عہد وفا
یہ جو بس گیا ہے خیال میں کہاں ایسا کوئی جمال ہو
کہ جو دلبری میں ہو بے مثل تو شگفتگی میں مثال ہو!
کوئی جاں فزا سی طمانیت میری روح تک میں اتر گئی
کہ نہ دل میں کوئی طلب رہے نہ ہی تشنگی کا سوال ہو
وہ محبتیں سی محبتیں وہ عنایتیں سی عنایتیں
تیرے بن سکون ملے کہیں کہاں دل کی ایسی مجال ہو
یہ جو عطربیز فضائیں ہیں یہ مہک اٹھے ہیں جو بام و در
وہ گلاب چہرہ ہے رو برو کہ جو دلکشی میں کمال ہو!
اے مسیحِ پاک کے جانشیں وہی عہد ہے تیرے ساتھ بھی
وہ اطاعتوں کا جو عقد تھا نہ جہاں میں جس کی مثال ہو
کہ یہ جان و مال یہ آبرو نہ کبھی ہوں تجھ سے عزیز تر
نہ متاعِ جاں سے دریغ ہو نہ کسی زیاں کا ملال ہو
وہ جو خادمانہ نیاز تھا وہی حِرزِ جان ہے آج بھی
کہ عقیدتوں میں یہ رنگ ہو نہ اخوتوں میں مثال ہو
یہ اسی مسیح کا دور ہے کہ جو عافیت کا حِصار ہے
وہ جو دشمنوں سے بچا سکے کہاں ایسی کوئی بھی ڈھال ہو
ہمیں اپنے رب کا ہے آسرا کہ ہیں ہم اسی کی امان میں
مگر اے معاندِ زشت خو تیرا شر تجھی پہ وبال ہو
جو نصیب ہو تجھے دیکھنا تو اٹھا کے دیکھ حدیث کو
کہ پناہ تجھ سے طلب کریں یہاں بھیڑیوں کا یہ حال ہو
جسے راہِ حق کی تلاش ہو تو وہ آئے بغض کو چھوڑ کر
نہ ہی دِل کے شیشے پہ گرد ہو نہ ہی سوءِ ظن کا وبال ہو
ہیں محبتوں کے سفیر ہم یہاں نفرتوں کا گزر کہاں
نہ جبیں پہ اپنے کوئی شکن نہ ہی دل میں کوئی ملال ہو
یہ سعید روحوں کے قافلے یوں کشاں کشاں ہیں رواں دواں
یہ کریں گے سر نئی رفعتیں کوئی ماہ ہو کوئی سال ہو!
یہ بڑھیں گے شرق سے غرب تک رہیں مشکلات میں خندہ زَن
کبھی ڈگمگائیں نہ راہ میں نہ کسی تھکن کا سوال ہو
یہی جان باز ہیں دین کے یہی ہر محاذ پہ سرخ رو
اسی دین پر ہے نثار سب کہ وہ جاں ہو وقت ہو مال ہو!
یہ خدا کے ہاتھ کا پودا ہے اسے پھیلنا ہے چہار سو
کوئی روک پائے تو روک لے یہ اگر کسی کی مجال ہو!