ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض
(ترکی کی حالتِ زار پر تبصرہ اور مشورہ )
(حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے قلمِ مبارک سے تحریر فرمودہ یہ مضمون 27؍ ستمبر 1919ء کے الفضل قادیان میں شائع ہوا۔ اس وقت ’تحریکِ خلافت‘ زور پکڑ رہی تھی اور مسلمانانِ ہند سیاسی انحطاط اور مناسب قیادت کی عدم موجودگی کے باعث اس گمان میں تھے کہ شاید احتجاج، سیاسی دباؤ اور دیگر ذرائع سے سلطنتِ ترکیہ؍ خلافتِ عثمانیہ کی خدمت کر سکیں گے۔ خلیفۃ المسلمین حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس مضمون میں ترکی کی حالتِ زار پر تبصرہ فرماتے ہوئے اصل ’مرض‘ کی تشخیص فرما کر علاج تجویز فرماتے ہیں۔
افسوس کہ آج عرصہ ایک صدی گزر جانے کے باوجود اسلام کو عالمی سطح پر ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے۔ قارئین مضمون پڑھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ’خلیفۃ المسلمین‘ کے ارشادات آج بھی اسی قدر مؤثر ہیں جتنا کہ ایک صدی قبل۔ اور آج بھی خلیفۃ المسلمین (ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز) ہی ہیں جو دردِ دل کے ساتھ دنیا میں قیامِ امن کے لئے اسلام کے خلاف پیدا کی جانے والی غلط فہمیوں، نفرتوں اور کدورتوں کو دور کرنے میں کوشاں ہیں۔ مدیر)
…٭…٭…٭…
اَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ-
بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ نحمدہٗ ونصلّی علیٰ رسولہِ الکریم
وَ علیٰ عبدہ المسیح الموعود
خدا کے فضل اور رحم کے ساتھ
ھوالناصر
مجھے کل سترہ 17 تاریخ (ستمبر 1919ء) کو ایک مطبوعہ اعلان ملا ہے جس پر دستخط کرنے والوں میں سے بعض ہندوستان کے سربرآوردہ اصحاب بھی ہیں۔ اس اشتہار میں اس بات کا اظہار کیا گیا ہے کہ ترکی حکومت کا مستقبل بحالت موجودہ سخت خطرہ میں ہے ۔ اس لئے سب مسلمانوں کو مل کر اس پر صدائے احتجاج بلند کرنی چاہئے تاکہ اصحاب حل و عقد کو معلوم ہو جائے کہ اس مسئلہ میں مسلمانوں کو کیسی گہری دلچسپی اور لگا ؤہے۔ یہ اشتہار مجھے بھی بھیجا گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی ایک مطبوعہ چٹھی سید ظہور احمد صاحب وکیل سیکرٹری مسلم کانفرنس کی طرف سے بھی مجھے ملی ہے جس میں اس جلسہ میں شمولیت کی دعوت دی گئی ہے۔ اور اس پر مکرم جناب مولوی محمد سلامت اللہ صاحب فرنگی محل نے بھی اپنی جانب سے شمولیت جلسہ کی تاکید کی ہے۔ چونکہ میں بوجہ بیماری کے اور بوجہ اس کے کہ مجھے وہاں جانے میں کوئی خاص فائدہ نظر نہیں آتا وہاں بذات خود نہیں جا سکتا اس لئے میں بذریعہ اس تحریر کے جو اپنے قائمقاموں کے ہاتھ بھیجتا ہوں اپنے خیالات کا اظہار کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں کہ اس مخلصانہ مشورہ پر کافی طور پر غور کیا جاوے گا۔
ترکوں کے مستقبل کا سوال ایک ایسا سوال ہے کہ جس سے طبعاً ہر ایک مسلمان کہلانے والے کو دلچسپی ہونی چاہئے اور ہے۔ اور جب تک ان سے ہمدردی کرنی اور ان کی موافقت کرنی شریعت کے کسی اَور حکم کے خلاف نہ آپڑے ضروری اور لازمی ہے۔ جب تک ترک گورنمنٹ برطانیہ سے بر سر پیکا ر ہے مسلمانان ہند کی ایک کثیر تعداد ہتھیار بند ہو کر ان کے خلاف لڑتی رہی۔ اور شاید ہزاروں ترک مسلمانوں کے ہاتھوں سے مارے گئے ہوں گے۔ مگر یہ ان کا فعل اس بات پر دلالت نہیں کرتا کہ ان کو ترکوں سے کسی قسم کا تعلق اور لگاؤ نہیں۔ بلکہ صرف اسی مسلمہ اصل کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ چھوٹی چیز بڑی چیز کے لئے قربان کی جاتی ہے۔ چونکہ گورنمنٹ کی فرمانبرداری ان پر مذہباً فرض تھی اور وہ اس کے ممنون احسان تھے انہوں نے اس وقت تک کہ گورنمنٹ برطانیہ کی ترکوں سے جنگ رہی اپنے اس مذہبی فرض کے ماتحت گورنمنٹ برطانیہ کی خاطر اور امن کے قیام کے لئے ایک مسلمان کہلانے والی قوم سے جنگ کی اور ان پر گولیاں چلائیں مگر جوں ہی جنگ ختم ہو گئی اور سلطنت برطانیہ کے تعلقات ترکوں سے درست ہو گئے مسلمانوں کی طبعی ہمدردی پھر جوش میں آئی۔ اور اب ان سے ہمدردی کرنا شرعاً و عرفاً کسی طرح ممنوع نہ تھا۔
پس اس میں کوئی شک نہیں کہ تما م عالم اسلام ترکوں کے مستقبل کی طرف افسوس اور شک کی نگاہوں سے دیکھ رہا ہے۔ اور یہ بھی درست ہے کہ ان کی حکومت کا مٹا دینا یا ان کے اختیارات کو محدود کر دینا ان کے دلوں کو سخت صدمہ پہنچائے گا۔ مگر اس کی یہ وجہ بیان کرنا کہ سلطان ترکی خلیفہ المسلمین ہیں درست نہیں ۔کیونکہ بہت سے لوگ ان کو خلیفۃ المسلمین نہیں مانتے مگر پھر بھی ان سے ہمدردی رکھتے ہیں۔
علاوہ ازیں میرے نزدیک ایسے نازک وقت میں جبکہ اسلام کی ظاہری شان و شوکت سخت خطرہ میں ہے۔ اس مسئلہ کو ایسے طور پر پیش کرنا کہ صرف ایک ہی خیال اور ایک ہی مذاق کے لوگ اس میں شامل ہو سکیں سیاسی اصول کے بھی برخلاف ہے۔ ہندوستان کے مسلمانوں کا ایک معتدبہ حصہ شیعہ مذہب کے لوگوں کا ہے۔ اور سوائے بعض نہایت متعصب لوگوں کے تعلیم یافتہ اور سمجھدار طبقہ ترکوں سے ہمدردی رکھتا ہے مگر وہ کسی طرح بھی سلطان ترکی کو خلیفۃ المسلمین ماننےکے لئے تیار نہیں۔ اسی طرح اہلحدیث میں سے گو بعض لوگ خلافت عثمانیہ کے ماننے والے ہوں مگر اپنے اصول کے مطابق وہ لوگ بھی صحیح معنوں میں خلیفۃ المسلمین سلطان کو نہیں مانتے۔ ہماری احمدیہ جماعت تو کسی صورت میں بھی اس اصل کو قبول نہیں کرسکتی۔ کیونکہ اس کے نزدیک رسول اللہ ﷺ کی قبل از وقت دی ہوئی اطلاعوں کے ماتحت آ پ کی صداقت کے قائم کرنے کے لئے اللہ تعالیٰ نے حضرت مرزا غلام احمد صاحبؑ کو اس زمانہ کے لئے مسیح موعود اور مہدی مسعود بنا کر مسلمانوں کی ترقی اور قیام کے لئے مبعوث فرمایا تھا۔ اور اس وقت وہی شخص خلافت کی مسند پر متمکن ہو سکتا ہے جو آ پ کا متبع ہو۔ اور قریبا ًتما م کی تمام جماعت احمدیہ اس وقت اس عاجز کے ہا تھ پر بیعت خلافت کر کے اس بات کا عملی ثبوت دے چکی ہے کہ وہ کسی اور خلافت کے تسلیم کرنے کے لئے تیار نہیں ۔ ان تینوں فرقوں کے علاوہ اور فرقے بھی ہیں جو اسلام کی طرف اپنے آپ کو منسوب کرتے ہیں لیکن خلافت عثمانیہ کے قائل نہیں۔ بلکہ خود اہل السنت و الجماعت کہلانے والے لوگوں میں سے بھی ایک فریق ایسا ہے جو خلافت عثمانیہ کو نہیں مانتا ورنہ کیوں کر ہو سکتا تھا کہ ایک شخص کو رسول کریم ﷺ کا صحیح جانشین تسلیم کر کے وہ اس کے خلاف تلوار اٹھا تے۔ پس اندریں حالات ایسے جلسہ کی بنیاد جس میں ترکوں کے مستقبل کے متعلق تما م عالم اسلامی کی رائے کا اظہار مد نظر ہو ایسے اصول پر رکھنی جنہیں سب فرقے تسلیم نہیں کر سکتے درست نہیں کیونکہ اس سے سوائے ضعف و اختلال کے کو ئی نتیجہ نہیں نکل سکتا۔
میرے نزدیک اس جلسہ کی بنیاد صرف یہ ہونی چاہئے کہ ایک مسلمان کہلانے والی سلطنت کو جس کے سلطان کو مسلمانوں کا ایک حصہ خلیفہ بھی تسلیم کرتا ہے ہٹا دینا یا ریاستوں کی حیثیت دینا ایک ایسا فعل ہے جسے ہر ایک فرقہ جو مسلمان کہلا تا ہے ناپسند کرتا ہے اور اس کا خیال بھی اس پر گراں گزرتا ہے۔ اس صورت میں تمام فرقہ ہا ئے اسلام اس تحریک میں شامل ہو سکتے ہیں باوجود اس کے کہ وہ خلافت عثمانیہ کے قائل نہ ہو ں۔ بلکہ باوجود اس کے کہ وہ ایک دوسرے کو کافر کہتے اور سمجھتے ہوں۔ اس اصل پر متحد ہو کر یک زبان ہو کر اپنے خیالات کا اظہا ر کر سکتے ہیں۔ کیونکہ گو ایک فریق دوسرے کو کافر سمجھتا ہو مگر کیا اس میں کو ئی شک ہے کہ دنیا کی نظروں میں اسلام کے نام میں سب فرقے شریک ہیں۔ اور اسلام کی ظاہری شان و شوکت کی ترقی یا اس کو صدمہ پہنچنا سب پر یکساں اثر ڈالتا ہے۔ جما عت احمد یہ کے نزدیک ہما رے سلطان ملک معظم جارج خامس فرمانروائے حکومت برطانیہ ہیں۔ اور خلیفہ وقت حضرت مسیح موعودؑ کا صحیح جانشین یہ عا جز ہے۔ مگر باوجود اس کے جماعت احمدیہ اس وقت جب کہ سلطنت برطانیہ کے مفاد اور اس کی عزت کے خلا ف کو ئی امر نہ ہو ترکوں کی سلطنت سے ہر طرح ہمدردی رکھتی ہے۔ کیونکہ باوجود اختلاف عقیدہ رکھنے کے ان کی ترقی سے اسلام کے نا م کی عظمت ہے جس میں ہم دونوں شریک ہیں۔ اس مخلصانہ مشورہ کے بعد میں تمام احباب کرام سے یہ کہنا چاہتا ہوں کہ اگر آ پ لوگ اس طرح اتفاق کے ساتھ ایک مقام پر کھڑے ہو کر کام کرنے کے لئے تیار ہوں تو امید ہے کہ نہ صرف اس غرض کے لئے مفید ہو جس کے لئے یہ جلسہ کیاگیا ہے۔ بلکہ آئندہ کے لئے بھی بہت سے بابرکت نتائج پیدا کرے۔ تو یہ بات بھی آپ لوگوں کو خوب اچھی طرح سمجھ لینی چاہئے کہ بڑے کام بڑی محنت اور بڑی قربانی چاہتے ہیں۔ حکومتوں کا فیصلہ جلسوں کے ساتھ نہیں ہوتا۔ نہ جلسے کسی کے خیالات کے صحیح ترجمان ہو تے ہیں۔ بہت دفعہ لوگ جوش میں آکر چھوٹی چھوٹی باتوں کے لئے جلسے کر لیتے ہیں اور خوب زور دار تقریریں کرتے ہیں مگر وہ تقریریں اور وہ اجتماع ان کے حقیقی خیالات کے ترجمان نہیں ہوتے۔ کیونکہ ابھی زیادہ دن نہیں گزرتے کہ وہ اس امر کو بالکل فراموش کر کے خاموش بیٹھ جاتے ہیں۔ اور ان کی قوت عمل ان کے زور بیان کی تائید نہیں کرتی۔ وہ قوم کبھی کامیاب نہیں ہو سکتی جو خدا تعالیٰ کے مقرر کردہ اس اٹل قانون کو یاد نہیں رکھتی کہ ہر ایک کام کی تکمیل کے لئے ایک وقت مقرر ہے اور ہر ایک کامیابی کے لئے ایک دروازہ ہے۔ جب تک اس وقت تک جو اس کے لئے مقرر ہے صحیح ذرائع سے کوشش نہ کی جا وے کامیابی محال نہیں ناممکن ہے ۔
پچھلی جنگ کو ہی ہم دیکھتے ہیں کہ با وجود بعض جلدبازوں کے اندازہ لگانے کے کہ چند ماہ میں جنگ ختم ہو جائے گی۔ قریبا ًپانچ سال اس پر خرچ ہوئے بلکہ اس سے بھی زیادہ۔ کیونکہ اس کے شعلے کسی نہ کسی جگہ اب تک بھی بھڑک اٹھتے ہیں۔ جن قوموں نے اس میں حصہ لیا انہوں نے کس طرح کام کیا؟ یہ نہیں کہ ملک میں جلسہ کر کے اپنی حکومت کی تائید کر دی اور اپنے کام سے فارغ ہو گئے۔ بلکہ عورت، مرد، بچے اور بوڑھے ہر ایک نے الا ما شاء اللہ اپنا پورا زور لگایا اور جو جنگ پر جا سکتےتھے وہ جنگ کے لئے نکل پڑے اور جو کسی نہ کسی وجہ سےلڑائی کرنے سے معذور تھے انہوں نے دوسرے ایسے کام اختیار کرلئے جن سے جنگ پر جانے والوں کو مدد ملے۔ اور ان کے کام میں آسانی پیدا ہو اور ان کی تکا لیف میں کمی واقع ہو۔ اور ساڑھے چار سال تک تمام افراد ملک نے رات کو رات نہیں سمجھا اور دن کو دن نہیں خیا ل کیا۔ اور صرف وقت کی قربانی ہی نہیں کی بلکہ عقلمندوں نے اپنی عقل خرچ کی۔ مال داروں نے اپنے مال گھروں سے نکال کر با ہر پھینک دیئے اور جائداد والوں نے اپنی جائدادوں کو پیش کر دیا۔ غرض ایک ہی غایت و مدعا ان کے سامنے رہ گیا۔ باقی ہر ایک چیز ان کی نظروں میں ہیچ ہو گئی تب جاکر ایک فریق کو فتح نصیب ہو ئی۔ مگر فتح کےبعد بھی وہ آرام سے نہیں بیٹھے صلح کی تکمیل کے لئے بھی جنگ میں حصہ لینے والی حکومتوں کے سینکڑوں آدمی دن اور رات محنت سے کام کر رہے ہیں۔ اور اس بات کو خوب محسوس کرتے ہیں کہ بہت سے نادان میدان جنگ میں فتح پاکر صلح کے کمرہ میں شکست کھا جایا کرتے ہیں۔ ہر ایک قوم اپنے فوائد پر نظر جمائے بیٹھی ہے اور ایک لحظہ کے لئے ان کو آنکھوں سے اوجھل نہیں ہونے دیتی۔ او ر اس قدر قربانیوں کے بعد وہ اس امر کو برداشت بھی کب کر سکتی ہے کہ وہ فوائد جو اس کا حق ہیں یا جن کا حاصل کرنا وہ اپنا حق سمجھتی ہے یوں ہی اس کے ہاتھوں سے نکل جاویں۔
پس اس کام میں ہاتھ ڈالنے سے پہلے آپ لوگوں کو سمجھ لینا چاہئے کہ یہ کام معمولی کام نہیں ہے۔ ترکوں نے میدان جنگ میں شکست کھائی ہے اور اب وہ مغلوب و مفتوح قوم کی حیثیت میں ہیں۔ ان پر فتح پانے والے ان کے مقبوضہ ممالک کو اپنا جائز حق سمجھتے ہیں اور ان کو آپس میں تقسیم کر لینا یا ان کی حکومت میں اپنے منشاء کے ماتحت تبدیلی کردینا ان کے نزدیک عدل و انصاف کے بالکل مطابق ہے۔ پس وہ کسی قوم یا کسی فرقہ کے کہنے سے اپنے حقوق کو نہیں چھوڑ سکتے۔ ان کو اس بات پر آمادہ کرنا کہ وہ ترکوں کی سابقہ مملکت کو بلا کسی تبدیلی کے چھوڑ دیں یا تبدیلی کریں تو بہت کم، شیر کے مو نہہ سے اس کا شکار چھڑانے سے بہت زیادہ مشکل ہے۔ ہم اس ملک میں دیکھتے ہیں کہ چھوٹے چھوٹے حق کے لئے قومیں آپس میں لڑتی ہیں اور اس کو چھوڑنے پر تیار نہیں ہو تیں۔ تو ایک سلطنت کے معاملہ میں اور پھر ایسی سلطنت کے معاملہ میں جس کا قیام ان کے نزدیک ان کی تہذیب کی حیات و موت کا سوال ہے کانفرنس صلح میں بیٹھنے والی اقوام سے یہ امید کیوں کر کی جا سکتی ہے کہ وہ ہمارے جلسو ں یا ہماری تقریروں سے متأثر ہو کر اپنے مزعومہ حقوق سے فوراً دستبردار ہو جاویں۔ اس کے لئے کو شش کی ضرورت ہے اور محنت کی حاجت ہے۔ پھر کوشش و محنت بھی وہ جو جوانوں کو بوڑھا کردے، صول اتحا د پر مبنی ہو اور سوچ سمجھ کر صحیح ذرائع سے کی جاوے اور اس میں مال و وقت کی قربانی سے دریغ نہ کیا جاوے۔ جب کہ وہ لوگ جو پہلے سے آپس میں معاہدات کر چکے ہیں جو اتحادیوں کی حیثیت رکھتے ہیں جو ایک مذہب و ملت کے ساتھ تعلق رکھتے ہیں ایک قسم کی تہذیب کے اثر کے نیچے ہیں ان معاملا ت کے تصفیہ کے لئے ہزاروں کی تعداد میں ایک مقام پر جمع ہیں۔ اور ہزاروں نہیں لاکھوں اپنے اپنے گھروں میں اس کام کو ٹھیک طور پر سر انجام دینے میں مشغول ہیں۔ کمیشن مقرر کرتے ہیں سب کمیٹیاں بٹھاتے ہیں ہر قسم کے علوم و فنون کے ماہروں سے مشورہ لیتے ہیں آسانی سے فیصلہ نہیں کر سکتے اور ایک ایک سوال کے حل کرنے پر مہینوں لگا دیتے ہیں۔ تو سیاسی نقطۂ خیال سے بے تعلق ایک دوسرے مذہب کی پیرو ایک دوسری تہذیب کی دلدادہ دنیاوی طور پر کمزور او ر ناتواں جماعت کی کمزور آواز کو مفید اور با اثر بنانے کے لئے کس قدر سعی اور کوشش کی ضرورت ہے؟ اگر اس جلسہ کے منعقد کرنے والے اور اس میں شمولیت کرنے والے اس محنت کی برداشت کی طاقت رکھتے ہیں اور اس بوجھ کے اٹھانے کے لئے بخوشی دل تیار ہیں۔ تو پھر یہ سوال باقی رہ جاتا ہے کہ اس کام کے سر انجام دینے کا ذریعہ کیا ہے؟
……………………(جاری ہے)