اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ

اسلام آباد(پاکستان) کی ہائی کورٹ کا فیصلہ(قسط نمبر 12 )

(ڈاکٹر مرزا سلطان احمد)

کیا پارلیمنٹ کا قانون سازی کا اختیار غیر محدود ہے یا اس کی کچھ حدود ہیں؟

(مندرجہ بالا عنوان کامضمون گزشتہ شمارہ سے جاری ہے)

غیر قانونی ترمیم اور غیر قانونی مجوزہ قوانین

جبکہ حقیقت یہ ہے کہ خود آئین کی رو سے اور اعلیٰ عدالتوں کے فیصلوں کی رو سے مملکت کے کسی ادارے کو یہ حق حاصل نہیں کہ و ہ پاکستان کے کسی شہری کے ان بنیادی حقوق میں سے کسی کو کم یا منسوخ کرسکے۔ اس عدالتی فیصلہ میں یہ سوال بار بار اُٹھایا گیا ہے کہ دوسری آئینی ترمیم [جس میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا]پر عملدرآمد کروانے کی ضرورت ہے۔تو حقیقت یہ ہے کہ خود یہ آئینی ترمیم ہی غیر آئینی ہے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 20کے خلاف ہے۔دوسری آئینی ترمیم کی طرح جماعت احمدیہ کے خلاف جاری کیا جانے والاجنرل ضیاء صاحب کا آرڈیننس بھی غیر آئینی ہے کیونکہ یہ احمدیوں کے ان بنیادی حقوق کو ختم کرتا ہے جن کو ختم کرنے کا اختیار مملکت کے کسی ادارے کو نہیں ہے اور یہ آرڈیننس بھی آئین کے آرٹیکل 20کے خلاف ہے۔اسی طرح یہ مطالبہ بھی غیرآئینی ہے کہ احمدیوں کو کلیدی اسامیوں پر نہ لگا ئو کیونکہ یہ مطالبہ آئین کے آرٹیکل 26اور36کے خلاف ہے۔

جب 1974ءمیںقومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی میں جماعتِ احمدیہ کا وفد اپنا مؤقف پیش کر رہا تھا تو اس وقت اٹارنی جنرل صاحب نے حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کو مخاطب کر کے کہا تھاکہ اگر یہ ترمیم منظور ہو جاتی ہے تو بھی آپ کو اس بات سے کوئی نہیں روک رہا کہ آپ اپنے آپ کو مسلمان سمجھیں یا اپنے عقائد کو propagate کریں۔ آپ کا جو بھی ایمان ہے آپ اُس کا اعلان کر سکتے ہیں۔ [کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ءص128]۔یہ کتنی بے معنی بات ہے کہ انسان کا عقیدہ یا مذہب تو اَور ہے اور کاغذوں پر اس سے کچھ اور لکھوایا جائے۔

مخالفین کا قرآن و سنت کے فیصلہ سے احتراز

اب ہم آئین کے آرٹیکل 227کا ذکر کرتے ہیں۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے فیصلہ میں ڈاکٹر بابر اعوان صاحب کی یہ رائے درج ہے کہ کوئی ایسا قانون نہیں بنایا جا سکتا جو کہ اس آرٹیکل کے خلاف ہو ۔اس آرٹیکل کے الفاظ یہ ہیں’’تمام موجودہ قوانین کو قرآنِ پاک اور سنت میں منضبط اسلامی احکام کے مطابق بنایا جائے گا۔جن کا اس حصے میں بطور اسلامی احکام کے حوالہ دیا گیا ہے۔اور ایسا کوئی قانون وضع نہیں کیا جائے گا جو مذکورہ احکام کے منافی ہو۔‘‘

یہاں اس اہم بات کا ذکر ضروری ہے کہ جب 1974ءمیں قومی اسمبلی کی سپیشل کمیٹی کی کارروائی ہو رہی تھی تو یہ مؤقف جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے پیش کیا گیا تھا کہ فیصلہ کا معیار قرآن اور سنت ہونے چاہئیںاور جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین نے یہ معیار قبول کرنے سے انکار کیا تھا۔ جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے یہ اصول پیش کیا گیا تھا کہ یہ فیصلہ کرنے سے قبل کہ کسی گروہ کو غیر مسلم قرار دینا ہے یہ فیصلہ کرنا پڑے گا کہ ـ’مسلمان ‘ کی تعریف کیا ہے؟ تب ہی یہ فیصلہ ہو سکے گا کہ کون مسلمان ہے؟

جب 1974ءمیں جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے مَحضرنامہ پیش کیا گیا تو اس حوالہ سے اس میں مندرجہ ذیل سوالات اُٹھائے گئے :

’’ا:کیا کتاب اللہ اور آنحضرت ﷺ سے مسلمان کی کوئی تعریف ثابت ہے جس کا اطلاق خود آنحضرتﷺ کے زمانے میں بلا استثناء کیا گیا ہو۔ اگر ہے تو وہ تعریف کیا ہے؟

ب: کیا اس تعریف کو چھوڑ کرجو کتاب اللہ اور آنحضرت ﷺ نے فرمائی ہو اور خود آنحضور ﷺ کے زمانہ مبارک میں اس کا اطلاق ثابت ہو۔کسی زمانہ میں کوئی اور تعریف کرنا کسی کے لیے جائز قرار دیا جا سکتا ہے؟‘‘

(محضرنامہ۔ ناشر: اسلام انٹرنیشنل پبلیکیشنز ص13)

اور پھر جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے یہ مؤقف پیش کیا گیا تھا کہ صرف قرآن ِ کریم اور سنت ِ نبوی ﷺکو بنیاد بنا کر یہ فیصلہ کرنا چاہیے کہ مسلمان کی تعریف کیا ہے؟

کسی بھی اہم کام کو کرنے سے قبل کچھ بنیادی اصول طے کرنے پڑتے ہیں۔اسی طرح اگر ’مسلمان ‘ کی ایسی تعریف کرنی تھی جس پر تمام ملت ِ اسلامیہ کا اتفاق ہو سکے تو ضروری تھا کہ اس کے کچھ بنیادی اصول طے کر لیے جائیں جن پر بنیاد رکھ کر ’مسلمان‘ کی تعریف کی جا سکے۔ورنہ یہ عمل ملت ِ اسلامیہ کے اتحاد اور اخوت میں رخنہ ڈالنے کا سبب بھی بن سکتا تھا۔جماعت ِ احمدیہ کی طرف سے جو مندرجہ بالا اصول بیان کیے گئے تھے وہ ایسے تھے کہ جن سے کسی مسلمان کو اختلاف نہیں کرنا چاہیے تھا۔جماعت ِ احمدیہ کے محضرنامہ میں کچھ آیات اوررسول اللہ ﷺ کی کچھ احادیث بھی پیش کی گئی تھیںتاکہ ان کو معیار بنا کر فیصلہ کیا جائے۔اس کے جواب میں مفتی محمود صاحب نے یہ نظریہ پیش کیا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث شریف میں جو مسلمان کی تعریف بیان کی گئی ہے وہ جامع و مانع تعریف نہیں ہے۔گویا جو تعریف رسول اللہ ﷺ نے بیان فرمائی وہ تو مکمل اور قانونی تعریف نہیں تھی اور جو تعریف پاکستان کی قومی اسمبلی تیار کرے گی وہ مکمل اور صحیح ہو گی اگر یہ گستاخی نہیں تو اور گستاخی کس کو کہتے ہیں؟

[کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ءص1992]

جب مولوی عبد الحکیم صاحب نے اس تجویز پر اپنی رائے کا اظہار کیا تو اس کا آغاز اس طنز سے کیا:

’’اب جبکہ ملک میں مرزائیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینے کے مطالبہ میں بیس سال کے بعد پھر طاقت آئی ہے تو مرزائیوں کو بھی مسلمان کی تعریف کا شوق چرایا۔تاکہ ہم کسی نہ کسی طرح مسلمانوں میں شمار ہو جائیں۔ اس عنوان کے تحت صفحہ 15 پر مرزائی محضرنامہ کے بیان سے واضح ہوتا ہے کہ وہ کسی ایسی تعریف کو جائز نہیں سمجھتے جو کتاب اللہ اور خود سرور ِ کائنات ﷺ کی فرمائی ہوئی تعریف کے بعد کسی زمانہ میں کی جائے۔‘‘

(کارروائی صفحہ 2364)

مولوی عبد الحکیم صاحب کا جماعت ِ احمدیہ کے مؤقف پر حملہ تو واضح ہے لیکن وہ کیا نتیجہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے ؟ اس کا جواب واضح ہے کہ وہ یہ نتیجہ پیش کرنے کی کوشش کر رہے تھے کہ مناسب یہی ہے کہ پاکستان کے آئین میں’ مسلمان‘ کی ایسی تعریف شامل کی جائے جو قرآنِ کریم اور رسول اللہ ﷺ کی بیان فرمودہ تعریف سے مختلف ہو۔جبکہ آئین تو انہیں اس بات کا پابند کرتا تھا کہ وہ فیصلہ قرآن ِ کریم اور سنت کے مطابق کریں۔

کون سا طبقہ بنیادی انسانی حقوق سلب کرنے کا حامی ہے؟

یہ تجزیہ کرنے کی ضرورت ہے کہ وہ کون سا طبقہ ہے جوکہ آئین میں درج بنیادی حقوق کے خلاف رائے رکھتا ہے اور اس کا اظہار کر چکا ہے۔اور اگر یہ پابندی نہ قائم رکھی گئی کہ ان بنیادی حقوق میں مملکت کے کسی قانون سے بھی کمی نہیں کی جا سکتی تو وہ یقینی طور پر ان بنیادی حقوق کے قوانین میں ترمیم کرنے کی کوشش کرے گا۔یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ جب پاکستان کے موجودہ آئین کا مسودہ تیار ہو کر قومی اسمبلی میں پیش ہو رہا تھا تو مولوی حضرات نے اس آئین کو اسلامی بنانے کے لئے بہت سی تجاویز پیش کی تھیں۔ایک تجویز تو یہ تھی کہ اگر اسلامی آئین چاہئے تو یہ کام تین علماء کے سپرد کر دیا جائے۔باقی کسی کی ضرورت نہیں ہے ۔چنانچہ مولوی نعمت اللہ صاحب نے تجویز پیش کی تھی کہ کوثر نیازی صاحب، مولوی عبدالحق صاحب ، اور مولوی غلام غوث ہزاروی صاحب کے سپرد اسلامی آئین بنانے کا کام کیا جائے اور وہ تین ماہ میں یہ کام کر دیں۔اور ساتھ یہ انتباہ کیا تھا ـ: ’’میں کہتا ہوں خدا کے بندو اسلام کے ساتھ مذاق نہ کرو۔‘‘

[The National Assembly of Pakistan , Constitution making debates , Feb 28 1973, Vol 2 No. 10, p 264]

اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ ان مولوی صاحب کو پورے آئین میں کیا غیر اسلامی بات نظر آئی تھی؟ تو یہ حقیقت جان کر سب کو حیرت ہو گی کہ انہیں آئین کے آرٹیکل 11.1پر اعتراض تھا کیونکہ اس میں غلام اور لونڈیاں رکھنے کی ممانعت کی گئی تھی۔ یہ مولوی صاحب نعوذُباللہ پاکستان کے آئین کو کس طرح اسلامی بنانا چاہتے تھے اُنہی کے الفاظ میں ملاحظہ فرمائیں۔ مولوی نعمت اللہ صاحب کہتے ہیں:

ـ ’’جناب ِ صدر اس آئین کے حصہ دوئم میں لکھا ہے کہ غلامی انتہائی درجے تک جائز نہیں ہے۔اور انسانوں کی خریدو فروخت جائز نہیں ہے۔ اور غلامی یہاں پر نہیں کی جائے گی اور اس کی ترویج نہیں دی جائے گی … جناب ِ والا! سوچ لیجیے یہ ہال جو مسلمانوں کا ہے اور سب کا قرآ ن ِ پاک پر ایمان ہے، اس آئین میں یہ اب پیش کیا گیا ہے ۔کہ قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا۔یہ باقاعدہ اس میں موجود ہے۔ جناب ِ والا قرآن ِ پاک میں یہ بھی موجود ہے۔یہ قرآن ِ کریم کا حکم جو ہے وہ ٹھکرایا جاتا ہے۔ہم انگریزوں کی باتوں پر عمل کرتے ہیں اور قرآن ِ پاک کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں اگر تمہاری طاقت اتنی ہے کہ چار شادیاں نہیں کر سکتے تو ایک کر لو یا باندی کو استعمال میں لائو۔آپ کہتے ہیں کہ غلامی جائز نہیں ۔جناب ِ والا جائز ہے ۔یہ جناب ِ والا قرآن کی مخالفت ہے اور یہ کس طریقے سے کہتے ہیں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا ۔اور کہتے ہیں غلامی کو ہم کبھی جائز نہیں کریں گے، انسانوں کی خریدو فروخت جائز نہیں ہو گی ۔بنیادی حصے میں یہ الفاظ رکھ دئے گئے ہیں ۔یہ لفظ تو انگریز کے کیے ہوئے ہیں۔‘‘

[The National Assembly of Pakistan , Constitution making debates , Feb 28 1973, Vol 2 No. 10, p 458-459]

پھر دوبارہ اس مسئلہ پر مولوی نعمت اللہ صاحب نے کہا:

’’یہ آئین جو آپ کے سامنے ہے۔اس میں کہا ہے کہ اگر آپ غلامی کو جائز رکھیں تو آپ یہ کہتے ہیںکہ ہم دنیا میں شرمندہ ہو جائیں گے۔میں خدا کی قسم آپ کے سامنے کہتا ہوں کہ آپ دنیا میں بلکہ انتہائی درجہ تک سرخرو ہو جائیں گے۔اللہ تعالیٰ کی مدد آپ کے شامل ِ حال ہو گی۔ اور پیپلز پارٹی دنیا میں انتہائی درجہ تک سرخرو ہو جائے گی۔اور پاکستان پیپلز پارٹی دنیا میں سرخرو ہو جائے گی۔اس کی وجہ یہ ہے کہ انہوں نے اسلامی آئین پچیس سال بعد دنیا میں پیش کر دیا۔‘‘

[The National Assembly of Pakistan , Constitution making debates , Feb 28 1973, Vol 2 No. 10, p 460]

یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ جب پاکستان کی اسمبلی میں مولوی نعمت اللہ صاحب یہ تقریر فرماچکے تو کوثر نیازی صاحب نے کہا کہ کیا مفتی محمود صاحب کے بھی یہی نظریات ہیں۔تو نہ مفتی محمود صاحب نے اور نہ علماء میں سے کسی اور ممبر نے اس بات کی تردید کی کہ یہ ہمارے خیالات نہیں ہیں۔لَاحَوْلَ وَلَا قُوَّۃَ اِلَّا بِاللہ! یعنی ان علماء کو قرآن کریم اور احادیث میں غلاموں کو آزاد کرنے کی تاکید اور اس کے ثواب کا بیان نظر نہیں آیا ۔ اور ان کے نزدیک ملک میں اسلامی آئین کے نفاذ کا سب سے اہم پہلو یہی تھا کہ پاکستان میں غلام اور لونڈیاں بنانا شروع کردو اور وہ یہ سمجھتے تھے کہ اس طرح پاکستان دنیا بھر میں سرخرو ہو جائے گا۔

یہ مثال پیش کرنے سے غرض یہ ہے کہ یہ واضح ہو کہ جب مولوی صاحبان یہ کہتے ہیں کہ ہم قوانین بنائیں گے اور ہم پر یہ پابندی نہ ہو کہ بنیادی حقوق کے خلاف قوانین نہ بنائیں تواس کا منحوس انجام کیا ہوتا ہے۔اور یہ بھی ملاحظہ ہو کہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف جس قومی اسمبلی کے متفقہ فیصلے کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے ، اس کی ذہنی کیفیت کیا تھی؟ اور کسی کو یہ وہم نہ اُٹھے کہ اسمبلی میں ایک ممبر صاحب نے بہک کر ایسی بات کہہ دی ۔اس کے بعد ISISاور بوکو حرام نے اس کام کو عملاََ کر بھی دیا۔اگر اس شدّت پسند طبقے کو کھلی چھٹی دی جائے گی تو یہ خوفناک نتیجے نکلیں گے۔

جماعت ِ احمدیہ کے مخالف طبقہ کو آئین ِ پاکستان کے پہلے باب سے ایک خاص عداوت ہے کیونکہ اس میں پاکستان کے شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق بیان ہوئے ہیں۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا گیا کہ یحییٰ بختیار صاحب نے تو یہ خوفناک نظریہ پیش کر دیا تھا کہ پارلیمنٹ آئین میں درج بنیادی حقوق اور اس شق کو کہ ان میں کمی بھی نہیں کی جاسکتی ختم کرنے کا اختیار بھی رکھتی ہے۔اس کے علاوہ پاکستان کے آئین کے آرٹیکل 20کے مطابق[جو بنیادی حقوق کے باب کا حصہ ہے] قانون اور امن ِ عامہ اور اخلاق کے تابع ہر شخص کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے ، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق دیا گیا تھا۔لیکن مولوی صاحبان اس سے بھی خوش نہیں تھے۔کیونکہ اگر تبلیغ کی اجازت ہے تو پھر مذہب کی تبدیلی کی اجازت بھی دینی پڑے گی۔چنانچہ جب 1973ء میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں آئین کے مسودے پر بحث ہو رہی تھی تو مفتی محمود صاحب نے کہا: ’’بنیادی حقوق کی دفعات میں ایک مسلمان کو مرتد ہونے کا حق حاصل ہے۔اب بتائیں کہ سرکاری مذہب اسلام کیسے ہو گیا۔‘‘

[The National Assembly of Pakistan Constitution Making Debates, Vol II No. 13 March 5 1973, p 644]

جمیعت علمائے پاکستان کے قائد شاہ احمد نورانی صاحب نے کہا:

ـ’’اس دستور میں مسلمان کو اس بات کی اجازت ہے کہ وہ جس مذہب کو چاہے اختیار کرلے۔ جناب ِ صدر ایک ایسا دستور جس میں مسلمان کے عقیدے کی، مسلمان کے مذہب کی، مسلمان کے دین کی حفاظت کی ضمانت نہ دی گئی ہو۔ اور کسی بھی حیثیت سے، کہیں بھی ، کسی شخص کو بھی اس بات کی اجازت نہ دی جائے کہ مسلمان کے عقیدہ پر کسی قسم کی شرط لگا سکے۔ مسلمان کے مذہب کو تبدیل کراسکے۔جب تک اس قسم کی ضمانت اس میں موجود نہ ہو ۔ میں سمجھتا ہوں اس دستور کو مکمل طور پر اسلامی نہیں کہا جا سکتا۔‘‘

[The National Assembly of Pakistan, Constitution Making Debates, Vol.II No. 14 p.712]

ان مثالوں سے یہی نتیجہ نکالا جا سکتا ہے کہ جیسا کہ پاکستان کے آئین میں لکھا ہوا ہے کہ کسی پارلیمنٹ یا مملکت کے کسی اور ادارے کو اس بات کی اجازت نہیں دینی چاہیے کہ وہ بنیادی حقوق میں کمی کر سکے ورنہ اس سے فسادوں کا وہ دروازہ کھلے گا جس کو بند کرنا بہت مشکل ہو جائے گا۔

تبلیغ پر پابندی

اب ہم اس عدالتی فیصلہ کے اس حصہ کی طرف آتے ہیں جس میں جماعت ِ احمدیہ کے خلاف نافذ کئے جانے والے آرڈیننس کا ذکر ہے۔

اس قسط میں ہم قانون اور اسلامی تعلیمات کی رو سے اس آرڈیننس کی شقوں کا جائزہ لیں گے۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے زیر ِ نظر فیصلہ میں اس آرڈیننس کے بارے میں شریعت کورٹ کے فیصلہ کا ذکر کیا گیا ہے۔اس لئے شریعت کورٹ کے اس فیصلہ کا مختصر ذکر بھی کریں گے ۔

سب سے پہلے یہ جائزہ لیتے ہیں کہ جنرل ضیاء صاحب کے جاری کردہ آرڈیننس میں تبلیغ کے حوالے سے جماعت ِاحمدیہ پر کیا پابندی لگائی گئی تھی؟ تعزیراتِ پاکستان کا یہ حصہ 298Cہے۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:

Any person of the Qadiani group or the Lahori group (who call themselves

Ahmadis’ or by any other name,) who directly or indirectly, poses himself as a Muslim, or calls, or refers to, his faith as Islam, or preaches or propagates his faith, or invites others to accept his faith, by words, either spoken or written, or by visible representations, or in any manner whatsoever outrages the religious feelings of Muslims shall be punished with imprisonment of either description for a term which may extend to three years and shall also be liable to fine.

ترجمہ :کوئی بھی شخص جو قادیانی یا لاہوری گروپ سے تعلق رکھتا ہو (جو اپنے آپ کو احمدی یا کسی بھی اور نام سے موسوم کرتے ہوں) جو بلا واسطہ یا بالواسطہ اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرے، اپنے عقیدے کو اسلام کہے، اپنے عقیدہ کا پرچار و تبلیغ کرے، دوسروں کو اپنے عقیدہ میں شامل ہونے کی دعوت دے ایسے الفاظ سے جو چاہے قولی صورت میں ہوں یا تحریری صورت میں، یا کسی بھی ظاہری صورت میں ، یا کسی بھی ایسی صورت میں جن سے مسلمانوں کے مذہبی جذبات مجروح ہوتے ہوں۔مندرجہ بالا تمام شقوں میں سے کسی کی بھی خلاف ورزی کی صورت میں تین سال تک قید اور جرمانہ کی سزا کا مستوجب ہو گا۔

بظاہر یہ قانون کم اور احمدیوں کے خلاف اظہارِ بغض زیادہ لگتاہے۔ یہ پابندی صرف احمدیوں پر ہے اور جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین پر کوئی پابندی نہیں وہ جماعت ِ احمدیہ کے خلاف جتنا چاہیں پروپیگنڈہ کریں۔جبکہ آئین کا آرٹیکل 25یہ اعلان کرتا ہے کہ قانون کی نظر میں سب شہری برابر ہوں گے۔

اسلم خاکی صاحب کی رائےاور آئین میں تبلیغ کی آزادی

یہی وجہ تھی کہ ایک عدالتی مددگار ماہر ڈاکٹر اسلم خاکی صاحب نے عدالت میں اپنی رائے دیتے ہوئے کہا:

“prohibiting Qadianis from preaching their religion is a sort of ‘one sided operation’ which is not justified in Islam.)” page 34(

ترجمہ : قادیانیوں کو اپنے مذہب کی تبلیغ سے روکنا ایک یک طرفہ عمل ہے جو کہ اسلام کی رو سے جائز نہیں۔

اب آئین کی شق نمبر 20 کا جائزہ لیتے ہیں ۔ یہ شق بیان کرتی ہے’’قانون امن ِ عامہ اور اخلاق کے تابع

[الف] ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا‘‘

اس شق کی رو سے ہر شہری کو اپنے مذہب کی تبلیغ کرنے کا حق حاصل ہے۔شریعت کورٹ نے اپنے فیصلہ میں یہ نکتہ اُٹھانے کی کوشش کی ہے کہ یہ حق تو قانون کے تابع ہے۔ جب 1984ءمیںاحمدیوں کے بارے میں ایک قانون بنا دیا گیا تو پھر یہ حق برقرار نہیں رہتا۔ [فیصلہ شریعت کورٹ صفحہ183]لیکن یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ آئین کی رو سے یعنی آئین کے آرٹیکل 8 کی رو سے ان بنیادی حقوق میں کمی کرنے یا انہیں منسوخ کرنے کا کوئی قانون نہیں بن سکتا ۔ اور اگر ایسا قانون بنایا جائے تو اس حد تک کالعدم ہوگا جس حد تک وہ ان بنیادی حقوق سے ٹکرائے گا۔ تو اس رُو سے تو 1984ء میں جماعتِ احمدیہ کے خلاف جنرل ضیاء صاحب کے آرڈیننس کے تحت نافذ ہونے والا قانون خود بخود کالعدم ہوجاتا ہے اور اِس کو نافذ کرنا غیر آئینی ہے۔اگر یہ نکتہ اُٹھایا جائے کہ یہ مذہبی آزادی قانون کے تابع بیان کی گئی ہے اور اگر ایسا قانون بنا دیا جائے جس میں احمدیوں کی مذہبی آزادی سلب کرلی جائے تو آئین کی یہ شق اس کو روک نہیں سکتی تو پھریہ احمدیوں تک کیوں محدود رہے؟ پھر تو پاکستان میں کسی بھی گروہ کی مذہبی آزادی قانون بنا کر سلب کی جا سکتی ہے۔ پھر یہ اندھیر نگری صرف مذہبی آزادی تک کیوں محدود رہے؟ آئین کی تمہید میں انصاف اور برابری کے حق کو بھی قانون اور اخلاقِ عامہ کے تابع بیان کیا گیا ہے۔کل کو یہ کہا جائے گا کہ ہم نے قانون بنا دیا ہے کہ اب سے انصاف اور برابری غیر قانونی ہوگی۔ آئین کے آرٹیکل14 میں گھر کی خلوت کے حق کو بھی قانون کے تابع بیان کیا گیا ہے۔کوئی حکومت پھر یہ کہہ سکتی ہے کہ ہم قانون بنا رہے ہیں کہ کسی کو گھر کی خلوت کا حق حاصل نہیں ہے۔اور کسی کو حق حاصل نہیں کہ وہ ہمارے ا س حق پر اعتراض کرے۔آئین کی شق 22میں لکھا ہے کہ کسی شخص کو نسل ، ذات، مذہب یا مقام ِ پیدائش کی بنا پر ایسے تعلیمی ادارے میں داخلہ سے محروم نہیں کیا جائے گا جسے سرکاری محاصل سے مدد ملتی ہو۔اور آئین کی رو سے یہ حق بھی قانون کے تابع بیان کیا گیا ہے۔ اگر یہ دروازہ کھولاجائے تو پھر کوئی قانون ساز اسمبلی یہ اعلان کر سکتی ہے کہ ہم نے یہ قانون بنا دیا ہے کہ اب سے تعلیمی اداروں میں داخلہ بلا امتیاز نہیں ہو گا اور ہم یہ قانون بنا رہے ہیں کہ یہ طبقہ اب سے تعلیمی اداروں میں داخلہ سے محروم رکھا جائے گا۔اگر یہ سوچ لے کر قانون سازی کی جائے گی کہ ہمیں قانون بنانے کا اختیار ہے تو پاکستان میں کسی کے بھی حقوق محفوظ نہیں رہیں گے۔اور جارج اورول (George Orwell)کے اُ س ناول میں بیان کیا گیا نقشہ سامنے آ جاتا ہے ، ستم ظریفی دیکھیں جس کا نام ہی ’’1984ء‘‘ہے۔

اس ناول میں ایسے دور کا نقشہ پیش کیا گیا ہے جب دنیا میں سیاسی اشرافیہ نے اس طرح کی قانون سازی کر کے افراد کو اُن کے تمام بنیادی حقوق سے محروم کر دیا ہے۔ وہ گھر بھی جاتے ہیں تو کیمرہ ان کی نگرانی کر رہا ہوتا ہے، جب دل چاہتا ہے تاریخ اور ڈکشنری بدل دیتے ہیں۔ اور شادی بھی کرتے ہیں تو اس لئے کہ ان کی پارٹی کو مزید بچوں کی ضرورت ہے۔اگر کوئی گھر میں ڈائری بھی لکھتا ہے تو چھپ کر جیسے کوئی بڑا جرم کر رہا ہو۔

بنیادی حقوق کے باب پرمولوی صاحبان کی ناراضگی

یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ جب پاکستان کی قومی اسمبلی میں آئین کے آرٹیکل 8پر یعنی اُس آرٹیکل پر جس میں بنیادی انسانی حقوق کو تحفظ دیا گیا تھا کہ اِن کو سلب یا کم کرنے کے بارے میں کوئی قانون نہیں بن سکتا اور اگر بنایا گیا تو وہ ازخود کالعدم ہوگا، بحث شروع ہوئی تو مولوی صاحبان نے اس شق پر اظہار ِ ناراضگی کیا تھا اور اسے تبدیل کروانے کی کوشش کی تھی۔اور ظلم یہ ہے کہ اسلام کا نام لے کر یہ کوشش کی گئی تھی ۔ حالانکہ انہیں اسلام کی حکمتوں کی اطلاع ہوتی اور اسلام سے محبت ہوتی تو یہ کہتے کہ سب سے زیادہ بنیادی حقوق کو تحفظ اسلام نے عطا کیا ہے۔ اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کا تقاضا یہ ہے کہ اسلام کے نام پر ان حقوق کو مکمل تحفظ دیا جائے اور ایسا تحفظ دیا جائے کہ کسی اور ملک میں اس کی مثال نہ ملتی ہو۔لیکن افسوس کہ ان لوگوں نے بالکل برعکس رویہ دکھایا۔چنانچہ جب یہ آرٹیکل قومی اسمبلی میں بحث کے لئے پیش ہوا تو جماعت ِ احمدیہ کے اشد مخالف مولوی عبد الحکیم صاحب نے اس میں یہ ترمیم پیش کردی کہ بنیادی حقوق میں کمی کرنے یا اسے سلب کرنے کا کوئی قانون منظور نہیں سوائے اس کے کہ اس باب میں عطا کردہ کسی حق کا خلافِ قرآن اور سنت ہونا ثابت ہو جائے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ۔اس باب کو یعنی پاکستان کے آئین کے باب نمبر 1 کو پڑھ جائیں۔ اس میں تو بالکل بنیادی قسم کے انسانی حقوق بیان کئے گئے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ اسلام نے ، قرآن نے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے اس سے بہت زیادہ حقوق انسانیت کو عطا فرمائے ہیں۔ اور مولوی عبدالحکیم صاحب یہ راگ الاپ رہے ہیں کہ اگر بنیادی انسانی حقوق میں سے کوئی خلاف ِ اسلام یا خلاف ِ سنت ثابت ہو جائے تو وہ منسوخ ہو سکتا ہے۔ یہ صاحب تو خود اسلام پر اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم پر اعتراض کر رہے تھے۔اور یہ کہہ رہے تھے کہ اسلام نے انسانیت کو بنیادی حقوق بھی عطا نہیں کئے۔ اسی رَو میں بہک کر مولوی عبد الحق صاحب [اکوڑہ خٹک] نے بھی ایک ترمیم پیش کردی ۔ جیسا کہ پہلے ذکر کیا جا چکا ہے آئین کا یہ آرٹیکل (نمبر 8) ان الفاظ سے شروع ہوتا ہے کہ کوئی رسم یا رواج یا قانون جو ان بنیادی انسانی حقوق سے ٹکرائے گا وہ تناقض کی حد تک کالعدم ہوگا۔ ان صاحب نے یہ ترمیم پیش کر دی سوائے اس کے کہ’’ایسا قانون ، رسم و رواج جو قرآن و سنت کے مطابق ہو ۔‘‘دوسرے لفظوں میں یہ مولوی صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ قرآن و سنت بنیادی انسانی حقوق کو سلب کر سکتے ہیں۔ مولوی عبد الحق صاحب یہ تو غور فرماتے کہ اس باب میں درج کون سا حق خلاف ِ اسلام یا خلاف ِسنت ہے۔خدا کا شکر ہے کہ یہ عجیب الخلقت ترامیم بھاری اکثریت سے نا منظور ہو گئیں ۔اور ان کے حق میں صرف 16 ووٹ آئے۔

(The National Assembly of Pakistan, Constitution Making Debates, Vol II no 19 P 1096 )

شریعت کورٹ کے فیصلہ میں جماعت ِ احمدیہ کی تبلیغ پر پابندی کا جواز پیش کرنے کے لئے یہ تبصرہ کیا گیا کہ دوسری آئینی ترمیم کے بعد بھی احمدی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کر کے تبلیغ کرتے رہے جبکہ اُن کے لئے یہ مناسب نہیں تھا کہ وہ خود کو مسلمان ظاہر کر کے تبلیغ کرتے [فیصلہ شریعت کورٹ ص 150] یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ 1974ءکی کارروائی کے دوران جماعتِ احمدیہ پر یہ الزام لگایا گیا تھا کہ وہ خود کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھتے ہیں اور علیحدہ ظاہر کرتے ہیں۔بلکہ انہوں نے خود یہ مطالبہ پیش کیا تھا کہ ہمیں مسلمانوں سے علیحدہ اقلیت تسلیم کرو۔[کارروائی سپیشل کمیٹی 1974ءص 1920] اور یہ الزام بار بار لگایا گیا کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمانوں سے علیحدہ رکھتے ہیں ۔ اور دس سال بعد یہ الزام لگایا جا رہا تھا کہ احمدی اپنے آپ کو مسلمان ظاہر کرتے ہیں اور اس سے دھوکہ لگتا ہے۔ظاہر ہے کہ یہ دونوں متضاد باتیں ہیں ۔ اور اس سے معلوم ہو جاتا ہے کہ جماعت ِ احمدیہ کے مخالفین جب دل چاہتا ہے اپنی پسند کا بے بنیادالزام لگا دیتے ہیں۔ خواہ ان کا ایک الزام دوسرے الزام کی تردید ہی کیوں نہ کرتا ہو۔

آزادی سے قبل تبلیغ کی آزادی پرمسلم لیگ کا مؤقف

یہاںیہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ آزادی سے بھی کافی قبل جب 1930 ءکی دہائی میں ہندوستان کے مستقبل کے آئین کے بارے میں بحث چل رہی تھی اور اس سلسلہ میں لندن میں رائونڈ ٹیبل کانفرنسیں ہو رہی تھیں ۔تو اس وقت آل انڈیا مسلم لیگ نے اپنی قراردادوں کے ذریعہ مستقبل کے آئین کے بارے میں جو مطالبات پیش کئے تھے ان میں سے ایک یہ تھا:

“No constitution would be acceptable to Mussalman’s unless it secures and guarantees them: freedom of profession, practice and propagation of religion, education etc.”

(Foundations of Pakistan, edited by Syed Sharifuddin Pirzada, Vol 2 1924-1947 , Published by National Publishing House 1970, p 189(

ترجمہ : کوئی بھی آئین مسلمانوں کے لئے قابل ِ قبول نہیں ہوگا جب تک اس میں ان امور کی ضمانت نہ دی جائے:– پیشہ اختیار کرنے کی آزادی، مذہب پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کی آزادی اور تعلیم کاحق وغیرہ۔

حقیقت تو یہ ہے کہ سب کے لئے تبلیغ کی آزادی کا مطالبہ تو مسلم لیگ کا بنیادی مطالبہ تھا۔اور ان مطالبات میں قانون کے تابع (Subject to law)کا ذکر نہیں تھا۔

یہ بات اہم ہے کہ اسی سال یعنی مارچ 1931ء میں کراچی میں کانگرس نے بھی مستقبل کے آئین کے بارے میں اپنے مطالبات منظور کئے تھے۔ اور ان مطالبات کا آرٹیکل 1-ii مذہبی آزادی کے بارے میں تھا ۔ اور اس کے الفاظ یہ تھے ۔

“Every citizen shall enjoy freedom of conscience and the right freely to profess and practise his religion, subject to public order and morality”

ترجمہ :ہر شخص کو ضمیر کی آزادی اور قانون اور اخلاق ِ عامہ کے تابع اپنے مذہب کا اعلان کرنے اور اس پر عمل کرنے کے حق کی آزادی حاصل ہوگی۔

مسلم لیگ کی قرارداد کے برعکس اس قرارداد میں تبلیغ کا ذکر نہیں تھا۔اور اس حق کو قانون اور اخلاق ِ عامہ کے تابع رکھا گیا تھا۔اسی طرح جب ستمبر تا دسمبر 1931ء میں لنڈن میں ہندوستان کے مستقبل کے آئین کے بارے میں رائونڈ ٹیبل کانفرنس ہوئی تو اس میں گاندھی جی نے کانگرس کی طرف سے مذہبی آزادی کی ضمانت کا ذکر کیا تو اس میں مذہب کے Profession and practice کا ذکر تھا لیکن تبلیغ کرنے کی اجازت کا ذکر نہیں تھا ۔اور اس وقت ہندوستان کے عیسائیوں کی طرف سے جو میمورنڈم جمع کرایا گیا تھا اس میں گاندھی جی کے بعض بیانات پرجو عیسائی تبلیغی سرگرمیوں پر ممکنہ پابندیوں کے بارے میں تھے اظہار ِ تشویش کیا گیا تھا۔

(Indian Roundtable Conference Second Session, proceedings of Federal Structure Committee and Minorities Committee, Vol 3, published by Calcutta: Government of India Central Publication Branch 1939, p1348,1391, 1411)

اس بیان کا مقصد یہ ہے کہ آزادی سے قبل پاکستان کی بانی جماعت کا مؤقف مذہب کی آزادانہ تبلیغ کے حق کو محفوظ کرنے کے حق میں تھا۔اور مسلم لیگ کی طرف سے جو آزادی اور حقوق کا جو تصورپیش کیا جا رہا تھا اس میں ایک اہم پہلو ہر ایک کے لئے تبلیغ کی آزادی کا حق تھا۔

پاکستان بننے کے بعد مولوی صاحبان کے مطالبات

لیکن پاکستان بننے کے دو تین سال بعد ہی بہت سے مولوی صاحبان [جن کی اکثریت پاکستان بننے کی ہی مخالف تھی] کے ایسے فتاویٰ سامنے آنے لگے کہ چونکہ پاکستان ایک اسلامی ملک ہے اس لئے یہاں پر غیر مسلموں کو یا اُن کو جنہیں یہ مولوی صاحبان غیر مسلم سمجھتے ہیں تبلیغ کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے۔اس کے علاوہ ان کا نظریہ یہ تھا کہ ان پر خود کوئی پابندی نہیں ہونی چاہیے خواہ وہ دوسروں کو واجب القتل ہی کیوں نہ قرار دے دیں۔ چنانچہ جب1953ءکے فسادات پر قائم ہونے والی تحقیقاتی عدالت میں اس بارے میں سوالات کئے گئے تو اکثر مولوی صاحبان نے اس رائے کا اظہار کیا کہ پاکستان چونکہ ایک اسلامی مملکت ہے اس لئے یہاں پر غیر مسلموں کو کھلم کھلا تبلیغ کی بالکل اجازت نہیں ہونی چاہیے۔

[رپورٹ تحقیقاتی عدالت فسادات پنجاب 1953ء ص 238]

ان صاحبان کو اگر دنیا میں اشاعت ِ اسلام اور تبلیغ ِ اسلام کی فکر ہوتی یا کم از کم اس کی صلاحیت ہوتی تو وہ کبھی بھی تبلیغ کے حق کی مخالفت نہ کرتےبلکہ اس کی بھرپور حمایت کرتے ۔ اگران میں خود اعتمادی ہوتی تو انہیں کبھی بھی اس بات سے پریشانی نہ ہوتی کہ آئین میں سب کو تبلیغ کی آزادی حاصل ہے۔مگر افسوس کہ جب 1973ءمیں پاکستان کے تیسرے آئین پر بحث ہو رہی تھی تو اس موقع پر بھی مذہبی جماعتوں کے قائدین نے آئین میں تبلیغ کے حق کی مخالفت کی۔یہ حق آئین کے آرٹیکل 20 میں دیا گیا ہے جس کے الفاظ یہ ہیں:

’’قانون امن ِ عامہ اور اخلاق کے تابع

[الف] ہر شہری کو اپنے مذہب کی پیروی کرنے، اس پر عمل کرنے اور اس کی تبلیغ کرنے کا حق ہو گا‘‘

جب یہ شق پیش ہوئی تو مذہبی جماعتوں کے ممبران نے اس میں ترمیم کرانے کی کوشش کی ۔ مولوی عبد الحکیم صاحب نے اس شق میں یہ ترمیم پیش کی :

’’ بشرطیکہ اسلام کی تبلیغ میں کسی قسم کی رکاوٹ پیدا نہ ہو۔ اور یہ کہ مسلمان کو مرتد ہونے کی اجازت نہ ہو گی ۔‘‘

اور مولوی غلام غوث صاحب نے ان الفاظ کے اضافہ کی تجویز پیش کی :

’’ لیکن کسی مسلمان کو مرتد ہونے کی اجازت نہیں ہو گی۔‘‘

اس کا مطلب یہ کہ غیر مسلموں کو تبلیغ کرنے کی اجازت تو ہے لیکن کوئی مسلمان اپنا مذہب تبدیل نہیں کرسکتا۔ اس شرط کے ساتھ تو تبلیغ کا حق بے معنی ہوجاتا ہے۔ یہ بات قابل ِ ذکر ہے کہ اس موقع پر وفاقی وزیر خورشید حسن میر صاحب نے اس ترمیم کی مخالفت میں تقریر کی اور کہا کہ اس وقت کئی ممالک میں مثلاً افریقہ میں اسلام پھیل رہا ہے ۔ اگر ہم ایسا قانون بنائیں گے تو غیر مسلم ممالک بھی ایسے قوانین بنا دیں گے جس سے اسلام کی تبلیغ پر غلط اثر پڑے گا۔ لیکن اسلام کی تبلیغ کی کسی کو فکر نہیں تھی تو ان علماء صاحبان کو نہیں تھی ۔اس بحث میں وہ اس قسم کی فکروں سے مکمل طور پر بے نیاز نظر آتے ہیں۔

(The National Assembly of Pakistan, Constitution Making Debates, Vol II No. 20, P1096-1110)

مرتد کی تعریف اور اس میں پوشیدہ فتنہ

ایک گذشتہ قسط میں یہ ذکر گذر چکا ہے کہ مولوی صاحبان کے نزدیک مرتد کی سزا قتل ہے اور وہ اسے قانون کا حصہ بنانے کے لئے کوششیں بھی کرتے رہے ہیں۔ جب 1973ءکے آئین پر بحث ہو رہی تھی تو مذہبی جماعتوں کی طرف سےیہ تجویز پیش کی گئی تھی کہ پاکستان میں غیرمسلموں کو تبلیغ کا حق تو دے دو ۔سکھ یا ہندو عیسائی ہوسکتا ہے اور عیسائی سکھ یا ہندو ہو سکتا ہے لیکن آئین کی رو سے مسلمان کو مرتد ہونے کی اجازت نہیں ہونی چاہیے۔ اس پس منظر میں ایک اور بات کا ذکر بہت ضروری ہے اور وہ یہ کہ اس مرحلہ پر ان علماء نے مرتد کی تعریف کو بھی آئین کا حصہ بنانے کی کوشش کی۔چنانچہ مولوی غلام غوث صاحب نے مرتد کی اس تعریف کو آئین کا حصہ بنانے کی تجویز پیش کی کہ:

’’ کسی ایسے شخص کو مرتد کہا جائے گا اگر وہ اسلام قبول کرنے کے بعد قرآن ِ پاک کی کسی آیت رسول کی کسی مسلسل حدیث یا ان کی کسی مقبول عام توضیح کو قبول کرنے سے انکار کر دے۔‘‘

(The National Assembly of Pakistan, Constitution Making Debates, Vol II no 20, P1268)

مرتد کی اس تعریف سےیہ ظاہر ہے کہ اس کے بعد ان علماء نے یہ مسئلہ اُٹھانا تھا کہ یہ فیصلہ تو ہم علماء کریں گے کہ کسی آیت یا مسلسل حدیث کی مقبول ِ عام توضیح کیا ہے؟ یا یہ کہ یہ فیصلہ بھی ہم کریں گے کہ کون سی حدیث کو مسلسل حدیث قرار دیا جا سکتا ہے۔اور اس کو بنیاد بنا کر جس کو ان کا جی چاہے مرتد، غیر مسلم اور واجب القتل قرار دینا تھا۔اور اس طرح ان کے لئے اپنی من مانی کرنے کے راستے کھل جانے تھے ۔یہ ترامیم بھی بھاری اکثریت سے نا منظور قرار دے دی گئیں ۔ اور ان کی حمایت میں صرف دو ووٹ آئے۔اگر مرتد کی یہ تعریف منظور کرانے کی کوشش کی گئی تھی تو لازمی بات ہے کہ اگلا مرحلہ یہ ہونا تھا کہ جو کسی ایک آیت یا کسی ایک حدیث کے مطلب کے بارے میں بھی مولوی صاحبان سے اختلاف کرے گا وہ غیر مسلم اور گردن زدنی قرار دے دیا جائے گا۔

قرآنِ کریم کی راہنمائی

اب اس بات کا جائزہ لیتے ہیں کہ اس بارے میں اسلامی تعلیمات کیا ہیں؟کیا ایسے ملک میں جہاں مسلمانوں کی حکومت ہو ، دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے عقائد کی تبلیغ کی اجازت ہوتی ہے کہ نہیں ؟ بار بار اس بات کا اعلان کیا جاتا ہے کہ ملک کے آئین میں لکھا ہے کہ پاکستان میں قرآن و سنت کے خلاف کوئی قانون نہیں بن سکتا۔تو اس مسئلہ میں بھی یہ جائزہ لینا پڑے گا کہ اس بارے میں قرآن ِ کریم سے کیا راہنمائی ملتی ہے؟

اللہ تعالیٰ سورۃ البقرۃ میں فرماتا ہے:

وَقَالُوا لَنْ يَدْخُلَ الْجَنَّةَ إِلَّا مَنْ كَانَ هُودًا أَوْ نَصٰرٰى تِلْكَ أَمَانِيُّهُمْ قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ۔

[سورۃ البقرۃ :112]

ترجمہ : اور وہ کہتے ہیں ہر گز جنت میں کوئی داخل نہیں ہو گا سوائے ان کے جو یہودی یا عیسائی ہوں۔یہ محض ان کی خواہشات ہیں۔ تو کہہ اپنی کوئی مضبوط دلیل لائو اگر تم سچے ہو۔

یہ مدنی دور کی آیت ہے۔ اس سے یہ صاف ظاہر ہوتا ہے کہ یہودی اور عیسائی اپنے مذہب کے برحق ہونے کا اعلان کر رہے تھے اور قرآن ِ کریم نے انہیں اس سے روکا نہیں بلکہ انہیں دعوت دی ہے کہ اگر وہ اپنے دعوے میں سچے ہیں تو مضبوط دلیل پیش کریں ۔ اس سے ظاہر ہے کہ قرآن ِ کریم انہیں اپنے مذہب کی تبلیغ کی اجازت دے رہا ہے۔تفسیر جلالین میں لکھا ہے کہ یہود و نصاریٰ نے یہ جملے اس وقت آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی موجودگی میں کہے جب نجران کا وفد مدینہ میں آیا تھا۔

اللہ تعالیٰ فرماتا ہے

أَمِ اتَّخَذُوْا مِنْ دُونِهِ آلِهَةً قُلْ هَاتُوْا بُرْهَانَكُمْ…[سورۃ الانبیاء 25:]

ترجمہ: کیا انہوں نے اس کے سوا کوئی معبود بنا رکھے ہیں؟ تو کہہ دے اپنی قطعی دلیل لائو…

اس آیت سے ظاہر ہے کہ قرآن ِ کریم کی تعلیم یہ ہے کہ جب مشرکوں سے بھی مذہبی گفتگو ہو اور وہ اپنے مشرکانہ دعاوی پیش کریں تو ان سے ان کے دعوے کی دلیل طلب کرو۔ اگر مشرکین کو اپنے مذہب کے حق میں دلائل پیش کرنے کی یا تبلیغ کی اجازت ہی نہیں تھی تو ان سے دلیل طلب کرنے کا کیا مطلب ؟

پھر سورۃ النحل میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:

ادْعُ إِلٰى سَبِيْلِ رَبِّكَ بِالْحِكْمَةِ وَالْمَوْعِظَةِ الْحَسَنَةِ وَجَادِلْهُمْ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ …[سورۃ النحل 126:]

ترجمہ: اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور اچھی نصیحت کے ساتھ دعوت دے اور ان سے ایسی دلیل کے ساتھ بحث کر جو بہترین ہو…

تبلیغ کا مقصد اپنے مذہب کے حق میں دلائل دینا ہے ۔ اگر دوسرے مذاہب کے لوگوں کو اپنے عقائد کے حق میں دلیل دینے یا تبلیغ کا حق ہی نہیں تھا تو پھر بہترین دلیل کے ساتھ بحث کیسے ہو سکتی ہے؟

اس آیت ِ کریمہ میں ’جادلھم’‘ کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔ اور لفظ الجدال ‘ کا مطلب ہی یہ ہے’’ ایسی گفتگو جس میں طرفین ایک دوسرے پر غلبہ حاصل کرنے کی کوشش کریں‘‘۔ اگر فریق ِ مخالف کو تبلیغ کی یا دلیل دینے کی اجازت ہی نہیں تو پھر ایسی گفتگو ہو ہی نہیں سکتی۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے :

وَلَا تُجَادِلُوْا أَهْلَ الْكِتَابِ إِلاَّ بِالَّتِي هِيَ أَحْسَنُ…[سورۃ العنکبوت 47:]

ترجمہ : اور اہل ِ کتاب سے بحث نہ کرو مگراس(دلیل) سے جو بہترین ہو…

اگر اہلِ کتاب کو تبلیغ کی اجازت ہی نہیں تھی تو ان سے بحث کس طرح ہو سکتی تھی۔

یہ آیات ِ کریمہ ظاہر کرتی ہیں کہ قرآن کریم واضح طور پر مشرکین ، یہودیوں اور عیسائیوں کا یہ حق تسلیم کرتا ہے کہ وہ اپنے مذہب اور اپنے عقائد کے حق میں دلائل دیں اور اگر یہ تبلیغ نہیں تو پھر اور تبلیغ کس کو کہتے ہیں؟

…………………(باقی آئندہ)

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button