرحیم صاحب نیّرکے سپرد کردیا گیا۔
( الفضل قادیان20 مارچ 1922ء صفحہ 2)(الفضل قادیان14؍ستمبر1922ء)
تبلیغی دوروں کیلئے آپ نے مشن کیلئے ایک موٹر کرایہ پر گروی رکھ لی۔ جس کیلئے ایک ڈرائیور اور ایک میٹMateماہوار تنخواہ پر ملازم رکھ لئے۔ اس کے باوجود سفر کی مشکلات کا سامنا رہتا۔ ایسے ایک سفر کا حال بیان کرتے ہوئے آپ لکھتے ہیں۔
’’ ایک موقعہ پر اپنی موٹر رستہ میں خراب ہو گئی تو ڈرائیور اور میٹ تو اس کے پاس ٹھہر گئے اور مجھے کسی دوسری لاری میں سفر کرناپڑا ۔ راستہ میں ایک دریا پڑتا تھا۔ جہاں پر لاری کیچڑ میں پھنس گئی اور مجھے بھی دوسرے مسافروں کی طرح لاری کو کیچڑ سے نکالنے کیلئے مدد دینی پڑی ۔ پھر تھوڑی دور جا کر ایک اور نالہ آ گیا ۔ جس میں پانی کی دھار میں لاری کے پہئیے اٹک گئے اور نتیجۃً کچھ رستہ پیدل چلنا پڑا ۔ اور اس پر مستزاد یہ کہ جب خدا خدا کر کے منزل مقصود پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ کھانے والا پیکٹ ساتھ نہ تھا۔‘‘
(الفضل قادیان7؍نومبر1921ء )
تبلیغی کاوشوں کے اثمار
سالٹ پانڈ کے علاوہ بیرونی جماعتوں کے ساتھ رابطہ اور نئے مقامات پر تبلیغ کی غرض سے آپ نے دورہ جات کا سلسلہ شروع کیا اور دوسری بار سالٹ پانڈ پہنچنے کے بعد ایک ماہ کے عرصہ میں قریبی علاقہ جات کے 22مقامات کے دورے کئے۔ اس دوران 27پبلک جلسے منعقد کئے اور مجموعی طور پر 543میل کا سفر طے کیا۔ کئی مقامات پر پہنچنے کیلئے جنگل میں پیدل سفر کی صعوبتیں برداشت کیں۔
(الفضل قادیان31؍اکتوبر1921ء )
تاہم اللہ تعالیٰ نے آپ کی ان قربانیوں کو نوازا اور جا بجا کامیابی سے ہمکنار فرمایا۔ ستمبر کے مہینہ میں ایسے ایک دورے کے دوران ہی 80عیسائی اور بت پرست Pagansحلقہ بگوش اسلام ہوئے۔
(الفضل قادیان14,17؍نومبر1921ء )
سالٹ پانڈ کے اردگرد آپ نے جن مقامات کا دورہ کیا ان میں کیپ کوسٹ ،گوموا چیفڈم کا صدر مقام، اگوان (Ogwan)۔ایجوماکو(Ajumako)۔وینیبا (Winneba)، سیاں بریکوں(Seyan Brekun)، اسیام( Esiam)اور ایڈوکرم( Adokoram )قابل ذکر ہیں۔
(الفضل قادیان3؍نومبر، یکم و 22؍دسمبر1921ء 16، 19جنوری و 16؍ فروری1922ء)
گزشتہ چند ماہ کے دوران مندرجہ بالامقامات میں سے چار مقامات کا راقم الحروف نے بھی دورہ کیا ہے۔جو آجکل کیپ کوسٹCape Coast،ابورا Aburaاور سالٹ پانڈ( Saltpond)کے حلقہ جات(Circuits ) میں شامل ہیں۔
نظام جماعت گولڈکوسٹ اورچار حلقہ جات میں تقسیم
آپ نے گولڈ کوسٹ کو مندرجہ ذیل تقسیم کے تحت سلسلہ جماعت احمدیہ میں منسلک کیا ۔
مرکز سالٹ پانڈ:لائبریری ، ریڈنگ روم، مدرسہ احمدیہ اور عام نگرانی و حفاظت۔حقوق دارالتبلیغ۔ نیزجناب جبرائیل آرتھر کو سالٹ پانڈ مشن کا سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا گیا۔
مقامی تبلیغ :اسماعیل کونسی صاحب نمبردار ،(جنہوں سالانہ جلسہ پر بیعت کی) محمد یحییٰ صاحب مقامی مبلغ سالٹ پانڈ۔
انچارج دارالتبلیغ گولڈ کوسٹ: مولوی محمد اسحاق صاحب اس کے انچارج مبلغ اور ان کی معاونت کیلئے مکرم داؤد،یعقوب موسیٰ، آدم ،حسن و عیسیٰ صاحبان مقامی مبلغین مقرر کئے گئے۔ اورعام انتظامی اور امور شعبہ مال کے لئے: مکرم چیف مہدی آپا اور سیکرٹیری کیلئے مکرم مسٹر بنیامین کیلسون مقرر کئے گئے۔
انتظامی امور میں سہولت کی غرض سے جماعت کو چار حلقوں میں تقسیم کیا گیا۔(۱)حلقہ ایکرافو۔جس میں ایکرافو، مانڈو، عباسا،آسیام ،وسی کما ،بیڈون، ایسن، کوانٹا،ایبورا،ایڈوکروم، ایکوٹی،مانیکروم کی جماعتیں شامل تھیں۔
(۲) حلقہ سرفا: جس میں سرفا، سویڈرو،اباکو،کوم کرام،کورنسی کرم،نیڈل بھیس ، آبڈوم(یمڈم)،رشیم، افرانسی اور ٹیچی مان کی جماعتیں تھیں۔
(۳)حلقہ سیاں:جس میں سیاں برکیاں اور پٹن کی باقاعدہ جماعتیں شامل تھیں۔
(۴):حلقہ سکینڈی: جس میں سکینڈی،آبڈونی اور پرم ہرم کی جماعتیں شامل تھیں۔
(الفضل قادیان20؍مارچ 1922ء)
دورہ اشانٹی(Ashanti )ریجن
اب تک آپ کی تبلیغ کا دائرہ فینٹی قوم کے ساحلی علاقوں تک محدود تھا۔ 8؍نومبر1921ء کو آپ نے اس کی شمالی جانب اشانٹی ریجن کے علاقے کے دورہ کا پروگرام بنایا ۔ اشانٹی ریجن کا صدر مقام کماسی کامشہور شہر ہے۔ کماسی کو سیکنڈی سے ریل جاتی تھی۔ (آج بھی ریل ٹریک موجود ہے تاہم ریل گاڑی نہیں چلتی۔)چنانچہ آپ پہلے سالٹ پانڈ سے سیکنڈی گئے۔ مگر سیکنڈی پہنچنے سے قبل کیپ کوسٹ کچھ عرصہ کیلئے رکے۔ یہ وقت سکولوں اور کالجوں کے بند ہونے کا تھا۔ عیسائی طلباء اور اساتذہ گھروںکو جا رہے تھے آپ نے موقعہ سے فائدہ اٹھاتے ہوے کھلی جگہ میں وعظ کرنا شروع کر دیا اور ان کے سوالات کے جوابات دیئے۔یہاں سے چل کر چند میل کے فاصلہ پر المیناAlminaکے معروف مقام (جوآجکل ایک معروف ساحلی مقام بھی ہے)پر ٹھہر کر اسلام احمدیت کا پیغام پہنچایا اور اس طرح شام کو تیسرے پہر سیکنڈی پہنچ گئے ۔سیکنڈی میں آپ نے ایک ہندولالہ مٹھا رام کے ہاں قیام کیا اور چند روز کے قیام کے دوران مقامی عیسائیوں اور مسلمانوں میں تقاریر اور مباحثات کئے۔ اس جگہ پر دس آدمیوں نے بیعت کی اور سیکنڈی میں جماعت کا قیام عمل میں آیا ۔ سیکنڈی میں قیام کے دوران یہاں سے 9میل کے فاصلہ پر آبڈونی Abdoniنامی ایک گاؤں تشریف لے جا کر پیغام حق پہنچایا ۔
سیکنڈی سے بذریعہ ریل آپ کماسی پہنچے(آجکل یہ ریل بند ہوچکی ہے)۔ کماسی میں اپنے چار روزہ قیام کے دوران آپ نے اشانٹی رئووسا کو تبلیغ کی نیز دو پبلک لیکچرز دیئے۔ اور اس طرح پہلی بار اشانٹی قوم کو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی آمد کی خوشخبری پہنچی۔ ایک اشانٹی رئیس بیعت کر کے سلسلہ احمدیہ میں داخل ہوا اور اس طرح علاقہ اشانٹی میں جماعت احمدیہ کا بیج بویا گیا۔ اس نو احمدی کا نام آپ نے فاروق رکھا۔
(الفضل قادیان13؍مارچ1922ء )
گھانا سے مولانا عبدالرحیم صاحب نیّر کی روانگی
مولانا عبدالرحیم نیّر صاحب کے سامنے تبلیغ کا بہت وسیع میدان تھا۔ آپ نے گھانا سے سیرالیون اور لائبیریا جانے کا پروگرام بنا رکھا تھا۔ ادھر نائیجیریا کی جماعت کا تقاضا تھا کہ آپ وہاں جائیں۔ بہر حال اب پھر آپ کو گھانا سے جانا تھا۔ اس موقع پر آپ نے مناسب سمجھا کہ گھانا کے احمدیوں کا سالٹ پانڈ میں ایک اجتماع کر کے آئندہ کے پروگرام سے متعلق ان سے شوریٰ کی جائے۔ اور جماعتی امور کے منتظم مقرر کئے جائیں۔ 25؍نومبر 1921ء کو جمعہ کے روز سالٹ پانڈ میں یہ جلسہ عام منعقد کیا گیا۔
(الفضل قادیان23؍فروری1922ء)
آپ نے مسٹر جبریل آرتھرکو سالٹ پانڈ کے مرکزی مشن کا سپرنٹنڈنٹ مقرر کیا اور مدرسہ احمدیہ اور لائبریری وریڈنگ روم کاانتظام ان کے سپرد کیا۔عمومی انتظام چیف مہدی آپا کے سپرد ہوا اور مسٹر بن یامین کیلسنز سیکرٹری مقرر ہوئے۔ شعبہ تبلیغ کا ہیڈ مسٹر محمد اسحاق کو مقرر کیا گیا۔ اور آپ کے ساتھ اسماعیل کوسی، محمد یحییٰ، مسٹر داؤد،مسٹر یعقوب،مسٹر یوسف،مسٹر موسیٰ،مسٹر آدم، مسٹر حسن اور مسٹر عیسیٰ معاون مبلغین مقرر ہوئے۔جماعتوں کو اب چار حلقوں میں تقسیم کر دیا گیا۔
(الفضل قادیان20؍مارچ 1922ء)
دورِگولڈکوسٹ کا اختتام اورساحل اکرا (Accra)سے لیگوس نائیجریا روانگی
حضرت مولانا نیّرؓ صاحب 8دسمبر 1921ء تک سالٹ پانڈ،گولڈکوسٹ میں خدمات بجالاتے رہے۔
چنانچہ9؍دسمبر کو بحری سفر کے ذریعہ سالٹ پانڈ سے (Accra )اکرا پہنچے۔ 14؍دسمبر تک آپ نے اکرا میں قیام کیاجس دوران آپ تبلیغی فرائض سر انجام دینے کے ساتھ ساتھ مسلمانوں کی مسجد کھلوانے کے متعلق بھی کوشش کرتے رہے۔ روانہ ہونے سے قبل آپ نے کولونیل سیکرٹری اور گورنر جنرل سے ملاقات کی انہیں Teachings of Islam ٹیچنگز آف اسلام اور تحفہ شہزادہ ویلز پیش کیں اور 14؍دسمبر کو آپ گھانا سے نائیجریا کیلئے روانہ ہو گئے ۔ گھانا سے آپ کی یہ آخری روانگی ثابت ہوئی ۔ آپ نے گھانا کی جماعت کی مردم شماری کیلئے چند دوستوں کو مقرر کر رکھا تھا۔ا س مردم شماری کی رپورٹ آپ کو روانگی سے قبل اکرا میں ہی ملی۔ اس رپورٹ کے مطابق گھانا میں احباب جماعت کی تعداد 5000 سے متجاوز ہو چکی تھی۔
(الفضل قادیان20؍مارچ 1922ء)
حضرت مولاناحکیم فضل الرحمن صاحب کی آمد
الٰہی تائید اور نصرت کے نتیجہ میں گھانا اور نائیجیریا میں جماعت احمدیہ کو جو نمایاں کامیابیاں حاصل ہوئیں اس کی وجہ سے ایک مبلغ کیلئے دونوں جماعتوں کی نگرانی کا کام چنداں آسان نہیں تھا۔ اور کم از کم مزید ایک مبلغ کا اس علاقے میں پہنچنا اشد ضروری تھا۔ مولوی فضل الرحمن حکیم صاحب وہ خوش قسمت نوجوان تھے جن کو حضرت خلیفۃ المسیح الثانی ؓنے گھانا کیے لئے مبلغ نامزد فرمایا۔
جب 17؍اپریل 1922ء کو مولوی حکیم فضل الرحمن صاحب کی لیگوس آمد ہوئی تو اس سے پہلے نائیجیرین میں یہ فقرہ عام تھا کہ
Ahmadiyya Movement means Business
’’جماعت احمدیہ کچھ کئے بغیر نہیں رہے گی‘‘
(الفضل قادیان 12جون 1922ء)
جیسا کہ ذکر ہو چکا ہے آپ نے تقریباً ایک ماہ تک مولانا عبدالرحیم نیّر ؓ صاحب کے ساتھ لیگوس میں قیام کیا اور 9؍مئی 1922ء کو لیگوس سے گھانا کیلئے روانہ ہو کر 13؍مئی 1922ء کو آپ سالٹ پانڈ پہنچے۔ تھوڑے ہی عرصہ میں آپ نے سالٹ پانڈ کے ارد گرد دیہات میں پھیلی ہوئی جماعتوں کا دورہ کر کے ان سے تعارف حاصل کیا ا ور تبلیغ و تربیت کے کام میں مصروف ہو گئے۔ اس کا اندازہ اس امر سے ہو سکتا ہے کہ جولائی کے پہلے ہفتے میں 117؍احباب بیعت کر کے سلسلۂ حقہ میں داخل ہوئے۔
(الفضل قادیان14؍ستمبر1922ء)
مولانا نیّر صاحب کی عظیم الشان قربانیاں
آپ دسمبر 1921ء میں سالٹ پانڈ سے بحری سفر پر اکرا Accraروانہ ہوئے۔آپ کو بحری سفر موافق نہیں آتا تھا اور خاصی مشقّت اٹھانی پڑتی تھی۔ اس کیفیت کو آپ یوں بیان کرتے ہیں:
’’سفر بحر مجھے بہت تکلیف دیتا ہے اور سمندر کو دیکھتے ہی مجھے قے شروع ہوجاتی ہے۔ساحلی جہاز Sir Georgeکے ذریعہ بارادہ نائیجیریا بغرض شمولیت احمدیہ کانفرنس روانہ ہوا۔کنارۂ بحرسے جہاز تک کشتی لے جاتی ہے۔اور اس کشتی کوپانی کی اونچی پہاڑیوں پر سے گزرنا پڑتا ہے اور امواج بحرنہ صرف اس کشتی کو سرکش گھوڑے کی طرح سیخ پا کرتی ہیں بلکہ سوا رکے ساتھ بھی نمک ملے سفیدپانی کی پچکاری سے ہولی کھیلتی ہے۔
جہا زوالوں نے’’ سبز پگڑی ‘‘کو دیکھتے ہی ہنڈولا اتارا اور نیم مردہ نیّر کو تختہ جہاز پر لے لیا۔ شریف انگریز کپتان مسٹر جانسن،مسٹربن وارڈن (جنہوں نے تعارف کیلئے Teachings of Islam کا ذکر کیا کہ کپتان ٹرنرنے اس عاجز کی عطاکردہ کتاب انجینئر موصوف کو دی تھی۔)اور دوسرے مسافر و چیف آفیسر ہر طرح کی خاطر مدارت کرنے لگے ۔اور مسٹر جانسن نے کھیر پکوائی اور خود پاس بیٹھ کر مجھے کھلوائی۔ کچھ ہوش آیا تو معزز میزبان کو مسیح موعود ؑ کا پیغام سنایا۔ جونہی جہاز نے رات کو حرکت کی طبیعت خراب ہو گئی اور اس طرح ہائے اللہ کی آواز کے ساتھ دو روز گزار کر دارالحکومت گولڈ کوسٹ میں 9دسمبر کووارد ہوا۔
(الفضل قادیان20؍مارچ 1922ء)
سنیگال کے تیجانیہ فرقہ کے امام احمد فوٹا کا قبول احمدیت
سنیگال میں عموماًجماعت احمدیہ کا تعارف 1963ء میں بیان کیا جاتا ہے جب اکتوبر 1963ء میں مولانا چوہدری محمد شریف صاحب (مرحوم ) امیر و مشنری انچارج گیمبیا کے دور میں مکرم محمد ابراہیم درامے بیعت کر کے احمدیت میں داخل ہوئے۔ اس کے بعد نو مبائعین کا سلسلہ جاری رہا۔ تاہم حضرت مولانا نیّر کے بیان کے مطابق 1922ء میں ایک تیجانی مسلمان امام احمد فوٹا نے جو اس وقت گولڈکوسٹ میں تیجانی فرقہ کے امام تھے احمدیت قبول کرلی۔اس طرح سنیگال میں بھی احمدیت کی آواز پہنچانے کا سہرا حضرت مولانا نیّر صاحب کے حصہ میں آیا۔چنانچہ آپ لکھتے ہیں:
’’اکرا(Accra) میں میرے لئے جو خاص خوشی کا باعث ہے وہ یہ ہے کہ مسلمان رؤسا کو میں نے چائے پر مدعو کیا۔ اور سلسلہ احمدیہ کی تعلیم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے دعاوی پیش کئے۔خطبہ الہامیہ اور استفتاء سے مسیح موعود ؑکا کلام پڑھ کر سنایا۔ اسے سننے کے بعد امام فوٹا احمد جوکہ سینیگال کے باشندہ اور سلسلہ تیجانیہ کے معلم اور شریعت اسلام کے عالم ہیں، بلند آواز میں لوگوں کے سامنے کہا۔’’میں صدق دل سے اس کلام پر ایمان لایا‘‘ الحمدللہ علیٰ ذالک۔ مجھے اس عالم کے اعلان سے بہت خوشی ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے استقامت بخشے۔ آمین ثم آمین۔‘‘
(الفضل قادیان 20مارچ 1922ء صفحہ2)
گھانا میں جماعت احمدیہ کی طرف سے عیسائیت کا کامیاب مقابلہ۔
مسیحی مصنف مسٹر نوئیل سمتھ کا اعتراف
جماعت احمدیہ نے اللہ تعالیٰ کی دی ہوئی توفیق سے مغربی افریقہ میں گزشتہ 97سال کے دوران جس جانفشانی اور حرارتِ ایمانی سے عیسائیت کا مقابلہ کر کے وسیع پیمانہ پر اسلام کی اشاعت کی ہے اس کا اعتراف عیسائی محققین بھی کرنے پر مجبور ہیں۔
چنانچہ ایک برطانوی ماہرِ تعلیم مسٹر نوئیل سمتھ (Mr. Noel Smith) نے جو گھانا کے عیسائی سکولوں میں استاد کی حیثیت سے کام کرتے رہے ایک کتاب شائع کی جس کا نام "The Presbyterian Church in Ghana- 1835-1960” ہے۔یعنی ’’گھانا میں پریسبیٹیرین کلیسا–1835ء تا 1960ء‘‘۔ اس کتاب میں انہوں نے اس عرصہ کے دوران گھانا میں پریسبیٹیرین چرچ کے ذریعہ عیسائیت کی تبلیغی جدوجہد کی نوعیت اور اس کی ناکامی کا ذکر کرنے کے بعد وہاں اسلام کی روز افزوں ترقی پر روشنی ڈالی اور واضح الفاظ میں اعتراف کیا کہ گھانا کے جنوب مغربی علاقہ میں اسلام کی روز افزوں ترقی جماعت احمدیہ کی کامیاب تبلیغی جدوجہد کی مرہونِ منت ہے۔ اس کے بعد انہوں نے چرچ کو توجہ دلائی کہ اسے افریقہ میں عیسائیت کو ایسے ہی مؤثر اور دل موہ لینے والے انداز میں پیش کرنا چاہیئے جیسا کہ جماعت احمدیہ وہاں اسلام کو پیش کر کے لوگوں کو مسلمان بنا رہی ہے۔ ذیل میں مسٹر نوئیل سمتھ کی مذکورہ کتاب کے بعض اقتباسات پیش ہیںجن میں اس امر کا ذکر ہے کہ آج سے 97سال پہلے جماعت احمدیہ نے گھانا میں کس طرح تبلیغ اسلام کی مہم کا آغاز کیا:
’’ابوبکر نامی ایک نائیجیرین مبلّغِ اسلام کی تبلیغی مساعی کے ذریعہ فانٹی کے دو میتھوڈسٹ عیسائیوں بن یامین سام اور مہدی آپا کے مسلمان ہونے کے بعد جماعت احمدیہ نے جو تبلیغی جہاد کی علمبردار ہے وہاں اپنے پائوں جمانے میں کامیابی حاصل کی۔ سام اور اَپانے کیپ کوسٹ سے بارہ میل دور ڈنکُو آردُوپر ایکروفُو کو اپنا ہیڈکوارٹر بنایا۔ وہاں سے انہوں نے اسلام کے حق میں اپنی تبلیغی مہم کا آغاز کرنے کے علاوہ ایک سکول بھی کھولا۔ 1920ء میں حکومت نے اس سکول کے لئے ایک تربیت یافتہ استاد فراہم کیا۔ 1921ء میں فانٹی مسلمانوں نے ایک ہندوستانی احمدی مبلغ(مولانا نیّر صاحب مرحوم) کو مدعو کیا کہ وہ سالٹ پانڈ میں تبلیغ و اشاعتِ اسلام کا کام کرے۔ اس احمدی مبلّغ کی مساعی اس قدر بارآور ثابت ہوئیں کہ ان سے متاثر ہو کر چند سال کے اندر اندر قریباً تمام فانٹی مسلمان جماعت احمدیہ میں داخل ہو گئے۔‘‘
(The Presbyterian Church in Ghana- 1835-1960, page123)
جماعت احمدیہ کی کامیاب تبلیغی جدوجہد کے نتیجہ میں وہاں عیسائیت کو اسلام کے بالمقابل جو ہزیمت اٹھانا پڑی اور اس کے لئے جو نت نئی مشکلات پیدا ہوئیں اور ان کا ذکر کرتے ہوئے مسٹر نوئیل سمِتھ نے لکھا :۔
(۱) ’’اس حقیقت نے صورت حال کو اَور بھی زیادہ پیچیدہ بنا دیا ہے کہ اسلام ایک ارفع و اعلیٰ عالمی مذہب کی حیثیت سے (جو باطنی طور پر افریقیوں کا مذہب بننے کی صلاحیت رکھتا ہے) لوگوں کو اپنے اندر شامل کرنے کی بھرپور کوشش کر رہا ہے۔ مغربی افریقہ میں اسلام وہ کچھ کر دکھانے میں کامیاب رہا ہے جس کی سرانجام دہی میں عیسائیت ابھی تک کامیاب نہیں ہو سکی ہے اور وہ یہ ہے کہ اخلاق و کردار کا مخصوص ضابطہ رکھنے والے مذہبی ملکوں سے راہ و رسم پیدا کر کے رفتہ رفتہ ان کی اصلاح کی جائے۔‘‘
(The Presbyterian Church in Ghana- 1835-1960, 266-267pp)
(۲) ’’جنوب مغربی علاقے کے فانٹی قبیلہ میں اسلام کا مؤثر نفوذ نتیجہ ہے مغربی انداز پر جماعت احمدیہ کی کامیاب تبلیغی جدوجہد کا۔‘‘
آخر میں انہوں نے چرچ کو توجہ دلائی ہے کہ وہ بھی افریقیوں کے سامنے انجیل پیش کرنے میں انہی مؤثر طریقوں کو اپنائے جن سے قرآن پیش کرنے میں جماعت احمدیہ کام لیتی ہے۔ چنانچہ وہ لکھتے ہیں:
’’کیا چرچ افریقیوں کے نقطۂ نظر اور ان کے اندازِ زیست کو ملحوظ رکھتے ہوئے ان کے سامنے انجیل پیش کرنے میں تبلیغ کے اسلامی انداز سے سبق حاصل کرے گا؟‘‘
(Ibid 269)
سیدنا حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے الٰہی پیشگوئیوں کے مطابق آج سے 97 سال قبل مغربی افریقہ میں جس عظیم تبلیغی جدوجہد کا آغاز فرمایا تھا اَب خلافتِ خامسہ کے عالمگیر مبارک دور میں آسمانی انوارو افضال کے ثمرات سے اس خطہ کو مالامال کررہا ہے اُس کے نتیجہ میں رونما ہونے والا عظیم روحانی انقلاب اس درجہ نمایاں سے نمایاں تر ہوتا جا رہا ہے کہ ماضی و حال کے اغیار بھی اُس کا اعتراف کرنے پر اپنے آپ کو مجبور پاتے ہیں۔آخر میں ایک ایمان افروز ارشاد درج کرکے اس مضمون کو ختم کرتا ہوں۔
2000ء میں غانا میں تبلیغی مہمات کے دوران 14چیفس احمدی ہوئے اور48آئمہ سلسلہ احمدیت میں داخل ہوئے ۔سیدنا حضرت خلیفۃ ا لمسیح الرابعؒ نے جلسہ سالانہ برطانیہ 2000ء کے موقع پر دوسرے روز کے خطاب میں غانا میں جماعت احمدیہ کے حق میںرونما ہونے والے تائیدات الٰہیہ کے نشانات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:
’’الحاج عبدالرحمٰن کویتی امداد سے تعمیر شدہ مسجد کے امام تھے ۔جب انہوں نے بھی بیعت کی تو لوگوں کی بڑی تعداد بھی ان کے ساتھ ہی احمدیت میں شامل ہوگئی۔اس پر انہیں امامت سے فارغ کردیاگیا ۔ اس پر انہوں نے کہا کہ صداقت ہی مسجد کوعظمت اور احترام عطا کرتی ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ میں صداقت کو صرف مسجد کی امامت کے لئے ٹھکرادوں۔ وہ کھلے میدان میں دھوپ میں نمازیں ادا کرنے لگے۔ انہوں نے نماز جمعہ بھی دھوپ میں بہت بڑی جماعت کے ساتھ ادا کی۔ انتظامیہ اور چیف نے انہیں روکنے کے لئے طاقت کااستعمال کیا۔ پولیس کی خاصی تعداد کو بلایا گیا کہ وہ امام صاحب کو نماز پڑھانے سے روک سکیں۔ امام صاحب نے لوگوں سے کہا کوئی اپنی جگہ سے نہ ہلے ۔ ہم نے کوئی جرم نہیں کیا ۔ ہم امن پسند لوگ ہیں اور نماز ادا کررہے ہیں ۔ ہم نے کسی کو دکھ نہیں دیا ، کسی کو تکلیف نہیں دی ۔ آپ غانا کی تاریخ سے یہ بات ثابت کریں کہ کبھی کوئی احمدی فساد کرتے ہوئے پکڑا گیا ہو۔ ہم سب سے زیادہ امن پسند اور منظم جماعت ہیں ۔ ان کے اس بیان نے بہت اثر دکھایا ۔ پولیس جو نماز سے روکنے کے لئے آئی تھی اب ان کی حفاظت کرنے لگی۔‘‘
(الفضل انٹرنیشنل لندن14/8؍ستمبر 2000ء )
………………
(باقی آئندہ)