خلافت خامسہ کے مبارک دَورکے ابتدائی پندرہ سال(قسط نمبر7)

جماعت احمدیہ مُسلمہ عالمگیر کی خدمت دین وخدمت انسانیت کے مختلف میدانوں میں
عظیم الشان اورروزافزوں ترقیات اورالٰہی نصرت وتائید کے روشن نشانات سے معمور

(چندجھلکیاں اعدادوشمار کے آئینہ میں )

حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ  بنصرہ العزیز کی بابرکت تحریکات (گزشتہ سے پیوستہ)

بچوں کو نماز پڑ ھنے اور سلام کہنے کی عادت کی تحریک

حضور انور نے7جون2003ء کو لندن میں چلڈرن کلاس سے خطاب کرتے ہوئے ربوہ کے بچوں کے نام خصوصی پیغام میں فرمایا:

’’ربوہ کے بچوں کے لئے یہی میرا پیغام ہے کہ ربوہ کے ماحول کو ایسا بنا دیں کہ ہر طرف سے سلام سلام کی آوازیں آرہی ہوں … بچوں کو چاہئے کہ اپنے بڑوں کو بھی توجہ دلائیں اور خود بھی خاص توجہ کریں اورمساجد میں زیادہ سے زیادہ جائیں اورمساجد کو آباد کریں تاکہ احمدیت کی فتح کے نظارے جو دعاؤں کے طفیل ہمیں ملنے ہیں،وہ ہم جلدی دیکھیں‘‘۔(الفضل 12 جون 2003ء)

اسی طرح خطبہ جمعہ3ستمبر2004ء میں فرمایا:

’’پاکستان میں تو ہمارے سلام کہنے پر پابندی ہے ،بہت بڑا جرم ہے۔ بہرحال ایک احمدی کے دل سے نکلی ہوئی سلامتی کی دعائیں اگر یہ لوگ نہیں لینا چاہتے تو نہ لیں اور تبھی تو یہ ان کا حال ہو رہا ہے۔ لیکن جہاں احمدی اکٹھے ہوں وہاںتو سلام کو رواج دیں۔ خاص طور پر ربوہ، قادیان میں۔ اور بعض اور شہروں میں بھی اکٹھی احمدی آبادیاں ہیںایک دوسرے کو سلام کرنے کا رواج دینا چاہئے۔ میں نے پہلے بھی ایک دفعہ ربوہ کے بچوںکو کہا تھا کہ اگر بچے یاد سے اس کو رواج دیں گے تو بڑوں کو بھی عادت پڑ جائے گی۔ پھر اسی طرح واقفین نو بچے ہیں۔ ہمارے جامعہ نئے کھل رہے ہیں ان کے طلباء ہیں اگر یہ سب اس کو رواج دینا شروع کریں اور ان کی یہ ایک انفرادیت بن جائے کہ یہ سلام کہنے والے ہیں تو ہر طرف سلام کا رواج بڑی آسانی سے پیدا ہو سکتا ہے اور ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ بعض اور دوسرے شہروںمیں کسی دوسرے کو سلام کرکے پاکستان میںقانون ہے کہ مجرم نہ بن جائیں۔ احمدی کا تو چہرے سے ہی پتہ چل جاتا ہے کہ یہ احمدی ہے۔ اس لئے فکر کی یا ڈرنے کی کوئی بات نہیں ہے۔ اور مولوی ہمارے اندر ویسے ہی پہچانا جاتا ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 17؍ ستمبر 2004)

طاہر فاؤنڈیشن،نور فاؤنڈیشن

٭ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیزنے 2005ء میںحضرت خلیفۃ المسیح الاول کے نام پر نور فاؤنڈیشن قائم فرمائی جس کا مقصد اہم کتبِ حدیث کے اردو تراجم تیار کرنا اور پھر انہیں شائع کرنا ہے۔

٭حضور انور نے جلسہ سالانہ یوکے2003ء کے موقع پر دوسرے دن کے خطاب میں طاہر فاؤنڈیشن کے قیام کا اعلان کرتے ہوئے فرمایا:

’’مختلف لوگوں نے توجہ دلائی ہے خود بھی خیال آیا کہ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کی جاری فرمودہ تحریکات ہیں اور غلبہ اسلام کے لئے آپ کے مختلف منصوبے تھے۔ آپ کے خطبات ہیں، تقاریر ہیں، مجالس عرفان ہیں۔ ان کی تدوین اور اشاعت کا کام ہے۔ تو یہ کافی وسیع کام ہے جس کے لئے الگ ادارہ کے قیام کی ضرورت ہے۔ تو کافی سوچ کے بعد فیصلہ کیا ہے کہ ایک ادارہ ’’طاہرفائونڈیشن‘‘ کے نام سے قائم کیا جائے اور اس کے لئے انشاء اللہ ایک مجلس ہوگی، بورڈ آف ڈائریکٹر ہوگا، جو کہ بیس ممبران پر مشتمل ہوگا اور اس کی ایک سب کمیٹی لندن میں بھی ہوگی۔ کیونکہ دنیا میں مختلف جگہوں میں پھیلے ہوئے، مختلف زبانوں کے کام ہیں اور جہاں تک فنڈز کا تعلق ہے مجھے امید ہے کہ انشاء اللہ تعالیٰ تینوں مرکزی انجمنیں مل کر یہ فنڈز مہیا کریں گی لیکن کچھ لوگوں کی بھی خواہش ہوگی تو اس میں کوئی پابندی نہیں ہے جو کوئی اپنی خوشی سے، اپنی مرضی سے اس تحریک میں حصہ لینا چاہیں، ان منصوبوں کو عملی جامہ پہنانے کے لئے، ان کو اجازت ہوگی، دے سکتے ہیں اس میں چندہ۔ تو دعا کریں جو کمیٹی بنے گی اس کو اللہ تعالیٰ کام کرنے کی توفیق بھی دے اور ہر لحاظ سے وہ کام جو حضور رحمہ اللہ تعالیٰ کی تحریکات کے ہیں جو دنیا کے سامنے پیش کرنے کی ضرورت ہے ان کو مکمل کرنے کی توفیق ملے۔ ‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 19 ستمبر2003ء)

بد رسوم اور لغویات ترک کرنے کی تحریک

حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بعثت کے عظیم مقاصد میں سے ایک مقصدامّتِ مسلمہ سے ایسے بوجھ اتارنا تھا جو کہ ان کے گلے کا طوق بن چکے تھے۔ بد رسومات اور لغویات بھی انہی کے زمرہ میں آتے ہیں۔

٭حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ نے خطبہ جمعہ10اکتوبر2003ءمیں اس ضمن میں فرمایا: ’’عورتوں کو ان باتوں کا خیال رکھنا چاہئے ۔ صرف اپنے علاقہ کی یا ملک کی رسموں کے پیچھے نہ چل پڑیں۔بلکہ جہاں بھی ایسی رسمیں دیکھیں جن سے ہلکا سا بھی شائبہ شرک کا ہوتاہو ان سے بچنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ اللہ کرے تمام احمدی خواتین اسی جذبہ کے ساتھ اپنی اوراپنی نسلوں کی تربیت کرنے والی ہوں۔ ہمارے ملکوں میں،پاکستا ن اور ہندوستان وغیرہ میں مسلمانوں میں بھی یہ رواج ہے کہ لڑکیوں کو پوری جائداد نہیں دیتے ۔ پوری کیا،دیتے ہی نہیں۔ خاص طورپر دیہاتی لوگوں میں ،زمینداروں میں ۔ اس کاایک نمونہ ہے ،چوہدری نصراللہ خان صاحب کا ۔ چوہدری صاحب لکھتے ہیں کہ ہماری ہمشیر ہ صاحبہ مرحومہ کو اس زمانہ کے رواج کے مطابق والد صاحب نے ان کی شادی کے موقع پر بہت سارا جہیز دیا اور پھر آپ نے یہ وصیت بھی کردی کہ آپ کا ورثہ شریعت محمدی کے مطابق تقسیم بھی ہوگا، لڑکوں میں بھی اور لڑکیوں میں بھی۔چنانچہ اس کے مطابق ان کی وفات کے بعد ان کی بیٹی کو بھی شریعت کے مطابق حصہ دیا گیا‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل5دسمبر2003ء ص6)

٭…ؕجادو۔ ٹونے ٹوٹکے سے بچنے کی تحریک

ایک اور برائی جس سے بچنے کے بارہ میں حضورِ انور نے احمدیوں کو تحریک فرمائی وہ جادو، ٹونے اور ٹوٹکے تھے۔ حضورِ انور نے فرمایا

’’حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ:’’پیر بنیں۔ پیر پرست نہ بنیں‘‘۔ یہاں یہ بھی بتا دوں کہ بعض رپورٹیں ایسی آتی ہیں، اطلاعیں ملتی رہتی ہیں، پاکستان میں بھی اور دوسری جگہوں میں بھی، بعض جگہ ربوہ میں بھی کہ بعض احمدیوں نے اپنے دعاگو بزرگ بنائے ہوئے ہیں اور وہ بزرگ بھی میرے نزدیک نام نہاد ہیں جو پیسے لے کر یا ویسے تعویذ وغیرہ دیتے ہیں یا دعا کرتے ہیں کہ 20دن کی دوائی لے جائو، 20دن کا پانی لے جائو یا تعویذ لے جائو۔ یہ سب فضولیات اور لغویات ہیں۔ میرے نزدیک تو وہ احمدی نہیں ہیں جو اس طرح تعویذ وغیرہ کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں سے دعا کروانے والا بھی یہ سمجھتا ہے کہ میں جو مرضی کرتا رہوں، لوگوں کے حق مارتا رہوں، مَیں نے اپنے بزرگ سے دعا کروالی ہے اس لئے بخشا گیا، یا میرے کام ہو جائیں گے۔ اللہ تعالیٰ تو کہتا ہے کہ مومن کہلانا ہے تو میری عبادت کرو، اور تم کہتے ہو کہ پیر صاحب کی دعائیں ہمارے لئے کافی ہیں۔ یہ سب شیطانی خیالات ہیںان سے بچیں۔ عورتوں میں خاص طور پر یہ بیماری زیادہ ہوتی ہے، جہاں جہاں بھی ہیں ہمارے ایشین (Asian) ملکوں میں اس طرح کا زیادہ ہوتا ہے یا جہاں جہاں بھی Asians اکٹھے ہوئے ہوتے ہیں وہاںبھی بعض دفعہ ہو جاتا ہے۔ اس لئے ذیلی تنظیمیں اس بات کا جائزہ لیں اور ایسے جو بدعات پھیلانے والے ہیں اس کا سدّباب کرنے کی کوشش کریں۔ اگر چند ایک بھی ایسی سوچ والے لوگ ہیں تو پھر اپنے ماحول پر اثر ڈالتے رہیں گے، نہ صرف ذیلی تنظیمیں بلکہ جماعتی نظام بھی جائزہ لے اور جیسا کہ مَیں نے کہا کہ چند ایک بھی اگر لوگ ہوں گے تو اپنے اثر ڈالتے رہیں گے اور شیطان تو حملے کی تاک میں رہتا ہے۔ اللہ تعالیٰ کی بات ماننے والے بننے کی بجائے اس طرح بعض شرک میں پڑنے والے ہو جائیں گے۔

اللہ تعالیٰ سب کو اس سے محفوظ رکھے۔ لیکن مَیں پھر کہتا ہوں کہ یہ بیماری چاہے چند ایک میں ہی ہو، جماعت کے اندر برداشت نہیں کی جاسکتی۔ اللہ تعالیٰ تو یہ دعا سکھاتا ہے کہ اپنے اپنے دائرے میں ہر ایک یہ دعا کرے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا۔ خلیفۂ وقت بھی یہ دعا کرتا ہے کہ مجھے متقیوں کا امام بنا اور یہ پیر پرست طبقہ کہتا ہے کہ ہم جو مرضی عمل کریں ہمارے پیر صاحب کی دعائوں سے ہم بخشے جائیں گے۔ اِنَّالِلّٰہِ۔ یہ تو نعوذ باللہ عیسائیوں کے کفارہ والا معاملہ ہی آہستہ آہستہ بن جائے گا۔ وہی نظریہ پیدا ہوتا جائے گا۔ پس اس طرف چاہے یہ چھوٹے ماحول میں ہی ہو، بہت توجہ کی ضرورت ہے۔ ابھی سے اس کو دبانا ہوگا۔ اور ہر احمدی یہ عہد کرے کہ اس رمضان میں اپنے اندر انشاء اللہ تعالیٰ انقلابی تبدیلیاں پیدا کرنی ہیں۔ ہر احمدی یہ کوشش کرے اور ہر احمدی خود ان دعائوں اور اللہ تعالیٰ کے قرب کے مزے چکھے بجائے اس کہ دوسروں کے پیچھے جائے۔‘‘

(روزنامہ الفضل30دسمبر2004ء ص4)

٭…ؕشادی بیاہ کے موقع پر لغو رسومات سے بچنے کی تحریک

٭حضور انور نے خطبہ جمعہ25نومبر2005ء میں شادی بیاہ پر لغو تقریبات کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:’’جو شکایات آتی ہیں ایسے گھروںکی ان کو مَیں تنبیہ کرتا ہوں کہ ان لغویات اور فضولیات سے بچیں ۔پھر ڈانس ہے ،ناچ ہے، لڑکی کی جو رونقیںلگتی ہیںاس میںیا شادی کے بعد جب لڑکی بیاہ کر لڑکے کے گھر جاتی ہے وہاں بعض دفعہ اس قسم کے بیہودہ قسم کے میوزک یا گانوں کے اوپر ناچ ہو رہے ہوتے ہیں اور شامل ہونے والے عزیز رشتہ دار اس میں شامل ہو جاتے ہیں تو اس کی کسی صورت میںبھی اجازت نہیںدی جا سکتی۔ بعض گھر جو دنیا داری میں بہت زیادہ آگے بڑھ گئے ہیںان کی ایسی رپورٹس آتی ہیںاور کہنے والے پھر کہتے ہیں کہ کیونکہ فلاں امیر آدمی تھا اس لئے اس پر کارروائی نہیںہوئی ۔یا فلاں عہدیدار کا رشتہ دار عزیز تھا اس لئے اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوئی، اس سے صرف نظر کیا گیا۔ غریب آدمی اگر یہ حرکتیں کرے تو اسے سزاملتی ہے۔ بہرحال یہ تو بعض دفعہ لوگوں کی بدظنیاں بھی ہیں لیکن جب اس طرح صرفِ نظر ہو جائے چاہے غلطی سے ہو جائے اور پتہ نہ لگے تو یہ بدظنیاںپیدا ہوتی ہیں۔ اس بارے میںواضح کر دوں کہ ایسی حرکتیں جو جماعتی وقار کی اور اسلامی تعلیم اور اقدار کی دھجیاں اڑاتی ہوں اگر مجھے پتہ لگ جائے تو ان پر مَیںبلا استثنا، بغیر کسی لحاظ سے کارروائی کروں گا اور کی بھی جاتی ہیں…جماعتی نظام اور ذیلی تنظیموں کا نظام جو ہے یہ بھی ان بیاہ شادیوں پہ نظر رکھے اور جہاں کہیںبھی اس قسم کی بیہودہ فلموں کے ناچ گانے یا ایسے گانے جو سراسر شرک پھیلانے والے ہوں دیکھیںتو ان کی رپورٹ ہونی چاہئے۔ اس بارے میں قطعاً کوئی ڈرنے کی ضرورت نہیں کہ کوئی کس خاندان کا ہے اور کیا ہے۔

(الفضل انٹرنیشنل16دسمبر2005ءص5)

٭…سگریٹ نوشی سے بچنے کی تحریک

٭حضور انور نے خطبہ جمعہ10اکتوبر2003ءمیں سگریٹ نوشی ترک کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’آج کل یہی برائی ہے حُقّہ والی جو سگریٹ کی صورت میں رائج ہے۔ تو یہ سگریٹ پینے والے ہیں ان کو کوشش کرنی چاہئے کہ سگریٹ چھوڑیں۔ کیونکہ چھوٹی عمر میں خاص طور پر سگریٹ کی بیماری جو ہے وہ آگے سگریٹ کی کئی قسمیں نکل آئی ہوئی ہیں جن میں نشہ آور چیزیں ملا کر پیا جاتا ہے۔ تو وہ نوجوانوں کی زندگی برباد کرنے کی طرف ایک قدم ہے جو دجّال کا پھیلایا ہوا ہے اور بدقسمتی سے مسلمان ممالک بھی اس میں شامل ہیں۔ بہرحال ہمارے نوجوانوں کو چاہئے کہ کوشش کریں کہ سگریٹ نوشی کو ترک کریں‘‘(الفضل انٹرنیشنل 5دسمبر2003ء)

قیام نماز کی تحریک

حضور انور آغاز خلافت سے ہی جماعت کو نماز کی طرف مسلسل توجہ دلا رہے ہیں ۔حضور انور نے خطبہ جمعہ 28نومبر2003ء میں فرمایا:

’’جہاں جہاں احمدی آبادیاں ہیں، اپنی مساجد کو آباد رکھنے کی کوشش کریں‘‘۔

)الفضل انٹرنیشنل23جنوری2004ء(

حضور انور نے خطبہ جمعہ 13 اپریل 2007ء میں فرمایا:

’’عمومی طور پر پاکستان میں بھی اور دنیا کی ہر جماعت میں جہاں جہاں بھی احمدی آباد ہیں، نمازوں کے قیام کی خاص طور پر کوشش کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ افراد جماعت اور خلیفۂ وقت کا دو طرفہ تعلق اُس وقت زیادہ مضبوط ہو گا جب عبادتوں کی طرف توجہ رہے گی۔ اللہ تعالیٰ ہر ایک کو پاک نمونے پیدا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘

( الفضل انٹرنیشنل 4مئی 2007ءص7)

15؍اپریل2016ء کو حضور انور نے مکمل خطبہ جمعہ میں نماز پڑھنے اور معیار بلند کرنے کی تلقین کرتے ہوئے فرمایا کہ دنیا کے ہر ملک میں اس کے لئے کوشش کرنی چاہیے کہ مسجدوں کو آباد کریں۔

(الفضل انٹر نیشنل 6 مئی2016 ء)

حضور انور نے خطبہ جمعہ 24فروری2012ء میں فرمایا:

’’ہمارا تو اب یہ اور صرف یہی کام ہے اور یہ مقصد ہونا چاہئے کہ جہاں خالص ہو کر ایک خدا کی عبادت کے لئے مسجدوں میں آئیں تا کہ ہماری عبادتوں کے معیار بڑھیں اور اللہ تعالیٰ سے ایک زندہ تعلق قائم ہو، وہاں اس سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلانے کا بھی باعث بنیں۔ پس جب سچائی کے نور کو دنیا میں پھیلانا ہے تو ہمیں صرف ظاہری عبادت کا دعویٰ کافی نہیں ہو گا بلکہ اس نور سے اپنے آپ کو منوربھی کرنا ہو گا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل16مارچ2012ء ص6)

دو نوافل اور نفلی روزہ کی تحریک

دنیا بھر میں بڑھتی ہوئی مخالفت کے پیش نظر حضور انور نے خطبہ جمعہ 3دسمبر 2010ء کو روزانہ 2 نوافل ادا کرنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’پس ان حالات میں دنیا بھر کی جماعتوں کے تمام افراد کو میں خاص طور پر اپنے مظلوم اور تکلیف اور مشکلات میں گرفتار بھائیوں کے لئے دعاؤں کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ہر احمدی کم از کم دو نفل روزانہ صرف ان لوگوں کے لئے ادا کرے جو احمدیت کی وجہ سے کسی بھی قسم کی تکلیف میں مبتلا ہیں۔ جو ظالمانہ قوانین کی وجہ سے اپنی شہری اور مذہبی آزادیوں سے محروم کر دئیے گئے ہیں۔ اسی طرح جماعتی ترقی کے لئے بھی خاص طور پر دعائیں کریں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 24 دسمبر2010ء ص6)

حضور انور نے7؍اکتوبر 2011ء کو ہفتہ وار ایک روزہ رکھنے کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’پاکستان میں رہنے والے احمدیوں کو مَیں خاص طور پر توجہ دلانا چاہتا ہوں کہ دعاؤں کی طرف،صرف عام دعائیں نہیں بلکہ خاص دعاؤں کی طرف پہلے سے بڑھ کر توجہ دیں بلکہ ان دعاؤں کے ساتھ ہفتے میں ایک نفلی روزہ بھی رکھنا شروع کر دیں۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 28اکتوبر2011ء ص6)

حضور انور نے 12 فروری 2016ء کے خطبہ جمعہ میں ہفتہ وار 40 نفلی روزوں کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’چند سال ہوئے میں نے کہا تھا کہ جماعت کو روزے رکھنے چاہئیں اور جماعت میں ابھی تک بعض ایسے ہیں جو اس پر قائم ہیں اور روزہ رکھتے ہیں۔کم از کم اب ہمیں چاہیے کہ چالیس روزے ہفتہ وار ہی رکھیں۔یعنی چالیس ہفتوں تک خاص طور پر روزے رکھیں،دعائیں کریں،نفل ادا کریں اور صدقات دیں‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل 4مارچ2016ء ص9)

تعمیر مساجد کی تحریک

حضور انور نے خطبہ جمعہ11نومبر2005ءمیں مساجد کی تعمیر کے لئے چندہ دینے کی عمومی تحریک کرتےہوئے فرمایا:

’’اس زمانے میںجس میںمادیت کا دور دورہ ہے احمدی ہی ہے جو اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہوئے اس کے گھر بھی تعمیر کرتا ہے۔ اور اس کی عبادت سے اپنے آپ کو سجانے کی کوشش بھی کرتا ہے۔ اپنی نسلوں میںبھی ان کی اعلیٰ تربیت کے ذریعہ یہ روح پھونکنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس ضمن میں مجھے یاد آیا کہ ہمارے بچپن میں تحریک جدید میں ایک مَدّ مساجد بیرون کی بھی ہوا کرتی تھی۔ہر سال جب بچے پاس ہوتے تھے تو عموماً اس خوشی کے موقع پر بچوں کو بڑوں کی طرف سے کوئی رقم ملتی تھی۔ وہ اس میں سے اس مدّ میں ضرور چندہ دیتے تھے یا اپنے جیب خرچ سے دیتے تھے۔ یہ مدّ اب بھی شاید ہو۔ حالات کی وجہ سے پاکستان میں تو مَیںاس پر زور نہیں دیتا لیکن باہر پتہ نہیںہے کہ نہیں اور اسے اب بیرون کہنے کی توضرورت بھی نہیں۔ عموماً مساجد کی ایک مد ہونی چاہئے اس میں جب بچے پاس ہو جائیں تو اس وقت یا کسی اور خوشی کے موقع پر اللہ تعالیٰ کے گھر کی تعمیر میں چندہ دیا کریں اور اب تو اللہ تعالیٰ کے فضل سے دنیا کے کونے کونے میں بے شمار احمدی بچے امتحانوںمیں پاس ہوتے ہیں۔ اگر ہر سال ذیلی تنظمیں اس طرف توجہ دیں ،ان کو کہیںاور جماعتی نظام بھی کہے کہ اس موقع پر وہ اس مَدّ میں اپنے پاس ہونے کی خوشی میں چندہ دیا کریںتو جہاں وہ اللہ تعالیٰ کا گھر بنانے کی خاطر مالی قربانی کی عادت ڈال رہے ہوں گے وہاں اس وجہ سے اللہ تعالیٰ کا فضل سمیٹتے ہوئے اپنا مستقبل بھی سنوار رہے ہوں گے۔ والدین بھی اس بارے میںاپنے بچوں کی تربیت کریں اور انہیںترغیب دلائیں تو اللہ تعالیٰ ان والدین کو بھی خاص طور پر اس ماحول میںبہت سی فکروں سے آزاد فرما دے گا۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 2دسمبر2005ء ص7)

مسجد ہارٹلے پول اوربریڈ فورڈ کی تعمیر کے لئے مالی تحریک

حضور انور نے خطبہ جمعہ فرمودہ 15؍ اکتوبر 2004ء میں فرمایا:

’’اب میں یوکے کی جماعت کے لئے چند باتیں مختصراً کہنا چاہتا ہوں گزشتہ دنوں میں مَیں نے چند شہروں کا دورہ کیا تھا جس میں برمنگھم کی مسجد کا افتتاح بھی ہوا۔ بریڈ فورڈ کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا گیا، یہ پلاٹ اُنہوں نے بڑی اچھی جگہ لیا ہے پہاڑی کی چوٹی پہ ہے، نیچے سارا شہر نظر آتا ہے۔ پلاٹ اتنا بڑا نہیں ہے لیکن اُمید ہے تعمیر کے بعد اس میں کافی نمازیوں کی گنجائش ہو جائے گی۔ Coveredایریا یہ زیادہ کر لیں گے۔ پھر ہارٹلے پول کی مسجد کا سنگ بنیاد رکھا، یہ بھی اچھی خوبصورت جگہ ہے لیکن یہاں جماعت چھوٹی ہے اور اب کچھ تعداد میں اضافہ ہوا ہے۔

مجھے امیر صاحب نے سفر میں بتایا کہ کسی وقت میں انصار اللہ یو کے نے (یادداشت سے ہی بتایا تھا کوئی معین نہیں تھا۔ اب پتہ نہیں ابھی تک معین کیا ہے کہ نہیں) حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ سے یہ وعدہ کیا تھا کہ ہارٹلے پول میں ہم انصار اللہ مسجد بنائیں گے۔ اگر کیا تھا تو ٹھیک ہے اس کو پورا کریں اور اگر نہیں بھی کیا تو اب میں یہ کام انصار اللہ یو کے کے سپرد کر رہا ہوں کہ اُنہوں نے وہاں انشاء اللہ مقامی لوگوں کی جس حد تک مدد ہو سکے کرنی ہے اور یہ جو اصل بنیادی نقشہ ہے اس کے مطابق مسجد بنانی ہے۔ اس مسجد پہ تقریباً پانچ لاکھ پونڈ کا اندازہ خرچ ہے۔ تو انصار اللہ نے کس طرح پورا کرنا ہے وہ اپنا پلان کر لیں اور کمر ہمت کس لیں بہرحال ان کو مدد کرنی ہو گی وہاں جماعت بہت چھوٹی سی ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل29؍اکتوبر2004ء )

چنانچہ اپنے پیارے امام کی آواز پر لبّیک کہتےہوئے جماعت احمدیہ ہارٹلے پول میں 2005ء مسجد ’’ناصر‘‘ کی تعمیر کی توفیق ملی۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ازراہِ شفقت اس کا افتتاح فرمایا۔

’’بریڈ فورڈ میں تقریباً جو ان کا اندازہ ہے 1.6ملین یا 16 لاکھ پوؤنڈ کا(اگر میں صحیح ہوں اور یادداشت ٹھیک ہے) تو وہاں کافی بڑی مسجد بن جائے گی۔ گو کہ وہاں کاروباری لوگ کافی ہیں اور مجھے اُمید ہے وہ اپنے ذرائع سے کافی حد تک جلدی اکٹھے کر کے مسجد مکمل کر لیں گے لیکن ہو سکتا ہے کہ کچھ سستی ہو جائے۔ بعض وعدے کرتے ہیں پورے نہیں کر سکتے بعض مجبوریاں پیدا ہو جاتی ہیںتو ان کی مدد کے لئے خدام الاحمدیہ اور لجنہ اماء اللہ یو کے کے ذمہ میں ڈالتا ہوں کہ یہ بھی ان کی مدد کریں اور یہ اس علاقے میں ایک بڑا اچھا وسیع جماعت کا منصوبہ ہے جو مجھے اُمید ہے جماعت کی وسعت کا باعث بنے گا وہاں اس کے لئے وہ بھی ان میں کچھ حصہ ڈالیں گے اور لجنہ ہمیشہ قربانیاں کرتی رہی ہے یہاں بیت الفضل ہے اس کے لئے بھی لجنہ نے ہی رقم اکٹھی کی تھی جو پہلے برلن مسجد کے لئے تھی پھر بعد میں بیت الفضل میں استعمال ہوئی تو یوکےکی لجنہ کو اس بارے میں کوشش کرنی چاہئے کیونکہ میری خواہش ہے کہ یہ دونوں مساجد ایک سال کے اندر اندر مکمل ہو جائیں انشاء اللہ۔ اللہ تعالیٰ توفیق دے تو اس رمضان میں دعاؤں اور قربانی کے جذبے کے ساتھ اس طرف بھی توجہ دیں اور کوشش کریں۔ اللہ تعالیٰ سب کو توفیق دے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 29اکتوبر2004ء)

اللہ تعالیٰ کے فضل سے بریڈ فورڈ میں اڑھائی ملین کے خرچ سے مسجد ’’بیت المہدی‘‘ کی تعمیر 2008ء میں مکمل ہو گئی اور حضرت امیر المومنین ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 7؍ نومبر 2008ء کو بنفسِ نفیس تشریف لے جا کر اس مسجد کا افتتاح فرمایا۔

جرمنی میں سو مساجد کی تعمیر کی تحریک

حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے جماعت احمدیہ جرمنی کو خطبہ جمعہ19مئی2004ء میں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع کی طرف سے جاری فرمودہ 100مساجد کی تحریک کی طرف تو جہ دلائی۔اسی ضمن میں حضور انور نے جماعت احمدیہ جرمنی کو سال 2004ء کے دوران 5مساجد تعمیر کرنے کا ٹارگٹ دیا تھا۔چنانچہ 7؍ ستمبر 2004ء کو حضور نے 5 ویں مسجد بیت الھدیٰ کے افتتاح کے موقع پرفرمایا:

’’ دوسر ے انہوں (امیر صاحب جرمنی۔ناقل)نے کہا ہے کہ اس خلافت کے دور میں سو مساجد کا وہ وعدہ جو خلافت رابعہ کے دور میں کیا تھا اس کو پورا کرنے والے ہوں۔حضور نے فرمایا کہ مَیں تو یہ کہتاہوں کہ آپ یہ عہد کریں کہ سومساجد کیا وہ تو ہم چند سالوں میںبنا لیں گے اگر خداتعالیٰ توفیق دے تو خلافت خامسہ کے اس دور میں تو ہم جرمنی کے ہر شہر میں مسجد بنائیں گے۔ تو یہ عہد آپ کریں تو اللہ تعالیٰ، انشاء اللہ آپ کی مدد بھی کرے گا اور اللہ تو کہتاہے کوشش کرو اور مجھ سے مانگو اورمَیں دوں گا۔

(الفضل انٹرنیشنل8؍اکتوبر2004ء )

حضور انورنے خطبہ جمعہ 26؍اگست 2005ءمیں یاددہانی کراتے ہوئے فرمایا:

’’ جرمنی نے آج سے 10 سال پہلے 100 مساجد کا وعدہ کیا تھا۔ اس کی رفتار بڑی سست ہے۔ تو خلافت جوبلی منانے کے لیے اب اس میں بھی تیزی پیدا کریں اور خدام ، انصار، لجنہ پوری جماعت مل کر ایک منصوبہ بنائیںکہ ہم نے سال میں صرف چار پانچ مساجد پیش نہیں کرنی بلکہ 2008ء تک اس سے بڑھ کر مساجد پیش کرنی ہیں۔ اگر آپ اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اس کام میں جُت جائیں گے تو انشاء اللہ تعالیٰ، اللہ تعالیٰ مدد فرمائے گا۔ اور آپ کی مساجد کی تعمیر کی رفتار بھی انشاء اللہ تعالیٰ تیز ہوگی۔ جو روکیں راستے میں پیدا ہورہی ہیں وہ بھی دور ہوں گی۔ لیکن بہر حال اس کے لیے دعاؤں پر زور دینے اور پختہ ارادے کی ضرورت ہے۔

(الفضل انٹرنیشنل 16ستمبر2005ء)

حضور انور نے خطبہ جمعہ16جون2006ء میں فرمایا:

’’2003ء میں جب مَیں پہلی دفعہ یہاں جلسہ پر آیا تو امیر صاحب نے چند مساجد کا افتتاح مجھ سے کروایا۔ اس وقت مَیںنے امیر صاحب کو کہا تھا کہ آئندہ جب مَیںآئوں تو کم از کم پانچ مساجد تیار ہوں۔ یا جتنی جلدی آپ پانچ مساجد تیار کر لیں گے اس وقت مَیں اپنا جرمنی کا دورہ رکھ لوں گا۔بہرحال یہ کام اب تیزی سے جاری رہنا چاہئے۔ تو بہرحال جماعت جرمنی نے اس طرف پھر توجہ کی اور نتیجۃً جب مَیں 2004ء کے جلسے پر آیا تو پانچ مساجد کا افتتاح ہوا۔

بعض لوگوں میں یہ سوچ پیدا ہو رہی ہے کہ یہ ٹارگٹ بہت بڑا ہے، اس کو ہم پورا نہیںکر سکتے تو اس وجہ سے بلاوجہ کی ہماری سُبکی ہو رہی ہے اور ان کے خیال میں میری نظر سے جماعت جرمنی گر رہی ہے۔ یہ بالکل غلط سوچ اور خیال ہے۔ مسجد کی تعمیر کا جو ٹارگٹ آپ کو دیا گیا، جس کو آپ نے قبول کر لیا اس کو پورا کرنے کی کوشش کریں، اور اسے پوراکرنا چاہئے۔ ہر سال 10مساجد کی تعمیر کی بجائے مَیں نے ہر سال 5مساجد کی تعمیر کا جو ٹارگٹ دیا ہے، اس کوپورا کریں۔ یہ کہہ کر کہ مساجد کی تعمیر بہت مشکل کام ہے اس سے بہرحال آپ نے پیچھے نہیں ہٹنا ۔انشاء اللہ تعالیٰ۔ مومن کی یہ شان نہیں ہے۔ اگر ٹارگٹ سامنے نہیں رکھیں گے توپھر آپ لوگ بالکل ڈھیلے پڑ جائیں گے۔ یہ سوچ جو پیدا ہو رہی ہے کہ جو رقم جمع ہوئی ہے یا ہو رہی ہے اس سے مسجد کی بجائے کچھ اور منصوبے شروع کئے جائیں جس سے جماعت کو زیادہ فائدہ ہو گا۔ یہ بالکل غلط خیال ہے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 7جولائی2006ء ص5)

چنانچہ اس وقت تک اللہ تعالیٰ کے خاص فضل سے ان 100 میں سے کل ملا کر 53؍ مساجد کا افتتاح عمل میں  آ چکا ہے، 6؍ مساجد زیرِ تعمیر ہیں جبکہ 8؍ مساجد کی تعمیر کے لئے قطعہ اراضی خریدکیاجا چکا ہے۔ الحمد للہ

ناروے کی مسجد کی تحریک

خلافت رابعہ میں جماعت احمدیہ ناروے نے ایک مسجد کی تعمیر کا پروگرام بنایا تھا جو مکمل نہ ہو سکی ۔حضور انور نے اپنے خطبہ جمعہ 23ستمبر2005ء میں فرمایا:

’’اس سلسلے میں آج مَیں بھی آپ کو، ناروے کی جماعت کو، ایک مالی تحریک کی طرف توجہ دلانا چاہتا ہوں، ایک ایسی مالی تحریک جس کا دوہرا ثواب ہے۔ جس سے آپ جنتوں کے دوہرے وارث ہو رہے ہیں۔ ایک تو مالی قربانی کرکے اور دوسرے اُس خاص مقصد کے لئے قربانی کرکے جس کے بارے میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس نے اپنے لئے جنت میں گھر بنا لیا۔ فرمایاجو مسجد تعمیر کرتا ہے وہ ویسا ہی گھر اپنے لئے جنت میں بناتا ہے۔

جماعت احمدیہ ناروے نے چند سال پہلے اپنی ضرورت کے پیش نظر حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی اجازت سے بلکہ شاید حضور رحمہ اللہ کے کہنے پر ہی ( ہرحال مجھے اس وقت مستحضر نہیں ہے)۔ ایک مسجد بنانے کا وعدہ کیا تھا۔ لیکن بدقسمتی سے یہ وعدہ پورا نہ ہو سکا۔مَیںنے آپ میں سے مردوں، عورتوں، بچوں ، نوجوانوں کی اکثریت کے چہرے پر اخلاص و وفا کے جذبات دیکھے ہیں۔ مَیں نہیں سمجھتا کہ آپ کے اخلاص و وفا میں کمی ہے یا کسی سے بھی کم ہیں۔ بعض ذاتی کمزوریاں ہیں اُن کو دور کریں۔ ایک دوسرے سے تعاون کرنا سیکھیں۔ مضبوط ارادہ کریں تو اللہ تعالیٰ پہلے سے بڑھ کر آپ کی مدد فرمائے گا۔ اور اپنے وعدوں کے مطابق ایسے ذریعوں سے آپ کے رزق کے اور آپ کے کاموں کی تکمیل کے اور آپ کے اس وعدے کو پورا کرنے کے سامان پیدا فرمائے گا کہ جس کا آپ سوچ بھی نہیں سکتے۔ جو کمزور ہیں ان کو بھی ساتھ لے کر چلیں۔ اُن کو بھی بتائیں کہ خدا کا گھر بنانے کے کیا فوائد ہیں۔ جو قربانیاں کر رہے ہیں وہ پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ سے مدد مانگتے ہوئے اپنے عہدوں کی نئے سرے سے تجدید کرتے ہوئے، نئے سرے سے پلاننگ کریں،سب سر جوڑ کر بیٹھیں، ایک دوسرے پر الزام لگانے کی بجائے اپنے فرائض ادا کرنے کی کوشش کریں۔ آج جب دنیا میں ہر جگہ مسجدوںکی تعمیر ہو رہی ہے، ہر جگہ جماعت کی ایک خاص توجہ پیدا ہوئی ہے۔آج جب دشمن جہاں اس کا زور چلتا ہے ہماری مسجدوں کو نقصان پہنچانے اور ان کو بند کروانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ان ملکوں میں جہاں امن ہے جہاں آپ کے مالی حالات پہلے سے بہت بہتر ہیں، جہاں خدا کے نام کو ہر شخص تک پہنچانے کی انتہائی ضرورت ہے، آج جہاں اللہ تعالیٰ کے پیغام اور اسلام کے نور کو پھیلانے کی ضرورت ہے۔ اگر بہتر حالات میسر ہونے کے بعد بھی آپ نے خدا کے اس گھر اور اس کے روشن میناروں کی تعمیر نہ کی تو یہ ناشکری ہو گی۔ یاد رکھیں یہ آخری موقع ہے اگر اس دفعہ بھی اور اجازت ملنے کے بعد بھی آپ لو گ اسے تعمیر نہ کر سکے تو پھر زمین بھی ہاتھ سے نکل جائے گی اور جو رقم اب تک اس پہ خرچ ہوئی ہے وہ بھی ضائع ہو جائے گی اور جماعت کے وقار کو بھی دھکا لگے گا۔ پس آج ایک ہو کر اس گھر کی تعمیر کریں، اس تعمیر سے جہاں آپ جماعت کے وقار کو روشن کر رہے ہوں گے وہاں اپنے لئے خدا کی رضا حاصل کرتے ہوئے جنت میںگھر بنا رہے ہوں گے۔ اور یاد رکھیں کہ ہر بڑے کام کے لئے بڑی قربانی دینی پڑتی ہے۔ دعائوں کے ساتھ اس قربانی کے لئے تیار ہوں گے تو یقیناً اللہ تعالیٰ بھی مدد فرمائے گا۔

یاد رکھیں اگر یہ موقع آپ نے ضائع کر دیا تو آج نہیں تو کل جماعت احمدیہ کی کئی مساجد اس ملک میں بن جائیں گی۔ لیکن احمد یت کی آئندہ نسلیں ،اس جگہ سے گزرتے ہوئے آپ کو اس طرح یاد کریں گی کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں جماعت کو مسجد بنانے کا موقع میسر آیا لیکن اس وقت کے لوگوں نے اپنی ذمہ داریوں کو ادا نہ کیا اور یہ جگہ ہاتھ سے نکل گئی۔ اللہ نہ کرے کہ کبھی وہ دن آئے جب آپ کو تاریخ اس طرح یاد کرے‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل14اکتوبر2005ء ص8)

جماعت احمدیہ ناروے نے اپنے پیارے امام کی آواز پر لبّیک کہا اور 2011ء میں مسجد کی تعمیرمکمل ہو گئی۔ حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد ’’بیت النّصر‘‘ کا افتتاح 30؍ ستمبر 2011ء کو فرمایا۔ الحمد للہ

ہالینڈ میں مسجد کی تعمیر

حضور انور نے فرمایا:

’’یاد رکھیں کہ دوسروں کی توجہ اپنی طرف کھینچنے کا بہت بڑا ذریعہ مسجدیں بھی ہیں اس طرف بھی میں توجہ دلانا چاہتا ہوں۔ اس وقت تک ہالینڈ میں مسجد کی شکل میں جماعت احمدیہ کی صرف ایک مسجد ہے جو ہیگ (Hague) میں ہے اور اس کی تعمیر ہوئے بھی شاید اندازاً 50 سال سے زائد عرصہ ہی ہوگیا ہے۔ اُس وقت بھی اس مسجد کا خرچ لجنہ نے دیا تھا جن میں اکثریت پاکستان کی لجنہ کی تھی۔ پھر یہ نن سپیٹ کا سینٹر خریدا گیا جہاں اس وقت جمعہ ادا کر رہے ہیں یہ بھی مرکز نے خرید کر دیا ہے۔ ہالینڈ کی جماعت نے تو ابھی تک ایک بھی مسجد نہیں بنائی۔ اب آپ کی تعداد یہاں اتنی ہے کہ اگر ارادہ کریں اورقربانی کا مادہ پیدا ہو تو ایک ایک کرکے اب مسجدیں بنا سکتے ہیں۔ جب کام شروع کریں گے تو اللہ تعالیٰ مدد بھی فرمائے گا انشاء اللہ۔ خیر اُمّت ہونے کی ایک بہت بڑی نشانی یہ ہے کہ خدا تعالیٰ پر کامل ایمان ہوتا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ پر ایمان بھی ہے تو پھر اس پر توکل بھی کریں۔ اور یہ کام شروع کریں تو اللہ تعالیٰ انشاء اللہ مدد بھی فرمائے گا … اگر یہ ٹارگٹ رکھیں کہ ہر دو سال میں کم از کم ایک شہر میں جہاں جماعت کی تعداد اچھی ہے مسجد بنانی ہے (یہاں دو تین تو شہر ہیں) تو پھر اس کے بعد مزید جماعت پھیلے گی انشاء اللہ جس طرح میں نے کہا تبلیغ بھی کریں اور اس کے ساتھ ساتھ مسجدیں بناتے چلے جائیں تو یہ چھوٹا سا ملک ہے اس میں جب مسجدیں بنائیں گے، ان کے مَناروں سے جو اللہ تعالیٰ کی توحید کی آواز گونجے گی اور آپ لوگوں کے عمل اور عبادتوں کے معیار بڑھیں گے تو یقیناً ان لوگوں کی غلط فہمیاں بھی دور ہوں گی اور آپ لوگ ان کی غلط فہمیاں دور کرنے والے بن جائیں گے‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل 26جنوری تا2فروری 2007ء)

سپین میں Valenciaکے مقام پر ایک اور مسجد بنانے کی عظیم الشان تحریک

حضور انور نے خطبہ جمعہ 14جنوری2005ء میں فرمایا:

’’میرے دل میں بڑی شدت سے یہ خیال پیدا ہوا کہ پانچ سو سال بعد اس ملک میں مذہبی آزادی ملتے ہی جماعت احمدیہ نے مسجد بنائی اور اب اس کو بنے بھی تقریباً 25سال ہونے لگے ہیں اب وقت ہے کہ سپین میں مسیح محمدی کے ماننے والوں کی مساجد کے روشن مینار اور جگہوں پہ بھی نظر آئیں۔ جماعت اب مختلف شہروں میں قائم ہے جب یہ مسجد بنائی گئی تو اس وقت یہاں شاید چند لوگ تھے اب کم از کم سینکڑوں میں تو ہیں پاکستانیوں کے علاوہ بھی ہیں جماعت کے وسائل کے مطابق عبادت کرنے والوں کے لئے، نہ کہ نام ونمود کے لئے اللہ کے اور گھر بھی بنائے جائیں تو اس کے لئے میرا انتخاب جو مَیں نے سوچا اور جائزہ لیا تو ویلنسیا (Valencia)کے شہر کی طرف توجہ ہوئی یہاں بھی ایک چھوٹی سی جماعت ہے اور یہ شہر ملک کے مشرق میں واقع ہے آپ کوتو پتہ ہے دوسروں کو بتانے کے لئے بتا رہا ہوں اور آبادی کے لحاظ سے بھی تیسرا بڑا شہر ہے اور یہاں بھی ابتداء میں ہی 711ء میں مسلمان آگئے تھے مسلمانوں کی تاریخ بھی اس علاقے میں ملتی ہے، ابھی تک ملتی ہے زرعی لحاظ سے بھی اس جگہ کو مسلمانوںنے ڈیویلپ (Develop)کیا ہے۔ بہت سے احمدی جو وہاں کام کرتے ہیں۔ مالٹوں کے باغات میں بہت سے لوگ کام کرتے ہیں یہ مالٹوں کے باغات کو رواج دینا بھی مسلمانوں کے زمانے سے ہی چلا آرہا ہے تو بہرحال ہم نے بھی یہاں مسجد بنانی ہے۔ انشاء اللہ تعالیٰ اور اللہ تعالیٰ کے فضل اور اس کی توفیق سے جلد بنانی ہے۔

سپین میں جماعت کی تعداد تو چند سو ہے اور یہ بھی مجھے پتہ ہے کہ آپ لوگوں کے وسائل اتنے زیادہ نہیں ہیں زمینیں بھی کافی مہنگی ہیں۔ امیر صاحب کو جب مَیں نے کہا وہ ایک دم بڑے پریشان ہو گئے تھے کہ کس طرح بنائیں گے تو مَیں نے انہیں کہا تھا کہ آپ چھوٹا سا، دو تین ہزار مربع میٹر کا پلاٹ تلاش کریں اور اپنی کوشش کریں۔ اور جماعت سپین زیادہ سے زیادہ کتنا حصہ ڈال سکتی ہے یہ بتائیں کون احمدی ہے جو نہیں چاہے گا کہ حضرت مسیح موعودعلیہ الصلوٰۃ والسلام کی خواہش کو پورا کرنے والا نہ بنے؟ کون ہے جو نہیں چاہے گا کہ جنّت میں اپنا گھر بنائے؟۔ پس آپ لوگ اپنی کوشش کریں باقی اللہ تعالیٰ خود اپنے فضل سے انتظام کر دے گا۔ یہی ہمیشہ اللہ تعالیٰ کا جماعت سے سلوک رہا ہے اور انشاء اللہ آئندہ بھی رہے گا اور وہ خود انتظام فرما دے گا…یہ کام بہرحال انشاء اللہ شروع ہو گا اور جماعت کے جو مرکزی ادارے ہیں یا دوسرے صاحبِ حیثیت افراد ہیں اگر خوشی سے کوئی اس مسجد کے لئے دینا چاہے گا تو دے دیں اس میں روک کوئی نہیں ہے لیکن تمام دُنیا کی جماعت کو یا احمدیوں کو مَیں عمومی تحریک نہیں کر رہا کہ اس کیلئے ضروردیں۔ انشاءاللہ تعالیٰ یہ مسجد بن جائے گی چاہے مرکزی طور پر فنڈ مہیا کر کے بنائی جائے یا جس طرح بھی بنائی جائے اور بعد میں پھر سپین والے اس قرض کو واپس بھی کر دیں گے جس حد تک قرض ہے۔ تو بہرحال یہ کام جلد شروع ہو جانا چاہئے اور اس میں اب مزید انتظار نہیں کرنا چاہئے۔ اللہ تعالیٰ آپ سب کو اس کی توفیق دے۔ کیونکہ اب تک جو سرسری اندازہ لگایا ہے اس کے مطابق دو تین سو نمازیوں کی گنجائش کی مسجد انشاء اللہ خیال ہے کہ6-5لاکھ یورو (Euro)میں بن جائے گی۔ یہاں بھی اور جگہوں پر بھی مسجد بنانے کا عزم کیا ہے تو پھر بنائیں انشائ اللہ شروع کریں یہ کام ارادہ جب کر لیا ہے تو وعدے کریں۔ اللہ تعالیٰ اپنے فضل سے اس میں برکت ڈالے۔‘‘

(الفضل انٹرنیشنل 28جنوری 2005ء)

حضورِ انور ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے 29؍ مارچ 2013ء کو ویلنشیا کے مقام پر مسجد ’’بیت الرحمٰن‘‘  کی تعکمیل کے بعد اس کا افتتاح فرمایا۔

پرتگال کی مسجد کی تحریک

حضور انور نے خطبہ جمعہ 28جنوری 2005ء میں فرمایا:

’’سپین کے دورے کے دوران ایک یہ بھی فائدہ ہوا کہ پرتگال سے، جو ساتھ ہی وہاں ملک ہے، جماعت کے احباب جلسے پر آئے ہوئے تھے۔ ان کی عاملہ بھی تھی ان سے میٹنگ ہو گئی۔ ابھی تک وہاں بھی مسجد نہیں ہے۔ اور مسجد نہ ہونے کی وجہ سے نومبائعین کو سنبھالنا مشکل ہو رہا ہے کیونکہ اکثر افریقن اور عرب ملکوں کے مسلمانوںمیں سے احمدیت میں داخل ہو رہے ہیں۔ وہ مسجد نہ ہونے کی وجہ سے مایوس ہو جاتے ہیں۔ تو وہاں بھی مَیں نے ان کو کہا ہے کہ جلد از جلد مسجد بنائیں اور وہاںاللہ تعالیٰ نے ایسی صورت پیدا کر دی ہے، مجھے امید ہے انشاء اللہ تعالیٰ اس میں کامیابی ہو گی کہ وہیں سے مسجد کے اخراجات کے سامان بھی مہیا ہو جائیں گے۔ ایک پرانا گھر ہے جس کو بیچ کے نئی جگہ خریدی جا سکتی ہے اور تعمیر بھی ہو سکتی ہے۔ اور اگر تھوڑا بہت کچھ ضرورت ہوئی تو انشاء اللہ مرکز سے پوری ہو جائے گی۔

دعا کریں اللہ تعالیٰ ان تمام منصوبوں میں برکت ڈالے۔ اب یورپ کے ہر ملک میں اور ہر شہرمیں ہمیں مسجد بنانے کی کوشش کرنی چاہئے ۔انشاء اللہ تعالیٰ یہ کام تو ہونے ہیں۔ دعا یہ کرنی چاہئے کہ خداتعالیٰ ہمیں یہ توفیق دے اور ہم ان ترقیات کو پورا ہوتا ہوا دیکھیں جن کا وعدہ اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے فرمایا ہے‘‘۔

( الفضل انٹرنیشنل 11فروری2005ءص8)

مسجد بیت الفتوح میں حادثہ کے بعداس کی تعمیرِ نَو کے لئے مالی تحریک

مورخہ26ستمبر2015کو مسجد بیت الفتوح لندن میں آگ لگنے کا حادثہ پیش آیا جس سے مسجد کے احاطہ میں دیگر عمارات کو کافی نقصان پہنچا۔حضور انور ایدہ اللہ بنصرہ العزیز نے خطبہ جمعہ3نومبر2017میں مسجد کی تعمیر نوکا منصوبہ پیش فرمایا اور احباب جماعت کو اس کی تعمیر کیلئے مالی قربانی کی تحریک کرتے ہوئے فرمایا:

’’میں مختصراً ایک اَور تحریک بھی کرنا چاہتا ہوں جو یُوکے(UK) کے لئے عمومی ہے اور دنیا کے جو مخیّر حضرات ہیں، جو صاحب حیثیت ہیں ان کے لئے ہے۔ اور وہ مسجد بیت الفتوح کے اس جلے ہوئے حصہ کی تعمیر نو کے لئے ہے۔ تقریباً دو سال کا عرصہ تو گزر گیا ہے جب مسجد کے ایک حصّہ کو آگ لگی تھی۔ آجکل کچھ سالوں سے 1984ء سے خلافت کے یہاں قیام کی وجہ سے دنیا سے افراد بھی یہاں آتے ہیں۔ ان کی رہائش اور پھر مختلف فنکشنز ہوتے ہیں۔ اب تو ویسے بھی دنیا کے ملکوں کے ذیلی تنظیموں کے بھی اور جماعتوں کے بھی بڑے بڑے وفود سارا سال آتے رہتے ہیں۔ ان کی رہائش وغیرہ کا بھی مسئلہ رہتا ہے۔ مسجد کے ساتھ ملحق ہال اور کمرے ہوتے تھے پہلے وہاں انتظام ہو جاتا تھا۔ جلنے کے بعد اب اس میں کافی تنگی پیدا ہو رہی ہے اور اس کی تعمیرِ نَو کا منصوبہ تو بنا لیا گیا ہے۔ کافی بڑا منصوبہ ہے۔ جگہ تو تھوڑی سی زیادہ ہے لیکن بہرحال منصوبہ بڑا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے جب اس مسجد کے منصوبے کی تحریک کی تھی تو شروع میں پانچ ملین کی آپ کی تحریک تھی۔ بعد میں مسجد کے مین (main) حصے کو چھوڑنے کی وجہ سے دوسری جگہوں پہ خرچ زیادہ ہو گیا تھا تو پھر پانچ ملین کی اور تحریک آپ کو کرنی پڑی۔ اس کے بعد بھی مختلف کام آہستہ آہستہ ہوتے رہے جو جماعت اپنے بجٹ میں سے خرچ کرتی رہی اور کافی حد تک مکمل ہو گیا تھا۔ لیکن بہرحال جو بھی ہوا یہ حادثہ ہوا۔ اللہ تعالیٰ کی یہی تقدیر تھی۔ وہ آگ لگ گئی اور یہ کافی بڑا حصہ جل گیا تو اس کا جو نیا منصوبہ بنایا گیا ہے اس میں بھی تقریباً اتنی ہی رقم خرچ ہو گی۔ گیارہ ملین کے قریب جس میں سے نصف کے قریب تو موجود ہے جو انشورنس وغیرہ سے ملی ہے یا دوسرے لوگوں نے بعض چندے دئیے ہیں۔ نصف سے زائد کی تقریباً ضرورت پڑے گی اور اس کے لئے بہرحال احباب نے ہی قربانی کرنی ہے جس طرح ہمیشہ کرتے رہے ہیں…

وہ لوگ جن کو پہلے اس کی تعمیر میں حصہ لینے کا موقع نہیں ملا انہیں تو ضرور کوشش کر کے حصہ لینا چاہئے کیونکہ یہ یوکے(UK) جماعت کا منصوبہ ہے اس لئے عمومی طور پر تو جیسا کہ مَیں نے کہا یُوکے(UK) کے احمدیوں کا ہی کام ہے، جماعت کا ہی کام ہے۔ انہیں اس میں حصہ لینا چاہئے۔ اور باہر کی دنیا کے بھی مخیّر احباب جو ہیں اس میں حصہ لیں۔ ذیلی تنظیموں کو بھی ذیلی تنظیموں کی حیثیت سے، جماعتوں کو جماعتوں کی حیثیت سے، بڑی بڑی جماعتیں جو ہیں انہیں حصہ لینا چاہئے ۔ پس جیسا کہ میں نے کہا جو پہلے اس قربانی میں حصہ نہیں لے سکے انہیں ضرور حصہ لینا چاہئے۔ اپنی رقم کے جو بھی وعدے کریں تین سال کے عرصہ میں ان کو پورا کرنے کی کوشش کریں۔ لیکن کم از کم تیسرا حصہ پہلے سال میں ہی ضرور ادا کر دیں‘‘۔

(الفضل انٹرنیشنل24تا30نومبر2017ص8)

………………(باقی آئندہ)

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Check Also
Close
Back to top button