ترکی کا مستقبل اور مسلمانوں کا فرض: قسط نمبر 2
(ترکی کی حالت زار پر تبصرہ اور مشورہ )
اس تیسرے امر کے متعلق جو کچھ میری رائے ہے اور جس کی پابند تمام جماعت احمدیہ ہے و ہ تمام احباب کرام کے غور کے لئے ذیل میں درج کردیتا ہوں۔
میرے نزدیک اس کام کے لئے سعی کرنے سے پہلے مسلمانوں کو اس امر کو خوب اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے کہ ترکوں کے مستقبل کے متعلق فیصلہ جن طاقتوں نے کرنا ہے۔ ان میں سے صرف حکومت برطانیہ ہی ایک ایسی طاقت ہے جسے ترکوں کے مفاد سے دلچسپی ہے۔ اور جو اُن کی ایک حد تک مدد کرنا چاہتی ہے۔ اور جس کے وزراء نہایت محنت سے ان خیالات سے جو ترکوں کے مستقبل کے متعلق مسلمانوں کے دلوں میں موجزن ہیں صلح کی کانفرنس کو مطلع کر رہے ہیں۔ حکومت حجاز کی تائید اور نصرت بھی صلح کی کانفرنس میں حکومت برطانیہ ہی کر رہی ہے۔ اور اس کا اعتراف حکومت حجاز کا نیم سرکاری اخبار ’’قبلہ‘‘ کئی بار کر چکا ہے۔ پس اپنے تمام اعمال میں مسلمانوں کو برطانیہ کے اس احسان کو مد نظر رکھنا چاہئے تا ایسا نہ ہو کہ وہ اپنے جوش میں اس دوست کو بھی اپنے ہاتھوں سے کھو دیں۔ اور احسان فراموشی کے جرم کے مرتکب ہوں۔ حکومت برطانیہ مسلمان نہیں کہ مذہباً وہ ترکوں کی ہمدرد ہو۔ نہ سیاسی طور پر ترکوں کی تباہی اس کے مفاد پر کوئی اثر ڈال سکتی ہے کیونکہ اس نے ترکوں سے جنگ کر کے دیکھ لیا ہے کہ پین اسلامزم کا خطرہ ایک خیالی خطرہ ہے۔ وہ اگر ترکوں سے ہمدردی رکھتی ہے تو محض اپنی مسلمان رعایا کے جذبات اور احساسات کے خیال سے۔ پس جس قدر بھی وہ ہمدردی کرتی ہے مسلمانوں کو اس کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ اور ایک دوست کے طور پر اس کی قدر کرنی چاہئے۔ اور یاد رکھنا چاہئے کہ اگر ایک طرف حکومت برطانیہ پر یہ فرض ہے کہ وہ ہمارے احساسات کا خیال رکھے تو دوسری طرف حکومت برطانیہ پر ان دوسری اقوام کے احساسات کا خیال رکھنا بھی فرض ہے جو جنگ میں اس کے ساتھ شامل ہوئیں۔ اور جن کے سپاہی برطانیہ کے سپاہیوںکے دوش بدوش اسی طرح لڑے جس طرح مسلمان سپاہی بلکہ مسلمانوں سے بھی زیادہ تعداد میں۔ اور اس جنگ کو فاتحانہ رنگ میں ختم کرنے کے لئے انہوں نے اپنے اموال اس سے بہت زیادہ خرچ کئے جس قدر کہ مسلمانوں نے۔ پس مسلمانوں کے احساسات کا خیال رکھنے کے ساتھ حکومت برطانیہ اگر ضرور ی سمجھتی ہے کہ ان اقوام کے خیالات کا خیال بھی رکھے تو ہمیں اس کی مجبوری کو سمجھنا چاہئے۔ اور اس کی مشکلات کو نظر انداز نہیں کرنا چاہئے۔
علاوہ ازیں یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اس جنگ کے ابتدائی ایام میں امریکہ کے شامل ہونے سے پہلے اتحادیوں میں بعض معاہدات ہوئے تھے۔ جن کے پورا کرنے پر بعض طاقتیں برطانیہ پر زور دیتی ہیں اور اس مشکل کی وجہ سے بھی برطانیہ اس طرح سے مسلمانوں کے خیالات کی ترجمانی نہیں کر سکتا جس طرح کہ مسلمان اس سے امید رکھتے ہیں۔ پس اس کام کے شروع کرتے وقت اس امر کا فیصلہ کرلینا چاہئے کہ نہ تو کو ئی ایسا ایجی ٹیشن پھیلایا جاوے اور نہ دوسروں کو پھیلانے کی اجازت دی جاوے جن میں لوگوں کے ذہن میں یہ بات آوے کہ برطانیہ مسلمانوں کے ساتھ مناسب برتاؤ نہیں کرتا اور ان کے حقوق کی کافی حفاظت سے غافل ہے کیونکہ غفلت اور لاپروائی بالکل اور چیز ہیں اور مشکلات اور چیز۔ مسلمانوں کی تما م کو ششیں برطانیہ کا ہاتھ مضبوط کرنے میں خرچ ہونی چاہئیں نہ کہ اس کو گھر میں مشکل ڈال دینے میں۔ اس بات کو خاص طور پر یاد رکھنے کی اس لئے ضرورت ہے کہ بعض خود غرض لوگ ایسے موقعوں سے نا جائز فائدہ اٹھا نے کے عادی ہوتے ہیں۔ اور التجا کو دھمکی اور مخلصانہ اصرار کو معاندانہ دباؤ سے بدل دیتے ہیں۔ میرے نزدیک برطانیہ جب کہ پہلے ہی مسلمانوں کے احساسات کی ترجمانی کر رہا ہے تو اس کی اس کوشش کا شکریہ ادا کرتے ہوئے مسلمانوں کو صرف اس سے یہ درخواست کرنی چاہئے کہ وہ پہلے سے بھی زیادہ زور دے۔ بے شک بعض معاہدات اس کے راستہ میں روک ہیں۔ مگر ہر انصاف پسند برطانوی مدبر پر یہ بات واضح کر دینی چاہئے کہ ایسے معاہدات جن میں کوئی اخلاقی نقص ہو معاہدات کہلانے کے مستحق نہیں ہیں۔ انسان سے غلطی ہوتی ہے مگر اس غلطی پر مصر ہونا انسان کا کام نہیں۔ اگر کوئی شخص کسی کو ایک چیز دینے کا معاہدہ کرتا ہے اور بعد میں اسے معلوم ہوتا ہے کہ وہ اس کا مال نہیں ہے تو وہ اس معاہدہ کا پابند رہنے پر مجبور نہیں کیا جا سکتا۔ نہ اخلاقاً اسے اس معاہدہ کی پابندی کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ بے شک برطانیہ نے بعض اقوام سے ترکوں کے بعض علاقوں کے متعلق ایسے معاہدات کئے ہیں کہ وہ ان حکومتوں کے زیر حفاظت رکھے جا ویں گے۔ مگر جب کہ ان علاقہ جات کے باشندے خود اس امر کو پسند نہ کرتے ہوں اور جب کہ اس امر کا فیصلہ کر دیا گیا ہو کہ کسی ملک کے انتظام میں اس کے باشندوں کی آراء کا بھی ایسے حالات میں کہ کسی قسم کے ظلم کا خطرہ نہ ہو خیال رکھا جاوے گا کوئی وجہ نہیں کہ ان کو دوسری حکومتوں کے سپرد کر دیا جاوے۔ جن کے نیچے رہنا ان کو نہ صرف نا پسند ہی ہے، بلکہ خطرہ ہےکہ ان کے مذہبی احساسات کو بھی اس طرح صدمہ پہنچے۔ یورپ بے شک تعلیم ظاہری میں بڑھا ہوا ہے مگر سب یورپ انگریزوں کی طرح مذہبی آزادی کے اصول پر قائم نہیں ایسی مثالیں موجود ہیں کہ بعض یوروپین اقوام نے جبرًا مذہب میں دخل دیاہے اور زبردستی عقائد میں تبدیلی کروانی چاہی ہے۔ طرابلس اور حرب بلقان کے واقعات جو خود انگریز نامہ نگاروں نے لکھے ہیں دلالت کرتے ہیں کہ برطانیہ عظمیٰ کو تمام اہل یورپ کو اپنے جیسا مہذب خیال نہیں کرنا چاہئے۔ غرض دلائل اور براہین سے برطانیہ عظمیٰ کے اصحاب حل و عقد کو سمجھانا چاہئے کہ اس بارہ میں مسلمانوں کے خیالات حق پر مبنی ہیں اور انگلستان کی عام رائے کو اصل حالات سے واقف کرنا چاہئے۔ اور برطانیہ کی قدیم انصاف پسندی کو دیکھتے ہوئے یقین رکھنا چاہئے کہ برطانیہ اپنی طاقت کے مطابق مسلمانوں کے احساسات کا خیال رکھنے میں کوتاہی نہیں کرے گا۔ اور ایسے امور سے بکلّی پر ہیز کیا جاوے جن سے عوام میں کوئی غلط فہمی پیدا ہو یا نا مناسب جوش پیدا ہو۔ کیونکہ اس صورت میں حکام کی توجہ زیادہ تر اندرونی انتظام کی طرف مبذول ہو جاوے گی۔ اور اگر ایسے حالات میں وہ مسلمانوں کے احساسات کی تصویر پورے طور پر ان لوگوں کے سامنے نہ کھینچ سکیں جو اس وقت ترکی حکومت کے مستقبل پر غور کرنے کے لئے بیٹھے ہیں تو اس کا الزام خود مسلمانوں پرہو گا نہ کسی اَور پر۔ میرے نزدیک مناسب ہے کہ جہاں اس امر پر زور دیا جاوے کہ برطانیہ مسلمانوں کے خیالات کی پہلے سے زیادہ تائید کرے وہاں عامۃ الناس کو اس امر سے بھی واقف کیا جاوے کہ برطانیہ اب تک بہت کچھ کوشش کر چکا ہے اور کوشش کر رہاہے جیسا کہ حکومت حجاز کی گواہی سے صاف طور پر عیاں ہے۔
دوسرا امر اس کوشش کو کامیاب بنانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ مسلمان حکومت حجاز کا سوال بیچ میں سے بالکل اٹھا دیں۔ عربوں نے غیر اقوام کی حکومتوں کے ماتحت اپنی زبان اور اپنے تمدن کے متعلق جو کچھ نقصان اٹھایا ہے وہ مخفی امر نہیں ہے۔ اور ہر ایک شخص جو ان ممالک کے حالات سے آگاہ ہے اس امر سے واقف ہے۔ اور پھر عربوں نے جو کچھ قربانی اس آزادی کے حصول کے لئے کی ہے وہ بھی چھپی ہوئی بات نہیں۔ عرب کی غیر ت قومی جوش مار رہی ہے اور اس کی حریت کی رگ پھڑک رہی ہے۔ انہیں اب کسی صورت میں ان کی مرضی کے خلاف ترکوں کے ساتھ وابستہ نہیں کیا جا سکتا۔ تیرہ سو سال کے بعد اب وہ پھر اپنی چار دیواری کا آپ حاکم بنا ہے۔ اور اپنے حسن انتظام اور عدل و انصاف سے اس نے اپنے حق کو ثابت کر دیا ہے۔ اس کے متعلق کوئی نئی تجویز نہ کامیاب ہو سکتی ہے نہ کوئی معقول انسان اس کو قبول کر سکتا ہے نہ عرب اسے ماننے کے لئے تیار ہے۔ حجاز کا آزاد رہنا ہی اب اسلام کے لئے مفید ہے۔ وہ بنسبت ترکی سلطنت کا جزو ہونے کے علیحدہ حکومت کے رنگ میں زیادہ مفید ہے۔ مقامات مقدسہ کا ایک چھوٹی اور نظر طمع سے بچی ہوئی سلطنت میں رہنا بہت بہتر ہے۔ پس اس سوال کوہمیشہ کے لئے فیصل شدہ خیال کرنا چاہئے۔
تیسری ضروری بات یہ ہے کہ مناسب مشورہ کے بعد اس غرض کے لئے ایک کونسل مقرر کی جاوے جس کا کام ترکی حکومت کی ہمدردی کو عملی جامہ پہنانا ہو۔ صرف جلسوں اور لیکچروں سےکام نہیں چل سکتا، نہ روپیہ جمع کرکے اشتہاروں اور ٹریکٹوں کے شائع کرنے سے، نہ انگلستان کی کمیٹی کو روپیہ بھیجنے سے بلکہ ایک باقاعدہ جدوجہد سے جو دنیا کے تمام ممالک میں اس امر کے انجام دینے کے لئے کی جاوے۔ یہ زمانہ علمی زمانہ ہے اور لوگ ہر ایک بات کے لئے دلیل طلب کرتے ہیں۔ پس ضروری ہے کہ ا پنے مدعا کی تائید کے لئے دلائل جمع کئے جائیں۔ اور جن لوگوں کےاختیار میں ان امور کا فیصلہ ہے ان کو دلائل کے زور سے منوایا جائے۔ تلوار کےساتھ ساڑھے چار سال میں پچھلی جنگ کا خاتمہ ہوا ہے۔ لیکن تلوار ایک دم میں دشمن کا فیصلہ کر دیتی ہے۔ دلیل ایک دم میں کسی کےدل کو نہیں پھیرتی اس کےلئے زیادہ محنت کی ضرورت ہے۔ گویہ فرق ضرور ہے کہ ایک تلوار چند محدود آدمیوں کے مقابلہ میں چلائی جاسکتی ہے۔ لیکن دلیل ایک وقت میں کئی ہزار بلکہ لاکھ آدمی کےسامنے پیش کی جاسکتی ہے۔ پس اس مشکل کام کو پورا کرنے کے لئے باقاعدہ انتظام ہونا چاہئے۔ اور اسی طرح سنجیدگی سے کام کرنا چاہئے جس طرح کہ دوسری اقوام کر رہی ہیں۔ بے فائدہ کا م دانا کا کام نہیں اور اس کے کرنے سے اس کا نہ کرنا اچھا ہے۔ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ برطانیہ اگرپورے طور پر مسلمانوں کے خیالات سے متفق بھی ہو جاوے تب بھی صلح کی کانفرنس میں صرف برطانیہ ہی کے نمائندہ نہیں بیٹھتے اس میں اور بہت سی طاقتوں کے نمائندہ بھی شامل ہیں۔ امریکہ اپنے حق اولیت پر مصر ہے۔ فرانس اپنی قربانیوں کو پیش کر رہا ہے۔ اٹلی اپنی مظلومیت کا مظہر ہے۔ جاپان اور چین خواہ اس سوال سے بے تعلق ہوں مگر چین کو امریکہ کی ہمدردی حاصل کرنی ضروری ہے۔ اور امریکہ یونان کے قدیم دعوؤں کی تائید میں اپنا سارا زور لگا رہا ہے۔ اور ان حکومتوں میں یہ بحث نہیں کہ ترکوں کو کس قدر ملک دیا جاوے۔ بلکہ اس سوال پر بحث ہے کہ ترک اطالین وصایہ کے نیچے رہیں یا یونانی کے۔ حتیٰ کہ ترکوں میں سے ایک جماعت نے اس ڈر سے کہ ہمیں کہیں اٹلی یا یونان کے ماتحت نہ کر دیں خود یہ تحریک شروع کر دی ہے کہ اگر کسی کے زیر حفاظت ہمیں رکھنا ہی ہے تو انگریزوں کے ماتحت رکھو کہ ہمارا دین اور مذہب تو برباد نہ ہو۔ پس اتنی اقوام کے مقابلہ میں ایک انگریزی آواز کیا اثر پیدا کر سکتی ہے۔ فرانس شام پر قبضہ نہیں کر سکتا جب تک اناطولیہ اٹلی کو نہ دلوائے۔ اور امریکہ اپنے معیار انصاف کو ثابت نہیں کرسکتا جب تک کہ ترکوں کو کسی نہ کسی یوروپین حکومت کے وصایہ میں نہ رکھے۔ اگر بلغاریہ کو سمندر تک راستہ دینا ضروری ہے۔ تو یونان کو اس کی حق تلفی کے بدلہ میں کوئی نہ کوئی اور علاقہ ملنا واجبات میں سے ہے۔ پس ایک اناروصدبیمار کا معاملہ ہے۔ برطانیہ کرے تو کیا کرے۔ ہم اسےکیا مشورہ دے سکتے ہیں۔ یہی کہ وہ اس امر پر زور دے کہ ترکوں سے بھی انسانوں کا سا سلوک کیا جاوے۔ یہ وہ پہلے سے کررہا ہے۔ ترکوں کے علاقہ میں فساد ہونے پر اگر فرانسیسی اخبارات اپنا راستہ صاف کرنے کے لئے سب الزام عربوں پر لگاتے ہیں تو برطانیہ کے اخبارات ہی ہیں جو عربوں کا ساتھ دیتے ہیں۔ برطانیہ کو یہ مشورہ دیا جاسکتا ہے۔ نہ اس مشورہ پر عمل ممکن ہے کہ وہ اس مسئلہ کے متعلق تمام دُوَل کو جنگ کی دھمکی دے۔ اس کے نقطۂ خیال سے یہ بات حد درجہ کی بے شرمی میں داخل ہو گی۔ اگر وہ ان اقوام سے جو ابھی ایک سال نہیں گزرا کہ اس کے دوش بدوش اس کے اور تہذیب وتمدن کے دشمنوں سے جنگ کر رہی تھیں ایک ایسی حکومت کے بدلہ جو اس کی دشمن تھی جنگ شروع کردے۔ اور پھر کون سی عقل اس کو تسلیم کر سکتی ہے کہ حکومت برطانیہ باجود اپنی اس قدر طاقت و عظمت کے اس قدر طاقتوں کے مجموعہ سے جنگ کرسکتی ہے یہ زمانہ حقائق کا ہے تخیلات سے اس وقت کا م نہیں چل سکتا۔
پس اگر اس امر میں کامیاب ہونے کی کوئی امید ہو سکتی ہے تو صرف اس طرح کہ ان دیگر اقوام کی رائے بھی بدلی جاوے جو اس وقت صلح کی کانفرنس میں حصہ لے رہی ہیں۔ خصوصاً امریکہ اور فرانس کی۔ اگر ان دونوں ملکوں کی رائے بدلی جائے تو پھر کوئی مشکل نہیں رہتی۔
…………………(جاری ہے)
٭…٭…٭