خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ مورخہ 09؍ نومبر 2018

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ 09؍ نومبر 2018ء بمطابق09؍نبوت 1397 ہجری شمسی بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ کَمَثَلِ حَبَّۃٍ اَنْبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ کُلِّ سُنْبُلَۃٍ مِّائَۃُ حَبَّۃٍ وَاللہُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآئُ وَاللہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔ اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّلَآ اَذًی لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔(البقرۃ262:-263)

وَمَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَآئَ مَرَضَاتِ اللہِ وَتَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ اَصَابَھَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُکُلَھَا ضِعْفَیْنِ فَاِنْ لَّمْ یُصِبْھَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ۔(البقرۃ266:)

اَلشَّیْطٰنُ یَعِدُکُمُ الْفَقْرَ وَ یَاْمُرُکُمْ بِالْفَحْشَآئِ وَاللہُ یَعِدُکُمْ مَّغْفِرَۃً مِّنْہُ وَفَضْلًا وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ۔(البقرۃ269:)

لَیْسَ عَلَیْکَ ھُدٰھُمْ وَلٰکِنَّ اللہَ یَھْدِیْ مَنْ یَّشَآءُ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ فَلِاَنْفُسِکُمْ وَمَا تُنْفِقُوْنَ اِلَّا ابْتِغَآئَ وَجْہِ اللہِ وَمَا تُنْفِقُوْا مِنْ خَیْرٍ یُّوَفَّ اِلَیْکُمْ وَاَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ۔(البقرۃ273:)

اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ بِالَّیْلِ وَالنَّھَارِ سِرًّا وَّعَلَانِیَۃً فَلَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَلَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَلَاھُمْ یَحْزَنُوْنَ۔(البقرۃ275:)

یہ آیات جو میں نے تلاوت کی ہیں سورۃ بقرۃ کی آیات ہیں جن میں مال کی قربانی کا ذکر ہے اور قربانیوں کے حوالے سے تقریباً ایک تسلسل میں ہی اللہ تعالیٰ نے انہیں یہاں بیان فرمایا ہے۔ ان کا ترجمہ یہ ہے کہ

ان لوگوں کی مثال جو اپنا مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں ایسے بیج کی طرح ہے جو سات بالیں اگاتا ہو۔ ہر بالی میں سَو دانے ہوں اور اللہ جسے چاہے اس سے بھی بہت بڑھا کر دیتا ہے۔ اور اللہ وسعت عطا کرنے والا اوردائمی علم رکھنے والا ہے۔

پھر اگلی آیت میں فرمایا کہ وہ لوگ جو اپنے اموال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں پھر جو وہ خرچ کرتے ہیں اس کا احسان جتاتے ہوئے یا تکلیف دیتے ہوئے پیچھا نہیں کرتے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔

پھر فرماتا ہے ترجمہ اس کا یہ ہے کہ اور ان لوگوں کی مثال جو اپنے اموال اللہ کی رضا چاہتے ہوئے اور اپنے نفوس میں سے بعض کوثبات دینے کے لئے خرچ کرتے ہیں ایسے باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو اور اسے تیز بارش پہنچے تو وہ بڑھ چڑھ کر اپنا پھل لائے اور اگر اسے تیز بارش نہ پہنچے تو شبنم ہی بہت ہو اور اللہ اس پر جو تم کرتے ہو گہری نظر رکھنے والا ہے۔

پھر اگلی آیت میں فرماتا ہے کہ شیطان تمہیں غربت سے ڈراتا ہے اور تمہیں فحشاکا حکم دیتا ہے جبکہ اللہ تمہارے ساتھ اپنی جناب سے بخشش اور فضل کا وعدہ کرتا ہے اور اللہ وسعتیں عطا کرنے والا اور دائمی علم رکھنے والا ہے۔

پھر اللہ تعالیٰ فرماتا ہے۔ ان کو ہدایت دینا تجھ پر فرض نہیں لیکن اللہ جسے چاہتا ہے ہدایت دیتا ہے۔ اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو تو وہ تمہارے اپنے ہی فائدہ میں ہے جبکہ تم تو اللہ کی رضاجوئی کے سوا کبھی خرچ نہیں کرتے اور جو بھی تم مال میں سے خرچ کرو وہ تمہیں بھرپور واپس کر دیا جائے گا اور ہرگز تم سے کوئی زیادتی نہیں کی جائے گی۔

پھر فرمایا کہ وہ لوگ جو اپنے اموال خرچ کرتے ہیں رات کو بھی اور دن کو بھی چھپ کر بھی اور کھلے عام بھی، تو ان کے لئے ان کا اجر ان کے رب کے پاس ہے اور ان پر کوئی خوف نہیں ہو گا اور نہ وہ غم کریں گے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام مالی قربانیوں کا ذکر کرتے ہوئے ایک موقع پر فرماتے ہیں کہ :

’’میں جو بار بار تاکید کرتا ہوں کہ خدا تعالیٰ کی راہ میں خرچ کرو۔ یہ خدا تعالیٰ کے حکم سے ہے۔… اسلام دوسرے مخالف مذاہب کا شکار بن رہا ہے۔… چاہتے ہیں کہ اسلام کا نام و نشان مٹا دیں جب یہ حالت ہو گئی ہے تو کیا اب اسلام کی ترقی کے لئے ہم قدم نہ اٹھائیں؟ خدا تعالیٰ نے اسی غرض کے لئے تو اس سلسلہ کو قائم کیا ہے۔ پس اس کی ترقی کے لئے سعی کرنا یہ اللہ تعالیٰ کے حکم اور منشا کی تعمیل ہے۔‘‘ فرمایا:’’ یہ وعدے بھی خدا تعالیٰ کی طرف سے ہیں کہ جو شخص خدا تعالیٰ کے لئے دے گا مَیں اس کو چند گُنا برکت دوں گا۔ دنیا ہی میں اسے بہت کچھ ملے گا اور مرنے کے بعد آخرت کی جزا بھی دیکھ لے گا کہ کس قدر آرام میسر آتا ہے۔‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 393-394۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

حضرت مسیح موعود علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے مخلصین کی جماعت عطا فرمائی جس نے آپ کی بات کو سنا اور لبّیک کہا اور قربانیاں دیں ۔چنانچہ ان قربانیوں کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:

’’ہماری جماعت کا بہت بڑا حصہ غربا کا ہے۔ لیکن اللہ تعالیٰ کا شکر ہے کہ باوجودیکہ یہ غربا کی جماعت ہے تاہم میں دیکھتا ہوں کہ ان میں صدق ہے اور ہمدردی ہے اور وہ اسلام کی ضروریات سمجھ کر حتی المقدور اس کے لئے خرچ کرنے سے فرق نہیں کرتے۔‘‘

(ملفوظات جلد 8 صفحہ 25۔ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی قائم کردہ جماعت کے افراد کو صرف آپ کی زندگی میں ہی قربانیوں اور اخلاص و وفا میں نہیں بڑھایا بلکہ اللہ تعالیٰ نے اپنے وعدے کے مطابق آج سے تقریباً ایک سو تیس سال قبل جو جماعت قائم فرمائی تھی اس جماعت میں ایسے قربانی کرنے والے مخلصین عطا فرماتا رہا ہے اور عطا فرما رہا ہے جو دین کی خاطر، اپنی طاقت کے مطابق اور بسا اوقات اپنی استطاعت و طاقت سے بڑھ کر قربانیاں کر رہے ہیں اور ان معیاروں پر بھی پورا اتر رہے ہیں اور ان وعدوں سے بھی حصہ لے رہے ہیں جو اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم میں فرمائے ہیں۔ یہ معیار اللہ تعالیٰ کے فضل سے آج صرف اور صرف اللہ تعالیٰ کی حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ذریعہ سے قائم کردہ اس جماعت میں ہی نظر آتے ہیں جس کی چند مثالیں اس زمانے کی میں پیش کرتا ہوں۔ یہ واقعات دنیا کے مختلف ملکوں میں پھیلے ہوئے لوگوں کے ہیں جو اس عہد کو نبھا رہے ہیں کہ ہم دین کو دنیا پر مقدم رکھتے ہوئے اپنا مال پیش کرنے کے لئے ہر وقت تیار ہیں ۔

چنانچہ پہلے کیمرون کا ایک واقعہ ہے۔ وہاں کے معلم لکھتے ہیں کہ جب ہم ویسٹرن ریجن کی ایک جماعت مارتا میں چندہ تحریک جدید کے سلسلہ میں گئے تو وہاں کے چیف ساہام عثمان صاحب نے گاؤں کے لوگوں کو اکٹھا کیا اور کہنے لگے کہ جماعت کے معلم صاحب چندہ تحریک جدید کے لئے آئے ہیں اور سب اس مالی قربانی میں حصہ لیں۔چیف کہنے لگے کیونکہ آج سے دو سال قبل مَیں اکیلا یا بعض اوقات دو یا تین آدمی میرے ساتھ مسجد میں نماز پڑھتے تھے لیکن جب سے اس گاؤں میں جماعت احمدیہ قائم ہوئی ہے اور ہم نے اس جماعت کو قبول کیا ہے تب سے ہماری مسجد نمازیوں سے بھرنے لگ گئی۔ اور بعض اوقات تو نمازیوں کو مسجد کے اندر جگہ نہ ہونے کی وجہ سے باہر نماز پڑھنی پڑتی ہے۔وہ کہنے لگا یہ نمایاں تبدیلیاں صرف اور صرف جماعت احمدیہ کے یہاں آنے سے آئی ہیں۔ اس لئے ہمیں جماعت کی ہر تحریک میں حصہ لینا چاہئے

یہ انقلاب جو احمدیت کے ذریعہ سے ان میں آ رہا ہے کہ عبادتوں میں بڑھ رہے ہیں اور مالی قربانیوں میں بھی بڑھ رہے ہیں یہ ایک عجیب انقلاب ہے۔ اور یہ ان سب پرانے احمدیوں کو بھی توجہ دلانے والا ہے جن کی توجہ عبادتوں کی طرف بھی کم ہے اور باوجود حالات اچھے ہونے کے مالی قربانیوں کی طرف بھی کم ہے۔

پھر کیمرون کے ایک معلم ابوبکر بیان کرتے ہیں کہ کیمرون کے انتہائی شمال میں واقع جماعت ماڈیبو میں تحریک جدید کے چندہ کی تحریک کے لئے گئے اور گھر گھر جا کر نومبائعین کو چندے کی تحریک کی۔ اس پر ایک احمدی عثمان صاحب نے بیان کیا کہ آپ جب پچھلی دفعہ چندہ کے لئے تحریک کر کے گئے تھے تو مَیں نے نیت کی تھی کہ دس ہزار فرانک سیفہ (CFA Frank) ادا کروں گا اور مکئی بھی دوں گا۔ اس کے چند دن بعد میرے بیٹے نے کہا کہ وہ کسٹم ڈیپارٹمنٹ میں نوکری کے لئے انٹرویو پر جانا چاہتا ہے لیکن اس کے لئے بہت بڑی رقم کی ضرورت ہے۔ وہاں بھی تیسری دنیا کے بعض ملکوں کی طرح نوکریاں لینے کے لئے افسروں کو بھی کچھ دینا پڑتا ہے۔ تو مَیں نے اپنے بیٹے سے کہا کہ میں تو غریب آدمی ہوں۔ مَیں تو اتنی بڑی رقم کا انتظام نہیں کر سکتا۔ میرے پاس تو دس ہزار فرانک سیفہ ہے اور یہ مَیں نے تحریک جدید میں ادا کرنے کا وعدہ کیا ہے اس لئے تم جاؤ اور نوکری کا انٹرویو دے دو اللہ تعالیٰ تمہاری مدد کرے گا۔ عثمان صاحب بیان کرتے ہیں کہ میں نے وہ رقم چندہ میں ادا کر دی اور اس کے چند روز بعد ہی میرے بیٹے کا شہر سے فون آیا کہ میں انٹرویو میں پاس ہو گیا ہوںا ور جلد ہی مجھے نوکری مل جائے گی۔ اللہ تعالیٰ نے وہاں افسروں کا دل ایسا پھیرا کہ بہت کچھ دینے والوں کو نوکری نہیں ملی اور اس بیٹے کے لئے اس کی دعاؤں اور نیک نیت اور قربانی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے نوکری کا انتظام کر دیا۔

پھر گیمبیا کے امیر صاحب لکھتے ہیں کہ نیامی ڈسٹرکٹ کے ایک گاؤں میں تحریک جدید کے حوالے سے پروگرام منعقد کیا گیا اور اس میں بتایا گیا کہ خلیفہ وقت نے یہ کہا ہے کہ تمام نومبائعین اس تحریک کا حصہ بنیں۔ چنانچہ وہاں موجود تمام لوگوں نے چندہ جات کی ادائیگی کی۔ ایک خاتون کوجا بائے صاحبہ نے بتایا کہ انہوں نے اجلاس کے دوران بیس ڈلاسی(Dalasi) چندہ ادا کیا تھا۔ ان کے پاس اس وقت صرف بیس ڈلاسی ہی تھے جو انہوں نے مشکل وقت کے لئے سنبھال کے رکھے ہوئے تھے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ جب وہ گھر پہنچیں تو ان کے ایک مہمان نے انہیں پانچ سو ڈلاسی تحفۃً دے دئیے۔ چنانچہ اگلی صبح وہ دوبارہ مسجد آئیں اور مزید پچاس ڈلاسی چندے میں اد اکر دئیے اور کہنے لگیں کہ یہ پیسے مجھے صرف چندے کی برکات کی وجہ سے ہی ملے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کا لوٹانے کا وعدہ جو ہے وہ بھی ان کے ایمان و ایقان میں ترقی کا باعث بنتا ہے۔ گو انہوں نے قربانی اس نیت سے نہیں کی تھی کہ مجھے اللہ تعالیٰ فوراً لوٹا کے دے گا یا فوری طور پہ مل جائے گا لیکن اللہ تعالیٰ نے بھی ادھار نہیں رکھا۔

پھر بینن کے ریجن بوہیکوںکے مبلغ لکھتے ہیں کہ یہاں اس شہر میں جماعت کے سیکرٹری مال کا جو روزی کمانے کا ذریعہ تھا وہ ایک تین پہیوں والی موٹر سائیکل یا موٹر سائیکل رکشہ تھا جو چوری ہو گئی۔ اور افریقہ میں عموماً جو چیز چوری ہو جائے اس کا ملنا ایک ناممکن سی بات ہے۔ جب ان کے دوست احباب ان سے ملنے آتے اور چوری کا سن کر افسوس کا اظہار کرتے تو توکّل کی حالت دیکھیں ان کی وہ کہتے کہ مجھے اللہ تعالیٰ پر پورا بھروسہ ہے۔ کیونکہ میں ایک غریب آدمی ہوں اور اس موٹر سائیکل کے ذریعہ کما کر اپنے بچوں کا پیٹ پالتا ہوں اور وقت پر اپنا چندہ ادا کرتا ہوں اس لئے شاید کسی کو مجھ سے زیادہ ضرورت ہے تو اللہ تعالیٰ نے عارضی طور پر اس کے لئے انتظام کر دیا ہے تا کہ وہ اپنی ضرورت پوری کر کے مجھے واپس کرجائے۔ یہ بات سن کر لوگوں کو خیال ہوا کہ شاید ان کو چوری کا بہت زیادہ صدمہ ہوا ہے اور اس وجہ سے ان کے دماغ پر تھوڑا اثر ہو گیا ہے۔ بہرحال انہوں نے ملکی قانون کا تقاضا پورا کرنے کے لئے پولیس میں بھی رپورٹ کر دی اور آرام سے گھر بیٹھ گئے۔ کہتے ہیں دو ہفتے گزرے تھے کہ ان کا ہمسایہ جو خود بھی موٹرسائیکل ٹیکسی یا رکشہ چلاتا تھا اس نے غنیوں صاحب کو فون کیا کہ مَیں نے آپ کا موٹر سائیکل دیکھا ہے، رکشہ دیکھا ہے لیکن اس کا رنگ تبدیل کیا گیا ہے۔ چنانچہ اس پر پولیس کو اطلاع دی گئی تو پولیس نے دونوں مالکوں کو موٹرسائیکل کے اصل پیپر لے کر پولیس سٹیشن حاضر ہونے کا کہا۔ تحقیق کرنے پر اس شخص کے کاغذات جو تھے وہ جعلی نکلے۔ اس پر پولیس نے اس شخص کو کہا کہ دو دن میں موٹر سائیکل مرمت کروائے اور اس کا رنگ پہلی شکل میں لے کر آئے اور مالک کے سپرد کرے۔ اور اس طرح پھر یہ موٹرسائیکل ان کی واپس ہو گئی۔ وہ موٹر سائیکل لے کر فورًا مشن ہاؤس آئے اور سارا واقعہ بیان کیا اور ساتھ ہی کہا کہ ابھی میرا تحریک جدیدکا چندہ ادا ہونا باقی ہے۔ مَیں اب کام کی تلاش میں جا رہا ہوں اور اس ہفتے میں جو منافع آئے گا وہ چندے میں ادا کر دوںگا کیونکہ چندے کی برکت سے ہی یہ موٹرسائیکل مجھے واپس ملی ہے۔ چنانچہ انہوں نے ایک ہفتے میں بارہ ہزار فرانک سیفہ کما کر چندہ تحریک جدید میں ادا کر دیا۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ پر توکل اور ایمان کی عجیب مثال ہے۔

انڈیا سے انسپکٹر تحریک جدید شہاب صاحب لکھتے ہیں کہ جماعت احمدیہ چنتا گنٹا کی ایک لڑکی صوفیہ بیگم نے اپنے بھائی کے ہاتھ پیغام بھیجا کہ جب میں بہت چھوٹی تھی تو والدہ کے ساتھ جلسوں میں جایا کرتی تھی اور علمائے کرام کی تقاریر میں سنا کرتی تھی کہ جب حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے تحریک جدید کی بنیاد رکھی اور اس کے لئے مالی قربانیوں کی تحریک فرمائی تو بہت سی مستورات نے حضور کی خدمت میں اپنے زیورات پیش کئے۔ جب بھی یہ ایمان افروز واقعہ سنتی تو میرے دل میں بھی ایک خواہش پیدا ہوتی کہ کاش میرے پاس بھی زیور ہوتا تو میں بھی اسے چندہ تحریک جدید میں دیتی۔ مگر غربت کی وجہ سے میرے لئے یہ ناممکن تھا۔ لیکن اب مجھے دو تولہ سونا میری والدہ کی وفات کے بعد ترکہ میں ملا ہے وہ مَیں پیش کرتی ہوں۔ کیونکہ پتہ نہیں اس کے بعد میرا زیور رہے نہ رہے۔ کہتے ہیں انہوں نے ان کو سمجھایا، انسپکٹر صاحب نے بھی، لوگوں نے بھی کہ آپ کی شادی ہونی ہے اور زیور کی ضرورت ہو گی لیکن وہ بضد رہیں اور دو تولے سونے کی قیمت چندہ تحریک جدید میں ادا کر دی۔ ابھی پچھلے جمعہ امریکہ میں بھی میں نے یہ کہا تھا، اکثر کہتا رہتا ہوں کہ غرباء تو مالی قربانیاں کر رہے ہیں لیکن امیر لوگ جو اچھے حالات میں ہیں ان کو اپنے حالات پہ نظر ڈالنی چاہئے کہ کیا ان کے قربانی کے معیار ایسے ہیں کہ جن کے بارے میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ ایسے معیار ہونے چاہئیں اور پھر ان کو قبول بھی فرماتا ہے۔

انڈیا سے ہی ایک انسپکٹر تحریک جدید صوبہ کرناٹک کے لکھتے ہیں کہ ایک دوست کا چندہ تحریک جدید اڑھائی ہزار روپیہ قابل ادا تھا۔ ان سے ادائیگی کی درخواست کی گئی کہ تحریک جدید کا سال ختم ہونے میں صرف چند دن رہ گئے ہیں۔ اس پر موصوف نے کہا کہ بارش کی وجہ سے پچھلے تین ماہ سے کام بالکل بند ہے اور آمد کی بھی کوئی امید نظر نہیں آ رہی تو اس پر کہتے ہیں میں نے انہیں کہا کہ ادائیگی کا ارادہ کر لیں اور خدا تعالیٰ سے دعا مانگیں۔ یہ کہہ کے میں اگلی جگہ چلا گیا۔ شام کو جب وہاں دوسری جگہوں کے دورے سے واپس آیا تو موصوف خود مشن ہاؤس آئے اور اپنا مکمل چندہ ادا کر دیا۔ میں نے ان سے پوچھا یہ اتنی جلدی کس طرح ہو گیا۔ کہنے لگے کہ بس یہ ارادہ کی برکت اور چندہ دینے کی برکت ہے اور اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ میں نے دعا بھی کی اور ایک آدمی نے کچھ عرصہ سے میرے کچھ پیسے دینے تھے اور میں کئی مہینے سے اس کے چکر لگا رہا تھا وہ نہیں دے رہا تھا۔ لیکن آج اچانک خود میرے گھر آیا اور میری رقم لوٹا دی۔

پھر تنزانیہ سے معلم موسیٰ صاحب لکھتے ہیں کہ دارالسلام جماعت کے ایک انتہائی مخلص احمدی دوست ہیں اور جماعتی دفتر میں خدمت بھی کر رہے ہیں ان کی ہر سال کوشش ہوتی ہے کہ اپنی اور فیملی کے تحریک جدید اور وقف جدید کے وعدہ جات کی ادائیگی رمضان سے پہلے کر دیں۔ لیکن اس سال گھریلو حالات کے باعث وہ وعدہ جات کی ادائیگی نہ کر سکے اس وجہ سے بہت پریشان تھے۔ بہرحال انہوں نے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ خود ہی میرے لئے کوئی راستہ نکالے۔ کہتے ہیں کہ عید کے موقع پر جماعت کی طرف سے جماعتی کارکنان کو عیدی ملتی ہےانہوں نے سوچا تھا کہ جو عید کا تحفہ ملنا ہےاس تحفہ سے اپنی عید کی ضروریات پوری کرنے کی بجائے چندہ دے دوں گا لیکن جب انہوں نے حساب لگایا تو جو عید کا تحفہ عموماً ملا کرتا ہے اس کو دینے کے بعد بھی بقایا رہ جانا تھا ۔اس پر انہوں نے پھر اللہ تعالیٰ سے دعا کی کہ اللہ تعالیٰ کہیں سے ایسے سامان پیدا کر دے کہ وہ اپنے وعدے کے مطابق ادائیگی کر دیں۔ چنانچہ کہتے ہیں کہ اس دفعہ عیدی ملی تو وہ اس رقم سے زائد ملی جو عموماً ملا کرتی تھی تو انہوں نے اپنے چندے کے سارے وعدے جو تھے پورے کر دئیے۔

ماسکو سے مبلغ رضوی صاحب لکھتے ہیں کہ ایک نومبائع دوست وادم صاحب کا تعلق رشیا کے ایک دور افتادہ اور پسماندہ علاقے بوریاتیا سے ہے۔ انہیں 2017ء میں احمدیت قبول کرنے کی توفیق ملی تھی۔ امسال مارچ کے مہینے میں ایک ہفتہ کے لئے ماسکو آئے تا کہ احمدی بھائیوں سے ملاقات ہو اور تعلیمی اور تربیتی فائدہ حاصل کر سکیں۔ یہ غریب گھرانے سے تعلق رکھتے ہیں مالی تنگی کی وجہ سے بعض اوقات نہایت سخت حالات سے گزرنا پڑتا ہے۔ ماسکو میں قیام کے دوران نماز عشاء کی ادائیگی کے بعد گفتگو کے دوران انہیں جماعت کے مالی نظام اور اس سے متعلق برکات کے بارے میں تفصیلاً بتایا گیا اور کچھ چندہ دینے کی بھی تحریک کی گئی۔ ان کے محدود وسائل اور تنگدستی کی وجہ سے یہی خیال تھا کہ اگر یہ پچاس روبل(Ruble) بھی چندہ دے دیں تو ان کے لئے یہ بڑی قربانی ہے۔ اگلے دن صبح فجر کی نماز کے بعد انہوں نے چندہ تحریک جدید اور وقف جدید کے لئے دو ہزار روبل دے دئیے اور کہا کہ میری طرف سے چندہ قبول کر لیں اور ساتھ بار بار افسوس کرتے رہے کہ میں نے پہلے کیوں چندہ نہیں دیا اور اتنی دیر کیوں کر دی، سال سے زیادہ ہو گیا مجھے احمدی ہوئے۔ مبلغ لکھتے ہیں کہ ان کے حالات کے مطابق یہ بہت بڑی قربانی تھی۔

یہ ہیں قربانی کے معیار اور یہ ہیں وہ لوگ جن کے بارے میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے فرمایا ہے کہ حیرت ہوتی ہے ان کے اخلاص و وفا کو دیکھ کر۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 10 صفحہ 334۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

پھر ماسکو سے ہی مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ جماعت ماسکو کے ایک ممبر ہیں، ایک لمبا عرصہ سے ماسکو میں مختلف اداروں میں ملازمت کرتے رہے ہیں۔ جس جگہ یہ آجکل ملازمت کر رہے ہیں اس کے متعلق انہوں نے بتایا کہ اس جگہ انٹرویو دیتے ہوئے مجھے مالکان نے بتایا کہ ہمارے یہاں تنخواہ میں اضافہ نہیں کیا جاتا۔ جو تنخواہ ملے گی اسی پہ ہمیشہ تمہیں گزارہ کرنا پڑے گا اس لئے اگر آپ کو یہ تنخواہ مناسب لگتی ہے تو ملازمت کر لیں ورنہ رہنے دیں۔ کہتے ہیں مَیں نے ملازمت اختیار کر لی۔ کچھ عرصہ بعد تحریک جدید اور وقف جدید کی تحریکات کے بارے میں جماعتی طور پر تحریک کی گئی۔ میں نے ان تحریکات میں باقاعدگی سے چندہ دینا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دنوں میں اس ادارے کی انتظامیہ نے بلایا اور بغیر کسی ظاہری وجہ سے میری تنخواہ میں پہلے پانچ ہزار روبل کا اضافہ کر دیا۔ اور پھر کچھ عرصہ بعد دوبارہ بلایا اور دو ہزار روبل کا مزید اضافہ کر دیا۔ کہتے ہیں مجھے اس وقت اس بات کا یقین ہو گیا کہ یہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کا نتیجہ ہے ورنہ دنیاوی طور پر ایسی کوئی وجہ نہیں تھی۔ اور کہتے ہیں جب مَیں کسی غیر احمدی کو اس بارے میں بتانے کی کوشش کروں تو انہیں اس بات کی مکمل سمجھ نہیں آتی لیکن حضرت امام مہدی علیہ السلام کو ماننے والا بڑی اچھی طرح سمجھ سکتا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے فضل سے بغیر کسی دنیاوی سبب کے اپنی راہ میں قربانی کی وجہ سے یہ برکت عطا فرمائی۔

بینن کے ریجن الاڈا کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ریجن کی ایک جماعت فانجی جہاں الحمد للہ جماعت کی مسجد بھی تعمیر شدہ ہے، یہاں کے صدر صاحب جماعت جو ایک لوہار ہیں ان کو تحریک جدید میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے کی تحریک کی گئی تو انہوں نے مزید ادائیگی کا وعدہ تو کر لیا لیکن کہنے لگے کہ فی الحال کام نہ ہونے کی وجہ سے ہاتھ تنگ ہے۔ اس کے بعد صدر صاحب کا فون آیا کہ میں نے دس ہزار فرانک سیفہ چندہ دینا ہے اس کی رسید کاٹ دیں۔کہتے ہیں اللہ تعالیٰ نے اس وعدے کے بعد بڑا فضل کیا اور مجھے کام مل گیا اور اب میں دس ہزار چندہ دینے آ رہا ہوں ۔ اور کہتے ہیں اس ادائیگی کے کوئی پندرہ دن بعد دوبارہ ان کا فون آیا کہ اللہ تعالیٰ کا بہت زیادہ فضل ہوا ہے اور اتنا زیادہ ہو گیا ہے کہ سمجھ نہیں آ رہی کہ شاید وقت پر کام مکمل بھی کر سکوں یا نہیں۔ بہت بڑا کام مل گیا ہے اور یہ صرف اور صرف خدا تعالیٰ کی راہ میں مالی قربانی کرنے کی بدولت ہے۔ گویا یہاں اللہ تعالیٰ اپنے وعدے کے موافق کئی گنا بڑھا کر عطا فرما رہا ہے اور فوراً عطا فرما رہا ہے۔

مالی سے سیگو ریجن کے مبلغ لکھتے ہیں کہ ایک دن ایک نابینا عورت نے کچھ چندہ بھجوایا اور ساتھ ہی پیغام بھجوایا کہ وہ آئندہ سے ہر ماہ اپنا چندہ مشن ہاؤس بھجوایا کرے گی۔ اس سے وجہ پوچھی تو کہنے لگی، بعض لوگوں سے اللہ تعالیٰ خود بھی ان کو توجہ دلا کے قربانی کرواتا ہے تا کہ مزید نوازے۔ کہتی ہیں کہ میں نے دو دن پہلے خواب میں دیکھا کہ میں سو رہی ہوں، اور خواب میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے مجھے جگا کر چندہ ادا کرنے کی تلقین فرمائی۔ چنانچہ میں خواب میں اٹھ کر مشن ہاؤس گئی اور وہاں پانچ ہزار سیفہ ادا کیا اس کے بعد میری آنکھ کھل گئی۔

بورکینا فاسو سے مبارک منیر صاحب مبلغ لکھتے ہیں کہ پیگو جماعت کے ایک مخلص احمدی الحاج ابراہیم کے دو بچے کچھ عرصہ سے بیمار تھے۔ کافی علاج کروایا لیکن بہتری نہیں ہو رہی تھی۔ ایک دن ہمارے معلم صاحب نے انہیں مالی قربانی کی تحریک کی تو انہوں نے اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دیا اور دعا کی کہ اے اللہ میری قربانیوں کو قبول فرما اور میری اولاد کو جلد صحت یاب کر دے۔ کہتے ہیں کہ چند دن بعد ہی اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان کے بچوں کی حالت کافی حد تک بہتر ہونے لگی۔ ایک بچہ تو بالکل ٹھیک ہو گیا ہے اور دوسرے بچے میں کافی حد تک بہتری ہے۔ ان کو بھی یہ یقین ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قربانی کو قبول فرماتے ہوئے یہ برکت عطا فرمائی۔

بورکینا فاسو بوبو شہر کے سیکرٹری وصیت کہتے ہیں کہ میں وصیت کا چندہ تو ہر ماہ ادا کر دیتا تھا مگر تحریک جدید اور وقف جدید میں کبھی کبھی تاخیر ہو جایا کرتی تھی۔ ایک بار جب انہوںنے میرا خطبہ سنا تو اس کے بعد دل میں خیال آیا کیوں نہ سال ختم ہونے سے پہلے ہی تمام چندہ ادا کر دوں۔ چنانچہ چندہ ادا کرنے کے بعد ایک رات خواب میں دیکھا کہ ایک سفید لباس میں ملبوس آدمی مجھے کوئی چابی پکڑا رہا ہے۔ مجھے اس وقت تو خواب کی سمجھ نہیں آئی لیکن چند دن بعد میرے بھائی کی طرف سے پیغام آیا کہ آپ حج کرنے کی تیاری کریں میں تمام اخراجات آپ کے دوں گا۔ اس طرح مالی قربانی کے نتیجہ میں خدا تعالیٰ نے حج کرنے سعادت نصیب فرمائی۔

جرمنی کے سیکرٹری تحریک جدید لکھتےہیں کہ بورکن (Borken) جماعت کے ایک دوست نے تحریک جدید کے چندے میں نو سو یورو کا اضافہ کیا۔ یہ دوست بتاتے ہیں کہ جس روز میں نے وعدہ کیا اس سے اگلے دن جب میں فرم میں گیا تو مالک نے کہا میں نے تمہاری تنخواہ میں سو یورو کا اضافہ کر دیا ہے۔ اور فروری سے اکتوبر تک حساب لگایا تو کل نو سو یورو بنتے ہیں۔ یہ دوست کہتے ہیں مجھے یہ تو یقین تھا کہ اللہ تعالیٰ اس کا انتظام کر دے گا لیکن یہ نہیں پتہ تھا کہ اللہ تعالیٰ چوبیس گھنٹے بھی گزرنے نہیں دے گا اور انتظام کر دے گا۔

جرمنی کے سیکرٹری تحریک جدید ہی بیان کرتے ہیں کہ ایک دوست اپنے اسائلم کیس کی وجہ سے مشکلات کا شکار تھے۔ انہیں مالی قربانی کی طرف اور چندہ تحریک جدید کی طرف توجہ دلائی گئی۔ اس کے چند دن بعد ہی دوست ملے اور انہوں نے بتایا کہ آپ نے اس طرح مجھے چندہ تحریک جدید کی طرف توجہ دلائی تھی۔میں نے سو یورو کا وعدہ کیا تھا۔ اس وقت میرے پاس صرف بیس یورو تھے چنانچہ میں نے وہ بیس یورو اسی وقت ادا کر دئیے اور گھر چلا گیا۔ گھر پہنچا تو جہاں میں پہلے کام کرتا تھا وہاں سے فون آیا کہ تمہارے حساب میں کچھ پیسے بنتے ہیں وہ آ کر لے جاؤ۔ میرا خیال تھا کہ تین یا چار سو یورو ملیں گے لیکن وہاں سے جو پیسے ملے میں نے بغیر گنے ہی اسے جیب میں ڈال لیا اور سب سے پہلے میں نے تحریک جدید کے بقیہ اسّی یورو ادا کئے پھر باقی ضروریات کے لئے پیسے نکالے۔ اس کے بعد بھی کچھ رقم بچ گئی۔ جب بعد میں حساب کیا تو پتہ چلا کہ وہاں سے ایک ہزار یورو ملا تھا۔ کہتے ہیں میں نے ایک سو یورو کا وعدہ کیا تھا اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں دس گنا عطا فرما دیا۔ پہلے میں اس قسم کے واقعات سنا کرتا تھا اور سوچتا تھا کہ اللہ تعالیٰ واقعی اپنے بندوں سے ایسا سلوک کرتا ہے لیکن اب مجھے خود تجربہ ہوگیا۔

آئیوری کوسٹ سے مبلغ سلسلہ لکھتے ہیں کہ وہاں تحریک جدید کے چندہ کے سلسلہ میں ایک جگہ گئے، نومبائع جماعت ہے، ایک سال قبل ہی بیعت کر کے نظام میں یہ سارے لوگ شامل ہوئے ہیں۔ اس گاؤں میں تحریک جدید کی اہمیت پر تقریر کی گئی، اس کے مقاصد بیان کئے گئے اور مزید یہ بتایا کہ خلیفۃ المسیح نے کہا ہے کہ تمام افراد اس برکت میں حصہ لیں۔ اگلے دن فجر کی نماز کے بعد احباب جماعت نے اپنی اپنی استطاعت کے مطابق چندہ دینا شروع کیا اور امام صاحب مسجد نے بھی اس کار خیر میں حصہ لیا اور اپنی فیملی کی طرف سے بھی تحریک جدید کا چندہ ادا کیا۔ پھر بعد میں ان کا چھ سالہ بیٹا اپنے والد سے سو فرانک سیفہ لے کرآیا اور کہنے لگا کہ یہ میرا چندہ ہے۔ کہتے ہیں ہمیں اس چھوٹے سے بچے کی اس ادا پر بڑا پیار آیا کہ چھوٹی سی عمر میں مالی قربانی کا کس قدر شوق ہے۔ اللہ تعالیٰ ان نومبائعین کی قربانیوں کو قبولیت کا شرف بخشے اور دین و دنیا کی حسنات سے نوازے۔

حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام نے ایک جگہ ذکر کیا ہوا ہے کہ ایک موقع پر ایک مولوی نے مسجد میں مالی قربانی کی تحریک کی تو وہاں اس کی بیوی بھی بیٹھی ہوئی تھی۔ یہ سن کر اس پہ بڑا اثر ہوا اور گھر آ کر اس نے بھی اس مقصد کے لئے، مسجد کے لئےاپنا زیور اتار کر دیا۔ مولوی نے کہا یہ تو صرف لوگوں کے لئے تھا تمہارے لئے نہیں ہے۔ تم قربانی نہ کرو۔

(ماخوذ از ملفوظات جلد 6 صفحہ 264-265۔ ایڈیشن 1985ء مطبوعہ انگلستان)

لیکن یہاں جو حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی جماعت پیدا ہو رہی ہے اس میں خود مولوی بلکہ ان کے بچے بھی جوش و خروش سے حصہ لے رہے ہیں۔

انڈونیشیا کی ایک مثال ہے، وہاں کی ایک خاتون صوفیہ صاحبہ لکھتی ہیں کہ میں 2014ء میں عیسائیت سے بیعت کر کے جماعت میں شامل ہوئی تھی اور بیعت کے بعد میری عیسائی فیملی کی طرف سے مخالفت شروع ہو گئی۔ مجھے گالیاں دی گئیں۔میری توہین کی جاتی تھی۔گھر والے سمجھتے تھے کہ میں ان کی فیملی کا حصہ نہیں رہی لیکن جماعت سے مجھے بڑا پیار اور محبت ملی۔ میرا نکاح بھی ایک احمدی سے ہو گیا۔ کچھ عرصہ بعد میرے خاوند کی گاڑی کو حادثہ ہو گیا اور بائیں ٹانگ اور بائیں پاؤں کی ہڈی ٹوٹ گئی۔ کہتی ہیں اس وقت میں چار ماہ کی حاملہ بھی تھی۔ اسی دوران تحریک جدید کا نیا سال شروع رہا تھا۔ میں نے اپنے خاوند سے وعدہ پوچھا تو انہوں نے بڑے یقین کے ساتھ جواب دیا کہ پانچ لاکھ انڈونیشین روپیہ لکھوادو کیونکہ اگلے سال مجھے ملازمت مل جائے گی۔ انڈونیشین روپے کی بڑی کم ویلیو ہے لیکن بہرحال جو وہاں رہنے والے ہیں ان کے لئے وہ کافی ویلیو رکھتا ہے۔ وہ خاتون کہتی ہیں مجھے بڑی حیرانی ہوئی کہ ابھی لاٹھیوں کے سہارے سے چلتے ہیں ملازمت کیسے مل جائے گی۔ بہرحال ان کے کہنے کے مطابق میں نے وعدہ لکھوا دیا۔ وقت تیزی سے گزر گیا۔ ہمیں پتہ نہیں چلا سال ختم ہونے والا تھا۔ بڑی پریشانی ہوئی کہ ابھی میرے خاوند بے روزگار ہیں چندہ کہاں سے ادا کریں گے۔ اسی پریشانی کی حالت میں دعا کی تو اللہ تعالیٰ نے اپنی قدرت دکھائی اور کہتی ہیں کہ میرے خاوند کو ایک پرائیویٹ کمپنی میں اچھی ملازمت مل گئی اور ہم نے وعدے کے مطابق سو فیصد ادائیگی کر دی۔

انڈونیشیا سے ہی واردی صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ رمضان میں ہماری فیملی ایک مشکل میں مبتلا تھی۔ میرے سسر بیمار ہو گئے۔ انہیں ہسپتال داخل کروایا گیا۔ ایک مہینہ تک ہسپتال میں زیر علاج رہے۔ اسی دوران انکی حالت اس قدر تشویشناک ہو گئی کہ آئی سی یو میں داخل ہونا پڑا۔ بچنے کی امید بہت کم تھی۔کہتے ہیں اس وقت ان کو میرا خطبہ یاد آیا جو تحریک جدید کی برکات کے بارے میں تھا۔ چنانچہ سب گھر والوں نے اکٹھے ہو کر فیصلہ کیا کہ ہم سب نے اسی ماہ رمضان میں تحریک جدید کی سو فیصد ادائیگی کرنی ہے اور عملاً سو فیصد ادائیگی کر دی۔ اور مجھے بھی انہوں نے لکھا دعا کے لئے۔ کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دعاؤں کے نتیجہ میں اور قربانی کے نتیجہ میں میرے سسر کی حالت بہتر ہونے لگی اور ہوتی چلی گئی اور چند دن بعد ڈاکٹر نے ان کو گھر واپس جانے کی اجازت دے دی۔ گھر پہنچ کر جب پڑوسیوں کو پتہ چلا کہ یہ تو بالکل ٹھیک ہو گئے ہیں تو ان کو بڑی حیرانی ہوئی یہ کیسے ممکن ہے کہ اس قدر تشویشناک بیماری کی وجہ سے موت کے دروازے پہ پہنچنے والا ایک انسان ٹھیک ہو کر واپس آ گیا۔

یوکے سے برمنگھم سینٹرل جماعت کے صدر لکھتے ہیں کہ ہم تحریک جدید کے ٹارگٹ سے پندرہ سو پاؤنڈ پیچھے تھے اور وقت ختم ہونے میں، کلوزنگ میں چند گھنٹے باقی تھے۔ مختلف احباب کو تحریک کی تو ایک دوست جو پہلے چوبیس سو پاؤنڈ دے چکے تھے انہوں نے کہا کہ وہ پندرہ سو پاؤنڈ ادا کر دیں گے۔ اس وقت یہ دوست ملک سے باہر تھے انہوں نے آن لائن ہی چندہ ادا کر دیا۔ کہتے ہیں کہ جس دن انہوں نے پندرہ سو پاؤنڈ ادا کئے تھے اس کے اگلے روز ہی ٹیکس ڈیپارٹمنٹ سے انہیں چھ ہزار پاؤنڈ واپس مل گئے۔ اللہ تعالیٰ نے یہاں فوری چار گنا بڑھا کے دے دیا۔

غریبوں کی قربانیاں کیسی ہیں اور اللہ تعالیٰ کا حیرت انگیز سلوک کیا ہے اس بارے میں برونڈی کے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ گزشتہ سال ہم نے ایک نئی جماعت گہانگا کا دورہ کیا اور وہاں ایک نئے نومبائع دوست مسعودی صاحب کو چندے کی اہمیت کے متعلق بتایااور انہیں چندے کی تحریک کی۔ مسعودی صاحب کہنے لگے کہ میرے پاس اس وقت تو کچھ نہیں ہے لیکن ہمارے گھر میں ایک پھل دار درخت ہے۔ مَیں اس درخت کا پھل فروخت کر کے چندہ ادا کر دوں گا۔ وہ قربانیاں جو پرانے زمانے میں نظر آتی تھیں اب بھی ان کے نمونے ملتے ہیں۔ کہتے ہیں چنانچہ انہوں نے ایک دو روز کے اندر ہی اس کا پھل ایک ہزار برونڈی فرانک میں فروخت کیا اور ساری رقم چندے میں ادا کر دی۔ بعد میں انہوں نے بتایا کہ میں نے جو پھل فروخت کر کے چندہ ادا کیا تھا اس کی وجہ سے بہت زیادہ برکت پڑی ہے اور اب اس درخت کو پہلے کی نسبت کئی گنا زیادہ پھل لگا ہے جو چالیس سے پینتالیس ہزار برونڈی فرانک میں فروخت ہوا ہے۔

کونگو برازویل کے معلم صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دوست ماویلی صاحب کا بچہ کافی دنوں سے بیمار چلا آ رہا تھا۔ جب ان کے پاس چندے کی تحریک کے لئے گئے تو انہوں نے ادائیگی کر دی اور ساتھ ہی دعا کی کہ اے خدا اس چندے کی برکت سے میرے بچے کو شفا دے دے۔ یہ دوست بیان کرتے ہیں کہ چند دن بعد ہی میرے بچے کی صحت بحال ہو گئی اور میں خود حیران ہو گیا کہ کس طرح ہمارا خدا دعا قبول کرتا ہے اور ہماری حقیر قربانیوں کو بھی قبول فرما لیتا ہے۔

سیکرٹری تحریک جدید لجنہ کینیڈا لکھتی ہیں کہ ایک بہن نے بتایا کہ ان کے خاوند نے تحریک جدید میں ایک ہزار ڈالر کا وعدہ کیا تھا مگر کافی عرصہ سے بیروزگار تھا اس لئے ادائیگی نہیں ہو سکی۔ سال ختم ہونے میں ایک ہفتہ رہ گیا تو سیکرٹری صاحب مال ان کے گھر چندہ لینے آئے۔ ان کے خاوند اندر گئے اور بیگم سے کہا کہ میرے پاس تو کچھ بھی نہیں ہے اب کیا کریں؟ اس پر اس خاتون نے کہا کہ ان کو خالی ہاتھ تو جانے نہیں دے سکتے۔ اس کے پاس ایک ہزار ڈالر کی سیونگ تھی اس سے چندہ ادا کر دیا۔ اور کہتی ہیں چندے کی برکت سے اسی ہفتے کے اندر ان کے خاوند کو سات ہزار ماہانہ کی جاب مل گئی۔

آئیوری کوسٹ کے مبلغ لکھتے ہیں کہ سان پیدرو میں ایک طفل ہیں جس کی عمر صرف 14 سال ہے۔ اس بچے کے والد نے بتایا کہ اتوار کو میں نے اپنے بیٹے کو ایک گھریلو کام کے لئے کہا تو اس نے جواب دیا کہ میں اطفال الاحمدیہ کی عاملہ میں بطور سیکرٹری مال چندہ اکٹھا کرتا ہوں اور میں نے خود ابھی تک چندہ ادا نہیں کیا۔ چونکہ باقی دن سکول جانا ہوتا ہے اس لئے آج میں کسی کے کھیت میں جا کر کام کرنا چاہتا ہوں۔ کوئی مزدوری کروں گا تا کہ جو رقم ملے اس سے چندہ ادا کر سکوں۔ اس پر والد نے بیٹے کو کہا کہ میں تمہاری طرف سے چندہ ادا کر دیتا ہوں۔ اس پر ان کے بیٹے نے جواب دیا کہ مربی صاحب نے کہا تھا کہ بچے اپنی جیب خرچ سے چندہ ادا کیا کریں لیکن اس دفعہ میں اپنی جیب خرچ سے ادا نہیں کر سکا اس لئے میں چاہتا ہوں کہ آج کام کروں تا کہ جو رقم ملے اس سے چندہ ادا کروں۔ چنانچہ اس نے کام کیا اور اس رقم سے چندہ ادا کیا۔ تو یہ سوچ ہے بچوں میں، دور دراز رہنے والوں میں، نئے شامل ہونے والوں میں جو اللہ تعالیٰ پیدا فرما رہا ہے۔

جرمنی کے سیکرٹری تحریک جدید کہتے ہیں کہ کِیل جماعت کی ایک خاتون نے بتایا کہ میری والدہ پاکستان میں کلسیاں بھٹیاں میں، سکول کی ٹیچر تھیں اور بہت مالی قربانی کیا کرتی تھیں۔ اکثر جب عید آتی تو بچوں کو نئے کپڑے مل رہے ہوتے تھے لیکن میری والدہ کی کوشش ہوتی کہ رمضان میں تحریک جدید کی سو فیصد ادائیگی کر کے دعائیہ فہرست میں شامل ہو جائیں۔ اکثر وہ قرض لے کر ادائیگی کرتیں اور پھر بعد میں قرض اتارنے میں لگی رہتیں۔ جب مسجد بشارت سپین کی تحریک ہوئی تو انہوں نے اپنی بالیاں جو ان کا اکلوتا زیور تھا پیش کر دیا جس کی وجہ سے سسرال سے بھی کافی باتیں سننی پڑیں۔ یہ خاتون کہتی ہیں کہ اس وقت میرا بچپن تھا اور میں سمجھتی تھی کہ اس طرح اپنے آپ کو تنگی میں ڈال کر قربانی کرنا ٹھیک نہیں ہے اور یہی نظریہ میرے دماغ میں بیٹھ چکا تھا۔ گزشتہ سال تحریک جدید کے حوالے سے جب تحریک ہوئی تو میں نے سوچا کہ میں اپنی ماں کی طرح نہیں بنوں گی جو اس طرح تحریک پر سب کچھ پیش کر دیتی ہیں اس لئے میں نے بظاہر عقل مندی کا مظاہرہ کرتے ہوئے تیس یا پینتیس یورو کا وعدہ کیا۔ کہتی ہیں خدا کا کرنا ایسا ہوا کہ اس کے کچھ عرصے بعد ہی میری گردن میں دو گلٹیاں نکل آئیں جس سے مجھے بہت خوف لاحق ہو گیا۔ ڈاکٹر نے آپریشن تجویز کیا۔ اس وقت مجھے نہ اپنا زیور اچھا لگتا تھا نہ کپڑے۔ ایک دن میرا ایک خطبہ سنا جس میں مَیں نے خواتین کی مالی قربانیوں کا ذکر کیا تھا تو کہتی ہیں خلیفہ وقت کا خطبہ سن کے میرے دل میں خیال آیا اور پھر اپنا سارا زیور جو ہے وہ تحریک جدید میں ادا کر دیا، میں نے اس کی قیمت لگوائی اور ادا کر دیا۔ اس کے بعد دوبارہ ڈاکٹر کے پاس گئی تو ڈاکٹر نے بتایا کہ یہ گلٹیاں بے ضرر ہیں۔ کہتی ہیں اللہ تعالیٰ نے مجھے اس خوف سے نجات دی۔ مَیں سمجھ گئی کہ خداتعالیٰ نے مجھے میرے متکبرانہ رویے کی سزا دی تھی چنانچہ اب میرے دل میں اس قسم کی بدظنیاں نہیں ہیں۔ میرے میاں کو ایک ہوٹل میں کام کرنے کی وجہ سے چندے دینے پر پابندی تھی۔ مَیں نے دعا کی اللہ تعالیٰ میرے میاں کو اچھا روزگار عطا فرمائے تو پانچ سو یورو تحریک جدید میں ادا کروں گی ۔چنانچہ اللہ تعالیٰ نے میرے میاں کو معجزانہ رنگ میں اچھا کام عطا فرما دیا اور اب دونوں میاں بیوی چندہ دیتے ہیں۔

لاہور کی سیکرٹری تحریک جدید لجنہ لکھتی ہیں کہ واپڈا ٹاؤن کی ایک ممبر عرصہ ڈیڑھ سال سے سانس کی شدید تکلیف میں مبتلا تھیں۔ مرکزی نمائندے کے دورے کے دوران انہوں نے اپنا چندہ تحریک جدید میں مزید پچاس ہزار روپے کا اضافہ کیا۔ خدا تعالیٰ نے ان پر بڑا فضل فرمایا اور وہ بیماری جو باوجود علاج کے بار بار حملہ کرتی تھی یہ کیفیت یکسر بدل گئی اور اب سال کے اختتام پر مکمل صحتیاب ہیں۔

امیر صاحب گیمبیا لکھتے ہیں کہ ایسٹ ڈسٹرکٹ کے گاؤںجرّا کے ایک دوست باقاعدگی سے تحریک جدید کا چندہ ادا کیا کرتے تھے۔ اب حال ہی میں ان کے گاؤں میں جانوروں کی ایک بیماری پھوٹ پڑی جس کی وجہ سے گاؤں کے جانور مرنے لگے اور تقریباً تمام لوگ اپنے اپنے جانوروں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ سامبا صاحب کا ایک جانور بھی نہیں مرا۔ سارے گاؤں والوں نے پوچھا کہ تمہارا کوئی جانور نہیں مرا اس کی کیا وجہ ہے؟ انہوں نے بتایا کہ ہر سال اپنے جانوروں میں سے ایک جانور بیچ کر چندہ ادا کر دیتا ہوں اور اسی کی برکت سے اللہ تعالیٰ نے ان جانوروں کو بیماری سے محفوظ رکھا ہے۔ اس پر گاؤں کے دیگر سات لوگوں نے بھی جو احمدی تھے تحریک جدید کا چندہ ادا کر دیا۔ انہوں نے دیکھا کہ ان کے جانوروں کی صحت بھی بہتر ہونے لگ گئی ہے اور جبکہ جانور کے ویٹرنری (veterinary)ڈاکٹر نے کہا تھا نے کہ کوئی جانور بھی اس بیماری سے زندہ نہیں رہے گی۔ چند دن کے بعد جب ویٹرنری ڈاکٹر دوبارہ آیا تو اس نے جانوروں کا معائنہ کیا اور کہنے لگا تم لوگوں نے کیا طریقہ علاج کیا ہے جس سے یہ جانور ٹھیک ہو گئے ہیں۔ تو کہتے ہیں کہ اس پر وہاں، گاؤں کی ایک بڑھیا چندے کی رسید لے آئی اور کہنے لگی ہمارا تو یہی طریقہ علاج ہے۔ اس پر ڈاکٹر کافی حیران ہوا اور کہنے لگا کہ وہ بھی جماعت احمدیہ کے متعلق ریسرچ کرے گا چنانچہ اسے کافی تعداد میں جماعتی لٹریچر وغیرہ دیا گیا۔

تو ان دوردراز علاقے کے لوگوں میں بھی دیکھیں ایمان و اخلاص کس طرح ترقی کر رہا ہے اور ان کا یہی اخلاص اور اللہ تعالیٰ پر توکل اور اس کے وعدوں پر یقین ہے جو دوسروںکو بھی اسلام کی سچائی کے متعلق سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔ اللہ تعالیٰ ان سب کے ایمان و ایقان کو بڑھاتا چلا جائے اور ہمیشہ اپنے پیار کی نظر ان پر ڈالے۔

اللہ تعالیٰ کے فضلوں کے ان واقعات بیان کرنے کے بعد اب میں جیسا کہ نومبر کے شروع میں تحریک جدید کے سال کا اعلان کیا جاتا ہے، تحریک جدید کے نئے سال کا اعلان کرتے ہوئے گزشتہ سال کے کچھ کوائف پیش کرتا ہوں۔

اس سال یہ تحریک جدید کا جو پچاسیواں سال اس یکم نومبر سے شروع ہو چکا ہے اور چوراسیویں سال میں جو اللہ تعالیٰ کے فضل ہوئے اس کی رپورٹ یہ ہے کہ جو آمدہ رپورٹس ہیں اس کے مطابق 12.79 ملین سے زیادہ پاؤنڈ اللہ تعالیٰ نے مخلصین کو قربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائی۔ یعنی ایک کروڑ ستائیس لاکھ ترانوے ہزار پاؤنڈ۔ گزشتہ سال کی نسبت اللہ تعالیٰ کے فضل سے دو لاکھ بارہ ہزار پاؤنڈ زیادہ ہے باوجود دنیا کے نامساعد حالات اور بہت سارے ملکوں کی کرنسی کے ڈی ویلیو ہونے کے اللہ تعالیٰ نے پھر بھی توفیق عطا فرمائی ہے۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے پاکستان تو پہلے نمبر پر ہوتا ہی ہے اس کے بعد جرمنی نمبر ایک ہے، برطانیہ نمبر دو پہ، امریکہ نمبر تین پہ، کینیڈا نمبر چار پہ، پانچ نمبر پہ بھارت، چھٹے نمبر پر آسٹریلیا، ساتویں پر مڈل ایسٹ کی ایک جماعت ہے پھر آٹھویں پہ انڈونیشیا ہے، پھر نویں نمبر پہ گھانا ہے ،دسویں نمبر پر پھر مڈل ایسٹ کا ہی ایک ملک ہے۔

فی کس ادائیگی کے اعتبار سے سوئٹزرلینڈ نمبر ایک ہے، امریکہ نمبر دو پھر اس کے بعد یوکے پھر آسٹریلیا پھر سنگا پور پھر سویڈن، بیلجئم، جرمنی، کینیڈا اور فِن لینڈ۔

افریقن ممالک میں مجموعی وصولی کے لحاظ سے نمایاں جماعتیں ہیں گھانا، نائیجیریا، گیمبیا، تنزانیہ۔

شامل ہونے والوں کی مجموعی تعداد کی طرف بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے توجہ دی جا رہی ہے۔ اس سال تحریک میںسترہ لاکھ سترہ ہزار احباب اس میں شامل ہوئے اور شاملین کی تعداد میں ایک لاکھ سترہ ہزار کا اضافہ ہوا ہے۔ اور ان میں زیادہ اضافہ جو افریقن ممالک میں ہوا ہے وہ نائیجر، گیمبیا، بینن، بورکینا فاسو، گھانا، نائیجیریا، کیمرون، کونگو کنساشا، لائبیریا، ماریشس اور آئیوری کوسٹ میں قابل ذکر اضافہ کیا ہے۔ بڑی جماعتوں میں انڈونیشیا، جرمنی، انڈیا اور پاکستان اور کینیڈا اور امریکہ اور ناروے اور ملائشیا کے شاملین شامل ہیں۔

دفتر اوّل کے کھاتے بھی اللہ تعالیٰ کے فضل سے تمام جاری ہیں جو پانچ ہزار نو سو ستائیس ہیں۔

مالی قربانی میں پاکستان کے تین بڑے اضلاع کی جو رپورٹ ہے اس میں نمبر ایک پہ لاہور ہے، نمبر دو پہ ربوہ ہے، نمبر تین پہ کراچی ہے ۔ ربوہ کو اضلاع کی فہرست میں شامل کیا جاتا ہے گو کہ ضلع نہیں ایک شہر ہے۔ اور زیادہ قربانی کرنے والے جو اضلاع ہیں ان میں سیالکوٹ، سرگودھا، گجرات، گوجرانوالہ، عمرکوٹ، حیدرآباد، نارووال، میرپور خاص، ٹوبہ ٹیک سنگھ اور میر پور آزاد کشمیر ہیں۔

وصولی کے لحاظ سے نمایاں جماعتیں اسلام آباد امارت، ڈیفنس لاہور امارت، ٹاؤن شپ لاہور امارت، عزیزآباد کراچی، پشاور امارت، گلشن اقبال کراچی امارت، کریم نگر فیصل آباد، کوئٹہ، نوابشاہ، بہاولپور اور اوکاڑہ۔

جرمنی کی پہلی دس جماعتیں ہیں۔ نوئس(Neus)، روئڈر مارک(Roedermark)، پنے برگ (Pinneberg)، مہدی آباد(Mehdi-Abad)، کیل(Kiel)، فلؤرز ہائم (Floersheim)، کوبلنز(Koblenz)، وائن گارٹن(Weingarten)، کولون(Koeln)، لِمبُرگ (Limburg)۔ اور لوکل امارتیں ان کی دس ہیں ہیمبرگ(Hamburg)، فرینکفرٹ(Frankfurt)، مؤرفیلڈن (Moerfelden)، گروس گیراؤ(Gross Gerau)، ڈِیٹسن باخ(Ditzenbach)، ویزبادن(Wiesbaden)، مَن ہائم(Mannheim)، ریڈ شٹڈ(Reidstadt)، اوفن باخ(Offenbach) اور ڈام شٹڈ(Darmstadt)۔

مجموعی ادائیگی کے لحاظ سے برطانیہ کے پہلے پانچ ریجن ہیں لندن بی(London B)، لندن اے(London A)، مڈ لینڈز(Midlands)، نارتھ ایسٹ(Nother East) اور ساؤتھ(South) ۔ مجموعی ادائیگی کے لحاظ سے برطانیہ کی پہلی دس بڑی جماعتیں مسجد فضل (Fazal Mosque)نمبر ایک پہ پھر ووسٹر پارک (Worcester Park)پھر برمنگھم ساؤتھ (Birmingham South)، نیو مالڈن(New Malden)، بریڈ فورڈ نارتھ(Bradford North)، اسلام آباد(Islamabad)، برمنگھم ویسٹ(Birmingham West)، گلاسگو (Glasgow)، جلنگھم(Gilingham)، سکنتھورپ(Scunthorpe)۔ اور جو پانچ چھوٹی جماعتیں ہیں سپن ویلی(Spen Valley)، سوانزی(Swansea)، نارتھ ویلز(North Wales)، ساؤتھ فیلڈز(Southfields)، ایڈنبرا(Edinburgh)۔ ادائیگی کے لحاظ سے پہلے پانچ ریجن ہیں ساؤتھ ویسٹ(South West)، مڈ لینڈز(Midlands) پھر اسلام آباد (Islamabad) پھر نارتھ ایسٹ (North East)اور سکاٹ لینڈ(Scotland)۔


مجموعی وصولی کے لحاظ سے امریکہ کی جماعتیں ہیں نمبر ایک پے اوش کوش(Oshkosh)، پھر سلیکون ویلی(Silicon Valley) پھر سیاٹل(Seattle) پھر ڈیٹرائٹ(Detroit)، سلور سپرنگ (Silver Spring)، یارک(York)، سنٹرل ورجینیا(Central Virginia)، جارجیا (Georgia)/ اٹلانٹا( Atlanta)، لاس اینجلس ایسٹ(Los Angeles East)، سینٹرل جرسی(Central Jersey)، لاریل(Laurel)۔

وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی لوکل امارتیں ہیں بریمٹن(Brampton)، وان (Vaughan)، پیس ویلیج(Peace Village)، کیلگری(Calgary)، وینکوور (Vancouver) ، ویسٹن(Westn) اور مسس ساگا(Mississauga)۔ وصولی کے لحاظ سے کینیڈا کی پانچ قابل ذکر جماعتیں ہیں ایڈمنٹن ویسٹ(Edmonton West) نمبرایک پہ پھر ڈرہم(Durham)، ہملٹن ساؤتھ(Hamilton South)، بریڈ فورڈ(Bradford) اور سسکاٹون نارتھ (Saskatoon North)۔

قربانی کے لحاظ سےانڈیا کی دس بڑی جماعتیں ہیں قادیان پنجاب، حیدرآباد تلینگانہ (Telangana)، پتھہ پیریم (Pathapiriyam) کیرالہ، چنائی تامل ناڈو، کالیکٹ کیرالہ، بینگلورو کرناٹک، کلکتہ بنگال، پینگاڑی کیرالہ، کنانور ٹاؤن کیرالہ، یادگیر کرناٹک۔ انڈیا کے صوبہ جات میں قربانی کے لحاظ سے پہلا نمبر ہے کیرالہ کا پھر کرناٹک پھر تامل ناڈو، تلنگانہ ،جموں و کشمیر پھر اڑیسہ پھر پنجاب پھر بنگال پھر دہلی اور مہاراشٹر۔

مجموعی وصولی کے لحاظ سے آسٹریلیا کی دس جماعتیں ہیں۔کاسل ہل(Castle Hill)، ملبرن بیروِک(Melbourne Berwick)، ACT کینبرا(Canberra)، پینرتھ (Penrith) ، ملبرن لانگ وارن(Melbourne Long Varren)، مارزڈن پارک(Marsden Park)، ایڈیلیڈ ساؤتھ(Adelaide South)، برزبین لوگان(Brisbane Logan)، برزبین(Brisbane) ، پلمپٹن(Plumpton)۔ اور فی کس ادائیگی کے لحاظ سے تسمانیہ (Tasmania)، ACTکینبرا(Canberra)، کاسل ہل(Castle Hill)، ڈاروِن (Darwin)، مارزڈن پارک(Marsden Park)، ملبرن بیروِک(Melbourne Berwick)، سڈنی سٹی( Sydney City)، پرتھ(Perth)، کیمپ بیل ٹاؤن(Cambelltown) اور پیراماٹا(Parramatta)۔

اللہ تعالیٰ ان سب قربانی کرنے والوں کے اموال و نفوس میں بے انتہا برکت عطا فرمائے۔ لوگوں کو خیال ہوتا ہے کہ سفر کے بعد حالات بیان کروں تو آئندہ خطبہ میں انشاء اللہ تعالیٰ۔

٭٭٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button