در مدح حضرت مصلح موعودؓ
اے تخیّل گر رسائی پر تجھے کچھ ناز ہے
تا سرِ عرشِ بریں تیری اگر پرواز ہے
شاخ ہائے سدرہ پر گر تُو نشیمن ساز ہے
عالمِ ملکوت سے تُو کچھ اگر ہم راز ہے
تو مرے محمود کے احسان کی تصویر کھینچ!
نقش ان کے حسن کا در پردۂ تحریر کھینچ!
پنجۂ تسخیر سے بالا مہِ کامل نہیں
توڑنا تارے فلک کے یہ کوئی مشکل نہیں
غیر ممکن کچھ بیانِ جذبہ ہائے دل نہیں
اور بیروں از احاطہ بحرِ بے ساحل نہیں
پر احاطہ مردِ کامل کا بہت دشوار ہے
یہ وہ نکتہ ہے جہاں ادراک بھی لاچار ہے
دیدۂ ظاہر میں اے محمود اک انساں ہے تُو
اہلِ دل کی دید میں پر بحرِ بے پایاں ہے تُو
صورتِ زیبا میں اپنی یوسفِ کنعاں ہے تُو
سیرت حسنہ میں اپنی مظہرِ رحماں ہے تُو
احمدِ مُرسل کے ثانی حسن میں احسان میں
خوبیاں تجھ سی نہیں ہرگز کسی انسان میں
تُو مقدّس باپ کے ہم رنگ اے محمود ہے
نصرتِ اسلام روحِ والد و مولود ہے
یہ حقیقت وہ ہے جو خود شاہد و مشہود ہے
لاجرم لاریب تُو ہی مصلح موعود ہے
دیر سے آیا ہے تُو اور دُور سے آیا ہے تُو
یعنی اِک نورِ ازل کے نُور سے آیا ہے تُو
حضرتِ احمد سے پہلے تین تھے ایسے بشر
حق تعالیٰ کی بشارت سے ملے جن کو پسر
حضرت ابراہیمؑ اول دوم یحییٰ کے پدر
سوم مریمؑ محصنہ جس پر تھی مولیٰ کی نظر
تیری پیدائش نے احمد کو کھڑا ان میں کیا
ہیں یہی وہ تین جن کو چار تُو نے کر دیا
ارضِ ربوہ پر ہیں جب سے آپ جلوہ گر ہوئے
اس کے ذرّے جگمگاکر ہم سرِ اختر ہوئے
آپ کی ہمّت سے ہی آباد اُجڑے گھر ہوئے
اور قائم از سرِ نَو مرکزی دفتر ہوئے
بالیقیں اپنی اولوالعزمی میں تو اک فرد ہے
اے خدا کے شیر! تو اک آسمانی مرد ہے
تیرے دم سے اے مسیحی روح فاروقی دماغ
خانہ اسلام کا روشن ہوا دھندلا چراغ
عاشقانِ ملّتِ احمد کے دل ہیں باغ باغ
دشمنانِ تیرہ باطن کے ہیں سینے داغ داغ
حق نے باندھا ہے ترے سر سہرۂ فتح و ظفرؔ
اے بشیرالدین محمود احمد و فضلِ عمر
نوٹ: یہ نظم سلور جوبلی کے موقع پر قادیان میں پڑھی گئی۔ نیا مرکز ربوہ بننے کے بعد اس نظم میں مولانا نے چند اشعار کا اضافہ کیا۔