اسماء النبیﷺ فی القرآن: قسط نمبر 4
14۔ النبی، الرسول ﷺ:
’نبی‘۔ مبالغہ کا صیغہ ہے جس کے معنی اللہ تعالیٰ سے بہت خبریں حاصل کرنے والے کے ہوتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ بیان فرماتے ہیں :
’’ لغت کے لحاظ سے نبی وہ ہوتا ہے جس پر خدا تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہو اور اُس کلام میں یہ تین شرطیں پائی جاتی ہوں۔ اوّل وہ ذُوْفَائِدَةٍ ہو دوم وہ ذُوْفَائِدَةٍ عَظِیْمَةٍ ہو۔سوم وہ ایسا الہام ہویَحْصُلُ بِہ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَةُ ظَنّ۔ اور پھر زائد بات بوجہ نبی کے صیغہ کے یہ پائی جائے گی کہ اُس پر کثرت کے ساتھ اللہ تعالیٰ کا کلام نازل ہوتا ہو۔ گویا نبأ کو جب ہم نبی کے صیغہ میں تبدیل کر دیں تو اس کے معنے ہوں گے ایسا شخص جس پر کثرت سے کلام الٰہی نازل ہوتا ہے اور پھر وہ کلام ایسا ہوتا ہے جو ذُوْفَائِدَةٍ عَظیْمَةٍ یَحْصُلُ بِہ عِلْمٌ اَوْ غَلَبَةُ ظَنٍّ کا مصداق ہوتا ہے۔ گویا نبی وہ ہے جو اللہ کی طرف سے کثرت کے ساتھ لوگوں کو خبر یں دیتا ہے اور ایسی خبریں دیتا ہے جو فائدہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور نہ صر ف فائدہ پر بلکہ فائدہ عظیمہ پر مشتمل ہوتی ہیں اور یَحْصُلُ بِہ عِلْمٌ اُن سے زائد علم حاصل ہوتا ہے پس جب ہم کسی کو نبیُ اللہ کہتے ہیں تو اس کے معنے یہ ہوتے ہیں کہ نبیُ اللہ وُہ ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے سُن کر لوگوں کو کثرت سے خبر دیتا ہے (۲) ایسی خبریں دیتا ہے جن میں فائد ہ ہوتا ہے اور فائد ہ بھی عظیم الشان ہوتا ہے اور (۳) پھر اُن سے علم زائد حاصل ہوتا ہے۔ ‘‘
(تفسیر کبیر جلد نمبر 8صفحہ4)
رسول کے معنی پیغامبر کے ہیں۔ عموماً علماء و مفسرین ’’رسول‘‘ صاحبِ شریعت اور’’ نبی‘‘ غیر تشریعی نبی کو کہتے ہیں۔ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:
’’عام طور پر ہمارے مفسرین بھی یہی لکھتے ہیں اور ہمارے متکلمین بھی یہی لکھتے ہیں کہ رسول وہ ہوتاہے جو کتاب لاتاہے اور نبی وہ ہوتاہے جو کتاب نہیں لاتا۔ لیکن وہ خداتعالیٰ کی طرف سے لوگوں کی ہدایت کے لئے مامور ہوتاہے۔ چنانچہ کوئی تفسیر اُٹھا کر دیکھ لو اس میں یہی لکھا ہوگا کہ رسول وہ ہوتا ہے جو مامور ہو اور کتاب لائے۔ اب اگر رسول کے یہی معنے ہیں تو نَبِیًّا کے کیا معنے ہوئے۔ نبی ان کے نزدیک وہ ہوتاہے جو مامور ہومگر کتاب نہ لائے اب جو مامو رہو ا اور کتاب لایا وہ جب رسول ہو گیا تو نبی تو آپ ہی آپ ہوگیا پھر رسولًا کہنے کے بعد نَبِیًّاکہنے کی کیا ضرورت تھی؟ یہ ٹھیک ہے کہ ان کے نزدیک نبی ہونے کے بعد رسول ہونا ضروری نہیں مگر رسول ہونے کے ساتھ تو نبی ہونا ضروری ہے۔ یہ نہیں ہوسکتا کہ ایک شخص مامور بھی ہو اور کتاب بھی لائے اور نبی نہ ہو۔ مگر یہ ہوسکتاہے کہ ہم ایک شخص کے متعلق لفظ نبی بولیں مگر اس کے پاس کتاب نہ ہو۔ مگر قرآن نے رسولًا کو پہلے رکھا ہے اور نبیًّا کو پیچھے رکھا ہے ۔اگر درجہ مراد ہوتاتو اللہ تعالیٰ کہتاکہ کَانَ نَبِیًّارَّسُوْلًا وہ نبی بھی تھا اورپھر ہم نے اسے کتاب بھی دی۔ مگر وہ پہلے اسے رسول کہتاہے اور پھر نبی کہتاہے۔ پس اگر رسول اور نبی کی وہی تعریف ہے جو عام مسلمان کرتے ہیں تو پھر اس کا مطلب کیا ہوا؟ یہ تو جاہل آدمی کا طریق ہے کہ وہ کہے کہ صاحب یہ چالیس سال کے ہیں اور یہ دس سال کے بھی تھے۔ ہاں اگر کوئی کہنا چاہے تو یہ کہہ سکتاہے کہ ان کی عمر دس سال ہے اور مجھے خدانے بتایا ہے کہ یہ چالیس سال کی عمر تک زندہ رہیں گے۔ قرآن تو ایک حکیم اور علیم ہستی کا کلام ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتاہے کہ اس کے کلام میں یہ بات آجائے کہ فلاں شخص رسول بھی ہے اور نبی بھی جبکہ رسالت میں ہی نبوت بھی شامل ہے کیونکہ یہ ہو نہیں سکتاکہ ایک شخص مامور ہو اور کتاب بھی لائے مگر وہ نبی نہ ہو ۔
پس معلوم ہوا کہ یہ معنے یہاں چسپاں نہیں ہوسکتے یہاں بہر حال کوئی اور معنے کرنے پڑیں گے اور وہ معنے وہی ہیں جو ہماری جماعت کیا کرتی ہے کہ رسول کے معنے ہوتے ہیں بھیجا ہوا۔ اور نبی کے معنے ہوتے ہیں خبر دینے والا ۔اور یہ بالکل صحیح بات ہے کہ پہلے انسان رسول ہوگااور پھر نبی ہوگا۔ پہلے خدا اسے بھیجے گا اور پھر وہ لوگوں کو خدا کی باتیں بتائے گا۔ پس رسالت پہلا مقام ہے اور نبوت اس کے بعد کا ۔کوئی شخص نبی نہیں ہوسکتاجب تک وہ پہلے رسول نہ ہو۔ مثلًا جب خدانے کہاکہ اے محمد ﷺ میں تجھے دنیا کی اصلاح کے لئے بھجواتاہوں تو محمد رسول اللہ ﷺ اللہ تعالیٰ کے رسول بن گئے اورجب محمد رسول للہ ﷺ نے یہ کہا کہ اے مکہ والو! میں تمہیں خداکی طرف سے یہ خبر دیتاہوں تو وہ نبی بن گئے۔ جب خدانے یہ کہاکہ اے عیسیٰ میں تجھ کو بنی نوع انسان کی طرف بھیجتاہوں تو عیسیٰ رسول بن گئے اورجب عیسیٰ نے یہ کہا کہ اے لوگومیں تمہیں خداتعالیٰ کی طرف سے یہ پیغام دیتاہوں تو وہ نبی بن گئے۔ کیونکہ رسول کے معنے ہیں بات سننے والا اور نبی کے معنے ہیں بات بتانے والا۔ پہلے وہ سنے گا تو پھر لوگوں کو کچھ بتائے گا۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ وہ سنے بعد میں اور پہنچائے پہلے۔ اسی لئے قرآن کریم نے جہاں بھی بیان کیاہے رسول کا لفظ پہلے رکھا ہے اور نبی کا بعد میں۔ سورۂ احزاب میں ہی اللہ تعالیٰ فرماتاہے کہ
ما كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِنْ رِّجَالِكُمْ وَلٰكِنْ رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّيْنَ (الاحزاب 41:)
اصل بات یہ ہے کہ رسول اور نبی ایک ہی چیز ہے۔ کیونکہ رسول کے معنے Messengerکے ہوتے ہیں اور نبی کے معنے بہت خبریں دینے والے کے ہوتے ہیں اور یہ ظاہر ہے کہ جس شخص کو خدا تعالیٰ Messenger بنا کر بھیجے گا لازمًا اسے کوئی پیغام بھی دے گا۔ اور جو شخص لوگوں پر امور غیبیہ کو ظاہر کرے گا وہ لازمًا خداتعالیٰ کا بھیجا ہوا ہوگا۔ پس درحقیقت ایک مامور من اللہ کا وہ نقطہ جو خدا سے ملتاہے اسکے لحاظ سے اسے رسول کہتے ہیں۔ کیونکہ وہ خداکا بھیجاہوا ہے۔ لیکن اس کا وہ نقطہ جو بندوں سے ملتاہے اس کے لحاظ سے وہ خدا کا نبی کہلاتا ہے یعنی ان کو خدا کی خبریں دیتاہے پس جو رسول ہو وہ نبی بھی ضرور ہوگا۔ کیونکہ خداتعالیٰ بغیر پیغام کے کسی کو نہیں بھیج سکتا۔ اور جو نبی ہو وہ ضرور رسول بھی ہوگا۔ کیونکہ اگر خدانے اسے نہیں بھیجا تو وہ جھوٹا ہوگا اور مامور من اللہ جھوٹے نہیں ہوتے۔‘‘
(تفسیر کبیر جلد نمبر 6 صفحہ 289تا291، زیر آیت وَاذْکُرْ فِی الْکِتَابِ مُوْسیٰ۔۔۔ مریم52:)
ہمارے پیارے نبی ﷺ کو صرف نبی اور رسول نہیں کہا گیا بلکہ ’’النبی‘‘ اور ’’الرسول‘‘ کہا گیا ہے۔ عربی زبان میں ’’ ال‘‘ کا اضافہ کرنے سے معانی میں عظیم الشان نبی اور عظیم الشان رسول کا اضافہ ہوجاتا ہے۔ یعنی آپ ﷺ خدا تعالیٰ سے پیغام حاصل کرنے میں بھی عظیم الشان تھے اور اس پیغام کو خلق اللہ تک پہنچانے کا فریضہ بھی عظیم الشان رنگ میں مکمل فرمایا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ببداہت بیان فرمایا کہ وحی الٰہی اپنے مورد کی صلاحیت اور اہلیت کے مطابق ہی نازل ہوتی ہے۔ چونکہ حضرت خاتم الانبیاء محمد مصطفیٰ ﷺ کی پاک طینت استقامت پر تھی، نہ ہی افراط نہ ہی تفریط۔ گویا اللہ تعالیٰ سے پیغام حاصل کرنے میں اعلیٰ و ارفع تھے۔
حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:
’’اور وحی کا چراغ لطائف محمدیہ سے روشن ہونا ان معنوں کرکے ہے کہ اُن لطائف قابلہ پر وحی کا فیضان ہوا اور ظہور وحی کا موجب وہی ٹھہرے۔ اور اس میں یہ بھی اشارہ ہے کہ فیضانِ وحی ان لطائف محمدیہ کے مطابق ہوا۔ اور انہیں اعتدالات کے مناسب حال ظہور میں آیا کہ جو طینت محمدیہ میں موجود تھی۔ اس کی تفصیل یہ ہے کہ ہریک وحی نبی منزل علیہ کی فطرت کے موافق نازل ہوتی ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ علیہ السلام کے مزاج میں جلال اور غضب تھا۔ توریت بھی موسوی فطرت کے موافق ایک جلالی شریعت نازل ہوئی۔ حضرت مسیح علیہ السلام کے مزاج میں حلم اور نرمی تھی۔ سو انجیل کی تعلیم بھی حلیم اور نرمی پر مشتمل ہے۔ مگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا مزاج بغایت درجہ وضع استقامت پر واقعہ تھا نہ ہر جگہ حلم پسند تھا اور نہ ہر مقام غضب مرغوب خاطر تھا۔ بلکہ حکیمانہ طور پر رعایتِ محل اور موقعہ کی ملحوظ طبیعت مبارک تھی۔‘‘
براہین احمدیہ چہار حصص، روحانی خزائن جلد اول صفحہ:193حاشیہ)
رسول کریم ﷺ پر وحی الٰہی کی تجلی بھی دیگر انبیاء سے بڑھ کر تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں:
’’پس اس نعمت کی قدر کرو جو تمہیں دی گئی۔ یہ نہایت پیاری نعمت ہے، یہ بڑی دولت ہے، اگر قرآن نہ آتا تو تمام دنیا ایک گندے مضغہ کی طرح تھی قرآن وہ کتاب ہے جس کے مقابل پر تمام ہدایتیں ہیچ ہیں۔ انجیل کے لانے والا وہ روح القدس تھا جو کبوتر کی شکل پر ظاہر ہوا جو ایک ضعیف اور کمزور جانور ہے جس کو بلّی بھی پکڑ سکتی ہے اسی لئے عیسائی دن بدن کمزوری کے گڑھے میں پڑتے گئے اور روحانیت ان میں باقی نہ رہی۔ کیونکہ تمام ان کے ایمان کا مدار کبوتر پر تھا مگر قرآن کا روح القدس اس عظیم الشان شکل میں ظاہر ہوا تھا جس نے زمین سے لے کر آسمان تک اپنے وجود سے تمام ارض و سما کو بھر دیا تھا۔ پس کجا وہ کبوتر اور کجا یہ تجلی عظیم جس کا قرآن شریف میں بھی ذکر ہے۔‘‘
(کشتی نوح، روحانی خزائن جلد 19 صفحہ27)
انسان کامل ﷺ پر وحی کامل کے نزول کا اعلان قرآن کریم نے
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ وَرَضِيْتُ لَكُمُ الْاِسْلَامَ دِيْنًا (المائدة4:)
کے الفاظ میں فرمادیا۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام بیان فرماتے ہیں:
’’قرآن شریف صاف فرماتا ہے کہ میں کامل کتاب ہوں جیسا کہ فرماتا ہے
اَلْيَوْمَ اَكْمَلْتُ لَكُمْ دِيْنَكُمْ وَاَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِيْ (سیپارہ6رکوع)
اور جیسا کہ پھر دوسری جگہ فرماتا ہے
اِنَّ هٰذَا الْقُرْآنَ يَهْدِيْ لِلَّتِيْ هِيَ اَقْوَمُ (سیپارہ15 رکوع1)
دونوں آیتوں کا ترجمہ یہ ہے کہ آج میں نے دین تمہارا تمہارے لئے کامل کیا اور تم پر اپنی نعمت کو پورا کیا۔ اور یہ قرآن ایک سیدھے اور کامل راہ کی طرف رہبری کرتا ہے یعنی رہبری میں کامل ہے اور رہبری میں جو لوازم ہونے چاہئیں دلائل عقلیہ اور برکات سماویہ میں سے وہ سب اس میں موجود ہیں‘‘۔(جنگ مقدس ۔ روحانی خزائن جلد 6صفحہ98:)
منصب نبوت اور رسالت کا دوسرا پہلو خلق خدا کو پیغام پہنچانا ہے۔ الرسول کا ایک معنی
قُلْ يٰٓاَيُّهَا النَّاسُ اِنِّيْ رَسُولُ اللّهِ اِلَيْكُمْ جَمِيعًا (الاعراف 159:)
میں بھی بیان ہے کہ آپ ﷺ وہ خاص اور عظیم الشان رسول ہیں جو تمام بنی نوع انسان کے لئے ہیں۔ آپ ﷺ نے اپنی اس خصوصیت کواس طرح بیان فرمایا : وَكَانَ النَّبِيُّ يُبْعَثُ إِلَى قَوْمِهِ خَاصَّةً، وَبُعِثْتُ إِلَى النَّاسِ كَافَّةً
(صحیح بخاری کتاب الصلوٰة باب قول النبی ﷺ جعلت لی الارض مسجدا…)
اگرچہ رسول کریم ﷺ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے یہی حکم تھا۔ فَاِنَّمَا عَلَيْكَ الْبَلَاغُ الْمُبِيْنُ (النحل 83:) ترجمہ: تجھ پر تو محض کھلا کھلا پىغام پہنچانا فرض ہے۔ آپﷺ نے نہ صرف پورے عرب بلکہ بلاد غیر میں بھی خطوط اور پیغامبروں کےذریعہ پیغام حق پہنچایا۔ تاریخ کشمیر کے مطابق آپ ﷺ کا تبلیغی خط کشمیر کے راجہ تک بھی پہنچا۔ اسی طرح کچھ روایات کے مطابق رسول کریمﷺ سے ملاقات کے لئے آنے والے اور اسلام قبول کرنے والے وفود میں افغانستان سے تعلق رکھنے والےوفود بھی تھے۔
ابلاغ کی کامیابی کا ایک پیمانہ خلق خدا کا الٰہی جھنڈے تلے آنا بھی ہے۔ آپ ﷺ نے یہ فرض بھی عظیم الشان طریق سے سرانجام دیا۔ لَا اِكْرَاهَ فِي الدِّينِ (البقرة 257:) کو مدّ نظر رکھتے ہوئے آپ نے اپنی قوّتِ قدسیہ، اخلاق فاضلہ ، راتوں کی بے قرار دعاؤں اور قرآن مبین سے وہ معجزہ برپا کردیا جس کا ذکر حضرت امام الزمان علیہ السلام اس طرح فرماتے ہیں:
’’ وہ جو عرب کے بیابانی ملک میں ایک عجیب ماجرا گزرا کہ لاکھوں مُردے تھوڑے دنوں میں زندہ ہوگئے اور پشتوں کے بگڑے ہوئے الٰہی رنگ پکڑ گئے۔ او رآنکھوں کے اندھے بینا ہوئے۔ اور گونگوں کی زبان پر الٰہی معارف جاری ہوئے۔ اور دُنیا میں یکدفعہ ایک ایسا انقلاب پیدا ہو ا کہ نہ پہلے اس سے کسی آنکھ نے دیکھا۔ اور نہ کسی کان نے سُنا۔ کچھ جانتے ہو کہ وہ کیاتھا؟ وہ ایک فانی فی اللہ کی اندھیری راتوں کی دُعائیں ہی تھیں جنہوں نے دُنیا میں شور مچا دیا۔ اور وہ عجائب باتیں دکھلائیں کہ جو اُس اُمی بےکس سے محالات کی طرح نظر آتی تھیں۔ اَللّٰھُمَّ صَلِّ وَسَلِّمْ وَ بَارَکْ عَلَیْہِ وَآلِہٖ بَعَدَدِ ھَمِّہٖ وَ غَمِّہ وَحُزْنِہٖ لِھٰذِہِ الْاُمَّةِ وَ اَنْزِلْ عَلَیْہِ اَنْوَارَ رَحْمَتِکَ اِلٰی الْاَبدِ۔‘‘
(برکات الدعا روحانی خزائن جلد6 صفحہ10)
النبی اور الرسول کے ایک معنی یہ بھی ہیں کہ گزشتہ تمام انبیاء کی قوت قدسیہ اب ختم ہوگئی، اب تمام انبیاء کا خاتم، تمام انبیاء کے کمالات کا جامع اور افضل و کامل نبی تشریف لاچکے ہیں۔ اب آپ ﷺ کے علاوہ نہ کسی کی پیروی کی جائے اور نہ ہی آپ ﷺ کی پیروی کے بغیر لقائے باری تعالیٰ نصیب ہوسکتی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سورة آل عمران آیت 32 اور سورة الاحزاب آیت 57 کی تشریح بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں:
’’یہ پہلی آیت جو مَیں نے تلاوت کی ہے اس کا ترجمہ ہے کہ تو کہدے اگر تم اللہ سے محبت کرتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تم سے محبت کرے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا اور بار بار رحم کرنے والا ہے۔
اور دوسری آیت کا ترجمہ ہے کہ یقینا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر رحمت بھیجتے ہیں۔ اے وہ لوگو جو ایمان لائے ہو تم بھی اس پر درود اور خوب خوب سلام بھیجو۔
یہ دو آیات ایک آل عمران کی ہے اور دوسری سورۃ احزاب کی۔ جیسے کہ ترجمے سے آپ نے سن لیا آل عمران کی اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں بلکہ تمام دنیا کے انسانوں کو آنحضرت ﷺ کے ذریعے سے یہ پیغام پہنچا دیا ہے کہ اب تمام گزشتہ اور آئندہ نمونے ختم ہو گئے اب اگر کوئی پیروی کے قابل نمونہ ہے تو آنحضرت ﷺ کا نمونہ ہے اور یہ پیروی کے نمونے کس طرح قائم ہوں گے۔ اس طرح قائم ہوں گے جس طرح ایک سچا عاشق اپنے محبوب کی پسند اور ناپسند کو اپنی پسند اور ناپسند بناتا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ جب اس طرح تم آنحضرت ﷺ کی پیروی کرو گے تو پھر ہی مَیں تمہارے گناہ بھی بخشوں گا اور تمہارے سے محبت کا سلوک بھی کروں گا۔ تمہاری دینی اور دنیاوی بھلائیوں کے سامان بھی پیدا کروں گا۔ تو گویا اب اللہ تعالیٰ تک پہنچے کے تمام راستے بند ہو گئے اور اگر کوئی راستہ کھلا ہے تو آنحضرت ﷺ کی کامل اتباع کرکے آپ کے پیچھے چل کر ہی خداتعالیٰ تک پہنچا جا سکتا ہے،یہی ایک راستہ ہے جو کھلاہے۔پھر اس اسوئہ حسنہ کی پیروی کرنے کے لئے اور آپ ﷺ کی محبت دل میں بڑھانے کا طریق جو اگلی آیت مَیں نے تلاوت کی ہے سورۃ احزاب کی اُس میں بتایاہے اور وہ یہ ہے کہ یہ نبی کوئی معمولی نبی نہیں ہے۔ یہ تو اللہ تعالیٰ کا سب سے پیارا وجود ہے۔ زمین و آسمان اس کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔اللہ تعالیٰ بھی اس پر رحمت بھیجتا ہے اور اس کے فرشتے بھی اسی کام پر لگے ہوئے ہیں کہ اللہ کے اس پیارے نبی پر رحمت بھیجتے رہیں اور دعائیںکرتے رہیں۔ پس اے لوگو جو ایمان کا دعویٰ کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی محبت چاہتے ہو تو تمہارا بھی یہ کام ہے کہ اس نبی سے محبت پیدا کرو۔ اس پر درود بھیجو اور بہت زیادہ سلامتی بھیجو۔ جب تم اس طرح اس نبی پر درود و سلام بھیجو گے تو تم پر اس کی پیروی کے راستے بھی کھلتے چلے جائیںگے اور جیسے جیسے یہ راستے کھلیں گے جس طرح تم اس کی پیروی کرتے چلے جائو گے اتنی ہی زیادہ تم اللہ تعالیٰ کی محبت حاصل کرنے والے بھی بنتے چلے جائو گے۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 دسمبر 2004 ، خطبات مسرور جلد2 صفحہ884:-885)
15۔ شاھد ، شھید ﷺ:
عربی لغت اقرب الموارد کے مطابق شھید کے معنی ہیں الشاھد۔ گواہ۔ الامین فی شھادتہ۔ ٹھیک ٹھیک گواہی دینے والا۔ شاہد کے معنی نگران کےبھی کئےجاتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ نےقرآن کریم میں آپ ﷺ کو شاھد بھی فرمایا اور شہید بھی فرمایا۔
ان معانی کی رو سےہمارے پیارے نبی حضرت محمد مصطفیٰ ﷺ نگران بھی ہیں اور گواہ بھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اِنَّآ اَرْسَلْنَآ إِلَيْكُمْ رَسُوْلًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ (المزمل 16) کی تفسیر میں ’’شاہد‘‘ کے معانی بیان فرماتے ہیں کہ
’’ہم نے تمہاری طرف ایک رسول بھیجا ہے کہ تمہاری حالت معصیت اور ضلالت پرشاہد ہے۔‘‘
(براہین احمدیہ چہار حصص۔ روحانی خزائن جلد اول صفحہ531:)
حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ رسول اللہ ﷺ نے انہیں فرمایا کہ مجھے قرآن کریم پڑھ کر سناؤ۔ انہوں نے عرض کیا یارسول اللہ کیا مَیں آپ کو پڑھ کر سناؤں حالانکہ قرآن کریم تو آپ پر نازل ہوا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا کہ ہاں ، مجھے پڑھ کر سناؤ۔ وہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے سورة النساء کی تلاوت شروع کی۔ جب میں اس آیت پر پہنچا فَكَيْفَ اِذَا جِئْنَا مِنْ كُلِّ اُمَّةٍ بِشَهِيْدٍ وَجِئْنَا بِكَ عَلىٰ هٰٓؤُلَاءِ شَهِيْدًا (النساء42:) تو آپ ﷺ نے فرمایا کافی ہے۔ جب میں نے آپﷺکی طرف توجہ کی تو دیکھاکہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو جاری تھے۔
(صحیح بخاری کتاب فضائل القرآن باب قول المقرء للقاری: حسبک)
یہ آیت اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ آپ ﷺ نہ صرف اپنی امت پر گواہ ہیں بلکہ تمام انبیاء کی امتوں پر بھی گواہ ہیں۔ اس ذمہ داری کے احساس سے اور اس خیال سے بے ساختہ آپ ﷺ کی آنکھوں سے آنسو بہ پڑے۔
گواہی کا ایک مقصد تصدیق بھی ہوتا ہے۔ آپﷺ کی سب سے بڑی گواہی تمام انبیاء کی تصدیق بھی ہے۔ حضرت خلیفة المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی تصنیف چشمہ معرفت کا حوالہ دیتے ہوئے بیان فرماتے ہیں:
’’ پھر آپؑ فرماتے ہیں کہ: ’’دنیا میں کروڑ ہا ایسے پاک فطرت گزرے ہیں اور آگے بھی ہوں گے۔ لیکن ہم نے سب سے بہتر اور سب سے اعلیٰ اور سب سے خوب تر اس مرد خدا کو پایا ہے جس کا نام ہے محمدصلی اللہ علیہ وآلہ وسلم۔ اِنَّ اللّٰہَ وَمَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَاالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا۔ (الاحزاب57:)۔اُن قوموں کے بزرگوں کا ذکر توجانے دو جن کا حال قرآن شریف میں تفصیل سے بیان نہیں کیا گیا۔ صرف ہم ان نبیوں کی نسبت اپنی رائے ظاہر کرتے ہیں جن کا ذکر قرآن شریف میں ہے۔ جیسے حضرت موسیٰ، حضرت داؤد، حضرت عیسیٰ علیہم السلام اور دوسرے انبیاء۔ سو ہم خدا کی قسم کھا کر کہتے ہیں کہ اگر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم دنیا میں نہ آتے اور قرآن شریف نازل نہ ہوتا اور وہ برکات ہم بچشم خود نہ دیکھتے جو ہم نے دیکھ لئے تو ان تمام گزشتہ انبیاء کا صِدق ہم پر مشتبہ رہ جاتا۔ یعنی اگر قرآن شریف کی تعلیم سامنے نہ ہوتی اور جس طرح قرآن کریم نے ہمیں ان انبیاء کا بتا یا وہ ہم اپنی آنکھوں سے نہ دیکھ لیتے۔ یہ آنکھوں سے دیکھنے والی ہی بات ہے جس طرح تفصیل سے قرآن کریم میں ذکر ہے تو تمام گزشتہ انبیاء کی جو سچائی ہے وہ اس طرح ہم پر ظاہر نہ ہوتی جس طرح قرآن کریم کے پڑھنے سے ہم پر ظاہر ہوئی ہے۔ فرمایاکہ کیونکہ صرف قصّوں سے کوئی حقیقت حاصل نہیں ہو سکتی اور ممکن ہے کہ وہ قصے صحیح نہ ہوں۔اور ممکن ہے کہ وہ تمام معجزات جو ان کی طرف منسوب کئے گئے ہیں وہ سب مبالغات ہوں۔ کیونکہ اب ان کا نام و نشان نہیں بلکہ ان گزشتہ کتابوں سے تو خدا کا پتہ بھی نہیں لگتا۔ اور یقینًا نہیں سمجھ سکتے کہ خدا بھی انسان سے ہمکلام ہوتا ہے۔ لیکن آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ظہور سے یہ سب قصّے حقیقت کے رنگ میں آ گئے۔ اب نہ ہم قال کے طور پر بلکہ حال کے طور پر اس بات کو خوب سمجھتے ہیں کہ اب یہ سنی سنائی باتیں نہیں ہیں بلکہ تجربے سے یہ باتیں ہمارے سامنے ظاہر ہو گئیں۔‘‘
(خطبہ جمعہ فرمودہ 10 دسمبر 2004 ء، خطبات مسرور جلد دوم صفحہ887:-888)
آپ ﷺ کی 63 سالہ زندگی میں تاقیامت اپنی امت اور دیگر انبیاء کی امتوں کی گواہی کس طرح دی جاسکے گی؟ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰة والسلام اس سوال کے جواب میں فرماتے ہیں:
’’جیسے حضرت موسیٰ اپنی امت کی نیکی بدی پر شاہد تھے ایسا ہی ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم بھی شاہد ہیں مگر یہ شہادت دوامی طور پر بجز صورت استخلاف کے حضرت موسیٰ کے لئے ممکن نہیں ہوئی یعنی خدا تعالیٰ نے اسی اتمام حجت کی غرض سے حضرت موسیٰ کے لئے چودہ سو برس تک خلیفوں کا سلسلہ مقرر کیا جو درحقیقت توریت کے خادم اور حضرت موسیٰ کی شریعت کی تائید کے لیے آتے تھے تا خداتعالیٰ بذریعہ ان خلیفوں کے حضرت موسیٰ کی شہادت کے سلسلہ کو کامل کر دیوے اور وہ اس لائق ٹھہریں کہ قیامت کو تمام بنی اسرائیل کی نسبت خدا تعالیٰ کے سامنے شہادت دے سکیں۔ ایسا ہی اللہ جلّ شانہ نے اسلامی امت کے کل لوگوں کے لئے ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو شاہد ٹھہرایا ہے اور فرمایا اِنَّآ اَرْسَلْنَآ إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ اورفرمایا وَجِئْنَا بِكَ عَلَى هٰؤُلَاءِ شَهِيدًا مگر ظاہر ہے کہ ظاہری طور پر تو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم صرف تئیس برس تک اپنی امت میں رہے پھر یہ سوال کہ دائمی طور پر وہ اپنی امت کے لئے کیونکر شاہد ٹھہر سکتے ہیں یہی واقعی جواب رکھتا ہے کہ بطور استخلاف کے یعنی موسیٰ علیہ السلام کی مانند خدا تعالیٰ نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بھی قیامت تک خلیفے مقرر کر دیئے اور خلیفوں کی شہادت بعینہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی شہادت متصور ہوئی اور اس طرح پر مضمون آیت اِنَّآ اَرْسَلْنَآ إِلَيْكُمْ رَسُولًا شَاهِدًا عَلَيْكُمْ ہریک پہلو سے درست ہوگیا۔ غرض شہادت دائمی کا عقیدہ جو نص قرآنی سے بتواتر ثابت اور تمام مسلمانوں کے نزدیک مسلّم ہے تبھی معقولی اور تحقیقی طور پر ثابت ہوتا ہے جب خلافت دائمی کو قبول کیا جائے۔ اور یہ امر ہمارے مدعا کو ثابت کرنے والا ہے فتدبّر۔‘‘
(شہادت القرآن، روحانی خزائن جلد نمبر6 صفحہ363:)
لفظ ’’شھید‘‘ صفت مشبہ کا وزن ہے جو اسم الفاعل اور اسم المفعول کے معنی میں بھی استعمال ہوجاتا ہے۔ اگر اسے اسم الفاعل کے طور پر دیکھیں تو رسول کریم ﷺ ’’دوسروں کو گواہ بنانے والے‘‘ بھی قرار پاتے ہیں۔ قرآن کریم بھی ان معنی کی تصدیق کرتا ہے۔ آپ ﷺ نہ صرف خود گواہ ہیں بلکہ آپ ﷺ کی امت بھی گواہ ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
وَكَذٰلِكَ جَعَلْنَاكُمْ اُمَّةً وَسَطًا لِتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَيَكُونَ الرَّسُولُ عَلَيْكُمْ شَهِيْدًا (البقرة 144:)
’’ اور اسى طرح ہم نے تمہىں وسطى اُمّت بنادىا تاکہ تم لوگوں پر نگران ہو جاؤ اور رسول تم پر نگران ہو جائے۔‘‘
اس آیت کی رو سے رسول کریم ﷺ کے طفیل امت بھی وسطی امت بن گئی اور افراد امت گواہ ٹھہرے۔
ایک جگہ اللہ تعالیٰ رسول کریمﷺ کو مخاطب کرکے فرماتا ہے:
قُلْ یٰٓاَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا اِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّهَ وَلَا نُشْرِكَ بِهٖ شَيْئًا وَلَا يَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِنْ دُونِ اللّهِ فَإِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُونَ (آل عمران 65:)
تُو کہہ دے اے اہل کتاب! اس کلمہ کى طرف آ جاؤ جو ہمارے اور تمہارے درمىان مشترک ہے کہ ہم اللہ کے سوا کسى کى عبادت نہىں کرىں گے اور نہ ہى کسى چىز کو اُس کا شرىک ٹھہرائىں گے اور ہم مىں سے کوئى کسى دوسرے کو اللہ کے سوا ربّ نہىں بنائے گا پس اگر وہ پھر جائىں تو تم کہہ دو کہ گواہ رہنا کہ ىقىنًا ہم مسلمان ہىں۔
یہ بھی ایک عظیم الشان آیت ہے جو مذہبی رواداری اور باہمی الفت کے لئے مشترکہ عقائد کی تلاش میں ہے۔
مولف ’’ کان خلقہ القرآن ‘‘ تحریر کرتے ہیں :
ہمارے پیارےنبی ﷺ نےعالم عیسائیت کو Heraclius کےذریعہ اپنے مکتوب گرامی میں یہ پیغام دےدیا کہ قُلْ یٰٓاَهْلَ الْكِتَابِ تَعَالَوْا إِلٰى كَلِمَةٍ سَوَاءٍ بَيْنَنَا وَبَيْنَكُمْ کہ اے اہل کتاب اس بات کی طرف آجاؤ جو ہم میں اور تم میں مشترک ہے لیکن اگر اہل کتاب صلح کی اس عظیم الشان پیشکش کو قبول نہ کریں تو ظاہر ہے کہ ھُمْ فِیْ شِقَاق کہ اختلاف اور لڑائی اب ان کی طرف سے ہے۔ مسلمانوں پر اس کا الزام لگانا درست نہیں اگر وہ صلح کی ایسی genuine پیشکش کو نہیں مانتے تو کہہ دو فَقُوْلُوا اشْهَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ (آل عمران65:) کہ اب تم گواہ رہو کہ بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ کہ ہم نے صلح کی پیشکش کردی ہے اب لڑائی تو تمہاری طرف سے ہے ہم نے صلح کا پیغام دے دیا ہے اب تم نےحملہ کیا تو تم قابیل سے بھی بدتر ہوگے۔
(کان خلقہ القرآن حصہ دوم صفحہ37:)
رسول کریم ﷺ نے اہل کتاب کو صلح اور امن و آشتی کی اس پیشکش پر گواہ ٹھہرادیا۔ یہ وہ پیشکش ہے جو عالم اسلام کی طرف سے 1400 سال قبل کی گئی اور آج بھی دنیا کا امن و سلامتی اسی پر عمل کرنے سے مشروط ہے۔
16۔مبشر/بشیر ﷺ:
مبشر کے معنی ہیں خوشخبری دینے والا۔ بشیر بھی اسی مادہ سے صفت مشبہ ہے یعنی بہت خوشخبریاں دینے والا۔ اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں آپ ﷺ کو فرماتا ہے:
وَمَا اَرْسَلْنَاكَ اِلَّا مُبَشِّرًا وَنَذِيْرًا (الاسراء 106:)
اور ہم نے تجھے نہىں بھىجا مگر اىک مبشر اور اىک نذىر کے طور پر۔
اسی طرح فرمایا:
يٰٓاَيُّهَا النَّبِيُّ اِنَّا اَرْسَلْنَاكَ شَاهِدًا وَمُبَشِّرًا وَنَذِيرًا (الاحزاب 46)
اے نبى! ىقىناً ہم نے تجھے اىک شاہد اور اىک مبشّر اور اىک نذىر کے طور پر بھىجا ہے۔
آنحضرت ﷺ کی تبلیغ، تربیت اور صحابہ رضوان اللہ علیھم کے ساتھ روزمرہ معاملات میں تبشیر کا پہلو غالب رہتا تھا۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہےبَشِّرُوْا وَلَا تُنَفِّرُوْا، وَيَسِّرُوْا وَلَا تُعَسِّرُوْا (صحیح مسلم كِتَابُ الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ بَابٌ فِي الْاَمْرِ بِالتَّيْسِيرِ، وَتَرْكِ التَّنْفِيرِ) کہ تم بشارتیں دیا کرو نہ کہ متنفر کرو اور آسانیاں پیدا کرو نہ کہ مشکلات۔
آپ ﷺ کی پاک زندگی بھی اسی کی تصویر نظر آتی ہے۔ زندگی کہ ہر شعبہ سے متعلق خوشخبریاں، آسانیاں اور بشارتیں ہی بانٹتے نظر آتے ہیں۔ مومنوں کے متعلق خوشخبری ہے کہ يٰٓاَيُّهَا الَّذِيْنَ آمَنُوا اتَّقُوا اللّهَ وَآمِنُوْا بِرَسُولِهٖ يُؤْتِكُمْ كِفْلَيْنِ مِنْ رَحْمَتِهٖ وَيَجْعَلْ لَكُمْ نُورًا تَمْشُوْنَ بِهٖ وَيَغْفِرْ لَكُمْ۔وَاللّهُ غَفُوْرٌ رَحِيْمٌ(الحديد 29:) اے لوگو جو اىمان لائے ہو! اللہ کا تقوىٰ اختىار کرو اور اس کے رسول پر اىمان لاؤ وہ تمہىں اپنى رحمت مىں سے دُہرا حصہ دے گا اور تمہىں اىک نور عطا کرے گا جس کے ساتھ تم چلو گے اور تمہىں بخش دے گا اور اللہ بہت بخشنے والا (اور) بار بار رحم کرنے والا ہے ۔
عورتیں جو اس معاشرے کا پِسا ہوا حصہ تھیں جن کی پیدائش پر غم سے چہرے سیاہ ہوجاتے تھے، انہیں مردوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ مردوں کو عَاشِرُوْهُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ (النساء 20:) کا حکم دیا۔ یعنی ان سے نىک سلوک کے ساتھ زندگى بسر کرو۔ اسی طرح فرمایا وَلَهُنَّ مِثْلُ الَّذِيْ عَلَيْهِنَّ بِالْمَعْرُوفِ (البقرة 229:) اور اُن (عورتوں) کا دستور کے مطابق (مَردوں پر) اتنا ہى حق ہے جتنا (مَردوں کا) اُن پر ہے۔
ان احکامات قرآنی نے عورتوں میں خوشی اور تشکر کےجذبات پیدا کئے۔
ایک بہت ہی کمتر طبقہ غلاموں کا تھا ۔ انہیں بھی ان الفاظ میں خوشخبری سنائی
وَالَّذِيْنَ يَبْتَغُوْنَ الْكِتَابَ مِمَّا مَلَكَتْ اَيْمَانُكُمْ فَكَاتِبُوْهُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِيْهِمْ خَيْرًا وَآتُوْهُمْ مِنْ مَالِ اللهِ الَّذِيْ آتَاكُمْ (النور 34:)
اور تمہارے جو غلام تمہىں معاوضہ دے کر اپنى آزادى کا تحرىرى معاہدہ کرنا چاہىں اگر تم ان کے اندر صلاحىت پاؤ تو اُن کو تحرىرى معاہدہ کے ساتھ آزاد کر دو اور وہ مال جو اللہ نے تمہىں عطا کىا ہے اس مىں سے کچھ اُن کو بھى دو۔
اسی طرح غلاموںاور لونڈیوں کی شادیوں کا حکم اور ان کے حقوق کے بارہ میں بھی خوشخبریاں سنائیں۔
ان کافروں کو جو مسلمانوں کے خلاف جنگیں لڑرہے تھےیہ پیشکش کی کہ
وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَهَا (الانفال 62:)
اور اگر وہ صلح کے لئے جُھک جائىں تو تُو بھى اُس کے لئے جُھک جا۔
یعنی صلح کی جب بھی پیشکش ہو یہ نہ دیکھا جائے کہ تمہاری جنگی تیاری کتنی ہے یا مخالفین کی کتنی ہے۔ یا مخالف صلح کے بہانے محض تیاری کے لئے وقت حاصل کررہا ہے۔ حکم یہی ہے کہ ان سے صلح کرو۔
پھر نہ صرف جنگ کرنے والے مخالفین کو صلح کی پیشکش کی بلکہ فتح مکہ کے دن ایسے دشمن کو لَا تَثْرِيْبَ عَلَيْكُمُ الْيَوْمَ (يوسف 93:) کی خوشخبری سنائی جو گزشتہ 21 سال سے دن رات آپ ﷺ کے خلاف زبانی، کلامی، معاشرتی، معاشی اور جنگی تیاریاں کرتا رہا، جنگیں مسلط کیں، قریب ترین ساتھیوں کو شہید کیا، نہ صرف خود جنگیں کیں بلکہ غزوہ احزاب میں سارے عرب کو مدینہ پر حملہ کے لئے اکٹھا کر لائے۔ لیکن اس عفو نے دشمن کو جرائم میں بڑھایا نہیں بلکہ اس اسوہ کامل کو دیکھ کر فوری مسلمان ہوگئے۔ کفار مکہ کے وہ ساتھی جو رسول کریم ﷺ کی فتح دیکھ کر خوف سےبھاگ گئے، وہ بھی جب پیش کئے گئے تو معافی کے حقدار ٹھہرے اور خلق عظیم دیکھتے ہوئے فوری اسلام کی آغوش میں آگئے۔ عکرمہ رضی اللہ عنہ بن ابوجہل بھی اسی سلوک کی روشن مثال ہیں۔
مشکل حالات میں بھی صحابہ رضوان اللہ علیھم کی ہمت بڑھانے کے لئے انہیں مشکلات میں صبر کرنے اوراس کے بہترین اجر کے بارہ میں خوشخبریاں دیتے۔ حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب میرے والد کو شہید کیا گیا تو میں ان کے چہرے سے کپڑا اٹھا کر روتا تھا، لوگ مجھے روکتے تھے لیکن رسول اللہ ﷺ مجھے نہیں روکتے تھے۔ میری پھوپھی حضرت فاطمہ بھی رونے لگیں۔ تب نبی ﷺ نے فرمایا تم روئے یا نہ روئے، اس وقت تک کہ تم نے اس کو اٹھا لیا ملائکہ اپنے پروں سے اس پر سایہ کئےرہے۔
( صحیح بخاری کتاب الجنائز، باب الدخول علی المیت بعد الموت …)
حضرت عمار بن یاسر اور آپ ؓ کےخاندان کو مکہ میں سخت اذیتوں کا نشانہ بنایاجاتا تھا۔آپ ﷺ انہیں خوشخبری دیتے ہوئے ڈھارس بندھاتے کہ صبرا آل يَاسر فَإِن مَوْعدكُمْ الْجنَّة اے آل یاسر صبرکرو یقینا تمہارا ٹھکانہ تو جنت میں ہے۔
ہجرت مدینہ کے وقت سخت خوف کا وقت ہے، آپ ﷺ غار ثور سے نکل کر مدینہ کی طرف تشریف لےجارہے ہیں۔ کفار قریش نےآپ ﷺ کی خبر دینے والے کے لئے بڑے بڑے انعامات کا اعلان کیا ہے، ایک گھڑ سوار تیزی سے آپ ﷺ کی طرف بڑھتا چلاجارہا ہے، حضرت ابوبکر صدیقؓ کی نظر بار بار اس خطرہ کی طرف جاتی ہے لیکن اللہ کے پیارے نبیﷺ پُرسکون ہیں۔ گھڑ سوار قریب آتا ہے اور اس کا گھوڑا گر جاتا ہے۔ ایسا ایک سے زائد مرتبہ ہوتا ہے۔ اس پر اس گھڑ سوار کو اللہ تعالیٰ عقل دیتا ہے کہ جس کے ساتھ خدا ہو تم اس کا کچھ نہیں بگاڑ سکتے۔ وہ آواز دیتا ہے اور معذرت کرتا ہے۔ رسول کریم ﷺ اس موقع پر اس اعرابی گھڑ سوار سراقہ کو بشارت دیتے ہیں جو آپ کی جان کا دشمن بنے آپﷺ کا تعاقب کررہا تھا کہ اس وقت تمہارا کیا حال ہوگا جب کسریٰ کے کنگن تمہارے ہاتھ میں ہوں گے۔ اس بشارت میں سراقہ کو تو یہ پیغام مل گیا کہ تم نے کفار مکہ کے انعام کی لالچ چھوڑ دی ہے تو اللہ تعالیٰ ایک دن تجھے سپر پاور ایران کے بادشاہ کے کنگن پہنائے گا۔ اور مٹھی بھر مظلوم مسلمانوں کو اس کسمپرسی کے وقت کسری کی سلطنت کی فتوحات کی خوشخبری بھی سنا دی۔
… … … … …(جاری ہے)