’’تبھی پتہ لگے گا کہ آپؓ مصلح موعود ہیں جب سب چیزیں سامنے آئیں گی‘‘
حضرت امیر المومنین ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کی خدمتِ اقدس میں حاضری ہزاروں رحمتوں اور فضلوں کو سمیٹنے والی ہوتی ہے۔ خوش نصیب چاہے ذاتی ملاقات کی سعادت حاصل کررہے ہوں یا انہیں دفتری ہدایات حاصل کرنے کا موقع میسر آئے ہر حال میں خوش نصیب ہی رہتے ہیں کہ انہیں خدا کے چنیدہ اور مقرر کردہ خلیفہ کی معیت میں زندگی کے بابرکت اور خوبصورت ترین لمحات گزارنے کا موقع ملتا ہے۔
شرفِ ملاقات حاصل کرنے والے غالباً تمام لوگ اس بات سے اتفاق کریں گے کہ انتظارگاہ میں،باری آنے پرحضورِ انور کے دفتر میں قدم رکھنے سے کچھ لمحے قبل، حاضری کے دورانیہ او رپھر رخصت ہونے کے بعدچند منٹ کے اس مختصر عرصہ میں انسان عقیدت، ادب، فکر، خوشی، حیرانی،محبت، گھبراہٹ، پریشانی اور نہ جانے کون کونسی مختلف کیفیات اور جذبات سے گزرجاتا ہے۔ فکر ، گھبراہٹ اور پریشانی اس بات کی کہ دورانِ ملاقات کہیں کوئی ایسی بات، حرکت یا کام نہ سرزد ہو جائے جو حضورِ انور کی طبیعت پر گراں گزرے، یا حضور انور کے ازحد قیمتی وقت کے ضیاع کا باعث ہو یا آدابِ دربارِ خلافت سے موافقت نہ رکھتا ہو۔ اور ویسے بھی جس وجود کو خدائے قادر آپ کا اندرونی نفس دکھا سکتاہے اس کے سامنے پیش ہونے پر ان کیفیات کا طاری ہونا ایک فطری عمل ہے۔
اسی طرح کی ایک خوبصورت صبح ایک حاضری کے اختتام پر اپنے شفیق امام کی شفقتوں کا فائدہ اٹھاتے ہوئے ایک ادنیٰ غلام نے ایک سوال پوچھنے کی اجازت طلب کی جو شرفِ قبولیت پا گئی۔ عرض کیا گیا کہ حضورِ انور کے دورِ خلافت میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے ارشادات اور کتب کی طرف خاص توجہ ہے۔…
پیارے حضورمسکرائے اور پھر گویا ہوئے
’’حضرت مصلح موعودؓ کے ارشادات کی طرف توجہ ہونی چاہئے کیونکہ آپؓ مصلح موعود ہیں۔ مجھے تو ہمیشہ سے ہی جب بھی کسی مسئلہ کے حل، کسی چیز کی ضرورت پڑی ہے، حضرت مصلح موعودؓکے ارشادات میں سے اس کا حل ملا ہے۔ میرا رخ پہلے ہی اس طرف رہتا تھا۔‘‘
اس کے بعد بڑی محبت سے فرمانے لگے
’’اِک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملّت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
تبھی پتہ لگے گا کہ آپؓ مصلح موعود ہیں جب سب چیزیں سامنے آئیں گی۔‘‘
پھر شفقتوں سے معمور وجود باجود ایک محترم دوست کا ذکرکرتے ہوئے تبسّم کے ساتھ فرمانے لگے کہ
’تم نے بھی ان کی طرح سوال پوچھ لیا۔
عقیدت، ادب، فکر، خوشی، حیرانی،محبت، گھبراہٹ، پریشانی اور نہ جانے کون کونسی مختلف کیفیات اور جذبات میں مبتلا اس کم مایہ گنہگار میں نہ معلوم کہاں سے کچھ ہمت پیدا ہوئی اور ہلکی سی آواز میں، دبے دبے الفاظ میں عرض کیا کہ ’حضور، وہ تبرّک لے جاتے ہیں، ہمارا بھی تو حق ہے!‘
پھر سے ڈرتے ڈرتے ہمت پیدا کر کے ماہِ تمام پر ہلکی سی نظر جو ڈالی تو دیکھا حضور مسکرا رہے تھے۔ اس دلآویز منظر سے آنکھوں کو خیرہ کرتے ہوئے اپنے بکھرے ہوئے کاغذات جیسے تیسے سمیٹے اور خوشی، تشکّر اور کچھ فکر کے ملے جلے جذبات کے ساتھ طالبِ رخصت ہوا۔
اَللّٰھُمَّ اَیِّد اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُسِ وَ کُنْ مَعَہٗ حَیْثُ مَا کَانَ وَانْصُرْہُ نَصْرًا عَزِیْزًا
٭…٭…٭…٭