ارشادات عالیہ سیدنا حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ و السلام
(گزشتہ سے پیوستہ)’’تعجب کی بات یہ ہے کہ اس قدر رُسوائی، ذلّت، پردہ دَری اور نَکبَت کے باوجود بھی انہوں نے توبہ اورانکسار کی طرف رجوع نہیں کیا اورنہ ہی ابرارواخیار کاطریق اختیار کیا اورنہ دلِ ماؤف درست ہوئے، نہ صفوں میں انتشار پیداہوا،اور نہ ہی وہ نادم ہوکر حق کی طرف دوڑ کرآئےبلکہ انہوں نے اپنارُخ مجھ سے پھیر لیا اورتُرش روئی اور بے التفاتی کااظہار کیا اوروہ شرّمیں تیزی سے بڑھ رہے تھے اورمیں نے انہیں ان کے بخل کی زنجیروں میں قیدی کی طرح جکڑے ہوئے پایا اورانہیں میں نے جو بھی نصیحت کی اس کے اثرانداز ہونے سے مایوس ہی ہوکر لوٹا تاآنکہ مجھے بندروں اورسؤروں کاقصہ یادآیا اورجب میں نے بینالوگوں کواندھوں کی طرح پایا تومیری آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا گئیں اس کے باوجود بھی میں مایوس نہیں۔تقدیر نے ان کی پردہ دری کرنے اوران کی بدکاریوں کی انہیں سزا دینے کافیصلہ کرلیا ہے۔ ان لوگوں نے صادقوں سے دشمنی کی اور تائید یافتہ لوگوں کو تکالیف پہنچائیں۔ سنجیدگی کوعبث اورحق کوباطل جانا اوروہ اعراض کرنے والے ہی تھے۔کئی سالوں سے مَیں انہیں جھگڑوں اوربکھیڑوں میں پڑے دیکھ رہا ہوںاورمیں نے ان میں توبہ کرنے والوں کاکوئی نشان نہیں پایا۔ اس لئے میں نے ارادہ کرلیا کہ میں انہیں چھوڑ دوں اور (ان کو) خطاب کرنے سے اعراض کروں اور ان کے ذکر کی صف اس طرح لپیٹ دوں جس طرح بہی کے کھاتوں کو سمیٹاجاتاہےاورنیک لوگوں کی طرف توجہ کروں۔ اوراگر کوئی ایسی چیز مجھے میسر ہوتی جو انہیں حق و صواب کی طرف متوجہ کرنے والی ہوتی تومیں ضرور کر گزرتا لیکن اس بارہ میں مجھے کوئی تدبیر نظرنہیں آئی۔میں نے جب بھی انہیں دعوتِ حق دی تو وہ لڑھکتے ہوئے واپس لوٹ گئے۔اورجب بھی میں نے انہیں آگے کی طرف کھینچا وہ قہقہے لگاتے ہوئے پچھلے قدموں پرچلنے لگے۔البتہ میں ان ایام میں دیکھتا ہوں کہ معززین میں سے بعض علماء نے میری طرف رجوع کیا اور ان کی دشمنی کی گرہیں کھل گئیں اورکسی قدراندھیرے چھٹ گئے اور انہوں نے دشمنوں کی گندی باتوں سے بیزاری ظاہر کی اورسخت تاریک رات میں سفر کرنے نے انہیں دہشت زدہ کردیا۔اوروہ سعادت مندوںکی طرح میرے پاس آئے اوراس ہدایت پاجانے پر میں نے انہیں کلمۂ تحسین کہا اور ان کے ربّ نے سراب کی چمک سے راستی کے چشمہ کی طرف ان کی رہنمائی فرمائی۔پس وہ اخلاص کے ساتھ میرے پاس آئے اورانہوں نے جامِ یقین سے نوش کیااور وہ آب مصفّٰی سے سیراب کئے گئے اور میں اُمیدکرتاہوں کہ اللہ ان کی ہدایت کامل فرمائے گااورانہیں عارفوں میں سے بنائے گا۔اوراسی طرح میں اس کتاب کے ناظرین کے لئے دعا کرتاہوں کہ اللہ انہیں صحیح راہ اختیار کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اور جوکوئی بھی روحانی نشأت میں بلوغ کو پہنچے گا تووہ ربّانی تَفَضُّلات کے نتیجہ میں میری دعوت کو قبول کرے گا۔میں نے ہر اس شخص کے لئے جومیری نصائح پرکان دھرتا ہے اپنے ان کلمات کو ترتیب دیا ہے۔اوراللہ بہتر جانتا ہے کہ یہ نصیحتیں کس کی کشش کا باعث ہوں گی اوروہی جانتا ہے کہ کون سا ان کا طالب ہے۔ کوئی نفس اپنی فطرت کوپھلانگ نہیں سکتا اورنہ کوئی طبیعت اپنے طریق کو ترک کرسکتی ہے اور ہدایت پانے والے ہی ہدایت پائیں گے۔‘‘
… … … … … … …(سِرُّالخلافۃمع اردو ترجمہ صفحہ 17تا20۔شائع کردہ نظارت اشاعت صدر انجمن احمدیہ پاکستان۔ربوہ)