جلسہ سالانہ بیلجیئم 2018ء کے موقع پر امیرالمومنین حضرت خلیفۃالمسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کا اختتامی خطاب
فرمودہ16؍ستمبر 2018ء بروز اتواربمقام Dilbeek، برسلز
(اس خطاب کا متن ادارہ الفضل اپنی ذمہ داری پر شائع کر رہا ہے)
أَشْھَدُ أَنْ لَّا إِلٰہَ اِلَّا اللہُ وَحْدَہٗ لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَأَشْھَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُہٗ وَ رَسُوْلُہٗ۔
أَمَّا بَعْدُ فَأَعُوْذُ بِاللہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ- بِسْمِ اللہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔
اَلْحَمْدُ لِلہِ رَبِّ الْعَالَمِیْنَ۔ اَلرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔مٰلِکِ یَوْمِ الدِّیْنِ ۔ اِیَّا کَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاکَ نَسْتَعِیْنُ۔
اِھْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِیْمَ۔صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْھِمْ غَیْرِالْمَغْضُوْبِ عَلَیْھِمْ وَلَاالضَّآلِّیْنَ۔
اللہ تعالیٰ کا بڑا احسان ہے ہم پر کہ اس نے ہمیں حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کو ماننے کی توفیق عطا فرمائی۔ اس زمانے میں جبکہ دنیا میں ہر طرف افراتفری کا عالم ہے کسی کو سمجھ میں نہیں آ رہا کہ کس طرف جائیں، کس کو اپنا رہنما بنائیں، کیا کریں جن سے مشکلات دُور ہوں۔ ایسے میں اللہ تعالیٰ نے ہمیں توفیق دی کہ اللہ تعالیٰ نے اس زمانے میں ہماری رہنمائی کے لئے ،پوشیدہ راستہ دکھانے کے لئے، خدا تعالیٰ سے ملانے کے لئے، مخلوق کے حق ادا کرنے کے لئے اپنے جس فرستادے کو بھیجا اسے قبول کریں۔ پس اس قبولیت کا حق تبھی ادا ہو گا جب ہم اس رہنما سے رہنمائی حاصل کریں اور پھر اس کے مطابق اپنی زندگیاں گزاریں ورنہ اس قبولیت کا کوئی فائدہ نہیں۔
آجکل ہم دیکھتے ہیں کہ انسان کی اپنی خودغرضیوں کی وجہ سے جو خود اس نے اپنے لئے مشکلات اور مصائب سہیڑے ہوئے ہیں ان کے علاوہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے بھی آفات کا سلسلہ بڑھتا چلا جا رہا ہے۔ کہیں طوفانوں نے انسانوں کی بربادی کے سامان کئے ہوئے ہیں تو کہیں قحط سالی نے انسانوں کو مصائب اور مشکلات میں گرفتار کیا ہو اہے۔ جن سامانوں پر انسان کو بھروسہ تھا وہ تباہ ہو رہے ہیں۔ پس ایسے میں ایک مؤمن کو پہلے سے بڑھ کر اللہ تعالیٰ کی طرف لوٹنے کی ضرورت ہے۔ اور جیسا کہ میں نے کہا کہ اللہ تعالیٰ کا راستہ دکھانے کے لئے اللہ تعالیٰ نے اپنے فرستادے کو بھیجا ہے جنہوں نے مختلف طریقوں سے، مختلف ذریعوں سے، مختلف الفاظ میں مختلف باتوں کی طرف توجہ دلاتے ہوئے ہماری رہنمائی فرمائی ہے۔ یہ رہنمائی جو اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم کی تعلیمات پر مشتمل ہے ہمیں ہر قسم کی آفات سے بچانے اور ہماری زندگی کے سامان کرنے کے لئے ایک ایسا ذریعہ ہے جو ہمیشہ کے لئے جاری رہنے والا ہے اور اگر ہم اس پر عمل کرنے والے ہوں تو بہترین نتائج پیدا کرنے والا ہے۔
اس وقت میں حضرت اقدس مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کے بعض ارشادات پیش کروں گا جو آپ نے مختلف مواقع پر اپنی جماعت کو نصائح کرتے ہوئے فرمائے اور جماعت سے یہ توقع رکھی کہ وہ ان ارشادات کے مطابق اپنی زندگیوں کو ڈھالنے والی ہو۔ اور ان میں بڑے درد سے جماعت کو عمل کرنے کی نصیحت فرمائی ہے تا وہ ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے فضلوںکو حاصل کرنے والے بنے رہیں اور مصائب اور ابتلاؤں سے بچیں۔ اُن مشکلات اور مصائب سے بچیں جو اللہ تعالیٰ کی ناراضگی کی وجہ سے آتی ہیں۔ حقیقی احمدی ہوں اور بیعت کا حق ادا کرنے والے ہوں۔ تقویٰ پر چلنے والے ہوں اور اللہ تعالیٰ کے اور اس کے بندوں کے حقوق ادا کرنے والے ہوں۔
حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام اپنے متبعین میں تقویٰ پیدا کرنے کے لئے کتنا درد رکھتے تھے تا کہ انہیں اللہ تعالیٰ کی ناراضگی سے بچائیں اور سچا مؤمن بنائیں اس بات کا اندازہ آپ کے اس ارشاد سے ہوتا ہے۔ اپنی ایک مجلس میں بیٹھے ہوئے بیان کرتے ہوئے آپ فرماتے ہیں:
’’کل (یعنی 22؍جون 1899ء) بہت دفعہ خدا کی طرف سے الہام ہوا کہ ’’تم لوگ متقی بن جاؤ اور تقویٰ کی باریک راہوں پر چلو تو خدا تمہارے ساتھ ہو گا‘‘۔ فرمایا ’’اس سے میرے دل میں بڑا دَرد پیدا ہوتا ہے کہ میں کیا کروں کہ ہماری جماعت سچا تقویٰ و طہارت اختیار کر لے‘‘۔ پھر فرمایا کہ ’’مَیں اتنی دعا کرتا ہوں کہ دعا کرتے کرتے ضعف کا غلبہ ہو جاتا ہے اور بعض اوقات غشی اور ہلاکت تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔‘‘ فرمایا ’’جب تک کوئی جماعت خدا تعالیٰ کی نگاہ میں متقی نہ بن جائے۔ خدا تعالیٰ کی نصرت اس کے شامل حال نہیں ہو سکتی‘‘۔ فرمایا ’’تقویٰ خلاصہ ہے تمام صُحُفِ مقدّسہ اور توریت و انجیل کی تعلیمات کا۔ قرآن کریم نے ایک ہی لفظ میں خدا تعالیٰ کی عظیم الشان مرضی اور پوری رضا کا اظہار کردیا ہے‘‘۔ فرمایا ’’مَیں اس فکر میں بھی ہوں کہ اپنی جماعت میں سے سچے متّقیوں، دین کو دنیا پر مقدم کرنے والوں اور منقطعین الی اللہ کو الگ کروں اور بعض دینی کام اُنہیں سپرد کروں۔ اور پھر مَیں دنیا کے ہم و غم میں مبتلا رہنے والوں اور رات دن مردار دنیا ہی کی طلب میں جان کھپانے والوں کی کچھ بھی پرواہ نہ کروں گا۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 303)
پس اس درد کو ہمیں سمجھنا چاہئے۔ آپ کی دعاؤں کا وارث بننا ہے تو اس کو سمجھے بغیر اور آپ کی خواہش کے مطابق زندگی گزارے بغیر نہیں بنا جا سکتا۔ پس ہر احمدی کو اس درد کو ہمیشہ اپنے سامنے رکھنا چاہئے۔
پھر متقی کی علامات کے بارے میں بیان فرماتے ہوئے کہ ایک متقی کی کیا علامات ہونی چاہئیں۔ آپ فرماتے ہیں :
’’ہمیشہ دیکھنا چاہئے کہ ہم نے تقویٰ و طہارت میں کہاں تک ترقی کی ہے۔ اس کا معیار قرآن ہے…‘‘۔ (تقویٰ و طہارت کا معیار قرآن ہے۔) ’’…اللہ تعالیٰ نے متقی کے نشانوں میں ایک یہ بھی نشان رکھا ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو مکروہاتِ دنیا سے آزاد کر کے اس کے کاموں کا خود متکفّل ہو جاتا ہے۔ جیسا کہ فرمایا وَمَنْ یَّتَّقِ اللہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا۔ وَّ یَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُ۔(الطلاق3:-4)جو شخص خدا تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے راستہ مَخلصی کا نکال دیتا ہے۔…‘‘ اس کی تشریح ترجمہ فرما رہے ہیں کہ جو شخص اللہ تعالیٰ سے ڈرتا ہے اللہ تعالیٰ ہر ایک مصیبت میں اس کے لئے مخلصی کا راستہ نکال دیتا ہے ’’…اور اس کے لئے ایسے روزی کے سامان پیدا کر دیتا ہے کہ اس کے علم و گمان میں نہ ہوں۔ یعنی یہ بھی ایک علامت متقی کی ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو نابکار ضرورتوں کا محتاج نہیں کرتا…‘‘۔ (بلاوجہ کی دنیاوی خواہشات اس کے دل میں پیدا نہیں ہوتیں۔) فرمایا ’’…مثلاً ایک دوکاندار یہ خیال کرتا ہے کہ دروغگوئی کے سوا اس کا کام ہی نہیں چل سکتا۔ اس لئے وہ دروغ گوئی سے باز نہیں آتا اور جھوٹ بولنے کے لئے وہ مجبوری ظاہر کرتا ہے لیکن یہ امر ہرگز سچ نہیں۔ خدا تعالیٰ متقی کا خود محافظ ہو جاتا اور اسے ایسے موقع سے بچالیتا ہے جو خلاف حق پر مجبور کرنے والے ہوں…‘‘ (جو سچ بولنے سے روکنے والے ہوں ان سے اللہ تعالیٰ متقی کو محفوظ رکھتا ہے۔) فرمایا کہ ’’…یاد رکھو جب اللہ تعالیٰ کو کسی نے چھوڑا، تو خدا نے اسے چھوڑ دیا۔ جب رحمٰن (خدا) نے چھوڑ دیا تو ضرور شیطان اپنا رشتہ جوڑے گا۔ …‘‘
فرماتے ہیں ’’…یہ نہ سمجھو کہ اللہ تعالیٰ کمزور ہے۔ وہ بڑی طاقت والا ہے۔ جب اس پر کسی امر میں بھروسہ کرو گے تو وہ ضرور تمہاری مدد کرے گا۔ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ (الطلاق4:)۔ لیکن جو لوگ ان آیات کے پہلے مخاطب تھے…‘‘ (اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ جو اللہ پر توکل کرتے ہیں وہ ان کے لئے کافی ہو جاتا ہے۔ فرمایا جو اس کے پہلے مخاطب تھے) ’’…وہ اہل دین تھے۔ ان کی ساری فکریں محض دینی امور کے لئے تھیں اور دنیوی امور حوالہ بخدا تھے۔ اس لئے اللہ تعالیٰ نے ان کو تسلی دی کہ مَیں تمہارے ساتھ ہوں۔ غرض برکاتِ تقویٰ میں سے ایک یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ متقی کو اِن مصائب سے مخلصی بخشتا ہے جو دینی امور کے حارج ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 12)
پس ایک متقی اللہ تعالیٰ پر توکل کرنے والا ہوتا ہے اور اگر اپنے کاموں کے لئے اپنی چالاکیوں اور ہوشیاریوں پر زیادہ بھروسہ ہو تو پھر اس میں تقویٰ نہیں کہلایا جا سکتا۔ پھر اس بات کی وضاحت کرتے ہوئے آپ مزید فرماتے ہیں کہ
’’اللہ تعالیٰ متقی کو پیار کرتا ہے۔… خدا تعالیٰ کی عظمت کو یاد کر کے سب ترساں رہو۔…‘‘ (اللہ تعالیٰ کی ہستی بڑی عظیم ہے۔ اس کو ہمیشہ یاد رکھو اور خوف کھاتے رہو۔ تمہارے دل میں خوف ہونا چاہئے۔ خوف اس لئے کہ پہلے بتا دیا کہ اللہ تعالیٰ پیار کرنے والا ہے۔ پس متقی جو ہے وہ سب سے زیادہ اللہ تعالیٰ کی عظمت کو یاد کرتا ہے اور اُسے یہ خوف رہتا ہے کہ اللہ تعالیٰ مجھ سے ناراض نہ ہو جائے۔ فرمایا ’’…اور یاد رکھو کہ سب اللہ کے بندے ہیں۔ کسی پر ظلم نہ کرو۔ نہ تیزی کرو۔ نہ کسی کو حقارت سے دیکھو۔ جماعت میں اگر ایک آدمی گندہ ہوتا ہے تو وہ سب کو گندہ کر دیتا ہے۔ اگر حرارت کی طرف تمہاری طبیعت کا میلان ہو تو پھر اپنے دل کو ٹٹولو کہ یہ حرارت کس چشمہ سے نکلی ہے۔ یہ مقام بہت نازک ہے۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 9)
پھر آپؑ اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ انسان کا ہر فعل خدا تعالیٰ کی منشاء کے مطابق ہونا چاہئے کیونکہ یہی حقیقی نیکی اور تقویٰ ہے۔ لیکن کب انسان کا ہر فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے آپؑ یہ فرماتے ہیں کہ:
’’بات یہ ہے کہ جب انسان جذبات نفس سے پاک ہوتا اور نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلتا ہے۔ اس کا کوئی فعل ناجائز نہیں ہوتا بلکہ ہر ایک فعل خدا کی منشاء کے مطابق ہوتا ہے۔…‘‘ (جذبات نفس سے پاک ہونا، نفسانیت چھوڑ کر خدا کے ارادوں کے اندر چلنا۔ اور خدا کے ارادے کیا ہیں؟ وہی جس کا پہلے ذکر ہوگیا کہ قرآن کو دیکھو۔ قرآن کے مطابق چلو۔ قرآن میں اللہ تعالیٰ نے جو احکامات دئیے ہوئے ہیں، اوامر اور نواہی ہیں، کرنے اور نہ کرنے کے حکم ہیں ان کو دیکھو اور ان پر عمل کرو۔) فرمایا ’’…جہاں لوگ ابتلاء میں پڑتے ہیں وہاں یہ امر ہمیشہ ہوتا ہے کہ وہ فعل خدا کے ارادے سے مطابق نہیں ہوتا۔ خدا کی رضا اس کے برخلاف ہوتی ہے۔ ایسا شخص اپنے جذبات کے نیچے چلتا ہے۔ مثلاً غصّہ میں آکر کوئی ایسا فعل اس سے سرزد ہو جاتا ہے جس سے مقدّمات بن جایا کرتے ہیں۔ فوجداریاں ہو جاتی ہیں مگر اگر کسی کا یہ ارادہ ہو کہ بلا استصواب کتابُ اللہ اس کا حرکت و سکون نہ ہو گا…‘‘ (یعنی اللہ تعالیٰ کی کتاب اور اللہ تعالیٰ کے حکموں کو دیکھے بغیر وہ کوئی کام نہیں کرے گا) ’’…اور اپنی ہرایک بات پر کتاب اللہ کی طرف رجوع کرے گا تو یقینی امر ہے کہ کتاب اللہ مشورہ دے گی جیسے فرمایا وَلَا رَطْبٍ وَّلَایَابِسٍ اِلَّا فِیْ کِتَابٍ مُّبِیْنٍ۔ (الانعام60:)…‘‘ کہ کوئی تر یا خشک چیز نہیں مگر اس کا ذکر روشن کتاب میں ہے۔ یعنی کوئی ایسی بات ہے ہی نہیں جس کا ذکر قرآن کریم میں نہ ہو۔ کوئی انسانی زندگی میں ایسا موقع آتا ہی نہیں یا آئے گا ہی نہیں یا اس کا امکان ہے ہی نہیں کہ وہ ایسا موقع آئے یا ایسی بات ہو جس کے بارے میں کرنے یا نہ کرنے کا حکم اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی نہ دے دیا ہو۔
پس قرآن کریم میں ہر ایک مومن کی رہنمائی ہے۔ فرمایا ’’…سو اگر ہم یہ ارادہ کریں کہ ہم مشورہ کتاب اللہ سے لیں گے تو ہم کو ضرور مشورہ ملے گا۔ لیکن جو اپنے جذبات کا تابع ہے وہ ضرور نقصان ہی میں پڑے گا۔ بسااوقات وہ اس جگہ مؤاخذہ میں پڑے گا۔ سوا س کے مقابل اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ ولی جو میرے ساتھ بولتے چلتے کام کرتے ہیں وہ گویا اس میں محو ہیں۔ سو جس قدر کوئی محویّت میں کم ہے وہ اتنا ہی خدا سے دور ہے۔ لیکن اگر اس کی محویت ویسی ہی ہے جیسے خدا نے فرمایا تو اس کے ایمان کا اندازہ نہیں۔ ان کی حمایت میں اللہ تعالیٰ فرماتا ہے مَنْ عَادَ لِیْ وَلِیًا فَقَدْ اٰذَنْتُہُ بِالْحَرَبِ (الحدیث)۔ جو شخص میرے ولی کا مقابلہ کرتا ہے وہ میرے ساتھ مقابلہ کرتا ہے…‘‘ (یہ حدیث ہے۔) ’’…اب دیکھ لو کہ متقی کی شان کس قدر بلند ہے اور اس کا پایہ کس قدر عالی ہے۔ جس کا قرب خدا کی جناب میں ایسا ہے کہ اس کا ستایا جانا خدا کا ستایا جانا ہے تو خدا اس کا کس قدر معاون و مددگار ہو گا۔ ‘‘
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 14-15)
پس انسان کے لئے مصائب و مشکلات سے بچنے کا کوئی راستہ نہیں سوائے اس کے کہ خدا تعالیٰ کی طرف جھکے اور خدا تعالیٰ کو اپنا معاون و مددگار بنائے۔ حالات ایسے ہوں جہاں ہر طرف انسان مشکلات میں گھرا ہو۔ جنگوں کے بھی خطرے ہیں۔ لوگ پوچھتے ہیں کہ کس طرح بچا جا سکتا ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے ایک شعر میں اس کا ذکر کردیا۔
آگ ہے پر آگ سے وہ سب بچائے جائیںگے
جو کہ رکھتے ہیں خدائے ذوالعجائب سے پیار
(درثمین اردو صفحہ154 )
پس اللہ تعالیٰ سے پیار رکھنا ضروری ہے۔ پھر اپنی بیعت میں آنے کے حوالے سے افراد جماعت کو تقویٰ پر چلنے کی نصیحت کرتے ہوئے حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام فرماتے ہیں:
’’ہماری جماعت کے لئے خاص کر تقویٰ کی ضرورت ہے۔ خصوصاً اس خیال سے بھی کہ وہ ایک ایسے شخص سے تعلق رکھتے ہیں اور اُس کے سلسلۂ بیعت میں ہیں جس کا دعویٰ ماموریت کا ہے تا وہ لوگ جو خواہ کسی قسم کے بغضوں، کینوں یا شرکوں میں مبتلا تھے یا کیسے ہی رو بہ دنیا تھے ان تمام آفات سے نجات پاویں۔‘‘
فرمایا ’’…آپ جانتے ہیں کہ اگر کوئی بیمار ہو جاوے خواہ اس کی بیماری چھوٹی ہو یا بڑی اگر اُس بیماری کے لئے دوا نہ کی جاوے اور علاج کے لئے دکھ نہ اٹھایا جاوے بیمار اچھا نہیں ہو سکتا۔ ایک سیاہ داغ منہ پر نکل کر ایک بڑا فکر پیدا کر دیتا ہے کہ کہیں یہ داغ بڑھتا بڑھتا کل منہ کو کالا نہ کر دے۔ اسی طرح معصیت کا بھی ایک سیاہ داغ دل پر ہوتا ہے…‘‘۔ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 10)۔ گناہوں کا، کمزوریوں کا ایک داغ ہوتا ہے دل پر پڑتا ہے اور اگر اس کا علاج نہ کرو گے تو وہ آہستہ آہستہ بڑا ہوتا جائے گا۔ فرمایا کہ ’’…صغائر سہل انگاری سے کبائرہو جاتے ہیں…‘‘ (جو چھوٹے چھوٹے گناہ ہیں اگر ان کو توجہ نہیں دو گے، سستی دکھاؤ گے تو بظاہر جو چھوٹے لگنے والے گناہ ہیں وہ بڑے گناہ بن جاتے ہیں۔) فرمایا کہ ’’…صغائر وہی داغ چھوٹا ہے جو بڑھ کر آخرکار کُل منہ کو سیاہ کر دیتا ہے…۔‘‘ (بعض چیزیں،کمزوریاں ہیں انسان سمجھتا ہے کوئی بات نہیں، معمولی سی چیز ہے۔ فرمایا کہ معمولی نہ سمجھو، یہی بڑا گناہ بن جائے گی اور پھر جس طرح ایک داغ منہ کو سیاہ کر دیتا ہے یہ بڑا گناہ بن کے تمہیں سیاہ کر دے گا۔ اگر چھوٹی چھوٹی برائیوں اور کمزوریوں کو دور کرنے کی طرف توجہ نہ دی تو یہ بڑے گناہ بن جائیں گے اور اس کی وجہ سے انسان کا کُل چہرہ بھی سیاہ ہو جائے گا، دل بھی سیاہ ہو جائے گا۔)
فرمایا کہ ’’…اللہ تعالیٰ رحیم و کریم ہے ویسا ہی قہار اور منتقم بھی ہے…‘‘ (ایک طرف تو اللہ تعالیٰ بڑا رحم کرنے والا ہے۔ بہت کرم کرنے والا ہے۔ بڑی مہربانی کرنے والا ہے۔ بڑا نوازنے والا ہے اور دوسری طرف اللہ تعالیٰ بڑا قہار بھی ہے۔ منتقم بھی ہے۔ جو گناہ کرنے والے ہیں ان کو سزا بھی دیتا ہے۔ فرمایا کہ ’’…ایک جماعت کو دیکھتا ہے کہ ان کا دعویٰ اور لاف و گزاف تو بہت کچھ ہے اور ان کی عملی حالت ایسی نہیں تو اس کا غَیظ و غضب بڑھ جاتا ہے…‘‘ (دعویٰ یہ کر رہے ہو کہ ہم بیعت میں آگئے۔ ہم نے زمانے کے امام کو مان لیا۔ ہم نے آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے غلام صادق کو مان لیا۔ ہم نے دنیا کو دین سکھانا ہے۔ ہم نے دنیا پر اسلام کے غلبہ کے لئے ہر کوشش کرنی ہے، لیکن اگر عمل نہیں تو یہ صرف منہ کی باتیں ہیں۔ فرماتے ہیں کہ پھر تم اللہ تعالیٰ کے غصہ کو بھڑکانے والے ہو۔ فرمایا ’’…پھر ایسی جماعت کی سزا دہی کے لئے وہ کفار کو ہی تجویز کرتا ہے۔ جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں…‘‘ فرمایا کہ ’’…جو لوگ تاریخ سے واقف ہیں وہ جانتے ہیں کہ کئی دفعہ مسلمان کافروں سے تہ تیغ کئے گئے جیسے چنگیز خاں اور ہلاکو خاں نے مسلمانوں کو تباہ کیا حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیا ہے۔…‘‘ (وعدہ تو اللہ تعالیٰ کا مسلمانوں سے یہ تھا کہ اگر تم پر کوئی حملہ کرے گا، تمہیں کوئی نقصان پہنچانے کی کوشش کرے گا تو مَیں تمہاری مدد کروں گا۔ لیکن کیا ہوا کہ مسلمان کافروں سے ہزیمت اٹھانے والے بن گئے؟ اس لئے کہ ان کے عمل نہیں تھے۔) آپ نے فرمایا کہ ’’…حالانکہ اللہ تعالیٰ نے مسلمانوں سے حمایت اور نصرت کا وعدہ کیا ہے لیکن پھر بھی مسلمان مغلوب ہوئے۔…‘‘ (آجکل بھی اس زمانے میں ہم یہی دیکھ رہے ہیں کہ ہر مسلمان حکومت جو ہے وہ کسی نہ کسی رنگ میں غیر مسلم حکومتوں کے سامنے سر جھکائے ہوئے ہیں، ان سے مدد کے طالب ہیں اور ان کی مدد سے پھر اپنے مسلمانوں کو قتل کر رہے ہیں، معصوموں کو قتل کر رہے ہیں، بچوں کو قتل کررہے ہیں، عورتوں کو قتل کر رہے ہیں۔ یہ سب کیا ہے؟ کیا اسلام کی یہ تعلیم تھی کہ معصوموں کو قتل کرو؟ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم تو رحمت للعالمین تھے۔ اب یہ نمونے دکھائے جا رہے ہیں تو اس کا نتیجہ کیا نکل رہا ہے کہ پھر غیر مسلم حکومتیں بھی، بڑی حکومتیں بھی، بڑی طاقتیں بھی اپنی شرائط پر ان سے اپنی شرائط منوا رہی ہیں اور وہ جو چاہتی ہیں وہ کرتی ہیں اور ان کے جو ذرائع ہیں، قدرتی وسائل ہیں، جو دولتیں ہیں ان پر ان کا قبضہ ہو چکا ہے۔ فرمایا ’’…اس قسم کے واقعات بسا اوقات پیش آئے۔ اس کا باعث یہی ہے کہ جب اللہ تعالیٰ دیکھتا ہے کہ زبان لَااِلٰہَ اِلَّااللہ تو پکارتی ہے لیکن اس کا دل اَور طرف ہے اور اپنے افعال سے وہ بالکل روبدُنیا ہے تو پھر اس کا قہر اپنا رنگ دکھاتا ہے۔
(ملفوظات جلد اوّل صفحہ 11)
پھر فرمایا کہ ’’اللہ کا خوف اِسی میں ہے کہ انسان دیکھے کہ اس کا قول و فعل کہاں تک ایک دوسرے سے مطابقت رکھتا ہے پھر جب دیکھے کہ اس کا قول و فعل برابر نہیں تو سمجھ لے کہ وہ مورد غضب الٰہی ہو گا۔ جو دل ناپاک ہے خواہ قول کتنا ہی پاک ہو وہ دل خدا کی نگاہ میں قیمت نہیں پاتا۔…‘‘ (یہ بہت سوچنے والی بات ہے، بہت غور کرنے والی بات ہے، بہت فکر والی بات ہے کہ اپنے دل کو ٹٹولیں۔ ہر ایک اپنے دل کو ٹٹول سکتا ہے۔ اگر دل ناپاک ہے تو پھر ہم جتنی مرضی اچھی باتیں کر رہے ہوں خدا کی نگاہ میں اس کی کوئی حیثیت نہیں۔) فرمایا ’’…بلکہ خدا کا غضب مشتعل ہوگا۔…‘‘ (بلکہ یہی نہیں کہ صرف حیثیت نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے غضب کو بھڑکانے والے ہو گے، اس سے اللہ تعالیٰ ناراض ہو گا۔)پس فرمایا ’’…پس میری جماعت سمجھ لے کہ وہ میرے پاس آئے ہیں۔ اسی لئے کہ تخمریزی کی جائے جس سے وہ پھلدار درخت ہو جاوے۔ پس ہر ایک اپنے اندر غور کرے کہ اس کا اندرونہ کیسا ہے۔ اور اس کی باطنی حالت کیسی ہے۔…‘‘ فرمایا ’’…اگر ہماری جماعت بھی خدا نخواستہ ایسی ہی ہے کہ اس کی زبان پر کچھ ہے اور دل میں کچھ ہے تو پھر خاتمہ بالخیر نہ ہو گا۔ اللہ تعالیٰ جب دیکھتا ہے کہ ایک جماعت جو دل سے خالی ہے اور زبانی دعوے کرتی ہے۔ وہ غنی ہے، وہ پرواہ نہیں کرتا۔…‘‘ فرمایا کہ دیکھو ’’…بدر کی فتح کی پیشگوئی ہوچکی تھی ہر طرح فتح کی امید تھی لیکن…‘‘ (اللہ تعالیٰ کا آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم سے وعدہ تھا کہ میں فتح دوں گا لیکن) ’’… پھر بھی آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم رو رو کر دعا مانگتے تھے۔ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے عرض کیا کہ جب ہر طرح فتح کا وعدہ ہے تو پھر ضرورت الحاح کیا ہے؟…‘‘ (اتنا رونے کی ضرورت کیا ہے؟ اتنی پریشان ہونے کی ضرورت کیا ہے؟) ’’…آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ وہ ذات غنی ہے یعنی ممکن ہے کہ وعدۂ الٰہی میں کوئی مخفی شرائط ہوں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 10-11)
کوئی ایسی شرطیں ہوں جو مجھ پر ظاہر نہ ہوئی ہوں یا تم لوگوں سے متعلق ہوں اور وہ پوری نہ ہو رہی ہوں تو پھر یہ ضروری ہے کہ میں دعا کروں اور اپنی بشری کمزوریوں کے لئے بھی اور تم لوگوں کی کمزوریوں کے لئے بھی اللہ تعالیٰ سے مدد مانگوں تا کہ فتح یقینی فتح میں بدل جائے ۔
پس یہ ہے وہ گُر جسے ہمیں اپنے سامنے رکھنا چاہئے کہ ہر وقت یہ خیال رہے کہ بیشک اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے۔ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام سے بھی وعدہ ہے کہ میں تیرے ساتھ ہوں۔ میں تجھے غلبہ دوں گا۔ تیری جماعت کو پھیلاؤں گا لیکن اس کے ساتھ یہ شرائط بھی ہیں کہ ہمارے عمل بھی اس کے مطابق ہونے چاہئیں۔ پس ہمیں یہ نہیں سمجھ لینا چاہئے کہ حضرت مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام کی بیعت کر لی بس اتنا ہی کافی ہے۔ نہیں۔ بلکہ اس کے ساتھ عمل کرنے پڑیں گے۔ اللہ تعالیٰ کی کتاب کے مطابق چلنے کی حتی المقدور کوشش کرنی پڑے گی تبھی خدا تعالیٰ کو ہم راضی کر سکتے ہیں تبھی وہ ہمیں مشکلات سے نکالنے کے راستے بھی دکھائے گا اور پھر ایسے راستے دکھائے گا جو ہماری سوچ سے بھی بالا ہوں گے۔
پھر اس بات کی وضاحت فرماتے ہوئے کہ اللہ تعالیٰ نے جو قویٰ اور طاقتیں دی ہیں انہیں اللہ تعالیٰ کی مرضی کے مطابق استعمال کرنا ہی ایک مؤمن کا کام ہے اور حقیقی تقویٰ یہی ہے اور ان کا جائز استعمال، اللہ تعالیٰ کے حکم کے مطابق جب جائز استعمال ہو گا تو پھر اللہ تعالیٰ کے حکموں کے مطابق اُن کے اِن قویٰ اور طاقتوں کی نشوونما بھی ہو گی، وہ پھلیں گے، پھیلیں گے اَور ان میں زیادہ طاقت پیدا ہو گی، آپ فرماتے ہیں:
’’اللہ تعالیٰ نے جس قدر قویٰ عطا فرمائے ہیں وہ ضائع کرنے کے لئے نہیں دئیے گئے ان کی تعدیل اور جائز استعمال کرنا ہی ان کی نشوونما ہے۔ اسی لئے اسلام نے قوائے رجولیّت یا آنکھ کے نکالنے کی تعلیم نہیں دی بلکہ ان کا جائز استعمال اور تزکیہ نفس کرایا۔…‘‘ (اس لئے انسان کو جو جنسی اعضاء دئیے ہیں، یا وہ زنا کے ذرائع ہیں وہ بدنظریاں ہیں جو انسان آنکھوں کے ذریعہ کرتا ہے۔ یہ نہیں کہا کہ ان کو ختم کر دو، ان کو نکال دو بلکہ فرمایا کہ ان کا جائز استعمال تو صحیح ہے اور وہ تبھی ہو گا جب تمہارا نفس پاک ہو گا۔ پس اپنے اندر کو ٹٹولو، اپنے دلوں کو ٹٹولو اور اپنے نفسوں کو دیکھو کہ وہ پاک ہے کہ نہیں۔) آپ فرماتے ہیں کہ ’’…جیسے فرمایا (اللہ تعالیٰ نے کہ) قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ (المومنون2:) اور ایسے ہی یہاں بھی فرمایا۔ متقی کی زندگی کا نقشہ کھینچ کر آخر میں بطور نتیجہ یہ کہا وَاُوْلٰئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ (البقرۃ6:)۔ یعنی وہ لوگ جو تقویٰ پر قدم مارتے ہیں۔ ایمان بالغیب لاتے ہیں۔ نماز ڈگمگاتی ہے۔ پھر اسے کھڑا کرتے ہیں۔ خدا کے دئیے ہوئے سے دیتے ہیں۔ باوجود خطرات نفس بلا سوچے گزشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں اور آخر کار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں۔ یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سر پر ہیں۔…‘‘ (فلاح پانے کے لئے یہ ضروری ہے کہ اپنی عبادتوں کی، نمازوں کی حفاظت کرو اور اللہ تعالیٰ نے جو مال دیا ہے اس میں سے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کرو اور پھر تمہارا ایمان بالغیب ہونا چاہئے۔ یہ نہیں کہ ہمیں سمجھ آئے گی تو ہم سمجھیں گے۔ ہاں سمجھ ضرور آنی چاہئے لیکن پہلے ایمان بالغیب حاصل کرو اور پھر اس کو سمجھنے کی کوشش کرو تو اللہ تعالیٰ سمجھا بھی دے گا۔ فرمایا کہ وہ بلا سوچے سمجھے گزشتہ اور موجودہ کتاب اللہ پر ایمان لاتے ہیں، تمام شریعتوں پر ایمان لاتے ہیں اور آخر کار وہ یقین تک پہنچ جاتے ہیں۔) ’’…یہی وہ لوگ ہیں جو ہدایت کے سر پر ہیں وہ ایک ایسی سڑک پر ہیں جو برابر آگے کو جا رہی ہے اور جس سے آدمی فلاح تک پہنچتا ہے۔…‘‘
(فلاح کے راستے کے لئے اللہ تعالیٰ کے حکموں پر چلنے کی ضرورت ہے۔ اپنی عبادتوں کو ان کے اعلیٰ معیار تک پہنچانے کی ضرورت ہے۔ مخلوق کے حق ادا کرنے کی ضرورت ہے اور اللہ تعالیٰ کے تمام حکموں پر ایمان لانے کی ضرورت ہے۔ فرمایا تب فلاح کے رستے پر چلو گے اور فلاح تک پہنچو گے۔ ان کامیابیوںتک پہنچو گے جو انسان کو ہر مشکل اور مصیبتوں سے نجات دلاتی ہیں۔)
فرمایا ’’…پس یہی لوگ فلاح یاب ہیں جو منزل مقصود تک پہنچ جائیں گے اور راہ کے خطرات سے نجات پا چکے ہیں۔ اس لئے شروع میں ہی اللہ تعالیٰ نے ہم کو تقویٰ کی تعلیم دے کر ایک ایسی کتاب ہم کو عطا کی جس میں تقویٰ کے وصایا بھی دئیے۔ سو ہماری جماعت…‘‘ (غور سے سننے والی بات ہے) فرمایا ’’سو ہماری جماعت یہ غم کُل دنیوی غموں سے بڑھ کر اپنی جان پر لگائے کہ ان میں تقویٰ ہے یا نہیں۔‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 35)
پھر اس بات کو بیان فرماتے ہوئے کہ کامیابی پر اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنی چاہئے آپ فرماتے ہیں:
’’… اکثر لوگوں کے حالات کتابوں میں لکھے ہیں کہ اوائل میں دنیا سے تعلق رکھتے تھے اور شدید تعلق رکھتے تھے لیکن انہوں نے کوئی دعا کی اور وہ قبول ہو گئی اس کے بعد ان کی حالت ہی بدل گئی۔ اس لئے اپنی دعاؤں کی قبولیت اور کامیابیوں پر نازاں نہ ہو بلکہ خدا کے فضل اور عنایت کی قدر کرو۔ قاعدہ ہے کہ کامیابی پر ہمّت اور حوصلہ میں ایک نئی زندگی آ جاتی ہے۔ اس زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہئے۔…‘‘ اگر تو دعائیں کرنے سے، نشان دیکھنے سے، قبولیت سے، اللہ تعالیٰ کی طرف خاص رجوع پیدا ہوتا ہے تو یہ بڑی کامیابی ہے۔ اگر ان کو اپنی کسی خوبی کا نتیجہ سمجھو تو پھر تباہی ہو جاتی ہے۔ اس لئے ہمیشہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے جو دعائیں قبول ہوتی ہیں ان کو اللہ تعالیٰ کا فضل سمجھنا چاہئے نہ کہ اپنی کسی خوبی کا نتیجہ۔ فرمایا کہ ’’…اس زندگی سے فائدہ اٹھانا چاہئے اور اس سے اللہ تعالیٰ کی معرفت میں ترقی کرنی چاہئے۔ کیونکہ سب سے اعلیٰ درجہ کی بات جو کام آنے والی ہے وہ یہی معرفت الٰہی ہے اور یہ خدا تعالیٰ کے فضل و کرم پر غور کرنے سے پیدا ہوتی ہے۔ اللہ تعالیٰ کے فضل کو کوئی روک نہیں سکتا ۔‘‘
فرماتے ہیں ’’بہت تنگدستی بھی انسان کو مصیبت میں ڈال دیتی ہے۔ اس لئے حدیث میں آیا ہے۔ اَلْفَقْرُ سَوَادُ الْوَجْہِ۔ ایسے لوگ میں نے خود دیکھے ہیں۔…‘‘ آپؑ فرماتے ہیں کہ ’’…ایسے لوگ میں نے خود دیکھے ہیں جو اپنی تنگدستیوں کی وجہ سے دہریہ ہو گئے ہیں۔ مگر مؤمن کسی تنگی پر بھی خدا سے بدگمان نہیں ہوتا اور اس کو اپنی غلطیوں کا نتیجہ قرار دے کر اس سے رحم اور فضل کی درخواست کرتا ہے اور جب وہ زمانہ گزر جاتا ہے اور اس کی دعائیں باروَر ہو تی ہیں تو وہ اس عاجزی کے زمانے کو بھولتا نہیں بلکہ اسے یاد رکھتا ہے۔…‘‘ (بعض حالات برے آتے ہیں، ابتلا یا مشکل آتی ہے وہ سزا کے طور پر نہیں آتی۔ بعض دفعہ مؤمنین کو آزمانے کے لئے آتی ہے تو اس پہ اللہ تعالیٰ کو چھوڑنا نہیں بلکہ اور اس کے آگے جھکنا ہے، اس کے آگے دعائیں کرنی ہیں، اس کے حضور جھکتے ہوئے اس سے مانگنا ہے تو اللہ تعالیٰ فضل فرماتا ہے اور پھر ان دعاؤں کو پھل لگاتا ہے۔ قبول ہوتی ہیں اور سب مشکلات و مصائب دور ہو جاتے ہیں۔ لیکن ایسا شخص جب دعائیں قبول ہو جاتی ہیں تو پھر اس پہلے زمانے کو بھی نہیں بھولتا، عاجزی اس کی قائم رہتی ہے۔ فرمایا کہ ’’…غرض اگر اس پر ایمان ہے کہ اللہ تعالیٰ سے کام پڑنا ہے تو تقویٰ کا طریق اختیار کرو۔ مبارک وہ ہے جو کامیابی اور خوشی کے وقت تقویٰ اختیار کر لے اور بدقسمت وہ ہے جو ٹھوکر کھا کر اس کی طرف نہ جھکے۔ …‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 156-157)
پھر تقویٰ پر چلنے والوں کی ایک ضروری شرط کا ذکر کرتے ہوئے کہ اس شرط کو پورا کرنا بھی متقی کے لئے ضروری ہے آپ فرماتے ہیں:
’’اہل تقویٰ کے لئے یہ شرط ہے کہ وہ اپنی زندگی غربت اور مسکینی میں بسر کریں۔ یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے۔‘‘ (عاجزی، انکساری اور غربت سے مراد یہ نہیں کہ مالی لحاظ سے غریب ہو بلکہ انسان کو غریب طبع ہونا چاہئے۔ دولت اور پیسہ بھی جو ہے اس کی وجہ سے فخر اور تکبر پیدا کرنے کی بجائے عاجزی اور انکساری آنی چاہئے) فرمایا: ’’یہ تقویٰ کی ایک شاخ ہے جس کے ذریعہ سے ہمیں ناجائز غضب کا مقابلہ کرنا ہے۔‘‘ (پیسہ زیادہ ہو، دولت ہو تو انسان میں تکبر آ جاتا ہے اور جب تکبر آتا ہے تو پھر وہ اپنے آپ کو کچھ سمجھتا ہے اور غصہ بھی آنا شروع ہو جاتا ہے۔ ہم نے اس کا مقابلہ کرنا ہے۔ ناجائز غضب کا تقویٰ سے مقابلہ کرنا ہے۔ فرمایا کہ ’’…بڑے بڑے عارف اور صدیقوں کے لئے آخری اور کڑی منزل غضب سے بچنا ہی ہے۔‘‘ (گویاکہ بہت مشکل کام ہے) فرمایا کہ ’’…عُجب و پندار غضب سے پیدا ہوتا ہے اور ایسا ہی کبھی خود غضب عجب و پندار کا نتیجہ ہوتا ہے۔‘‘ (غرور اور تکبر جو پیدا ہوتا ہے وہ غصہ کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے یا تکبر اور غرور کی وجہ سے انسان کے دل میں غصہ آتا ہے اور دوسرے کو حقیر سمجھتا ہے۔ )فرمایا کہ ’’…غضب اس وقت ہو گا جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے۔‘‘ (یہ بہت اہم بات ہے۔ غصہ انسان کو اس وقت آتا ہے جب انسان اپنے نفس کو دوسرے پر ترجیح دیتا ہے کہ میں کوئی چیز ہوں اور دوسرا حقیر ہے۔ میرے سے کم تر ہے۔) فرمایا کہ ’’… مَیں نہیں چاہتا کہ میری جماعت والے آپس میں ایک دوسرے کو چھوٹا یا بڑا سمجھیں یا ایک دوسرے پر غرور کریں یا نظر استخفاف سے دیکھیں۔ خدا جانتا ہے کہ بڑا کون ہے یا چھوٹا کون ہے۔ یہ ایک قسم کی تحقیر ہے۔ جس کے اندر حقارت ہے۔ ڈر ہے کہ یہ حقارت بیج کی طرح بڑھے اور اس کی ہلاکت کا باعث ہو جاوے۔ بعض آدمی بڑوں کو مل کر بڑے ادب سے پیش آتے ہیں لیکن بڑا وہ ہے جو مسکین کی بات کو مسکینی سے سنے…‘‘ (بڑا تو وہ ہے جو کسی غریب اور عاجز انسان کی بات، اسی کی سطح پر آ کر غور سے سنے، نیچے ہو کر سنے) ’’…اس کی دلجوئی کرے، اس کی بات کی عزّت کرے۔ کوئی چِڑ کی بات منہ پر نہ لاوے کہ جس سے دکھ پہنچے۔ خدا تعالیٰ فرماتا ہے وَلَا تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ۔ بِئْسَ الِاسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ۔ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ۔ (الحجرات12:) تم ایک دوسرے کا چِڑ کے نام نہ لو۔ یہ فعل فُسّاق و فُجّار کا ہے۔ جو شخص کسی کو چِڑاتا ہے وہ نہ مرے گا جب تک وہ خود اسی طرح مبتلا نہ ہو گا۔ اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو…‘‘ (فُسّاق اور فُجّار کون ہیں؟ جھوٹے، گناہگار، بدچلن لوگ۔ تو آپؑ نے ایسے لوگوں کو بڑا انذار کیا ہے۔ بلکہ اللہ تعالیٰ نے کہا ہے کہ نیکی اختیار کرنے کے بعد پھر گناہوںمیں ڈوب جانا، بدچلن ہو جانا، گناہگار ہو جانا یہ بہت بڑا ظلم ہے جو انسان اپنے آپ پر کرتا ہے۔ بس ہمیشہ توبہ کرنے کی طرف توجہ رہنی چاہئے اور توبہ کرنی چاہئے۔ اللہ تعالیٰ سے مغفرت مانگنی چاہئے۔ اس کی طرف جھکنا چاہئے۔ فرمایا: ’’…اپنے بھائیوں کو حقیر نہ سمجھو۔ جب ایک ہی چشمے سے کُل پانی پیتے ہو تو کون جانتا ہے کہ کس کی قسمت میں زیادہ پانی پینا ہے۔ مکرّم ومعظّم کوئی دنیاوی اصولوں سے نہیں ہو سکتا۔ خدا تعالیٰ کے نزدیک بڑا وہ ہے جو متقی ہے۔ اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ۔ (الحجرات14:)‘‘ (ملفوظات جلد اوّل صفحہ 36)
(…………………جاری ہے)