خطبہ جمعہ فرمودہ 21 دسمبر 2018ء
بمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے
(خطبہ جمعہ کا یہ متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔ اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
آج میرا ارادہ تھا کہ پہلے کچھ صحابہ کا ذکر کروں گا اور اس کے بعد مکرم مرزا انس احمد صاحب جن کی گزشتہ دنوں وفات ہوئی ہے ان کا ذکر ہو گا لیکن لوگوں نے ان کے متعلق جو کافی سارے خطوط مجھے لکھے، ان کی باتیں لکھیں اس کی وجہ سے مَیں نے سمجھا کہ انہیں کا ذکر آج کر دوں۔
مرزا انس احمد صاحب جو حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے بڑے بیٹے تھے ان کی گزشتہ دنوں ربوہ میں 81سال کی عمر میں وفات ہوئی ہے۔ اِنَّا لِلہِ وَاِنَّا اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔ یہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سب سے بڑے پوتے تھے اور حضرت نواب مبارکہ بیگم صاحبہ اور نواب محمد علی خان صاحب کے نواسے تھے۔ اس لحاظ سے یہ میرے ماموں زاد بھائی بھی تھے۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم قادیان میں لی پھر ربوہ میں مکمل کی۔ پھر پنجاب یونیورسٹی سے ایم۔اے پاس کیا۔ پھر کچھ عرصہ وہاں کالج میں خدمت کی اور پھر یہاں آکسفورڈ یونیورسٹی انگلستان میں تعلیم حاصل کی۔ یہاں سے انہوں نے ایم اے کیا۔ خدا کے فضل سے 1955ء میں انہوں نے زندگی وقف کی اور 1962ء میں عملی زندگی میں قدم رکھا اور بڑی محنت سے مختلف شعبہ جات میں انہوں نے کام کیا۔ بڑے شوق سے اور ہمت سے اور محنت سے کام کرنے کے عادی تھے۔ علمِ حدیث، فلسفہ اور انگریزی ادب میں ان کا بڑا گہرا مطالعہ تھا۔ حدیث سے خاص طور پر بڑا شغف تھا اور اسی لئے اپنے شوق سے حدیث کی ابتدائی تعلیم محترم مولوی خورشید احمد صاحب مرحوم سے انہوں نے حاصل کی۔ اپنے گھر میں بھی ان کی بڑی اچھی لائبریری تھی۔ بڑی نایاب کتب رکھا کرتے تھے۔ پڑھنے کا بہت شوق تھا۔ کوئی طالبعلم بھی کسی شعبہ میں رہنمائی کے لئے آ جاتا تو بڑی اچھی معلومات دیا کرتے تھے۔ حدیث کے اہم اور بنیادی مأخذ کی کتب کے سیٹ بھی ان کے پاس تھے اور یہ مختلف کتب خانوں سے انہوں نے اکٹھے کئے تھے۔
انہوں نے جب 1955ء میں زندگی وقف کی اور اپنے آپ کو پیش کیا تواس وقت حضرت مصلح موعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ان کا ذکر فرمایا اور فرمایا کہ ’’میں نے جماعت میں جو وقف کی تحریک شروع کی ہے اس کے بعد میرے پاس تین درخواستیں آئی ہیں ایک تو میرے پوتے مرزا انس احمد کی ہے جو عزیزم مرزا ناصر احمد کا لڑکا ہے۔ اللہ تعالیٰ اسے اپنی نیت کو پورا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔‘‘ اور ’’انس احمد نے لکھا ہے کہ میرا ارادہ تھا کہ میں قانون پڑھ کر اپنی زندگی وقف کروں لیکن اب آپ جہاں چاہیں مجھے لگا دیں میں ہر طرح تیار ہوں۔‘‘
(خطبات محمود جلد 36 صفحہ 194 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 14 اکتوبر 1955ء )
اللہ تعالیٰ کے فضل سے 56 سال تک ان کو مختلف جماعتی دفاتر میں خدمت کی توفیق ملی۔ پہلے ابتدائی تقرر ان کا تعلیم الاسلام کالج میں بطور لیکچرر ہوا۔ پھر 1975ء میں نائب ناظر اصلاح و ارشاد مقرر ہوئے۔ پھر ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مقرر ہوئے، حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کے اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع ؒکے پہلے دورۂ یورپ کے دوران پرائیویٹ سیکرٹری بھی رہے۔ جامعہ احمدیہ کے ایڈمنسٹریٹر کے طور پر بھی ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ کچھ سال یہ ناظر تعلیم بھی رہے۔ نائب ناظر دیوان رہے اور تحریک جدید میں یہ اب وکیل الاشاعت کے کام پر فائز تھے۔ یہ پہلے وکیل التصنیف تھے پھر مارچ 1999ء میں وکیل الاشاعت مقرر ہوئے اور 97ء میں گو عمر کے لحاظ سے ان کی ریٹائرمنٹ ہو گئی تھی لیکن آخر دم تک ان کو خدمت کی توفیق ملی۔ خدام الاحمدیہ، انصار اللہ مرکزیہ میں بھی ان کو مختلف خدمات کی توفیق ملی۔ براہین احمدیہ اور محمود کی آمین کا انگریزی ترجمہ بھی انہوں نے کیا جو شائع ہو چکا ہے۔ آجکل سرمہ چشم آریہ، ازالۂ اوہام اور درثمین کے انگریزی ترجمہ کی نظر ثانی پر کام کر رہے تھے۔ ہمارے سکول جو قومیائے گئے تو اس کے بعد جماعت نے اپنے سکول شروع کئے تھے جو ناصر فاؤنڈیشن کے تحت شروع کئے گئے اس کے بھی چیئرمین رہے۔ مجلس افتاء کے ممبر بھی تھے۔ نور فاؤنڈیشن بورڈ کے ممبر بھی تھے۔ نور فاؤنڈیشن قائم کی گئی تھی تاکہ احادیث کی کتب جو ہیں ان کو جماعتی طور پر شائع کیا جائے اور ان کا ترجمہ اور شرح لکھی جائے۔ مسند احمد بن حنبل کا اردو ترجمہ یہ کر رہے تھے۔
پارٹیشن کے وقت جب قادیان سے ہجرت ہوئی ہے تو حضرت مصلح موعودؓ نے ان کا ایک واقعہ بیان کیا ہے۔ یہ تاریخی واقعہ جو حضرت مصلح موعودؓ کی اپنی قربانی تھی اس سے متعلق ہے لیکن ان کا ذکر بیچ میں آتا ہے اس لئے میں سنا دیتا ہوں۔ حضرت مصلح موعود فرماتے ہیں کہ جب ہم قادیان سے آئے تو میں نے اپنے گھر والوں سے کہہ دیا تھا کہ تمہیں لنگر سے اسی قدر کھانا ملے گا جس قدر دوسروں کو ملتا ہے (کیونکہ حالات خراب تھے اس لئے راشن ہوا ہوا تھا۔) فرمایاکہ ان دنوں میں نے یہ ہدایت دی ہوئی تھی کہ مالی تنگی کی وجہ سے صرف ایک ایک روٹی فی کس دی جائے گی اور اپنے گھر والوں کو بھی میں نے یہی کہا تھا کہ تمہیں بھی ایک ایک روٹی فی کس ملے گی۔ فرماتے ہیں ایک دن میرا پوتا انس احمد روتا ہوا میرے پاس آیا اور مجھے بتایا گیا کہ یہ کہتا ہے کہ ایک روٹی سے میرا پیٹ نہیں بھرتا۔ میںنے کہا کہ میں نے تو ایک ہی روٹی دینی ہے۔ اگر اس کا پیٹ ایک روٹی سے نہیں بھرتا تو پھر تم مجھے آدھی روٹی دے دیا کرو اور میری آدھی روٹی اسے دے دیا کرو۔ حضرت مصلح موعودؓ نے پھر فرمایا اس طرح میں آدھی روٹی میں گزارا کر لیا کروں گا اور یہ ڈیڑھ روٹی کھا لیا کرے گا۔ آپؓ فرماتے ہیں کہ جب مہمانوں کے لئے ایک روٹی کی شرط اٹھ جائے گی تو پھر میں گھر والوں کے لئے بھی فی کس روٹیوں کی تعداد بڑھا دوں گا لیکن جب تک مہمانوں کے لئے ایک روٹی کی شرط نہیں اُڑتی اسے میری روٹی کا نصف حصہ دے دیا کرو۔ آپؓ فرماتے ہیں پھر بعد میں اللہ تعالیٰ نے فضل کر دیا اور نہ صرف یہ کہ سندھ کی زمینوں کی پیداوار اچھی ہو گئی بلکہ خدا تعالیٰ نے آمد کے اَور راستے بھی کھول دئے اور یہ پابندی پھر دور ہو گئی۔
(ماخوذ از خطبات محمودؓ جلد 37 صفحہ 53 خطبہ جمعہ بیان فرمودہ مورخہ 3 فروری 1956ء)
ان کے داماد مرزا وحید احمد صاحب لکھتے ہیں کہ ایک دفعہ میں اپنے سفر پر بخارا اور سمرقند جا رہا تھا تو مرزا انس احمد صاحب نے مجھے کہا کہ وہاں تم جا رہے ہو تو امام بخاریؒ کی قبر پر بھی جانا اور میری طرف سے بھی دعا کرنا اور سلام کہنا۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے آپ کی محبت کی وجہ سے یہ تھا کہ اس شخص نے جس نے سینکڑوں سال پہلے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات اور واقعات کا خزانہ جمع کر کے ہم تک پہنچایا ہے اس کا حق بنتا ہے کہ ہم اس کے لئے دعا کریں اور اسے سلام پہنچائیں۔
ڈاکٹر نوری صاحب لکھتے ہیں کہ میرا جو بھی ان کے ساتھ تجربہ ہوااور کافی عرصہ ان کو دیکھنے کا موقع ملا کہ جو کام آپ کو دیا جاتا آپ ایک جذبے کے ساتھ اسے مکمل کرتے۔ نہایت جانفشانی اور محنت اور لگن کے ساتھ اپنے کام کو پوری طرح سرانجام دیتے۔ کہتے ہیں کمزوری اور بیماری کے باوجود مَیں نے آپ کو لیپ ٹاپ پر حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ کرتے ہوئے دیکھا۔ گھنٹوں کمپیوٹر پر ٹائپ کرتے اور آپ کے ساتھی قرآن کریم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کے حوالے لے کر آپ کے پاس کھڑے ہوتے۔ آپ اکثر یہ کہتے کہ میری خواہش تو صرف اتنی ہے کہ جو کام خلیفہ وقت نے میرے سپرد کیا ہے میں اللہ تعالیٰ کی مدد سے اسے پورا کر دوں۔ نوری صاحب لکھتے ہیں کہ ان کی یادداشت بھی نہایت قابل تعریف تھی۔ احادیث اور آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کے عاشق صادق تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام اور خلفاء کے واقعات آپ اس قدر جوش اور جذبے اور نہایت لطیف انداز میں بیان کرتے تھے کہ سننے والے کا دل موہ لیتے تھے اور واقعات بیان کرتے وقت آپ کی آنکھیں نم ہو جاتیں اور آواز بھرا جاتی۔
صبر بھی ان میں بہت تھا۔ نوری صاحب ہی لکھتے ہیں کہ ہر قسم کے مشکل حالات میں آپ نے ہمیشہ صبر اور ہمت کا مظاہرہ کیا۔ حوصلے کے ساتھ ہر تنگی کو برداشت کرتے۔ اپنی علالت کی وجہ سے آپ ایک پیالی چائے کی نہیں اٹھا سکتے اور نہ ہی بستر پر پہلو بدل سکتے تھے لیکن اس کے باوجود آپ نے ہمیشہ اپنا کام جاری رکھا اور بڑی جانفشانی سے اپنی ذمہ داری نبھائی اور کبھی کوئی شکایت کا موقع نہ دیا بلکہ اللہ تعالیٰ کی رضا پر راضی رہے۔ نوری صاحب کہتے ہیں کہ ہر آنے والے کو خوشی سے اور مسکرا کر ملتے یہ آپ کا ایک بہت بڑا خلق تھا۔ طاہر ہارٹ انسٹیٹیوٹ میں داخلے سے ایک دن قبل آپ مجھے ملنے آئے۔ بیماری کی وجہ سے آپ کے چہرے پر شدید درد محسوس ہو رہی تھی اس کے باوجود آپ نے مسکراتے ہوئے کہا کہ میرا خیال ہے کہ میرا خاتمہ قریب ہے اور مَیں اپنے رب سے ملنے جا رہا ہوں۔ یہ بات آپ نے بڑے مسکراتے چہرے سے کی۔
پھر نوری صاحب ان کی شکر گزاری کے بارے میں لکھتے ہیں کہ احسان مندی اور شکر گزاری کی صفت ان میں بے پناہ تھی۔ کہتے ہیں دو موقعوں پر آپ نے بہت احسان کرتے ہوئے مجھے کہا کہ آپ نے جس خلوص نیت کے ساتھ مجھ پر احسان کیا ہے، میری تیمار داری کی ہے میں اس کی قیمت کبھی ادا نہ کر پاؤں گا اور یہ جذبات کا اظہار کرتے ہوئے نوری صاحب کہتے ہیں انہوں نے مجھے حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی وہ ڈائری عنایت فرمائی جس پر حضورؒ نے اپنی خوابیں وغیرہ لکھی ہوئی تھیں۔ اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کا ایک کوٹ بھی مجھے دیا۔ اسی طرح میڈیکل ٹیم کے ساتھ بھی بڑی شفقت کا سلوک کیا۔ ان کے کمرے کی لائبریری تو مَیں نے بھی دیکھی ہوئی ہے۔ نوری صاحب نے بھی لکھا ہے کہ ساری دیواریں، چاروں دیواروں کے جو شیلف تھے چھت تک اس میں کتابیں بھری ہوتی تھیں اور اس میں مختلف قسم کی سائنسی، معاشی اور مختلف topicsپہ کتابیں تھیں جو انہوں نے کہا کہ میں نے خود پڑھی بھی ہوئی ہیں۔
میر داؤد احمد صاحب مرحوم کی بیٹی ندرت کہتی ہیں کہ ان کی وفات کا سن کے بہت ساری پرانی یادیں میرے دل میں آئیں، دماغ میں آئیں اور حضرت خلیفۃ المسیح الثالثؒ کی یادیں تازہ ہو گئیں۔ کہتی ہیں میری بیٹی کی شادی تھی تو انتظام چیک کرنے کے لئے وقت سے پہلے مارکی میں گئی تو وہاں بھائی انس پہلے سے بیٹھے تھے اور رو رہے تھے۔ مَیں حیران ہوئی کہ یہاں اتنی جلدی کیوں آ گئے ہیں تو مجھے دیکھ کر بتایا کہ آج مجھے تمہارے ابا میر داؤد احمد صاحب مرحوم بہت یاد آ رہے تھے، تو میں یہاں آ کر تمہارے لئے دعا کر رہا تھا۔
ان کے بھانجے عامر احمد لکھتے ہیں کہ خوشی غمی میں ایک محبت کرنے والے باپ کی طرح موجود رہے۔ ہر گھر میں اونچ نیچ ہوتی ہے لیکن ایسے معاف کر دیتے جیسے کبھی کچھ ہوا ہی نہیں۔ بلکہ اگر محسوس کر لیتے کہ میری کسی نصیحت کی وجہ سے اگلے کو تکلیف پہنچی ہے تو اس نیک نصیحت کے باوجود اگلے دن خود اس سے معذرت کرتے، معافی مانگتے۔
منیر الدین شمس صاحب ایڈیشنل وکیل التصنیف کہتے ہیں کہ ان کی میرے ساتھ کئی سٹنگز (sittings) ہوتی رہیں۔ ہمیشہ انہیں ہمدرد اور شفیق پایا۔ باوجودیکہ عمر میں مجھ سے کافی بڑے تھے کبھی انہوں نے نہ اپنی عمر کی اور نہ اپنے علم کی برتری کا اظہار کیا۔ منیر الدین صاحب کہتے ہیں کہ جب سے میاں صاحب کے ساتھ تصنیف میں کام کے سلسلہ میں واسطہ پڑا ہمیشہ انہیں بہت مددگار، رہنما اور تعاون کرنے والا پایا۔ جب بھی انہیں کوئی کام دیا گیا انہوں نے بہت محنت اور لگن کے ساتھ اسے نبھایا بلکہ ہمیشہ کہا کرتے تھے کہ مزید کام دیں تا کہ بیماری میں جتنا زیادہ کام کر سکوں بہتر ہے۔ خلافت سے بے پناہ اخلاص اور وفا کا تعلق تھا اور اکثر جب بھی کام کے سلسلہ میں بات ہوتی تو یہی کہتے کہ میرا سلام کہنا۔ اور مجھے سلام بھجواتے تھے اور ہر مرتبہ پوچھتے تھے کہ میرے کام کی وجہ سے کوئی ناراضگی تو نہیں۔ ہر وقت فکر رہتی تھی کہ خلیفہ وقت کہیں ناراض نہ ہو جائے۔ شمس صاحب ہی لکھتے ہیں کہ باوجود بیماری کے جب بھی میری طرف سے انہیں کوئی کام دیا جاتا تو بڑی خوشی کے ساتھ جلد از جلد مکمل کرنے کی کوشش کرتے تھے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی بعض کتب کا انگریزی میں ترجمہ کرنے کے سلسلہ میں انہوں نے بہت قابلِ قدر خدمات سرانجام دینے کی توفیق پائی۔ براہین احمدیہ کے بعض حصوں کا انہوں نے بہت عمدہ ترجمہ کرنے کی توفیق پائی۔ کہتے ہیں ترجمہ کو فائنل کرتے ہوئے ہماری جو ٹیم تھی وہ بھی ان کی رائے کو مدّنظر رکھتی تھی۔ جب کبھی کوئی ہدایات دی جاتیں ،اور میری طرف سے جب ہدایات جاتیں، وکالت تصنیف ان کو دیتی کہ یہ خلیفۂ وقت نے کہا ہے اور اس بارے میں اپنی رائے دیں تو بڑی مدلّل رائے بھجوایا کرتے تھے۔ بہرحال ایک عالم تھے اور ان کا علم بڑا گہرا تھا۔ اس سے جماعت اب محروم ہو گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ اَور علماء پیدا کرے۔
ایک خوبی ہر ایک نے لکھی ہے۔ بہت سارے مبلغین نے بھی لکھا ہے اور شمس صاحب بھی یہ لکھتے ہیں کہ مبلغین کی بہت عزت کیا کرتے تھے۔ یہ ان کی بہت بڑی خوبی تھی اور علمی رنگ میں رہنمائی بھی فرمایا کرتے تھے۔
حافظ مظفر احمد صاحب ایڈیشنل ناظر اصلاح و ارشاد مقامی ربوہ کہتے ہیں کہ میاں صاحب گوناگوں صفات کے مالک تھے۔ خدا ترسی، محبتِ الٰہی، عشقِ قرآن، عشقِ رسول، سادگی، تواضع اور رحمت و شفقت آپ کے نمایاں اوصاف تھے۔ حقوق اللہ کے ساتھ حقوق العباد کا بھی خیال رکھتے۔ غرباء اور مساکین کا بہت احساس تھا۔ کسی ضرورتمند کو خالی ہاتھ واپس نہ کرتے خواہ قرض لے کر ہی اس کی مدد کیوں نہ کرنی پڑے۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ ایک علمی شخصیت تھے۔ حصولِ علم کا خاص ذوق تھا اور اس کے لئے آپ نے بہت محنت اور مجاہدہ کیا۔ حافظ صاحب کہتے ہیں خود مجھ سے انہوں نے بیان کیا کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی کتب کے مطالعہ کا پہلا دور انہوں نے میٹرک کے امتحان کے بعد دسویں کے امتحان کے بعد جو چھٹیاں ہوتی ہیں، اس فراغت کے عرصہ میں مکمل کیا تھا۔ یہ بات انہوں نے مجھے بھی بتائی تھی بلکہ ایک خط میں لکھ کے دی تھی کہ میں نے پہلی دفعہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب پندرہ سولہ سال کی عمر میں ختم کر لی تھیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سچے عاشق تھے۔ حافظ صاحب لکھتے ہیں اور اسی مناسبت سے علم حدیث سے بھی خاص ذوق اور لگاؤ بلکہ محبت تھی جس کے لئے آپ نے ذاتی محبت اور مطالعہ سے عربی زبان میں بھی اتنی قابلیت اور مہارت پیدا کر لی کہ احادیث کے علاوہ ان کی عربی شروح وغیرہ بھی زیر مطالعہ رکھتے تھے۔ میٹرک کے بعد صحیح بخاری آپ نے حکیم خورشید صاحب سے پڑھی۔ اس کے بعد بھی میں نے دیکھا کہ جب آپ کالج میں لیکچرر تھے تو صبح کالج جانے سے پہلے حکیم صاحب کے گھر کے سامنے ان کی کار کھڑی ہوتی تھی۔ وہاں حکیم صاحب سے حدیث پڑھنے کے بعد پھر یہ اپنے کام پر جایا کرتے تھے ۔ پھر کہتے ہیںا س کے بعد صحاح ستہ اور دیگر کتب حدیث کا ذاتی شوق سے مطالعہ کیا اور آخر دم تک ایک طالب علم ہی رہے۔ کتب حدیث کا ایک بہت عمدہ اور قیمتی ذخیرہ انہوں نے ایک زرّ کثیر سے اپنی لائبریری میں جمع کیا جس میں بہت مفید نایاب کتب موجود ہیںاور اس لحاظ سے ان کی ذاتی لائبریری بے نظیر اور اپنی مثال آپ ہے۔ علم حدیث سے اتنا شغف تھا کہ اس کے دیگر موضوعات علم الرجال اور علم اصول حدیث پر بھی دستیاب کتب آپ کے پاس تھیں جو انہوں نے جمع کر رکھی تھی۔ گہرا مطالعہ کرتے تھے اور علمی گفتگو میں مختلف امور زیر بحث لاتے رہتے تھے۔
تراجم صحاح ستہ کے سلسلہ میں جب مَیں نے یہاں سے ایک نیا بورڈ قائم کیا۔ نور فاؤنڈیشن قائم کی اس کا کام تھا کہ حدیثوں کا جیسا کہ میں نے کہا کہ اردو میں ترجمہ کریں، اور بعض کی شرح بھی لکھیں۔ اس میں حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ میاں صاحب کو بھی ممبر مقرر کیا گیا اور میاں صاحب موصوف نے باوجود اپنے دفتری کاموں کے ازخود ذاتی طور پر مسند احمد بن حنبل کے اردو ترجمہ کا سب سے مشکل اور طویل کام اپنے ذمہ لے لیا اور پھر دیگر مصروفیات اور خرابی صحت کے باوجود اسے مسلسل جاری رکھا اور ایک حصہ کا ترجمہ جو سینکڑوں احادیث پر مشتمل ہے آپ نے مکمل بھی کر لیا تھا۔ آپ کی یہ خدمت بھی یادگار رہے گی۔
پھر حافظ صاحب لکھتے ہیں کہ آپ کی محبت حدیث کا ایک خوبصورت نظارہ رمضان المبارک میں آپ کے درس حدیث سے ہوتا تھا۔ بڑے اہتمام اور محنت سے آپ یہ درس دیا کرتے جو بالعموم سیرۃ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مختلف موضوعات پر ہوتے تھے اور اس میں نادر اور قیمتی مواد جمع کر کے پیش فرماتے۔ آواز میں بھی خاص سوزو گداز تھا۔ ان کے درس ہم رمضان میں خاص طور پر سنا کرتے تھے۔ بڑے خوبصورت انداز میں درس دیا کرتے تھے۔ ایک خاص جذبۂ عشق اور ایسے دلنشین انداز سے درس دیتے تھے کہ انسان کچھ لمحات کے لئے لگتا تھا کہ قرون اولیٰ کے دَور میں چلا گیا ہے۔
جلسہ سالانہ ربوہ میں بھی آپ کو کئی سال تک تقاریر کرنے کی سعادت نصیب ہوئی۔ شمیم پرویز صاحب نائب وکیل وقف نَو لکھتے ہیں کہ ان کی خلافت سے والہانہ محبت کا ایک واقعہ میرے دل پر نقش ہے۔کہتے ہیں جب خلافت رابعہ کا انتخاب ہوا تو اُس وقت خاکسار قائد ضلع جھنگ تھا اور ڈیوٹی مسجد مبارک کے محراب کے باہر تھی۔ جونہی اندر سے حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ خلیفۃ المسیح الرابع کے خلیفہ منتخب ہونے کی اطلاع آئی تو شمیم صاحب کہتے ہیں میں نے مرزا انس احمد صاحب کو دیکھا جو کہ جون کی شدید گرمی کے باوجود اینٹوں کے تپتے ہوئے فرش پر سجدہ شکر کرتے ہوئے گر گئے۔
ڈاکٹر افتخار صاحب لندن سے لکھتے ہیں کہ حقیقی معنوں میں واقف زندگی تھے۔ دفتر آنا نہیں چھوڑا اور سلسلہ کے اشاعت اور تراجم کے کاموں میں آخری دم تک مشغول رہے۔ پھر کہتے ہیں کہ تراجم بہت انہماک کے ساتھ کرتے اور موزوں محاورہ تلاش کرنے میں بعض دفعہ کئی کئی دن لگا دیتے اور اطاعت کا معیار بھی بہت اعلیٰ تھا۔
خالد صاحب رشین ڈیسک لندن لکھتے ہیں کہ میاں صاحب کی شخصیت جب بھی خاکسار کے ذہن میں آتی ہے تو لگتا ہے جیسے ان کی ذات آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث مبارکہ اُطْلُبُوا الْعِلْمَ مِنَ الْمَھْدِ اِلَی اللَّحْد کی حقیقی اور عملی تصویر تھی۔ میاں صاحب کو مختلف علوم سیکھنے کا بے انتہا شوق تھا۔ کوئی بھی نئی چیز معلوم کرنے اور کچھ نیا جاننے کا موقع ہرگز ضائع نہیں کرتے تھے اور احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور علم حدیث ان کا خاص اور پسندیدہ موضوع تھا۔ نیز علم اللسان بھی ان کا خاص شوق تھا۔ مختلف زبانوں کو سیکھنا پسند کرتے تھے۔ کہتے ہیں مہمان نوازی بھی ایک خاص وصف تھا۔ 2005ء کی بات ہے کہ جب رستم حماد وَلی صاحب صدر جماعت رشیا جو ماسکو کے معلم بھی ہیں، رشین ترجمہ قرآن کی تیاری کے کام کے سلسلہ میں ربوہ آئے تو خالد صاحب کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ مل کے مجھے کام کا موقع ملا۔ رستم صاحب کی رہائش ان دنوں میں گیسٹ ہاؤس تحریک جدید میں تھی۔ ایک دفعہ کھانے کے وقت رستم صاحب کے مزاج کے مطابق کچھ مطلوبہ چیزیں موجود نہیں تھیں یا غالباً ختم ہو گئی تھیں تو میاں انس تک یہ بات پہنچی۔ انہوں نے فورًا مجھے بلوایا اور کہا کہ رستم صاحب ہمارے معزز مہمان ہیں۔ ان کی ضرورت کی ہر چیز کا خیال رکھنا ہمارا اوّلین فرض ہے اور پھر اپنی جیب سے رقم دی کہ مطلوبہ چیزیں لا کر دیں اور آئندہ کسی بھی چیز کی ضرورت ہو تو مجھے بتائیں۔ کہتے ہیں کہ میں نے ان کو کہا کہ انتظام ہو گیا ہے اور چیزیں مہیا کر دی گئی تھیں۔ پھر بعد میںبھی باقاعدہ اس بارے میں پوچھتے رہتے تھے۔
محمد سالک صاحب برما کے مبلغ ہیں کہتے ہیں کہ سری لنکا کے طالبعلم کا ایک واقعہ جس نے متأثر کیا۔ ایک طالبعلم منیر احمد سری لنکا سے جامعہ میں پڑھنے کے لئے آئے تھے اور وہ اس وقت سری لنکا میں بطور مبلغ کام کر رہے ہیں جامعہ کے دوران ایک دفعہ بیمار ہو گئے۔ ان کی شدید بیماری پر میاں صاحب بہت زیادہ فکرمندی سے دن رات ہوسٹل میں آکر ان کا حال اس طرح پوچھا کرتے تھے جیسے کہ ان کا کوئی اپنا عزیز بیمار ہو۔ یہ اُن دنوں میں مرزا انس احمد صاحب ایڈمنسٹریٹر تھے جامعہ احمدیہ کے۔
شمشاد صاحب مبلغ امریکہ لکھتے ہیں کہ مربیان کے ساتھ میٹنگ میں ان کے اندر تبلیغ کا جذبہ پیدا کرنے کی بہت کوشش کرتے تھے۔ مطالعہ کا بہت شوق تھا۔ مربیان کو بھی مطالعہ کرنے کی بار بار توجہ دلاتے اور خود بھی ہمیشہ دفتر میں کتابوں کا ڈھیر لگا کر رکھا ہوتا تھا۔ بخاری شریف کا کثرت سے مطالعہ کرتے تھے۔ آنے جانے والے مربیان سے بھی علمی گفتگو کرتے رہتے تھے۔
شاہد محمود صاحب مبلغ گھانا لکھتے ہیں کہ خاکسار کو میاں صاحب کے ساتھ بارہ سال سے زائد عرصہ وکالت اشاعت میں بطور مدیر ماہنامہ تحریک جدید انگریزی حصہ کا کام کرنے کی توفیق ملی۔ میاں صاحب سے بے شمار چیزیں سیکھنے کو ملتی تھیں۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے محبت اور خلافت کی محبت اور اطاعت آپ میں خوب بھری ہوئی تھی۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے نام کے ساتھ اکثر آپ کی آنکھوں سے آنسو جاری ہو جاتے تھے۔ کتب کے ترجمہ اور بالخصوص براہینِ احمدیہ، سرمہ چشم آریہ اور محمود کی آمین کے ترجمہ کے وقت مجھے اپنے ساتھ دفتر میں بٹھایا کرتے تھے اور متعدد بار ترجمہ کے کام کے لئے اپنے گھر بھی بلایا کرتے تھے۔ نہ چھٹی کے دن کی اور نہ ہی دفتر بند ہونے کی کوئی فکر ہوتی تھی۔ اکثر اوقات شام دیر تک کام جاری رکھتے تھے۔ اس کے باوجود میری مہمان نوازی اور شفقتوں کا سلسلہ بھی جاری رہتا تھا۔ اور یہ کہتے ہیں کہ نماز ظہر کے لئے امامت کی میری ڈیوٹی لگا رکھی تھی۔ دفتر میں ہی سارے کارکن نماز پڑھ لیتے تھے۔ جب میں دیکھتا تھا کہ سنتیں وغیرہ پڑھ رہے ہیں تو ان کی ادائیگی نماز بھی دیدنی تھی۔ بہت لطف کے ساتھ نماز ادا کیا کرتے تھے۔ دفتر کے عملے کے ساتھ بہت شفقت کا سلوک تھا۔ کہتے ہیں ایک دفعہ بیماری کے باوجود خاکسار دفتر حاضر ہوگیا۔ مجھے زبردستی چھ ایام کی رخصت دے کر آرام کے لئے گھر بھجوا دیا اور خود بیماری کے باوجود آ جاتے تھے اور گھر پر بھی کام جاری رکھتے تھے۔
ایاز محمود خان مربی وکالت تصنیف یوکے کہتے ہیں کہ کام کے سلسلہ میں نے آپ سے بہت کچھ سیکھا ہے۔ آپ چونکہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب کا ترجمہ بڑے شوق سے کرتے اس لئے ترجمہ کے دوران جو مشکل مقامات اور ان کے حل ہوتے ان کے بارے میں بھی بتاتے اور اپنا تجربہ بھی شیئر کرتے تھے۔ ایک بات جو خاص طور پر آپ کہا کرتے وہ یہ تھی کہ ترجمہ کرتے وقت صرف لفظی ترجمہ ڈکشنری سے لگا دینا کافی نہیں ہے۔ یہ بھی دیکھنا ضروری ہے کہ وہ لفظ کسی لحاظ سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی شان کو کم کرنے والا تو نہیں؟ اور اگر کوئی لفظی ترجمہ ٹھیک نہیں ہے تو اصل مضمون کو convey کرنے والا کوئی لفظ ہونا چاہئے۔ اور پھر ترجمہ کے کام سے اتنی محبت تھی کہ بیماری میںبھی رکے نہیں۔ بیماری کے ایام میں کئی مرتبہ انہوں نے مجھے بتایا کہ بیماری کی وجہ سے میرے کام کرنے کی رفتار کم ہو گئی ہے۔ جب بیٹھتا ہوں تو جتنا میں چاہتا ہوں اتنا نہیں کر پاتا، تھک جاتا ہوں لیکن پھر بھی میں چھ سات گھنٹے بیٹھ ہی جاتا ہوں اور لگاتار کام کرتا ہوں۔ ویسے تو ان کو میں نے بارہ بارہ تیرہ تیرہ گھنٹے بلکہ پندرہ گھنٹے کام کرتے ہوئے دیکھا ہے۔
ایاز صاحب لکھتے ہیں کہ ہم جب ربوہ گئے تو میاں صاحب نے بھی ہماری کچھ کلاسیں لی تھیں اور اس وقت بھی کہتے تھے اور بعد میں بھی جب بھی مَیں ان سے بات کرتا تو کہتے کہ تم لڑکے لٹریچر بھی پڑھا کرو اور ہر قسم کی کتاب پڑھنے کی عادت ڈالو۔ صرف یہ نہیں کہ مذہبی کتابیں ہی پڑھتے رہو۔ فلاسفی بھی پڑھو، لٹریچر بھی پڑھو، ناول بھی پڑھو۔ اس سے زبان بھی وسیع ہوتی ہے اور علم بھی۔ اور مجھے کہتے تھے کہ تمہارے لئے بہت ضروری ہے کیونکہ تم ترجمہ کا کام کرتے ہو۔ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے ایک مشکل لفظ کے انگریزی ترجمہ کے بارے میں پوچھا کہ آپ کے خیال میں لفظ کا ترجمہ کیا ہونا چاہئے؟ میاں صاحب ذرا سوچ میں پڑ گئے۔ پھر دو تین الفاظ بھی بتائے۔ میں نے میاں صاحب کو بتایا کہ حضرت چوہدری ظفراللہ خان صاحب نے ایک جگہ اس لفظ کا انگریزی میں اس طرح ترجمہ کیا ہے۔ اس پر وہ بڑے خوش ہوئے اور کہا کہ یہ بالکل ٹھیک ہے۔ یہی اس کا صحیح ترجمہ ہے اور حضرت چوہدری صاحب کے لئے بڑی عزت اور عقیدت سے کہنے لگے کہ ان کی زبان بڑی اچھی تھی۔ تم یہی الفاظ استعمال کرو۔ پھر یہ ایاز صاحب کہتے ہیں کہ میں نے ہمیشہ دیکھا کہ میاں صاحب اپنی عقل اور سمجھ اور علم کو خلیفہ وقت کے سامنے بالکل نہ ہونے کے برابر جانتے تھے۔ پہلے اگر اپنی کوئی رائے ہوتی بھی تو جب مَیں بتاتا کہ خلیفہ وقت نے (میرا حوالہ دیتے کہ) یوں کہا ہے تو فوراً کہتے کہ ہاں بس ٹھیک ہے۔ میں غلط تھا جو حضور نے کہا ہے وہی ٹھیک ہے اور اس طرح بار بار مجھے سبق دیا کہ خلیفہ وقت کے سامنے باقی سب باتیں فضول ہیں۔ وہی رائے درست ہے جو خلیفہ وقت کہیں اور ہمارے لئے ضروری ہے اس پر عمل کریں۔
شیخ نصیر صاحب یہاں کارکن رشین ڈیسک ہیں۔ کہتے ہیں کہ میاں صاحب کے ساتھ سولہ سال کا عرصہ وکالت اشاعت میں گزارا۔ ان سے بہت کچھ میں نے سیکھا۔ ہمیشہ ایک شفیق دوست کی طرح پایا۔ انہوں نے خاکسار کو کبھی ماتحت ہونے کا احساس نہیں ہونے دیا۔ اگر کبھی مجھے یہ محسوس ہوتا اور محسوس کرتا کہ میرے والدین نہیں ہیں تو انہوں نے ہمیشہ یہ کہا کہ تم مجھے ان کی جگہ سمجھو۔ پھر یہ لکھتے ہیں کہ تمام کارکنان سے ان کا شفقت کا سلوک تھا۔ اگر کبھی میری غلطی کی بنا پر ہلکی سی نامعلوم سی بھی سرزنش کر دیتے تو اسے یاد رکھتے اور اگلے دن کہتے کہ تم نے مجھے معاف کر دیا تھا ناں؟ میں کہتا میاں صاحب مجھے تو محسوس بھی نہیں ہوا کہ آپ نے جھڑکا ہے۔ اگر کبھی غصہ آتا تو بالکل خاموش ہو جاتے اور ہمیں پتہ چل جاتا کہ میاں صاحب ناراض ہیں لیکن تھوڑی دیر بعد کسی اور کام کے لئے فون آ جاتا اور کوئی بات دل میں نہیں رکھتے تھے۔ اور جب بھی خلیفۂ وقت، خلیفۃ المسیح کی طرف سے کسی کام کی کوئی ذمہ داری ڈالی جاتی تو متعلقہ کارکنان کے ساتھ میٹنگ کر کے طریقہ کار طے کر لیتے اور جو سب سے مشکل کام ہوتا اپنے ذمہ لے لیتے اور بیماری کے باوجود گھر میں رہتے ہوئے بھی وہ مکمل کرنے کی کوشش کرتے۔ دفتر آنے میں مشکل محسوس کرتے تو کارکنان کو گھر بلا لیتے اور وہیں دفتر لگا لیتے۔ آرام اور چھٹی کا کوئی تصور نہیں تھا۔ بستر پر لیٹے لیٹے ترجمہ کر رہے ہوتے تھے۔ کئی بار خاکسار کے ساتھ سائیکل پر بیٹھ کر دفتر تشریف لاتے۔
زاہد محمود مجید صاحب کارکن اشاعت کہتے ہیںکہ محترم میاں صاحب کے ساتھ خدمت کا موقع ملا۔ آپ خلافت کے شیدائی تھے۔ جب فیکس لکھنی ہوتی آپ کو (مجھے مخاطب کر رہے ہیں) تو خاص جذباتی کیفیت طاری ہو جاتی اور اگر یہاں سے میری طرف سے کوئی کام ان کو تفویض ہوتا تو اس کے مکمل کرنے کے لئے بے تاب رہتے۔ اگر صحت آڑے آتی تو بہت پریشان ہو جایا کرتے تھے۔ یہی محمود مجید صاحب کہتے ہیں کہ خاکسار کے گردے میں پتھری تھی جس کا آپریشن فضل عمر ہسپتال میں ہوا۔ کہتے ہیں کہ میرے والد صاحب بتاتے ہیں کہ جب تک آپریشن نہیں ہو گیا محترم میاں صاحب آپریشن تھیٹر کے باہر ٹہلتے رہے اور دعا کرتے رہے۔
محمد الدین بھٹی صاحب اشاعت کے کارکن ہیں وہ کہتے ہیں کہ ان کے ساتھ میں نے 1995ء سے وفات تک کام کرنے کی توفیق پائی ہے۔ میاں صاحب مرحوم کارکنان کے ساتھ ہمیشہ مؤدبانہ طریق سے پیش آتے تھے۔ جب بھی اپنے پاس کسی کام سے بلاتے تو کہتے کہ کرسی پر بیٹھ جائیں پھر بات شروع کرتے۔ جب کبھی آپ کی طرف سے کسی کارکن پر ناراضگی کا اظہار ہوتا تو اس کے بعد جلد ہی مشفقانہ انداز اختیار کر لیتے حتیٰ کہ بعض دفعہ معافی مانگنے تک نوبت آ جاتی۔ کہتے ہیں ایک دفعہ میاں صاحب نے کسی کام کا کہا اور خاکسار نے میاں صاحب کو انکار میں جواب دے دیا۔ نفی میں جواب دیا حالانکہ مجھ سے یہ گستاخی ہوئی تھی مگر انہوں نے اسے درگزر کیا اور صرف اتنا کہا کہ آپ کو ایسا جواب نہیں دینا چاہئے تھا۔ کہتے ہیں خاکسار کچھ عرصہ گھٹنوں میں تکلیف کی وجہ سے بروقت دفتر نہیں پہنچ سکتا تھا۔ جب لیٹ ہو جاتا تو اس وجہ سے میری حاضری کے خانے پر لیٹ کراس لگ جاتا تھا اور جب چند کراس اس طرح کی لگ جائیں تو پھر ایک رخصت شمار ہو جاتی ہے۔ تو کہتے ہیں میاں صاحب نے از خود وکیل اعلیٰ صاحب سے سفارش کی کہ اس کی تکلیف ہے اس لئے اس کو کراس نہ لگایا جائے۔ کہتے ہیں کہ میاں صاحب غریب طالب علموں، بے روزگاروں اور بیوگان کا خاص خیال رکھتے تھے۔ طالب علموں کو کتب اور سکول یونیفارم خرید کر دیا کرتے تھے۔ بیروزگاروں کی نوکریوں کے لئے سفارشی خطوط دیا کرتے تھے۔
احسان اللہ صاحب مربی سلسلہ گھانا کہتے ہیں کہ ان کے زیر سایہ نو سال وکالت اشاعت میں کام کیا۔ خلافت کے عشق اور ادب سے معمور وجود تھا۔ بہت لطیف انداز میں اپنے ساتھ کام کرنے والوں کے دلوں میں یہ محبت انجیکٹ کرتے رہتے تھے۔ ایک دفعہ بلا کر خاکسار کو پاس بٹھا لیا اور کہا کہ حضور کو فیکس لکھ رہا ہوں یہ ابھی کرنی ہے۔ پھر فیکس لکھنی شروع کی تو حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ کے الفاظ لکھ کر محویت کے عالم میں ان الفاظ پر چند منٹ نظریں جمائے رہے اور پھر بڑے جذباتی انداز میں خلافت سے متعلق اَور باتوں کا ذکر کرتے رہے۔
یہ کہتے ہیں کہ ماتحتوں پر شفقتوں کا ایک عجیب سلسلہ تھا۔ کسی کو اپنے سامنے کھڑا نہیں رہنے دیتے تھے۔ شدید بیماری اور کمزوری کے عالم میں بھی بشاشت قائم تھی۔ اگر کسی کو ایک دن ڈانٹ دیا تو دو دن اتنی دلجوئی فرماتے رہتے تھے کہ بعض اوقات شرمندگی محسوس ہوتی تھی۔ حالانکہ ڈانٹ کیا ہوتی تھی؟ اونچی آواز ہو جاتی تھی اور بس۔ نہ کوئی سخت لفظ نہ کوئی دل آزاری کا کلمہ۔ اگر کسی کو دفتر میں سختی کرتے دیکھتے تو اس رویے سے بیزاری کا اظہار کرتے۔
محمد طلحہ صاحب جامعہ میں متخصصین کے شعبہ میں حدیث کے استاد ہیں۔ کہتے ہیں دوران تخصص تقریباً ایک سال محترم مرزا انس احمد صاحب سے خاکسار اور مکرم سید فہد صاحب مربی سلسلہ کو حدیث پڑھنے کا موقع ملا۔ دیگر ذمہ داریوں اور ناسازیٔ طبیعت کے باوجود آپ کی ہر ممکن کوشش ہوا کرتی تھی کہ کوئی دن ایسا نہ گزرے جس میں حدیث کی کلاس نہ ہو۔ ایک مرتبہ طبیعت زیادہ خراب ہونے کی وجہ سے دفتر نہیں آ سکے تو ہمیں تدریس کے لئے اپنے گھر بلا لیا۔
آصف اویس مربی سلسلہ وکالت اشاعت لکھتے ہیں کہ خاکسار کی تقرری چند ماہ پہلے وکالت اشاعت میں ہوئی۔ یہ چند ماہ میری زندگی کے یادگار دن تھے۔ ہر موقع پر نہایت شفقت سے میاں صاحب نے خیال رکھا۔ میری اور ان کی عمر کا کم از کم پچپن سال سے زائد کا فرق تھا لیکن ان کے ساتھ ایسے محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ فرق نام کا ہی ہے۔ گفتگو بھی شاندار ہوتی تھی۔ محفل کو خوشگوار رکھنے کے لئے اکثر مذاق بھی کیا کرتے تھے۔ یہ کہتے ہیں کہ ان کی مترجم مسند احمد بن حنبل کا کام میرے سپرد ہے۔ اس عمر اور صحت کی انتہائی خراب حالت میں بھی ان کی کام کو جاری رکھنے کی ہمت بلا کی تھی۔ مایوسی یا کام مکمل نہ ہوسکنے کا خیال بھی پاس سے نہ گزرتا تھا۔
جامعہ احمدیہ ربوہ کے طالب علم محمد کاشف کہتے ہیں کہ خاکسار مقالے کے سلسلہ میں جو کہ خلفائے احمدیت کے پرائیویٹ سیکرٹریان کے حوالے سے تھا گزشتہ چند ماہ سے آپ کی خدمت میں کئی دفعہ حاضر ہوا۔ الحمد للہ انہوں نے خاکسار کو نہایت پیار سے بہت قیمتی وقت دیا۔ بیماری میں بھی تفصیلی انٹرویوز دئے۔ ایک بار بڑی رقت آمیز آواز میں کہنے لگے کہ انسان کی کوشش اور محنت کچھ بھی نہیں ہوتی یہ میری زندگی کا خلاصہ ہے۔ جو کچھ ہے اللہ تعالیٰ کا فضل ہے اور پھر خلافت سے منسوب ہے۔
ربوہ سے آصف احمد ظفر کہتے ہیں کہ وفات سے کچھ عرصہ قبل طاہر ہارٹ میں داخل تھے۔ ان کی عیادت کے لئے میں گیا۔ باوجود شدید تکلیف کے اور اس وقت بھی چہرے پر ماسک لگا ہوا تھا۔ یہ آکسیجن کا ہو گا۔ جب مَیں نے اپنا تعارف کرایا تو خود اپنا ماسک اتارا اور گفتگو شروع کر دی۔ اس پر میں نے صحت کے بارے میں کہا کہ میاں صاحب اللہ تعالیٰ فضل فرمائے گا انشاء اللہ۔ تو وہ کہنے لگے کہ اللہ تعالیٰ کا بلا لینا بھی تو ایک فضل ہے۔ کہتے ہیں ان کے الفاظ سن کر میں حیران رہ گیا کہ اس حالت میں بھی اللہ پہ توکل ہے اور موت کی کوئی فکر نہیں۔
مختلف لوگوں نے خلافت سے تعلق میں جو لکھا ہے اس میں کوئی مبالغہ نہیں ہے بلکہ اس سے بڑھ کر ان کا تعلق تھا اور انہوں نے اپنے ہر عمل سے اور اپنے ہر نمونے سے اس تعلق کا اظہار کیا۔ اور بلکہ جب خلیفۃ المسیح الرابعؒ نے مجھے امیر مقامی اور ناظر اعلیٰ مقرر کیا ہے تو اس وقت بھی خلافت کی اطاعت کی وجہ سے انہوں نے کامل اطاعت امیر کی بھی کی اور بڑا لحاظ رکھا باوجود اس کے کہ میں عمر میںان سے کم از کم تیرہ چودہ سال چھوٹا تھا اور اس وقت بھی کامل اطاعت کی۔ اور ہمیشہ انتہائی وفا کا نمونہ خلافت کے بعد بھی انہوں نے دکھایا۔ کامل اطاعت کا نمونہ دکھایا۔
اللہ تعالیٰ ان سے رحم اور مغفرت کا سلوک فرمائے اور اللہ تعالیٰ کے فضل حاصل کرنے کا جو انہوں نے جس بات کا اظہار کیا ہے اللہ تعالیٰ ان کی خواہش کو بھی پورا فرمائے۔ ان کے پیاروں میں ان کو جگہ دے اور ان کی اولاد کو بھی خلافت سے وفا کا تعلق رکھنے والا بنائے۔
جب مکرم مرزا غلام احمد صاحب کی وفات ہوئی ہے تو انہوں نے خواب دیکھی تھی جس کا مَیں نے اس خطبہ میں بھی ذکر کیا تھا۔ مجھے لکھا کہ پرسوں رات جب میاں صاحب کی وفات ہوئی تو اس وقت کے قریب میں خواب دیکھ رہا تھا کہ بھائی خورشید اور میاں احمد اللہ تعالیٰ کے پاس چلے گئے ہیں اور ان کی ملاقات آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت مسیح موعود علیہ السلام سے ہو رہی ہے۔ اس وقت میرے دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ اللہ تعالیٰ کرے کہ میری ملاقات بھی اسی طرح ہو جائے۔ سو میں نے عرض کیا کہ اے اللہ! مجھے بھی اپنے قرب میں بلا لے تو پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم آگے آجاؤ۔ اس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے قرب میں جگہ دی۔ اللہ تعالیٰ نے تو ان کی مغفرت اور رحم کی خبر ان کو دے دی تھی۔ بہرحال اللہ تعالیٰ ان کے درجات بلند فرماتا رہے اور آگے ان کی اولادیں بھی نیک اور صالح ہوویں۔