الفضل ڈائجسٹ
اس کالم میں ان اخبارات و رسائل سے اہم ودلچسپ مضامین کا خلاصہ پیش کیا جاتا ہے جو دنیا کے کسی بھی حصہ میں جماعت احمدیہ یا ذیلی تنظیموں کے زیرانتظام شائع کئے جاتے ہیں۔
مکرم سعد فاروق صاحب کی شہادت
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 24اکتوبر 2012ء میں یہ خبر شائع ہوئی ہے کہ مکرم سعد فاروق صاحب بلدیہ ٹائون کراچی 19؍اکتوبر 2012ء کو نماز جمعہ کی ادائیگی کے بعد اپنے گھرموٹر سائیکل پر جبکہ اُن کے والد مکرم فاروق احمد کاہلوں صاحب صدر حلقہ بلدیہ ٹائون، سسر مکرم نصرت محمود صاحب آف امریکہ، بھائی مکرم عماد فاروق صاحب ، تایا مکرم منصور احمد صاحب اور پھوپھا مکرم محمد اشرف صاحب کار میں سوار آگے پیچھے جا رہے تھے کہ نامعلوم موٹر سائیکل سواروں نے مکرم سعد فاروق صاحب پر پیچھے سے ایک فائر کیا جس سے وہ شدید زخمی ہو کر گر پڑے۔ حملہ آوروں نے اس کارروائی کے بعد کا ر کا تعاقب کر کے فائرنگ شروع کر دی جس کے نتیجہ میں شہید مرحوم کے والد کو (جو گاڑی چلا رہے تھے) پانچ گولیاں لگیں ، سسرکو تین گولیاں گردن ،سینے اور پیٹ میں لگیں جبکہ چھوٹے بھائی کو ایک گولی ماتھے پر لگی۔
مکرم سعد فاروق صاحب کے والد صاحب نے شدید زخمی حالت میں شہید مرحوم کو بھی گاڑی میں ڈالا اور اسی حالت میں خود گاڑی چلاتے ہوئے قریبی ہسپتال پہنچے۔ ہسپتال پہنچتے ہی مکرم سعد فاروق صاحب کی شہادت ہوگئی۔ مرحوم موصی تھے۔ تدفین ربوہ میں کی گئی۔
آپ کے خاندان کا تعلق چہو ر مغلیاں ضلع شیخوپورہ سے ہے۔ آپ کے پڑدادا حضرت اللہ بخش کاہلوں صاحبؓ نے 1905ء میں چہور مغلیاں سے پیدل قادیان جاکر حضرت مسیح موعودؑ کی زیارت کی اور بیعت کی سعادت حاصل کی۔ 1962ء میں یہ خاندان لیّہ چلاگیا۔ بعدازاں شہید کے والد روزگار کے سلسلہ میں کراچی منتقل ہوگئے اور یہاں انہوں نے اپنا بزنس شروع کیا۔
مکرم سعد فاروق صاحب 5؍اکتوبر 1986ء کو کراچی میں پیدا ہوئے۔ F.Sc. کرنے کے بعد الیکٹرونک انجینئرنگ میں ڈپلومہ حاصل کیا اور اپنے والد اور چچا کی جنریٹر مینوفیکچرنگ فرم (FG Prime Power) میںکام شروع کردیا۔ مرحوم کی شادی شہادت سے صرف تین دن قبل مکرمہ شائزہ سعد صاحبہ کے ساتھ ہوئی تھی۔ مرحوم نے لواحقین میں اہلیہ، والدین، ایک بھائی اور ایک بہن سوگوار چھوڑی ہیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 26؍اکتوبر2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکر خیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورانور نے فرمایا کہ شہید مرحوم موصی تھے۔ ان کا اپنے خاندان سے نہایت محبت کا تعلق تھا۔ ان کی والدہ بتاتی ہیں کہ رات کو سونے سے پہلے ہمارے کمرہ میں آتے۔ میرے اور اپنے والد کے پاؤں دباتے۔ ہمیں چائے پلاتے اور اے سی (AC) کا ٹمپریچر سیٹ کرکے جانے کی اجازت طلب کرتے۔ کہتی ہیں کہ وہ ہماری اطاعت کے تمام معیار پورے کرتے۔ آج تک انہوں نے ہماری کوئی بات نہیں ٹالی اور نہ ہی کبھی آگے سے جواب دیا۔ خون کا عطیہ دینے کا اُنہیں بہت شوق تھا اور محلے یا جماعت میں کسی کو بھی خون کی ضرورت پڑتی تو سب سے پہلے خود اپنے آپ کو پیش کرتے۔ میرے منع کرنے پر کہتے کہ اُمی! یہ خون تو ضائع ہو جانا ہے، کیوں نہ کسی کے کام آجائے۔
شہید مرحوم کی بہن ڈاکٹر صبا فاروق صاحبہ کہتی ہیں کہ ہمارا بہن بھائیوں کا دوستی کا رشتہ تھا۔ انتہائی پیار کرنے والا بھائی تھا بلکہ لوگ مجھے کہا کرتے تھے تمہارا بھائی دنیا سے الگ ہے۔ چھوٹا ہونے کے باوجود ہمیشہ مجھے بچوں کی طرح ٹریٹ (treat) کرتا تھا۔ انتہائی نیک اور خدمت گزار تھا اور صرف ہمارے دل میں نہیں بلکہ جو بھی جس کا بھی اُس سے واسطہ ہے ہر ایک کے دل میں ہمیشہ زندہ رہے گا۔
اُن کی بیوہ بھی کہتی ہیں کہ نکاح کے بعد وہ امریکہ رہتی تھیں، تو جب فون پر اُن کی بات ہوتی تھی، وہ اکثرمجھے یہ خواہش کیا کرتے تھے کہ مجھے شہادت نصیب ہو۔
جماعتی پروگراموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینے والے تھے۔ خدام الاحمدیہ کی بھی اور مختلف جماعتی خدمات میں بھی انہوں نے بھرپور حصہ لیا۔ قائد خدام الاحمدیہ کراچی کہتے ہیں کہ شہید سعد بہت ہی خوبیوں کے مالک تھے۔ سب سے بڑھ کر جو میں نے محسوس کیا وہ اُن کی عاجزی تھی۔ خاکسار نے ہمیشہ مشاہدہ کیا کہ جب بھی کسی کام کے لئے اُنہیں کہا گیا یا کوئی بات دریافت کی گئی تو وہ ہمیشہ سرجھکاکر نظریں نیچی کرکے صرف یہ جواب دیتے تھے: جی قائدصاحب۔
اُن کی اطاعت بے مثال تھی۔ خلافت کے فدائی تھے۔ ہرعہدیدار کو اُس کے عہدے سے مخاطب کرتے، کبھی نام نہ لیتے۔ پچھلے ایک سال سے اُنہیں ایک ایسے بلاک کا نگران مقرر کیا گیا تھا جہاں جماعتی مخالفت زوروںپر تھی مگر اتنا کم عمر ہونے کے باوجود اُن کی بہادری اور لگن بےمثال تھی۔ اکثر اپنے سپرد مجالس کا دورہ مکمل کرکے رات گئے فون پر کام مکمل ہونے کی اطلاع دیتے۔ خاکسار حیران ہو کر اُن کو ہمیشہ کہتا تھا کہ آپ کا یہ علاقہ خطرناک ہے اس لئے اپنا خیال رکھا کریں۔
شہید مرحوم کے والد صاحب بڑے زخمی تھے اور ہسپتال میں ہی تھے تو اُن سے بیٹے کی شہادت چھپانے کی کوشش کی گئی۔ تو انہوں نے کہا کہ مجھے پتہ ہے کہ سعد شہید ہوچکا ہے۔ مجھے اُس کی شہادت کا کوئی غم نہیں ہے۔ بس مجھے میرے شہید بیٹے کا چہرہ دکھا دو۔ آپ اپنے شہید بیٹے کے پاس گئے اور اُس کی پیشانی کو چوما اور اُسے الوداع کہا۔ پس جس شہید کے باپ، بہن، ماں ایسے جذبات رکھتے ہوں دشمن بھلا اُن کا کیا بگاڑ سکتے ہیں۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
مکرم چودھری نصرت محمود صاحب شہید
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 29نومبر کی خبر کے مطابق 19؍اکتوبر 2012ء کو بلدیہ ٹائون کراچی میں قاتلانہ حملے کا نشانہ بننے والے مکرم چودھری نصرت محمود صاحب 27؍ نومبر 2012ء کی رات شہید ہوگئے۔ ان کی عمر 68سال تھی۔ 19؍ اکتوبر کو ہونے والی ٹارگٹ کلنگ میں ان کے داماد مکرم سعد فاروق صاحب موقع پر ہی شہید ہوگئے تھے جبکہ مکرم چودھری صاحب کی گردن میں ایک اور سینے میں دو گولیاں لگی تھیں اور آپ 38 روز تک زیرعلاج رہے مگر جانبر نہ ہوسکے۔ آپ گزشتہ کئی سال سے نیویارک امریکہ میں مقیم تھے اور اپنی بیٹی کی شادی کے سلسلہ میں پاکستا ن آئے تھے جو مکرم سعد فاروق صاحب کی شہادت سے شادی کے صرف تین دن بعد بیوہ ہوگئیں۔
حضورانور ایدہ اللہ تعالیٰ نے 30؍نومبر2012ء کے خطبہ جمعہ میں شہید مرحوم کا ذکر خیر فرمایا اور بعدازاں نماز جنازہ غائب پڑھائی۔ حضورانور نے فرمایا کہ محترم چودھری نصرت محمود صاحب ابن مکرم چودھری منظور احمد صاحب ہندل کے خاندان میں احمدیت کا نفوذ حضرت چوہدری عنایت اللہ صاحبؓ کے ذریعہ سے ہوا جو شہید مرحوم کے دادا مکرم چوہدری اخلاص احمد صاحب کے کزن تھے۔ بعد میں اُن کی کوششوں سے چوہدری اخلاص احمد صاحب نے بھی خلافت اولیٰ میں بیعت کرلی۔ آپ کے خاندان کا تعلق بہلول پور ضلع سیالکوٹ سے تھا۔
مکرم چودھری صاحب 6؍مارچ 1949ء کو بہلول پور ضلع سیالکوٹ میں پیدا ہوئے۔ مرےؔ کالج سیالکوٹ سے گریجوایشن کیا۔ پھر شاہ تاج شوگر مل منڈی بہاؤالدین میں تقریباً 35سال بطور مینیجر کام کیا۔ مرحوم انتہائی مخلص اور ایماندار شخصیت کے مالک تھے۔ ملازمت کے دوران ان کو Honesty Award بھی ملا تھا۔ 2008ء میں اپنی اہلیہ اور چھوٹی بیٹی کے ساتھ نیویارک چلے گئے اور امریکہ کی شہریت اختیار کرلی۔
شہید مرحوم اللہ کے فضل سے موصی تھے اور آپ کو خدمتِ دین کا بےحد شوق تھا۔ منڈی بہاؤالدین میں قیام کے دوران آپ کو لمبا عرصہ بطور سیکرٹری رشتہ ناطہ، سیکرٹری دعوتِ الی اللہ اور دیگر مختلف عہدہ جات پر خدمت کی توفیق ملتی رہی۔ 2008ء میں امریکہ شفٹ ہونے کے بعد مقامی جماعت میں آپ کو بطور سیکرٹری تربیت خدمت کی توفیق مل رہی تھی۔
مکرم چودھری صاحب کا خلافت سے گہرا تعلق تھا۔ تمام تحریکات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے۔ دعوتِ الی اللہ کے پروگرام میں اگر خود شامل نہ ہو سکتے تو پھر دوسروں کو جانے کے لئے اپنی گاڑی دے دیا کرتے تھے تاکہ ثواب میں شامل ہو سکیں۔ آپ کے بیٹے کاشف احمد دانش (نائب صدر خدام الاحمدیہ کینیڈا) آپ کے بارے میں لکھتے ہیں کہ میں نے اپنے والد کو ایک بہت ہی شفیق اور محبت کرنے والے شخص کے طور پر پایا۔ بچپن سے لے کر جوانی تک ہمیشہ اولاد کا بہت زیادہ خیال رکھا۔ تعلیم دلوانے کے لئے اور اعلیٰ اخلاقی اقدار کی تربیت کے لئے ہمیشہ کوشش کرتے رہے۔ زبان بہت اعلیٰ اور لہجہ ہمیشہ نرم ہوتا تھا۔ کبھی بھی بچوں کوتُم کہہ کر مخاطب نہیں کیا بلکہ آپ کہہ کر مخاطب کرتے تھے۔ میری جماعت کے کاموں میں دلچسپی کو بہت سراہتے تھے اور خلافتِ احمدیہ کے ساتھ ایک مضبوط تعلق کی تلقین کرتے تھے۔ گھر آکر سب سے پہلے اپنے بچوں کو نماز کے بارے میں پوچھتے تھے۔ اگر کسی وجہ سے نہ پڑھی ہوتی تو فوراً ادائیگی کے لئے کہتے۔ بچپن میں اپنے ساتھ باجماعت نماز کے لئے لے جاتے۔ کام کے دوران، سفر پر، کسی بھی جگہ پر ہوتے نماز کا خاص التزام کرتے۔ کسی سے سخت لہجے میں گفتگو نہیں کی۔ ہمیشہ اخلاقیات کا درس دیتے۔ ہر کوئی آپ کی نرم گو اور ملنسار طبیعت کی وجہ سے جلد آپ کا گرویدہ ہو جاتا۔ مرحوم کی تین بیٹیاں بھی ہیں۔
حضورانور نے فرمایا کہ مرحوم منڈی بہاؤالدین میں زعیم انصار اللہ تھے، سیکرٹری رشتہ ناطہ تھے، نگران کمیٹی مسجد گیسٹ ہاؤس و مربی ہاؤس بھی تھے۔ پنجوقتہ نماز باجماعت ادا کرتے۔ مربی ہاؤس مسجد کے ساتھ ہی ملحق تھا۔ مربی صاحب کہتے ہیں کہ کئی دفعہ تنہائی میں مجھے عبادت کرنے کا جب بھی کبھی خیال آیا، مَیںکوشش کرتا تھا لیکن ہمیشہ جب بھی مَیں نے کوشش کی کہ فجر سے پہلے جا کے کچھ نفل پڑھوں تو مسجد میں تو ہمیشہ نصرت محمود صاحب کو وہاں موجود پایا۔ اللہ تعالیٰ کے حضور رو رو کر دعا کر رہے ہوتے تھے۔ اپنی آمدنی کے مطابق صحیح بجٹ بنواتے تھے،چندہ کی بروقت ادائیگی کرتے تھے ۔ صدقہ و خیرات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے۔ غرباء اور ضرورتمندوں اور معذوروں کا خیال رکھتے۔ اسی طرح صفائی پسند بھی بہت تھے۔ جہاں اپنی صفائی کا خیال رکھتے وہاں گیسٹ ہاؤس وغیرہ کی صفائی کا بھی بہت خیال رکھتے۔
مربی صاحب کہتے ہیں میرے ساتھ جاتے تھے تو کبھی کوئی دنیاوی باتیں نہیں کیں۔ ہمیشہ دعوتِ الی اللہ اور جماعت کے حوالے سے باتیں کیا کرتے تھے۔ اپنی گاڑی جماعتی کاموں کے لئے اور غریب بچیوں کی شادی کے لئے پٹرول ڈلوا کر دیا کرتے تھے۔ آتے جاتے اگر کسی غریب کو لفٹ کی ضرورت ہوتی تو دے دیا کرتے۔ کہتے ہیں کبھی مَیں نے اُن کو غصّہ میں نہیں دیکھا۔ایک غیراحمدی نے بتایا کہ پچیس سال سے نصرت صاحب کے ساتھ کام کر رہا ہوں، زندگی میں کبھی بھی مجھے نہیں ڈانٹا اور کبھی ناراض نہیں ہوئے۔ اپنے جو ماتحت کام کرنے والے تھے اُن کو ہر عید پر نئے کپڑے اور عیدی تحفہ ضرور دیتے تھے۔ خلافت سے گہری محبت تھی۔ خطبہ ہمیشہ لائیو سنتے اور سیر کے دوران پھر اُس پر بتاتے کہ آج یہ کہا گیا ہے اور ان باتوں کی تلقین کی گئی ہے۔ ہمیشہ دین کو دنیا پر مقدّم رکھنے کی تلقین کرتے۔
اسی طرح کسی موقع پر ا گر کہیں جانا ہوتا تو پہلے مربی صاحب اور اُن کی فیملی کو اپنی کار پر اُس جگہ چھوڑ کر آتے، پھر واپس آکر اپنی فیملی کو لے کر دوبارہ جاتے اور اپنے ہاں دعوتوں پر غرباء کو بھی ضرور بلاتے۔
٭۔۔۔٭۔۔۔٭
روزنامہ ’’الفضل‘‘ ربوہ 9 نومبر2012ء میں مکرم انور ندیم علوی صاحب کی ایک غزل شائع ہوئی ہے جس میں سے انتخاب پیش ہے:
محبت کی زمانے سے جُدا تفسیر کرتے ہیں
بلا تفریق ہم انسان کی توقیر کرتے ہیں
گِرا دے کوئی ظالم جو وفائوں کے گھروندوں کو
ہمارا حوصلہ دیکھو نئی تعمیر کرتے ہیں
سہانے خواب دنیا کے ، بڑے لمبے ہیں منصوبے
جہاں والے سرائے کی عجب تعبیر کرتے ہیں
خدا سے پیار گر چاہو ، کرو بس پیار انساں سے
یہی مستور ہے دل میں ، یہی تحریر کرتے ہیں
لہو بھر کر چراغوں میں اُجالا جس نے راہوں کو
چمن والے اسی کے نام ہر تعزیر کرتے ہیں
ہوئے کردار سے عاری، کریں فرمان بس جاری
فقیہانِ شہر لوگو! فقط تقریر کرتے ہیں