سالِ نَو کا استقبال، ’محاسبہ نفس‘سے کریں
سالِ نَو کی آمد پر خوشیاں منانا ایک رسم کی صورت اختیار کر چکا ہےاگرچہ ہر کسی کا انداز اپنا اپنا ہے۔ مذہب اسلام کی خوبی یہ ہے کہ اس کا ہر حکم، ہر ہدایت بامقصد اور پُر حکمت ہے۔ خوشی کے مواقع پر اسلام مناسب حال اظہار کی ممانعت نہیں کرتا لیکن ہر کام میں اللہ کی رضا، اس کی اطاعت اور مقصدِ حیات کو پیشِ نظر رکھنے کا ضرور عندیہ دیتا ہے۔
سالِ نَو کے آغاز پر ایک احمدی مسلمان کا وطیرہ کیا ہونا چاہئے؟ رہنمائی حاصل کرنے کے لئے جب ہم حضرت امیر المومنین خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی جانب دیکھتے ہیں تو ہمیں حضور پر نور کا خطبہ جمعہ فرمودہ مورخہ 30؍ دسمبر 2016ء نظر آتا ہے جس میں اس بارہ میں مشعل راہ ہدایات موجود ہیں۔
حضور پر نور نے ایک احمدی کو نئے سال کے آغاز پر محاسبہ نفس کا پروگرام عطا فرمایااور فرمایا کہ ’’ ہم سال کی آخری رات اور نئے سال کا آغاز اگر جائزے اور دعا سے کریں گے تو اپنی عاقبت سنوارنے والے ہوں گے۔‘‘ اور جس کی عاقبت سنور گئی اس کے لئے اس سے بڑی اور کامل خوشی کیا ہوسکتی ہے!
اس ارشاد کے ساتھ حضورِ انور نے محاسبہ نفس کے لئے بصیرت افروز انداز میں چند ضروری سوالات بیان فرمائے جو فَذَکِّرْ اِنْ نَّفَعَتِ الذِّکْرٰی کے ارشاد کے تحت بغرضِ یاددہانی ہدیۂ قارئین ہیں۔
٭… کیا ہماری نمازیں، ہمارے روزے، ہمارے صدقات، ہماری مالی قربانیاں، ہمارے خدمت خلق کے کام، ہمارا جماعت کے کاموں کے لئے وقت دینا، خدا تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کی بجائے غیر اللہ کو خوش کرنے یا دنیا دکھاوے کے لئے تو نہیں تھا؟ ہمارے دل کی چُھپی ہوئی خواہشات اللہ تعالیٰ کے مقابلے پر کھڑی تو نہیں ہو گئی تھیں؟
٭… کیا ہمارا سال جھوٹ سے مکمل طور پر پاک ہو کر اور کامل سچائی پر قائم رہتے ہوئے گزرا ہے؟ یعنی ایسا موقع آنے پر جب سچائی کے اظہار سے اپنا نقصان ہو رہا ہو لیکن پھر بھی سچائی کو نہ چھوڑا جائے۔
٭…کیا ہم نے اپنے آپ کو ایسی تقریبوں سے دُور رکھا ہے جن سے گندے خیالات دل میں پیدا ہو سکتے ہوں؟ یعنی آجکل اس زمانے میں ٹی وی ہے، انٹرنیٹ ہے۔ یا اس قسم کی چیزیں اور ان پر ایسے پروگرام جو خیالات کے گندہ ہونے کا ذریعہ بنتے ہیں کیا ان سے ہم نے اپنے آپ کو بچایا؟ اگر ہم ان ذریعوں سے گندی فلمیں اور پروگرام دیکھ رہے ہیں تو ہم عہد بیعت سے دُور ہٹ گئے ہیں اور ہماری حالت قابل فکر ہے کیونکہ یہ باتیں ایک قسم کے زنا کی طرف لے جاتی ہیں۔
٭… کیا ہم نے بدنظری سے اپنے آپ کو بچانے کی ہر ممکن کوشش کی ہے اور کر رہے ہیں؟ کیونکہ بدنظری کا جہاں تک سوال ہے۔ اس میں یہ جو حکم ہے کہ اپنی نظریں نیچی رکھو اور غضِّ بصر سے کام لو، یہ عورتوں اور مَردوں دونوں کے لئے ہے کیونکہ کھلی نظر سے دیکھنے سے (بدنظری کے) امکانات پیدا ہو سکتے ہیں۔
٭…کیا ہم نے فسق و فجور کی ہر بات سے اس سال میں بچنے کی کوشش کی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مومن سے گالی گلوچ کرنا فسق ہے۔ سختی سے، لڑائی سے، جب لڑائی جھگڑا ہوتا ہے اس وقت آدمی سخت الفاظ بھی کہہ دیتا ہے اور برے الفاظ بھی کہہ دیتا ہے اور ایک مومن دوسرے مومن سے جب یہ کر رہا ہو تو یہ فسق ہے بلکہ کسی سے بھی جب کر رہا ہو تو یہ فسق ہے۔
٭… کیا ہم نے اپنے آپ کو ہر ظلم سے بچا کر رکھا ہے؟ یعنی ظلم کرنے سے بچا کے رکھا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کسی کی ایک ہاتھ زمین بھی دبا لینا۔ تھوڑی سی زمین بھی کسی کی دبا لینا یا کسی کاایک کنکر جو چھوٹا سا پتھر جو ہے، کنکری، مٹی کا ٹکڑہ، وہ بھی غلط طریق سے لینا ظلم ہے۔
٭… کیا ہم نے ہر قسم کی خیانت سے اپنے آپ کو پاک رکھا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اس سے بھی خیانت نہیںکرنی جو تم سے خیانت کرتا ہے۔
٭… کیا ہم نے ہر قسم کے فساد سے بچنے کی کوشش کی ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ شریرترین لوگ فسادی ہیں اور یہ فسادی ہیں جو چغل خوری سے فساد پیدا کرتے ہیں۔ یہاں کی بات وہاں لگائی، اِدھر سے اُدھر بات پھیلائی وہ لوگ فسادی ہیں۔ جو لوگ محبت کرنے والوں کے درمیان بگاڑ پیدا کرتے ہیں وہ فسادی ہیں۔ جو فرمانبردار ہیں، اطاعت کرنے والے ہیں، نظام کی ہر بات کو ماننے والے ہیں یا دین کی ہر بات کو ماننے والے ہیں انہیں کسی غلط کام میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں یا گناہ میں مبتلا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ فسادی ہیں۔
٭…کیا ہر قسم کے باغیانہ رویّے سے پرہیز کرنے والے ہم ہیں؟
٭…کیا ہم نفسانی جوشوں سے مغلوب تو نہیں ہو جاتے؟ آجکل کے زمانے میں جبکہ ہر طرف بے حیائی پھیلی ہوئی ہے ان نفسانی جوشوں سے بچنا بھی ایک جہاد ہے۔
٭…کیا ہم پانچ وقت نمازوں کا التزام کرتے رہے ہیں،سال میں باقاعدگی سے پڑھتے رہے ہیں؟
٭… کیا نماز تہجد پڑھنے کی طرف ہماری توجہ رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا اس بارے میں ارشاد ہے کہ نماز تہجد کا التزام کرو، اس میں باقاعدگی پیدا کرنے کی کوشش کرو، یہ صالحین کا طریق ہے؟ فرمایا کہ یہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔ فرمایا کہ اس کی عادت گناہوں سے روکتی ہے۔ فرمایا کہ برائیوں کو ختم کرتی ہے اور جسمانی بیماریوں سے بھی بچاتی ہے۔
٭… کیا ہم آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے کی باقاعدہ کوشش کرتے رہے ہیں یا کرتے ہیں کہ یہ مومنوں کو اللہ تعالیٰ کے خاص حکموں میں سے ایک حکم ہے اور یہ دعاؤں کی قبولیت کا ذریعہ بھی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اگر درود کے بغیر دعائیں ہیں تو یہ زمین اور آسمان کے درمیان ٹھہر جاتی ہیں۔
٭… کیا ہم باقاعدگی سے استغفار کرتے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ جو شخص استغفار کو چمٹا رہتا ہے یعنی باقاعدگی سے کرتا رہتا ہے اللہ تعالیٰ اس کے لئے ہر تنگی سے نکلنے کی راہ بنا دیتا ہے اور ہر مشکل سے کشائش کی راہ پیدا کر دیتا ہے اور اسے ان راہوں سے رزق عطا کرتا ہے جس کا وہ تصور بھی نہیں کرسکتے۔
٭ … کیا اللہ تعالیٰ کی حمد کرنے کی طرف ہماری توجہ رہی کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی حمد کے بغیر شروع کیا جانے والا کام ناقص رہتا ہے، بے برکت ہوتا ہے، بے اثر ہوتا ہے؟
٭… کیا ہم اپنوں اور غیروں سب کو کسی بھی قسم کی تکلیف پہنچانے سے گریز کرتے رہے ہیں؟ کیا ہمارے ہاتھ اور ہماری زبانیں دوسروں کو تکلیف پہنچانے سے بچی رہی ہیں؟
٭… کیا ہم عفو اور درگذر سے کام لیتے رہے ہیں؟
٭… کیا عاجزی اور انکساری ہمارا امتیاز رہا ہے؟
٭… کیا خوشی غمی تنگی اور آسائش ہر حالت میں ہم خدا تعالیٰ کے ساتھ وفا کا تعلق رکھتے رہے ہیں؟ اللہ تعالیٰ سے کبھی کوئی شکوہ تو نہیں پیدا ہوا کہ میری دعائیں کیوں قبول نہیں کی گئیں یا مجھے اس تکلیف میں کیوں مبتلا کیا گیا؟ اگر یہ شکوہ ہے تو کوئی انسان مومن نہیں رہ سکتا۔
٭… کیا ہر قسم کی رسوم اور ہواوہوس کی باتوں سے ہم نے پوری طرح بچنے کی کوشش کی ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہ رسوم اور بدعات تمہیں گمراہی کی طرف لے جاتی ہیں ان سے بچو۔
٭… کیا قرآن کریم اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے احکامات اور ارشادات کو ہم مکمل طور پر اختیار کرنے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟
٭… کیا تکبر اور نخوت کو ہم نے مکمل طور پر چھوڑا ہے یا اس کے چھوڑنے کے لئے کوشش کی ہے کہ شرک کے بعد سب سے بڑی بلا تکبر اور نخوت ہے؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ متکبر جنت میں داخل نہیں ہو گا اور تکبر یہ ہے کہ انسان حق کا انکار کرے۔ لوگوں کو ذلیل سمجھے۔ ان کو حقارت کی نظر سے دیکھے اور ان سے بری طرح پیش آئے۔
٭… کیا ہم نے خوش خُلقی کے اعلیٰ معیار حاصل کرنے کی کوشش کی ہے؟
٭… کیا ہم نے حلیمی اور مسکینی کو اپنانے کی کوشش کی ہے؟ مسکینوں کا مقام آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نظر میں کتنا ہے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا کیا کرتے تھے کہ اے اللہ! مجھے مسکینی کی حالت میں زندہ رکھ۔ مجھے مسکینی کی حالت میں موت دے اور مجھے مسکینوں کے گروہ میں ہی اٹھانا۔
٭… کیا ہر دن ہمارے اندر دین میں بڑھنے اور اس کی عزت و عظمت قائم کرنے والا بنتا رہا ہے؟ دین کو دنیا پر مقدم کرنے کا عہد جو ہم اکثر دہراتے ہیں صرف کھوکھلا عہد تو نہیں رہا۔
٭… کیا اسلام کی محبت میں ہم نے اس حد تک بڑھنے کی کوشش کی ہے کہ اپنے مال پر اس کو فوقیت دی، اپنی عزت پر اس کو فوقیت دی، اوراپنی اولاد سے زیادہ اسے عزیز اور پیارا سمجھا؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ خدا نے مجھے دین اسلام دے کر بھیجا ہے اور اسلام یہ ہے کہ تم اپنی پوری ذات کو اللہ تعالیٰ کے حوالے کر دو۔ دوسرے معبودوں سے دستکش ہو جاؤ۔ نماز قائم کرو اور زکوۃ دو۔
٭… کیا ہم اللہ تعالیٰ کی مخلوق کی ہمدردی میں آگے بڑھنے کی کوشش کرنے والے ہیں یا کرتے رہے ہیں؟
٭… اپنی تمام تر استعدادوں کے ساتھ مخلوق خدا کو فائدہ پہنچانے کی کوشش کرتے رہے ہیں؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تمام مخلوقات اللہ تعالیٰ کی عیال ہے۔ پس اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوقات میں سے وہ شخص بہت پسند ہے جو اس کے عیال کے ساتھ اچھا سلوک کرتا ہے اور ان کی ضروریات کا خیال رکھتا ہے۔
٭… کیا یہ دعا کرتے رہے اور اپنے بچوں کو بھی نصیحت کرتے رہے کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی اطاعت کے معیار ہمیشہ ہم میں قائم رہیں؟ ہم ہمیشہ آپ کی اطاعت کرتے رہیں۔ اعلیٰ معیاروں کے ساتھ اور اس میں بڑھتے بھی رہیں۔
٭… کیا ہم نے حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے تعلق اخوّت اور اطاعت اس حد تک بڑھایا ہے کہ باقی تمام دنیوی رشتے اس کے سامنے ہیچ ہو جائیں، معمولی سمجھے جانے لگیں؟
٭… کیا ہم خلافت احمدیہ سے وفا اور اطاعت کے تعلق میں قائم رہنے اور بڑھنے کی دعا سال کے دوران کرتے رہے؟ کیا اپنے بچوں کو خلافت احمدیہ سے وابستہ رہنے اور وفا کا تعلق رکھنے کی طرف توجہ دلاتے رہے اور اس کے لئے دعا کرتے رہے کہ ان میں یہ توجہ پیدا ہو؟
٭… کیا خلیفۂ وقت اور جماعت کے لئے باقاعدگی سے دعا کرتے رہے؟
اگر تو اکثر سوالوں کے مثبت جواب کے ساتھ یہ سال گزرا ہے تو کچھ کمزوریاں رہنے کے باوجود ہم نے بہت کچھ پایا۔ جتنے سوال مَیں نے اٹھائے ہیں اگر زیادہ جواب نفی میں ہے تو پھر قابل فکر حالت ہے۔ ہمیں اپنی حالتوں پر غور کرنا چاہئے اور اس کا مداوا اسی طرح ہو سکتا ہے کہ ان راتوں میں یہ دعا کریں۔ آج کی رات بھی ہے اور کل آخری رات ہے۔ اور مصمّم ارادہ کریں اور ایک عہد کریں اور خاص طور پر نئے سال کے آغاز میں یہ دعا کریں کہ اللہ تعالیٰ ہماری گزشتہ کوتاہیوں اور کمیوں کو معاف فرمائے اور نئے سال میں ہمیں زیادہ سے زیادہ پانے کی توفیق دے۔ ہم کھونے والے نہ ہوں اور ہم ان مومنین میں شامل ہوں جو اللہ تعالیٰ کی رضا کے حصول کے لئے اپنا سب کچھ قربان کرنے کے لئے تیار رہتے ہیں۔
(ماخوذ از خطبہ جمعہ فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایّدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز30؍ جنوری 2016، بحوالہ الفضل انٹرنیشنل 20؍ جنوری 2017ء)
آئیے ہم سب اپنے آپ سے یہ سوالات پوچھیں اور حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے ارشاد کی عملی تصویر بننے کی کوشش کریں کہ ’’چاہئے کہ ہر ایک صبح تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے تقویٰ سے رات بسر کی اور ہر ایک شام تمہارے لئے گواہی دے کہ تم نے ڈرتے ڈرتے دن بسر کیا۔‘‘
(کشتی نوح۔ روحانی خزائن جلد 19 صفحہ 12)
٭…٭…٭