ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
مَیں ایک ایسا شخص ہوں کہ مجھے قادر و توانا اللہ کی جناب سے علم سکھایا گیا اور میرے ربّ نے ہر باریک نکتہ میرے لئے آسان کردیا۔ اور ہر سفرکی مشکلات سے مجھے بچایااورعافیت بخشی،میرے ساتھ خالص محبت کی اور مجھے میرے نفس کے گھر سے اپنے عظیم اور وسیع گھر کی طرف لے گیا۔
(گزشتہ سے پیوستہ)یہ رسالہ تمہید اور دو ابواب پر مشتمل ہے اور اس میں اہلِ نظراور متقی قوم کے لئے ہدایات ہیں۔ میری اللہ سے التجا ہے کہ وہ اس میں برکت رکھ دے اور از رہِ رحمت اسے تاثیر کے عطر سے ممسوح فرماوے۔ ہمیں اُسی قدر علم ہے جو اس نے ہمیں سکھایا اور وہی سب سے بہتر معلّم ہے۔
ـــــــــــــ٭ـــــــــــــ
تمہید
اے معززحضرات! اللہ تم پر رحم فرمائے۔ جان لو کہ مَیں ایک ایسا شخص ہوں کہ مجھے قادر و توانا اللہ کی جناب سے علم سکھایا گیا اور میرے ربّ نے ہر باریک نکتہ میرے لئے آسان کردیا۔ اور ہر سفرکی مشکلات سے مجھے بچایااورعافیت بخشی،میرے ساتھ خالص محبت کی اور مجھے میرے نفس کے گھر سے اپنے عظیم اور وسیع گھر کی طرف لے گیا۔ پھر جب مَیں صحراؤں اور سمندروں کو عبور کرنے کے بعد حقیقی قبلہ تک پہنچا اور اس کے چنیدہ گھر کے طواف کا مجھے شرف حاصل ہوا۔ اور میرے ربّ کی مہربانی نے میری استعدادوں کو جلا بخشنے کی تجدید کے ساتھ اَور اسرار تک رسائی کے لئے مجھے مخصوص کرلیا اور میرا ربّ میرا حبیب اور میرا محب بن گیا۔ اور میں نے اپنا پورا وجود اس کے سپرد کر دیا۔ اور میں نے اس کی جناب سے دقائق و اسرار کا ہرعلم حاصل کر لیا اور تمام نظریات و افکار میں مَیں اس کی جناب سے رنگین کیا گیا۔ تو میں نے قوم و ملّت کے فرقوں کے درمیان ہر اختلافی امر کی جانب اپنی توجہ کی باگ موڑ دی اور ہر معاملہ کے سبب اور اُس کی علّت کی چھان بین کی اور بحث و تدقیق کاکوئی مقام نہ چھوڑا۔ مگر تحقیق کی رو سے اس امر کی اصلیت کو مَیں نے ظاہر کر دیااور مجھے یہ معلوم ہو گیا کہ لوگوں نے اپنے قضیوں کے فیصلہ میں جو غلطیاں کیں اور جن غلطیوں کا ارتکاب کیا اُس کی صرف اور صرف یہ وجہ تھی کہ وہ غفلت کے باعث ایک طرف سے ہٹ کر دوسری جانب مائل ہو گئے اور بغیرعلم کے صرف ایک پہلو کو بڑا (اہم) بنا لیا اور اس کے مخالف پہلوکوچھوٹا اور حقیر سمجھا۔ اور یہ نفس کی عادت ہے کہ جب وہ کسی مطلوبہ شَے کی محبت میں ڈوبا ہوا ہو تو وہ ان اشیاء کو جو اس کے مخالف ہوں بھول جایاکرتا ہے اور ہمدردی کرنے والوں کی نصیحت کو نہیں سنتا بلکہ بسا اوقات اُن سے دشمنی کرنے لگتا ہے۔ اور انہیں دشمنوں کی طرح سمجھتا ہے۔ نہ وہ ان کی مجالس میں حاضر ہوتا اور نہ ہی دل پردبیزپردے کی بناپر وہ ان کی باتوں کوغور سے سنتا ہے۔ اور ان خرابیوں کے کئی اسباب و علل، طریقے اور راستے ہیں۔ اور اُن کاسب سے بڑا سبب قساوتِ قلبی، گناہوں کی جانب میلان، روز آخرت کے محاسبہ کی طرف کم توجہی اور معاندین میںسے فریب کاروں اور جھوٹوں کے ساتھ میل جول ہے۔اور جب وہ اپنی جہالت میں راسخ ہو جاتے ہیں تو بہت سی لغزشیں اُن کی عادات میں داخل ہو جاتی ہیں۔ اوہ وہ نفوس کے لئے دلی مرادوں کی مانند ہو جاتی ہیں۔ پس ہم ایسی لغزشوں سے جو عادات بن جائیںاور ہلاک ہونے والوں سے ملادیں اللہ کی پناہ مانگتے ہیں۔بسااوقات یہ عادتیں مباحثات کی وجہ سے راسخ تعصبات کو جنم دیتی ہیں اور نفسانی مباحثات حق اور ہدایت کے طالب کے لئے سَمِّ قاتل ہیں۔ اور اس گڑھے میں گرنے والاشخص کم ہی بچتا ہے۔ بعض اوقات فساد پیداکرنے والے اسباب اورگمراہ کرنے والے موجبات پوشیدہ اورآنکھوں سے مخفی ہوتے ہیں کہ وہ شخص بھی جس میں یہ باتیں موجود ہوں انہیں دیکھ نہیں پاتا اوراپنے آپ کو ان لوگوں میں سے سمجھتا ہے جوصائب الرائے اور منصف ہیں، تو اس وقت وہ اختلافات کی طرف لپکتا اور ایسے جھگڑوں میں شدت اختیار کرتا ہے اورکبھی وہ ادنیٰ خیال اور کمزور رائے کوایسی پختہ دلیل کی طرح سمجھنے لگتا ہے کہ جسے توڑا نہیں جاسکتا پس وہ خوشیاں منانے والوں کی طرح جھومنے لگتا ہے۔اوریہ سب کچھ قلّتِ تدبّر،عدمِ فراست،سچےعلوم سے محرومی اور رسومِ باطلہ کی تصویریں (ذہن پر)نقش ہونے اورنفسانی خواہشات پر کلیۃً جھک جانے،روحانی ذوق سے محرومی، بلند نگاہی سے ماندگی، زمین (مادیات) کی طرف جھکائو اوراس پراندھوں کی طرح گر پڑنے کی وجہ سے ہے۔
(سِرُّالخلافۃمع اردو ترجمہ صفحہ 10تا13۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)