کیا دنیا کے امن کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے؟
(فرمودہ 15؍فروری 1920ء بمقام بریڈ لا ہال، لاہور)
علومِ ظاہری و باطنی سے پُر وجود حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ فروری 1920ء میں لاہور تشریف لے گئے۔ آپؓنے اس دورہ کے دوران 15؍ فروری کے روز بریڈلا ہال (Bradlaugh Hall) میں ’’کیا دنیا کے امن کی بنیاد عیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے؟‘‘ کے موضوع پر معرکۃ الآراء لیکچر دیا۔ آپؓ نے عیسائیت کے مقابلہ پر اسلام کی عظیم الشان، کامل اور مکمل تعلیم کا موازنہ پیش کرکے ثابت فرمایا کہ دنیا میں امن کی بنیاد اسلام پر رکھی جاسکتی ہے نہ کہ مسیحیت پر۔ چنانچہ آج ہم دیکھتے ہیں کہ عرصہ ایک صدی گزرنے کے بعد جہاں عیسائیت پر دنیا کے امن کی بنیاد رکھنے کے دعویدار شاذ ہی کہیں دکھائی دیتے ہیں وہاں اسلام کے بطلِ جلیل، قدرتِ ثانیہ کے پانچویں مظہر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بروح القدس دنیا کے سامنے اسلامی تعلیمات کی روشنی میں قیامِ امن کے زرّیں اصول پیش فرما رہے ہیں جنہیں سن کر اپنے تو اپنے غیر بھی اقرار کرتے ہیں کہ واقعی اگر اسلام کی حقیقی تعلیمات پر عمل کیا جائے تو دنیا امن کا گہوارہ بن جائے۔
حضرت مصلح موعود ؓکے اس لیکچر کا خلاصہ الفضل قادیان دارالامان 26؍ فروری 1920ء کے شمارہ میں شائع ہوا تھا لیکن ابھی تک یہ لیکچر غیرمطبوعہ تھا۔
الفضل انٹرنیشنل کو حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے اس لیکچر کو بشکریہ فضلِ عمر فاؤنڈیشن ربوہ پہلی مرتبہ شائع کرنے کی سعادت حاصل ہو رہی ہے۔ ان شاء اللہ آئندہ چند شماروں میں بالاقساط یہ مکمل طور پر شائع ہو جائے گا۔ فالحمدللہ علیٰ ذالک۔
مورخہ 15؍ فروری 1920ء کو حضرت مصلح موعودرضی اللہ عنہ نماز ظہر و عصر پڑھانے کے بعد بریڈلا ہال تشریف لے گئے تو وہاں بہت سے لوگ جن میں ہندو اور سکھ صاحبان بھی تھے، موجود تھے۔ حضور کے لیکچر ہال میں رونق افروز ہونے پر حکیم احمد حسین صاحب لائل پوری نے ’’کلام محمود‘‘ سے حضرت خلیفۃالمسیح کی اس نظم کا ایک حصہ پڑھا کہ ؎
کیا جانئے کہ دل کو مرے آج کیا ہوا
کس بات کا ہے اس کو دھڑکا لگا ہوا
اس کے بعد حضرت چودھری ظفراللہ خان صاحبؓ نے حضرت خان ذوالفقار علی خان صاحب گوہرؓ (رام پوری) کا نام بطور صدر جلسہ پیش فرمایا۔
مکرم خان صاحب نے باقاعدہ صدر ہونے پر اپنے صدارتی الفاظ میں فرمایا:
’’حضرات! مَیں مکرم محرک کا اس عزت افزائی پر نہایت ہی شکرگزار ہوں کہ ایسے اہم جلسہ کا مجھے صدر تجویز کیا گیا ہے۔ مَیں اس وقت کوئی لمبی چوڑی بات نہیں کہنا چاہتا۔ صرف آپ صاحبان کا شکریہ ادا کرنا چاہتا ہوں جنہوں نے تشریف لاکر رونق بخشی۔ اور مَیں امید کرتا ہوں کہ جو عظیم الشان مضمون آپ صاحبان کو یہاں سنایا جائے گا اُسے آپ پورے اطمینان اور غور سے سنیں گے۔ وہ مضمون اس پیغام سے متعلق ہے جو انگلستان کے وزیراعظم نے دنیا کو بھیجا ہے۔ انگلستان کے وزیراعظم کی بہت بڑی پوزیشن ہے اور گزشتہ جنگ کے بعد اس کو دنیا کا سب سے بڑا مُدبّر سمجھ لیا گیا ہے۔ اس سے آپ اندازہ کرسکتے ہیں کہ کس کی طرف سے یہ آواز اُٹھی ہے۔ آج اس وقت اس کے جواب میں حضرت میرزا بشیرالدین محمود احمد صاحب خلیفۃالمسیح الثانی ایدہ اللہ خلف الصدق حضرت مرزا غلام احمد صاحب مسیح موعود علیہ الصلوٰۃ والسلام لیکچر دیں گے۔ اسے آپ لوگ سنیں۔ حضرت مرزا صاحب کی پوزیشن ایسی نہیں ہے کہ جس کے متعلق آپ لوگوں کو کچھ بتانے کی ضرورت ہو۔ آپ اسے خوب جانتے ہیں اس لئے مَیں اُمید کرتا ہوں کہ آپ مضمون کی اہمیت اور بیان کرنے والے کی پوزیشن کو مدّنظر رکھ کر پوری توجہ اور غور سے سنیں گے۔ اور اگر ایسا کریں گے تو مجھے یقین ہے کہ آپ کو یہاں آنے کی تکلیف برداشت کرنے کا کافی معاوضہ مل جائے گا۔ یہ آواز جو اس وقت آپ لوگوں کے سامنے بلند ہونے والی ہے وہ آواز ہے جو دنیا کو ہلاکر چھوڑے گی۔ یہ آواز ایسی ہے جس میں وہ صداقت اور حقیقت پائی جاتی ہے جو وزیراعظم پانا چاہتے ہیں اور یہی وہ پتھر ہے جس پر تمام دنیا کے امن کی بنیاد رکھی جاسکتی ہے اور اسی پر صلح اور اس کا خوشنما محل تیار ہوسکتا ہے۔ پس امید ہے کہ اس وقت جو آپ صاحبان کے سامنے اسلام کی نُورافشانی ہوگی اس کو نہایت غوروفکر سے ملاحظہ کریں گے۔ اور اگر فائدہ اٹھانا چاہیں گے تو اس کی بہت کچھ گنجائش اور موقع ہوگا۔ اب مَیں حضرت خلیفۃالمسیح سے استدعا کرتا ہوں کہ حضور اپنا لیکچر شروع فرماویں۔‘
(ماخوذ از الفضل قادیان دارالامان 26؍ فروری 1920ء)
صدرِ اجلاس کی اس مختصر تقریر کے بعد حضرت خلیفۃ المسیح الثانی المصلح الموعود رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے لیکچر کا آغاز فرمایا۔
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ
نَحْمَدُہٗ وَ نُصَلِّیْ عَلٰی رَسُوْلِہِ الْکَرِیْم
کیا دنیا کے امن کی بنیادعیسائیت پر رکھی جاسکتی ہے؟
تشہد، تعوذ اور سورۃ فاتحہ کی تلاوت کے بعد فرمایا:
’’دنیا کی جو عمر اس وقت کے موجودہ علوم کے رو سے تجویز کی گئی ہے اس کو مدنظر رکھتے ہوئے میں کہہ سکتا ہوں کہ ابھی کوئی زیادہ عرصہ نہیں گزرا ۔ صرف تیرہ سو سال ہوئے ہیں کہ عرب کے ملک میں جو دنیا کے تمام آرام و آرائش کے سامانوں سے مُعرّا اور خالی تھا ایک ایسا شخص پیدا ہوا جو ظاہری علوم کے لحاظ سے اپنا نام لکھنا بھی نہ جانتا تھا۔ اس پر خدا ئے ذوالجلال نے اپنا جلوہ ڈالا اور اس کے منہ سے ایک آواز بلند کروائی اور دنیا کو اس کے ذریعہ اپنی محبت اور پیار کی اطلاع دی ۔ وہ شخص اور اس کی پیدا کی ہوئی جماعت کیسی تھی اور کن امنگوں کو لے کر اٹھی تھی اس کی ہمت کتنی بلند تھی اور اس کے حوصلے کس قدر وسیع اور کتنے بڑھے ہوئے تھے اس کا پتہ اس چھوٹے سے معاملہ سے لگ سکتا ہے کہ ایک دفعہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہؓکو فرمایا کہ مردم شماری کرو کہ مسلمان کتنے ہیں۔ چونکہ اسلام کا ابتدائی زمانہ تھا اس لئے بہت کم لوگ اسلام میں داخل ہوئے تھے جو چند سو سے زیادہ نہ تھے مگر وہ ہمت اور جرأت ، وہ اخلاص اور دلیری جو محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیرؤوں میں ڈال دی تھی اور وہ امنگیں اور آرزوئیں جو ان کے دلوں میں موجزن تھیں وہ معمولی نہ تھیں۔ چنانچہ جب رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مسلمانوں کی مردم شماری کرو اور کی گئی تو کُل سات سو مسلمان نکلے ۔ تاریخ میں آتا ہے کہ کُل سات سو مسلمان جو اس زمانہ کی طاقتوں کا لحاظ کرکے اتنے قلیل تھے کہ ان کوایک جماعت کہنا بھی مشکل تھا ان کے حوصلے اتنے بڑھے ہوئے تھے کہ ایک صحابی ؓ نے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو کہا کہ یہ جو آپ نے مردم شماری کرائی ہے اور ہم سات سو نکلے ہیں کیا اب بھی آپؐکو خطرہ ہے کہ ہمیں دنیا مٹا سکتی ہے اور ہم دنیا سے مٹ سکتے ہیں؟ یہ کبھی نہیں ہوسکتا ۔ساری دنیا کو روحانی طور پر فتح کرنے والوں کی یہ تعداد تھی مگر ان کی ہمت اور جرأت اتنی بلند تھی کہ کہتے ہیں کہ کیا ہم سات سو ہو کر دنیا سے مٹ سکتے ہیں اور اتنی تعداد کو دنیامٹاسکتی ہے ؟ہرگز نہیں۔
دراصل یہ وہ تعداد نہیں بول رہی تھی اور یہ آواز اس تعداد کی طرف سے نہیں آرہی تھی اس بات کو کوئی عقلمند تسلیم نہیں کرسکتا بلکہ یہ وہ ایمان ،وہ یقین اور وہ اخلاص بول رہا تھا جو ان کے دلوں میں تھا اور اس اخلاص کو لے کر جب وہ اٹھے اور اس ہمت بلند کے ساتھ اٹھے تو تمام دنیا میں پھیل گئے اور کوئی روک ان کے راستہ میں رکاوٹ نہ ڈال سکی۔ آج مسلمان کہلانے والوں کی حالت اچھی ہو یا بری ،وہ عالم ہوں یا جاہل، امیر ہوں یا غریب مگر محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب ہونے والے چالیس کروڑ لوگ دنیا میں موجود ہیں جو کسی مصنوعی ذریعہ سے نہیں ، قومی اور دنیاوی سامانوں کے ذریعہ سے نہیں بلکہ اس ایمانی طاقت اور روحانی جذبہ سے پھیلے جو رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے پیروؤں میں پیدا کردیا تھا اور اب دنیا کا کوئی گوشہ ایسا نہیں جہاں رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر درود بھیجنے والے لوگ موجود نہ ہوں۔
لیکن کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک تو وہ زمانہ تھا کہ صحابہؓ کہتے تھے کہ اب تو ہم سات سو ہوگئے ہیں اب ہمیں کوئی نہیں مٹا سکتا یا آج یہ زمانہ ہے کہ چالیس کروڑ مسلمان ہیں جن کے دل اس لئے دھڑ دھڑکررہے ہیں کہ لوگ ہمیں مٹا دیں گے ۔ وہ تو سات سو ہوکر کہتے تھے کہ اب کون ہے جو ہمیں مٹا سکے اور کجا ان سات سو کی طرف سے یہ آواز نکلتی ہے کہ کوئی قوت ہمیں مٹانہیں سکتی یا آج چالیس کروڑ انسانوں کا یہ حال ہے کہ کانپ رہے ہیں کہ دنیا ہمیں مٹا دے گی۔ اور بے وجہ اور بلا سبب نہیں کانپ رہے بلکہ اس کی وجہ ہے اور وہ یہ کہ چاروں طرف سے آواز آرہی ہے کہ عنقریب دنیا اسلام کو لغو سمجھ کر چھوڑ دے گی اور مسلمان دنیا سے مٹ جائیں گے۔ یہ آواز سچی ہو یا جھوٹی لیکن اس میں شک نہیں کہ مشرق اور مغرب ،شمال اور جنوب سے یہی آواز آرہی ہے اور مسلمان اپنا مٹنا اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں اور اس قسم کی آوازوں کو اپنے کانوں سے سن رہے ہیں۔ یہ آوازیں ایک مدت تک ان لوگوں کے مونہوں سے نکلتی تھیں جن کی زندگیاں اپنے مذہب کیلئے وقف تھیں لیکن اب یہ آواز ایک ایسے شخص کی طرف سے آئی ہے جو مذہبی میدان کا سوار نہیں بلکہ سیاسی میدان کا بہت بڑا پہلوان اور شاہسوار ہے ۔ اس کی طرف سے یہ آواز آئی ہے کہ ’’ آئندہ دنیا کے امن و امان کی بنیاد صرف عیسائیت کے اصول پر رکھی جاسکتی ہے‘‘ اس لئے اس نے تمام بنی نوع سے اپیل کی ہے کہ وہ اس کو قبول کریں تاکہ وہ دنیا میںامن و امان قائم کرنے میں ممد و معاون بن سکیں۔ اس کے متعلق اگر اس بات کو مدنظر رکھا جائے کہ یہ آواز ایک ایسے شخص کے منہ سے نکلی ہے جو مذہبی نہیں اور قطعًا نہیں جانتا کہ مذہب کی صداقت کے کیا دلائل اور کیا ثبوت ہوتے ہیں تو اس لحاظ سے اس کی آواز کچھ بھی وقعت نہیں رکھتی ۔لیکن اگر اسے اس لحاظ سے دیکھیں کہ یہ آواز اس شخص کے منہ سے نکلی ہے جو دنیا میں امن قائم رکھنے کا ذمہ دار ہے اور اس زمانہ میں ساری دنیا کی نظر یںاس پر لگی ہوئی ہیں تو اس میں ایسی اہمیت پائی جاتی ہے جس کو ہرگز نظر انداز نہیں کیا جاسکتا۔
چونکہ یہ مادی زمانہ ہے اور لوگوں کی توجہ بڑے بڑے لوگوں کی طرف لگی ہوئی ہے اس لئے اس آواز میں جس قدر خطرات اور اندیشے پنہاں ہیں وہ ہر ایک عقلمندسمجھ سکتا ہے ۔ پس اس موقع پر جبکہ مجھے لاہور آنے کا اتفاق ہوا میں نے ضروری سمجھا کہ اس آواز کا جواب جو اسلام کی طرف سے ہے وہ آپ لوگوں کو سناؤں۔ دوسرے مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کی طرف سے جو جواب مناسب سمجھیں دے سکتے ہیں لیکن میں چونکہ اسلام کا مدّعی ہوں اس لئے اسلام کی طرف سے اس کا جواب دینا ضروری سمجھتا ہوں۔
انگلستان کے وزیر اعظم نے یہ پیغام خاص طور پر مسلمانوں کو مخاطب کرکے نہیں دیا مگر اس سے نکلتا یہی ہے کہ اس کے اصل مخاطب مسلمان ہی ہیں کیونکہ یورپ کے قریب اور عیسائیوں سے ملنے جلنے والی اور زیادہ تعلق رکھنے والی یہی قوم ہے اور عیسائیوں کا سب سے زیادہ واسطہ مسلمانوں سے ہی پڑتا ہے ۔ پس چونکہ اس آواز میںمخفی طور پر مسلمانوں کو ہی بلایا گیا ہے اس لئے آج میں اسلام کی طرف سے جواب دینے کیلئے کھڑا ہوا ہوں۔
بہت سے لوگ وزیر اعظم کے اس پیغام سے گھبرائے ہیں اور انہوں نے کہا ہے کہ یہ ہمارے مذہب کی ہتک کی گئی ہے۔ ایک سیاسی حکمران کا کیا حق ہے کہ مذہب میں دخل دے اور لوگوں کو اپنے مذہب کی طرف بلائے مگر میرے نزدیک یہ ٹھیک نہیں ہے۔ میں تو اس آواز کو سن کر بہت خوش ہوا ہوں ۔ وجہ یہ ہے کہ یورپ ایک عرصہ سے مادیات کی طرف جارہا ہے اور بڑے بڑے لوگ مذہب کی طرف توجہ نہیں کرتے اس وجہ سے انہیں جب کوئی مذہبی بات سنائی جاتی تو وہ نہ سنتے تھے مگر اب جبکہ ایک بڑے سیاسی آدمی نے ہمیں اپنی طرف سے مذہبی پیغام دیا ہے تو اسے ہمارا جواب بھی سننا پڑے گا۔ جب تک اسلام کو مخاطب کرنے کے قابل نہ سمجھا جاتا اس وقت تک ہمارے لئے انہیں کوئی مذہبی بات سنانا مشکل تھی مگر اب جبکہ ہمیں خود مخاطب کیا گیا ہے تو انہیں ہمارا جواب بھی سننا پڑے گا اور یہ خداتعالیٰ نے ہمیں موقع دیا ہے۔ اس کی مثال اسلام کی طاقت، شوکت اور صداقت کو مدنظر رکھ کر میں ایسے ہی سمجھتا ہوں جیسا کہ شکار جب تک نشانہ پر نہ آئے اور ادھر ادھر رہے اس وقت تک بچ سکتاہے مگر جب نشانہ پر آجائے تو پھر نہیں بچ سکتا ۔ پس اب جبکہ اسلام کو مخاطب کیا گیا ہے تو اسلام کی طرف سے جواب بھی سننا پڑے گا اور معلوم ہوجائے گا کہ دنیا میں امن کی بنیاد اسلام پر رکھی جاسکتی ہے نہ کہ مسیحیت پر۔ اور ہم یہ جواب بتائیں گے اورکھول کھول کر بتائیں گے اور جس طرح ہم نے ٹھنڈے دل سے وزیراعظم کے پیغام کو سنا ہے ان کو بھی اسی طرح ہمارا جواب سننا ہوگا۔ اور اگر وہ نہ بھی سنیں گے تو ان کے نام پر ان کے اہل ملک سنیں گے۔ پس یہ ہمارے لئے اسلام کی تعلیم کو پیش کرنے کا ایک موقع نکلا ہے اور خدا نے ہمیں شکار دیا ہے جو خود کھنچ کر ہمارے پاس آگیا ہے ۔ وہ لوگ جو پہلے اسلام کی حقیقت کو نہیں سن سکتے تھے وہ اب مسٹر لائڈ جارج (Mr. Lloyd George) کے نام سے سنیں گے اور جہاں جہاں ہمارا یہ لٹریچر پہنچے گا وہاں کے لوگ مسٹر لائڈ جارج کے نام سے اسے پڑھنے کیلئے مجبور ہوں گے اور یہ ان پر اثر کرے گا ۔ پس ہمارے لئے یہ ناراضگی کی بات نہیں ہے بلکہ خوشی کا مقام ہے کہ ہمارے لئے اسلام کی تعلیم کو پیش کرنے کا دروازہ کھلا ہے کیونکہ جس طرح دنیاوی طور پر مسٹرلائڈ جارج پر امن کی امید رکھی جاتی ہے اسی طرح روحانی طور پر امن قائم ہونے کیلئے اس کی آواز کو باوقعت سمجھا جائے گا۔ گو یہ نادانی سے ہی سمجھا جائے لیکن یہ موجب ہوگا اس لٹریچر کے پڑھنے کا جو ہم مسٹر لائڈ جارج کے جواب میں اسلام کی طرف سے پیش کریں گے ۔
مسٹر لائڈ جارج کا اعلان یہ ہے۔وہ کہتے ہیں کہ دنیا کا پہلا امن برباد ہوگیا ہے او ر اب نئے سرے سے امن قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس کیلئے وہ یہ کہتے ہیں کہ تمام دنیا کے انسان یہ تسلیم کریں کہ مسیح خدا باپ ہے اور مسیحیت کی تعلیم پر ہی امن کی بنیاد ہے۔ اگر لوگ ایسا نہیں کریں گے تو جس قدر بھی امن قائم کرنے کے لئے ظاہری کوششیں کریں گے سب بے کار جائیں گی ۔ ہاں اگر انجیل کی تعلیم کو مان لیں گے ، اس پر عمل کریں گے اور مسیح کو خدا باپ تسلیم کرلیں گے تو امن قائم ہوجائے گا ۔
یہ ان کا دعویٰ ہے۔ان کے اس اعلان کے متعلق میں اس وقت دو طرز پر کچھ بیان کرنا چاہتا ہوں۔ ایک تو اس طرز سے کہ آیا مسیحیت کی تعلیم دنیا میں امن قائم کرسکتی ہے یا نہیں؟ اور دوسرے یہ کہ اگر مسیحیت امن قائم نہیں کر سکتی تو اور کونسا مذہب ہے جو قائم کرسکتا ہے ؟ لیکن اس سے پہلے اصولی طور پر یہ سمجھ لینا چاہئے کہ اگر کسی مذہب کے آدمیوں میں اِدبار پایا جائے تو یہ اس مذہب کے ناقص ہونے کی دلیل نہیں ہوسکتا اور نہ اس مذہب کی صداقت کے خلاف اس کو پیش کیا جاسکتا ہے۔ اگر کوئی اس مذہب کی تعلیم پر عمل نہیں کرتا تو اس سے اس مذہب پر الزام کیسا۔ مثلاً ایک لڑکا جس کے ماں باپ اسے ہر روز سکول بھیجتے ہیں مگر وہ سکول نہیں جاتا اور امتحان کے وقت فیل ہوجاتا ہے تو اس کا فیل ہونا سکول کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔ پس اسلام اور مسیحیت کا مقابلہ کرتے وقت ہم ان کی تعلیموں کو دیکھیں گے اور جس طرح ہم ایک عیسائی کی اخلاقی اور مذہبی ناقص حالت کو دیکھ کر یہ نہیں کہیں گے کہ یہ عیسائیت کا قصور ہے بلکہ یہی کہیں گے کہ اس کا انجیل پر عمل نہیں ہے ۔ اسی طرح مسلمان اگر قرآن کے خلاف کرتے ہوں گے تو اس کا الزام قرآن پر نہیں آئے گا بلکہ یہی کہا جائے گا کہ وہ قرآن پر عمل نہیں کرتے ۔پس دیکھنا یہ چاہئے کہ انجیل نے کیا تعلیم دی ہے اور قرآن نے کیا۔ اگر عیسائی صاحبان انجیل کو چھوڑ کر دنیا میں ترقی کرتے ہیں تو ان کی ترقی انجیل کی طرف منسوب نہیں کی جاسکتی ۔اسی طرح اگر مسلمان قرآن کو چھوڑ کر تنزل اور اِدبار میں پھنس جاتے ہیں تو اس کو بھی قرآن کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا ۔ ہاں عیسائیوں کے انجیل کی تعلیم کوچھوڑ کر ترقی کرنے پر کہا جائے گا کہ انجیل کی تعلیم ناقص ہے ۔ اسی طرح اگر مسلمانوں کو قرآن کو چھوڑ کر عروج حاصل ہو تو قرآن کی تعلیم کو بھی ناقص سمجھا جائے گا۔
اس تمہید کو بیان کرنے کی ضرورت مجھے اس لئے پیش آئی کہ جو عام طور پر لوگ محض رسمًا اپنے آپ کو کسی مذہب کی طرف منسوب کرتے رہتے ہیں عملًا اس مذہب کی تعلیم پر کاربند نہیں ہوتے۔ وہ اس مذہب کی تعلیم پر عمل تو نہیں کرتے لیکن اس کو چھوڑتے بھی نہیں۔ اس لئے یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ اگر وہ اپنے مذہب کی تعلیم کے خلاف کرکے ترقی کرتے ہیں یا تنزل تو اس کو اس مذہب کی طرف منسوب نہیں کیا جاسکتا۔
مسٹر لائڈ جارج نے اپنے اعلان میں دنیا کے امن کے لئے دو باتیں پیش کی ہیں۔ ایک تو یہ کہ خدا کے باپ ہونے پر ایمان لایا جائے ۔ آپ لوگوں کو تعجب ہوگا کہ خدا کو باپ مان لینے سے کس طرح امن قائم ہوسکتا ہے۔ مگر یہ بات درست ہے ۔کیونکہ جب ایک چیز سے تعلق ہو تو اس سے تعلق رکھنے والے جتنے لوگ ہوتے ہیں ان سب کی آپس میں محبت ہوتی ہے۔ مثلاً ایک باپ کے دو بیٹوں میں جس قدر پیار اور محبت ہوتی ہے اس قدر دو باپ کے بیٹوں کی آپس میں نہیں ہوتی ۔ اسی طرح ایک گھر میں رہنے والوں کی جتنی محبت ہوتی ہے اتنی دوسرے گھر میں رہنے والوں سے نہیں ہوتی۔ تو جتنا جتنا تعلق کسی چیز سے لوگوں کا بڑھتا جاتا ہے اتنی ہی ان کی آپس کی محبت بڑھتی جاتی ہے اور انسان اس کی نقل کرنے اور اس کی ہر بات کو پسند کرنے لگتا ہے۔ اس بات کو مدنظر رکھتے ہوئے کہا جاسکتا ہے کہ جب تمام لوگ یہ مان لیں کہ خدا ہمارا باپ ہے تو ہر ایک کی یہ کوشش ہوگی کہ چونکہ دوسرا انسان میرا بھائی ہے میں اس کو کسی قسم کی تکلیف نہ دوں اور کسی قسم کانقصان نہ پہنچاؤں بلکہ جس قدر بھی ہوسکے اسے نفع پہنچاؤں ۔ پس وزیر اعظم کے یہ کہنے سے کہ سب لوگ خدا مسیح کو باپ تسلیم کرلیں اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ اس طرح سب لوگ بھائی بھائی ہوجائیں گے اور کوئی کسی دوسرے سے نہیں لڑے گا۔
یہ بات تو درست ہے مگر اس پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ا س سے پہلے دو باتیں حل ہوجائیں تو ہم مان سکتے ہیں کہ اس طرح دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے ۔ ایک تو یہ کہ کیا صرف مسیحیت ہی اس عقیدہ کو پیش کرتی ہے کہ خدا باپ ہے اور کوئی دوسرا مذہب اس کو پیش نہیں کرتا کیونکہ اگر کوئی اور مذہب بھی یہی عقیدہ پیش کرتا ہے تو پھر کیا وجہ ہوسکتی ہے کہ اس کوچھوڑ کر عیسائیت کو اختیار کیا جائے ۔ عیسائیت کو قبول کرنے کی ضرورت اس وقت ہوسکتی ہے جبکہ اور کسی مذہب نے خدا کو باپ نہ قرار دیا ہو ۔اگر قرار دیا ہے تو پھر عیسائیت کو اس عقیدہ کی وجہ سے قبول کرنے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ مثلاً جب ایک ہندو کو کہا جائے گا کہ تم اپنے مذہب کو چھوڑ کر اس لئے عیسائیت کو قبول کرلو کہ عیسائیت خدا کو باپ قرار دیتی ہے تو وہ کہے گا کہ میں اس وجہ سے کیوں اپنا مذہب چھوڑوں جبکہ اس میں خود بھی یہی تعلیم دی گئی ہے۔اگر یہ عقیدہ میرے مذہب میں نہ ہوتا تو میں عیسائیت کو قبول کرلیتا۔ اسی طرح مسلمان کہے گا کہ اگر ہمارے مذہب میں اس سے بڑھ کر خدا کے متعلق عقیدہ رکھنے کی تعلیم دی گئی ہے تو میں کیوں اسے چھوڑ کر عیسائیت کو مانوں وہ مجھے کیا فائدہ دے سکتی ہے۔
دوسری بات یہ ہے کہ اگر مان لیا جائے کہ یہ عقیدہ صرف عیسائیت میں ہی ہے اور کسی مذہب میں نہیں تو جس مذہب میں اس سے بہتر عقیدہ ہو اس کو کیوں نہ قبول کیا جائے اور جو مذہب یہ ادنیٰ عقیدہ سکھاتاہے اس کو چھوڑ کر اعلیٰ عقیدہ کیوں نہ اختیار کیا جائے ۔
سب سے پہلے میں یہ بتاتا ہوں کہ قریبًا دنیا کا کوئی بھی مذہب ایسا نہیں ہے جس نے اس عقیدہ کونہ لیا ہو کہ خدا باپ ہے۔ معلوم ہوتا ہے وزیر اعظم صاحب کو سیاسی دوڑ میں گھوڑے دوڑاتے او ر اسی شغل میں مصروف رہنے کی وجہ سے دوسرے مذاہب سے واقفیت نہیں ہے ورنہ وہ کبھی اس وجہ سے عیسائیت کوقبول کرنے کی دعوت نہ دیتے کیونکہ دنیا کے وحشی سے وحشی اور قدیم سے قدیم مذہب میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ خدا باپ ہے۔ ہندو چونکہ ایک نہایت قدیم مذہب ہے اور جو بڑے بڑے علوم کا وارث ہے اس میں بھی یہ عقیدہ پایا جاتا ہے اور اس کی ابتدائی کتاب سے اس کا ثبوت ملتا ہے۔ چنانچہ رِگ وید میں خدا کے متعلق آتا ہے کہ ’’آپ ہمارے پِتا ہو‘‘ راجہ خدا سے دعا کرتا ہے کہ’’ اے پرمیشور! آپ ہمارے باپ ہیں ۔‘‘ اب کوئی تحقیقات لے لیں کہ ہندو کہتے ہیں ہمارے مذہب کی بنیاد کئی لاکھ سال ہوئے رکھی گئی ہے یا جو عیسائی کہتے ہیں کہ ہندو مذہب کی بنیاد کئی ہزار سال پہلے رکھی گئی ۔ بہر حال یہ تو ظاہر ہے کہ ہندو مذہب حضرت مسیح سے بہت پہلے کا ہے اور اس میں یہ تعلیم دی گئی ہے پھر کیا وجہ ہے کہ ہندو صاحبان عیسائیت کو قبول کریں آخر کوئی تو وجہ ہونی چاہئے ۔ جب خود ان کے مذہب میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے کہ خدا باپ ہے تو وہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر کیوں عیسائیت کو قبول کریں ۔ وہ تو اپنے مذہب میں ہی رہ کر اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں ۔ یہ تو ایک مہذب مذہب کا حال ہے جو علمی اور فاتح قوم ہوگذری ہے لیکن اگر ہم اس کو بھی جانے دیں تو دنیا کی چھوٹی چھوٹی اور ادنیٰ قوموں میںبھی یہی عقیدہ پایا جاتا ہے۔ مثلاً مغربی افریقہ کا ایک قبیلہ ہے جس کا نام بنٹو (Bantu)ہے اس کے لوگوں سے بھی اگر خداکے متعلق پوچھا جائے تو وہ کہتے ہیں کہ خدا ہمارا باپ ہے اور یہ بات ہمارے باپ دادا ہمیں بتاتے آئے ہیں ۔ چنانچہ وہ اس عقیدہ کا نام بچمبو رکھتے ہیں ۔ پس جبکہ افریقہ کا ایک حبشی بچمبو نام کے نیچے خدا کو باپ قرار دیتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ وہ اپنے مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت کوقبول کرے۔ یہ تو ہندوستان اور افریقہ کی بات ہوئی۔
اب ہم امریکہ کو لیتے ہیں اور وہاں دیکھتے ہیں۔ وہاں کے ایک علاقہ میںایک قدیم قوم ہے جو کہتی ہے کہ سب سے بڑا باپ خدا ہے۔پس جب قدیم زمانہ سے یہ عقیدہ چلا آتاہے اور معلوم ہوتا ہے کہ سب مذاہب میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے تو پھر کیوں ان مذاہب کے لوگ اپنے اپنے مذہب کو چھوڑ کر عیسائیت کو قبول کرلیں۔ کیا ایسا ہوتا ہے کہ کسی کے اپنے گھر میں پانی موجود ہو اور وہ دوسرے کے گھر مانگنے جائے ؟ہاں اگر نہ ہو تو جاتا ہے۔ پس جبکہ یہ عقیدہ سب مذاہب میں پایا جاتا ہے تو وہ کیوں عیسائیت کو قبول کریں۔ مگر اس موقع پر عیسائی صاحبان ایک بات کہتے ہیں گو مسٹر لائڈ جارج کا اعلان مختصر ہے اور انہوں نے کہی ہے مگر ایڈنبرا یونیورسٹی کے ایک پروفیسر صاحب نے کہا ہے کہ صرف یہ ماننا کہ خدا باپ ہے مفید نہیں ہوسکتا بلکہ یہ ماننا چاہئے کہ خدا نجات دہندہ ہے اور وہ اس طرح کہ جس طرح ایک باپ اپنے بچوں کو تکلیف میں دیکھ کر ان کی مدد کرتا ہے اسی طرح خدا انسانوں کو مصائب اور مشکلات میںدیکھ کر انسانوں کی شکل میں آیا اور آکر اس نے لوگوں کو مشکلات سے بچایا۔پس ہم خدا کو یونہی باپ نہیں مانتے بلکہ عملی طور پر چونکہ اس کا ثبوت رکھتے ہیں اس لئے مانتے ہیں۔مگر یہ دعویٰ بھی نہیں چل سکتا کیونکہ ہندو مذہب بھی کہتا ہے کہ جب لوگ مذہب کوچھوڑ کر گناہوں میں ڈوب جاتے ہیں تو خدا انسان کی شکل میں اوتار ہو کر دنیا میں آتا ہے اور لوگوں کو بچاتا ہے۔ چنانچہ ہمارے مذہب میں بڑے بڑے اوتار گزرے ہیں ان میں سے سب سے بڑے اوتار کرشن جی مہاراج تھے تو ہندو صاحبان کہتے ہیں کہ خدا نے اپنا سب سے بڑا جلوہ کرشن جی مہاراج کے ذریعہ دنیا میں ظاہر کیا اور لوگوں کو گناہوں اور پاپوںسے نجات دی ۔ پس جب یہ عقیدہ مسیحیت سے ہزاروں سال پہلے کاہندو مذہب میں موجود ہے کہ خدا انسان کی شکل اختیار کرکے دنیا میں آتا ہے اور لوگوں کو ہدایت دیتا ہے تو پھر کیا وجہ ہے کہ مسیحیت کو اختیار کیا جائے ۔ پس ہم کہتے ہیں جب یہی بات ہندو مذہب میں پائی جاتی ہے تو مسیحیت کی کوئی خصوصیت نہ رہی۔ بلکہ ہم تو یہ کہتے ہیں کہ مسیحیت کا یہ عقیدہ اپنا نہیں بلکہ دوسروں سے لیا ہوا ہے۔ چنانچہ پرانی تاریخوں سے ثابت ہوگیاکہ ایک قوم جو میڈی ٹیرین کے مشرقی علاقہ میں رہتی تھی اس کا عقیدہ تھا کہ خدا اَوتار ہو کر دنیا میں آتا اور لوگوں کو نجات دیتا ہے اور چونکہ اسی جگہ مسیحیت نے خاص طور پر پرورش پائی ہے اس لئے ہم کہتے ہیں کہ یہ عقیدہ مسیحیت نے وہیں سے لیا ہے۔ اس لئے اگر اس عقیدہ کی وجہ سے کوئی مذہب قبول کرنا چاہیے تو اسی کو قبول کرنا چاہیے جس سے مسیحیت نے یہ عقیدہ سیکھا ہے۔
تو یہ عقیدہ بھی صرف مسیحیت کا ہی نہیں بلکہ اور مذاہب کا بھی ہے پھر ان کو کیوں نہ قبول کیا جائے۔ لیکن ان مذاہب کو قبول کرنے کی وجہ سے دنیا میںامن قائم نہیں ہوسکتا تو مسیحیت کو قبول کرنے سے کیونکر ہو جائے گا۔
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام کا کیا عقیدہ ہے اور وہ عقیدہ اعلیٰ ہے یا مسیحیت کا پیش کردہ عقیدہ ۔قرآن کریم میں کسی جگہ خداتعالیٰ کو باپ نہیں کہا گیا اور رسول کریمﷺ کے کلام میں بھی خداتعالیٰ کو باپ نہیں قراردیا گیا ۔ اس لئے ہمیں مسٹر لائڈ جارج کہہ سکتے ہیں کہ اور مذاہب میں اگر یہ عقیدہ پایا جاتا ہے تو ان کے ماننے والے لوگ اپنے اپنے مذہب میں رہیں مگر تمہارے مذہب میں تو یہ نہیں ہے تم تو اپنے مذہب کو چھوڑ دو کیونکہ تمہارے اس بیان سے بے شک یہ نتیجہ نکلتا ہے کہ امریکہ کے لوگوں میں یہ عقیدہ پایا جاتا ہے ، افریقہ کے لوگ بھی یہی عقیدہ رکھتے ہیں اور ہندوؤں میں بھی یہی عقیدہ ہے وہ اپنے مذہب کو نہ چھوڑیں مگر تم توچھوڑ دو کیونکہ تم خود اقرار کررہے ہو کہ تمہارے مذہب میں یہ عقیدہ نہیں پایا جاتا ۔مگر ہمیں یہ نہیں کہا جاسکتا کیونکہ ہم جو عقیدہ پیش کرتے ہیں وہ اس سے بڑھ کر ہے جو عیسائیت پیش کرتی ہے۔ لیکن اس کو تفصیل سے بیان کرنے سے قبل میں یہ بھی بتا دینا چاہتا ہوں کہ وہ مذاہب جن کو حقارت سے دیکھا جاتا اور جن کے پیروؤں کو عیسائیت کے قبول کرنے کی طرف بلایا جاتا ہے وہ بھی صرف یہی نہیں کہتے کہ خدا باپ ہے بلکہ اس سے بڑھ کر بتاتے ہیں۔ مثلاً کوئی ہندو یہ نہیں کہے گا کہ یہ صرف مثال ہے سمجھانے کیلئے کہ خداتعالیٰ سے تمہیں کس قدر محبت کرنی چاہئے۔ اس مضمون کو سمجھانے کیلئے رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مثال کی طرف مسلمانوں کو توجہ دلائی تھی۔ تبوک کی جنگ تھی جس میں عین اُس وقت جبکہ لڑائی ختم ہوگئی تھی مگر قیدی پکڑے جارہے تھے تو ایک عورت بھاگی بھاگی پھرتی تھی اور جو بچہ اسے ملتا اسے اٹھاتی اور پیار کرکے چھوڑ دیتی۔ اسی طرح کرتے کرتے اس کو ایک بچہ مل گیا جس کو اس نے اپنی چھاتی سے چمٹا لیا اور آرام سے ایک طرف بیٹھ گئی۔ اس وقت رسول کریمﷺ نے صحابہؓکو کہا کیا تم نے اس عورت کو دیکھا ہے؟ جس طرح اس کو اپنے بچہ سے محبت ہے اس سے بڑھ کر خداتعالیٰ کو اپنے بندوں سے محبت ہے۔ (صحیح البخاری کتاب الادب باب رحمۃالولد و تقبیلہ و معانقتہ حدیث نمبر 5999 ) گو تعلیم و تربیت کرنے اور مال خرچ کرنے کے لحاظ سے باپ کا درجہ ماں کی نسبت بڑا ہے مگر محبت کے لحاظ سے ماں کا درجہ بہت بڑا ہوتا ہے۔ لیکن رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ماں سے بہت بڑھ کر خداتعالیٰ کو اپنے بندوںسے محبت ہوتی ہے۔ اب جبکہ اسلام نے خداتعالیٰ کی محبت کے متعلق یہ بتادیا ہے تو کیا اسے خدا کو باپ کہنے کی ضرورت ہے؟ ہرگز نہیں ۔کیونکہ اس سے زیادہ محبت کرنے والا خدا کو قرار دے دیا گیا ہے۔
اب میں یہ بتاتا ہوں کہ اسلام نے خداتعالیٰ کے لئے کون سا لفظ استعمال کیا ہے ۔عربی اور عبرانی زبانیں جو ایک دوسری کی بہنیں ہیں ان میں قریبًا ایک جیسا لفظ خداتعالیٰ کے متعلق استعمال کیا گیا ہے۔ چنانچہ عبرانی میں خداتعالیٰ کو اب قرار دیا گیا ہے اور عربی میں رب کہتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ جہاں انجیل میں اب پر زور دیا گیا ہے اسلام میں رب کہا گیاہے اور یہ اب سے بڑھ کر مفہوم اپنے اندر رکھتا ہے۔ اب میں یہ بتاتا ہوں کہ یہ لفظ کس طرح بڑھ کر ہے۔ پہلے میںلغت سے اس بات کا ثبوت دیتا ہوں ۔ یہ عربی زبان کا قاعدہ ہے کہ جوں جوں حروف کی زیادتی کی جاتی ہے اور حروف بڑھائے جاتے ہیں توں توں اس لفظ کے معنے میں شدت پیدا ہوتی جاتی ہے اور جب کوئی حرف بدل کر اس سے اگلا حرف رکھا جائے اور اس لفظ کے وہی معنے ہوں جو پہلے کے رکھنے سے ہوتے ہیں تو معنٰی اور زیادہ سخت ہوجاتے ہیں۔ مثلاً تحریص معمولی تحریک کو کہتے ہیں لیکن اگر ص کی بجائے ض رکھا جائے تو نہایت تحریک کے معنٰی ہوجاتے ہیں ۔ اسی طرح قط کاٹنے کو کہتے ہیں اور جب اس کے ساتھ ایک اور حرف ع لگا دیا جائے اور لفظ قطع ہوجائے تو اس کے معنٰی نہایت سختی سے کاٹنے کے ہوجاتے ہیں۔
تو اس طرح معنٰی بڑھتے جاتے ہیں اور ان میں زور پیدا ہوتا جاتا ہے۔ اب جبکہ اب کی بجائے رب کا لفظ ہوگا تو اس سے معلوم ہوگا کہ اب کے جو معنٰی ہوں گے رب کالفظ اس سے بھی زیادہ معنٰی دے گا۔ اب ہم یہ دیکھتے ہیں یہ قاعدہ یہاں چلتا بھی ہے یا نہیں۔ تو معلوم ہوتا ہے کہ رب کے یہ معنٰی ہیں کہ پیدا کرنے والا اور نشوونما کرتا ہوا کمال کو پہنچانے والا۔ یہ رب کے معنٰی لغت میں لکھے ہیں۔ اب بتاؤ باپ کے لفظ میں یہ معنٰی پائے جاتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔ اوّل تو باپ کا تعلق بیٹے سے ناقص ہوتاہے کیونکہ باپ کے جس فعل سے بچہ پیدا ہوتا ہے وہ خود اس کی ایک خواہش ہوتی ہے۔ مگر خداتعالیٰ کے پیدا کرنے میں اس قسم کی کوئی خواہش نہیں ہوتی۔ تو باپ بچہ کو پیدا کرتا ہے مگر اس فعل سے خود لذت حاصل ہوتی ہے لیکن خدا کو انسان کے پیدا کرنے میں ایسی نہیں ہوتی ۔پھر باپ کا بچہ کے پیدا ہونے میں پورا دخل نہیں ہوتا۔ جب بچہ رحم میں ہوتا ہے تو باپ اس کے متعلق کچھ نہیں کرتا۔ پھر جب بچہ باہر آتا ہے تو اس کے اعضاء کے متعلق کچھ نہیں کرسکتا۔ یہ درست ہے کہ باپ بچہ کی پرورش کیلئے روپیہ خرچ کرتا ہے مگر جو کچھ باپ بچہ کیلئے خرچ کرتا اور اس کی نشوونما کیلئے جو چیزیں مہیا کرتا ہے وہ سب خدا ہی کی پیدا کی ہوئی ہوتی ہیں۔ تو خداتعالیٰ کا تعلق انسان کی پیدائش سے باپ کی نسبت بہت بڑھ کرہے۔اس لئے رب کا لفظ جو معنٰی رکھتا ہے وہ اب کے لفظ سے بہت بڑھ کر ہیں اور اس طرح اسلام عیسائیت سے بہت اعلیٰ اور فائق بات بتاتا ہے۔ اب کسی مسلمان کو عیسائیت کے اختیار کرنے کی کیا ضرورت ہے اور کس طرح ایک عیسائی کسی مسلمان کو کہہ سکتا ہے کہ چونکہ عیسائیت خدا کو اب قرار دیتی ہے اس لئے تم اسلام کو چھوڑ کر جو خدا کو رب کہتا ہے عیسائیت کو قبول کرلو۔ یہ تو ایسی ہی بات ہوگی جیسا کہ کوئی کسی کوکہے کہ تیرے پاس روپیہ ہے پیسہ نہیںہے اور میرے پاس پیسہ ہے تم بھی روپیہ کو چھوڑ کر پیسہ لے لو۔ حالانکہ جس کے پاس روپیہ ہے اس کے پاس 64 پیسے ہوں گے۔
پس جو مذہب خدا کو رب قرار دیتا ہے اس کے ماننے والے کو کیا ضرورت ہے کہ اسے چھوڑ کر ایسے مذہب کو اختیار کرے جو خداکو اب کہتا ہے۔ توا سلام خداتعالیٰ کو اب نہیں بلکہ رب پیش کرتا ہے اور جیسا کہ میں نے بتایا ہے رب کا درجہ اب کی نسبت بہت بڑھ کرہے اس لئے کسی مسلمان کو ضرورت نہیں ہے کہ اس کوچھوڑ کر عیسائیت کو قبول کرے۔ پھر جبکہ حضرت مسیح ؑکی شہادت اس امر کے متعلق موجود ہے کہ اب (باپ) کی نسبت ایک اور لفظ میں خدا کا بڑا درجہ پایا جاتا ہے۔ چنانچہ انجیل میں آتا ہے کہ جب حضرت مسیح ؑکو پکڑ کر صلیب پر چڑھایا گیا یہ بات ٹھیک ہے یا نہیں اس کو ہم چھوڑتے ہیں لیکن چونکہ عیسائی اس کو مانتے ہیں اس لئے ہم ان پر حجت قائم کرنے کے لئے اسے پیش کرسکتے ہیں کہ جب حضرت مسیح کو صلیب چڑھایا گیا اور ان کے ہاتھوں پاؤں میں کیل گاڑے گئے اور ان کو سخت کرب اور تکلیف کی حالت ہوگئی تو اس وقت جو الفاظ ان کے منہ سے نکلے وہ یہ تھے ایلی ایلی لما سبقتنی (کتاب مقدس یعنی کتب عہد عتیق و عہد جدید (فارسی) متی باب 27 آیت 46 مطبوعہ بیبل سوسائیٹی دارالسلطنۃ لندن 1925ء) اور یہ قاعدہ کی بات ہے کہ جب کوئی کسی سے کچھ مانگتا ہے تو اسے اپنا قریبی سے قریبی رشتہ یاد دلاتا ہے ۔مثلاً اگر ایک بھائی دوسرے بھائی سے کچھ مانگے تو یہ نہیں کہے گا کہ اے آدم کی اولاد! مجھے فلاں چیز دے بلکہ یہی کہے گا کہ اے میرے باپ کے بیٹے! مجھے فلاں چیز دے۔ چنانچہ حضرت موسیٰ ؑاور حضرت ہارونؑ کا قصہ قرآن میں موجود ہے۔ جب حضرت موسیٰ ؑکے بعد حضرت ہارون ؑ کی موجودگی میں ان کی قوم میں فتنہ پڑا اور حضرت موسیٰؑنے آکر حضرت ہارونؑ کی داڑھی پکڑ لی کہ کیوں تو نے اس طرح ہونے دیا تو اس وقت حضرت ہارونؑ نے حضرت موسیٰ ؑکو ما ں کا ہی رشتہ یاد دلا کر اپنی مخلصی چاہی باپ کا رشتہ یاد نہیں دلایا کیونکہ ماں کے رشتہ میں محبت اور پیار زیادہ پایا جاتا ہے (الاعراف 151:)۔ اب ہم دیکھتے ہیں کہ حضرت مسیح ؑنے اس وقت جبکہ انہیں مشکل پڑی کس لفظ سے خدا کو یاد کیا۔ اگر ان کے نزدیک اب کا تعلق سب سے اعلیٰ ہوتا تو وہ کہتے اے میرے باپ !تو نے کیوںمجھے چھوڑ دیا۔لیکن وہ یہ نہیں کہتے بلکہ یہ کہتے ہیں کہ اے میرے خدا ! تو نے مجھے کیوں چھوڑ دیا۔ اب ظاہر ہے کہ اگر ان کے نزدیک باپ خدا کا انسان سے اصل رشتہ ہوتا اور سب سے بڑا تعلق یہی ہوتا تو وہ باپ کرکے اسے پکارتے نہ کہ خدا کرکے ۔ پس اس سے معلوم ہوا کہ سب سے قریب اور زیادہ رشتہ خدا کا انسان سے ہے نہ کہ اب کا۔ اور یہ کہنا کہ خداکو باپ مان کر دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے درست نہیں ہے بلکہ درست یہ ہے کہ خدا کو رب مان کر دنیا میں امن قائم ہوسکتا ہے کیونکہ اب کی نسبت رب کا تعلق بہت زیادہ ہے۔ اور جس قدر تعلق مضبوط اور زیادہ ہو اسی قدر زیادہ محبت پیدا ہوسکتی ہے۔ دیکھو بھائی سے بھائی اس لئے محبت کرتا ہے کہ سمجھتا ہے ہم ایک باپ کی اولاد ہیں جس نے ہمیں پڑھایا اور ہم پر اپنا مال خرچ کیا ۔ اب جو خدا کو رب سمجھے گاوہ تو آپس میں اس سے بھی زیادہ محبت کرے گا جتنی ایک بھائی دوسرے بھائی سے کرتا ہے۔ کوئی یہ نہ کہے کہ انسان خدا کو اب مان کر بھی دوسروں کی نسبت اپنے بھائی سے زیادہ محبت کر سکتا ہے اس لئے معلوم ہوا کہ باپ کا تعلق زیادہ بڑا ہوتا ہے ۔لیکن یہ درست نہیں ہے کیونکہ ایک بھائی دوسرے بھائی سے اس لئے زیادہ محبت نہیں کرتا کہ وہ اس کے باپ کا بیٹاہے بلکہ اس لئے کرتا ہے کہ اس سے اسے دوہرا تعلق ہے۔ ایک تو وہ اس کے ماں باپ کا بیٹا ہے اور دوسرے اس کے رب کا بندہ ہے۔ تو جو شخص یہ تسلیم کرے کہ میں اس خدا کا بندہ ہوں جس نے سب مخلوق کو پیدا کیا ہے اور جس طرح میں خدا کا بندہ ہوں اسی طرح دوسرے بھی اس کے بندے ہیں تو پھر ممکن نہیں کہ دوسروں کو نقصان پہنچائے ۔ پس دنیا میں امن قائم کرنے کیلئے خدا کو اب سمجھنے کی بجائے رب سمجھنا زیادہ مفید ہوسکتا ہے اور اسلام یہی سمجھنے کی تاکید کرتا ہے ۔
(باقی آئندہ)