امیرالمومنین حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ امریکہ اکتوبر 2018ء
مسجد ’بیت العافیت‘ فلاڈلفیا کے افتتاح کی تقریب
… … … … … … … … …
19؍اکتوبر 2018ء بروز جمعہ
(حصہ دوم)
… … … … … … … … …
مسجد ’بیت العافیت‘ فلاڈلفیا کی
افتتاحی تقریب
٭ پریس کانفرنس کے بعد ساڑھے پانچ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہال میں تشریف لائے۔
پروگرام کا آغاز تلاوت قرآن کریم سے ہوا جو مکرم عبداللہ ڈِبا صاحب مبلغ سلسلہ فلاڈلفیا نے کی اور بعدازاں انگریزی زبان میں اس کا ترجمہ پیش کیا۔ اس کے بعد مکرم امجد محمود خان صاحب نیشنل سیکرٹری امورِخارجہ یوایس اے نے اپنا تعارفی ایڈریس پیش کیا۔
اس کے بعدفلاڈلفیا شہر کے آنریبل میئر جیمز کینی Hon. James Kenney نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ موصوف نے اپنے ایڈریس کا آغاز ’السلام علیکم ‘ کے ساتھ کیا۔ موصول نے کہا:
آج شام اس اہم تقریب میں دعوت پر میں آپ کا بہت شکرگزارہوں اور احمدیہ مسلم جماعت کی مسجد کے شاندار افتتاح میں شمولیت میرے لئے باعثِ فخرہے۔ نیز امام جماعت احمدیہ کو خوش آمدید کہنا بھی میرے لئے بہت باعثِ مسرت ہے۔ میں جماعت احمدیہ کے مقامی لوگوں کا بھی شکریہ اداکرتاہوں جن کی محنت سے مسجد کی یہ خوبصورت عمار ت تعمیرہوئی۔ مجھے بڑی خوشی ہوتی ہے کہ یہاں کے مقامی احمدی فلاڈلفیا کو اپنا گھر سمجھتے ہیں۔ اور مجھے بڑی خوشی ہے کہ اب آپ کے پاس ایک خوبصورت جگہ ہے جہاں آپ لوگ اپنی عبادت کرسکتے ہیں۔ فلاڈلفیا شہر کی تاریخ سے پتہ چلتاہےکہ مذہبی آزادی اس شہر کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔یہ شہر اسی بنیاد پر تعمیر کیا گیا تھا کہ ہماراتعلق بے شک مختلف قوموں اور نسلوں سے ہو لیکن یہ شہر ہر ایک کو خوش آمدید کہے گا۔
میئر نے اپنے ایڈریس میں کہا: جیساکہ آپ کو علم ہے کہ فلاڈلفیا میں بہت سے مذاہب کے لوگ اپنے اپنے عقائد پر عمل کرتے ہیں اس لئے یہ مسجد ہمارے معاشرہ کو جس میں مختلف قسم کے لوگ رہتے ہیں مزید مستحکم کرے گی۔ اس مسجد کا افتتاح ہماری یکجہتی اور ہم آہنگی کی علامت ہے۔ مسلمان امریکی ثقافت کا ایک بہت اہم حصہ ہیں۔ اس وقت ہمارے ملک کے جو حالات ہیں ان کے پیشِ نظر میں آپ کو بتاناچاہتاہوں کہ فلاڈلفیا شہر میں سارے مسلمان قابلِ عزت و احترام ہیں اور وہ یہاں محفوظ ہیں۔
میئر نے کہا: میرے خیال میں یہ مسجد خدا تعالیٰ نے خود یہاں تعمیر کروائی ہے ۔ ہمیں جن مسائل کا سامنا ہے انہیں مثبت لوگوں اور مثبت رول ماڈلز کے ذریعہ حل کیا جاسکتا ہے جو ہمارے بچوں کی صحیح راستہ کی طرف رہنمائی کرسکتے ہیں ۔اگر ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کرکام کریں، ایک دوسرے کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں اور دنیاکو یہ دکھائیں کہ ہم سب ایک ساتھ مل کررہ سکتے ہیں، تو ہم اپنے مسائل کا خاتمہ کرسکتے ہیں، ہم اپنے بچوں کی تعلیم کے مسائل کاخاتمہ کرسکتے ہیں۔
اپنے ایڈریس کے آخر پر میئر نے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں فلاڈلفیا شہر کی چابی پیش کی۔
بعدازاں آنریبل Dwight Evans ممبر آف یوایس کانگریس نے اپنا ایڈریس پیش کیا۔ یہ پنسلوینیا کے سیکنڈ ڈسٹرکٹ میں خدمت کرر ہے ہیں۔ جہاں مسجد بیت العافیت سمیت فلاڈلفیا کے مختلف علاقے آتے ہیں۔یہ 2016ء میں منتخب ہوئے اور کانگریشنل بلیک کاکس کا بھی حصہ ہیں۔اپنی تقریر میں انہوں نے کہا:
یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ یہاں آج حضورِانور کافلاڈلفیا کے عظیم شہر میں استقبال کر رہا ہوں۔ یہ شہر جو بہن بھائیوں جیسی محبت کا شہر ہے۔ فلاڈلفیا کی انتظامیہ کی طرف سے میں ایک مسلمان کمیونٹی کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آپ لوگوں کے امن کے پیغام کو یہاں خوش آمدید کہتے ہیں۔ بعض امریکیوں کی جانب سے حالیہ سالوں میں اسلام کے خلاف بعض آراء سامنے آئی ہیں۔ لیکن میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں کی اکثریت آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ ہم آپ لوگوں کے ساتھ نفرت، تعصب اور تشدد کے خلاف کھڑے ہیں۔ جیسا کہ مارٹر لوتھر کنگ نے کہا تھا کہ کسی بھی جگہ ناانصافی ہونا ہر جگہ انصاف کیلئے ایک خطرہ ہے۔
موصوف نے کہا: میں نہ صرف آپ کے امن کے پیغام کو قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں بلکہ یہ بھی کہ آپ لوگ صرف باتیں نہیں کرتے بلکہ جو کہتے ہیں اس پر عمل بھی کرتے ہیں۔جیسا کہ annual blood drive کا پروگرام ہے اور آپ لوگوں کی ملک سے وفاداری اور امن کیلئے کوششیں ہیں۔ میں ان کاموں کی وجہ سے آپ کو مبارکباد پیش کرتا ہوں۔ میں میئر کی موجودگی میں اس بات کا اظہار کرتا ہوں کہ ہم آپ لوگوں کے ساتھ کھڑے ہیں۔ آپ ان کاموں میں تنہا نہیں ہیں۔ آخر پر میں حضورِانور کو ایک مرتبہ پھر فلاڈلفیا کے اس عظیم شہر میں خوش آمدید کہتا ہوں۔
گورنر آف پنسلوینیا نے اپنا پیغام ریکارڈ کروا کر نیز تحریراً بھی بھجوایا تھا اور ایفی لاسن اور جولیا پارکر کو بطور نمائندہ بھجوایا۔ انہوں نے یہ پیغام پڑھ کرسنایا۔
موصوفہ نے پیغام پڑھنے سے قبل عرض کیا:
السلام علیکم۔ میں حضورِ انور کو اس عظیم شہر میں جو brotherly love and sisterly affection کی وجہ سے مشہور ہے، خوش آمدید کہتی ہوں۔ میں یہاں گورنر کا پیغام پڑھ کر سناؤں گی اور اس سے پہلے میں احمدیہ جماعت کا شکریہ ادا کرنا چاہتی ہوں کہ آپ نے اس مسجد کیلئے پنسلوینیا فلاڈلفیا کا انتخاب کیا اور اس کے علاوہ آپ ہر سال اپنا جلسہ سالانہ Harrisburg میں منعقد کرتے ہیں۔ شکریہ۔
اس کے بعد ایفی لاسن نے گورنر کا درج ذیل پیغام پڑھ کرسنایا:
’’احمدیہ مسلم کمیونٹی یو ایس اے کے اس پروگرام میں شمولیت کی دعوت میرے لئے بڑے اعزاز کی بات ہے۔ میں آپ کو مسجد بیت العافیت فلاڈلفیا کے افتتاح کے موقع پر مبارک پیش کرتا ہوں۔ احمدیہ مسلم جماعت کا اتحاد اور مضبوطی اس بات کی علامت ہے کہ آپ کے سربراہ عزت مآب حضرت مرز ا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایک عالمی رہنما ہیں۔ یہ میرے لئے اعزاز کی بات ہے کہ کامن ویلتھ آف پنسلوینیا میں پہلی باقاعدہ تعمیر کی جانے والی مسجد کے افتتاح کیلئے آنے پر حضور ِ انور کو خوش آمدید کہہ رہا ہوں۔ احمدیہ مسلم کمیونٹی کی لیڈرشپ کی جانب سے عالمی انسانی حقوق کے فروغ اور مذہبی اقلیتوں کے تحفظ اور خواتین کو بااختیار بنانے اور انہیں تعلیم دینے جیسے اقدام ایسے ہیں کہ جنہیں ہم اپنی کامن ویلتھ میں بہت قدر کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ ‘‘
اس کے بعد جولیا پارکر نے پیغام پڑھتے ہوئے کہا:
’’میں حضورِ انور اور تمام احمدیہ مسلم کمیونٹی کو اسلامی تعلیمات سے لگاؤ اور امن و برداشت کا پیغام پھیلانے پر مبارک پیش کرتا ہوں۔ فلاڈلفیا میں اس نئی مسجد کے گرد کمیونٹی کے افراد کے معیارِ زندگی بڑھانے کیلئے آپ کے اقدام بہت متاثر کُن ہیں۔ مجھے یقین ہے کہ احمدیہ مسلم کمیونٹی کی لیڈرشپ کی نگرانی میں تعمیر کی جانے والی یہ مسجدتمام کامن ویلتھ میں امید،امن اور اتحاد کی کرن ثابت ہوگی۔
گورنر کی طرف سے اور کامن ویلتھ آف پنسلوینیا کی تمام عوام کی طرف سے میں مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس کو خوش آمدید کہتا ہوں اور ہمارے کامن ویلتھ میں امن، اتحاد اور انسانیت کے اصولوں کے فروغ کیلئے احمدیہ مسلم کمیونٹی اور شاملینِ تقریب کا شکریہ ادا کرتا ہوں۔اس یادگار موقع پر میری طرف سے نیک خواہشات قبول فرمائیں۔‘‘(از گورنر Tom Wolf )
بعدازاں مکرم امیر صاحب یوایس اے صاحبزادہ مرزا مغفور احمد صاحب نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا مختصراً تعارف کروایا۔
اس کے بعد 6 بجے حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے انگریزی زبان میں مہمانوں سے خطاب فرمایا۔
حضورِانور کے خطاب کا اردو مفہوم پیش کیا جا رہا ہے۔
حضورانور کا خطاب
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے تشہد، تعوذ اور تسمیہ کے ساتھ اپنے خطاب کاآغاز فرمایا۔ اس کے بعد فرمایا:
تمام معزز مہمانان ! السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ۔ آپ سب پر اللہ تعالیٰ کی طرف سے سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں۔ سب سے پہلے تو میں اپنے تمام مہمانوں کا شکریہ اداکرناچاہوں گا جنہوں نے ازراہِ شفقت ہماری دعوت قبول کی اورہمارے ساتھ اس اہم اورپُرمسرت تقریب میں شامل ہوئے جس کے ذریعہ ہم اس شہر میں اپنی مسجد کا افتتاح کررہے ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
یہ زندگی کی ایک حقیقت ہے کہ بنی نو ع انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کی بقا ایک دوسرے کے ساتھ سماجی اور باہمی تعلقات قائم کئے بغیر ممکن نہیں ہے۔ رنگ و نسل اورتمدّنی و مذہبی تضادات کو بالائے طاق رکھتے ہوئے ہم بحیثیت انسان متحد ہیں۔ اس لئے یہ بات بہت اہمیت کی حامل ہے کہ ہم اپنے آپ کو دوسروں سے الگ رکھنے یا صرف اپنی ہی کمیونٹی کے افراد سے تعلق رکھنے کی بجائے دوسروں کے ساتھ بات چیت کریں۔ ڈائیلاگ ہرلحاظ سے بہت اہمیت کا حامل ہے۔ رکاوٹوں کو دور کرنے کیلئے ، ایک دوسرے کو سمجھنے اور جاننے کیلئے، معاشرے کے ارتقاء اور ترقی کیلئے اور امن اور یکجہتی کی فضا پیداکرنے کیلئےلوگوں اور مختلف کمیونٹیز کے درمیان باعزت طریق پر بات چیت کرنا نہایت اہم ہے۔ اس لئے میں آپ سب کا بہت احترام کرتاہوں کہ آپ لوگ اپنی مصروف زندگی میں سے وقت نکال کر آج یہاں آئے۔ آپ میں سے اکثر نے مسلمان نہ ہونے کے باوجود ہماری دعوت قبول کی اور خالصتاً ایک مذہبی تقریب جس کے ذریعہ ایک مسجد کا افتتاح کیاجارہاہے اس میں شامل ہوئے ۔ اس لئے میں آپ لوگوں کے اندر ایک دوسرے کیلئے پائی جانے والی برداشت اور احترام کے اعلیٰ معیاروں کی تعریف کئے بغیر آگے نہیں جاسکتا ۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
جہاں آپ کی اس تقریب میں شمولیت ظاہرکرتی ہے کہ آپ لوگ ہماری جماعت کے ساتھ تعلقات مضبوط کرنے کے خواہاں ہیں وہاں یہ بھی ظاہر ہوتاہے کہ آپ لوگ ہمارے مذہب کو بہترطور پر جاننا چاہتے ہیں۔ اس سے پتہ لگتا ہے کہ آپ وہ لوگ ہیں جو ادھر اُدھر کی سنی سنائی باتوں پر اندھا یقین نہیں کرنا چاہتے۔ آج کل کے افواہوں کے دورمیں آپ لوگوں کی اسلام کے متعلق سچائی جاننے کی خواہش قابلِ تعریف ہے۔ میڈیا جو مسلمانوں کے بارہ میں کہتاہے یا بعض اسلام مخالف قوتیں جس طرح اسلام کی تصویر دنیا کے سامنے پیش کرتی ہیں اُسے من و عن ماننے کی بجائے آپ لوگ خود یہاں دیکھنے آئے ہیں کہ اسلام کا اصل مطلب کیاہے اور اسلام کیا تعلیمات پیش کرتاہے، اس لئے میں آپ کو خراجِ تحسین پیش کرتاہوں اور آپ لوگوں کا شکریہ اداکرتاہوں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
آپ سب جماعت احمدیہ کے ماٹو یا نعرہ ’محبت سب کیلئے نفرت کسی سے نہیں‘ سے بخوبی واقف ہوں گے۔ یہ ماٹو کوئی نئی چیز نہیں ہے یا یہ ہماری کوئی نئی ایجاد نہیں ہے بلکہ اس نعرہ کی بنیاد اسلام کی مقدس کتاب قرآن کریم کی تعلیمات ہیں اور وہ تعلیمات ہیں جو بانیٔ اسلام رسولِ کریم ﷺ نے ہمیں دیں۔ ابتدا سے ہی اسلام نے ہمیں یہ سکھایاہے کہ باہمی عزت و احترام اور باہمی برداشت بنیادی انسانی اقدار ہیں۔ مثال کے طور پر قرآن کریم کی سورۃ الانعام کی آیت 109 میں اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ مسلمان غیر مذہبی لوگوں کے بتوں کو برا بھلا نہ کہیں کیونکہ اس کے ردِ عمل میں وہ بھی اللہ تعالیٰ کو برابھلاکہیں گے۔ پس اس بات کی یقین دہانی کیلئے کہ آپس میں موجود تناؤ کو ہوانہ دی جائے اور معاشرہ کو نفرت اور عداوت سے بچانے کیلئے مسلمانوں کوحکم دیاگیاہے کہ وہ ہمیشہ حوصلہ اور برداشت کا مظاہر ہ کریں۔ پس یہ جو اکثر اعتراض کیا جاتا ہے کہ مسلمان دوسر ے مذاہب اور مذہبی شخصیات کا احترام نہیں کرتے اس کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ دراصل قرآن کریم کی تعلیمات کی بنا پر مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے انبیاء کو دنیا کی تمام قوموں کی طرف ان کی ہدایت اور اصلاح کی غرض سے بھیجا گیاتھا۔ ہمارا تمام انبیاء کی سچائی پر پختہ ایمان ہے اور ہم یقین رکھتے ہیں کہ تمام انبیاء بنی نو ع انسان کو خداتعالیٰ کی طرف بلانے کے لئےاور اخلاقیات سکھانے کے لئے اور آزادی ضمیر ، عدل و انصاف اور انسانی ہمدردی جیسی عالمی اقدار کوقائم کرنے کے لئے بھیجے گئے تھے۔ پس ان باتوں کو پیشِ نظر رکھتے ہوئے ہمارے لئے یہ کیسے ممکن ہے کہ ہم دیگر مذاہب کے پیروکاروں کا احترام نہ کریں۔ اس لئے ہم احمدی مسلمان اپنے اِ س دعویٰ میں مخلص ہیں کہ ہم کسی سے نفرت نہیں کرتے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
پھر مزید یہ کہ ہم تمام بنی نو ع انسان سے حقیقی محبت کرتے ہیں اور دوسروں کی طرف دوستی کا ہاتھ بڑھانے کے لئے ہمہ وقت تیاررہتے ہیں۔ مثال کے طور پر گزشتہ سال یہاں فلاڈلفیا میں ایک مقامی یہودی قبرستان پر جب حملہ کیاگیا اور اُن کی قبروں کی بے حُرمتی کی گئی تواس قابلِ نفرت حرکت کے بعد جماعت احمدیہ کے مقامی لوگ فوری طور پر یہودی کمیونٹی کی مدد کے لئے پہنچے اور یہودی کمیونٹی کے ساتھ اظہارِ یکجہتی کیا۔ ان چیزوں کے بدلہ میں ہمیں کسی انعام یا شکریہ کی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ہم تو صرف اُنہی تعلیمات کی پیروی کررہے ہوتے ہیں جو ہمارے مذہب نے ہمیں سکھائی ہیں اور یہ تعلیمات یہی ہیں کہ جب دیگر مذاہب یا عقیدہ کے لوگ مشکلات میں مبتلا ہوں تو ان کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑا ہوا جائے۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
ہم تمام بنی نوع انسان کے حقوق کی مکمل ضمانت دیتے ہیں تاکہ وہ بغیر کسی تعصب اور امتیازی سلوک کے اپنی زندگیاں گزارسکیں۔جو بھی بغیر کسی تعصب کے اور مکمل ایمانداری سے اسلامی تاریخ کا مطالعہ کرے وہ دیکھے گاکہ مذہبی آزادی ہمیشہ اسلام کا بنیادی اصول رہی ہے۔
درحقیقت عرب کے شہر مدینہ میں، جہاں رسولِ کریم ﷺ نے مکہ میں سالہا سال مظالم کا سامنا کرنے کے بعد اپنے پیروکاروں کے ساتھ ہجرت کی ، جو حکومت بنائی گئی اس میں اِس قسم کے pluralism اور وسعتِ قلبی کا عملی اظہاردیکھنے کو ملا۔ پیغمبرِ اسلام ﷺ نےدیگر مذاہب کے رہنماؤں اور کمیونٹیز کے ساتھ ایک معاہدہ طے کیاجوایک ایسے شہر میں حکومت کی بنیاد بنا جہاں مختلف قومیں آباد تھیں۔ اس معاہدہ نے اس بات کی ضمانت دی کہ معاشرے کے تمام افراد بغیرکسی ظلم کے امن کے ساتھ رہ پائیں گے اور انہیں اپنے اپنے مذاہب اور عقائد پر عمل کرنے کی مکمل آزادی حاصل ہوگی۔ مزیدیہ کہ اُس دور کے رسم و رواج کے مطابق ہر کمیونٹی اپنے اپنے مذہبی یا قبائلی قانون پر عمل کرنے کی پابند تھی۔ چنانچہ مسلمان اسلامی شریعت پر عمل کرتے تھے اور یہودی تورات کے قانون کے پابند تھے اور باقی کمیونٹیز اپنے اپنے عقائد اور رسوم و رواج کی پابند تھیں۔ اس وقت تمام لوگ قطعہ نظر مذہب و ملت کے قیامِ امن اور دوسروں کا احترام کرنے کے ذمہ وار تھے۔ اس معاہد ہ نے امن کو فروغ دیا اور اس بات کو یقینی بنایاکہ برُدبار اور پُرتحمل معاشرہ قائم ہو۔ پس چودہ سو سال قبل مدینہ کے اندرایک کثیرالجہتی اور مختلف ثقافتوں پر مشتمل معاشرہ پر مبنی ایک کامیاب حکومت چلائی گئی۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
میں یہ تجویز نہیں دے رہا کہ آج معاشرے میں رہنے والے مختلف لوگوں یا قوموں کی سطح پر رائج بے شمار قوانین کو یکجا کردیاجائے۔ بلکہ میرا پوائنٹ صرف اتناہے کہ ہماری اولین ترجیح یہ ہونی چاہئے کہ عالمی انسانی اقدار کو قائم کرتے ہوئے اور عدل وانصاف اور اخلاقیات کو فروغ دیتے ہوئے معاشرے میں امن کا قیام ہو۔ اس کی مزید وضاحت کے لئے قرآن کریم اور رسولِ کریم ﷺ نے بڑے واضح رنگ میں بیان فرمایاہے کہ مذہبی معاملات میں کسی قسم کا کوئی جبر و اکراہ نہیں۔ ہرایک کو اس بات کا حق حاصل ہے کہ وہ اپنی مرضی سے جو چاہے راستہ اختیار کرے اور مذہب ہرایک کے دل ودماغ کا معاملہ ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:
اسی طرح اسلام تعلیم دیتا ہے کہ مذہب و اعتقاد کے اختلاف کے باوجود ہر شہری کا فرض ہے کہ وہ پرامن رہے اور اس بات کو یقینی بنائے کہ وہ کسی ایسے عمل کا حصہ نہیں ہے جو معاشرے کے امن کو خراب کرنے والی ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ تمام افراد قانون کے پابند ہوں اور ریاست کے وفادار شہری ہوں اور اس کی ترقی اور استحکام میں حصہ ڈالنے والے ہوں۔اگر آپ میں سے کسی کے ذہن میں اس نئی مسجد کے حوالہ سے کوئی بھی تحفظات ہوں اور یہ خدشتہ رکھتے ہوں کہ مسلمان اس مسجد کو باقی معاشرے کے خلاف کسی خفیہ پلان اور سکیم کا ذریعہ بنائیں گے اور نفرت پھیلانے کا باعث بنائیں گے تو یقین رکھیں کہ ایسی کوئی بھی بے چینی رکھنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ یہ یقین رکھیں کہ اس عمارت سے صرف محبت، پیار اور بھائی چارہ کا پیغام پھیلے گا۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:
اس حوالہ سے میں مختصراً مسجد کی تعمیر کے مقاصد بیان کرتا ہوں۔ مسجد کی تعمیر کا بنیادی مقصد یہ ہے کہ مسلمان اکٹھے مل کر باہمی محبت اور اتحاد کی فضا قائم کرتے ہوئے خدائے واحد کی عبادت کریں جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے عبادت کرنے کا حکم دیا ہے۔ پھر مسجد کا دوسرا بنیادی مقصد یہ ہے کہ بنی نوع انسان کی خدمت کا ایک مرکز قائم کیا جائے۔ ہر عبادت کرنے والےکی ایک اہم ذمہ داری یہ ہے کہ وہ معاشرے کے تمام دیگر افراد کے حقوق ادا کرے۔ چنانچہ ایک حقیقی مسجد محبت، ہمدردی اور اتحاد کا گہوارا ہے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:
احمدیہ مسلم جماعت کی تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ دنیا میں جہاں بھی ہم نے مساجد قائم کی ہیں ، جو لوگ ان مساجد میں عبادت کرتے ہیں، وہ دیگر شہریوںسے ہمدردی، محبت اور خلوص میں پہلے سے بڑھ کر ترقی کرتے ہیں۔ اگر ہماری مساجد کسی بات کی احمدیوں کو ترغیب دیتی ہیں تو انتہا پسندی یا دہشت گردی نہیں بلکہ صرف بنی نوع انسان کی خدمت اور اس بات کی کہ ہم اپنے دل دیگر لوگوں کے لئے کھولیں۔ ہماری مساجد معاشرے میں ہر طبقہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کے مابین ہم آہنگی پیدا کرنے اور بھائی چارہ پیدا کرنے کے حوالہ سے ہمارےعزم کو مزید تقویت دیتی ہیں اور معاشرے سے ہر قسم کی نفرت، انتہا پسندی اور تقسیم کو ختم کرنے میں ممد ہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا؛
یہ شہراپنےبھائی چارہ کی وجہ سے مشہور ہے۔ اور یقیناً ہماری یہ نئی مسجد اس بات کی علامت ہے اور ہمارے اُس عزم کا اظہار ہے کہ ہم اس شہر میں اور گردو نواح میں محبت، بھائی چارہ اور ہم آہنگی پھیلانے کی خاطر پہلے سے بڑھ کر کوششیں کریں گے۔
یہ دعویٰ کرنا تو بہت آسان ہے، لیکن ہماری تاریخ ثابت کرتی ہے کہ یہ دعوے کھوکھلے نہیں بلکہ حقیقت پر مبنی ہیں۔ ہم آج تک یہی کوشش کرتے آئے ہیں کہ ہم جو تبلیغ کرتے ہیں وہ کر کے بھی دکھائیں۔ پس میں یقیناً پراعتماد ہوں کہ مقامی افراد جلد ہی اعتراف کر لیں گےکہ یہ مسجد جسے ’بیت العافیت‘ کا نام دیا گیا ہے جس کا لفظی معنی ہی ’حفاظت فراہم کرنے والا گھر ‘ ہے، یہ تمام معاشرے کے لئے حقیقی امن کا باعث بنے گی۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:
اسکے علاوہ میں یہ بات بھی بالکل واضح کردینا چاہتا ہو ں کہ امن کے لئے اور خدمتِ انسانیت کے لئے ہمارا عزم کلیۃً ہمارے دین اور مذہبی تعلیمات کی وجہ سے ہے۔
بانی جماعت احمدیہ نے جنہیں ہم مسیحِ موعود و مہدی معہود تسلیم کرتے ہیں دعویٰ فرمایا کہ آپؑ مسیحِ محمدیﷺ ہیں اور فرمایا کہ آپ ؑ موسیٰؑکے بعد آنے والے مسیح ؑ کے امن پسند طریق پر عمل پیرا ہیں اور یہ اعلان فرمایا کہ آپ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے دو عظیم مقاصد دے کر بھیجا گیا ہے۔
پہلا یہ کہ بنی نوع انسان کو اپنے خالق کی طرف لے جایا جائے اور مخلوق کو خالق کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی جائے۔ دوسرا مقصد یہ ہے کہ آپ بنی نوع انسان کو توجہ دلائیں کہ وہ انسانی اقدار کا احترام کریں اور ایک دوسرے کے حقوق ادا کریں۔ پس یہ تمام احمدی مسلمانوں کا فرض ہے، جنہوں نے مسیحِ موعود و مہدی معہود کی بیعت کی ہے کہ وہ خداتعالیٰ سے قرب حاصل کرنے اور بنی نوع انسان کی خدمت کا کوئی موقع جانے نہ دیں۔ یہ وہ تعلیم ہے جس کی ہمیں قرآنِ کریم اور آنحضرتﷺ نے بارہا تعلیم دی ہے۔
سورۂ نساء کی آیت 37 میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’اور اللہ کی عبادت کرو اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ ٹھہراؤ اور والدین کے ساتھ احسان کرو اور قریبی رشتہ داروں سے بھی اور یتیموں سے بھی اور مسکین لوگوں سے بھی اور رشتہ دار ہمسایوں سے بھی اور غیررشتہ دار ہمسایوں سے بھی۔ اور اپنے ہم جلیسوں سے بھی اور مسافروں سے بھی اور ان سے بھی جن کے تمہارے داہنے ہاتھ مالک ہوئے۔ یقیناً اللہ اس کو پسند نہیں کرتا جو متکبر (اور) شیخی بگھارنے والا ہو۔‘‘
قرآنِ کریم کی یہ ایک آیت ہی اخلاقیات اور انسانی حقوق کے چارٹر کی ایک عظیم مثال ہے۔ یہ امن قائم کرنے کی ایک سنہری راہ اور بھائی چارہ قائم کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ تعالیٰ اس آیتِ کریمہ میں تلقین فرماتا ہے کہ اپنے والدین اور رشتہ داروں سے پیار اور محبت سے برتاؤ کرو۔ اللہ تعالیٰ حکم دیتا ہے کہ معاشرے کے کمزورترین طبقہ کو ساتھ لے کر چلواور ان کی مدد کرو، جیسا کہ یتامیٰ اور دیگر افراد جو کسی بھی طرح کسی محرومی کا شکار ہیں۔ پھر اس کے بعد ہمسایوں سے اچھا سلوک کرنے کا الگ سے خاص طور پر ذکر کیا گیا ہے۔ مسلمانوں کو تعلیم دی گئی ہے کہ وہ اپنے پڑوسیوں سے پیار کریں اور ان کی حفاظت کریں اور ضرورت پڑنے پر ہمہ وقت ان کی مدد کرنے کو تیار رہیں۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:
میں یہ بھی بتاتا چلوں کہ اسلام میں ہمسائیگی کی تعریف بہت وسیع ہے۔ اس میں صرف وہ لوگ شامل نہیں جو آپ کے قریب رہائش پذیر ہیں بلکہ دور رہنے والے بھی شامل ہیں، ساتھ سفر کرنے والے، ساتھ کام کرنے والے، ماتحت اور دیگر بہت سے لوگ بھی ہمسایہ کی تعریف میں شامل ہیں۔ درحقیقت قرآنِ کریم نے بیان فرمایا ہے کہ مسلم شہر یا قصبے میں رہنے والے تمام افراد ہی پڑوسی ہیں۔
پیغمبرِ اسلام حضرت محمدﷺ نے بھی بارہا اس طرف توجہ دلائی ہے کہ مسلمان اپنے پڑوسیوں کے حقوق ادا کریں۔ آپ ﷺ نے تو یہاں تک فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس قدر ہمسایہ کے حقوق ادا کرنے کی طرف توجہ دلائی کہ آپﷺ نے سمجھا کہ شاید اللہ تعالیٰ ہمسایہ کو وراثت میں بھی حقدار ٹھہرا دے گا۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:
پس اگر ہم نے فلاڈلفیا میں مسجد بنائی ہے اور یہاں احمدی مسلمانوں کی ایک جماعت قائم کی ہے، تو یہ اس نیت سے کیا ہے کہ ہم اس شہر کی تعمیر و ترقی میں اپنا حصہ ڈالیں اور اس شہر کے رہنے والوں کی خدمت کریں۔ اب جبکہ اس مسجد کا افتتاح ہو گیا ہے۔ اب یہاں رہنے والے تمام احمدی دیگر تمام شہریوں کو اپنا ہمسایہ سمجھیں گے اور اس بات کا ادراک کریں گے کہ ان ہمسایوں کے بہت سے حقوق ہیں اور پھر ان حقوق کی ادائیگی کے لئے اپنی بھرپور صلاحیتیں بروئے کار لائیں گے۔ جب بھی آپ میں سے کسی کو مدد کی ضرورت پڑے گی، ہم عہد کرتے ہیں کہ جس طرح بھی ہم مدد کرسکے ہم کریں گے۔ ہر رنج و غم کے موقع پر ہم اپنے ہمسایوں کے آنسو پونچھنے ، انکی مدد کرنے اور انہیں آرام پہنچانے کے لئے تیار ہوں گے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا:
پس مجھے یقین ہے کہ آپ یہ سب ہوتا خود دیکھیں گے۔ جہاں اس مسجد نے اس شہر میں ایک عمدہ عمارت کا اضافہ کیا ہے اس سے کہیں زیادہ یہ مسجد روحانی طور پر اس شہر میں اور گردو نواح میں پیارو محبت پھیلاتے ہوئے اس شہر اور اس معاشرے کو مزید خوبصورت کرنے کا باعث بنے گی۔یہ مسجد بغیر کسی تفریق مذہب، رنگ و نسل کے تمام امن پسند لوگوں کے لئے روشنی اور امید کی کرن ثابت ہو گی۔
ان الفاظ کے ساتھ میں امید کرتا ہوں اور دعا کرتا ہوں کہ تمام لوگ جو اس شہر کے باسی ہیں، قطع نظر اس کے کہ وہ کون ہیں اور کس مذہب سے تعلق رکھتے ہیں، اکھٹے مل کر معاشرے کے مشترکہ مفاد کی خاطر کام کریں گے اور حقیقی اور دیر پا امن والا معاشرہ قائم کرنے کی کوشش کریں گے۔
حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے فرمایا؛
یہ کہا جاتا ہے کہ فلاڈلفیا پہلا colonial شہر ہے، جس نے اس ملک میں آزادیِ مذہب اور آزادیِ عبادت کا قانون پاس کیا۔ مزید یہ کہ یہ وہ تاریخی شہر ہے جہاں Declaration of Independence پر دستخط کئے گئے تھے، پس اس شہر کی ایک قابلِ فخر تاریخ ہے ۔ میری دعا ہے کہ اس شہر کے رہنے والے اپنے عظیم ماضی کا پاس کریں اور آئندہ بھی یہ تاریخی روایات آپ کی قومی علامت کے طور پر جانی جائیں۔
میری دعا ہے کہ یہ شہر ہمیشہ کے لئے آزادیِ مذہب کی شمع بن جائے اور اس شہر کا ہر باسی نہ صرف اس شہر میں بلکہ تمام ریاست ہائے متحدہ امریکہ اور پھر تمام دنیا میں امن قائم رکھنے کے لئے اپنا کردار ادا کرنے والا ہو۔
اگرچہ ہماری تعداد یہاں تھوڑی ہے ، میں یقین دلاتا ہوں کہ احمدیہ مسلم جماعت ہمیشہ ایسے پروگراموں کا حصہ رہے گی اور مطلوبہ مدد فراہم کرنے کے لئے تیار رہے گی۔ اللہ کرے کہ حقیقی امن تمام شہروں اور ملکوں میں غالب آجائے ۔
آخر پر میں آپ سب کا اس پروگرام میں شمولیت پر شکریہ ادا کرتا ہوں۔ اللہ آپ سب پر اپنا فضل فرمائے۔ شکریہ۔
حضورِانور کا یہ خطاب چھ بج کر ستائیس منٹ تک جاری رہا۔ آخر پر حضورِانور نے دعاکروائی۔
حضورِانور کے خطاب کے اختتام پر مہمان بے اختیار حضورانور کے اعزاز میں کھڑے ہوگئے اور دیر تک تالیاں بجاکر حضورانور کے خطاب کو سراہنے کا اظہار کیا۔ بعدازاں حضورِانور نے بعض مہمانوں کو تحائف عطا فرمائے۔
اس کے بعد ڈنر کا پروگرام ہوا۔ کھانے کے بعد مہمانوں نے باری باری حضورِانور سے ملاقات کی۔ مہمان ایک قطار میں حضورِانور سے ملنے آتے رہے، حضورِانور گفتگو فرماتے، مہمان تصاویربھی بنواتے۔
پھر حضورِانور کچھ دیر کے لئے رہائش گاہ پر تشریف لے گئے۔ ساڑھے آٹھ بجے حضورِانور نے نمازِمغرب و عشاء جمع کرکے پڑھائیں۔ بعدازاں اپنے رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔
……………………(جاری ہے)