امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا دورۂ امریکہ اکتوبر 2018ء
حضرت امیرالمومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی فلاڈلفیا سے بالٹی مور روانگی، چرچ سے مسجد میں تبدیل کی جانے والی مسجد ’’بیت الصمد‘‘ کا معائنہ اور افتتاح، پریس کانفرنس ، معززین سے ملاقات
… … … … … … … … …
20؍اکتوبر 2018ء بروز ہفتہ
… … … … … … … … …
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے صبح چھ بجکر پندرہ منٹ پر تشریف لا کر مسجد بیت العافیت فلاڈلفیا میں نمازِفجر پڑھائی۔ نماز کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
صبح حضورِانور نے دفتری ڈاک اور رپورٹس ملاحظہ فرمائیں اور دفتری امور کی انجام دہی میں مصروفیت رہی۔
پروگرام کے مطابق دس بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لائے۔ مسجد کے دروازے پر کینیڈا سے آنے والے دو بچے عزیزم فاران طارق اور عزیزہ سبیکہ طارق کھڑے تھے۔ یہ دونوں آپس میں بہن بھائی ہیں۔ انہوں نے عرض کیا کہ ہم دونوں قرآن کریم حفظ کررہے ہیں۔ حضورِانور کے استفسار پر لڑکے نے بتایا کہ وہ ساڑھے سات پارے حفظ کرچکا ہے اور بچی نے بتایا کہ وہ ابھی دوسرا پارہ حفظ کررہی ہے۔ دونوں نے حضورِانور سے پیار حاصل کیا۔
بعدازاں حضورِانور مسجد کے اندر تشریف لے آئے جہاں مجلس عاملہ جماعت فلاڈلفیا کے ممبران نے حضورِانور کے ساتھ گروپ فوٹو بنوانے کی سعادت پائی۔ اس موقع پر مقامی جماعت کے بعض بزرگ افریقن امریکن احباب نے حضورِ انور سے شرف مصافحہ حاصل کیا۔ جب حضورِانور مسجد کے دروازے سے باہر آنے لگے تو ایک نوجوان اپنے چھوٹے بیٹے کو اُٹھائے ہوئے کھڑا تھا۔ حضورِ انور نے ازراہِ شفقت بچے کو پیار کیا اور اُس کے رخسار پر الیس اللہ بکاف عبدہ والی انگوٹھی لگائی۔ اس پر وہ خوش نصیب نوجوان خوشی سے پھولا نہ سماتا تھا۔ بعدازاں حضورِانور مسجد کے بیرونی احاطہ میں تشریف لے آئے جہاں احباب جماعت مردو خواتین کی ایک بڑی تعداد موجود تھی۔ بچیاں گروپس کی صورت میں دعائیہ نظمیں اور گیت پڑھ رہی تھیں۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں دو پودے لگائے۔ بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ پر تشریف لے گئے۔
آج یہاں سے پروگرام کے مطابق بالٹی مور (Baltimore) اور وہاں پر مسجد بیت الصمد کا افتتاح اور پھر واشنگٹن روانگی کاپروگرام تھا۔
روانگی سے قبل امریکہ کے پہلے احمدی Dr. Anthony George Baker کی قبر پر دعا کا پروگرام بھی تھا۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے موصوف کا ذکر اپنے خطبہ جمعہ فرمودہ 19؍اکتوبر 2018ء میں فرمایا تھا۔
حضرت اقدس مسیح موعود علیہ السلام نے کتاب براہین احمدیہ حصہ پنجم میں جارج اے بیکر کاذکر ان الفاظ میں کیا ہے:
’’ایسا ہی اَور کئی انگریز ان ملکوں میں اس سلسلہ کے ثناخواں ہیں اور اپنی موافقت اس سے ظاہر کرتے ہیں۔ چنانچہ ڈاکٹر بیکر جن کا نام اے جارج بیکر نمبر 404 سیس کوئی ھانا ایوینیو (Susquehanna Avenue) فلاڈلفیا امریکہ، میگزین ریویوآف ریلیجنز میں میرا نام اور تذکرہ پڑھ کر اپنی چٹھی میں یہ الفاظ لکھتے ہیں’مجھے آپ کے امام کے خیالات کے ساتھ بالکل اتفاق ہے۔ انہوں نے اسلام کو ٹھیک اُس شکل میں دنیا کے سامنے پیش کیا جس شکل میں حضرت نبی محمد ﷺ نے پیش کیا تھا۔‘‘
(روحانی خزائن جلد 21 براہین احمدیہ حصہ پنجم صفحہ 106)
اخبار الفضل 22؍جولائی 1920ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کی امریکہ سے بھجوائی ہوئی درج ذیل رپورٹ شائع ہوئی جس میں آپؓ نے فلاڈلفیا کے ڈاکٹر بیکر کے اسلام قبول کرنے کاذکر کیا ہے۔
’’عاجز راقم کو ان تھوڑے سے ایام میں جو ملک امریکہ میں داخل ہوئے گزرے ہیں، باوجود بڑی مشکلات اور رکاوٹوں کے جو متعصّب عیسائیوں کی طرف سے پیش آئیں معتدبہ کامیابی حاصل ہوئی۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔ اِس وقت 29 نئے جنٹلمین اور لیڈیاں عاجز کی تبلیغ سے داخل دین متین ہوچکے ہیں جن کے اسمائے گرامی مع جدید اسلامی نام درج ذیل ہیں۔
2-1۔ ڈاکٹر جارج بیکر ومسٹر احمد اینڈرسن۔ یہ ہردو صاحبان ایک عرصہ سے عاجز کے ساتھ خط وکتابت رکھتے تھے اور مدت سے مسلمان ہوچکے ہوئے ہیں۔ مخلص مسلمان ہیں۔ میں ضروری سمجھتا ہوں کہ ان کا نام اس فہرست میں سب سے اول رکھا جائے۔‘‘
بعد میں آپؓ نے رپورٹ میں دیگر افراد کا ذکر کیا۔
ڈاکٹر بیکر کی وفات 17؍ فروری 1918ء کو ہوئی۔ مقامی جماعت نے متعلقہ اداروں سے رابطہ کرکے اور سوسال کا پرانا ریکارڈ دیکھ کر ان کی قبر تلاش کی ہے۔ موصوف فلاڈلفیا کے ایک قبرستان Laural Hill میں دفن ہیں۔
حضورِ انور کی فلاڈلفیا سے روانگی
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز گیارہ بج کر بیس منٹ پر اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے۔ حضورِانور کو الوداع کہنے کے لئے احباب جماعت مردوخواتین کی ایک بڑی تعداد صبح سے مسجد بیت العافیت کے بیرونی احاطہ میں جمع تھی۔ بچیاں گروپس کی صورت میں الوداعی نظمیں پڑھ رہی تھیں۔ حضورِانور نے دعا کروائی اور اپنا ہاتھ بلند کرکے سب کو السلام علیکم کہا اور یہاں سے روانگی ہوئی۔ پولیس کی گاڑیاں قافلہ کو escort کررہی تھیں۔
گیارہ بج کر پینتیس منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ قبرستان میں تشریف لائے اور مرحوم ڈاکٹر جارج بیکر کی قبر پر دعا کی اور اس موقع پر صدرصاحب جماعت فلاڈلفیا مکرم مجیب اللہ چوہدری صاحب سے استفسار فرمایا کہ آپ نے مرحوم کی قبر کس طرح دریافت کی ہے۔ اس پرموصوف نے بتایا کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے اپنی کتاب میں جہاں ان کا ذکر فرمایا ہے وہاں ان کے گھر کا مکمل ایڈریس بھی لکھا ہوا ہے۔ چنانچہ اس ایڈریس کی بدولت جو یہاں قریبی قبرستان ہے وہاں کی انتظامیہ اور کونسل وغیرہ سے رابطہ کرکے 100 سالہ پرانا ریکارڈ نکلوا کر یہ قبر تلاش کی گئی ہے۔
مرحوم ڈاکٹر جارج بیکر صاحب کے تصور اور وہم وگمان میں بھی یہ نہیں ہوگا کہ جس مسیحؑکی انہوں نے تصدیق کی ہے اور اُنہیں قبول کرنے کی سعادت پائی ہے کبھی اُن کے کوئی خلیفہ سَو سال بعد اِن کی قبر پر آئیں گے اور اِن کے لئے دعا ہوگی۔ وَ ذٰلک فضل اللہ یؤتیہ من یشآئ۔
بعدازاں یہاں سے روانگی ہوئی۔ شہر سے باہر جانے کے لئے وہ راستہ اختیار کیا گیا تھا جو ساحل سمندر کے اُس حصہ سے گزرتا تھا جہاں بحری جہاز لنگرانداز ہوتے ہیں اور 1920ء میں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کا جہاز اسی پورٹ پر لنگرانداز ہوا تھا۔ جہاں آپؓکو جہاز سے اُترنے کے بعد قید کرلیاگیا تھا۔ یہاں چند لمحات کے لئے رُکے۔ انتظامیہ نے بتایا کہ یہ وہ جگہ ہے جہاں حضرت مفتی محمد صادق صاحبؓ کو قید کیا گیا تھا۔ بعدازاں پولیس کے escort میں بالٹی مور کی طرف سفر جاری رہا۔ Pennsylvania سٹیٹ کی حدود میں یہاں کی پولیس نے escortکیا۔ اس کے بعد جب Delaware سٹیٹ میں داخل ہوئے تو وہاں کی پولیس نے قافلہ کو escortکیا۔ پھر Maryland سٹیٹ میں داخل ہوئے تو یہاں کی پولیس نے قافلہ کو escort کیا۔ بالٹی مورکا علاقہ میری لینڈ سٹیٹ میں ہے۔ میری لینڈ سٹیٹ میں جب بالٹی مور شہر کے قریب پہنچے تو پولیس کاایک ہیلی کاپٹر بھی سیکیورٹی کی ڈیوٹی پر مامور تھا اور مسلسل قافلہ کے اوپر اور مسجد کے ایریا میں چکر لگاتا رہا۔
مسجد ’’بیت الصمد‘‘ بالٹی مور میں ورودِ مسعود
ایک بج کر پچاس منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی مسجد ’’بیت الصمد‘‘ تشریف آوری ہوئی۔ حضورِانور پہلے مشن ہائوس کے رہائشی حصہ میں تشریف لے آئے۔ یہ یہاں کے مبلغ سلسلہ کا گھر ہے۔ یہاں عارضی قیام کا انتظام کیا گیا تھا۔ اڑھائی بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد ’’بیت الصمد‘‘ تشریف لائے جہاں احباب جماعت مردوخواتین کی ایک بڑی تعداد نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا بھرپور استقبال کیا۔ پُرجوش انداز میں نعرے بلند کئے۔ بچوں اور بچیوں کے گروپس نے خیرمقدمی گیت پیش کئے۔ جماعت بالٹی مور (Baltimore) کے لئے آج کا دن کسی عید سے کم نہیں تھا۔ آج کا مبارک دن ان کے لئے بہت خوشیاں اور برکتیں لے کر آیا تھا۔ حضورِانور کے مبارک قدم ان کی سرزمین پر پہلی بار پڑرہے تھے۔ مردوخواتین، بچے بچیاں صبح سے ہی اپنے پیارے آقا کے استقبال کے لئے جماعت کے سینٹر مسجد ’’بیت الصمد‘‘ پہنچنا شروع ہوگئے تھے۔ بالٹی مور کی مقامی جماعت کے علاوہ اِردگرد کی جماعتوں سے احباب بڑی کثرت سے پہنچے تھے۔ بعض احباب تو بڑی دور کی جماعتوں سے دودو تین تین ہزار میل کا بڑالمبا سفر طے کرکے آئے تھے۔ حضورِانور کا استقبال کرنے والوں کی تعداد ایک ہزار آٹھ صد کے لگ بھگ تھی۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنا ہاتھ بلند کرکے ان کے نعروں کا جواب دے رہے تھے۔
مسجد ’’بیت الصمد‘‘ کا معائنہ و افتتاح
حضورِانور نے مسجد کی بیرونی دیوار میں نصب تختی کی نقاب کشائی فرمائی اور دعا کروائی۔
بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد سے ملحقہ لابی (lobby) میں تشریف لے آئے اور تصاویر کی نمائش کا معائنہ فرمایا۔ اِس لابی میں مختلف حصوں میں دیوار پر تصاویر آویزاں کی گئی ہیں۔
تصاویر کی اس نمائش کے پانچ حصے ہیں۔ پہلا حصہ مسجد بیت الصمد کی تصاویر اور امریکہ میں تعمیر ہونے والی بعض دوسری مساجد کی تصاویر پر مبنی ہے۔
دوسرا حصہ دنیا بھر میں جماعت احمدیہ کی تعمیر ہونے والی بعض مساجد کی تصاویر پر مبنی ہے۔
تیسرا حصہ جماعت احمدیہ امریکہ کی مختصر تاریخ نیز جماعت احمدیہ امریکہ کے فلاحی پروگراموںکی تصاویر پر مشتمل ہے۔
چوتھا حصہ خلفائے احمدیت کے امریکہ کے دورہ جات جبکہ پانچواں حصہ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے مختلف اقوام اور ممالک کے لیڈران کی ملاقات اور حضورِانور کے مختلف ممالک میں ایڈریسز کی تصاویر پر مشتمل ہے۔
نمائش کے معائنہ کے دوران ہی بالٹی مور میں مقیم ایک پرانے افریقن امریکن احمدی نے حضورِانور سے شرف مصافحہ حاصل کیا۔ موصوف نے 1960ء میں بیعت کی تھی۔ موصوف نے امسال جلسہ سالانہ یوکے پر آنے کا پروگرام بنایا تا کہ زندگی میں ایک دفعہ حضورِانور سے مل سکیں لیکن اپنی بیماری اور تکلیف کے باعث سفر کے قابل نہ ہوسکے۔ آج اللہ تعالیٰ نے ان کی خواہش ان کے گھر میں پوری کردی۔ موصوف بہت خوش تھے اور ان کی آنکھیں آنسوئوں سے بھری ہوئی تھیں۔
بعدازاں حضورِانور مسجد کے مردانہ ہال میں تشریف لے آئے اور معائنہ فرمایا۔ اس کے بعد حضورِانور نے عمارت میں موجود کچن اور ڈائننگ ہال کا بھی معائنہ فرمایا۔ آخر پر حضورِانور نے مسجد کے بیرونی حصہ کا بھی معائنہ فرمایا اور صدرصاحب جماعت بالٹی مور ڈاکٹر فہیم یونس قریشی صاحب سے اس تعمیر پر ہونے والے اخراجات کے حوالہ سے دریافت فرمایا۔ جس پر موصوف نے عرض کیا کہ چرچ کی عمارت کی خرید اور اس کی renovation کرکے مسجد کی عمارت میں تبدیل کرنے پر بیس لاکھ ڈالر کے لگ بھگ خرچ ہوئے ہیں۔ اس کے بہت سے حصے بعض تبدیلیوں کے ساتھ نئے سرے سے تعمیر کئے گئے ہیں۔
یہ عمارت اگست 2015ء میں خریدی گئی۔ جنوری 2017ء سے نومبر 2017ء تک اسے renovate کرکے اور بعض حصے نئے سرے سے تعمیر کرکے مسجد کی شکل میں تبدیل کیا گیا۔
مسجد کا کل مسقف حصہ 13 ہزار مربع فٹ پر مشتمل ہے۔ مردوں اور عورتوں کے نماز پڑھنے کے علیحدہ علیحدہ ہال ہیں۔ جن میں چارصد کے لگ بھگ لوگ نماز پڑھ سکتے ہیں۔
اس مسجد کے احاطہ میں دو طعام گاہیں، دفاتر، دو کانفرنس رومز، دو لائبریریاں، ایک کمرشل کچن، ایک ریگولر کچن کے علاوہ چار کلاس رومز بھی موجود ہیں جہاں بچوں کی تعلیمی وتربیتی کلاسز ہوتی ہیں۔ ایک اعلیٰ معیار کا آڈیو ویڈیو سسٹم (Audio Video System) بھی مسجد میں نصب کیا گیا ہے۔اطفال و ناصرات کے لئے بلڈنگ کے اندر کھیلنے کی سہولت بھی فراہم کی گئی ہے۔
یہ مسجد ایک ہائی وے کے اوپر واقع ہے جہاں روزانہ گزرنے والی تقریبًا 35سے 45 ہزار گاڑیوں کے مسافر اس مسجد کو دیکھتے ہیں۔اس مسجد کے بیرونی احاطہ میں ایک صد سے زائد گاڑیوں کی پارکنگ بھی موجود ہے۔
مسجد بیت الصمد کے معائنہ کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں درج ذیل دو خواتین کے نمازِجنازہ حاضر پڑھائے اور ان کے لواحقین سے اظہارِ تعزیت فرمایا:
1۔ مکرمہ صدیقہ سمیع صاحبہ آف سینٹرل ورجینیا۔ ان کی وفات 17؍اکتوبر کوہوئی۔ انا للہ وانا الیہ راجعون۔ آپ طفیل ملک صاحب کی بیٹی تھیں جنہیں حضرت مصلح موعود ؓ کے ہاتھ پر بیعت کرنے کاشرف عطاہوا۔ مرحومہ کی شادی میجر (ریٹائرڈ) عبدالسمیع صاحب مرحوم کے ساتھ ہوئی۔ مرحومہ خلافت سے محبت کرنے والی اور نمازوں کی پابند نیک خاتون تھیں۔ مرحومہ نے اپنے پیچھے تین بیٹے اور دو بیٹیاں یادگار چھوڑی ہیں۔
2۔ مکرمہ کوثرپال صاحبہ آف سینٹرل ورجینیا۔ ان کی وفات 18؍اکتوبر 2018ء کوہوئی۔ آپ منصور احمد پال صاحب مرحوم کی اہلیہ تھیں۔ گزشتہ چھ ماہ سے بیمار تھیں۔ مرحومہ موصیہ تھیں اور ان کا جماعت سے گہری وابستگی کا تعلق تھا۔ آپ کے بیٹے فوزان پال صاحب مقامی جماعت میں بطور جنرل سیکرٹری اور زعیم مجلس انصاراللہ خدمت کی توفیق پارہے ہیں۔ آپ کی ایک بیٹی دردانہ اقبال صاحبہ بھی ہیں۔
نمازِجنازہ کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مسجد میں تشریف لے آئے اور نمازِظہروعصر جمع کرکے پڑھائیں۔ نمازوں کی ادائیگی کے بعد حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز لجنہ کے ہال میں تشریف لے گئے۔ جہاں خواتین شرف زیارت سے فیضیاب ہوئیں۔
بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے مسجد کے بیرونی احاطہ میں ایک پودا لگایا۔ اس کے بعد مجلس عاملہ جماعت بالٹی مور، مجلس عاملہ انصاراللہ اور مجلس عاملہ خدام الاحمدیہ بالٹی مور نے علیحدہ علیحدہ حضورِانور کے ساتھ تصاویر بنوانے کا شرف پایا۔
خواتین کی تعداد زیادہ ہونے کے باعث پارکنگ ایریا میں خواتین کے لئے ایک مارکی لگائی گئی تھی۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ازراہِ شفقت اس مارکی میں بھی تشریف لے گئے۔ خواتین نے نعرے بلند کئے اور اپنے پیارے آقا کے دیدار سے فیضیاب ہوئیں۔
بعدازاں تین بج کر پندرہ منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ رہائشی حصہ میں تشریف لے گئے۔
مسجد ’’بیت الصمد‘‘ کی تقریبِ افتتاح
پروگرام کے مطابق شام پانچ بجے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز اپنی رہائشگاہ سے باہر تشریف لائے اور Hilton Hotel بالٹی مور کے لئے روانگی ہوئی جہاں مسجد ’’بیت الصمد‘‘کے افتتاح کے حوالہ سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ پولیس کی پانچ گاڑیوں نے قافلہ کو escortکیا۔ پانچ بج کر بیس منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی ہوٹل تشریف آوری ہوئی۔
پریس کانفرنس
پروگرام کے مطابق پانچ بج کر پینتالیس منٹ پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کانفرنس روم میں تشریف لائے، جہاں پریس کانفرنس کا انعقاد ہوا۔ اس پریس کانفرنس میں Religious News Service (RNS) کے تین صحافی اور نمائندے Jack Jenkins، Aysha Khan اور Tom Gallagher موجود تھے۔اس کے علاوہ Steiner Radio Show کے نمائندے اورصحافی Marc Steiner بھی شامل تھے۔National Public Radio(NPR) کے صحافی اور نمائندے Jerome Socolovsky بھی ان میں شامل تھے۔
٭…ایک جرنلسٹ نے سوال کیا کہ اب امریکہ میں مِڈْٹَرم انتخابات ہونے جا رہے ہیں۔ آپ مختلف سیاستدانوں سے بھی ملتے ہیں ۔ کیا آپ کا ان انتخابات کے حوالہ سے اپنی جماعت کے لئے یا یو ایس اے کے لئے کوئی پیغام ہے؟
اس پر حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ سیاست کے حوالہ سے کبھی بھی میں متجسس نہیں رہا۔ لیکن یوکے کا شہری ہونے کے لحاظ سے میں اپنا ووٹ کاسٹ کرتا ہوں۔ جماعت کے لئے تو یہی پیغام ہے کہ ہمیشہ یہ کوشش کریں کہ ایسے لوگوں کو منتخب کریں جن میں عاجزی ہو اور جو اپنے انتخابی حلقہ میں خدمت کا جذبہ رکھتے ہوں۔ یہ وہ پیغام ہے جو قرآن کریم نے ہمیں دیا ہے کہ ایسے لوگوں کا انتخاب کرو جو بہتر انداز میں تمہاری خدمت کر سکتے ہیں۔ آنحضرت ﷺ نے فرمایا ہے کہ قوم کا سردار قوم کا خادم ہوتا ہے۔ تو ہم تو اسی کو منتخب کرنے کی کوشش کرتے ہیں جو قوم کی بہتر رنگ میں خدمت کر سکتا ہے یا جسے ہم سمجھتے ہیں کہ وہ بہتر خدمت کرے گا۔
٭…ایک جرنلسٹ نے سوال کیاکہ جماعت احمدیہ یوایس اے میں اور دیگر ملکوں میں قائم احمدیہ جماعتوں میں کیا بڑا فرق ہے؟
اس سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:ہم احمدی ہر جگہ ایک جیسے ہیں۔ جو احمدی ہوتا ہے آپ اس کے اخلاق و اطوار میں فوری ایک تبدیلی دیکھتے ہیں اور بعض میں تو حیرت انگیز انقلاب آجاتا ہے۔ اسی وجہ سے میں ہمیشہ کہتا ہوں کہ احمدیوں کی سوچ، ان کی فکر، ان کا نقطۂ نظر ہر جگہ ایک سا ہے چاہے وہ یو ایس اے میں ہوں یا نارتھ امریکہ میں، ساؤتھ امریکہ، یورپ، یوکے ، یا ایشیا یا عرب ممالک یا کسی بھی افریقی ممالک میں ہوں۔ ایسا اس لئے ہے کہ ہم اسلام کی سچی تعلیمات پر عمل کرتے ہیں۔ جیساکہ ملک کی خدمت کرنا، قانون کی پابندی کرنا اور ملک سے وفاداری اور سب سے بڑھ کر ہمیشہ یہ سوچ رکھنا کہ اللہ تعالیٰ ہر آن دیکھ رہا ہے جو بھی وہ کر رہے ہیں، جو بھی ان کے اعمال ہیں، اللہ تعالیٰ انہیں دیکھ رہا ہے۔ اگر یہ خصوصیات لوگوں میں ہوں گی تو ان کا معیار ایک جیسا ہی ہو گا۔
٭…ایک صحافی نے عرض کیا کہ میرا سوال فوج سے متعلق ہے۔ میں نے احمدی اور دیگر مسلمان فوج میں دیکھے ہیں۔ ان میں سے اکثر مسلم کمیونٹی اور غیر مسلم کمیونٹی میں رابطوں کو بڑھانے کی کوشش کرتے ہیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ ایسے لوگ جنہوں نے فوج میں خدمت کی ہوئی ہے وہ زیادہ آگے آئیں اور حائل رکاوٹوں کو دور کرنے کی کوشش کریں۔
اس سوال کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ اصل بات یہ ہے کہ ملک کا شہری ہونے کے ناطے سب سے پہلی ذمہ داری ملک سے وفاداری ہے۔ اسلام کہتا ہے کہ ہر شخص اپنے ملک سے مخلص ہو۔ تو صرف فوج میں ہی نہیں دیگر شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے بھی بہت سے ایسے لوگ ہیں جو مسلمانوں اور غیر مسلموں میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جیساکہ میرا تو فوج سے کوئی تعلق نہیں ہے مَیں بھی یہ کوشش کر رہا ہوں اور دیگر احبابِ جماعت بھی کرتے ہیں۔
اگر آپ اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کر رہے ہیں تو اسلام کہتا ہے کہ ایک دوسرے سے باہمی پیار، محبت اور ہم آہنگی کو فروغ دیتے ہوئے زندگی بسر کرو۔ دین میں کوئی جبر نہیں ہے۔ ایک دوسرے کے مذہب کا احترام کرو۔ یہ اسلام کی تعلیم ہے۔ اس حوالہ سے اس قدر تاکید ہے کہ قرآن کریم میں آتا ہے کہ دیگر مذاہب کے بتوں کو بھی بُرا بھلا نہ کہو، کیونکہ وہ ردّ عمل میں اللہ تعالیٰ کی ذات کے حوالہ سے بھی کچھ بُرا بھلا کہیں گے اور اس کی وجہ سے معاشرے میں بےچینی پھیلے گی۔ تو یہ تو اسلام کی بنیادی تعلیم کا حصہ ہے کہ معاشرے میں باہمی محبت کی فضا قائم کرو۔ انسانیت اور انسانی اقدار کو اولین ترجیح ہو۔
ہم سب اپنے خدا کی تعلیمات پھیلانے والے ہیں۔ اللہ تعالیٰ تمام عالمین کو رزق فراہم کرنے والا ہے قطع نظر اس سے کہ آپ کا مذہب کیا ہے، مسلمان ہیں یا یہودی ہیں یا عیسائی ہیں یا ہندو ہیں یا لا مذہب ہیں یا دہریہ ہیں، سب کی اللہ تعالیٰ پرورش کر رہا ہے۔ جب اللہ تعالیٰ ہی سب کا ربّ ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ اس کی مخلوق آپس میں لڑے۔ تو اس حوالہ سے صرف فوج میں خدمت کرنے والوں کو ہی نہیں بلکہ بطور مسلمان ہر ایک کو کوشش کرنی چاہئے۔
٭…ایک صحافی نے سوال کیا کہ کیا آپ پریشان ہوتے ہیں جب دیگر مسلمان آپ کو غیر مسلم کہتے ہیں؟
اس کے جواب میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: یہ تو ایمان کا معاملہ ہے۔ آنحضرتﷺ کی ایک پیشگوئی ہے کہ آخری زمانہ میں ایک شخص مبعوث ہو گا جو اسلام کو دوبارہ سے زندہ کرے گا۔ اُس تاریک دور میں اسلام اور قرآن کریم کی تعلیمات تو ہوں گی لیکن مسلمان حقیقی تعلیمات سے دور ہٹ جائیں گے اور ان تعلیمات سے اپنے اپنے مطالب نکالیں گے۔ تو ایسے دور میں ایک مصلح پیدا ہو گا اور وہ مسیح موعود اور مہدی معہود ہو گا۔ ہم یقین رکھتے ہیں کہ یہ پیشگوئی بانی جماعت احمدیہ حضرت مرزا غلام احمد قادیانی علیہ الصلوٰۃ و السلام کے وجود میں پوری ہو چکی ہے۔ لیکن دیگر مسلمان اس کا انکار کرتے ہیں۔ وہ یہ کہتے ہیں کہ جب عیسیٰ علیہ السلام آسمان سے نازل ہوں گے تب ان کے بعد مہدی آئے گا اور پھر یہ دونوں مل کر اسلام کے احیا کے لئے کام کریں گے۔ پھر وہ کہتے ہیں کہ آنحضرتﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جبکہ ہم ایمان رکھتے ہیں کہ ماتحت نبی آ سکتا ہے، تاہم نئی شریعت والا نبی نہیں آسکتا۔ قرآن کریم شریعت کی آخری کتاب ہے۔ ایسا نبی آ سکتا ہے جو آنحضرت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل اتباع میں آئے اور آنحضرتﷺ کی تعلیمات کو آگے بڑھائے۔ پھر دیگر مسلمان یہ یقین رکھتے ہیں کہ جب عیسیٰ علیہ السلام نازل ہوں گے تو وہ نبی ہوں گے، کیونکہ نبی کا ٹائٹل عیسیٰ ؑ کے پاس پہلے ہی ہے، وہ تو نہیں چھن سکتا۔ ایک طرف تو وہ یہ کہتے ہیں کہ نبی نہیں آسکتا اور اپنے عقیدہ کی رو سے وہ ایک نبی کا ہی انتظار کر رہے ہیں، لیکن بانی جماعت کو وہ نبی ماننے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ تو یہ عقیدہ کا فرق ہے جو ان کی تشویش کا باعث ہے۔ اب یہ بجائے اس کے کہ مسیح کی آمد ثانی اور مہدی کی آمد کی باتیں کریں، آنحضرت ﷺ کی ختم نبوت کے حوالہ سے لوگوں کو اشتعال دلا رہے ہیں۔ یہ کہہ رہے ہیں کہ آنحضرت ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آسکتا اور چونکہ احمدی اپنے بانی کو نبی کہتے ہیں اس لئے یہ غیر مسلم ہیں، کافر ہیں اور مرتد ہیں۔ چونکہ احمدی ارتداد کے مرتکب ہیں لہٰذا ان کی سزا قتل ہونی چاہئے، ان کے سر قلم کر دینے چاہئیں، جو کہ ان کی نظر میں ایک مرتد کی سزا ہے۔
جہاں تک اس بات کا تعلق ہے کہ ہمیں اس مخالفت سے کوئی پریشانی ہے۔ ہر گز نہیں۔ ہم تو دن بدن ترقی کر رہے ہیں۔ ان کے گروہ سے لوگ نکل نکل کر جماعت میں داخل ہو رہے ہیں۔ ہر سال ہماری جماعت میں لاکھوں افراد کا اضافہ ہو رہا ہے۔ ہم ایک مذہبی جماعت ہیں، ہم یقین رکھتے ہیں کہ ایک دن آئے گا کہ ہم لوگوں کے دل جیت لیں گے اور انشاء اللہ اقلیت سے اکثریت میں آ جائیں گے۔
٭…ایک سوال یہ کیا گیا کہ لوگوں کے مابین امن اور محبت کی فضا قائم کرنے کے لئے آپ احمدیہ مسلم جماعت کا کیا کردار دیکھ رہے ہیں؟
اس حوالہ سے حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ: ہم تو اسلام کی حقیقی تعلیمات پیش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں اور اسلام کا مطلب ہی امن، محبت اور ہم آہنگی ہے۔ ہم ہر جگہ امن پھیلانے کی کوشش کر رہے ہیں۔ مختلف پروگرام منعقد کر رہے ہیں، پریس کانفرنسز، سیمینارز، سمپوزیم وغیرہ منعقد کر رہے ہیں اور دیگر مذاہب کے ماننے والوں کو بھی ساتھ شامل کر رہے ہیں۔ اس کا مقصد یہی ہے کہ ہم اس دنیا میں امن اور محبت کی فضا قائم کریں۔ میں بھی اسی مقصد سے اسلامی تعلیمات کا بتاتا ہوں، ایسی تعلیمات جن کے ذریعہ امن و ہم آہنگی کا قیام ممکن ہو سکتا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ایک سچے مسلمان میں قوتِ برداشت کا معیار بہت بلند ہونا چاہئے۔ ہم اس نہج پر اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ پریس کانفرنس چھ بجکر پانچ منٹ تک جاری رہی۔
… … … … … … … … …
حضورِ انور کے ساتھ سینیٹرHon. Ben Cardin کی ملاقات
بعدازاں میری لینڈ (Maryland) کے ایک سینیٹر Hon. Ben Cardin نے جو آج کے اس پروگرام میں شرکت کے لئے آئے ہوئے تھے، حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے ملاقات کی۔
موصوف نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہا اور کہا کہ ہم آپ کی بہت عزت کرتے ہیں۔ آپ کی انٹرنیشنل لیڈرشپ کا احترام کرتے ہیں۔ آپ نے خاص طور پر آزادی کے حوالہ سے حقوق دلوانے کے لحاظ سے اور مختلف تنظیموں کے درمیان تعلقات بڑھانے کے لحاظ سے بہت بڑی لیڈرشپ دکھائی ہے۔
اس پر حضورِانور نے فرمایا۔ یہی اس دور کا سب سے بڑا مسئلہ ہے اور ہم تیزی سے تباہی کی طرف جارہے ہیں، بجائے اس کے کہ ہم امن اور محبت کو پھیلائیں۔
سینیٹر صاحب نے عرض کیا کہ آجکل بہت سے مسائل ہیں، سعودی عرب کے جرنلسٹ کا قتل ہے، یمن، سیریا کا مسئلہ ہے،وینزویلا کا مسئلہ ہے۔ ان سب باتوں سے امن خراب ہورہا ہے۔ اس وجہ سے حضور کے امن کے پیغام کی بہت ضرورت ہے۔
اس پر حضورِانور نے فرمایا: یہ بہت افسوس کی بات ہے کہ مسلمان ہی مسلمان کو ماررہا ہے اور بغیر سوچے سمجھے آپس میں لڑتے جارہے ہیں۔ بچوں کو بھی مارا جارہا ہے۔ بہت تکلیف ہوتی ہے یہ سارے حالات دیکھ کر۔ امریکہ ایک بڑی طاقت ہے، امریکہ کو امن کے حوالہ سے اور انسانیت کی خدمت کے حوالہ سے اپنا کردار ادا کرنا چاہئے۔
اس پر سینیٹر موصوف نے کہا کہ میں حضورِانور سے ہزار فیصد متفق ہوں۔ نیز موصوف نے کہا کہ حضور کا پیغام بڑا پاورفل ہے۔ آپ جیسی شخصیت کی ہم بالٹی مور (Baltimore) میں پہلی دفعہ میزبانی کررہے ہیں۔ ہم حضورکے شکرگزار ہیں کہ آپ یہاں آئے اور آپ نے یہاں مسجد کی تعمیر کی ہے اور اس کا افتتاح کیا ہے۔ یہاں آپ کی بہت اچھی کمیونٹی ہے۔ ہمیں اس سے بہت خوشی ہے۔
آخر پر حضورِانور نے فرمایا:ہم سب حضرت ابراہیم علیہ السلام کے مذہب کے پیروکار ہیں اور آپ کو ماننے والے ہیں۔ عیسائی ہوں، یہودی ہوں یا مسلمان ہوں، اگر اس بات کو سمجھ لیا جائے تو پھر دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے۔ آخر پر سینیٹر صاحب نے حضورِانور کے ساتھ تصویر بنوائی۔ سینیٹرصاحب کی حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ یہ ملاقات چھ بج کر پندرہ منٹ پر ختم ہوئی۔
بالٹی مور کے دیگر معزّزین کی ملاقات
بعدازاں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز ہوٹل کے ایک میٹنگ روم میں تشریف لے آئے جو Black Room کے نام سے جانا جاتا ہے۔ یہاں درج ذیل شخصیات نے حضورِانور سے ملاقات کی سعادت پائی۔
٭Hon.Catherine Pugh میئرآف بالٹی مور۔
٭Jill Carter میری لینڈ سٹیٹ سینیٹر۔
٭Pamela Beidle ممبر میری لینڈ ہائوس آف Delegates۔
٭Marilyn Mosby سٹیٹ اٹارنی فار بالٹی مور
٭John Wobensmith سیکرٹری آف سٹیٹ میری لینڈ۔
٭Vicki Almond(کونسل وومن بالٹی مور کاؤنٹی)۔ NickMosby(کونسل مین بالٹی مورسٹی)
٭Brent Howard پریذیڈنٹ چیمبر آف کامرس۔
٭Hon.Michael Adamo ملک گیبون کے ایمبیسیڈر۔
٭کینیا کے ایمبیسیڈر کے نمائندے جو ایمبیسی میں اکنامک کونسلر ہیں۔
٭Mustapha Sosseh سٹیٹ ایمبیسیڈر Gambia۔
٭Fred Guy ڈائریکٹر آف یونیورسٹی آف بالٹی مور فلاسفی ڈیپارٹمنٹ۔
٭Major Travis Hord کمانڈنگ آفیسر یوایس Marines۔
٭Colonel Jones بالٹی مور کائونٹی پولیس۔
٭Gary Tuggle کمشنر بالٹی مور سٹی پولیس۔
٭Father Joseph Muth پاسٹر آف St.Matthews چرچ۔
٭Rabbi Andyبالٹی مور Hebrew Congregation۔
٭Christine Spencer Dean of Yale Gardon School of Arts))بالٹی مور یونیورسٹی۔
٭Anthony Day پریذیڈنٹ آف Loyala ہائی سکول۔
٭Natalie Eddington(Dean University of Marand School of Pharmacy)۔
٭…ان مہمانوں سے ملاقات کے آغاز میں حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا کہ:آپ سب کا یہاں آنے کا بہت شکریہ۔ آپ لوگوں نے ہمارے پروگرام کے لئے اپنی مصروفیات میں سے وقت نکالا ہے۔ بالخصوص آج آپ لوگوں کی چھٹی بھی ہے اور اپنی فیملیز کے ساتھ وقت گزارنے کی بجائے آپ یہاں آئے ہیں۔
اس پر ایک خاتون مہمان نے عرض کی کہ یہ ہماری خوش قسمتی ہے کہ آپ یہاں تشریف لائے ہیں۔
٭…ایک مہمان نے کہا کہ آپ کا امن کا پیغام، دوریاں ختم کرنے کا پیغام ایسا ہے کہ اس کی بہت ضرورت ہے۔ ہمارے لئے یہ بہت اعزاز کی بات ہے کہ آپ یہاں ہمارے شہر تشریف لائے ہیں۔ ہم آپ کو یوایس اے آنے پر خوش آمدید کہتے ہیں اور آپ کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔ آپ کی موجودگی ہمارے لئے بہت اہم ہے۔ آپ نے جو باہمی اتحاد و محبت کا پیغام دیا ہے یہ ہمارے لئے بہت ہی قیمتی سرمایہ ہے۔
٭…میئر بالٹی مور سٹی نے عرض کی کہ میں بالٹی مور کے تمام شہریوں کی طرف سے حضورِ انور کا شکریہ ادا کرتی ہوں۔ میئر نے عرض کی کہ ہم جس دور سے گزر رہے ہیں، اس میں اس پیغام کی بہت اہمیت ہے۔ وہ اس سے بہت متاثر ہوئی ہیں اور چاہتی ہیں کہ دنیا میں ہر جگہ اس پیغام پر عمل کیا جائے تاکہ دنیا امن کا گہوارہ بن سکے۔ مجھے بہت خوشی ہے کہ آپ یہاں تشریف لائے ہیں اور امید کرتی ہوں کہ جو لوگ یہاں آئے ہیں آپ کا پیغام لے کر جائیں اور اس پر عمل کریں۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کا شکریہ ادا کیا۔ نیز فرمایا کہ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ ہم معاشرے میں امن قائم کریں اور باہمی اتفاق و اتحاد سے محبت کی فضا قائم کریں۔ اگر دنیا اس پیغام کو سمجھ لے تو جیساکہ میں نے کہا ہے، سب کچھ ٹھیک ہو جائے گا۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے میئر سے بالٹی مور کے مختلفdistricts کے حوالہ سے دریافت فرمایا۔
میئر نے عرض کی کہ وہ میئر کے علاوہ سٹی کونسل کے صدر ہیں۔ نیز بالٹی مور کے 14سٹی ڈسٹرکٹس ہیں اور ان تمام کے نمائندے کونسل کا حصہ ہیں۔
٭ میئر نے اپنے ساتھ آئی ہوئی ایک اسسٹنٹ کا بھی تعارف کروایا۔ یہ امن کے قیام کے لئے میئر کے ساتھ مل کر کام کر رہی ہیں۔
انہوں نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کا شکریہ ادا کیا اور عرض کیا کہ حضور میرے خیال میں ہم آجکل جو جنگ لڑ رہے ہیں یہ ایک ایسا معرکہ ہے جس پر تمام منفی طاقتیں نوجوان نسل پر حملہ آور ہیں۔ ہمیں اس حوالہ سے نوجوان نسل پر توجہ کی بہت زیادہ ضرورت ہے۔ ہمارے ہاں گزشتہ دو سالوں کی نسبت دو گنی تعداد میں نوجوانوں میں قتل یا اقدامِ قتل کے مقدمے درج ہوئے ہیں۔ ہمیں نوجوان نسل پر توجہ کی بہت ضرورت ہے۔ میں آپ کا بہت شکریہ ادا کرتی ہوں۔ یہ میرے لئے بہت اعزاز کی بات ہے کہ میں آپ سے مل سکی ہوں اور آپ کی باتیں سن سکی ہوں۔
حضورِانورنے دریافت فرمایا کہ اس بڑھتے ہوئے رجحان کی وجہ کیا ہے؟
اس پر موصوفہ نے عرض کیا کہ جہاں تک میں نے جائزہ لیا ہے ہمارے بالٹی مور شہر میں ایسے واقعات نوجوانوں میں مایوسی (frustration) بڑھنے کی وجہ سے ہورہے ہیں۔ نوجوانوں میں نااُمیدی ہے۔ بالٹی مور کی 24 فیصد آبادی غربت میں زندگی بسر کررہی ہے۔ معاشی صورتحال ایک وجہ ہے۔ بے روزگاری بڑھ رہی ہے۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ بے روزگاروں کے لئے کوئی سوشل کیئر کا نظام رائج ہے؟
اس پر میئر نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمیں یہاں بہت سے چیلنجز کا سامنا ہے۔ ہم بچوں کے حوالہ سے ان کی تعلیم پر کافی زور دے رہے ہیں۔ طلباء میں نشہ کے رجحانات کے حوالہ سے بھی کافی کام کی ضرورت ہے۔
اس پر حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: تو پھرنشے کے مسائل ہیں،تعلیم کے مسائل ہیں، معاشی مسائل ہیں، بے روزگاری ہے۔ نیز فرمایا کہ سوشل میڈیا بھی بے چینی بڑھانے میں ایک اہم کردار ادا کر رہا ہے۔ فیملی سٹرکچر (Structure) متاثر ہو رہا ہے، ہر کوئی اپنے موبائل فون پر مصروف رہتاہے۔
٭…کینیا کی ایمبیسی سے اکنامک کونسلر بھی آئے ہوئے تھے۔ انہوںنے اپنا تعارف کروایا ۔ حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے ان کا شکریہ ادا کیا۔
ایک مہمان نے ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ‘‘ کہا اور عرض کی کہ تمام مسلمان کمیونٹی کی جانب سے میں حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو خوش آمدید کہتا ہوں۔ میرا احمدیہ مسلم جماعت کے ساتھ بہت گہرا تعلق ہے اور اسی وجہ سے میں یہاں آیاہوں۔ آپ لوگوں کا موٹو’’ محبت سب کے لئے۔ نفرت کسی سے نہیں‘‘ بہت شاندار ہے۔ ایسے دور میں جس سے ہم گزررہے ہیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ کوئی اہل سنت والجماعۃ سے تعلق رکھتا ہے، احمدی ہے یا شیعہ ہے۔ ہم سب مسلمان ایک ہیں۔ اس مہمان نے پارسیوں کی مدد کرنے کے حوالہ سے اپنی کاوشوں کا بھی ذکر کیا اور کہا کہ میں نے ان کی مدد معاشرتی اتحاد کی خاطر کی اور اس لئے کہ ان کے ساتھ زیادتی ہورہی تھی۔ یہاں اس بات کی ضرورت ہے کہ ہم باہم متحد ہوجائیں۔
حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا: صرف یہاں نہیں، بلکہ تمام دنیا میں ہی اس اتحاد کی ضرورت ہے۔ مسلمان ہونے کے ناطے ہم سب کو ایک ہونا چاہئے۔ ہم سب ایک رحمان خدا پر ایمان رکھتے ہیں۔ ہمارا رسول اور کتاب ایک ہے۔ قرآن کریم تو دیگر مذاہب کے بارے میں یہ کہتا ہے کہ: اہل کتاب سے کہہ دو کہ مشترکہ بات پر اکٹھے ہوجائیں کہ سب ایک خدا کے ماننے والے ہیں۔ تو اگر ہم اس ایک مشترکہ پوائنٹ کو سمجھ جائیں تو کہیں بھی کوئی تقسیم، کوئی نفرت، کوئی تفرقہ نہ ہو اورہم سب مل کر امن سے رہیں اور باہم مل کر اپنی آئندہ آنے والی نسلوں کی بہتری کے لئے کام کریں۔ ہم نے اپنا کام کرلیا ہے، اب ہمیں دیکھنا چاہئے کہ ہم اپنی نسلوں کی بہتری کے لئے کیا کر سکتے ہیں تاکہ وہ ہمیں اچھی یادوں کے ساتھ زندہ رکھیں۔ یہ نہ کہنے والے ہوں کہ یہ وہ لوگ تھے، جنہوں نے ہمیں ہلاکت تک پہنچایا۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ حضور میں چند اور مسائل کی طرف بھی توجہ دلانا چاہتا ہوں اور وہ گھریلو تشدد اور انسانی اسمگلنگ کے مسائل ہیں۔ گزشتہ دنوں میں دو ایسے متاثرین سے بات کر رہا تھا جو ایک لمبا عرصہ ان مسائل کا سامنا کرتے رہے ہیں اور ان کی باتوں میں جس بات نے مجھے زیادہ متاثر کیا وہ یہ تھی کہ وہ دونوں کہتے ہیں کہ جس چیز نے انہیں ان سخت ترین حالات میں بھی اُمید دیے رکھی وہ خدا کی ذات تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ وہ اسی ایمان پر زندہ تھے اور پُراُمید تھے کہ حالات تبدیل ہوں گے۔
ایک مہمان نے عرض کیا کہ بطور ایجوکیٹر میں سمجھتا ہوں کہ ہمیں اپنے بچوں کو بہتر تعلیم دینا ہوگی۔ 11 سال سے لے کر 18 سال تک کے بچوں پر خصوصی توجہ کرنی ہوگی۔ ہمیں انہیں اعتماد دینا ہے اور ایسے رول ماڈلز دینے ہیں جیسا کہ یہاں اس میز کے گرد لوگ بیٹھے ہیں۔ اگر ہم یہ کرنے میں کامیاب ہوجاتے ہیں تو میں سمجھتا ہوں کہ بالٹی مور تبدیل ہو جائے گا۔ میئر کی طرف سے جو کام یہاں ہوئے ہیں مَیں سمجھتا ہوں کہ وہ کافی حوصلہ افزا ہیں۔ ہمیں نوجوانوں پر توجہ کرنی ہے اور انہیں واپس لانا ہے۔ نوجوانوں کی بہتر تربیت کافی مسائل کا حل ہے۔
پروگرام کے آخر پر بالٹی مور کے میئر نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمت میں ایک تحفہ پیش کیا اور عرض کیا کہ یہ بالٹی مور کی عوام کی طرف سے آپ کے لئے یادگار ہے۔ آپ کی آمد اورامن کے پیغام کا بہت شکریہ۔
بعدازاں میئر نے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز سے بھی تحفہ وصول کرنے کی سعادت پائی۔ میئر نے اس پروگرام کے بعد بے گھر افراد کے لئے منعقد کئے جانے والے ایک پروگرام میں شرکت کرنا تھی۔ اس حوالہ سے حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے دریافت فرمایا کہ بے گھر افراد کے لئے آپ لوگ بجٹ کا کتنا فیصد مختص کرتے ہیں۔ اس پر میئر نے عرض کی کہ بے گھر افراد اور دیگر سوشل سروسز کے لئے بیس سے پچیس فیصد بجٹ مختص کیا جاتاہے۔ ان گرمیوں میں ہم نے 9 ہزار نوجوانوں کو نوکری مہیا کی ہے۔
ملاقات کا یہ پروگرام چھ بج کر چالیس منٹ تک جاری رہا۔ بعدازاں پروگرام کے مطابق حضورِانور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز تقریب کے لئے ہال میں تشریف لے آئے۔
……………………(جاری ہے)