الفضل ڈائجسٹ

الفضل ڈائجسٹ

(محمود احمد ملک)

اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔

گھانا میں غلاموں کی تجارت

روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ24؍اکتوبر 2012ء میں مکرم فرید احمد نوید صاحب کے قلم سے ایک مضمون شائع ہوا ہے جس میں گزشتہ صدیوں میں گھانا سے غلاموں کی تجارت کی دلخراش داستان بیان کی گئی ہے۔

گھانا کی ساحلی پٹی جو آج خوبصورت ریستورانوں اور resorts سے بھری ہوئی ہے ایک زمانہ میں بعض لوگوں کے لئے خوف اور دہشت کی علامت تھی جس کی تلخ داستانوں کے نقوش آج بھی بکھرے پڑے ہیں۔ ایسی کہانیاں جن کے تمام کردار حقیقی دنیا کے جیتے جاگتے افراد تھے۔ جن میں سے محض چند ایک کی کہانی محفوظ رہ گئی۔ کئی سو سال پر محیط ایک انتہائی کربناک تاریخ اس علاقہ کا مقدر رہی جب غلاموں کی خریدوفروخت باقاعدہ ایک کاروبار اور منافع بخش تجارت کی صورت میں یہاں جاری تھی۔اس علاقہ میں قائم کئی قلعے غلاموں کی نقل و حمل کے لئے استعمال کئے جاتے تھے۔ لمبے عرصہ تک بیڑیوں میں جکڑے غلام مرد اور عورتیں افریقہ کے مختلف ممالک سے پکڑ کر ان دروازوں کی جانب لائے جاتے تھے جنہیں اب Doors Of No Return کے نام سے یادکیا جاتا ہے۔ یعنی وہ دروازے جن سے گزرنے کے بعد واپسی کا کوئی راستہ گھر کی جانب نہیں جاتا تھا۔ ساحل سمندر پر کثرت سے قائم ان قلعوں میں دیگر تجارتوں کے ساتھ غلاموں کے بھی سودے ہوتے تھے جنہیں پھر بحری جہازوں پر لاد کر یورپ و امریکہ کی طرف روانہ کر دیا جاتا تھا۔ وہ محض ایک غلام ہوتا تھا۔ اپنے آقا کی مرضی کے مطابق کام کرتے چلے جانے والا ایک انسان۔ اشرف المخلوقات انسان جسے اللہ تعالیٰ نے تو آزاد وجود کے طور پر دنیا میں پیدا کیا، لیکن بعض انسانوں نے اپنے مفادات کے لئے اسے غلامی کی زنجیروں میں جکڑدیا۔ انسان بسا اوقات کس قدر کٹھور اورسنگ دل ہوجاتا ہے۔

سولہویں صدی عیسوی کا گھانا جو گولڈکوسٹ کہلاتا تھا افریقہ بھر سے لائے جانے والے غلاموں کی تجارت کا ایک بہت بڑا مرکزاور اس تجارت کا اہم رُوٹ تھا۔ اس ملک کے 540کلو میٹر طویل ساحل پر 80 سے زائد قلعے بنائے گئے تھے۔ درحقیقت اس تجارت کا آغاز بعض یورپی تاجروں کی طرف سے کیا گیا جو ابتدا میں سونے اور دیگر اشیاء کی تجارت کے لئے آئے تھے لیکن وقت گزرنے کے ساتھ انسانی تجارت بھی شروع ہوگئی تو ایک منافع بخش کاروبار سمجھ کر بہت سے لوگ اس میں شامل ہوتے چلے گئے۔ پرتگیزی، ڈینش، ڈَچ، سویڈش، جرمن، فرانسیسی اور برطانوی تاجروں کا اس کاروبار میں مقابلہ شروع ہوگیا۔ نئے قلعے بنتے چلے گئے اورکمزور طبقوں سے تعلق رکھنے والے آزاد لوگ غلام بنتے چلے گئے۔ ان غلاموں میں کچھ تو قبائلی جنگوں کے نتیجہ میں مغلوب ہوکر فاتح قبیلہ کے ہاتھ آجاتے تھے، کچھ کمزور قبائل کے لوگوں کو زبردستی غلام بنا کر بیچ دیا جاتا تھا اور بعض اپنے ہی قبائل کی طرف سے کسی جرم کی پاداش میں سزا کے طور پر بیچ دئیے جاتے تھے۔

غلام بنانے کا رواج دنیا میں بہت قدیم سے چلا آرہا ہے جس کا آغاز جنگی قیدیوں سے ہوا۔ چونکہ اُس زمانہ میں جنگی قیدیوں کو سنبھالنے کا کوئی مرکزی نظام موجود نہیں تھا اس لئے جنگ کے نتیجہ میں ہاتھ آنے والوں کو فاتح قوم کے افراد میں تقسیم کردیا جاتا تھا۔ اسی وجہ سے ان افراد سے بہت نامناسب سلوک کیا جاتا تھا اور ان غلاموں کو کسی قسم کے حقوق حاصل نہیں ہوا کرتے تھے۔ تاریخ میں سب سے پہلے آنحضرت ﷺ نے اس مظلوم طبقہ کو دوسرے انسانوں کے برابر لا کھڑا کیا۔ان کے حقوق متعین کئے، ان کی آزادی کے راستے بتائے اور ایک ایسا معاشرہ پیدا کیا جہاں یہ آزاد کردہ غلام بڑے بڑے سرداروں کے مقابل پر سپہ سالار مقرر کئے گئے، ان کے جھنڈوں کے نیچے قوموں نے امان پائی۔ اگر یہ ایک پہلو ہی دیکھا جائے تو دیگر مذاہب کے مقابل پر اسلام کی برتری روز روشن کی طرح عیاں ہوجاتی ہے۔ بائبل کی تعلیم یہ تھی کہ : اگر کوئی اپنے غلام یا لونڈی کو لاٹھیاں مارے اور وہ مار کھاتی ہوئی مرجائے تو اسے سزا دی جائے، لیکن اگر وہ ایک دن یا دو دن جئے تو اسے سزا نہ دی جائے کیونکہ وہ اس کا مال ہے۔ (خروج باب 21/20-21)۔ جبکہ آنحضرت ﷺ نے نصیحت فرمائی کہ: تمہارے غلام تمہارے بھائی ہیں اللہ نے انہیں تمہارے ہاتھوں میں دیا ہے۔ پس جب کسی شخص کے ماتحت کوئی غلام ہو تو اسے چاہئے کہ اسے وہی کھانا دے جو وہ خود کھاتا ہو وہی لباس پہناوے جو وہ خود پہنتا ہو اور تم اپنے غلاموں کو ایسا کام کرنے پر مجبور نہ کرو جوان کی طاقت سے بالا ہو اور اگر کبھی ایسا کام ان کے سپرد کرو تو ان کی مدد کیا کرو۔

اسلام نے غلاموں کی آزادی کی کئی صورتیںپیدا کردیں مثلاً غلام آزاد کرنے کو چوٹی کی نیکی قرار دے دیا۔ مختلف گناہوں اور غلطیوں کا کفارہ غلاموں کو آزاد کرنا رکھ دیا۔ جبکہ غلام بنانے کے پہلے سے رائج ظالمانہ راستے بھی بند کردئیے۔ گویا آئندہ کے لئے غلامی کی راہوںکو بھی ہمیشہ کے لئے بند کردیا۔ چنانچہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا : اللہ تعالیٰ نے مجھ سے مخاطب ہو کر فرمایا ہے کہ تین قسم کے لوگ ایسے ہیں جن سے میں قیامت کے دن جنگ کروں گا۔ اول: وہ شخص جس نے میرا واسطہ دے کر کسی سے عہد باندھا اور بد عہدی کی۔دوم: وہ جس نے کسی آزاد شخص کو غلام بنایا اور اسے فروخت کر کے اس کی قیمت کھائی۔سوم: وہ جس نے کسی مزدور کو کام پر لگایا اور کام تو پورا لیا مگر اسے مزدوری نہ دی۔جنگی قیدیوں کے بارہ میں اسلام کی سنہری تعلیم یوں ہے کہ :’’یا تو انہیں احسان کرتے ہوئے رہا کر دو یا فدیہ لے کر۔‘‘ (محمد5:)۔ نیز مکاتبت کا طریق بھی تجویز کردیا:’’اور تمہارے جو غلام تمہیں معاوضہ دے کر اپنی آزادی کا تحریری معاہدہ کرنا چاہیں اگر تم ان کے اندر صلاحیت پاؤ تو ان کو تحریری معاہدہ کے ساتھ آزاد کر دو اور وہ مال جو اللہ نے تمہیں عطا کیا ہے اس میں سے کچھ ان کو بھی دو۔‘‘ (النور34:)۔ پھر یہ بھی فرض قرار دے دیا کہ اگر غلاموں کے پاس استطاعت نہ ہو تو زکوٰۃ کے اموال کے ذریعہ بھی اُن کی آزادی کے سامان کئے جاسکتے ہیں۔ (التوبہ60:)

لیکن بد قسمتی ہے کہ افریقہ کے ممالک میں تو غلام کی تجارت کا سلسلہ انیسویں صدی کے وسط تک باقاعدہ قانونی تحفظ میں جاری رہا۔ بالآخر انسانی ضمیر جاگا اور 1807ء میں غلامی کے خلاف قوانین سازی کا آغاز کیا گیا اور 1834ء میں مکمل طور پر غلاموں کی تجارت کو غیر قانونی قرار دے دیا گیا۔ یہ وہی دَور ہے جس میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مسیح موعودؑ کو اس دنیا میں بھیجا۔ گویا آپ کی آمد سے جہاں دنیا روحانی اعتبار سے بلند پروازی کی طرف بلائی گئی وہیں ظاہری اعتبار سے بھی غلامی کی زنجیروں کو توڑ دیا گیا۔چنانچہ حضرت مسیح موعودؑ (چشمہ معرفت میں ) فرماتے ہیں:’’یہ بہت خوشی کی بات ہے کہ ہمارے زمانہ میں اسلام کے مقابل پر جو کافر کہلاتے ہیں انہوں نے یہ تعدّی اور زیادتی کا طریق چھوڑ دیا ہے۔ اس لئے اب مسلمانوں کے لئے بھی روا نہیں کہ ان کے قیدیوں کو لونڈی غلام بنائیں۔ کیونکہ خدا قرآنِ شریف میں فرماتا ہے جو تم جنگجو فرقہ کے مقابل صرف اس قدر زیادتی کرو جس میں پہلے انہوں نے سبقت کی ہو۔ پس جبکہ اب وہ زمانہ نہیں ہے اور اب کافر جنگ کی حالت میں مسلمانوں کے ساتھ ایسی سختی اور زیادتی نہیں کرتے کہ ان کوغلام بناویں بلکہ وہ شاہی قیدی سمجھے جاتے ہیں اس لئے اب اس زمانہ میں مسلمانوں کو بھی ایسا کرنا ناجائز اور حرام ہے۔‘‘

گھانا میں پرتگیزی تاجروں نے اپنی تجارت کا آغاز 1471ء میں کیا۔ اس دَور میں Barter System رائج تھا یعنی ایک جنس کے بدلہ میں دوسری جنس کا لین دین کیا جاتا تھا۔ پرتگیزی تاجر یہاں سونے کی بہتات دیکھ کر حیران رہ گئے اور مقامی افراد سے بعض ہتھیاروں، شراب، تمباکو اور لوہے کی اشیاء کے بدلے سونا اور قیمتی پتھر حاصل کیا کرتے تھے۔ 19 جنوری 1482ء کو تجارتی مفادات کے تحفظ کیلئے پرتگیزی تاجروں نے Elmina کے مقام پر پہلا قلعہ تعمیر کیا جس کا نام سینٹ جارج رکھا گیا۔جو آج بھی موجود ہے۔ بعدازاں اس تجارت میں غلاموں کی تجارت بھی شامل ہوگئی۔ لوگوں کو بیچا جانے لگا اور عالمی منڈی میں یہاں کے صحت مند غلام گھریلو ملازمین اور زراعت کے کاموں کیلئے خریدے جانے لگے۔ بہت مرتبہ مقامی لوگوں نے اس نظام کو بدلنے کی کوشش کی لیکن بزور قوّت ایسی کسی بھی تحریک کو دبا دیا گیا۔ دیگر اقوام نے بھی جب اس تجارت میں قدم رکھنے کی کوشش کی تو پرتگیزیوں کی طرف سے شدید مزاحمت کی گئی۔ چنانچہ مقامی لوگوں کی مدد سے دیگر یورپی اقوام نے پرتگیزی تسلّط کو ختم کرنے کیلئے کوشش شروع کردی۔ لیکن یہ سب اتنا آسان نہیں تھا، بہت سی لڑائیاں ہوئیں اور بالآخربعض مقامی قبائل کو ساتھ ملا کر 1637ء میں ڈَچ Elmina Castle پر قابض ہوگئے۔ تاہم مقامی لوگوں کی توقع کے برعکس غلاموں کی تجارت نہ رُک سکی۔ دیگر اقوام کی آمد نے تجارت کے نئے انداز اور طریق متعارف کروائے لیکن انیسویں صدی کے آغاز تک غلاموں کی تجارت کا خاتمہ نہ ہوسکا۔ اٹھارہویں صدی کے آخر پر مختلف سوسائٹیوں کی طرف سے غلاموں کی تجارت کے خاتمے کی تحریکات چلنا شروع ہو چکی تھیں اور بالآخر برطانیہ کی طرف سے اس معاملے میں پہل کی گئی اور برطانوی قانون میں 1808ء میں غلاموں کی تجارت کو ممنوع قرار دے دیا گیا۔ لیکن اس کے بعد بھی یہ سلسلہ جاری رہا اور 1850ء کے لگ بھگ اس تجارت کا خاتمہ ممکن ہوسکا۔ یکم جنوری 1862ء کو امریکہ کے صدر ابراہام لنکن نے غلامی کے خاتمہ کا اعلان کیا اور 1865ء تک قوانین کی تبدیلی کے بعد امریکہ کے غلاموں کو بھی آزادی نصیب ہوگئی۔

گھانا میں اس وقت موجود قلعوں میں سے دو مشہور قلعے منکسم (Mankessim) کے قریب ہی واقع ہیں۔ ان میں سے ایک تو Cape Coast Castle ہے۔ریکارڈز سے پتہ چلتا ہے کہ سابق امریکی خاتون اوّل مشعل اوبامہ کے پردادا کو بھی اسی قلعہ سے غلام بنا کر امریکہ لے جایا گیا تھا۔ 11جولائی 2009ء کو امریکی صدر باراک اوبامہ اور مشعل اوبامہ نے اس قلعہ کا دورہ بھی کیا تھا۔ جبکہ دوسرا مشہور اور قدیم قلعہElmina Castle ہے جو ابتدا میں تجارتی مقاصد کے لئے قائم کیا گیا تھا لیکن وقت گزرنے کے ساتھ یہ قلعہ بھی غلاموں کی تجارت کے لئے استعمال ہونے لگا۔ جبکہ کیپ کوسٹ کا قلعہ خاص طور پر غلاموں کی تجارت کے لئے ہی بنایا گیا تھا۔ اس کے دالان کے بالکل سامنے ایک بڑا ہال بنایا گیا تھا جہاں غلاموں کی بولی لگائی جاتی تھی۔ غلاموں کو رکھا جانے والا احاطہ پانچ چیمبرز پر مشتمل تھا جن میں ایک ہزار سے زائد غلام روانگی سے قبل رکھے جاتے تھے۔ چار چیمبرز ان کی رہائش، کھانے پینے اور حوائج ضروریہ وغیرہ کے لئے مختص تھے جبکہ پانچویں کمرہ میں جو انہی کے ساتھ منسلک تھا روانگی سے قبل غلاموں کی جلد پر شناخت کے لئے نشانات وغیرہ لگائے جاتے تھے۔ اسی پانچویں کمرے سے غلاموں کو ایک سرنگ کے ذریعہ بحری جہازوں میں لے جایا جاتا تھا۔غلامی کے خاتمے کی علامت کے طور پر حکومت برطانیہ نے 1833ء میں اس سرنگ کو بند کردیا تھا۔ اس قلعہ میں بعض قبریں بھی موجود ہیں جو اُن یورپین لوگوں کی ہیں جو اپنے مختلف فرائض کی انجام دہی کے لئے یہاں رہا کرتے تھے۔ ان قبروں میں سے صرف ایک قبر ایک مقامی شخص کی ہے جس کا نام فلپ کویکو یا P.Q بیان کیا جاتا ہے۔ فلپ کو محض گیارہ سال کی عمر میں مذہبی تعلیم کے حصول کے لئے انگلستان بھجوایا گیا تھا جہاں سے اس نے 1665ء میں پہلے افریقن مشنری اور استاد کے طور پر اپنی تعلیم مکمل کر کے ڈگری حاصل کی اور افریقہ میں پہلے Anglican Church کا آغاز کیا۔فلپ کی تعلیم و تربیت اس نہج پر کی گئی تھی کہ وہ غلامی کو خدا تعالیٰ کی طرف سے تجویز کردہ قرار دیاکرتا تھا۔ اس کی تعلیم اور خدمات کی وجہ سے اس کی تنخواہ اکثر یورپی لوگوں سے بھی زیادہ مقرر تھی۔ فلپ کا کام بھی یہی تھا کہ وہ غلاموں کو اس امر کی تلقین کرے کہ انہیں بغیر کسی اعتراض کے غلامی کو قبول کرلینا چاہئے کیونکہ یہ خداتعالیٰ کی طرف سے ان کی تقدیر میں لکھا جا چکا ہے۔ غلام عورتوں کو رکھنے کے لئے اسی قلعہ کے ایک حصہ میں دو کمروں پر مشتمل ایک احاطہ مختص کیا گیا تھا۔ جس میں 100سے زائد عورتیں ایک وقت میں رکھی جاتی تھیں۔ یہاں بھی صورتحال بہت دگرگوں رہا کرتی ہوگی کیونکہ اتنی بڑی تعداد کو ٹھہرانے کے لئے یہ جگہ بہت ناکافی ہے۔ لیکن تاجروں کے لئے یہ سب لوگ محض تجارتی سامان کی حیثیت رکھتے تھے، محض ایک نمبر، محض ایک جنس۔ یہی وجہ ہے کہ اس تمام کارروائی کے دوران بہت سے کمزور غلام زندگی کی بازی ہار جاتے تھے۔ بہت سے سخت سمندری سفر اور کم خوراکی کی وجہ سے دورانِ سفر ہلاک ہوجاتے تھے اور صرف وہی منزل تک پہنچتے تھے جو اچھے صحت مند ہوا کرتے تھے اور یہی وہ ’سامان‘ تھا جس کی نئی دنیا میں مانگ تھی۔ اس قلعہ میں اس راہ میں زندگی ہار جانے والوں کی یاد میں ایک یادگار بھی بنائی گئی ہے۔ دنیا بھر سے آئے ہوئے سیاح یہاں بھی ضرور جاتے ہیں۔

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button