خلاصہ خطبہ جمعہ

خلاصہ خطبہ جمعہ فرمودہ 08؍ فروری 2019ء

خلاصہ خطبہ جمعہ سیدنا امیر المومنین حضرت مرزا مسرور احمدخلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز فرمودہ مورخہ8؍فروری 2019ءبمقام مسجدبیت الفتوح،مورڈن،لندن، یوکے

اطاعت اور اخلاص و وفا کے پیکر بعض بدری اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی سیرتِ مبارکہ کا دلنشین تذکرہ

تشہد،تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز نے سب سے پہلے حضرت اَبُو مُلَیْل بِن اَلْاَزْعَرکی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ اس کے بعد حضرت انس بن معاذ انصاریؓکے بارہ میں فرمایا کہ یہ تمام غزوات میں نبی اکرم ﷺ کے ساتھ شامل رہے۔ بعد ازاں حضورِ انور نے حضرت اُبَیْ بن ثابتؓ کا تذکرہ کرتے ہوئے فرمایا کہ مؤرخین میں ان کے غزوۂ بدر میں شامل ہونے پر کچھ اختلافِ رائے پایا جاتا ہے لیکن علامہ ابن ہشام نے انہیں جنگِ بدر کے شاملین میں شمار کیا ہے۔اس کے بعدحضورِ انور نے حضرت اَبُو بُرْدَہ بِن نِیَارؓکی سیرت سے بعض پہلو بیان فرمائے۔ آپؓبیعت عقبہ ثانیہ میں شامل ہوئےاور تمام غزوات میں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شامل ہوئے۔ فتح مکہ کے دن بنو حارثہ کا جھنڈا حضرت اَبُو بُرْدَہؓکے پاس تھا۔غزوۂ احد کے دن مسلمانوں کے پاس دو گھوڑے تھے جن میں سے ایک رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جبکہ دوسرا حضرت ابو بردہؓ کے پاس تھا۔آپؓحضرت علیؓکے ساتھ تمام جنگوں میں شامل رہے۔ پانچویں صحابی جن کا تذکرہ حضورِ انور نے فرمایا وہ حضرت اَسْعَد بن یزیدؓ تھے۔ آپؓغزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل تھے۔

حضورِ انور نے فرمایا کہ پھر ایک بدری صحابی حضرت تَمیم بن یَعَارانصاریؓتھے ۔ان کے بعد حضورِ انور نے حضرت اوس بن ثابت بن منذرؓکا تذکرہ فرمایا۔ آپؓمشہور صحابی حضرت شدَّاد بن اَوْسؓکے والد تھے۔ آپؓنے بیعت عقبہ ثانیہ میں اسلام قبول کیا۔ آپؓغزوۂ بدر اور غزوۂ احد میں شامل ہوئے۔ پھر حضورِ انور نے حضرت ثابت بن خنساء رضی اللہ عنہ اور ان کے بعد حضرت اَوْس بن اَلصَّامِت رضی اللہ عنہ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ حضرت اَوْس غزوۂ بدر اور احد اور دوسرے تمام غزوات میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ شریک ہوئے۔ روایات میں آتا ہے کہ حضرت اَوْسؓنے اپنی اہلیہ خویلہ بنت مالک سے ظِھَار کیا تھا۔حضورِ انور نے سورۃ المجادلہ آیات 3تا 5کی روشنی میں قدرے تفصیل سے اس واقعہ کو بیان فرمایا اور اس ضمن میں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اور حضرت مصلح موعودؓ کے فیصلوں کا بھی تذکرہ فرمایا۔ حضرت ابن عباسؓکا بیان ہے کہ اسلام میں سب سے پہلا ظِہَاریہی تھا۔ آپؓکی وفات سرزمین فلسطین کے مقام رملّہ میں ہوئی۔ اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت ارقم بن ارقم رضی اللہ عنہ کی سیرت بیان فرمائی۔ آپؓ کا ایک گھر مکہ سے باہر کوہِ صفا کے پاس تھا جو تاریخ میں دارِ ارقم کے نام سے مشہور ہے۔ یہ گھر مسلمانوں کا پہلا تبلیغی مرکز بنا۔ اس گھر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور اسلام قبول کرنے والے افراد عبادت کیا کرتے تھے۔ یہیں پر حضرت عمرؓنے اسلام قبول کیا تھا۔ آپؓغزوۂ بدراور احد سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ تاریخ میں یہ بھی ہے کہ حضرت ارقمؓ معاہدہ حلف الفضول میں شامل ہوئے تھے۔ ایک دفعہ حضرت ارقمؓنے بیت المقدس جانے کے لئے رخت سفر باندھااور رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کی اجازت چاہی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت فرمایا کہ کیا تم کسی ضرورت کے لئے یا تجارت کی غرض سے جا رہے ہو؟ حضرت ارقمؓ نے جواب دیا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم! میرے ماں باپ آپؐ پر فدا ہوں۔ کوئی کام نہیں ہے اور نہ تجارت کی غرض سے جانا ہے بلکہ بیت المقدس میں نماز پڑھنا چاہتا ہوں۔ تو اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میری اس مسجد میں ایک نماز اَور مسجدوں کی ہزاروں نمازوں سے بہتر ہے یعنی یہاں مدینے میں سوائے کعبہ کے۔ اس پر حضرت ارقم نے اپنا ارادہ بدل لیا۔

اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت بَسْبَسْ بن عَمروؓکی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ آپؓ نے غزوۂ بدر میں شرکت کی تھی۔ آپؓکو رسولِ کریم ﷺ نے مدینہ سے جنگِ بدر سے پہلے دشمن کے قافلہ کے بارہ میں معلومات لینے کے لئے بھیجا تھا اور آپ اپنے مشن میں کامیاب و کامران لوٹے تھے۔ آپؓ نے غزوۂ بدر کے علاوہ غزوۂ احد میں بھی شرکت کی تھی۔حضورِ انور نے آپؓکے تذکرہ میں ابو سفیان کا ایک واقعہ بھی بیان فرمایا کہ کس طرح اُس نے پتہ چلا لیا کہ مسلمانوں کے خبر رساں بندے کفارِ مکہ کے قافلہ کی آمد کا پتہ لگا گئے ہیں۔جب آنحضرتﷺبدر کی جنگ کے لئے نکلے تو آپؐ نے ایک پارٹی کو دشمن کی خبر لینے کے لئے آگے روانہ فرمایا۔ بعض روایات کے مطابق ان میں حضرت بسبسؓ بھی شامل تھے۔ یہ پارٹی ایک حبشی غلام کو پکڑ لائی جس سے مسلمانوں کو دشمن کے لشکر کے احوال کا علم ہوا۔

اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت ثَعْلَبَہ بن عمرو انصاریؓ کی سیرت کا تذکرہ فرمایا۔ آپؓ مشہور شاعر حضرت حسان بن ثابتؓ کے بھانجے تھے۔ آپؓ غزوۂ بدر سمیت تمام غزوات میں شریک ہوئے۔ آپؓکی وفات حضرت عمرؓکے دورِ خلافت میں جنگ جِسر یعنی پُل والی جنگ میں ہوئی تھی اور بعض کے نزدیک ان کی وفات حضرت عثمانؓ کے دور خلافت میں مدینہ میں ہوئی تھی۔

اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت ثَعْلَبَہ بن غَنَمَہؓ کا ذکر فرمایا۔ آپؓ نے بیعت عقبہ ثانیہ میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر بیعت کی تھی۔ آپؓ غزوۂ بدر، احد اور خندق میں شریک ہوئے اور غزوہ خندق میں ھُبَیْرَہ بِن اَبِی وَھَب نے حضرت ثعلبہ کو شہید کیا۔

اس کے بعد حضورِ انور نے حضرت جابر بن خالدؓ اور پھر حضرت حارث بن نعمان بن امیہؓ کا ذکر فرمایا۔ مؤخر الذکر صحابیؓ غزوۂ بدر کے علاوہ غزوۂ احد میں بھی شامل ہوئے۔ پھر حضورِ انور نے حضرت حارث بن انس انصاریؓکی سیرت کا تذکرہ فرمایا۔آپؓکو غزوۂ احد میں شہادت نصیب ہوئی۔ حضرت حارث ان چند اصحاب میں سے تھے جو غزوۂ احد میں حضرت عبداللہ بن جُبَیْرؓ کے ساتھ درّے پر ڈٹے رہے اور جامِ شہادت نوش کیا۔

پھر حضرت حُرَیْث بن زید انصاریؓ کا ذکر ہوا۔ اِن کے بھائی کو بھی اذان کے الفاظ کے بارے میں بتایا گیا تھا۔پھر حضورِ انور نے حضرت حارث بن اصِمّہؓ کی سیرتِ مبارکہ کا تذکرہ فرمایا۔ حضرت حارث بن اصِمّہؓ غزوۂ بدر کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ جب الرَّوْحَاءکے مقام پر پہنچے تو آپؓ میں مزید سفر کی طاقت نہ رہی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓکو مدینہ واپس بھیج دیا لیکن اموال غنیمت میں آپؓکا حصہ بدر میں شامل ہونے والوں کی طرح مقرر فرمایا۔ یعنی آپ عملاً جنگ میں شامل نہیں ہوئے تھے لیکن آپؓکی نیت اور جذبے کو دیکھ کے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے آپؓکو بدر میں شامل ہونے والے صحابہؓ میں شمار فرمایا۔ آپؓغزوۂ احد میں بھی شریک تھےجس میں ایک نہایت خطرناک دشمن عثمان بن عبداللہ بن مغیرہ مخزومی کو قتل کیا۔ حضرت حارثؓواقعہ بئرِ معونہ میں شہید ہوئے۔

اللہ تعالیٰ ان تمام بدری صحابہ کے درجات بلند سے بلند فرماتا چلا جائے۔ آمین

٭…٭…٭

متعلقہ مضمون

رائے کا اظہار فرمائیں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے

Back to top button