قضاء کا قیام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا عظیم الشان کارنامہ
قضاء کی 100سالہ تاریخ کا مختصر جائزہ
خدائی احکامات کے مطابق قضاء کا قیام انبیاء کی سنت ہے۔ تمام انبیاء ہی لوگوں کے تنازعات کے فیصلے کرتے رہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام اور حضرت سلیمان علیہ السلام کے تو بعض فیصلوں کا ذکر خلفاء سلسلہ بھی فرماچکے ہیں۔ لیکن اس نظام عدل کا اپنے کمال تک پہنچنا خاتم الانبیاء حضرت محمد مصطفےٰﷺ کے ذریعہ ہی مقدر تھا۔ چنانچہ اسلام نے جو نظام عدل متعارف کروایا وہ دنیا کا بہترین نظام عدل ہے۔ اس نظام کے قیام کے لئے آنحضرتﷺ نہ صرف خود فیصلے فرمایا کرتے بلکہ آپؐ نے اپنے صحابہ کی تربیت کے لئے اپنی نگرانی میں ان سے فیصلے بھی کروائے۔ پھر خلفائے راشدین بھی اسی سنت کے موافق لوگوں کے تنازعات کے فیصلے کرتے رہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے باقاعدہ قضائی نظام کی بنیاد رکھی۔ تمام فقہاء اس پر متفق ہیں کہ قضاء کا قیام فرض کفایہ ہے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا ارشاد ہے کہ:
فإن القضاء فريضة محکمة وسنة متبعة۔
(دارقطني، السنن، 4: 607، رقم16:)
’’قضاء ایک محکم فریضہ اور ایسی سنت ہے جس کی اتباع کی جانی ضروی ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ اس کے قیام کی ضرورت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’شریعت کے بعض حصے ایسے ہیں کہ باوجود ان کے سیاسی اور نظام کے ساتھ متعلق ہونے کے گورنمنٹ ان میں دخل نہیں دیتی۔ جیسے قادیان میں قضاء کا محکمہ ہے حکومت اس میں کوئی دخل نہیں دے سکتی کیونکہ اس نے خود اجازت دی ہوئی ہے کہ ایسے مقدمات کا جو قابلِ دست اندازی پولیس نہ ہوں آپس میں تصفیہ کر لیا جائے۔ پس اسلامی شریعت کا وہ حصہ جس میں حکومت دخل نہیں دیتی اور جس کے متعلق حکومت نے ہمیں آزادی دی ہوئی ہے کہ ہم اس میں جس رنگ میں چاہیں فیصلہ کریں، ہمارا فرض ہے کہ اس حصہ کو عملی رنگ میں اپنی جماعت میں قائم کریں اور اگر ہم شریعت کے کسی حصہ کو قائم کر سکتے ہوں مگر قائم نہ کریں تو یقیناً اس کے ایک ہی معنے ہوں گے اور وہ یہ کہ ہم شریعت کی بے حرمتی کرتے ہیں۔ پس اب اس نہایت ہی اہم اور ضروری مقصد کے لئے ہمیں عملی قدم اُٹھانا چاہئے جو خداتعالیٰ نے ہمارے اختیار میں رکھا ہوا ہے اور جماعت کے کسی فرد کی کمزوری یا ٹھوکر کا کوئی لحاظ نہیں کرنا چاہئے۔‘‘
(انوار العلوم جلد15 انقلاب حقیقی۔ صفحہ106)
اسی محکم فریضہ اور فرض کفایہ کی تکمیل کے لئے بعثت ثانیہ میں آج سے سوسال قبل حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے نظام قضاء کی بنیاد رکھی۔ خلفاء سلسلہ نے بے پناہ مصروفیات کے باوجود لوگوں کے تنازعات کے فیصلوں اور قضائی نظام کی بہتری کے لئے وقت دے کر اس کی بنیادیں مستحکم کیں۔ اس وقت احمدیہ دارالقضاء کی شاخیں 18 سے زائد ممالک میں قائم ہوچکی ہیں۔
جہاں تک قضائی معاملات کا تعلق ہے تو حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی کتب سے بھی ہمیں راہنمائی ملتی ہے۔ سیرت المہدی میں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک فیصلہ بھی درج ہے۔ جس میں آپ نے ایک خاتون کا خلع منظور فرمایا۔
اسی طرح حضرت خلیفۃ المسیح الاوّل رضی اللہ عنہ کے ایک فیصلہ کا بھی ذکر ملتا ہے جو ایک گیند (Ball) کے بارے میں تھا جس کا باقاعدہ گواہی لے کر آپ نے فیصلہ فرمایا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے اپنے عہدِ مبارک میں جماعت کے انتظامی ڈھانچے کی بنیاد رکھی اور یکم جنوری 1919ء سے باقاعدہ طور پر مختلف صیغہ جات قائم فرمائے۔ ان دنوں چونکہ الفضل ہفتہ میں دو بار شائع ہوتا تھا اس لئے جماعتی انتظامی ڈھانچے کا پہلا باقاعدہ اعلان مؤرخہ 4جنوری 1919ء کے الفضل میں شائع ہوا۔ اسی اعلان میں قضاء کے قیام کا بھی ذکر تھاکہ قضاء کے لئے حضور نے’’مکرمی قاضی امیر حسین صاحب، مکرمی مولوی فضل دین صاحب اور مکرمی سید میر محمد اسحاق صاحب کو مقرر کیا ہے۔ ‘‘
(الفضل قادیان دارالامان 4؍ جنوری 1919ء ص 1-2)
گو دارالقضاء کا باقاعدہ قیام یکم جنوری1919ء کو عمل میں آیا۔ تاہم 07جنوری1919ء کے اخبار ’’الحکم‘‘ سے پتہ چلتا ہے کہ اس نئے نظام کے حوالے سے حضرت خلیفۃ المسیح الثانی نے 1918ء میں ہی ایک جامع اور مکمل خاکے کا اعلان فرمادیا تھا۔ چنانچہ اخبار الحکم نے اپنی 7جنوری 1919ء کی اشاعت میں حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓکا ایک فرمان محررہ یکم اکتوبر1918ء شائع کیا جس میں حضورؓنے قضاء کے متعلق درج ذیل ارشاد فرمایا۔
’’قاضیوں کا کام فیصلہ کرنا۔ اور قاضی القضاۃ کا اپیل سننا ہے۔ ان کے تمام فیصلوں کی اپیل خلیفۂ وقت کے پاس ہوسکے گی۔ سوائے ان فیصلوں کے کہ جن میں خود خلیفہ ایک یادوسرا فریق ہو۔ ایسے وقت میں قاضی القضاۃ کا فیصلہ آخری اور قطعی ہوگا۔‘‘
(اخبارالحکم 7جنوری1919ء صفحہ نمبر5)
قادیان کے علاوہ دیگر اضلاع میں بھی قاضی مقرر فرمائے۔
حضورؓنے 1918ء کے جلسہ سالانہ کے موقع پر، جو مارچ1919ء میں منعقد ہوا، اپنے دوسرے روز کے خطاب میں قضاء کے قیام کی غرض و غایت بیان کرتے ہوئے فرمایا:
’’پھر ہماری جماعت کے لوگوں میں اگر کسی جگہ کوئی جھگڑا پید اہو جائے تو وہ عدالت میں جاتے ہیں جس سے احمدیت کی ذلّت ہوتی ہے۔ ابتداء میں جب ابھی جھگڑے کی بنیاد پڑتی ہے اس وقت تو ہمارے پاس اس لئے نہیں آتے کہ چھوٹی سی بات کے متعلق انہیں کیا تکلیف دیں لیکن جب بات بڑھ جاتی ہے تو پھر اس خیال سے ہمارے سامنے پیش کرنے سے جھجکتے ہیں وہ کہیں گے پہلے کیوں ہمیں نہ بتایا اور کیوں جھگڑے کو اتنا بڑھایا اس طرح بات بڑھتی بڑھتی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ پھراگر ہم بھی کہیں کہ اس جھگڑے کو چھوڑ دو تو نہیں مانتے اور احمدیت کو چھوڑ دیتے ہیں۔ اس نقص کے پیدا ہونے کی وجہ یہ ہے کہ ہر جگہ محکمہ قضاء مقرر نہیں ہے۔ اگر کچھ لوگوں کو مسائل سکھلا کر مختلف مقامات پر مقرر کردیا جائے تو ایسا نہ ہوتا۔ اب قاضی القضاۃ کا محکمہ تو یہاں مقرر کیا گیا ہے۔ آئندہ موٹے موٹے اور ضروری مسائل کچھ لوگوں کو سکھلا کر مختلف جماعتوں میں انہیں مقرر کردیاجائے تاکہ وہ مقامی جھگڑوں اور فسادوں کا تصفیہ کردیا کریں اور بات زیادہ بڑھ کر خرابی کا موجب نہ ہو۔ ہاں ان کے فیصلہ کی اپیل یہاں کے محکمہ قضاء میں ہوسکے گی۔‘‘
(عرفان الٰہی۔ انوارالعلوم جلد 4صفحہ403شائع کردہ فضل عمر فاؤنڈیشن ربوہ)
دارالقضاء کے ریکارڈ کے مطابق حضورؓنے اپیل پیش ہونے پر جو پہلا فیصلہ فرمایا وہ 10 جون 1919ء کا محررہ ہے اور یہ مقدمہ 12 ستمبر1918ء کو دائر ہوا تھا۔ دارالقضاء ربوہ کی طرف سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے قضائی فیصلہ جات پر مبنی جو کتاب شائع کی گئی ہے اس میں لین دین کے باب میں یہ کیس پہلے نمبر پر درج ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ یکم جنوری1919ء کو قضاء کے باقاعدہ اعلان سے قبل ہی قادیان میں قضاء کا نظام جاری کردیا گیا تھا۔ تاہم حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ نے چونکہ نئے نظام کا باقاعدہ اعلان یکم جنوری 1919ء کو ہی فرمایا تھا اور اسی میں قضاء کے باقاعدہ قیام کا اعلان بھی شامل تھا اور قضاء کے لئے تین احباب مقرر کئے گئے تھے اس لئے تاریخی طور پر ہم کہہ سکتے ہیں کہ قضاء کا باقاعدہ قیام یکم جنوری 1919ء سے ہی ہوا۔
مؤرخہ28 جنوری1919ء کے اخبار الحکم میں مکرم ایڈیٹر صاحب اخبار الحکم نے نوٹ دیا ہے کہ نئے نظام کے تحت دفاتر نے کام شروع کردیا ہے اور ان میں قضاء کا بھی ذکر کیا ہے۔
شروع میں قضاء کا طریق کار یہ تھا کہ قاضی اول کے فیصلہ کے خلاف مرافعہ اولیٰ میں دو قاضی صاحبان اپیل کی سماعت کرتے تھے جن کا تقرر انچارج محکمہ قضاء (ناظم قضاء) کرتا تھا۔ مرافعہ اولیٰ کے فیصلے کے خلاف اپیل کی سماعت حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے۔ 20 اکتوبر1939ء کو حضور نے اپیلوں کی سماعت کے لئے ایک نیا بورڈ قائم فرمایا اور اس بورڈ کے فیصلہ کے خلاف اپیل کی اجازت نہ تھی۔ تاہم حضور نے مورخہ13 جون 1942ء کو ارشاد فرمایا:
’’بعض اوقات دیکھا گیا ہے کہ اپیلیں سننے کے لئے جو بورڈ مقرر کیا گیا ہے ان کے فیصلے میں شرعی احکام کی بناء پر نظر ثانی کرنے اور ان کو ترمیم کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ جہاں ایسی صورت موجو دہوتو فریق مقدمہ بورڈ کے پاس میرے پاس اپیل کرنے کے لئے درخواست کر ے اگر بورڈ اجازت دے تو ایسی اپیل میرے پاس باقاعدہ ہوسکے گی۔ لیکن اگر بورڈ اجازت نہ دے تو اس حکم کا بطور استصواب میرے پاس اپیل ہوسکے گا مگر اس میں فریقین کے حاضر ہونے کی اجازت نہ ہوگی صرف ایک دفتری استصواب ہوگا ۔ پھر اگر اجازت ہوتو اپیل باقاعدہ ہوسکے گی۔‘‘
مکرم انچارج صاحب محکمہ قضاء قادیان مکرم مولوی عبدالرحمٰن صاحب فاضل نے اس بورڈ کے لئے پہلی بار عدالت مرافعہ ثانیہ کانام تحریر کیا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی بیماری تک یہی طریق جاری رہا۔ بیماری کے ایام میں حضور نے مؤرخہ28 نومبر1955ء کو درج ذیل ارشاد فرمایا:
’’میری طاقت نہیں کہ مقدمات کو سنوں۔ وہی فیصلہ آخری ہوگا جو بورڈ قضاء کا ہوگا۔ میں تفسیر کا کام کررہاہوں ۔ وقت بھی نہیں اور صحت بھی ابھی نہیں۔ جس کو اعتراض ہو وہ عدالتوں میں جاسکتا ہے۔‘‘
مؤرخہ 25اکتوبر1956ء کو دوبارہ مکرم ناظم صاحب دارالقضاء کی چٹھی پر مکرم پرائیویٹ سیکرٹری صاحب نے اطلاع بھجوائی کہ
’’ابھی حضور کی صحت اس قابل نہیں ہوئی کہ مقدمات کو سن سکیں اس لئے حسب سابق بورڈ کا ہی فیصلہ آخری ہوگا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثانی رضی اللہ عنہ کی وفات تک یہ طریق جاری رہا۔
شروع میں اس شعبہ کا نام محکمہ قضاء تھا تقسیم ملک کے بعد مؤرخہ15 نومبر1950ء کو ریکارڈ کے مطابق ’’ناظم دارالقضاء پاکستان‘‘ کی مہر استعمال کی گئی۔ ریکارڈ کے مطابق خلافت ثانیہ میں بطور انچارج اور بطور ناظم دار القضاء مرکزیہ پاکستان ربوہ درج ذیل احباب کو خدمت کی توفیق ملی۔
پہلے انچارج کے طور پر حضرت میر محمد اسحاق صاحبؓ اور مکرم مولوی فضل دین صاحب دونوں کے نام ہی مختلف وقتوں میں آتے رہے ہیں۔ تاہم حضرت سیدمیر محمد اسحٰق صاحب رضی اللہ عنہ کے بارے میں کہا جاسکتا ہے وہ پہلے انچارج محکمہ قضاء تھے۔ ان کے علاوہ مکرم مولوی عبد الرحمٰن صاحب مصری، مکرم مولوی عبد الرحمٰن صاحب فاضل (جٹ)، مکرم چوہدری غلام حسین صاحب (اوورسیئر) اور مکرم مولوی تاج الدین صاحب کو بھی بطور ناظم دارالقضاء خدمت کی توفیق ملی۔
تقسیم ہند کے بعد دارالقضاء کا مرکزی دفتر بھی ربوہ میں قائم ہوگیا۔ تاہم تقسیم ہند کے بعد 1951ء میں اللہ تعالیٰ کے فضل سے دارالقضاء قادیان نے دوبارہ کام شروع کردیا تھا۔ حضرت صاحبزادہ مرزا وسیم احمد صاحب پہلے صدر قضاء قادیان مقرر ہوئے۔
حضرت مسیح موعودعلیہ السلام نے حضرت مرزا بشیر الدین محمود احمد المصلح الموعود رضی اللہ عنہ کے بارے میں پیشگوئی فرمائی تھی کہ:
’’وہ سخت ذہین و فہیم ہوگا۔ اور دل کا حلیم۔ اور علومِ ظاہری و باطنی سے پرُ کیا جائیگا… اور اسیروں کی رستگاری کا موجب ہو گا … اور قومیں اس سے برکت پائیں گی۔‘‘
چنانچہ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عظیم الشان کارناموں میں ایک بہت بڑا کارنامہ جماعتی انتظامی ڈھانچہ کی تشکیل اور اس کو مستحکم بنیادوں پر قائم کرنا تھا۔ اسی کے ساتھ حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے احمدیوں کے سول نوعیت کے تنازعات،بلامعاوضہ حل کرنے کے لئے دارالقضاء کے نام سے ایک ادارہ قائم فرمایا۔ اس کی نہ صرف مستقل راہنمائی فرمائی بلکہ بہت سے تنازعات کے خود فیصلے فرماکر قاضیوں کے لئے راہنمائی کا بہت بڑا ذریعہ مہیا کردیا۔
خلافت راشدہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہی باقاعدہ انتظامی ڈھانچے کی بنیاد رکھی گئی اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد خلافت میں ہی قضاء کا ادارہ مستحکم بنیادوں پر قائم ہوا۔ جماعت احمدیہ میں بھی خلافت ثانیہ میں ہی جماعت کے انتظامی ڈھانچے کی بنیاد رکھی گئی اور خلافت ثانیہ میں ہی قضاء کا ادارہ بھی مستحکم بنیادوں پر قائم ہوا۔ قضائی معاملات میں کسی بھی ادارے کے استحکام کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ اس کے باقاعدہ قواعد مرتب ہوں اور طریق کار وضع کیا جائے۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اس حوالہ سے حضرت ابوموسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ کو تفصیلی ہدایات سے نوازا۔ قضائی حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا یہ خط ایک بہت بڑی راہنمائی ہے۔ حضرت عمرؓ خود قضائی نظام کی نگرانی اور راہنمائی فرماتے۔ جہاں دیکھتے کہ قاضیوں سے غلطی ہورہی ہے وہیں ان کی اصلاح فرماتے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے جب قضائی نظام قائم فرمایا تو خلفائے راشدین کی روایات کے مطابق آپ نے نہ صرف خود فیصلے فرمائے بلکہ ہر لمحہ قضائی نظام کی نگرانی اور راہنمائی فرماتے رہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے عہد مبارک میں پہلی دفعہ 1938ء میں دارالقضاء کے باقاعدہ قواعد مرتب ہوئے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ بعض اوقات قاضی کے تقرر کے لئے باقاعدہ امتحان اور جائزہ لیتے تھے۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی مجلس مشاورت 1944 ء میں ایک تجویز کی منظوری عطا فرماتے ہوئے قاضیوں کے لئے باقاعدہ نصاب تیار کرنے کے لئے کمیٹی مقرر فرمائی۔
(رپوٹ مجلس مشاورت 7،8،9اپریل 1944)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بابرکت عہد میں قضاء کو انتظامی امور سے الگ کیا گیا۔ اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی باقاعدہ اس حوالہ سے قاعدہ بنادیا کہ انتظامی ادارے قضاء میں دخل نہیں دے سکیں گے اور قضاء کا بھی کوئی کام نہیں کہ انتظامی اداروں کے کام میں مداخلت کرے۔ پہلے قضاء کے قواعد صدرانجمن احمدیہ کے قواعد میں شامل تھے۔ لیکن پھر قواعد قضاء انجمن کے قواعد سے الگ کردیے گئے۔ (بحوالہ ریزولیوشن 669 /11.11.1942)
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے یہ قاعدہ منظور فرمایا کہ:
’’مقدمات جن کے متعلق قوانین بنانے کا کسی انجمن احمدیہ کو اختیار نہیں ہے۔ یہ پبلک کے حقوق کا سوال ہے۔ جو صرف خلیفۂ وقت بذات خود یا بعد مشورہ مجلس شوریٰ طے کرسکتے ہیں‘‘
حضور کا یہ ارشاد خلافت خامسہ میں منظور شدہ قواعد کے قاعدہ نمبر 6 میں شامل کردیا گیا ہے۔
اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قضاء کو بھی اس امر کا پابند کردیا کہ وہ بھی انتظامی معاملات میں مداخلت نہیں کرسکتی۔ فرمایا:
قضاء انجمن ہائے جماعت احمدیہ کے انتظامی امور میں دخل نہیں دے سکتی۔
(بحوالہ قاعدہ نمبر34۔ مزید تفصیل کے لئے دیکھیں قواعد وضوابط دارالقضاء صفحہ نمبر18 ۔ شائع کردہ نظامت دارالقضاء ربوہ)
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ جب ایک شخص نے گھوڑے کی خرید پر اختلاف کیا تو اس وقت بھی اس شخص کے کہنے پر آپ قاضی شریح (ان کو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے پہلی بار قاضی کے عہدہ پر فائز کیا) کے پاس فیصلہ کے لئے تشریف لے گئے۔
اسی طرح حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی عدل و انصاف کا عظیم الشان نمونہ قائم کرتے ہوئے ذاتی حیثیت میں یعنی بطور حضرت مرزا بشیرا لدین محمود احمد صاحب بذریعہ مختار مکرم مولانا ابوالمنیرنور الحق صاحب قضاء میں دعویٰ دائر کیا۔ ایک معاملہ عام احمدی کے خلاف اس کی ذاتی حیثیت میں تھا۔ اس میں تو باقاعدہ فیصلہ ہوا۔ تاہم دوسرا ذاتی لین دین کے حوالہ سے ایک جماعتی ادارے کے خلاف فہمید حساب کا تھا۔ وہ ادارہ جو براہ راست حضور کا اپناقائم کردہ تھا۔ اگر حضور چاہتے تو اس کو حکم بھی کرسکتے تھے اور خلیفہ وقت کا حکم ہر احمدی کے لئے واجب الاطاعت ہوتا ہے تاہم چونکہ ذاتی لین دین میں حساب فہمی کا معاملہ تھا حضور نے پسند نہ فرمایا کہ بطور خلیفہ ان کو حکم جاری کریں۔ بلکہ باقاعدہ قضاء میں حساب فہمی کی درخواست دی۔ ان کی تفصیل دارالقضاء ربوہ کی طرف سے شائع کردہ کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے قضائی فیصلے حصہ دوئم میں موجود ہے۔
عائلی معاملات خاندانوں میں بے چینی پیدا کرنے کا باعث بنتے ہیں اس لئے ان کے جلد حل کی طرف توجہ دلائی اور ان کے فیصلے کے لئے قضاء کا ایک مرحلہ بھی کم کردیا۔
معاشرے کے کمزور طبقوں کا اس قدر احساس تھا کہ ایک بیوہ کی تاخیر کی شکایت پر فرمایا کہ جلد مسئلہ حل کیا جائے۔ بیواؤں اور یتیموں کو دکھ دینا لعنتی کام ہے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے فیصلہ جات میں جابجا ہمیں راہنمائی ملتی ہے کہ کس طرح آپ نے انصاف کے فروغ کے لئے کار روائی فرمائی ایک جگہ فرمایا کہ حق خواہ امیر کا ہو یا غریب کا حقدار کو اس کا حق ملنا چاہیے۔ یہ نہ ہو کہ امیر کا حق اس لئے دبا دیا جائے کہ لوگ اعتراض کریں گے کہ امیر ہے اس لئے اس کے حق میں فیصلہ کردیا۔ قضاء کو صرف انصاف کو سامنے رکھنا چاہیے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے قضائی نظام کے استحکام کے لئے سینکڑوں فیصلے فرمائے۔ آپؓکے فیصلے پرشوکت اور عدل و انصاف کی عظیم بلندیوں پر فائز نظر آتے ہیں۔ آپؓاپنی بے پناہ مصروفیات میں سے وقت نکال کر لوگوں کے ذاتی مسائل حل کرنے کے لئے مسل کا بڑی تفصیل سے مطالعہ فرماتے تھے۔
حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے قضائی فیصلہ جات پر مشتمل کتاب حضرت خلیفۃ المسیح الثانیؓکے قضائی فیصلے و ارشادات دارالقضاء ربوہ کو شائع کرنے کی توفیق ملی ہے۔ بلا شبہ دارالقضاء کا قیام حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کا ایک عظیم کارنامہ ہے۔
اک وقت آئے گا کہ کہیں گے تمام لوگ
ملت کے اس فدائی پہ رحمت خدا کرے
عہد خلافت ثالثہ میں نظام قضاء
حضرت صاحبزادہ مرزا ناصر احمدصاحب رحمہ اللہ تعالیٰ جب منصب خلافت پر متمکن ہوئے تو قضاء کے حوالہ سے آپ کا ابتدائی ارشاد تھا کہ:
’’حضرت مصلح موعود خلیفۃالمسیح الثانی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آخری چند سالوں میں اپنی بیماری کی وجہ سے بورڈ قضاء کے فیصلوں کے خلاف اپیل سماعت نہ فرماتے تھے۔ بورڈ قضاء کا فیصلہ آخری ہوتا تھا۔ مگر اب بورڈ قضاء کے ہر فیصلے کی اپیل میرے پاس ہوسکے گی۔ خواہ میعاد اپیل گذرچکی ہو۔ جس کا فیصلہ میں خود کرونگا۔‘‘
چنانچہ اس کے بعد بورڈ کے فیصلہ جات پر کثرت سے اپیلیں حضور کی خدمت میں پیش ہوتی رہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ لمبا عرصہ کام کرنے کی توفیق پانے والے محترم صاحبزادہ مرزا غلام احمد صاحب نے بھی خاکسار کو بتایا اور اَمسِلہ سے بھی یہ امر ظاہر ہوتا ہے کہ حضور کی زیادہ تر کوشش ہوتی تھی کہ کسی طرح لوگوں کے تنازعہ کا حل نکل آئے اور جو کسی کا حق نہیں دے رہا اس کو سمجھ لگ جائے اور وہ حق دینے پر آمادہ ہوجائے۔ اس طرح نہ صرف حقدار کو اس کا حق مل جائے بلکہ حق دبانے والا بھی ظلم سے بچ کر خدائی ناراضگی سے محفوظ ہوجائے۔
بعض امسلہ میں لوگوں نے دس دس دفعہ حضور کی خدمت میں لکھا اور دس دفعہ ہی حضورؒ نے قضاء سے رپورٹس طلب فرمائیں۔ ایک معاملہ جس کا بطور سپیشل جج حضرت مرزا طاہر احمد صاحب رحمہ اللہ تعالیٰ نے بھی فیصلہ فرمایا تھا۔ اس کے بعد حضور کی خدمت میں اس پر اپیل کی گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ نے فیصلہ فرمایا۔ پھر کسی فریق نے کوئی اعتراض کردیا۔ غرض کئی دفعہ یہ معاملہ پیش ہوتا رہا۔ ایک وقت آیا کہ حضور رحمہ اللہ تعالیٰ مکرم ناظر صاحب اعلیٰ، ناظر صاحب امورعامہ اور ناظم صاحب دارالقضاء کے ہمراہ موقع پر دارالرحمت ربوہ تشریف لے گئے اور بعد ملاحظہ فیصلہ فرمایا اور ساتھ ہی فرمایا کہ اب اس کے بعد میں ان کا اس بارے میں کوئی جھگڑا نہ سنوں گا۔
خلافت ثالثہ میں 1977ء میں پہلی بار پاکستان اور ہندوستان سے باہر انگلستان میں قضاء کا قیام عمل میں آیا۔ حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ نے حضرت چوہدری سر محمد ظفراللہ خان صاحب کو پہلا صدر قضاء بورڈ انگلستان مقرر فرمایا۔(حضرت خلیفۃ المسیح الثالث ؒ کے قضائی فیصلے و ارشادات شائع کردہ نظامت دارالقضاء ربوہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے و ارشادات کے عنوان سے ایک کتاب بھی دارالقضاء ربوہ سے شائع ہوچکی ہے۔
عہدخلافت رابعہ میں دارالقضاء
حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ تعالیٰ جب مسند خلافت پر متمکن ہوئے تو آپ نے 30اپریل 1966ء کو ارشاد فرمایا کہ اب بورڈ قضاء کے ہر فیصلے کی اپیل میرے پاس ہو سکے گی خواہ میعاد اپیل گزر چکی ہو جس کا فیصلہ میں خود کروں گا۔ خلافت ثالثہ کےدور میں یہی طریق جاری رہا۔
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ جب مسندِ خلافت پرمتمکن ہوئے تو آپ نے مورخہ 7جولائی 1982ء کو بورڈ قضاء کے طریق کار میں تبدیلی فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ:
’’خلیفۂ وقت کا یہ حق ہے کہ جس کیس میں چاہے بورڈ قضاء کے فیصلے کے خلاف اپیل سن سکے سوائے اس کے کہ وہ خود پارٹی ہو۔ لیکن عام دستور یہ ہو گا
اگر قضاء تین ممبروں پر مشتمل ہو تو ان کے فیصلہ کے خلاف اپیل بورڈ قضاء ہی سنےگا لیکن اس مرتبہ اپیل سننے والے منصفین کی تعداد پانچ ہو گی۔ جب تک کوئی خلیفہ اس طریق کو نہ بدلے یہی طریق جاری رہے گا۔‘‘
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ مسلسل قضاء کی اور قضائی فیصلہ جات کی نگرانی فرماتے رہے۔ خلافت احمدیہ کے قیام کا مقصد ہی شریعت کا احیاء اور اس کا نفاذ ہے اس لئے خلفاء کے لئے یہ بات ناقابل برداشت ہے کہ جماعت کی کسی بھی سطح پر کوئی ایسا فیصلہ ہو جس میں شریعت کا کوئی بھی پہلو دانستہ یا نادانستہ نظر انداز ہوگیا ہو۔ اس حوالہ سے حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا کہ:
’’میری یہ ہدایت سب قاضیوں تک پہنچا دی جائے۔ سلسلہ عالیہ احمدیہ کی قضاء کا عدل و انصاف غیر جانبداری اور وقار ہر تعلق سے اعلیٰ اورارفع ہونا چاہئے۔ تا کبھی کسی کو اس پر کو ئی حرف رکھنے کا موقع نہ مل سکے۔‘‘
(حضرت خلیفۃ المسیح الرابعؒ کے قضائی فیصلے و ارشادات۔ کیس نمبر 17 صفحہ نمبر 89۔شائع کردہ دارالقضاء ربوہ)
حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے و ارشادات کے عنوان سے ایک کتاب بھی دارالقضاء ربوہ سے شائع ہوچکی ہے۔
عہد خلافت خامسہ میں دارالقضاء
حضرت مرزا مسرور احمد صاحب خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ مورخہ 22اپریل 2003 ء کو منصب خلافت پر متمکن ہوئے۔ ہر خلافت کی طرح خلافت خامسہ میں بھی خدا تعالیٰ کی تائید و نصرت کے بے پناہ نظارے نظر آرہے ہیں۔ آپ کی قیادت میں جماعت احمدیہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے دن دوگنی رات چوگنی ترقیات کی منازل طے کرتی چلی جارہی ہے اور مخالفتوں کی تندوتیز آندھیوں کے باوجود احمدیت کا جھنڈا بلند سے بلند تر ہوتا جارہا ہے۔
آپ کے بارے میں جہاں اور بہت سی پیشگوئیاں ہیں وہاں حضرت مسیح موعود علیہ السلام کا ایک رؤیا بھی ہے جس میں آپ فرماتے ہیں :
شریف احمد کو خواب میں دیکھااُس نے پگڑی باندھی ہوئی ہے اور دو آدمی پاس کھڑے ہیں۔ ایک نے شریف احمد کی طرف اشارہ کرکے کہا کہ
’’وہ بادشاہ آیا‘‘
دوسرے نے کہا کہ ابھی تو اِس نے قاضی بننا ہے۔ فرمایا۔ قاضی حَکَم کو بھی کہتے ہیں۔ قاضی وہ ہے جو تائیدِ حق کرے اورباطل کو رَد کرے۔ (تذکرہ صفحہ نمبر 584)
حضرت مسیح موعود علیہ السلام نے فرمایا کہ قاضی حکم کو بھی کہتے ہیں۔ قرآن کریم میں حکم کا لفظ تنازعات کا فیصلہ کرنے کے حوالہ سے بھی متعدد جگہ استعمال ہوا ہے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کے بارے میں قرآن مجید میں آتا ہے :
یٰدَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ (ص27:)
’’اے داؤد! ہم نے تجھے زمین میں خلیفہ بنایا ہے پس تو لوگوں میں انصاف کے ساتھ حکم کر۔‘‘
حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی رؤیا کے الفاظ کہ ’’ابھی تو اس نے قاضی بننا ہے‘‘ اس کے بہت سے مفاہیم اور پہلو ہوسکتے ہیں۔ تاہم ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ کے بابرکت عہد میں قضاء اور قضائی معاملات کی طرف حضور پُرنور کی بہت زیادہ توجہ ہوگی۔ کیونکہ حکم اور قاضی کا ایک کام لوگوں کے مابین تنازعات کا فیصلہ کرنا بھی ہوتا ہے۔
چنانچہ آپ ایدہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ:
’’بہرحال جیسا کہ مَیں نے کہا تھا کہ اصل کام ظلم کو ختم کرنا ہے اور انصاف قائم کرنا ہے اور خلافت کے فرائض میں سے انصاف کرنا اور انصاف کو قائم کرنا ایک بہت بڑا فرض ہے۔‘‘
(خطباتِ مسرور جلد چہارم صفحہ 572خطبہ جمعہ فرمودہ10 نومبر 2006ء)
چنانچہ قضائی ریکارڈ اس پر گواہ ہے کہ احمدیوں کے باقاعدہ قضائی معاملات اور باہمی تنازعات کے فیصلوں اور انصاف مہیا کرنے کے لئے آپ کا کس قدر قیمتی وقت صرف ہورہا ہے اور فیصلوں کے ساتھ ساتھ دنیا بھر کے 18سے زائد ممالک میں قائم دارالقضاء کو آپ کی مستقل نگرانی اور راہنمائی کی سعادت بھی مل رہی ہے۔
دارالقضاء ربوہ کو چونکہ سب سے زیادہ خلفائے سلسلہ کی راہنمائی میسر بھی رہی اور اب بھی یہ سعادت حاصل ہے۔ اس لئےخلفائے سلسلہ کے فیصلوں کا ریکارڈ بھی یہیں موجود ہے۔ دارالقضاء ربوہ نے خلفاء سلسلہ کے فیصلوں کی اشاعت کے لئے جو طریق اختیار کیا اس کو مدنظر رکھتے ہوئے، ہمارے جائزہ کے مطابق حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے منصب خلافت پر متمکن ہونے کے بعد سے لے کر دسمبر 2018ء تک کے قضائی فیصلوں کی اشاعت تین جلدوں میں ممکن ہوسکے گی۔ انشاء اللہ۔ صرف آپ کے قضائی فیصلوں کی تعداد اور راہنمائی پر مبنی ارشادات اپنی ذات میں اس امر کی گواہی اور شہادت دے رہے ہیں کہ حضرت مسیح موعود علیہ السلام کی مذکورہ بالا رؤیا کایہ پہلو بھی آپ کے بارے میں پوری شان وشوکت کے ساتھ پورا ہورہاہے۔ اللّٰھُمَّ اَیَّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُس۔
باہمی تنازعات پر خلیفہ وقت کے صرف ہونے والے وقت کا ایک اجمالی جائزہ
احمدیوں کے باہمی معاملات اور تنازعات کے حل اور راہنمائی کے لئے خلفائے سلسلہ کا کس قدر وقت صرف ہوتا ہے اس کا معین اندازہ لگانا توانسانی بس کی بات ہی نہیں۔ کیونکہ الا ماشاء اللہ ہر احمدی اپنا چھوٹے سے چھوٹا اور بڑے سے بڑا معاملہ بغرض دعا و راہنمائی دربارِ خلافت میں پیش کرتا ہے۔ خلیفہ کی شفقت، دعا اور راہنمائی ہی اس کے لئے تسلی اور تشفی کا باعث ہوتی ہے۔ اس کے خوف کو امن میں بدلتی ہے، سکون دلاتی اور اطمینان عطا کرتی ہے۔ خاندانوں کے باہمی تنازعات ہوں، یا میاں بیوی کے جھگڑے، مالی لین دین ہو یا دیگر معاملات ان میں سے بیشتر ایک سے زائد دفعہ کسی نہ کسی رنگ میں خلفاء سلسلہ کے حضور پیش ہوتے ہیں۔ یہ سلسلہ ملاقاتوں، دعائیہ خطوط اور باقاعدہ اپیلوں غرض ہر صورت میں نظر آتا ہے۔
لیکن جہاں تک باقاعدہ قضائی معاملا ت میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے آمدہ راہنمائی کا سلسلہ ہے تو اس کا کسی حد تک جائزہ پیش کیا جاسکتا ہے۔ تاہم یہ امر واضح رہے کہ دارالقضاء مرکزیہ ربوہ میں دنیا کے دیگر ممالک میں قائم قضاء کے معاملات کا سارا ریکارڈ پیش نہیں ہوتا۔ صرف بیرون ممالک کی قضاء سے انہی معاملات کا ریکارڈ یہاں آتا ہے جن پر اپیل دارالقضاء ربوہ کو موصول ہوتی ہے۔ کیونکہ قادیان کے علاوہ تمام ممالک کی اپیلیں دارالقضاء مرکزیہ کے پانچ رکنی بورڈ مرافعہ عالیہ میں پیش ہوتی ہیں۔
دارالقضاء ربوہ میں 22مئی 2003ء سے لے کر اکتوبر 2018ء تک پیش ہونے والے احمدیوں کے تنازعات اور بیرون ممالک میں قائم قضاء سے آمدہ اپیلوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس وقت تک کل 9482 دعویٰ جات وغیرہ موصول ہوئے۔ جن میں سے بعض باقاعدہ سماعت سے قبل ہی باہمی صلح یا بتراضی فریقین معاملہ طے ہونے کی وجہ سے داخل دفتر ہوگئے۔ جب کہ تقریباً 6700 تنازعات کے باقاعدہ قضائی فیصلے ہوئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ان معا ملات پر آنے والی راہنمائی اور فیصلوں کا اگر جائزہ لیا جائے تو اس وقت تک ہمارے ریکارڈ کے مطابق صرف دارالقضاء ربوہ کو 1615کی تعداد میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے ارشادات اور فیصلے موصول ہوچکے ہیں۔ اس طرح تقریباً ہر چوتھے کیس پر قضائی معاملہ حضور کی خدمت میں پیش ہورہا ہے۔
اس سے اندازاہ لگایا جاسکتا ہے کہ ہمارے خلفائے سلسلہ کی کس قدر شفقت ہے کہ ان کا کس قدر وقت احمدیوں کے ایسے تنازعات کے حوالہ سے بھی صرف ہوتا ہے جو باقاعدہ قضائی طورپر فیصلہ پاتے ہیں یا قضاء میں پیش کئے جاتے ہیں۔ لین دین کے بعض تنازعات تو بہت معمولی مالیت کے بھی ہوتے ہیں۔ خلافت احمدیہ کےعلاوہ ممکن ہی نہیں کہ دنیا کی دیگر کسی بھی مذہبی جماعت یا ملک کے سربراہ کے حوالہ سے اس طرح کی نظیر پیش کی جاسکے۔
بانیٔ دارالقضاءاور خلفائے سلسلہ اس حوالہ سے بہت زیادہ توجہ دیتے رہے کہ لوگوں کے تنازعات کے فیصلے جلد ہوں۔ کیونکہ اگر بلا ضرورت انصاف کی فراہمی میں تاخیر ہو تو اس سے بہرحال معاشرتی مسائل جنم لیتے ہیں اور بعض اوقات تو تاخیر سے حقوق کا حصول افادیت ہی کھو بیٹھتا ہے۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی بھی اس طرف خصوصی توجہ ہے۔ اس حوالہ سے بعض امور ذیل میں پیش ہیں۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کے بہت سے ایسے ارشادات ہیں جن میں حضور نے جلد فیصلہ کرنے کی طرف توجہ دلائی۔ اپیل کے مراحل میں کمی فرمائی۔
عائلی مسائل کے جلد حل کی طرف حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بار بار توجہ دلا رہے ہیں۔
خلع میں تو بعض اوقات عورت اپنی مرضی سے علیحدگی لے رہی ہوتی ہے۔ جب کہ طلاق دینے کا اختیار مرد کے پاس ہے۔ طلاق کے بعد مرد اگر حقوق کی ادائیگی نہیں کرتا تو عورت کو قضاء سے رجوع کرنا پڑتا ہے۔ اس میں اپیل کے مراحل وہی قائم رہے یعنی پہلے قاضی اول کے بعد 2 اور پھر خلافت رابعہ میں قاضی اول کے بعد 3 ہوگئے۔ حقوق کی ادائیگی کے حوالہ سے یہ مُطلَّقہ عورتوں کے لئے کافی تاخیر کا باعث ہوتا۔ اس حوالہ سے رپورٹ حضور انور ایدہ اللہ کی خدمت میں پیش کی گئی جس پر حضور نے ناظم دارالقضاء ربوہ کو ارشاد فرمایا کہ:
’’خلع اور طلاق کے کیسز میں تاخیر سے بچنے کے لئے آپ نے جو تجویز دی ہے اس کی روشنی میں آئندہ سے کیسز مزید بہتری اور جلد فیصلے کے لئے قاضی اول کے بعد سیدھے 5رکنی مرافعہ عالیہ قضاء بورڈ میں جایا کریں۔‘‘
(مکتوب حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ بنام ناظم دارالقضاء ربوہ 26اکتوبر2007ء)
عورت کو اپنا مؤقف پیش کرنے کے لئے کسی رشتہ دار کو ساتھ بٹھانے کی اجازت
تنازعات میں عورت اپنا موقف پیش کرنے میں کمزور ہوتی ہے۔ قرآن کریم میں بھی آیا ہے کہ وَھُوَ فِی الْخِصَامِ غَیْرُ مُبِیْنٍ۔چنانچہ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے خواتین کی سماعت کےلئے یہ اصول مقرر فرمایا کہ :
’’ جب آپ اکیلی لڑکی کو بلاتے ہیں تو آئندہ اس کا اپنا کوئی مرد رشتہ دار یا کوئی عورت سپورٹ کے لیے ساتھ بٹھایا کریں۔وہ کارروائی میں دخل نہ دیں۔ بس خاموشی سے وہاں بیٹھے رہیں تا کہ اکیلی لڑکی کو سہارا میسر رہے۔ اور اگر کسی کا کوئی رشتہ دار مرد یا عورت موجود نہ ہو تو مجھ سے پوچھ کر کسی اَور عورت کو مقرر کیا جاسکتا ہے۔ ‘‘
(آفس آرڈر نمبر 62رجسٹر نمبر 1۔بحوالہ ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنام صدر صاحب قضاء بورڈ مرکزیہ ربوہ فرمودہ 25جنوری 2014ء)
تنفیذ کے طریق کار میں تبدیلی
قرآن کریم میں ہے کہ اِنَّ اللہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔ قِسْطٌ اس انصاف کو کہتے ہیں جس میں حقدار کو اس کا حق بھی مل جائے یعنی محض فیصلہ نہ ہو بلکہ فیصلہ کی تنفیذ بھی ہو۔ اس لحاظ سے تنفیذ کا مرحلہ بھی بہت اہم ہے۔ دارالقضاء میں یہ طریق رائج تھا کہ کسی معاملہ کے حتمی فیصلہ کے بعد سرکاری عدالتوں کی طرح کسی فریق کی طرف سے تنفیذ کی درخواست آنے پر معاملہ تنفیذ کے لئے امورعامہ بھجوایا جاتا۔ بسا اوقات لوگو ں کو اس حوالہ سے مکمل آگاہی نہیں ہوتی جس کی وجہ سے فیصلہ ہونے پر وہ مطمئن ہوکر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہمیں حق مل جائے گا جب کہ دفتر قضاء تنفیذ کی درخواست آنے کا منتظر رہتا تھا۔ اس لئے یہ دقت بھی حضور انور کی خدمت میں پیش کی گئی جس پر حضور انور نے ناظم دارالقضاء ربوہ کے نام اپنے مکتوب میں فرمایا:
’’آپ کا خط ملا جس میں تنفیذ کے طریق کار میں تبدیلی کے بارہ میں دو تجویزیں لکھی ہیں۔ جزاکم اللہ احسن الجزاء۔ آپ کی دونوں تجویزیں ٹھیک ہیں۔ آئندہ لین دین اور عائلی معاملات کے حتمی فیصلہ کے بعد مدت اپیل گزرنے پر قضاء خود ہی فیصلہ کو تنفیذ کے لئے امورعامہ بھجوادیا کرے۔‘‘
ویڈیو لنک کے ذریعہ گواہی کی اجازت
اس وقت احمدی پوری دنیا میں موجود ہیں۔ باہمی رشتہ داریاں ہوں یا کسی قسم کی شراکت داری کسی تنازعہ کا پیدا ہونا بہرحال بعید از قیاس امر نہ ہے۔ لیکن مختلف ممالک میں پھیلے ہونے کی وجہ سے تنازعات کا حل دنیاوی عدالتوں کے دائرہ کار سے تو باہر ہے ہی لیکن اس امر میں بھی شک نہیں کہ دنیاوی عدالتوں میں ہونے والے بے پناہ اخراجات کے بھی بہت سے احمدی متحمل نہیں ہوسکتے۔ ایسی صورت میں خلافت احمدیہ کا احسان ہے کہ جس کی بدولت ہمیں باہمی تنازعات کے حل کے لئے ایک فورَم مہیا ہے جس میں نہ کوئی کورٹ فیس ہے اور نہ ہی وکیل کرنے کی پابندی۔
لیکن فریقین اگر مختلف ممالک کے ہوں تو گواہیوں یا بیانات وغیرہ کے لئے دقت ہوتی تھی۔ یہ دقت جب حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے حضور پیش ہوئی توآپ نے ویڈیو لنک کے ذریعہ گواہی ریکارڈ کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی۔ جس کے بعد سے باقاعدہ قاضی صاحبان حسب ضرورت ویڈیولنک کے ذریعہ سے گواہیاں ریکارڈ کررہے ہیں۔
مرکزی دارالقضاء ربوہ کا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنا
تنازعات کے جلد حل اور لوگوں کو بروقت معلومات کی فراہمی کے لئے ضروری ہوتا ہے کہ دارالقضاء کا ریکارڈ عمدگی سے ترتیب دیا گیا ہو۔ قضائی ریکارڈ کا رجسٹرز وغیرہ پرتفصیلی اندراج تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے شروع ہوچکا تھا۔ اس کے بعد قضائی علوم میں یہ علم باقاعدہ الگ شاخ کی صورت اختیار کرگیا۔ قضائی معاملات پر جو سینکڑوں کُتب تحریر ہوئیں ان میں کیسز کے اندراج کے طریق کار اور اس علم کی تفصیلات کے حوالہ سے ’’کتاب السجلات‘‘ کے عنوان سےالگ باب باندھے گئے۔ اس عنوان پر الگ کتب بھی تحریر ہوئیں۔لیکن اب ضروری تھا کہ دنیا کی جدید ایجادات سے فائدہ اٹھایا جائے۔ چنانچہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے خلافت خامسہ میں 2006ء سے دارالقضاء میں آنے والے تنازعات کا تمام ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کردیا گیا ہے۔ جس کی وجہ سے کئی زاویوں سے کیسز کی تفصیل اور اگر ان میں تاخیر ہورہی ہو تو اس کاجائزہ لینے میں مدد ملتی ہے۔ ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ ہونے کے حوالہ سے رپورٹ پیش ہونے پر حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ناظم دارالقضاء ربوہ کے نام ازراہ شفقت ارشاد موصول ہوا :
’’الحمد للہ کہ دارالقضاء ربوہ نے جنوری 2006ء سے اپنا ریکارڈ کمپیوٹرائزڈ کرنے کی توفیق پائی ہے۔ اللہ تعالیٰ آپ کو اورجملہ کارکنان کو اپنے فرائض اور ذمہ داریاں احسن رنگ میں اداکرنے کی توفیق دے اور آپ سب کو مقبول خدمت دین کی توفیق عطاکرے۔ آمین‘‘
(بحوالہ ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنام ناظم صاحب دارالقضاء ربوہ فرمودہ 29مئی 2007ء )
خلافت خامسہ میں خلفائے سلسلہ کے فیصلہ جات کی اشاعت
خلافت کی برکات کا تواحاطہ ممکن ہی نہیں۔ ہمارا موضوع قضاء کے حوالہ سے ہے۔ قضاء پر سینکڑوں کتب لکھی گئی ہیں۔ لیکن جو راہنمائی ہمیں خلفاء کی طرف سے ملتی ہے ویسی راہنمائی خلافت راشدہ کے بعد سے خلافت احمدیہ کے قیام تک کسی کو نہیں مل سکی۔ اس احساس محرومی کا اظہار خلافت راشدہ کے بعد اس موضوع پر قلم اٹھانے والے بہت سے مصنفین نے کیا ہے کہ خلافت راشدہ تک ہمیں ان معاملات پر اتنی تفصیلی کُتب کی کبھی ضرورت ہی محسوس نہیں ہوئی کیونکہ خلافت موجود تھی جب مسئلہ بنا راہنمائی مل گئی۔ قاضی صاحبان کی راہنمائی کے لئے خلفائے سلسلہ کے فیصلوں کی اشاعت سے قبل قضاء میں قاضی صاحبان کی راہنمائی کے لئے چند فوٹو سٹیٹ کتابچہ وغیرہ موجود تھے۔ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے توجہ دلانے پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے قضاء کو قاضی صاحبان کی راہنمائی کےلئے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ، حضرت خلیفۃ المسیح الثالث رحمہ اللہ اور حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کے قضائی فیصلے وارشادات شائع کرنے کی توفیق عطاء ہوئی۔
قواعد کی تیاری و اشاعت
اس سے قبل دارالقضاء کے قواعد 1938ء میں حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ کے منظور شدہ ہی موجود تھے۔ لیکن زمانے کے بدلتے ہوئے تقاضوں کے مطابق ان میں مناسب ترمیم اور اضافہ کی ضرورت تھی۔ اس حوالہ سے حضرت مصلح موعود رضی اللہ عنہ نے بھی ایک کمیٹی قائم فرمائی۔ بعدازاں حضرت خلیفۃ المسیح الرابع رحمہ اللہ کی طرف سے بھی توجہ دلائی گئی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے اس حوالہ سے 9؍افراد پر مشتمل ایک کمیٹی قائم فرمائی۔ کمیٹی نے مجوزہ قواعد تیار کرکے حضور کی خدمت میں بغرض منظوری پیش کردئے۔
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے ناظم دارالقضاء ربوہ کے نام 5صفحات پر مشتمل اپنے مکتوب آمدہ 21جولائی 2015ء میں ازراہِ شفقت تفصیلی راہنمائی فرماتے ہوئے قواعدکی منظوری عطاء فرمائی اور چند ایک میں تبدیلی کا ارشاد بھی فرمایا :
’’اس خط کے ذریعہ میں نے جن قواعد میں تبدیلی کا کہا ہے ان میں تبدیلی کرکے مجھ سے منظوری لے لیں۔ باقی قواعد منظور ہیں۔ اللہ تعالیٰ قضاء کو ان قواعد پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے اور قواعد کمیٹی کے تمام اراکین کو اس کی بہترین جزا دے۔ آمین۔‘‘
حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ نے جن قواعد میں تبدیلی کا ارشاد فرمایا تھا، قواعد کمیٹی نے حسب ارشاد تبدیلی کرکے وہ قواعد دوبارہ بغرضِ منظوری حضور کی خدمت اقدس میں پیش کیے۔ بعد ملاحظہ حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہِ العزیز نے ان کی منظوری عطاء فرمائی۔ حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی حتمی منظوری کے بعد ان قواعد وضوابط پر عمل شروع کردیا گیا۔ اب قواعد کتابی صورت میں طبع ہوچکے ہیں۔
قضاء میں انتظار گاہ کی تعمیر
حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک استفسار موصول ہوا کہ:
’’آپ کا دفتر نیا بن رہا ہے کہ ابھی نہیں؟ مجھے شکایت ملی ہے کہ قضاء کے موجود ہ دفتر میں خواتین کے بیٹھنے کے لیے کوئی مناسب جگہ نہیں ہے۔ عموماً صحن کے تین اطراف میں وہ تین بینچوں پر بیٹھی انتظار کررہی ہوتی ہیں۔ جبکہ مرد بھی آجارہے ہوتے ہیں اور اگرکسی وقت بارش اور بونداباندی ہویا آندھی اور تیز ہوا چل رہی ہو تو ان کا صحن میں بینچوں پربیٹھنا اور بھی تکلیف دہ ہوتا ہے۔ کیا آپ کے ہاں کوئی انتظار گاہیں نہیں ہیں اور اگرنہیں تو عارضی طورپر اس کاکیا انتظام کیا جاسکتا ہے۔ اس کا بھی جائزہ لے کر بتائیں۔
(بحوالہ ارشاد حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ بنام ناظم صاحب دارالقضاء ربوہ فرمودہ 26مارچ 2015ء)
الحمدللہ کہ حضورِ انور کے ارشاد کی تعمیل میں جنوری 2016ء میں یہ انتظار گاہ مکمل ہو گئی اور فروری میں محترم صاحبزادہ مرزا خورشید احمد صاحب (مرحوم) ناظرِ اعلیٰ و امیر مقامی نے اس کا باقاعدہ افتتاح فرمایا۔ حضورِ انور ایدہ اللہ تعالیٰ بنصرہ العزیز کو اس انتظار گاہ کی تصاویر پیش کی گئیں جس پر حضورِ انور نے اظہارِ خوشنودی فرمایا۔
خلافت خامسہ سے قبل ربوہ کے علاوہ قادیان، برطانیہ، کینیڈا، امریکہ، جرمنی، بنگلہ دیش اور ڈنمارک میں باقاعدہ قضاء کا قیام عمل میں آچکا تھا۔ خلافت خامسہ میں اس وقت تک11نئے ممالک میں قضاء کا نظام قائم ہوچکا ہے۔ ان میں آسٹریلیا، ماریشس، انڈونیشیا، ہالینڈ، ملائیشیا، سویڈن، ناروے، بیلجئم، نیوزی لینڈ اور تنزانیہ شامل ہیں۔ اس طرح کل 18ممالک میں قضاء قائم ہوچکی ہے۔
اللّٰھُمَّ اَیَّدْ اِمَامَنَا بِرُوْحِ الْقُدُس
انٹرنیشنل ریفریشر کورس کا انعقاد
دارالقضاءکا قیام یکم جنوری 1919ء میں عمل میں آیا تھا۔ یکم جنوری 2019ء کو اسکے قیام کو 100سال پورے ہوئے۔ اس موقع پر اللہ تعالیٰ کے فضل سے لندن میں انٹرنیشنل ریفریشر کورس کا انعقاد عمل میں آیا۔ جس میں 15 ممالک سے 114 نمائندگان کو شمولیت کی توفیق ملی۔ یوکے سے 22 ۔کینیڈا سے11۔ ڈنمارک سے 3۔ ہالینڈ سے 4۔ ناروے سے 3۔ پاکستان سے 9۔سویڈن سے 2۔ جرمنی سے 29۔ بنگلہ دیش سے 1۔ امریکہ سے 21۔آسٹریلیا سے 2۔ انڈونیشیا سے 3۔ بیلجیمسے 2۔ بھارت سے 1، اور ماریشس سے 1 نمائندہ شامل ہوا۔
اس پروگرام کی سب سے اہم اور بابرکت بات یہ تھی کہ اس میں حضرت خلیفۃ المسیح الخامس ایدہ اللہ تعالیٰ نے بنفس نفیس شرکت فرمائی۔ جس میں قاضی صاحبان کو براہ راست کسب فیض کا موقع ملا۔ بعد ازاں مختلف ممالک کی قضاء کے نمائندگان کو حضور انور ایدہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ گروپ فوٹو کی سعادت بھی نصیب ہوئی۔
ہماری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ حضور کی صحت و عمر میں برکت عطا فرمائے اور اللہ تعالیٰ ہمیں خلیفہ وقت کی منشاء کے عین مطابق بہترین رنگ میں خدمت کی توفیق عطاء فرمائے اور قضاء کو عدل وانصاف کا بہترین ادارہ بنادے۔ آمین۔