خطبہ جمعہ

خطبہ جمعہ مورخہ 16؍ نومبر 2018ء

(امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمد خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بںصرہ العزیز)

(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)

أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
اَلْحَمْدُلِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ ۔

گزشتہ جمعہ کو تحریک جدید کے نئے سال کے اعلان کی وجہ سے میں نے امریکہ اور گوئٹے مالا کا جو گزشتہ دنوں سفر کیا تھا اس کے متعلق ذکر نہیں کیا تھا۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے ان دوروں کے بڑے مثبت اثرات ہوتے ہیں۔ اپنوں اور غیروں سے تعلق کے لحاظ سے بھی اور جماعتی انتظامی لحاظ سے بھی براہ راست مشاہدہ اور معلومات سے بہت سی چیزیں میرے علم میں آ جاتی ہیں۔

تین بڑے فائدے تو یہ ہیں کہ ان ملکوں کے پڑھے لکھے طبقے اور اثر و رسوخ والے لوگوں سے رابطہ ہو جاتا ہے، ملاقاتوں کی صورت میں بھی اور مساجد کے افتتاح یا ریسپشن وغیرہ میں۔ دوسرے میڈیا کے ذریعہ سے اسلام اور احمدیت کا تعارف اور حقیقی تعلیم لوگوں کے علم میں آ جاتی ہے۔ اور تیسری بڑی بات یہ ہے کہ افراد سے، افرادِ جماعت سے ذاتی رابطہ اور تعارف ہوتا ہے اور اس کے نتیجہ میں ان کے ایمان و اخلاص اور جو تعلق ہے مودّت و اخوت کا، محبت اور بھائی چارے کا اس میں اضافہ ہوتا ہے۔ خلیفہ وقت اور افرادِ جماعت کے آپس میں براہ راست ملنے، دیکھنے، سننے سے غیر معمولی تبدیلی بھی پیدا ہوتی ہے اور جذبات بھی پیدا ہوتے ہیں۔ پھر ان حالات کے مطابق جو ان ملکوں میں ہوتے ہیں براہ راست خطبات میں ان سے باتیں بھی ہو جاتی ہیں۔

امریکہ میں اس سفر کے دوران اللہ تعالیٰ کے فضل سے تین مساجد کے افتتاح کی توفیق ملی۔ اللہ تعالیٰ ان مساجد کو نمازیوں سے ہمیشہ بھرا رکھے اور افراد جماعت کے اخلاص و وفا میں اضافہ فرماتا چلا جائے۔ بچوں، نوجوانوں، عورتوں، مردوں نے جہاں بھی میں جاتا رہا ہوں، پہلے فلاڈلفیا میں پھر ہیوسٹن میں پھر واشنگٹن میں، اپنے وقت کے اکثر حصے مسجد کے ماحول میں ہی گزارے ہیں۔ بچوں کے ماں باپ پھر دوسرے رشتہ دار اب بھی یہی لکھ رہے ہیں کہ آپ کے آنے سے بچوں کا یہی زور ہوتا تھا کہ جلدی مسجد چلیں اور خلافت کے ساتھ ان کا ایک تعلق کا اظہار ہوتا تھا۔ اور پھر دن کا اکثر حصہ وہ مسجد میں ہی گزارتے تھے۔

امریکہ میں اس دفعہ اسائلم لینے والے اور رفیوجی بن کر آنے والے پاکستانی احمدیوں کی بھی بڑی تعداد تھی جو بڑے مشکل حالات سے گزر کر ملائیشیا، تھائی لینڈ، سری لنکا اور نیپال سے وہاں آئے تھے۔ ان سے ملاقات بھی بعض دفعہ بڑی جذباتی کیفیت پیدا کر دیتی تھی۔ بعض تو بہت زیادہ جذباتی ہو جاتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ ان کو یہاں جہاں آسانیاں اور کشائش ملے وہاں ان میں یہ احساس ہر وقت غالب رہے کہ انہوں نے دین کو دنیا پر مقدم کرنا ہے اور دنیاوی چکا چوند میں ڈوب نہیں جانا۔

اب دورے کے حوالے سے کچھ اور باتیں کرتا ہوں۔ عام طور پر امریکن سیاسی لیڈر بھی، پڑھا لکھا طبقہ بھی اور عام لوگ بھی بات سننے والے اور اچھی بات کو سراہنے والے ہیں، پسند کرنے والے ہیں۔ اسلام کی حقیقی تعلیم ان تک صحیح طرح پہنچی نہیں۔ جن لوگوں تک پہنچی ہے، جن کا جماعت سے رابطہ ہے وہ اسلام کے بارے میں اچھی رائے رکھتے ہیں۔ پس یہ ہمارا کام ہے کہ ہم اسلام کے حقیقی پیغام کو امریکہ میں بھی اور دنیا میں بھی محنت سے اور صحیح طریق سے پھیلائیں۔ اسلام کا حقیقی پیغام جہاں غیر مسلموں کے لئے آنکھیں کھولنے والا ہے اور اسلام کی خوبصورت اور پرامن تعلیم کو واضح کرنے والا ہے وہاں مسلمانوں کو بھی اعتماد دیتا ہے، ان کو بھی پتہ چلتا ہے جو غیر از جماعت مسلمان ہیں کہ حقیقی اسلام کیا ہے۔ اس لئے احساس کمتری کی کوئی ضرورت نہیں۔ یہ اکثر جگہ تجربہ ہوتا ہے اور امریکہ میں بھی ہوا کہ غیر از جماعت مسلمان جب ہمارے سے اسلام کی خوبصورت تعلیم کے بارے میں سنتے ہیں تو ان میں اعتماد پیدا ہوتا ہے کہ ہمیں کسی قسم کے احساس کمتری کی ضرورت نہیں ہے جس کا اظہار بھی انہوں نے کیا۔ بلکہ اسلام ہی دنیا کے مسائل کا حل ہے۔ امن اور سلامتی قائم کرنے کا ذریعہ بھی اسلام ہی ہے۔ معاشی اور معاشرتی مسائل کے حل کی طرف بھی اسلامی تعلیم ہی رہنمائی کرتی ہے۔ بعض غیر از جماعت مسلمانوں نے اس بات کا اظہار کیا جو ہمارے فنکشنز(functions)پر آئے تھے کہ اسلام کی خوبصورت تعلیم جس طرح آپ پیش کرتے ہیں یہی حقیقی طریق ہے۔ غیر مسلم تو یہ پیغام سن کر حیران بھی ہوتے ہیں اور اپنے خیالات کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ اگر یہ اسلامی تعلیم ہے تو یقیناً لگتا ہے یہ کامیاب ہونے والی تعلیم ہے۔ بعض مہمانوں کے تاثرات بھی میں پیش کر دیتا ہوں۔

فلاڈلفیا میں مسجد بیت العافیت کا جو افتتاح ہوا ہے اس میں آنرایبل ڈوائٹ ایونز(Hon. Dwight Evans) ،یہ ممبر ہیں یوایس کانگریس کے وہ آئے ہوئے تھے۔ انہوں نے بڑے اچھے الفاظ میں مجھے کہا کہ مَیں آپ کا اس بڑے شہر میں استقبال کر رہا ہوں۔ یہ شہر جو بہن بھائیوں جیسی محبت کا شہر ہے۔ فلاڈلفیا کی انتظامیہ کی طرف سے مَیں ایک مسلمان کمیونٹی کو کہنا چاہتا ہوں کہ ہم آپ لوگوں کے امن کے پیغام کو یہاں خوش آمدید کہتے ہیں۔ پھر کہتے ہیں کہ بعض امریکیوں کی جانب سے حالیہ سالوں میں اسلام کے خلاف بعض آراء سامنے آئی ہیں لیکن کہتے ہیں کہ میں آپ کو بتانا چاہتا ہوں کہ یہاں کی اکثریت آپ کو خوش آمدید کہتی ہے۔ ہم آپ لوگوں کے ساتھ ہیں ،نفرت، تعصّب اور تشدد کے خلاف کھڑے ہیں۔ پھر اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ آپ نے امن قائم کرنے کے حوالے سے بہت ہی عمدہ پیغام دیا ہے۔ بدقسمتی سے ہم امریکہ میں ایک تاریک دَور سے گزر رہے ہیں اور ایسے دَور میں یہ پیغام بہت شاندار تھا۔ اس سے ثابت ہوتا ہے کہ مسلمان کمیونٹی نہ صرف امریکہ بلکہ تمام دنیا کے لئے کتنی اہم ہے۔ اور پھر یہ کہتے ہیں ہمیں مستقبل میں امید اور امن چاہئے۔ فلاڈلفیا کی مذہبی آزادی کے حوالے سے ایک اہمیت ہے۔ فلاڈلفیا کے بارے میں مشہور ہے کہ وہاں ہر ایک مذہب کے مذہبی آزادی کے ساتھ رہنے کے لئے معاہدہ ہوا تھا۔ کہتے ہیں ایک اہمیت ہے اور یہ مقام آپ لوگوں کی مسجد کے لئے ایک شاندار مقام ثابت ہو گا۔

تو یہ خیالات ہیں۔ اسی طرح وہاں کے میئر بھی آئے ہوئے تھے اور بعض دوسرے لیڈر بھی تھے۔ پھر میئر جیمز کینی(James Kenney) نے بھی یہی کہا کہ فلاڈلفیا شہر کی تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ مذہبی آزادی اس شہر کے بنیادی اصولوں میں شامل ہے۔ یہ شہر اسی بنیاد پر تعمیر کیا گیا تھا۔ ہمارا تعلق بیشک مختلف قوموں اور نسلوں سے ہو لیکن یہ شہر ہر ایک کو خوش آمدید کہے گا۔ پھر انہوں نے کہا کہ ہم ایک دوسرے کے ساتھ مل جل کر کام کریں، ایک دوسرے کے ساتھ عزت اور احترام کے ساتھ پیش آئیں اور دنیا کو یہ بتائیں کہ ہم ایک ساتھ مل کر رہ سکتے ہیں۔ اور ہم اپنے مسائل کا خاتمہ کر سکتے ہیں اور اپنے بچوں کے مسائل کا خاتمہ کر سکتے ہیں۔ یہ وہ تعلیم ہے جو حقیقت میں اسلام کی تعلیم ہے جسے دوسرے اپنا رہے ہیں اور مسلمان بھول رہے ہیں

۔
پھر اس پروگرام میں ایک جج ہیری شوارٹز(Harry Schwartz) صاحب بھی شامل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں کہ میں اس جماعت سے 25 سال سے واقف ہوں اوریہاں کے صدر صاحب سے کئی مرتبہ ڈنر پر مختلف مسائل پر بات ہوئی ہے۔ پھر میرے ایڈریس کے بعد انہوں نے کہا کہ یہ پیغام جو ہے محبت اور ہم آہنگی اور مل بیٹھنے کا پیغام ہے۔ اگر یہ سمجھ لیا جائے تو میرے خیال میں ہم سب بہتر حالات میں ہوں گے۔

ایک افریقن امریکن نومسلم ہیں کہتے ہیں کہ یہاں مسجد کی بہت ضرورت تھی۔ یہ بہت اچھا سینٹر بن گیا۔ کہا جاتا ہے کہ ماحول کو بہتر کرنے کے لئے دس سال لگتے ہیں لیکن میں نے دو سال میں معاشرہ بہتر ہوتے دیکھا ہے جس سے ثابت ہوتا ہے کہ اگر لگن ہو تو اکٹھے مل کر یہ کام کیا جا سکتا ہے۔ اور پھر ایڈریس کے بعد کہتے ہیں یہ ایک حیرت انگیز پیغام ہے اور آپ کی ہر بات دل کو لگی۔ یہ احمدی نہیں ہیں مسلمان ہوئے ہیں۔

پھر ایک افریقن امریکن خاتون کہتی ہیں کہ مجھے تقریر سے بہت کچھ سیکھنے کو ملا۔ امید ہے کہ ہم اب اسے اپنی زندگیوں کا حصہ بھی بنائیں گے اور اگر ہم ان باتوں پر عمل کریں تو ہم یقیناً صراط مستقیم پر ہیں۔ یہ بھی احمدی نہیں تھیں۔

پھر ایک خاتون ہیں حانیہ (Haniyyah) صاحبہ وہ کہتی ہیں کہ جو پیغام آپ لوگوں نے دیا ہے اس کے ذریعہ سے اسلام کے خلاف پھیلائی جانے والی غلط فہمیوں کا ازالہ ہو گا ۔اور بہت خوشی ہوتی ہے کہ یہاں مسلمانوں کا ایک سینٹر بن گیا ہے۔ لوگوں میں اسلام کے خلاف تعصب پایا جاتا ہے جو کہ سراسر غلط ہے۔ اور آپ کا پیغام بہت مضبوط تھا۔ میں امید کرتی ہوں کہ زیادہ سے زیادہ یہ پیغام پھیلے اور امریکہ کے لوگ اسلام کی حقیقت کو جانیں۔

ایک لوکل کونسلر مسجد کے افتتاح پہ ریسپشن میں شامل ہوئے وہ کہتے ہیں کہ آپ کا امن کا پیغام بہت ہی ضروری تھا۔ خاص کر موجودہ حالات کے تناظر میں یہ پیغام اور بھی زیادہ اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ میرے لئے یہاں آنا بہت اعزاز کی بات ہے۔ مَیں نے اس مسجد کو اپنے سامنے تعمیر ہوتے دیکھا ہے۔ یہاں اس مسجد کا قیام اس علاقے کے لئے بہت ہی برکت کا باعث ہے۔ جو پیغام آپ نے دیا ہے کہ آپ لوگ ہمسایوں کی ضرورت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑے ہوں گے میرے خیال میں صرف یہاں فلاڈلفیا میں ہی نہیں تمام امریکہ میں اس پیغام کی ضرورت ہے۔

ایک فلسطینی مسلمان خاتون شامل ہوئی تھیں۔ کہتی ہیں کہ آپ کا پیغام بہت اہم تھا۔ میرا تعلق فلسطین کے ایک چھوٹے سے گاؤں سے ہے۔ وہ حقیقی تعلیمات جو میں نے بچپن میں سیکھی ہیں وہ آج آپ کے خطاب میں دیکھنے کو ملی ہیں، یہی حقیقی اسلام ہے جس کا ذکر ہوا ہے۔ ہم جس بھی فرقے سے تعلق رکھتے ہوں ہمارا فرض ہے کہ امن کے لئے متحد ہو کر کام کریں۔ پھر کہتی ہیں کہ آپ نے حقیقی رنگ میں تمام مسلمان کمیونیٹیز (communities)کی نمائندگی کی ہے۔ یہ تو ان نیک فطرت لوگوں کا خیال ہے لیکن باقی مسلمان بھی اس بات کو سمجھیں کہ جماعت احمدیہ ہی حقیقت میں اسلام کی نمائندگی کر رہی ہے۔

ایک خاتون ٹیچر کہتی ہیں کہ آپ کا امن کا پیغام بہت شاندار تھا۔ گو کہ میں کیتھولک ہوں لیکن ایک ایک لفظ سے اتفاق کرتی ہوں۔ مَیں یقین سے کہتی ہوں کہ اسلام امن کا پیغام دیتا ہے۔ اسلام خدمت انسانیت کا درس دیتا ہے۔

ایک پروفیسر جو اپنی یونیورسٹی کے پریذیڈنٹ کی نمائندگی کر رہے تھے وہ کہتے ہیں کہ آپ نے جو اس شہر کے لوگوں کے لئے نیک خواہشات کا اظہار کیا ہے ان کا تعلق اب سے نہیں بلکہ آنے والے وقت سے ہے۔ ایک چیز جو مَیں نے آپ میں دیکھی ہے وہ یہ ہے کہ آپ صرف موجودہ وقت کی بات نہیں کر رہے ہوتے بلکہ آپ کی نظر آنے والے وقت پر ہوتی ہے اور پھر انہوں نے کافی اچھے الفاظ میں ایڈریس کو سراہا۔ کہتے ہیں کہ آپ نے یہاں ایک بیج بو دیا ہے اب ہمارا یہ کام ہے کہ اس کی نگہداشت کریں اور اسے بڑھائیں اور اس کو بھائی چارے اور محبت کے مضبوط درخت میں تبدیل کریں۔

ایک خاتون اپنے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آپ نے جو یہ کہا کہ ہم آپ لوگوں کے آنسو پونچھیں گے۔ کتنے لوگ ہیں جو یہ کہہ سکتے ہیں؟ یہ بہت حیرت انگیز تھا۔ میں اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکی۔ اپنا پیغام دینے کے لئے ضروری نہیں کہ اونچی اور جوشیلی تقریر ہو۔ وہ پیغام آپ نے بہت ہی محبت اور پیارے انداز میں دے دیا ہے۔ میں نے یہ کہا تھا کہ غریبوں کی مدد کے لئے ہم ہر وقت تیار ہیں اور اگر کوئی تکلیف میں ہو تو ہم ہوں گے جو ان لوگوں کے آنسو پونچھنے والے ہوں گے۔

ایک غیر احمدی امام صاحب بھی اس پروگرام میں شامل ہوئے تھے۔ وہ کہتے ہیں کہ احمدیوں سے میرا پہلا تعلق جماعت کی جانب سے کئے گئے قرآن کریم کے ترجمہ کی وجہ سے ہوا تھا۔ یہ وہ ترجمہ ان کے پاس ہے جو مولوی محمد علی صاحب کا ترجمہ ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ آپ کا پیغام بڑا اچھا تھا۔ مجھے آپ سے سو فیصد اتفاق ہے۔ یہی ہمارا مشن اور مقصد ہے۔ ہم سب آدم کی اولاد ہیں اور ہم ایک دوسرے کا معیار زندگی بڑھانے کے لئے کوشش کرتے رہنا چاہئے۔ ہم نے مل کر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے حقیقی پیغام کو پھیلانا ہے۔ اللہ کرے یہ صرف ان کے الفاظ نہ ہوں بلکہ عمل کرنیو الے بھی ہوں۔

پھر اگلے دن بالٹی مور(Baltimore) کی مسجد کا بھی افتتاح ہوا جس کا نام ’بیت الصمد‘ ہے۔ اور یہ بھی ایک چرچ کی بلڈنگ تھی جو خریدی گئی ہے اور پھر اس کو ٹھیک کر کے اس کو مسجد میں تبدیل کیا گیا ہے اور اتفاق سے یہ عمارت ایسی رُخ پر بنائی گئی ہے کہ تقریباً تقریباً کیا، 99.9% یہ قبلہ رخ ہے اس لحاظ سے کسی تبدیلی کی ضرورت نہیں پڑی۔ اور کیونکہ وہاں میں نے کوائف بیان نہیں کئے تھے اس لئے اس مسجد کے تھوڑے سے کوائف بھی بیان کر دیتا ہوں۔ 20 لاکھ ڈالر اس کی خرید پر خرچ آیا ہے۔ اس میں مردوں اور عورتوں کے لئے علیحدہ علیحدہ ہال ہیں جن میں 400 لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ دفاتر ہیں، لائبریری ہے، کلاس رومز ہیں، کمرشل کچن ہیں، ڈائننگ ہال وغیرہ موجود ہیں۔ ہائی وے پر واقع ہے اور یہاں اس ہائی وے پر روزانہ تقریباً 45 ہزار گاڑیاں گزرتی ہیں۔

بالٹی مور کی میئر ریسپشن میں آئی تھیں۔ یہ کہتی ہیں کہ آپ نے امن کے حوالے سے بات کی ہے۔ یہ وہ پیغام ہے جو آج وقت کی ضرورت ہے۔ نہ صرف ہمارے شہر میں بلکہ ہماری سٹیٹ اور پھر تمام یوایس اے اور تمام دنیا میں اس پیغام کی اشد ضرورت ہے۔ میں سمجھتی ہوں کہ یہ پیغام ہر ایک کو سننا چاہئے۔ اگر ہم سنیں گے تو ہمیں معلوم ہوگا کہ دنیا کے مسائل کا واحد حل امن ہی ہے اور ہم ایک دوسرے سے محبت کرنا سیکھیں گے۔

ایک یونیورسٹی پروفیسر یہاں بالٹی مور میں اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ جہاں ہمارے مابَین اختلافات ہیں اس کی جگہ ہم میں بہت سی چیزیں مشترک ہیں۔ اور یہ ایک حیرت انگیز پیغام تھا جس کے ذریعہ ہم معاشرے میں اہم تبدیلی پیدا کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایک دوسرے کے ساتھ مل کر کام کرنا ہے، ایک دوسرے کا احترام کرنا ہے۔ یو ایس اے کے ماحول میں یہ پیغام بہت اہم ہے۔ بطور امریکی ہمیں نہ صرف اپنے لئے بلکہ اپنے بچوں کے لئے کام کرنا ہے۔ معاشرے میں سب کو ساتھ مل کر آگے چلنا چاہئے۔ مجھے اس حیرت انگیز پیغام نے بہت متاثر کیا۔

پھر ڈسٹرکٹ 48 سے ایک سٹیٹ نمائندہ آئی تھیں وہ کہتی ہیں کہ یہ پیغام سن کے مَیں بڑی متاثر ہوئی خاص کر ایسے حالات میں جب مسلمانوں کے حوالے سے معاشرے میں خوف پایا جاتا ہے اور اس ملک میں نسلی بنیادوں پر تفریق ہے۔ ان حالات میں مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ نے ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی طرف توجہ دلائی ہے۔ آپ نے ہمیں بتایا ہے کہ ہر ایک سے محبت کرو اور کسی سے نفرت نہ کرو۔ یہی وہ باتیں ہیں جو ہمیں چاہئیں۔ محبت، امن، انصاف بالٹی مور کو یہ اعلیٰ اقدار حاصل کرنے کی ضرورت ہے۔ ان کے خاوند بھی تھے وہ کہتے ہیں کہ میری اہلیہ نے کہا ہے کہ یہ ہمارے لئے بہت اہم پیغام ہے۔ پھر کہتے ہیں کہ ہم خود کوشش کر کے جتنی بھی معاشرے کی بہتری کی باتیں کر لیں اس کا اتنا اثر نہیں ہوتا جتنا امام جماعت احمدیہ کی موجودگی سے یہاں ہوا ہے۔ اور مسلم کمیونٹی صرف یہاں ہی نہیں بلکہ تمام یو ایس اے میں جماعت احمدیہ ایک شاندار کردار ادا کر رہی ہے۔

ایک پادری صاحب فادر جو(Father Joe) بھی شامل ہوئے۔ وہ کہتے ہیں آپ کے خطاب کے دوران مَیں ایک ایک بات سے اتفاق کر رہا تھا کیونکہ میں بالٹی مور میں کئی مرتبہ احمدیہ مسجد گیا ہوا ہوں اور میں یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ جو کچھ آپ نے کہا ہے گزشتہ چند سالوں سے دوسری مسجد میں ہوتا دیکھ رہا ہوں۔ مسجد تمام کمیونٹی کے لئے کھلی ہے۔ میں کئی مرتبہ جمعہ پر بھی گیا ہوں۔ میں ان تمام باتوں کے عملی اظہار کا گواہ ہوں۔ مجھے یہ باتیں سن کر بہت خوشی ہوئی۔ یہاں مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والے اکٹھے ہیں اور امن کی باتیں کر رہے ہیں۔ یہی وہ بات ہے جس کی نہ صرف ہمارے اس شہر کو بلکہ تمام دنیا کو ضرورت ہے۔

پھر ایک خاتون اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ آجکل کے حالات میں میرے لئے اس خطاب میں بہت ہی اہم پیغام تھے۔ مسلمانوں اور غیر مسلموں، کالے اور گورے کے درمیان یہاں بہت خلیجیں حائل ہیں۔ ہمیں ان سب دوریوں کا حل تلاش کرنا ہے اور یہ باہمی احترام ہی سے ممکن ہے۔ اور جو آپ نے ہمسائے کی تعریف کی ہے اور جو ہمسائے سے حسن سلوک کا پیغام دیا ہے یہ میرے لئے بہت ہی شاندار تھا۔ اس پیغام کو سن کر مجھے اسلام کے بارے میں مزید جاننے کی ترغیب ہوئی ہے۔ اور آپ لوگوں کا بہت شکریہ۔

41 ڈسٹرکٹ کےایک ریپریزنٹیٹیو آف سٹیٹ (Representative of State) تھے بلال علی صاحب، مسلمان تھے۔ کہتے ہیں کہ آپ نے جو پیغام دیا ہے اس کی گونج یہاں تمام افراد میں سنائی دے رہی ہے۔ باہمی اتحاد، یگانگت، محبت اور پیار کی فضا قائم کرنے میں یہ پیغام بہت اہم ہے۔ اسلام کے خلاف جو تحفّظات پائے جاتے ہیں انہیں دور کرنے میں بہت مدد ملے گی۔ پھر کہتے ہیں آپ نے بروقت بہت سے مسائل کا حل ہمیں بتا دیا ہے خاص کر یہاں کے حالات میں جہاں کافی حد تک سیاسی طور پر جو لوگوں کے بیان ہیں، کوششیں ہیں وہ بھی مسلمانوں کے خلاف جذبات ابھار رہی ہیں۔ آپ نے یہاں آ کر ان امور کے حوالے سے بہت اچھی رہنمائی کی ہے۔ ایسے ماحول میں بہت ہی پُرحکمت دلائل سے پُر پیغام دیا ہے جس سے کوئی بھی عقل رکھنے والا انکار نہیں کر سکتا۔ میں نے معاشرے میں امن قائم کرنے کا بہت آسان حل آپ سے سیکھا ہے وہ یہ کہ اپنے گھر سے شروع کریں۔ ہمسائے سے حسن سلوک کریں۔ آپ کو تمام دنیا کو بدلنے کی ضرورت نہیں صرف وہ افراد جن سے آپ ملتے جلتے ہیں ان میں پیار بانٹیں، ان کی خدمت کریں تو تمام معاشرہ پُرامن ہو جائے گا۔ پھر یہ بھی ایک آسان نسخہ آپ نے بتایا کہ اسلام کہتا ہے کہ دعوت حق کرو، اصل تو آپ کا اپنا نمونہ ہے جس سے دعوت حق ہوسکتی ہے۔ پھر یہ کہتے ہیں کہ بالٹی مور میں حالات کا مقابلہ کرنے کے لئے احمدیہ مسلم جماعت میدان میں آئی ہے اور معاشرے میں ایک مثبت کردار ادا کرنے کے لئے اپنے عزم کا اظہار کیا ہے۔ یہ بہت ہی قابل تقلید نمونہ ہے۔ اللہ تعالیٰ جماعت کو وہاں ایسا نمونہ دکھانے کی توفیق بھی دیتا رہے۔

ایک مشعل(Michelle) صاحبہ ہیں پریسبیٹیرین چرچ(Presbyterian Church) میں منسٹر ہیںکہتی ہیں کہ بڑا اچھا پیغام تھا۔ آپ نے باہمی اتحاد یگانگت پر زور دیا۔ خوف ختم کر کے محبت قائم کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ یہ پیغام بہت اہمیت کا حامل ہے۔ مسجد کے قیام کے جو مقاصد آپ نے بیان کئے یہ بہت اچھے ہیں۔ پھر ہمسایوں سے حسن سلوک کی تعلیم کا بھی ذکر کیا۔ میرے لئے یہ نئی چیزیں ہیں۔ مجھے آج معلوم ہوا ہے کہ عیسائیت میں جو پیار محبت کی تعلیم دی گئی ہے یہ تو وہی باتیں ہیں جبکہ میڈیا اسلام کے بارے میں ایک الگ چیز پیش کرتا ہے۔

ایک ہسٹورین(historian) ڈاکٹر فاطمہ کہتی ہیں کہ میری سپیشلائزیشن ’یو ایس اے میں اسلام‘ ہے اور اس حوالے سے میں نے یو ایس اے میں اسلام کی تاریخ پر کافی کام کیا ہوا ہے۔ میں کوئی دینی سکالر نہیں ہوں بلکہ صرف تاریخ دان ہوں۔ اس حوالے سے آپ نے جو یہ کہا کہ حضرت مرزا غلام احمد صاحب نے اس دور میں اسلام کی تجدید کی ہے میرا ذہن اسی طرف لگا ہوا ہے اور میں اب اس حوالے سے مزید تحقیق کو بڑھاؤں گی۔ مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی کہ اب میری تحقیق کا محور نہ صرف حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ والسلام ہیں بلکہ آپ کی تحریرات اور ارشادات بھی ہیں جن کے ذریعہ سے آپ نے یہ احیاء فرمایا۔ آپ کا پیغام ایک حیرت انگیز پیغام ہے۔ آپ نے اسلامی حسن سلوک کو دیگر مذاہب تک محدود نہیں رکھا بلکہ غیر مذہبی افراد سے بھی حسن سلوک کا ارشاد فرمایا۔ پھر کہتی ہیں کہ آپ کا یہ نظریہ ہے کہ بلا تفریق رنگ و نسل اور مذہب ہم سب ایک ہو کر بنی نوع انسان کی بھلائی کے لئے کام کریں۔ کیا ہی اچھا پیغام ہے۔ بطور مسلمان ہمیں شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اس لئے ایک مسلمان کی جانب سے اسلامی تعلیم بیان کیا جانا ایک احسن قدم ہے۔

پھر ورجینیا(Virginia) کی مسجد کا افتتاح ہوا اور اس کا نام ’مسجد مسرور‘ ہے۔ 3؍نومبر کو یہ افتتاح تھا۔ یہ بھی ایک چرچ کی بلڈنگ ہے جو خریدی گئی۔ کل رقبہ 17.6 ایکڑ ہے اور پانچ ملین ڈالرز میں یہ خریدی گئی تھی اور اس کی رینوویشن وغیرہ پر تھوڑی سی تبدیلی کر کے مزید 75 ہزار ڈالرز خرچ کئے گئے۔ یہ بھی تقریباً قبلہ رخ عمارت ہے۔ اس کا مسقف حصہ بائیس ہزار چار سو تین مربع فٹ ہے۔ مردوں اور خواتین کے علیحدہ علیحدہ ہالز ہیں جن میں 650 لوگ نماز ادا کر سکتے ہیں۔ اس کے علاوہ گیارہ کمرے ہیں جو بطور دفاتر استعمال ہوں گے۔ ایک لائبریری ہے، ایک کانفرنس روم ہے، ایک کمرشل کچن بھی موجود ہے۔

یہاں ایک دوست کوری سٹورٹ (Corey Stewart)جو کہ یو ایس ریپبلکن کے سینیٹ (Senate)کے امیدوار ہیں وہ کہتے ہیں کہ جو مَیں نے خطاب سنا یہ دلکش اور حکمت سے پُر تھا۔ امریکہ کو اور ساری دنیا کو محبت سب کے لئے نفرت کسی سے نہیں کا پیغام غور سے سننا چاہئے اور اس پر عمل کرنا چاہئے خاص طور پر جب دنیا کے حالات اچھے نہیں ہیں۔ یہ نہایت ضروری ہے کہ مذہبی آزادی کا پرچار کریں اس لئے یہ مسجد ہمارے لئے باعث فخر ہے کیونکہ آپ لوگ ملک کے لئے بہت کچھ کرتے ہیں۔

ایک مہمان مائٹ واٹرز(Matt Waters) جو ورجینیا کے سینیٹ کینڈیڈیٹ(Senate Candidate) ہیں یہ بھی کہتے ہیں کہ میں نے خطاب سنا۔ اب میں مزید پڑھوں گا اور انٹرنیٹ سے معلومات لوں گا اور مزید اسلام سیکھنے کے لئے آپ کی مسجد میں آنا چاہوں گا۔ ایک عیسائی مہمان کہتے ہیں کہ یہ پیغام موجودہ حالات کے عین مطابق تھا۔ بہت ضروری تھا۔ ہم نے امن کا پیغام سنا میں بہت ہی متاثر تھا اور حیران تھا۔

پھر 51 ڈسٹرکٹ سے ورجینیا کی ڈیلیگیٹ یہ کہتی ہیں کہ پیغام بہت ہی حیرت انگیز تھا۔ خاص کر یوایس اے کے موجودہ حالات میں یہ بہت شاندار تھا۔ آپ کا پیغام محبت کا تھا، اتحاد کا تھا۔ آپ نے کہا کہ دوسروں کو اپنے پر مقدّم سمجھو، بے نفس ہو کر خدمت کرو۔ آجکل کے سیاسی ماحول میں ہمیں ایسے ہی پیغام کی ضرورت ہے۔ دوسروں کو اپنے پر فضیلت دینا ایک بہت اچھا اور روحانیت سے بھرپور پیغام ہے۔ اپنے ہمسایوں کا خیال رکھنا، دوسروںکے آرام کو اپنے آرام پر ترجیح دینا بہت ہی شاندار ہے۔ ایسے مواقع پر جبکہ اپنی انا کو فوقیت دی جاتی ہے آپ نے کہا دوسروں کو فوقیت دو۔

اسی طرح ایک مہمان ایلکس کیسے(Alex Keiseh) کہتے ہیں کہ میں بڑا متاثر ہوا ہوں۔ مَیں اس لحاظ سے بہت جذباتی ہو گیا تھا کہ میں ہولو کاسٹ سروائیور ہوں۔ اور پیغام بہت متاثر کن تھا۔ آپ کا ایک ایک لفظ میری روح تک اثر کر رہا تھا۔ آپ کا پیغام اس لحاظ سے بھی بہت پُرحکمت تھا کہ ہم نفرت سے نہیں لڑ سکتے۔ نفرت کے ازالے کے لئے صرف ایک ہی راہ ہے اور وہ یہ ہے کہ محبت قائم کرنے کے لئے جہاد کیا جائے۔ نفرت کو محبت سے ختم کیا جائے ۔یہ محبت ہر مذہب کے درمیان پیدا کی جانی چاہئے۔ اور ایسی محبت کی بے شمار مثالیں ہمارے معاشرے میں موجود ہیں جیسا کہ آپ لوگوں کا یہ پروگرام ہے۔ لیکن آجکل جو میڈیا میں دیکھنے کو مل رہا ہے وہ ایک چھوٹی سی اقلیت ہے اور گمراہ کن عناصر ہیں اور میڈیا ان کو بڑھا چڑھا کر پیش کر رہا ہے ہمیں اس کے بجائے باہمی محبت کو پھیلانا چاہئے۔ اور یہ بڑے جذباتی تھے۔ بعد میں مجھے ملے بھی تو پہلے ذرا سے جذباتی ہوئے اس کے بعد باقاعدہ رونے لگ گئے کہ اس پیغام سے بڑا مجھ پر اثر ہوا ہے۔

ایک خاتون شنین صاحبہ نیو جرسی میں سرجیکل کوآرڈینیٹر ہیں کہتی ہیں کہ اسلام کی خوبصورت تعلیمات کے بارے میں دوبارہ بتایا گیا۔ میرا بھی یہی نظریہ ہے کہ چند انفرادی لوگوں کی بری حرکات کی وجہ سے پورے مذہب کو ملزم ٹھہرانا اپنی ذات میں ظلم سے کم نہیں۔ کہتی ہیں کہ ہمارے یہاں امریکہ میں ہر روز کوئی نہ کوئی حادثہ اور واقعہ ہوتا ہے مگر اس کے لئے پورے مذہب کو قصور وار ٹھہرانا غلط ہے۔ ایک مہمان جو پولیس ڈیپارٹمنٹ میں گزشتہ چالیس سال سے کام کر رہے ہیں کہتے ہیں کہ یہ پیغام پوری دنیا کے لئے پیغام تھا۔ اس میں امن اور شانتی اور پیار اور محبت اور حقوق کے حوالے سے ضرورت کے مطابق نصائح کی گئیں۔ ہمارے یہاں مختلف رنگ و نسل کے چار لاکھ ساٹھ ہزار لوگ بستے ہیں اور آج کے پیغام میں سب سے اہم بات ہمسائے کے حقوق کے بارے میں تھی۔

پھر ایک خاتون ڈاکٹر کمبرلے (Kimberly)جو کریمینالوجسٹ (Criminologist)ہیں اور مصنفہ بھی ہیں اور انہوں نے پی ایچ ڈی کی ہوئی ہے۔ کہتی ہیں کہ آج کے خطاب میں امن اور انصاف کے حوالے سے بہت گہرے پیغامات سننے کو ملے۔ اور رنگ و نسل میں امتیاز کے بغیر ہر ایک کو اس پیغام کے مطابق اتحاد کی فضا قائم کرنی ہو گی۔ آج کے خطاب میں آپ نے اسلام کی حقیقی شکل سامنے لا کر رکھی اور اس کا خلاصہ امن و انصاف اور مساوات کا ماحول پیدا کرنا ہے۔ پھر موصوفہ اپنے تاثرات بیان کرتے ہوئے جذباتی بھی ہو گئی تھیں اور آنسوؤں میں لبریز کہہ رہی تھیں کہ آجکل جو لوگ ظلم و بربریت کے مظاہرے دکھا رہے ہیں اور مذہب کے نام پر ہماری کمیونیٹیز اور ملک میں فسادات پھیلا رہے ہیں ان کا مذہب سے کوئی واسطہ نہیں اور یہ جاننا ہر انسان کے لئے بہت ضروری ہے۔

ایک خاتون لورین(Lorraine) صاحبہ اپنے تاثرات کا اظہار کرتے ہوئے کہتی ہیں۔ مَیں تیس سال سے اس علاقے میں ہوں اور یہاں کے بدلتے حالات دیکھے ہیں۔ حالیہ فائرنگ کے واقعات بہت افسوسناک ہیں۔ ایسے مواقع پر پیار محبت اور روادار ی کا پیغام بہت ہی شاندار تھا۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ مجھے بھی یہاں مدعو کیا گیا۔ مجھے یہاں آ کر احمدیہ مسلم جماعت کے بارے میں بہت کچھ جاننے کا موقع ملا۔ مسجد اس علاقے میں ایک خوبصورت اضافہ ہے اس سے مجھے کوئی خطرہ نہیں ہے۔ یہ پرامن جگہ ہے۔ میں مسلمان نہیں ہوں اور میں اس مسجد میں آئی ہوں مجھے یہاں خوش آمدید کہا گیا ہے، یہی ہمارے معاشرے کی ضرورت ہے۔ میں کہنا چاہتی ہوں کہ اب آپ کے یہاں مزید پروگرام بھی ہوںگے۔ ان پروگراموں میں مسلمانوں کے علاوہ دیگر مذاہب سے تعلق رکھنے والے لوگوں کو مدعو کیا کریں۔

ان مساجد کے افتتاح کے علاوہ جیسا کہ اکثر جانتے ہیں کہ گوئٹے مالا میں ہیومینٹی فرسٹ کا ہسپتال کھولا گیا ہے اس کا افتتاح بھی تھا۔ وہاں بھی کچھ سیاسی لوگوں سے تعلقات ہیں۔ وہاں کی ایک ممبر آف کانگریس ہیں جو یہاں جلسہ یوکے میں بھی دو دفعہ آ چکی ہیں۔ وہ وہاں ایئر پورٹ پہ استقبال کے لئے آئی ہوئی تھیں اور انہوں نے ہسپتال کے بارے میں بڑے اچھے خیالات کا اظہار کیا اور جماعت کا شکریہ ادا کیا کہ جماعت ہمارے ملک میں ہسپتال کھول رہی ہے اور کمیونٹیز کے اندر ایک محبت اور یگانگت پیدا کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔

رابرٹ کینو (Robert Cano)صاحب جو پیراگوئے میں وائس منسٹر آف ایجوکیشن ہیں انہوں نے اس موقع پہ افتتاح میں شامل ہو کر کہا کہ بڑا اچھا ایونٹ تھا۔ میں کافی حیران ہوں ایک ایسی جماعت ہے کہ اس کے افراد نے باہم مل کر اس کو تکمیل تک پہنچایا ہے اور ضرورت مندوں کی مدد کے لئے یہ سب کچھ کیا ہے۔ اور انسانوں سے عملی طور پر پیار کا اظہار ہے یہ۔ اور پھر کہتے ہیں کہ انسانیت یہی پیار کا راستہ اپنائے گی تو پھر دنیا میں امن قائم ہو گا اور اسلامی مذہب اور کلچر کو بہت قریب سے جاننے کا میرے لئے اچھا تجربہ تھا۔ جماعت احمدیہ کے بارے میں بہت سے میرے سوال تھے جن کے جوابات مجھے یہاں آ کر مل گئے۔ اور کچھ سالوں سے جماعت احمدیہ پیراگوئے میںبھی قائم ہو چکی ہے۔ انہی کی دعوت سے یہ پیراگوئے سے افتتاح پہ آئے ہوئے تھے۔

ایک گوئٹے مالن ڈاکٹر تھیں ڈیانا (Diana)صاحبہ وہ کہتی ہیں کہ اس خطاب میں جو غریبوں کی مددکرنے کا پیغام تھا میں خود بھی اس پر عمل کروں گی۔ اور کہتی ہیں خدا کا شکر ہے کہ مذہب یہی سکھاتا ہے کہ غرباء کی مدد کی جائے اور یہی خلیفہ نے اپنی تقریر میں کہا ہے۔
پھر ایک گوئٹے مالن صحافی ہیں وہ کہتے ہیں کہ جس چیز نے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے وہ یہ ہے کہ مذہب میں جبر نہیں ہے بلکہ ہمیں ایک دوسرے کا خیال بھی رکھنا چاہئے اور یہی پیغام امام جماعت نے ہمیں دیا۔ نیز یہ بھی کہ ہم سب برابر کے حقوق رکھتے ہیں۔ ہر انسان کو ایک عمدہ معیار زندگی ملنا چاہئے۔

ایل پیریودیکو (El Periódico)اخبار کے ایک صحافی فرناندوپینیتا (Fernando Pineta)کہتے ہیں کہ اس تقریر کا مجھ پر بڑا اچھا اثر ہوا جو آپ نے کی اور ملاقات بھی بڑی اچھی رہی۔ اور میں کہنا چاہوں گا کہ ناصر ہسپتال کا پراجیکٹ بڑا اچھا پراجیکٹ ہے اور ہمیں اس ملک میں اور بھی ایسے پراجیکٹ چاہئیں۔

پھر ایک بنک آفیسر ہیں وہ کہتے ہیں کہ آپ کے اس خطاب کا خلاصہ یہی تھا کہ مخلوق سے ہمدردی کرنا اور یہاں جو آپ نے ناصر ہسپتال کھولا ہے یہ اس کی ایک واضح اور عمدہ مثال ہے۔

پھر ایک بنک منیجر ہیں وہ کہتے ہیں کہ بڑا خوبصورت اور آسان فہم پیغام تھا، پوری مسلم امہ کی طرف سے دیا ہے کہ انسانیت کی مدد کرنا سب کا فرض ہے۔ اور یہ بات بھی بہت دلچسپ تھی کہ جماعت احمدیہ کی فلاسفی سے آج متعارف ہوا اور اب میں مزید معلومات لوں گا۔

گوئٹے مالا میں ریویو آف ریلیجنز کے سپینش شمارے کا بھی اجراکیا گیا جو نیا شمارہ شروع ہوا ہے۔ امریکہ، لاطینی امریکہ اور سینٹرل امریکہ وغیرہ میں تقریباً چار سو ملین آبادی ہے جو سپینش بولتی ہے۔ جب سپین کی طرف ہماری توجہ پیدا ہوئی تو وہاں گوئٹے مالا کے ہمارے ایک بڑے مخلص احمدی ڈیوڈ (David) صاحب ہیں، یہ وہاں گوئٹے مالا کے پہلے احمدیوں میں سے ہیں، کہنے لگے کہ آپ کی توجہ سپین کی طرف تو ہے کہ وہاں اسلام پھیلانا ہے، جس کی آبادی صرف چالیس ملین ہے جبکہ ہمارے ملکوں کی آبادی چار سو ملین ہے، اس طرف توجہ آپ کی نہیں ہے۔ اس کے بعد سے باقاعدہ پھر وہاں بھی مشنوں کی طرف بھی توجہ ہوئی اور جامعہ کے طلباء کو بھی بھیجنا شروع کیا گیا۔ اب اللہ کے فضل سے وہاں جماعتیں قائم ہو رہی ہیں۔ تو بہرحال وہاں سپینش زبان میں ریویو آف ریلیجنز کا بھی اجرا کیا گیا۔

یہ تو غیروں کے تاثرات تھے۔ گوئٹے مالا میں مختلف ہمسایہ ملکوں کے، سپینش بولنے والے ملکوںکے احمدی بھی شامل ہوئے تھے ہسپتال کے افتتاح کا کہہ لیں یا میری ملاقات کے لئے، ان کے بھی بڑے جذباتی تاثرات تھے،جو پہلی دفعہ خلیفہ وقت کو ملے ہیں اور خلافت سے محبت ان کی آنکھوں سے اور ان کے دلوں سے پھوٹی پڑ رہی تھی۔

میکسیکو سے آنے والی ایک نومبائع خاتون لاؤرا ماٹیلدے (Laura Matilde) صاحبہ کہتی ہیں جنہوں نے کچھ عرصہ پہلے بیعت کی ہے کہ میرے اس گوئٹے مالا کے سفر کے بعد ایک بات میرے دل میں پختہ ہو گئی ہے کہ جہاں خدا تعالیٰ چاہتا ہے مَیں وہیں پر ہوں۔ میرے دل میں اس بارے میں کوئی شک نہیں کہ میں روحانی اور جذباتی طور پر بہت اطمینان اور امن محسوس کر رہی ہوں۔ دوسرے ممالک کے احمدی بہن بھائیوں سے مل کر بھی ایمان تازہ ہوا اور سب سے بڑھ کر خلیفۂ وقت کے پیچھے نمازیں ادا کر کے میرا ایمان اللہ تعالیٰ اور احمدیت پر یعنی حقیقی اسلام پر اور بھی پختہ ہو گیا۔ میری خواہش ہے کہ میں اس راستے پر قائم رہوں۔ اللہ کرے کہ ایسا ہی ہو۔

پھر میکسیکو کے ایک نومبائع ایوان فرانسسکو (Ivan Francisco)صاحب کہتے ہیں کہ ہم نے خلیفۂ وقت کے ہاتھ پر بیعت کی۔ وہاں مسجد میں بیعت کی تقریب بھی ہوئی تھی تو ایک ایسا لمحہ تھا جو کہ لفظوں میں نہیں بیان کیا جا سکتا۔ اس لمحے مجھے جسمانی طور پر ایسا محسوس ہوا جیسے میرا سارا جسم گرم ہو گیا ہے اور میرے پسینے چھوٹنے لگے اور ایسا لگا جیسے ایک کرنٹ میرے جسم میں سے دوڑ رہا ہے اور جاتے جاتے اپنے ساتھ میرے تمام گناہ بھی لے گیا ہے۔ خدا تعالیٰ کا لاکھ لاکھ شکر ہے کہ اس نے ہمیں خلافت عطا کی ہے۔ میں جانتا ہوں کہ یہ میرے لئے اچھائی کی طرف بڑھنے کا پہلا قدم ہے اور میرے اندر ایک تبدیلی لائے گا۔

پھر میکسیکو سے آنے والے ایک نومبائع میگیل آنخیل(Miguel Ángel) صاحب کہتے ہیں کہ سچ تو یہ ہے کہ اسلام احمدیت میں کوئی بارڈر نہیں ہے نیز کسی قسم کی لکیر نہیں ہے جو ہمیں علیحدہ کر سکے۔ ہم سب بھائی بھائی ہیں۔ اگر فرق ہے تو زبان کا ورنہ ہم سب بھائی ہیں۔ خلیفہ وقت کے پیچھے نماز پڑھتے ہوئے بھی بیشک ہم دس سے پندرہ مختلف ممالک سے آئے ہوئے لوگ تھے مگر ہم ایک تھے اور ایک خلیفہ کے پیچھے نماز پڑھ رہے تھے۔

پھر وسینتے بریونیسVicente Briones)) صاحب کہتے ہیں میرا تعلق میکسیکو سٹی جماعت سے ہے۔ جب مجھے بتایا گیا کہ گوئٹے مالا جانے کا موقع مل رہا ہے تو میں بہت خوش ہوا اور یہ سن کر کہ وہاں پر خلیفہ وقت سے ملاقات ہو گی میری خوشی اور بھی بڑھ گئی۔ جب ہماری ملاقات ہوئی تو میں بہت خوش ہوا کیونکہ مجھے کافی وقت ان کے پاس بیٹھنے کا موقع ملا۔ میں نے تھوڑا عرصہ پہلے میکسیکو سٹی میں بیعت کی تھی مگر ہاتھ پر بیعت کرنا میری زندگی کا ایک ایسا واقعہ تھا جس کو میں الفاط میں بیان نہیں کر سکتا۔ کہتے ہیں کہ میں نے اپنے آنسوؤں کو پونچھتے ہوئے کہا کہ یہ میری زندگی کا سب سے حسین دن تھا۔

ملک ہونڈورس(Honduras) سے آنے والی نومبائعہ روزا ڈلمی (Rosa Delmi)صاحبہ کہتی ہیں کہ پہلی مرتبہ مجھے اپنے ملک سے باہر جانے کا موقع ملا اور اتنا لمبا سفر اختیار کرنا پڑا۔ ہمیں ہونڈورس سے گوئٹے مالا جاتے ہوئے سولہ گھنٹے لگے۔ گو ہمیںسفر میں مختلف صعوبتوںکا سامنا کرنا پڑا لیکن جیسے ہی جماعت کی مسجد اور خلیفۂ وقت کو دیکھا سفر کی مشکلات کا احساس فورًا ذہن سے اتر گیا۔ جماعت کے بہت ہی پیارے اور بہت اچھے لوگوں کے ساتھ ملنے کا موقع ملا جنہوں نے میرے ساتھ اپنی فیملی کے ممبر کی مانند سلوک کیا۔ امریکہ سے آئی ہوئی ایک احمدی خاتون نے مجھ سے کہا کہ میں ان کی بیٹی جیسی ہوں۔ اس سفر کا سب سے بہترین حصہ خلیفہ وقت کے ساتھ ملاقات تھی۔ مَیں نے ذاتی طور پر کوئی بات نہیں کی کیونکہ محسوس ہو رہا تھا کہ میں ایک الگ ہی دنیا میں ہوں۔ میں چاہتی تھی کہ بس بیٹھ کر دیکھتی رہوں اور باتیں سنتی رہوں۔ ایک ایسا تجربہ تھا جو ناقابل بیان ہے۔ اس سفر کے دوران جماعت کی تعلیمات کے ضمن میں میرے علم میں مزید اضافہ ہوا اور ہمیں وہاں نظم پڑھنے کا بھی موقع ملا۔

پھر ہونڈورس کے ہی ایڈون ارماندو (Edwin Armando)صاحب کہتے ہیں کہ اس دورے کی سب سے اچھی بات یہ لگی کہ خلیفۂ وقت کے ساتھ ملاقات کرنے کی سعادت حاصل ہوئی اور میں نے بہت سارے جو سوال کئے تھے ان سوالوں کے جوابات مجھے مل گئے۔

پھر ایکواڈور(Ecuador) کے نومبائع احمدی کہتے ہیں کہ خلیفۂ وقت کی موجودگی میں مجھے ایک نادر خزانہ عطا ہوا اور روحانیت، امن خوشی اور مسرت کے جذبات میرے اندر سما گئے۔ مجھے بہت سکون حاصل ہوا۔ بیعت کے دوران جب آپ نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھا تو یہ ایک ایسی سعادت تھی جو مجھے اس سے پہلے کبھی نصیب نہیں ہوئی تھی۔

ایکواڈور سے ایک لجنہ ممبر جو ایک سال قبل احمدی ہوئی ہیں کہتی ہیں کہ گوئٹے مالا کا سفر میرے اور میرے بیٹے کے لئے نہایت خوشگوار تھا۔ جب ہم نے پہلی بار خلیفہ وقت کو دیکھا تو ہمارے لئے ایک خاص موقع تھا کیونکہ اس سے ہمارے اندر امن، محبت اور صبر کا احساس پیدا ہوا۔ ملاقات کے دوران جب میرے بیٹے نے خلیفۃ المسیح سے معانقہ کیا تو ہمیں بہت خوشی ہوئی اور ہم اسے اپنے لئے ایک خوش نصیبی اور برکت سمجھتے ہیں۔ ایکواڈور واپسی کا سفر ہمارے لئے بہت افسردہ ہو گا کیونکہ ہمیں احمدی بھائی اور خلیفہ وقت بہت یاد آئیں گے ہم امید کرتے ہیں کہ دوبارہ ملیں۔

پھر گوئٹے مالا کے ایک نومبائع سلیمان رودریگیز (Soliman Rodrigez) صاحب کہتے ہیں کہ خلیفۃ المسیح کا گوئٹے مالا آنا ہمارے لئے بڑی خوش قسمتی کا باعث ہے۔ ہماری جماعت پر اللہ تعالیٰ کا فضل ہے کہ یہاں آپ آئے۔ جب ہمیں پتہ چلا کہ آپ گوئٹے مالا آ رہے ہیں تو ہماری خوشی کی انتہا نہیں رہی۔ میرے اندر ایک روحانی مضبوطی پیدا ہونے لگ گئی اور اس میں کوئی شک نہیں کہ اب میں نے اپنے اندر بہت تبدیلی محسوس کی ہے۔

پھر گوئٹے مالا کی ایک نومبائع لیزا پنتو (Lisa Pinto)صاحبہ کہتی ہیں مَیں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ خلیفۃ المسیح گوئٹے مالا آئے۔ میرے لئے بہت فخر اور عزت کی بات ہے اور میرے لئے بڑا ایک عظیم تجربہ تھا۔ میرا دل خوشی سے بھر گیا ہے۔

پھر گوئٹے مالا کے ہی ایک صاحب دومینگوتیول(Domingo Tiul) کہتے ہیں میرا تعلق کیبون (Cabun) جماعت سے ہے اور یہاں خلیفہ وقت کی آمد پر میں نے اپنے آپ کو ایمانی و روحانی لحاظ سے بہت پُرجوش پایا۔ میں بہت خوش ہوں کہ مجھے خلیفہ وقت کے ساتھ وقت گزارنے کا موقع ملا۔ کچھ عرصہ ہی ہوا ہے احمدی ہوئے ہیں غالباً انہوں نے ہی بڑے جذباتی انداز میں مجھے کہا تھا کہ ہمارے علاقے میں غریب لوگ ہیں، بالکل بارڈر پر بہت دور دراز علاقہ ہے اور سڑکیں وغیرہ بھی وہاں زیادہ اچھی نہیں۔ دعا کریں اور کسی کو بھیجیں بھی تا کہ اس علاقے میں میری قوم کے لوگ جو ہیں، وہ بھی احمدی مسلمان ہوں۔ اور جو اللہ تعالیٰ کا فضل مجھے حاصل ہوا ہے، انعام حاصل ہوا ہے وہ میری قوم میں بھی پہنچے۔ اور بڑے جذباتی انداز میں انہوں نے درخواست کی تھی دعا کی۔ اللہ تعالیٰ کرے وہاں بھی جماعتیں پھیلیں۔

پھر گوئٹے مالا سے ہی مار تیزاتیول (Marteza Tiul)صاحبہ کہتی ہیں پہلے خلیفہ وقت کو صرف تصویروں میں دیکھا تھا اب قریب سے دیکھنے کا موقع ملا، بیٹھنے کا موقع ملا اور میں اپنے اندر بڑی تبدیلی محسوس کر رہی ہوں۔

پھر کلاؤڈیہ (Claudia)صاحبہ کہتی ہیں بہت خوش ہوں۔ اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتی ہوں۔ اللہ تعالیٰ نے مجھ پر فضل کیا۔ میرے پاس الفاظ نہیں ہیں کہ میں اپنے احساسات کو بیان کر سکوں۔ اور اپنے ایمان و اخلاص کو بڑھانے کے لئے دعا کی درخواست کی ہے۔

پھر چیاپس(Chiapas) میکسیکو سے خدیجہ صاحبہ کہتی ہیں اللہ کا شکر ادا کرتی ہوں کہ خلیفۃ المسیح سے ملنے کا موقع ملا۔ ہمارے سوالات کے جوابات ملے۔ میری محبت اسلام کی طرف بڑھی۔ بیعت کرنے سے میرا ایمان نئے سرے سے زندہ ہوا اور میں دعا کی درخواست کرتی ہوں کہ میری اور میری پوری جماعت چیاپس کے ایمان اور عرفان میں اضافہ ہو۔

یاسمین گومیز(Yasmin Gomez) صاحبہ کہتی ہیں بہت ہی خوبصورت یاد ہے اور بڑا خوبصورت تجربہ ہے۔ اور میرے جذبات ایسے تھے کہ مجھے خوشی سے رونا آ رہا تھا میں بیان نہیں کر سکتی۔ اس ملاقات کے بعد مجھے اپنی زندگی میں بہتری لانے کا موقع ملے گا۔

پھر ایک اور ثریا گومیز ( Surayya Gomez)صاحبہ ہیں کہتی ہیں کہ میرے ایسے جذبات ہیں جو میرے دل کی گہرائیوں سے نکل رہے ہیں۔ اور مجھے ایک بہت بڑا تجربہ ہوا ہے۔ اللہ تعالیٰ ایمان و اخلاص میں اضافہ کرے۔

میکسیکو کے ایک نومبائع خیسوس (Jesus)صاحب کہتے ہیں کہ جماعت سے تعلق بنانا ایک بہت بڑا انعام ہے۔ میری یہ خوش قسمتی ہے کہ اللہ تعالیٰ نے میری دعائیں سنیں۔ میں اندھیرے میں تھا، اللہ تعالیٰ مجھے اور میری فیملی کو روشنی کی طرف لے کر آیااور مجھے اپنی زندگی میں تبدیلی کرنے کا موقع ملا۔ اور پھر میں نے عبادت وغیرہ کے متعلق سوالات پوچھے جس کے مجھے بڑے تسلی بخش جوابات ملے۔

لیلیٰ لطیف صاحبہ ہیں وہ بھی کہتی ہیں کہ پہلے تو ٹی وی کے ذریعہ تعارف تھا اب ملی ہوں تو جذبات اور احساسات ہی اور ہیں۔

پانامہ (Panama)سے ایک شخص ہیں ہیلیو دورو(Heliodoro) صاحب جو اپنی اہلیہ اور بیٹی کے ہمراہ آئے تھے کہتے ہیں کہ میری ملاقات کا دن خوشیوں سے بھرپور دن تھا جسے میں الفاظ میں بیان نہیں کر سکتا اور بڑا محبت اور اخلاص کا انہوں نے اظہار کیا ہوا ہے۔

بیلیز(Belize) سے ایک وفد آیا تھا اس میں سے گولڈا مارٹینا (Golda Martina)صاحبہ کہتی ہیں کہ یہ ایک نہایت دلنشیں اور بابرکت موقع تھا۔ میں بہت جذباتی ہو گئی اور ہمیشہ یہ مجھے سفر یاد رہے گا۔

پھر ایک اورممبر نکول اویلیز (Nicole Avilez) صاحبہ کہتی ہیں کہ بڑی جذباتی ملاقات تھی اور مجھے خلیفہ وقت نے یوکے جلسہ پر آنے کی دعوت بھی دی۔ اس کی مجھے بڑی خوشی ہے۔ لجنہ کی ایک اور ممبر فلورنٹینا (Florentina)صاحبہ کہتی ہیں یہ بڑی خوشی کا موقع تھا۔ ملاقات ہوئی اور دلی سکون ملا۔ تیرہ چودہ سال کی ایک بچی کہہ رہی ہے کہ پہلے مجھے ڈر تھا کہ خلیفہ وقت کے سامنے کوئی ایسی بات نہ کر دوں جس سے مجھے شرمندگی ہو لیکن ملاقات بہت اچھی رہی۔ خلافت کا ادب و احترام ان میں بے شمار ہے پھر ان بچیوں نے ’ہے دستِ قبلہ نما ‘ نظم بھی پیش کی۔

اسی طرح اور بہت ساری خواتین و افراد ہیں جو مختلف ملکوں سے گوئٹے مالا آئے ہوئے تھے اور بڑا لمبا سفر کر کے اور بڑا اخلاص و وفا کا ان سب کا اظہار تھا۔ اللہ تعالیٰ سب کے اخلاص و وفا میں اضافہ کرتا چلا جائے اور انہیں حقیقی احمدی بنائے۔

میڈیا ٹیم یو ایس اے کی جانب سے کوریج۔ اللہ کے فضل سے یو ایس اے کی میڈیا ٹیم نے اچھا کام کیا اور ان کے اچھے تعلقات ہیں۔ اب اس میں گو تھوڑی تبدیلی کی گئی ہے لیکن جو پہلی ٹیم تھی اس نے بھی بڑا اچھا کام کیا ہے۔ امریکہ میں ٹی وی کے ذریعہ سے کل اٹھائیس لاکھ انہتر ہزار سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ ریڈیو پروگرام کے ذریعہ سے کل تریپن لاکھ اٹھانوے ہزار سے زائد افراد تک پیغام پہنچا۔ ڈیجیٹل فورم ویب سائٹس اور سوشل میڈیاوغیرہ کے ذریعہ سے بیس لاکھ افراد تک پیغام پہنچا۔ اخبارات میں میرے دورے کے حوالے سے جو خبریں آئیں ان میں پینتالیس آرٹیکل شائع ہوئے۔ ان میں معروف اخبار بالٹی مور سن(The Baltimore Sun)، فلاڈلفیا انکوائیرر (The Philadelphia Inquirer)اور ریلیجن نیوز سروس (Religion News Service) اور ہیوسٹن کرونیکل (Houston Chronicle)شامل ہیں۔ ان ذرائع سے خیال ہے کہ دس ملین سے زائد لوگوں تک پیغام پہنچا۔

گوئٹے مالا میںبھی میڈیا کوریج اچھی ہوئی۔ گوئٹے مالا کی نیشنل اخبار پرینسا لِبر(Prensa Libre) نے جس کی اشاعت روزانہ ایک لاکھ تیس ہزار اور چار ملین سے زائد پڑھنے والے ہیں چوبیس اکتوبر کو اپنی اشاعت کے پہلے صفحہ پر ناصر ہسپتال کی نمایاں تصویر شائع کی اور افتتاح کے حوالے سے رپورٹ شائع کی۔ ایک اور نیشنل اخبار کے کالم نویس نے ناصر ہسپتال کے حوالے سے ایک آرٹیکل لکھا۔ ایل پیریو دیکو (El Periodico) نے رپورٹ شائع کی، نیشنل اخبار ہے۔ نیشنل ٹی وی گوئٹے مالا نے میرے بارے میں خبر دی اور ہسپتال کے تعارف پر مبنی رپورٹ نشر کی۔ نیشنل ریڈیو چینل پر بھی رپورٹیں آتی رہیں۔ اس لحاظ سے ایک اندازے کے مطابق لاطینی امریکہ کے مختلف ممالک کے پرنٹ میڈیا اور مختلف اخبارات اور ٹیلی ویژن چینلز کے ذریعہ سے تقریباً بتیس ملین لوگوں تک ناصر ہسپتال کے افتتاح کی خبر کے حوالے سے اسلام کا پیغام پہنچا۔ اس کے علاوہ سوشل میڈیا ٹوئٹر، انسٹا گرام اور یوٹیوب کے ذریعہ سے تئیس لاکھ لوگوں تک یہ خبر پہنچی۔ اور اللہ تعالیٰ کے فضل سے ہر لحاظ سے یہ دورہ بڑا بابرکت و کامیاب تھا۔ اللہ تعالیٰ اس کے آئندہ بھی نیک نتائج پیدا فرمائے۔

نمازوں کے بعد میں ایک نماز جنازہ غائب پڑھاؤں گا جو محترم ساوادوگو اسماعیل(Sawadogo Ismail ) صاحب کاہے جو بورکینا فاسو کے تھے۔ 14؍نومبر کو فجر کی نماز کے لئے گھر سے نکلے راستے میں دل کا دورہ پڑھنے کی وجہ سے گر گئے۔ قریبی ہسپتال لایا گیا مگر جانبر نہ ہو سکے۔اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔

1964ء میں یہ پیدا ہوئے تھے۔ 1994ء میں انہوں نے احمدیت قبول کی اور ہمیشہ ان کی یہ کوشش ہوتی تھی کہ مشن ہاؤس کے قریب رہیں۔ جب مشن ہاؤس تبدیل کیا گیا، نئی جگہ پہ ہمارا مشن ہاؤس چلا گیا تو اس کے قریب ہی انہوں نے کرائے کا گھر لے لیا۔ ہمیشہ یہ کوشش ہوتی تھی کہ اذان دینے کے لئے مسجد میں آتے رہیں۔ جلسہ سالانہ پر لوگوں کو تہجد کے لئے بیدار کرنے میں پیش پیش رہتے تھے۔ اذان بہت عمدہ آواز میں دیتے تھے اسی وجہ سے بعض لوگ ان کو ’سیّدنا بلال‘ کہنے لگے۔ ہر سال رمضان میں اعتکاف بیٹھتے۔ نمازوں کے بہت ہی پابند اور دوسروں کو توجہ دلانے والے تھے۔ فجر کی نماز سے پہلے آکر، وہاں جماعت کا لڑکوں کا ہوسٹل ہے، ہوسٹل کے لڑکوں کو نماز کے لئے بیدار کرتے۔ اذان دیتے اور مسجد کی صفائی کا بھی ہمیشہ خیال رکھتے۔ جب لاہور میں مساجد پر حملہ ہوا اور شہادتوں کا سنا تو ان پر بہت زیادہ اثر ہوا۔ بہت زیادہ روئے اور بار بار خواہش کا اظہار کرتے رہے کہ کاش وہ ان شہیدوں میں شامل ہوتے۔ جماعتی کاموں میں ہمیشہ سب سے آگے ہوتے تھے۔ 2004ء میں جب میں وہاں دورے پر گیا ہوں تو وہاں بھی سکیورٹی ڈیوٹی پہ ہمیشہ آگے آگے ہوتے اور ایک دفعہ وہاں ایک تقریب کے دوران جب میں تقریر کر رہا تھا تو ڈیوٹی دیتے ہوئے بیہوش ہو کر گر بھی پڑے تھے۔ شاید کھایا پیا کچھ نہیں تھا یاسیدھے کھڑے رہے، بہرحال اسی وجہ سے اور ہمیشہ اس حوالے سے خطوط لکھا کرتے تھے کہ میں وہی ہوں جو گرا۔ بہت مخلص اور خلافت کے اور احمدیت کے سچے عاشق تھے۔ پیشہ کے لحاظ سے محکمہ جنگلات میں سکیورٹی گارڈ تھے۔ ان کی تدفین کے وقت سینٹرل میئر کی طرف سے محکمہ جنگلات کے کمانڈنگ افسر نے بہت اچھے پیرائے میں ان کی خدمات کو سب کے سامنے پیش کیا کہ ’اسماعیل وفا دار مخلص اور ایماندار اور ہنس مکھ شخص تھا۔‘ اپنے فرائض بہت عمدہ طریق پر ادا کرتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل سے موصی تھے۔

پسماندگان میں پہلی بیوی سے ایک بیٹا اور ایک بیٹی ہیں جبکہ دوسری بیوی سے ایک دو ماہ کی بیٹی یادگار چھوڑی ہے۔ اللہ تعالیٰ مرحوم کے درجات بلند فرمائے مغفرت کا سلوک فرمائے اور ان بچوں کو بھی اپنے حفظ و امان میں رکھے۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button