خطبہ نکاح فرمودہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز مؤرخہ 03 جنوری2015ء
سیدنا حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نےمؤرخہ 03 جنوری2015ء بروز ہفتہ مسجد فضل لندن میں درج ذیل نکاح کا اعلان فرمایا۔ تشہد و تعوذ اور مسنون آیات قرآنیہ کی تلاوت کے بعدحضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے فرمایا:
اس وقت میں ایک نکاح کا اعلان کروں گا جو عزیزہ امۃالحیٔ صدیقی (فلوریڈا امریکہ) بنت مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب شہید کا ہے جو عزیزم سفیر احمد نجم (واقف نو) ابن مکرم نصیر احمد نجم کے ساتھ پندرہ ہزار یورو حق مہر پر طے پایا ہے۔
جیسا کہ میں نے کہا بچی مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب شہید کی بیٹی ہے۔ مکرم ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی صاحب شہید جو تھے یہ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب کے نواسے تھے۔ ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب وہ تھے جنہوں نے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی کے ساتھ تقریباً ساری زندگی گزاری۔ یورپ کا جو سفر تھا اس میں بھی ساتھ تھے اور بڑی وفا کے ساتھ انہوں نے اپنا خدمت کا حق ادا کیا۔
اسی طرح ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی شہید کے والد ڈاکٹر عبدالرحمٰن صدیقی ایک بڑا لمبا عرصہ ضلع تھرپارکر کے امیر رہے اور بڑی خدمات انجام دیں۔ بڑے صائب الرائے تھے۔ شوریٰ میں میں نے دیکھا ہے بہت ٹھوس اور صائب رائے دیا کرتے تھے۔ اسی طرح ان کی وفات کے بعد ڈاکٹر عبدالمنان صدیقی کو میر پور خاص یا تھرپارکر کی جماعتوں نے امیر کے طور پر منتخب کیا اور انہوں نے بھی اپنی امارت کا حق ادا کیا۔ باوجود اس کے کہ ڈاکٹر تھے۔ مصروف الاوقات تھے۔ ان کا میر پور خاص میں بڑا اچھا ہسپتال تھا لیکن جماعتی خدمت کیلئے ہر وقت تیار ہوتے۔ اور تھرپار کر کی دیہاتی جماعتیں ہیں، ہر جماعت تک پہنچتے تھے۔ خاص طور پر ان حالات میں جو 1984ء کے بعد ہوئے ہیں۔ بڑی گہرائی میں جاکر ہر فرد جماعت سے انہوں نے رابطہ رکھا۔ ان کی تکالیف کو جانا اور ان کا مداوا کیا۔ پھر ڈاکٹر ہونے کی حیثیت سے مریضوں کی بھی بے انتہا خدمت کی۔ اور ایک خوبی ان کی یہ تھی کہ جتنے چاہے مرضی تھکے ہوں ہمیشہ مریض سے بڑی خوش اخلاقی سے پیش آتے تھے۔ بعض غریب مریضوں کا نہ صرف مفت علاج کرتے تھے بلکہ اپنے پاس سے ان کو خرچ بھی دیتے تھے اوریہی چیز دشمنان احمدیت کو تکلیف دیتی تھی۔ غیر از جماعت بھی ان کے بڑے گرویدہ تھے، بہت پسند کرتے تھے۔ اور ان کا ہسپتال وہاں بہت مشہور تھا ۔ دوسرے غیر از جماعت مختلف سپیشلسٹ ڈاکٹر بھی ان کے ہسپتال میں آیا کرتے تھے۔ اور ہر ایک نے ان کی تعریف کی کہ ان کے ہسپتال میں کام کرنے کا، ان کے ساتھ رہنے کا ایک اپنا مزہ ہے۔
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا:۔ پس یہ بچی اس خاندان کی ہے جو ننہیا ل اور ددھیال دونوں طرف سے جماعت کی خدمت کرنے والا خاندان ہے اور شہید کی بیٹی ہے۔ اللہ تعالیٰ کرے کہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے اس بچی کی یہ نئی زندگی جو وہ شروع کرنے جا رہی ہے اس کو برکتوں سے بھر دے اور ان کے آباؤاجداد کی، باپ کی، ماں کی دعائیں ہمیشہ ان کے ساتھ رہیں۔
لڑکا بھی وقف نو ہے اور ڈاکٹر بن رہا ہے۔ اور وقف نو کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ صرف واقف نو ہونا، نام لگانا ہی کافی نہیں ہے۔ بلکہ تعلیم مکمل کرنے کے بعد جماعت اگر کہے کہ کسی چیز میں سپیشلائز کرنا ہے تو وہ کرنے کے بعد پھر اپنے آپ کو دین کی خدمت کیلئے پیش کرے اور بےنفس ہو کر خدمت دین کرے۔ اس کے بغیر صرف کہہ دینا کہ میں واقف زندگی ہوں کوئی فائدہ نہیں۔ اب یہ ڈاکٹر منان صدیقی کی مثال میں نے دی۔ ان کے والد کی مثال دی۔ یہ لوگ وقف نہیں تھے لیکن انہوں نے وقف سے بھی بڑھ کر جماعت کی بھی خدمت کی اور انسانیت کی بھی خدمت کی۔ اسی طرح ڈاکٹر حشمت اللہ خان صاحب وہ تو ایک لحاظ سےوقف زندگی تھے۔ بلکہ ایک لحاظ سے کیا، میرا خیال ہے وقف زندگی ہی تھے۔ کیونکہ ساری زندگی انہوں نے جماعت کی خدمت میں ہی گزاری ہے۔ اوریہ لوگ بڑے بے نفس ہو کر خدمت کرنے والے تھے۔ پس اس لحاظ سے اس عزیز بچہ کو بھی یاد رکھنا چاہئے کہ ڈاکٹر بننے کے بعد جماعت کیلئے اور انسانیت کیلئے اپنی زندگی کو مکمل طور پر وقف کرے۔
اور اسی طرح دونوں لڑکا اور لڑکی اور ان کے خاندان یہ بھی یاد رکھیں کہ ہمیشہ رشتے بابرکت اس وقت ہوتے ہیں جب ایک دوسرے کے حقوق ادا کئے جائیں۔ ان کی طرف توجہ دی جائے۔ جس طرح لڑکی کے حقوق ہیں اسی طرح لڑکے کے بھی حقوق ہیں۔ جس طرح لڑکی کی ذمہ داریاں ہیں اسی طرح لڑکے کی بھی ذمہ داریاں اور فرائض ہیں۔
حضور انور نے فرمایا:۔ پس دونوں کو اس بات کا خیال رکھنا چاہئے کہ گو بے شک پہلے ان خاندانوں میں دوستانہ تعلقات تھےلیکن اب رشتہ قائم ہونے کے بعد اس تعلق میں ایک ایسی تبدیلی آنی چاہئے جو ہر لحاظ سے ایک دوسرے کا اعتماد حاصل کرنے والی ہو۔ آپس میں ایک دوسرے کا بھی اور خاندانوں کا بھی لحاظ رکھنے والی ہو۔ اور اسی بات کی اللہ نے ہمیں نکاح کے خطبہ میں بار بار تلقین فرمائی ہے کہ تقویٰ قائم کرو گے تو تم لوگ ایک دوسرے کے رحمی رشتوں کا بھی خیال رکھو گے۔ تم لوگ ایک دوسرے کے اعتماد کو بھی قائم رکھو گے۔ تم لوگ ایک دوسرے کی ذمہ داریاں بھی ادا کرنے والے ہو گے۔ اور پھر اسی وجہ سے اللہ تعالیٰ ایسے انعام سے نوازے گا کہ تم کل پر نظر رکھتے ہوئے نہ صرف اپنی کل سنوارو گے، اپنے اعمال کو درست کرو گے بلکہ اپنی نسلوں کی بھی اس نہج پر تربیت کرو گے جو آئندہ دین کی خدمت کرنے والی ہوں اور اللہ تعالیٰ کی رضا کے مطابق چلنے والی ہوں۔ اللہ کرے کہ آج قائم ہونے والا یہ رشتہ ہر لحاظ سے بابرکت ہو۔اب ان چند الفاظ کے بعد میں نکاح کا اعلان کرتا ہوں۔ دلہن کے وکیل مکرم منعم احمد نعیم صاحب ہیں۔
نکاح کے اعلان کے بعد حضور انور نے دعا کروائی اور فریقین کو شرف مصافحہ بخشا۔
(مرتبہ :۔ظہیر احمد خان ۔ انچارج شعبہ ریکارڈ دفتر پی ایس لندن)